🌴④🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌④⚔️


 🌴④🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌④⚔️

مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
سن 1 ہجری (623 عیسوی) تا وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
غزوات و دیگر حالات
سن 1 ہجری (6233 عیسوی) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات اور حالات در حقیقت سیرۃ نبوی کے اجزاء ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کئے گئے ، اشاعت اسلام کے لئے جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو، لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی سے بدل جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی اہم ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلۂ حالات سے وابستہ ہیں، اس لئے جب قلمبند کئے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نامی قرار پائے گا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس لئے ہم نے مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ یہ واقعات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے جائیں۔ اور جن واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے نمایاں ہو کر نظر نہ آئیں گے۔ کیونکہ جب تک کسی واقعہ کی پوری تصویر نہ دکھائی جائے اس کی اصل شان قائم نہیں رہتی تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مدینہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کا جلد استیصال نہ کر دیا جائے تو وہ زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا، صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر پا کر ان کو روکنے کے لئے تھوڑی تھوڑی سی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
غزوہ بدر سن 2 ہجری (624 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
2 ہجری (6244 عیسوی) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا، تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آ رہا تھا کہ راہ میں یہ (غلط) خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، قریش کے پاس قاصد بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امڈ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ خبر سن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مدینے سے نکلنا صرف قافلہ کے لوٹنے کی غرض سے تھا۔ لیکن یہ امر محض غلط ہے۔ قرآن مجید جس سے زیادہ کوئی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی، اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں۔
کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المومنین لکارھون یجادلونک فی الحق بعد ما تبین کانما یساقون الی الموت و ھم منطرون و اذیعد کم اللہ احدے الطائفتین انھا لکم و تودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم۔
” جیسا کہ تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر (مدینہ) سے سچائی پر نکالا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ ناخوش تھا وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھے۔ بعد اس کے سچی بات ظاہر ہو گئی گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اس کو دیکھ رہے ہیں اور جب کہ خدا دو گروہوں میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھا اور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کچھ زور نہیں ہے وہ ہاتھ آئے۔ “
(۱۱) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا۔ اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے۔
(۲۲) مدینے سے نکلنے کے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک غیر ذات الشوکۃ یعنی ابو سفیان کا کاروان تجارے اور دوسرا قریش کا گروہ مکہ سے حملہ کرنے کے لیے سر و سامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔
اس کے علاوہ ابو سفیان کے قافلہ میں 400 آدمی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تین سو آدمی 40 آدمی کے مقابلہ کو کسی طرح موت کے منہ میں جانا نہیں خیال کر سکتے تھے۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قافلے کو لوٹنے کے لیے نکلتے تو خدا ہر گز قرآن مجید میں یہ نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔
بہر حال 8 رمضان 3 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم 3133 آدمیوں کے ساتھ جن میں 83 مہاجرین اور باقی انصار تھے ، مدینہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کے ساتھ 950 کی جمیعت تھی۔ جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے۔ مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے قریباً 6 منزل پر ہے ، معرکہ ہوا۔ اور کفار کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں میں سے 14 آدمی شہید ہوئے جن میں 6 مہاجر اور 8 انصار تھے۔ قریش کی طرف سے 70 مقتول اور 80 گرفتار ہوئے۔ مقتولین میں ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ اور بڑے بڑے رؤسائے مکہ تھے ، اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر، جانبازی و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں :
(1) قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے۔ لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا۔ (طبری کبیر میں ہے : ولم یکن بقی من قریش بطن الانفر منھم نا سالاناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد )۔ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رعب و ذات کا اثر تھا۔
(2)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور حلفاء کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : زید، عبد اللہ بن سراقہ، عمرو بن سراقہ، واقد بن عبد اللہ، خولی بن ابی خولی، عامر بن ربیعہ، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
(33)سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مھجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا۔ (ابن ہشام )۔
(44) عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ماموں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (ابن حریر و استیعاب)۔
یہ بات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔
اس معرکہ میں مخالف کی فوج سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عقیل (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی) ابو العاص بن الربیع، ولید بن الولید، ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتار ہو کر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا۔ جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مبارکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ ” اعطیتم بایدیکم ھلا متم کراما” تم مطیع ہو کر آئے ہو۔ شریفوں کی طرح لڑ کر مر کیوں نہیں گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
قیدیوں کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں، اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ اور قرابت کو دخل نہیں۔ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور اسطرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔ علی عقیل کی گردن ماریں، حمزہ عباس کا سر اڑائیں، اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں (طبری 5)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتیٰ یثخن فی الارض الخ
“کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کر لے۔ “
بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ ” مسلمانوں کے برخلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آئے تو مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ ” لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بدر سے فتح یاب آئے تو ان کو ڈر پیدا ہوا کہ مسلمان زور پکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں۔ چنانچہ خود چھیڑ شروع کی۔ اور کہا کہ ” قریش والے فن حرب سے ناآشنا تھے۔ ہم سے کام پڑتا تو ہم دکھا دیتے کہ لڑنا اس کو کہتے ہیں” نوبت یہاں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شوال 2 ہجری میں ان پر چڑھائی کی۔ اور بالآخر وہ گرفتار ہو کر مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے۔ اسلام کی تاریخوں میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتداء اسی سے ہوئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
غزوہ سویق
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بیتاب تھے۔ ابو سفیان نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ 2 ہجری میں دو سو شتر سواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دو مسلمانوں کو پکڑا۔ اور ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کیا۔ لیکن ابو سفیان نکل گیا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال 3 ہجری (635 عیسوی) میں جنگ احد کا مشہور واقعہ ہوا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
غزوہ احد 3 ہجری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور دیگر بہت سے سرداران قریش نے ابو سفیان سے جا کر کہا کہ تم مصارف کا ذمہ اٹھاؤ تو اب بھی بدر کا انتقام لیا جا سکتا ہے۔ ابو سفیان نے قبول کیا۔ اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کنانہ اور تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ہو گئے۔ ابو سفیان ان کا سپہ سالار بن کر بڑے سر و سامان کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر مقام کیا۔ آنحضرت کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے۔ لیکن صحابہ نے نہ مانا اور آخر مجبور ہو کر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے ، قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں 200 سوار اور 700 زرہ پوش تھے۔ میمنہ کے افسر خالد بن الولید اور میسرہ کے عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں لائے تھے ) ادھر کل 700 آدمی تھے جن میں سو زرہ پوش اور صرف دو سو سوار تھے۔ مدینہ سے قریباً تین میل پر احد ایک پہاڑ ہے ، اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن جبیر کو 50 تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر متعین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، سب سے پہلے زبیر نے اپنی رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا۔ اور قریش کے میمنہ کو شکست دی، پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو دجانہ دشمن کی فوج میں گھس گئے۔ اور ان کی صفیں الٹ دیں۔ لیکن فتح کے بعد لوگ غنیمت پر ٹوٹ پڑے ، تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہو چکا ہے۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ تیر اندازوں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتاً عقب سے بڑے زور و شور کے ساتھ حملہ کیا۔ مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے ، کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے۔ اس برہمی میں یہ غُل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مارے گئے۔ اسی خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں (یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 میں ہے )۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچتے گئے۔
تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوں نے مدینہ آ کر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور و مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے۔ علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ، محمد بن اسحاق، قاسم بن عبد الرحمٰن بن رافع ہیں، روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند مہاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں، تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو، ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت حاصل کی (طبری 4)۔ قاضی ابو یوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا گزری۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوئے تو ہوئے خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی (کتاب الخراج )۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔
طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں میں طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہیں رہا تھا۔ بہرحال یہ امر تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت میں پہنچے۔ طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔
فلما عرف المسلمون رسول اللہ نھضوا بہ و نھض نحو الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر بن ابی قحافہ و عمر بن الخطاب و طلحہ بن عبید اللہ و الزبیر بن العوم و الحارث بن صمۃ۔
” پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ “
علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے :
و کان ممن انکشف یوم احد فغفرلہ
“یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا۔ “
علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبد اللہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبد اللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درایۃً غلط ہے ، کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا۔ جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے ، علامہ موصوف نے جس رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبد اللہ الباکسائے اور فیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔
اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔
خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بڑھے ، رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ خدایا۔ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام -5 و طبری 1)۔ ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابو سفیان نے پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو بولا کہ “ضرور یہ لوگ مارے گئے “۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رہا نہ گیا، پکار کر کہا ” او دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں” ابو سفیان نے کہا اعل ھبل ” اے ہبل (ایک بت کا نام تھا) بلند ہو” رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جواب دو اللہ اعلیٰ و اجل یعنی خدا بلند و برتر ہے۔ (سیرت ہشام و طبری 5)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عقد میں آئیں۔ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح جاہلیت میں خنیس بن خذافہ کے ساتھ ہوا۔ خنیس کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواہش کی کہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے نکاح میں لائیں۔ انہوں نے کچھ جواب نہ دیا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی، وہ بھی چپ رہے۔ کیونکہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 3 ہجری شعبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ سے نکاح کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
واقعہ بنو نضیر 4 ہجری (626 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
4 ہجری (6266 عیسوی) میں بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا، اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آباد تھے ، آنحضرت نے ان سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا۔ ان میں سے بنو قینقاع نے بدر کے بعد نقض عہد کیا اور اس جرم میں مدینے سے نکال دیئے گئے۔ دوسرا قبیلہ بنو نضیر کا تھا۔ یہ لوگ بھی اسلام کے سخت دشمن تھے۔ ۴ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک معاملے میں استعانت کے لیے حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر ان کے پاس گئے ، ان لوگوں نے ایک شخص کو جس کا نام عمرو بن حجاش تھا آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر پتھر کی سل گرا دے۔ وہ چھت پر چڑھ چکا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ہو گئی، آپ اٹھ کر چلے آئے۔ اور کہلا بھیجا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ انہوں نے انکار کیا۔ اور مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر قابو پا کر جلا وطن کر دیا۔ چنانچہ ان میں کچھ شام کو چلے گئے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اور وہاں حکومت قائم کر لی۔ (طبری )
خیبر والوں میں سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیی بن اخطب بڑے بڑے معزز سردار تھے۔ یہ لوگ خیبر میں پہنچ کر مطمئن ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے انتقام لینا چاہا، مکہ معظمہ میں جا کر قریش کو ترغیب دی، قبائل عرب کا دورہ کیا اور تمام ممالک میں ایک آگ لگا دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
جنگ خندق یا احزاب 5 ہجری (627 عیسیوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
چند روز میں دس ہزار آدمی قریش کے علم کے نیچے جمع ہو گئے۔ اور شوال 5 ہجری میں ابو سفیان کی سپہ سالاری میں اس سیلاب نے مدینہ کا رخ اختیار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے باہر نکل کر سلع (مدینہ سے ملا ہوا ایک پہاڑ ہے ) کے آگے ایک خندق تیار کروائی، عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لئے کفار کو اس کی کچھ تدبیر بن نہ آئی۔ مجبوراً محاصرہ کر کے ہر طرف فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی۔ ایک مہینے تک محاصرہ رہا۔ کفار کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر ادھر کچھ فاصلہ پر اکابر صحابہ کو متعین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ متعین تھے۔ چنانچہ یہاں ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے۔ ایک دن کافروں نے حملہ کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زبیر کے ساتھ آگے بڑھ کر روکا۔ اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔ (یہ واقعہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں لکھا ہے۔ لیکن میں نے کسی کتاب میں اس کی سند نہیں پائی)۔ ایک دن کافروں کے مقابلے میں اس قدر ان کو مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی۔
اس لڑائی میں عمرو بن عبدوو عرب کا مشہور بہادر جو 5000 سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مارے جانے کے بعد ادھر تو قریش میں کچھ بیدلی پیدا ہوئی، ادھر نعیم بن مسعود نے جو اسلام لا چکے تھے اور کافروں کو ان کے اسلام کی خبر نہ تھی، جوڑ توڑ سے قریش اور یہود میں پھوٹ ڈلوا دی، مختصر یہ کہ کفر کا ابر سیاہ جو مدینہ کے افق پر چھا گیا تھا روز بروز چھٹتا گیا۔ اور چند روز کے بعد مطلع بالکل صاف ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
واقعہ حدیبیہ 6 ہجری (628 عیسوی)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
66 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا۔ اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے ) پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوا لئے۔ جبکہ مکہ معظمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آ کر خبر دی کہ “تمام قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کہ مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہا کہ اکابر صحابہ میں سے کسی کو سفارت کے طور بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوں نے عرض کی کہ قریش کو مجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیز و اقارب وہیں ہیں، اس لئے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی۔ اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی تھی، یہ واقعہ بیعت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں ” لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ” اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری (غزوہ حدیبیہ) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر نکلے تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی جا کر بیعت کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ وہ ہتھیار سجا رہے ہیں۔ عبد اللہ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیان کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت اٹھے اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔
قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے رد و بدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہو گی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسکین نہیں ہوئی۔ خود رسول اللہ کے پاس گئے اور اس طرح بات چیت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! بے شک ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا، چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کئے ، (طبری 6 )۔ تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گی۔
غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورۃ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیتیں پڑھیں ” انا فتحنا لک فتحاً مبیناً” (صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ)
محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپ میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے اسلام کے مسائل اور خیالات روزبروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 18 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ (فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 ذکر حدیبیہ)۔ جس بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح کی تھی اور لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم میں نہ آ سکی، وہ یہی مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۃ فتح میں اس صلح کو فتح سے تعبیر کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی