🌴⑫🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑫⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معزول ہونا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
شام کی فتوحات اور 17 ہجری (6388 عیسوی) کے واقعات میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معزول ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا جو حکم دیا وہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی تھی۔ ابن الاثیر وغیرہ سب یہی لکھتے آئے ہیں۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ افسوس ہے کہ ابن الاثیر کو خود اختلاف بیانی کا بھی خیال نہیں۔ خود ہی 13 ہجری کے واقعات میں خالد کا معزول ہونا لکھا ہے اور خود ہی 17 ہجری کے واقعات میں ان کی معزولی کا الگ عنوان قائم کیا ہے اور دونوں جگہ بالکل ایک سے واقعات نقل کر دیئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے مدت سے ناراض تھے۔ تاہم آغاز خلافت میں ان سے کچھ تعرض کرنا نہیں چاہا۔ لیکن چونکہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ وہ کاغذات حساب دربار خلافت کو نہیں بھیجتے تھے۔ اس لئے ان کو تاکید لکھی کہ آئندہ سے اس کا خیال رکھیں۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں لکھا کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے ایسا ہی کرتا آیا ہوں۔ اور اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی یہ خود مختاری کیونکر پسند ہو سکتی تھی۔ اور وہ بیت المال کی رقم کو اس طرح بدریغ کیونکر کسی کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ چنانچہ خالد کو لکھا کہ تم اسی شرط پر سپہ سالار رہ سکتے ہو کہ فوج کے مصارف کا حساب ہمیشہ بھیجتے رہو۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شرط کو نامنظور کیا۔ اور اس بناء پر وہ سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیئے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے کتاب الاصابہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احوال میں تفصیل سے لکھا ہے۔
بایں ہمہ ان کو بالکل معزول نہیں کیا۔ بلکہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماتحت کر دیا۔ اس کے بعد 17 ہجری (638 عیسوی) میں واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شاعر کو دس ہزار روپے انعام میں دے دیئے۔ پرچہ نویسوں نے اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پرچہ لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ خالد نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا۔ اور بہت المال سے دیا تو خیانت کی۔ دونوں صورتوں میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔
خالد جس کیفیت سے معزول کئے گئے وہ سننے کے قابل ہے۔ قاصد نے جو معزولی کا خط لے کر آیا تھا۔ مجمع عام میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ” یہ انعام تم نے کہاں سے دیا۔ ” خالد اگر اپنی خطا کا اقرار کر لیتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم تھا کہ ان سے درگزر کی جائے۔ لیکن وہ خطا کے اقرار کرنے پر راضی نہ تھے۔ مجبوراً قاصد نے معزولی کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی۔ اور ان کی سرتابی کی سزا کے لئے انہی کے عمامہ سے ان کی گردن باندھی۔ یہ واقعہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ ایک ایسا سپہ سالار جس کی نظیر تمام اسلام میں کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اور جس کی تلوار نے عراق و شام کا فیصلہ کر دیا تھا، اس طرح ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اور مطلق دم نہیں مارتا۔ اس واقعہ سے ایک تو خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیک نفسی اور حق پرستی کی شہادت ملتی ہے اور دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سطوت و جلال کا اندازہ ہوتا ہے۔
خالد نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی۔ تقریر میں یہ بھی کہا کہ ” امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا۔ اور جب میں تمام شام کو زیر کر لیا تو مجھ کو معزول کر دیا۔ ” اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ! ان باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ” خالد نے کہا ” ہاں! لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہوتے ہوئے فتنہ کا کیا احتمال ہے (دیکھو کتاب الخراج ابو یوسف 178 تاریخ طبری 7)۔
خالد مدینہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : کہ عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خدا کی قسم تم میرے معاملہ میں ناانصافی کرتے ہو۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ” تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ ” خالد نے کہا کہ مال غنیمت سے۔ ” اور یہ کہہ کر کہا کہ ” ساتھ ہزار سے جس قدر زیادہ رقم نکلے وہ میں اپ کے حوالہ کرتا ہوں۔ ” چنانچہ بیس ہزار روپے زیادہ نکلے اور وہ بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ” خالد واللہ تم مجھ کو محبوب بھی ہو، اور میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر تمام عمالان ملکی کو لکھ بھیجا کہ میں نے خالد کو ناراضی سے یا خیانت کی بناء پر موقوف نہیں کیا۔ لیکن چونکہ میں دیکھتا تھا کہ لوگ اس کے مفتوں ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان کو معزول کرنا مناسب سمجھا تا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتا ہے۔ خدا کرتا ہے۔ ” (طبری 8)۔ ان واقعات سے ایک نکتہ بین شخص باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خالد کی معزولی کے کیا اسباب تھے۔ اور اس میں کیا مصلحتیں تھیں۔
عمواس کی وبا 18 ہجری (639 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس سال شام و مصر و عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز 17 ہجری کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔
اس سال شام و مصر و عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز 17 ہجری کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لیے خود روانہ ہوئے۔ سرغ (ایک مقام کا نام) پہنچ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے جو ان کے استقبال کو آئے تھے ، معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اولین اور انصار کو بلایا۔ اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں۔ لیکن پھر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کو نہایت غصہ آیا۔ اور طیش میں آ کر کہا افراد من قدر اللہ یعنی اے عمر! تقدیر الہٰی سے بھاگتے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا۔
افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ یعنی ہاں تقدیر الہٰی سے بھاگتا ہوں۔ مگر بھاگتا بھی تقدیر الہٰی کی طرف ہوں۔
غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کام ہے کچھ دنوں کے لیے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ کر بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی بچانے کے لیے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے۔ اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔ ابو عبیدہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا۔ جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔ جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہ بیمار پڑھے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا۔ اور نہایت پراثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی اور فوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں میں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے میں مصر پر نازل ہوئی تھیں۔ اس لیے یہاں سے بھاگنا چاہیے۔ معاذ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وہ بلا نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا۔ یا بنی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین۔ یعنی اے فرزند یہ خدا کی طرف سے حق ہے۔ دیکھ شبہ میں نہ پڑھا۔ بیٹے نے جواب دیا ستجلنی انشاء اللہ من الصٰبرین یعنی خدا نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے۔ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑ گئے۔ عمرو بن العاص کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی خدا کے قرب کا حجاب تھی بڑے اطمینان اور مسرت سے جان دی۔
مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذ اس کو خدا کی رحمت سمجھا کئے۔ اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی، لیکن عمرو بن العاص کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہ کو جو معاذ کے ہم خیال تھے ناپسند ائی، یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا کہ تو جھوٹ کہتا ہے۔ تاہم عمرو نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی اور وبا کا خطرہ جاتا رہا۔ لیکن یہ تدبیر اس وقت عمل میں آئی کہ 25 ہزار مسلمان جو آدھی دنیا فتح کرنے کے لیے کافی ہو سکتے تھے۔ موت کے مہمان ہو چکے تھے۔ ان میں ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یزید بن ابی سفیان، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیل بڑے درجہ کے لوگ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان تمام حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے۔ یزید بن ابی سفیان اور معاذ کے مرنے کی خبر آئی تو معاویہ کو دمشق کا اور شرجیل کو اردن کا حاکم مقرر کیا۔
اس قیامت خیز وبا کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعتہً رک گیا۔ فوج بجائے اس کے کہ مخالف پر حملہ کرتی خود اپنے حال میں گرفتار تھی۔ ہزاروں لڑکے یتیم ہو گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ جو لوگ مرے تھے ان کا مال و اسباب مارا مارا پھرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کا قصد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کی حکومت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ یربان کا غلام اور بہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں فرماتے کہ تمہارے آگے۔ اسی حیثیت سے ایلہ آئے اور یہاں دو روز قیام کیا۔ گزی کا کرتہ جو زیب بدن تھا، کجاوے کی رغر کھا کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔ مرمت کے لیے ایلہ کے پادری کے حوالے کیا۔ اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے۔ اور اس کے ساتھ ایک نیا کرتہ تیار کر کے پیش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا کرتہ پہن لیا۔ اور کہا کہ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ایلہ سے دمشق آئے اور شام کے اکثر اضلاع میں دو دو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظامات کئے۔ فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں۔ جو لوگ وبا میں ہلاک ہوئے تھے ان کے دور نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی۔ سرحدی مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جو آسامیاں خالی ہوئی تھیں، ان پر نئے عہدیدار مقرر کئے۔ ان باتوں کی دوسری تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔ چلتے وقت لوگوں کو جمع کیا۔ اور جو انتظامات کئے تھے ان کے متعلق تقریر کی۔
اس سال عرب میں سخت قحط پڑا۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت مستعدی سے انتظام نہ کیا ہوتا تو ہزاروں لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے۔ اسی سال مہاجرین اور انصار اور قبائل عرب کی تنخواہیں اور روزینے مقرر کئے۔ چنانچہ ان انتظامات کی تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔
قیساریہ کی فتح شوال (بلاذری) 19 ہجری (640 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
یہ شہر بہر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے۔ لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا۔ اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول 13 ہجری (635 عیسوی) میں عمرو بن العاص نے چڑھائی کی۔ اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابو عبیدہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17 ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن 18 ہجری (639 عیسوی) میں جب بیمار ہوئے تو امیر معاویہ (اپنے بھائی) کو اپنے قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے۔ اور یہیں وفات پائی۔ امیر معاویہ نے بڑے ساز و سامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے۔ لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ ایک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا، اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔
جزیرہ 16 ہجری (637 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(جزیرہ اس حصہ آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے۔ اس کی حدوداربعہ یہ ہیں مغرب آرمینیہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک، جنوب شام، مشرق عراق، شمال آرمینیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔ )
مدائن کی فتح سے دفعتہً تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں، سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان حالات کی اطلاع دی۔ وہاں سے عبد اللہ بن المعتم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اس لیے افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمۃ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبد اللہ بن المعتم پانچ ہزار کی جمیعت سے تکریت (تکریت جزیرہ کا سب سے آبائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے۔ دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے 6 منزل پر ہے ) کی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے۔ عبد اللہ نے خفیہ پیغام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا اثر یہ ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا۔ اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو ہم عین موقع پر عجمیوں سے ٹوٹ کر تم سے آ ملیں گے۔ یہ بندوبست ہو کر تاریخ معین پر دھاوا کیا۔ عجمی مقابلہ کو نکلے تو خود ان کے ساتھ عربوں نے عقب سے ان پر حملہ کیا۔ عجمی دونوں طرف سے گھر کر پامال ہو گئے۔
یہ معرکہ اگرچہ جزیرہ کی مہمات میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کا موقع اتفاقی طور سے عراق کے سلسلے میں آ گیا تھا اس لیے مؤرخین اسلام جزیرہ کی فتوھات کو اس واقعہ سے شروع نہیں کرتے۔ اور خود اس زمانے میں یہ معرکہ عراق کے سلسلے سے الگ نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ 17 ہجری میں جب عراق و شام کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو سعد کے نام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم پہنچا کہ جزیرہ پر فوجیں بھیجی جائیں۔ سعد نے عیاض بن غنم کو پانچ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مہم پر مامور کیا۔ وہ عراق سے چل کر جزیرہ کی طرف بڑھے اور شہر رہا کے قریب جو کسی زمانے میں رومن امپائر کا یادگار مقام تھا ڈیرے ڈالے۔ یہاں کے حاکم نے خفیف سے روک ٹوک کے بعد جزیہ پر صلح کر لی۔ رہا کے بعد چند روز میں تمام جزیرہ اس سرے سے اس سرے تک فتح ہو گیا۔ جن جن مقامات پر خفیف خفیف لڑائیاں پیش آئیں ان کے نام یہ ہیں : رقہ، حران، نصیبین، میادفارقین، س،ساط، سروج، قرقییا، زوزان، عین الوردۃ۔
خوزستان
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(خوزستان اس حصہ آبادی کا نام ہے جو عراق اور فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس میں 14 بڑے شہر ہیں جس میں سب سے بڑا شہر اہواز ہے جو نقشہ میں درج کر دیا گیا ہے۔ )
15 ہجری (6366 عیسوی) میں مغیرہ بن شعبہ بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے اور چونکہ خوزستان کی سرحد بصرہ سے ملی ہوئی ہے ، انہوں نے خیال کیا کہ اس کی فتح کے بغیر بصرہ میں کافی طور سے امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، چنانچہ 16 ہجری (637 عیسوی) کے شروع میں اہواز پر جس کو ایرانی ہرمز شہر کہتے تھے حملہ کیا۔ یہاں کے رئیس نے ایک مختصر سی رقم دے کر صلح کر لی۔ مغیرہ وہیں رک گئے۔ 17 ہجری (638 عیسوی) میں مغیرہ معزول ہوئے۔ ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری مقرر ہوئے۔ ان انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کر دی اور اعلانیہ بغاوت کا اظہار کیا۔ مجبوراً ابو موسیٰ اشعری نے لشکر کشی کی اور اہواز کو جا گھیرا۔ شاہی فوج جو یہاں رہتی تھی اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ لیکن آخر شکست کھائی اور شہر فتح ہو گیا۔ غنیمت کے ساتھ ہزاروں آدمی لونڈی غلام بن کر آئے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ سب رہا کر دیئے جائیں۔ چنانچہ وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ ابو موسیٰ نے اہواز کے بعد مناذر کا رخ کیا، یہ خود ایک محفوظ مقام تھا۔ شہر والوں نے بھی ہمت اور استقلال سے حملے کو روکا۔ اس معرکہ میں مہاجر بن زیاد جو ایک معزز افسر تھے شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کا سر کاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔
ابو موسیٰ نے مہابر کے بھائی ربیع کو یہاں چھوڑا اور خود سوس کو روانہ ہوئے۔ ربیع نے مناذر کو فتح کر لیا۔ اور ابو موسیٰ نے سوس کا محاصرہ کر کے ہر طرف سے رسد بند کر دی۔ قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ مجبوراً رئیس شہر نے صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی زندہ چھوڑ دیئے جائیں۔ ابو موسیٰ نے منظور کی۔ رئیس ایک ایک آدمی کو نامزد کرتا تھا اور اس کو امن دے دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے شمار میں رئیس نے خود اپنا نام نہیں لیا تھا۔ چنانچہ جب سو کی تعداد پوری ہو گئی تو ابو موسیٰ اشعری نے رئیس کو جو شمار سے باہر تھا قتل کرا دیا۔ سوس کے بعد اہواز کا محاصرہ ہوا۔ اور آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ یزدگرد اس وقت قم میں مقیم تھا۔ اور خاندان شاہی کے تمام ارکان ساتھ تھے۔ ابو موسیٰ کی دست درازیوں کی خبریں اس کو برابر پہنچتی تھیں۔ ہرمزان نے جو شیرویہ کا ماموں اور بڑی قوت کا سردار تھا یزدگرد کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر اہواز و فارش میری حکومت میں دے دیئے جائیں تو عرب کے سیلاب کو آگے بڑھے سے روک دوں۔ یزدگرد نے اسی وقت فرمان حکومت عطا کر کے ایک جمعیت عظیم ساتھ دی۔ خوزستان کا صدر مقام شوستر تھا وہاں شاہی عمارات اور فوجی چھاؤنیاں تھیں۔ ہرمزان نے وہاں پہنچ کر قلعہ کی مرمت کرائی اور خندق اور برجوں سے مستحکم کیا۔ اس کے ساتھ ہر طرف نقیب اور ہرکارے دوڑا دیئے کہ لوگوں کو جوش دلا کر جنگ کے لیے آمادہ کریں۔ اس تدبیر سے قومی جوش جو افسردہ ہو گیا تھا، پھر تازہ ہو گیا اور چند روز میں ایک جمعیت عظیم فراہم ہو گئی۔ ابو موسیٰ نے دو بار خلافت کو نامہ لکھا اور مدد کی درخواست کی۔ وہاں سے عمار بن یاسر کے نام جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حکم آیا کی نعمان بن مقرن کو ہزار آدمی کے ساتھ مدد کو بھیجیں۔ لیکن غنیم نے جو ساز و سامان کیا تھا۔ ابو موسیٰ نے دوبارہ لکھا، جس کے جوات میں عمار کو حکم پہنچا کہ آدھی فوج کو عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ کوفہ میں چھوڑ دو اور باقی فوج لے کر خود ابو موسیٰ کے مدد کو جاؤ۔ ادھر جریر بجلی ایک بڑی فوج لے کر جلولاء پہنچا۔ ابو موسیٰ نے اس ساز و سامان سے شوستر کا رخ کیا۔ اور شہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ہرمزان کثرت فوج کے بل پر خود شہر سے نکل کر حملہ آور ہوا۔ ابوموسیٰ نے بڑی ترتیب سے صف آرائی کی۔ میمنہ براء بن مالک کو دیا (یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی) کے بھائی تھے۔ میسرا پر براء بن عازب انصاری کو مقرر کیا۔ سواروں کا رسالہ حضرت انس کی رکاب میں تھا۔ دونوں فوجیں خوب جی توڑ کر لڑیں، براء بن مالک مارتے دھاڑتے شہر پناہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے ، ادھر ہرمزان پردچو نہایت بہادری کے ساتھ فوج کو لڑا رہا تھا۔ عین پھاٹک پر دونوں کا سامنا ہوا اور مارے گئے۔ ساتھ ہی محراۃ بن ثور نے جو محنہ کو لڑا رہے تھے ، بڑھ کر وار کیا لیکن ہزمزان نے ان کا بھی کام تمام کر دیا۔ تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ عجمی ایک ہزار مقتول ہوئے اور چھ سو زندہ گرفتار ہوئے۔ ہرمزان نے قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری رکھی۔
ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ابو موسیٰ کے پاس آیا۔ اور کہا اگر میرے جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرا دوں گا۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا ساتھ لیا۔ اور نہر وجل سے جو دجلہ کی ایک شاخ ہے ، اور شوستر کے نیچے بہتی ہے ، پار اتر کر ایک تہہ خانے کی راہ میں داخل ہوا۔ اور اشرس کے منہ پر چادر ڈال کر کہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا خاص ہرمزان کے محل میں آیا۔ ہرمزان رئیسوں اور درباریوں کے ساتھ جلسہ جمائے بیٹھا ہوا تھا۔
شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی۔ اور موقع کے نشیب و فراز دکھائے۔ ابو موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوں، آگے تمہاری ہمت اور تقدیر ہے۔ اشرس نے اس کے بیان کی تصدیق کی۔ اور کہا کہ دو سو جانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہو جائے۔ ابو موسیٰ نے فوج کی طرف دیکھا۔ دو سو بہادروں نے بڑھ کر کہا کہ خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے۔ اشرس اسی تہہ خانے کی راہ شہر پناہ کے دروازے پر پہنچے اور پہرداروں کو نہہ تیغ کر کے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیئے۔ ادھر ابو موسیٰ فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی تمام لشکر ٹوٹ پڑا اور شہر میں ہلچل پڑ گئی۔ ہرمزان نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ مسلمان قلعے کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا کہ میرے ترکش میں اب بھی سو تیر ہیں۔ اور جب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ بچھ جائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا۔ تاہم میں اس شرط پر اترتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو۔ اور جو کچھ فیصلہ ہو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے ہو۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اور حضرت انس کو مامور کیا کہ مدینہ تک اس کے ساتھ جائیں۔ ہزمزان بڑی شان و شوکت سے روانہ ہوا۔ بڑے بڑے رئیس اور خاندان کے تمام آدمی رکاب میں لئے مدینہ کے قریب پہنچ کر شاہانہ ٹھاٹھ سے آراستہ ہوا۔ تاج مرصع جو آذین کے لقب سے مشہور تھا، سر پر رکھا، دیبا کی قبا زیب تن کی۔ شاہان عجم کے طریقے کے موافق زیور پہنے۔ کمر سے مرصع تلوار لگائی۔ غرض شان و شوکت کی تصویر بن کر مدینے میں داخل ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ امیر المومنین کہاں ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ جس شخص کے دبدبہ نے تمام دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اس کا دربار بھی بڑے ساز و سامان کا ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اور فرش خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔
ہرمزان مسجد میں داخل ہوا تو سینکڑوں تماشائی ساتھ تھے۔ جو اس کے زرق برق لباس کو بار بار دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ لوگوں کی آہٹ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھلی تو عجمی شان و شوکت کا مرقع سامنے تھا۔ اوپر سے نیچے تک دیکھا اور حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ” یہ دنیائے دوں کی دلفریبیاں ہیں” اس کے بعد ہرمزان کی طرف مخاطب ہوئے۔ اس وقت تک مترجم نہیں آیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ کچھ کچھ فارسی سے آشنا تھے ، اس لئے انہوں نے ترجمانی کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے وطن پوچھا۔ مغیرہ وطن کی فارسی نہیں جانتے تھے اس لیے کہا کہ ” ازکدام ارضی”؟ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ قادسیہ کے بعد ہرمزان نے کئی دفعہ سعد سے صلح کی تھی۔ اور ہمیشہ اقرار سے پھر جاتا تھا۔ شوستر کے معرکے میں دو بڑے مسلمان افسر اس کے ہاتھ سے مارے گئے۔ (ان واقعات کو طبری نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ ) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے قتل کا پورا ارادہ کر لیا تھا۔ تا ہم اتمام حجت کے طور پر عرض معروض کی اجازت دی۔ اس نے کہا عمر! جب تک خدا ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام تھے۔ اب خدا تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ہیں۔ یہ کہہ کر پینے کا پانی مانگا۔ پانی آیا تو پیالہ ہاتھ میں لے کر درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منظور کر لیا۔ اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا۔ اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس لئے شرط کے موافق تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مغالطہ پر حیران رہ گئے۔ ہرمزان کے کلمہ توحید پڑھا اور کہا کہ میں پہلے ہی اسلام لا چکا تھا لیکن یہ تدبیر اس لیے کی کہ لوگ نہ کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا ہے۔ (عقد الفرید الابن عبد الرباب المیکدہ فی الحرب)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت خوش ہوئے۔ اور خاص مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ دو ہزار سالانہ روزینہ مقرر کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارس وغیرہ کی مہمات میں اکثر اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
شوستر کے بعد جندی سابور پر حملہ ہوا۔ جو شوستر سے 244 میل ہے۔ کئی دن تک محاصرہ رہا۔ ایک دن شہر والوں نے خود دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا۔ اور اس کا سبب دریافت کیا۔ شہر والوں نے کہا ” تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا” سب کو حیرت تھی کہ امن کس نے دیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ نے کہا کہ ” ایک غلام کی خود مختاری حجت نہیں ہو سکتی۔ ” شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد اور غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا گیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ “مسلمان غلام بھی مسلمان ہے۔ اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے۔ ” اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھا دیا۔ اور فتوحات کی فہرست میں ایک اور نئے ملک کا اضافہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*