🌴③🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌③⚔️
مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروق اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہو گا۔
سن رشد
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔ جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا۔ آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔ (طبقات ابن سعد)۔
شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے ، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہً شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا، جاحظ نے کتاب البیان والبتیین میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے (طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر ص 117-122)، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔
پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا، یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے ، عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کر اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکۂ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا، اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف (انساب والاشرف یروشلم میں شائع ہو گئی ہے ) میں ب سند روایت نقل کی ہے کہ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔
شہسواری کی نسبت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ چنانچہ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرح شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مؤرخین نے باتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دے دیا تھا۔ اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔
اس کتاب کے دوسرے حصے میں ہم نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوں نے جاہلیت میں ہی عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو قریش کے تمام قبیلے میں 17 آدمی تھے ، جو لکھنا جانتے تھے ، ان میں ایک عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (فتوح البلدان بلاذری )۔
ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے ، عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کا سبب ہوا، وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خود داری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری، معاملہ دانی، یہ تمام اوصاف جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے ، سب انہی سفروں کی بدولت تھے ، ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مؤرخ نے ان پر توجہ نہیں کی۔ علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب ” مروج الذہب” میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ :
ولعمر بن الخطاب اخبار کثیرۃ فی اسفارہ فی الجاھیلۃ الی الشام والعراق مع کثیر من ملوک العرب والعجم و قدا تینا علی مبسوطھا فی کتابنا اخبار الزمان والکتب الاوسط۔
“عمر بن خطاب نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کئے ان سفروں میں جس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب الاوسط میں لکھا ہے۔ “
علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے مدت ہوئی ناپید ہو چکیں۔ میں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے۔ قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے۔ لیکن کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔
محدث بن عساکر نے ” تاریخ دمشق” میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزریں ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔
مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میں روشناس کرا دیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جوہر روز برزر کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ان کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ جب کوئی پرخطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بنا کر بھیجتے۔
قبول اسلام اور ہجرت
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبد اللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زد و کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بد دل نہ کر سکے۔ آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلے۔ کارکنان قضا نے کہا :
ع : آمد آں یارے کہ ماہم خواستیم
راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اللہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے ؟ بولے کہ ” محمد کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں۔ ” انہوں نے کہا کہ ” پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ ” فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں۔ اور قرآن کے اجزاء چھپا لئے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی۔ بہن نے کہا کہ کچھ نہیں۔ بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ ” عمر! جو بن آئے کرو۔ لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔ ” ان الفاظ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل پر خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیئے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ تھی۔
سبح للہ ما فی السموت والارض و ھو العزیز الحکیم۔
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے امنوا باللہ و رسولہ تو بے اختیار پکار اٹھے کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارقم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف گئے تھے۔ اور اس تازہ واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لیے صحابہ کو تردد ہوا۔ لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آنے دو۔ مخلصانہ آیا ہے۔ تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا ” کیوں عمر کس ارادہ سے آیا ہے ؟” نبوت کی پر رعب آواز نے ان کو کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا کہ ” ایمان لانے کے لئے ” آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے۔ اور ساتھ ہی تمام اصحاب نے مل کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (نساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد و اسد الغابہ ابن عساکر و کامل ابن الاثیر)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیدا کر دیا۔ اس وقت تک 40، 50 آدمی اسلام لا چکے تھے۔ عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ سید الشہداء نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم اپنے مذہبی فرائض علانیہ نہیں ادا کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں تو نماز پڑھنا بالکل ناممکن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کے ساتھ دفعۃً یہ حالت بدل گئی۔ انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی۔ لیکن وہ برابر ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا۔
فلما اسلم عمر قاتل فریشاً حتی صلی عند الکعبۃ و صلینا معہ۔
“جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے ، یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اور ان کے ساتھ ہم نے بھی پڑھی۔ “
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال میں واقع ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اہل قریش ایک مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دعویٰ کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلام کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک جماعت کثیر اسلام کے حلقے میں آ گئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہا۔ حضرت ابو طالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اور یہ زمانہ اس سختی سے گزارا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے۔
اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبد اللہ بن اشہل رضی اللہ تعالیٰ عنہم پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤذن اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ صحیح بخاری میں 20 کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے اور وہ یہ ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
زید بن خطاب، سعید بن زید بن خطاب، خنیس بن حذافہ سہمی، عمرو بن سراقہ، عبد اللہ بدن سراقہ، واقد بن عبد اللہ تمیمی، خولی بن ابی خولی، مالک بن ابی خولی، لیاس بن بکیر، عاقل بن بکیر، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے زید حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی، سعید بھتیجے ، خنیس داماد اور باقی دوست احباب تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیام گاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی، مہاجرین زیادہ تر قبا میں (جو مدینہ سے دو تین میل ہے ) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہیں رفاعہ بن عبد المنذر کے مکان پر ٹھہرے۔ قباء کو عوالی بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرد و گاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اکثر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ (662 عیسوی) 13 نبوی میں جناب رسالت صلی اللہ علی و سلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طلوع ہوا۔
مہاجرین اور انصار میں اخوت
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا۔ انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا انصاری مہاجر کو اپنی جائیداد، اسباب، نقدی تمام چیزوں میں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے ، یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلامی بھائی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا، ان کا نام عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا، جو قبیلہ بنو سالم کے سردار تھے (دیکھو سیرت ابن ہشام حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری () میں عتبان کی بجائے اوس بن خولی کا نام لکھا ہے لیکن تعجب ہے کہ خود موصوف نے اصایہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے اور اوس بن خولی کا جہاں حال لکھا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اخوت کا ذکر نہیں کیا)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لانے پر بھی اکثر صحابہ نے قباء ہی میں قیام رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہیں مقیم رہے۔ لیکن یہ معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام آنحضرت صلی اللہ علی و سلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا تھا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر روایت کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری نے متعدد ابواب مثلاً العلم، باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔
مدینہ پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کئے جائیں کیونکہ مکہ معظمہ میں جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا، یہی وجہ تھی کہ زکوٰۃ، روزہ، نماز جمعہ، نماز عیدین، صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نمازوں میں صرف دو دو رکعتیں تھیں۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے اعلان کا طریقہ بھی نہیں معین ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لئے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لئے صحابہ نے یہی رائے دی، ابن ہشام نے روایت کی ہے کہ یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا، اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ نکلے اور انہوں نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کرنے کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان)۔
اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا دیباچہ اور اسلام کا بڑا شعار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*