🌻 *مَاہِ رَجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کا حکم*
(تصحیح ونظر ثانی شدہ)
📿 *ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کا حکم:*
ماہِ رجب میں رائج بدعات ورسومات میں سے ایک غیر شرعی عمل یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ ماہِ رجب میں اور خصوصًا اس کی 22 اور 27 تاریخ کو حلوہ، چاول یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرتے ہیں، اس کو بہت بڑے اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں اور اس کے خود ساختہ فضائل بھی بیان کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب کچھ شریعت کے مزاج سے ناواقفیت کا نتیجہ ہےکہ ہم بدعات کو بھی نیکی سمجھنے لگتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نیک کام کررہے ہیں یا گناہ کما رہے ہیں!!
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تر چیزیں بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ہرگز ثابت نہیں، یہی بات اس کی ممانعت کے لیے کافی ہے۔
2️⃣ اگر ماہِ رجب کے ان ایام میں یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود صدقہ دینا ہے تو واضح رہے کہ صدقہ تو سال بھر میں کسی بھی دن دیا جاسکتا ہے، اور صدقہ میں کوئی بھی جائز چیز دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے مہینہ یا دن خاص کرنا یا صدقہ میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف اور بدعت ہے۔ یہ شریعت کا ایک اہم اصول ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
3⃣ اگر ماہِ رجب کے ان ایام میں یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود کسی شخصیت کے لیے ایصالِ ثواب ہے تو واضح رہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی دن یا مہینہ خاص ہے، اور نہ ہی کوئی کھانے پینے کی چیز تقسیم کرنا ضروری ہے، بلکہ ایصالِ ثواب تو کسی بھی نیک عمل کا کیا جاسکتا ہے، اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے بھی مہینہ یا دن خاص کرنا یا ایصال ثواب میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف ہے۔
📿 *کونڈوں کی رسم کا حکم:*
ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم سے متعلق تفصیل بیان ہوچکی کہ یہ ناجائز ہے، البتہ اسی نوعیت کی ایک اور رسم کونڈے کی رسم بھی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ماہِ رجب کی بائیس تاریخ کو کونڈوں کی رسم منائی جاتی ہے، اس دن پوریاں، حلوہ یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تیار کی جاتی ہیں اور محلے بھر میں تقسیم کی جاتی ہیں، اس کو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی ولادت کی خوشی قرار دی جاتی ہے، واضح رہے کہ یہ رسم ناجائز اور بدعت ہے، متعدد حضرات اہلِ علم کی تحقیق یہ ہے کہ 22 رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے، اس لیے شیعہ طبقے نے ۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔ ان کی وفات کی خوشی میں یہ رسم ایجاد کی ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ ذیل میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ فتاوٰی محمودیہ (3/281،282):
’’کونڈوں کی مروجہ رسم مذہب اہلِ سنت والجماعت میں محض بے اصل، خلافِ شرع اور بدعتِ ممنوعہ ہے کیوں کہ بائیسویں رجب نہ حضرت اِمام جعفر صادق رحمہ اللہ علیہ کی تاریخِ پیدائش ہے اور نہ تاریخِ وفات۔ حضر ت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت 8 رمضان 80ھ یا 83ھ میں ہوئی اور وفات شوال 148ھ میں ہوئی، پھر بائیسویں رجب کی تخصیص کیا ہے؟ اور اس تاریخ کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے کیا خاص مناسبت ہے؟ ہاں بائیسویں رجب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ ِوفات ہے ۔ (دیکھو: تاریخِ طبرانی؟؟ ذکرِ وفاتِ معاویہ)۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اِس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ درحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، جس وقت یہ رسم اِیجاد ہوئی اہلِ سنت والجماعت کا غلبہ تھا، اس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی بطور حصہ علانیہ نہ تقسیم کی جائے، تاکہ راز فاش نہ ہو، بلکہ دُشمنانِ حضرت معاویہ خاموشی کے ساتھ ایک دُوسرے کے یہاں جاکر اُسی جگہ یہ شیرینی کھالیں جہاں اُس کو رکھا گیا ہے اور اس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دُوسرے پر ظاہر کریں۔ جب کچھ اس کا چرچا ہوا تو اس کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت امام موصوف پر لگائی کہ اُنہوں نے خود خاص اس تاریخ میں اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے، حالاں کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، لہٰذا برادرانِ اہلِ سنت کو اس رسم سے بہت دُور رہنا چاہیے، نہ خود اس رسم کو بجالائیں اور نہ اس میں شرکت کریں۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (باب البدعات والرسوم)
2️⃣ دار الافتاء دارالعلوم دیوبند:
’’آپ کے علاقہ میں ۲۲/ رجب کو ختم رجب کے نام سے جو رسم رائج ہے، جس میں مختلف لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے اور اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھا جاتا ہے اور کھان پان وغیرہ ہوتا ہے، یہ رسم بدعت وناجائز ہے اور ایسی چیزوں کی منت ماننا درست نہیں اور اگر کسی نے لاعلمی میں ایسی کوئی منت مان لی تو معلوم ہونے پر توبہ کرے، اسے ہرگز پورا نہ کرے، ایسی منت پوری کرنا جائز نہیں ہوتا (بہشتی زیور، حصہ سوم، منت کا بیان، مسئلہ: ۲۰)۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (فتویٰ نمبر : 161145، تاریخ ِاجرا: 15 مئی 2018)
3⃣ دار الافتاء دار العلوم دیوبند:
’’۲۲/ رجب کو کونڈے کے نام سے جو کھانا تیار کیا جاتا ہے یہ شیعوں کی ایجاد کردہ رسم ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خوشی میں کرتے ہیں، شریعت سے ثابت نہیں، لہٰذا مسلمانوں کواس طرح کا کھانا بنانے اور اس میں شریک ہونے نیز کھانے سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘
(فتوی نمبر :170133، تاریخِ اجرا: 13 مئی 2019)
4⃣ دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور (فتوی نمبر: 29):
’’رجب کے کونڈے اور ان کے پس منظر میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب قصے سراسر گھڑے ہوئے واقعات ہیں، جن کا دین اور ثواب سے دور کا بھی تعلق نہیں، نہ امام جعفر صادقؒ اس تاریخ میں پیدا ہوئے اور نہ اس تاریخ میں ان کی وفات ہوئی اور نہ ہی مذکورہ تاریخ میں ان سے متعلق کوئی واقعہ پیش آیا، علاوہ ازیں دین کا یہ مزاج نہیں کہ کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی زندگی یا وفات وغیرہ کی تواریخ کو بعد میں منانے کے حوالے سے اجازت دی گئی ہو اور اس پر حصولِ اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو یا اس میں کھانے پینے سے متعلق اس طرح کی رسم کی ترغیب دی گئی ہو، اگر امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ کونڈوں کے متعلق کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ ثابت ہوتا تو جہاں امام موصوف کا بچپن گذرا، جوان ہوئے اور وفات پائی وہاں اس کا سب سے زیادہ چرچا ہونا چاہیے تھا، اس کے برعکس وہاں اس طریقہ کو کوئی جانتا بھی نہیں مگر ہزاروں میل دور بیٹھے بے علم لوگوں کو ان باتوں کا کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ اس رسم کو پہلے چھپ چھپ کر اور اب علانیہ کرنے لگتے ہیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق مذکورہ تاریخ میں صحابی رسول کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور دشمنانِ صحابہ ان کی وفات کی خوشی میں کونڈے پکاتے ہیں، مگر سادہ لوح عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی جانب ان کی نسبت کرتے ہیں اور پس پردہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف اپنے بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، اگر صورتحال ایسی ہی ہو تو کونڈے پکانا فقط ایک رسم ہی نہیں بلکہ قبیح ترین فعل ہوگا، جس سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے لازم ہے۔‘‘
📿 *ماہِ رجب کی بدعات پر مشتمل کھانے پینے کا شرعی حکم:*
ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے اور کونڈوں کی رسم سے متعلق تفصیل بیان ہوچکی کہ یہ ناجائز ہے، البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدعات اور رسومات پر مبنی ایسی چیزیں کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ ماہِ رجب میں بہت سے گھروں میں بدعات پر مشتمل کھانے پینے کی چیزیں آتی رہتی ہیں یا گلی کوچوں اور راستوں میں ان چیزوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اس لیے شرعی اعتبار سے ان چیزوں کے کھانے پینے کا تفصیلی حکم سمجھنا چاہیے:
1⃣ شریعت ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سنت وشریعت کی پیروی کرتے ہوئے بدعات سے خود بھی اجتناب کرے اور دوسروں کو بھی بدعات ترک کرنے کی ترغیب دے۔
2️⃣ اسی طرح ہر وہ کام جس سے بدعات کی ترویج، اشاعت اور حوصلہ افزائی ہوتی ہو اس سے بھی مکمل اجتناب کرے، کیوں کہ یہ بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے بدعات پر مشتمل مجالس یا کاموں کے لیے چندہ دینا، کسی بھی قسم کا تعاون کرنا، ان کی تعریف کرنا، ان کے لیے دعوت یا مہم چلانا، ان میں شرکت کرنا یا اس طرح کا کوئی بھی کام کرنا جس سے بدعات کو تقویت ملے؛ یہ سب شریعت کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ شریعت کا مزاج بدعات کی حوصلہ شکنی کا ہے۔
3⃣ اس لیے ماہِ رجب کی بدعات پر مشتمل مجالس اور کھانے پینے کے مقامات میں شریک ہونا ناجائز ہے کیوں کہ اس سے بدعات کی شان وشوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو قوت اور رواج میسر آتا ہے۔
4⃣ البتہ اگر کوئی شخص ان بدعات پر مشتمل یہ کھانا پینا کسی کے ہاں بھیج دے تو ایسی صورت میں مسئلہ واضح رہے کہ اگر حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو محض بدعت ہونے کی وجہ سے وہ کھانا پینا اپنی ذات میں حرام نہیں ہوجاتا، البتہ کوشش یہی کی جائے کہ اسے وصول ہی نہ کیا جائے اور ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے، یا اگر وصول ہی کرنا پڑے تب بھی ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں، وصول کرنے کی صورت میں اس کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہوئے کسی غریب کے ہاں بھیج دیا جائے تو بہتر ہے تاکہ بدعات کی نفرت دل میں برقرار رہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، اور جب لینے والے نہ رہیں گے تو دینے والے خود بخود یہ بدعات ترک کردیں گے، البتہ اگر خود ہی کھالیا جائے تو حرام نہیں بشرطیکہ حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو، البتہ اجتناب کرنے ہی میں احتیاط ہے، خصوصًا وہ شخص تو خصوصی اجتناب کرے جو کہ مقتدیٰ ہو اور لوگ ان کی پیروی کرتے ہوں تاکہ بدعات کا خاتمہ ہوسکے۔ البتہ اگر کسی نے حرام مال سے یہ کھانا پینا تیار کیا ہے یا غیر اللہ کی نذر ونیاز کی نیت سےکوئی جانور ذبح کرکے تیار کیا ہے تو اس کاحرام ہونا واضح ہے، اور جہاں ماحول اور افراد کی اعتقادی حالت کی وجہ سے پہچان نہ ہوتی ہو اور اس پہلو کا امکان ہو تو وہاں بھی وصول نہ کرنے ہی میں احتیاط ہے، خصوصًا کونڈوں کی رسم میں کھانے پینے کی چیزوں سے اجتناب کرنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے پسِ منظر میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی کا جذبہ کار فرما ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا دینی غیرت اور محبتِ صحابہ کا بھی تقاضا ہے۔
5️⃣ جو شخص صحیح العقیدہ مسلمان ہے اور اس کے ہاں سے عام ایام میں بھی کھانے پینے کی چیزیں گھر آتی رہتی ہیں اور وہ ماہِ رجب خصوصًا 22 اور 27 تاریخ میں بھی ایسی کوئی چیز بھیجے اور یہ کہے کہ میں نے کسی بھی غلط نظریے سے نہیں بھیجی ہے تو اس کا کھانا بالکل درست ہے البتہ بھیجنے والا کوشش یہ کرے کہ بدعات کے خاتمے کے لیے 22 یا 27 تاریخ کو یہ اہتمام نہ کرے تو اچھا ہے۔
(تفصیل ملاحظہ فرمائیں: ماہِ محرم الحرام کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم، فتاویٰ عثمانی ودیگر کتب)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی