🌴⑥🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑥⚔️


 🌴⑥🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑥⚔️

مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہیں خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم الفاروق میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیں۔ اور اس شخص کا حصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح عمری لکھنے کا شرف حاصل ہو۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بار گراں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا، انہوں نے کہا کہ ” میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کو جواب نہیں۔ ” جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ ” آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجیئے کہ خدا کو کیا جواب دیجیئے گا۔ ” حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔ ” یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور ” کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے۔ ” عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانے پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضیا للہ تعالیٰ عنہ کو نہایت مؤثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔
خلافت اور فتوحات
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔
عرب کا نہایت نہایت قدیم خاندان جو ” عربِ بایدہ ” کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جو یمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانہ میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے۔ اور سلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔
رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا۔ اور بیت المقدس کی بربادی نے ان کے نام کو شہرت دے دی ہے۔ جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور اس تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقامات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ اور چونکہ اس زمانے میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی، عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی۔ جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جزیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عدی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس دور میں اس قدر تمدن پیدا ہو گیا تھا کہ ہشام کلبی کا بیان (ہشام کلبی نے یہ تصریح کتاب ” النیجان” میں کی ہے ) ہے کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالات اور فارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کیے جو حیرہ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں اردشیر بن مالک نے طوائف الملوکی مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمرو بن عدی کو باج گزار بنا لیا۔ عمر بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا۔ لیکن درحقیقیت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔
شاہ پور بن اردشیر جو سلسلۂ ساسانیہ کو دوسرا فرمانروا تھا۔ اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں باجگزار ہو گئے۔ اور امراء العیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہو کر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا۔ اس لئے جب کبھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ شاہ پور ذی الاکتاف جب صغیر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبد القیس نے خود فارس پر حملہ کر دیا۔ اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لئے۔ شاہ پور بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا۔ اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبد القیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ روءسائے عرب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے عرب میں وہ ذو الاکتاف کے لقب سے مشہور ہے۔
سلاطین حیر ہ میں سے نعمان بن منذر نے جو کسریٰ پرویز کے زمانہ میں تھا۔ عیسوی مذہب قبول کر لیا۔ اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویز نے اس کو قید کر دیا۔ اور قید ہی میں اس نے وفات پائی۔ نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پاس امانت رکھوا دیئے جو قبیلہ بکر کا سردار تھا، پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں۔ اور جب اس نے انکار کیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لائے۔ بکر کے تمام قبیلے ذی وقار ایک مقام میں بڑے سر و سامان سے جمع ہوئے اور سخت معرکہ ہوا۔ فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ اور آپ نے فرمایا کہ :
ھذا اول یوم انتصفت العرب من العجم۔
یعنی ” یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا۔ “
عرب کے تمام شعراء نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے تو باوجود اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا، پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے۔ اس پر ہی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ ” محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کر کے دربار میں لائے۔ ” اتفاق سے اسی زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹھے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔
رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے چند قبیلے سلیح و غسان و جذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کر کے شام کے بادشاہ کہلانے لگے تھے لیکن یہ لقب خود ان کا خانہ ساز لقب تھا۔ ورنہ جیسا کہ مؤرخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے درحقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔
ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت ہو گئی، اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا۔ اور وحیہ کلبی (جو خط لے کر گئے تھے ) واپس آتے ہوئے ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے وحیہ پر حملہ کر دیا۔ اور تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ نے حارث بن عمیر کو خط دے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمرو بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کے لیے رسول اللہ نے سنہ 8 ہجری میں لشکر کشی کی اور غزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بڑے بڑے رتبہ کے صحابہ تھے ، شہید ہوئے۔ اور گو خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ در حقیقت شکست تھا۔
99 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اسی وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔
اسی حفظ ماتقدم کے لئے 111 ہجری میں رسول اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوئے کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے گا مدافع عن الدین ہو گا۔ یعنی دین کو اس نے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ اس واقعات سے ظاہر ہو گا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کام شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس کی تکمیل کی اس کے کیا اسباب تھے ؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔
فتوحات عراق
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کئے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے ، اس کو عراق عرب اور جو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عرا ق کی حدوداربعہ یہ ہیں شمال میں جزیرہ جنوب میں بحر فارس، مشرق میں خوزستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے اور دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔
ہمارے مؤرخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایران کی فتوحات لکھتے آ رہے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو اس سنہ کے تمام واقعات لکھنے ہیں۔ اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے۔ اس لئے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے )۔
فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے نوشیروان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اسی کا پوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی لیکن اس کے مرنے ساتھ دفعتہً ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹھے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر 7 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے ایک افسر نے اس کو قتل کر دیا۔ اور آپ بادشاہ بن بیٹھا۔ یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کو قتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا۔ وہ ایک برس ے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا۔ اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تخت و تاج کا مالک ہو گا۔ (شیرویہ کے بعد سلسلہ حکومت کی ترتیب اور ناموں کی تعین میں مؤرخین اس قدر مختلف ہیں کہ دو مؤرخ بھی باہم متفق نہیں۔ فردوسی کا بیان سب سے الگ ہے۔ میں نے بلحاظ قدیم العہد اور فارسی النسل ہونے ابو حنیفہ دینوری کے بیان کو ترجیح دی ہے )۔
پرویز کے بعد جو انقلابات حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی۔ پوران کے زمانے میں مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج و تخت نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کہ شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں۔ شیبانی اور سوید۔ نے تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طرف غارت گری شروع کی (الاخبار الطوال ابو حنیفہ دینوری)۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیف اللہ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے۔ لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بُت پرست تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت سے واپس آ کر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا (فتوح البلدان بلازری صفحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )۔ ان نو مسلموں کے ایک بڑے گروہ نے عراق کا رخ کیا۔ ادھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلد کو مدد کے لئے بھیجا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق مے تمام سرحدی مقام فتح کر لئے۔ اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے۔ اور چونکہ یہاں نعمان بن منذر نے حوزنق ایک مشہور محل بنایا تھا وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔
عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بیشمار آدمی آئے تھے۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ ا ور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کہا۔ لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے۔ اور وہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی دن تک وعظ کہا، لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیبانی نے اٹھ کر کہا کہ ” مسلمانوں! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے۔ وہ مرد میدان نہیں ہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے۔ اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں” حاضرین میں سے ابو عبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہور سردار تھے وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔ ابو عبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا۔ اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزار آدمی (بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دینوری نے 5 ہزار تعداد لکھی ہے )۔ انتخاب کئے اور ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔
ابو عبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ تھا۔ یعنی صحابی نہ تھے اس وجہ سے ان کی افسری پر کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ ” عمر! صحابہ میں سے کسی کو یہ منصب دو۔ فوج میں سینکڑوں صحابہ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابی ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ ” تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقلال کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس شرف کو تم نے خود کھو دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لڑنے سے جی چرائے وہ افسر مقرر کئے جائیں۔ ” تاہم چونکہ صحابہ کی دلجوئی ضروری تھی، ابو عبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کی ادب ملحوظ رکھنا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایران کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا دربار میں طلب کیا۔ اور سزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ سپید کا مالک ہے۔ یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا۔ اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اعیانِ سلطنت شامل تھے۔ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نا اتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کر لی جو ہرمز و پرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی۔
رستم نے سب سے پہلی تدبیر یہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑائیے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کی تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج گراں تیار کی۔ اور نرسی و جاہان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاہان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا۔ اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اور عراق کے بعض اضلاع قدیم اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے اور ادھر ابو عبیدہ اور مثنی حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاہان نمازق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی اثناء میں جوج کو سر و سامان سے آراستہ کر لیا۔ اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمازق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ جاہان کے میمنہ و میسرہ پر جوشن شاہ اور مردان شاہ دو مشہور افسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔ لیکن جاہان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا نہ تھا۔ جاہان نے اس سے کہا کہ اس بڑھاپے میں کس کام کا ہوں۔ مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد لوگوں نے جاہان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ابو عبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔
ابو عبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا۔ جہاں نرسی فوج لئے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقال ہوئیں۔ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا۔ اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی ہندویہ اور تیریہ میمنہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابو عبیدہ کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابو عبیدہ نے خود مقاطیہ میں مقام کیا۔ اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔
فرخ اور فرلوند جو باروعما اور زوادی کے رئیس تھے ، مطیع ہو گئے ، چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لئے ہے یا صرف میرے لئے ؟ فرخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو عبیدہ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے ہیمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کادیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا۔ اور فتح و ظفر كا دیباچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہلا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کو آؤ یا ہم آئیں۔ ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہیے۔ لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشے میں سرشار تھے کہا کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا، اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ ” عرب مرد میدان نہیں ہیں۔ ” اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا۔ اور ابو عبیدہ نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا۔ مثنی اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسران فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابو عبیدہ سے بڑھ کر تھا۔
جب ابو عبیدہ نے اصرار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقین ہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔
ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنتے لٹکتے تھے اور بڑے زور سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوں پر آہنی پاکھریں تھیں۔ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھے۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے۔ ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا۔ گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کو للکارا کہ جانبازو! ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور ہودوں کو سواروں سمیت الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔ لیکن ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مستک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دیئے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں۔
ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا۔ اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آدمیوں نے جو سب کے سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے ، باری باری سے علم ہاتھ میں لئے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنی نے علم لیا۔ لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔ اور فوج میں بھگدڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دیئے کہ کوئی شخص بھاگ کر جانے نہ پائے۔ لیکن لوگ اس طرح بدحواس ہو کر بھاگتے تھے کہ پل کی طرف راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنی نے دوبارہ پل بندھویا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوں کو اطمینان سے پار اتار دے۔ خود بچی کھچی فوج کے ساتھ دشمن کا اگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوں کو دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہم حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزار رہ گئی۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار نہایت شاذ و نادر وقوع میں آیا ہے اور اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ بھی گیا تو اس کا عجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے۔ اور شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس کرتے تھے۔ اور روتے تھے ، جو لوگ مدینہ پہنچ کر گھروں میں روپوش تھے ، اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس جا کر ان کو تسلی دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تم او متحیزا الی فئۃ میں داخل ہو۔ لیکن ان کو اس سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔
یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان 13 ہجری میں واقع ہوا۔ اس لڑائی میں نامور صحابیوں میں سے جو لوگ شہید ہوئے وہ سلیط، ابو زید انصاری، عتبہ و عبد اللہ، پسران قبطی بن قیس، یزید بن قیس الانصاری، ابو امیہ الفرازی وغیرہ تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی