عُمانی فوج کے پاکستانی سپاہی

 عُمانی فوج کے پاکستانی سپاہی: ’17 برس کا تھا اور گھر والوں کو بتائے بغیر بھرتی ہو گیا تھا‘۔-78 سال کی عمر میں اب خداداد کبھی عُمان، کبھی گوادر اور کبھی کراچی میں رہتے ہیں

گوادر کے خداداد کو علاقے کے زیادہ تر لوگ میجر صاحب کہہ کر بلاتے ہیں مگر خداداد پاکستانی فوج میں نہیں بلکہ عمان کی فوج میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔

شاہی بازار کے قریب خداداد کے مکان کے باہر لگی ان کے نام کی تختی پر ان کا عہدہ اور عُمان کا پتہ بھی لکھا ہے جہاں انھوں نے 26 سال فوج میں نوکری کی ہے۔

اب 78 سال کی عمر میں خداداد کبھی عُمان، کبھی گوادر اور کبھی کراچی میں رہتے ہیں۔

خداداد کا گھر ان کے عمان سے گہرے رشتے کی نشانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے پاس آج بھی پاکستان اور عُمان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کاپی موجود ہے جبکہ ان کے کمرے کی دیواروں پر عُمان میں گزرے وقت کی نشانیاں تصاویر اور ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے گئے خطوط کی شکل میں موجود ہیں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے خداداد کا کہنا تھا کہ وہ لڑکپن میں ہی عمان چلے گئے تھے۔

’یہ 1957 کی بات ہے۔ عُمانی فوج میں بھرتیوں کے بارے میں سننے کے بعد میں بھی وہاں چلا گیا۔ میں اس وقت 17 سال کا تھا اور اپنے گھر والوں کو بغیر بتائے چلا گیا تھا۔ میرے جانے کے دو ہفتے بعد میرے والدین اور بہن کو پتا چلا کہ میں عُمان میں بھرتی ہو گیا ہوُں۔

’وہ لوگ نہیں چاہتے تھے میں جاؤں لیکن میں نے کسی کی بھی نہیں مانی۔‘

خداداد نے بتایا کہ ’مجھے کہا گیا کہ وہاں جاتے ہی مشکل دیکھنی پڑے گی لیکن بعد میں آسانیاں بھی پیدا ہوں گی۔‘

عمان پہنچنے کے بعد خداداد نے کھانا پکانے سے لے کر، صفائی اور گاڑی چلانے سمیت ہر طرح کا کام کیا اور اس دوران زبان نہ جاننا ان کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنا۔

’شروع کے چھ مہینے خاصے مشکل گزرے کیونکہ میں بلوچی میں بات کرتا تھا اور وہ لوگ عربی میں جواب دیتے تھے۔‘

’کچھ عرصے بعد میری ترقی ہوئی اور مجھے 40 گاڑیوں کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میں خود بھی گاڑی چلاتا تھا اور سپاہیوں کو اسلحے اور راشن سمیت جنگی مقام تک پہنچانا بھی میرے ذمے تھا۔‘

-خداداد کا کہنا تھا کہ وہ 17 برس کی عمر میں عمان جا کر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے

خداداد نے بتایا کہ کئی بار ان کی گاڑیاں حملے کی زد میں بھی آئیں اور نقصان بھی اٹھانا پڑا اور بقول ان کے ’خدا نے کئی بار میری جان بچائی۔‘

یہ 1964 کی بات ہے جب عُمان کے اندر ظفار لبریشن فرنٹ نامی گوریلا گروہ کارروائیاں کر رہا تھا۔

خداداد کے بقول ’باغیوں کے اس گروہ میں زیادہ تر تعداد ان نوجوانوں کی تھی جن کو عُمانی فوج میں باقاعدہ عسکری تربیت ملی تھی۔ اس لیے ان سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر فوج کی ضرورت پڑی۔ جس کے نتیجے میں مقامی بلوچ نوجوانوں کو فوری طور پر ضرورت سے زیادہ تعداد میں بھرتی کیا گیا۔‘

عُمان اور پاکستان کے درمیان معاہدے کی کاپی دکھاتے ہوئے خداداد نے زیادہ تفصیل میں جائے بغیر کہا کہ ’اس معاہدے کے تحت آج بھی بھرتیاں ہونی چاہییں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔‘

تاہم خداداد کے مطابق اس دور میں بھی بلوچستان میں ایسے حلقے تھے جو ’دوسروں کی جنگ لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔‘

اس حوالے سے انھوں نے 1979 میں ہونے والا ایک واقعہ بھی سنایا جب بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے ایک کارکن عبدالحمید پر عُمانی فوج کے اہلکار خُلفا ناصر پر فائرنگ کرنے کا الزام لگا تھا اور انھیں بعد میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

-عمان جانے میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ وہاں کی فوج میں بھرتی ہونے کے چند سال بعد شہریت ملنے سے بھی جُڑی تھی

خُلفا ناصر اس وقت بلوچستان میں عُمانی فوج میں مقامی بلوچ جوانوں کی بھرتیوں کی غرض سے آئے تھے کیونکہ ان کے اپنے ملک میں صوبہ ظفار میں بغاوت جاری تھی۔

جب خداداد عمان گئے تھے تو اس دور میں وہاں جانے میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ عمان کی فوج میں بھرتی ہونے کے چند سال بعد شہریت ملنے سے بھی جُڑی تھی۔ اسی وجہ سے آج خداداد کے خاندان کے بہت سے لوگ عُمان کے شہری ہیں اور وہیں رہائش پذیر ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مصنف یار محمد بادینی نے حال ہی میں بلوچی زبان میں اپنی شائع ہونے والی کتاب ’عمانِ بلوچ‘ یعنی عمان کے بلوچ میں لکھا ہے کہ ’بلوچ عوام کا عُمان سے صدیوں پرانا تعلق ہے جس کی بنیاد آقا اور سپاہی سے زیادہ عزت، پیار اور رشتہ داریوں پر مبنی ہے۔ عمان کا بلوچ عوام پر اندھا اعتماد ان کی وفا داری اور سچائی کی بنیاد پر ہے۔‘

خداداد گوادر کے علاوہ کراچی کے پٹیل پاڑہ میں اپنے بھتیجے کے پاس بھی رہتے ہیں۔

کراچی کے اس علاقے کی زیادہ تر آبادی بھی عُمانی بلوچ لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان بلوچ خاندانوں کے بیشتر افراد یا تو عُمانی فوج میں ملازم رہے رہے ہیں یا ان کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اب بھی وہاں کام کی غرض سے سفر کرتے رہتے ہیں۔

خداداد کا کہنا ہے کہ ’آج بھی عُمانی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے آدمی تیار ہیں لیکن یہ دور مختلف ہے۔ اب فوج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی