🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐سترہویں قسط ⭐🌴


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐سترہویں قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خالد بن ولید عراق سے نکل آئے تو توقع کے مطابق عراقی بدووں اور ایرانی شہنشائیت نے جوشہر ایران (بازان) بن ارد شیر کی بادشاہی پر متفق ہو چکی تھی، اپنی اپنی شکستوں کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ہرمز جاذویہ۱۰ ہز ار فوج کی معیت میں ایک خوف ناک ہاتھی پر سوار ہوکر مثنیٰ بن حارثہ کے مقابلے کو آیا ۔ مثنیٰ نے گوارا نہ کیا کہ ہرمزجاذویہ ان سے مقابلہ کرنے حیرہ آئے ،وہ خود اپنی فوج لے کر مدائن سے ۵۰ میل ادھر بابل کے کھنڈروں میں پہنچ گئے ۔جاذویہ مسلمانوں کو ایران سے نکالنے کا ارادہ لے کرآیا تھا ۔ اس کا ہاتھی دیکھ کر مسلمان ہیبت زدہ ہو گئے تھے، اس لیے مثنیٰ نے سب سے پہلے اسی کو نشانہ بنایا۔ہاتھی مرنے کے بعد مسلم فوج نے نئے جوش سے ایرانی لشکر پر حملہ کیا ،انھیں شکست دی اور مدائن کے دروازوں تک بھگاتے ہوئے لے گئے۔ اس شکست کے صدمے سے شہنشاہ کو ایسا بخار چڑھا کہ اپنی جان دے دی۔ اس کے مرنے کے بعداس کی جا نشینی کے جھگڑے شروع ہوگئے۔مثنیٰ شاہی خاندان کی پھوٹ سے خوش تھے، انھوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر مدائن فتح کرنے کا اردہ کر لیا۔بہت سوچ بچار کے بعد انھوں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوخط لکھا، جس میں فتوحات کی خوش خبری دینے کے علاوہ ان سے ارتداد سے توبہ کرنے والے مسلمانوں کو اسلامی فوج میں شامل کرنے کی اجازت چاہی۔کافی عرصے تک خط کا جواب نہ آیاتو وہ خود مدینہ روانہ ہو گئے۔ابوبکر مرض الموت میں مبتلا تھے تاہم توجہ سے ان کی باتیں سنیں اور اپنے مقرر کردہ جانشین سیدنا عمر کو حکم دیا کہ کل کا دن ختم ہونے سے پہلے فوج مثنیٰ کے ساتھ روانہ کر دی جائے۔

جنگ یمامہ میں ۱۲۰۰ مسلمان شہید ہوئے ، ان میں سے ۳۹ صحابہ حفاظ قرآن تھے۔ ابھی ایران و روم کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ جاری تھا، حضرت عمر نے یہ سوچ کر کہ کہیں زیادہ تعداد میں حفاظ شہید ہونے سے قرآن کا متن غیرمحفوظ نہ ہو جائے، ابوبکر کو مشورہ دیا، قرآن کو اکٹھاکر لیا جائے۔ ان کا جواب تھا: ’’تم ایک کام کیسے کرسکتے ہو جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟‘‘ عمر نے اس موضوع پر ابو بکر سے کئی بار گفتگو کی تو وہ قائل ہو گئے اور عمر کی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری ایام میںآپ سے پورا قرآن سیکھنے والے صحابی زید بن ثابت کو بلا کر کہا: ’’تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی لکھ کر دیا کرتے تھے، اب ہر جگہ سے معلوم کر کے قرآن مجید جمع کرو۔‘‘ چنانچہ زیدنے کھجور کی چھالوں،چمڑے کے ٹکڑوں ،بکری کے شانے کی ہڈیوں اور سفید پتھر کے ٹکڑوں پر تحریر آیات اکٹھی کیں اور حفاظ سے رجوع کیا ۔ اس سعی کے بعد قرآن چمڑے پر یا اس زمانے کے کاغذ پر تحریر ہوکریکجا ہوا تو ابوبکر کے پاس رکھوا دیا گیا،ان کی وفات کے بعدیہ عمر کے پاس رہا پھر ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس آ گیا۔ (بخاری، رقم۴۹۸۶)
ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جمع قرآن کا کارنامہ خلافت فاروقی میں انجام پایا، لیکن اگر بخاری کی اس روایت کو ترجیح دی جائے تو ممکن ہے کہ جمع قرآن کا بیش تر کام خلیفۂ اول کے زمانے میں ہوا ہو اور دوسرے خلیفۂ راشد کے عہد میں اسے اس مصحف کی حتمی شکل دی گئی ہو جوان کی شہادت کے بعد سیدہ حفصہ کے پاس آگیا۔ آج قرآن مجید جس ترتیب سے تلاوت کیا جاتاہے یہ وہی ترتیب ہے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو تلقین فرمائی اور عہد صدیقی میں اس کی تدوین ہوئی۔ ابوبکر نے قرآن کی آیات اور سورتیں ترتیب دینے میں اپنی رائے سے کام نہ لیا جیسا کہ مستشرقین اور بعض مسلمان مورخین کاخیال ہے ۔ قرآن کی ترتیب تو توقیفی تھی، ابوبکر کے حکم سے محض اس کے متن کو اس طرح ضبط تحریر میں لایا گیا جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حفاظ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے۔ خلیفۂ ثالث عثمان نے ابوبکر کے مصحف ہی کو سامنے رکھ کر متن میں قرأتوں کے اختلاف کو طے کیا،یوں یہ مصحف مصحف عثمانی کہلایا۔ ابو بکر نے جمع قرآن کا جو کارنامہ انجام دیا وہ ان کے ہمیشہ یاد کیے جانے والے کارناموں، مرتدین کی سرکوبی اور عراق و شام کی فتوحات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ آج جبکہ مملکت اسلامیہ پارہ پارہ ہو چکی ہے ،قرآن مجید جوں کا توں محفوظ ہے اور اپنے حق ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔
ابو بکر پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ملت اسلامیہ کے لیے اہم ترین مقام رکھتے تھے ۔یہ بات اس وقت کے کفار خوب جانتے تھے اور آج کے مسلمان اور منکر سبھی اس بات سے واقف ہیں۔ غزوۂ احد میں ابو سفیان نے میدان جنگ خالی دیکھا تو پہاڑی پر چڑھ کر پکارا،کیا محمد موجود ہیں؟ جب اسے جواب نہ ملا تو تین بار ابو بکر کا نام لیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسری پوزیشن انھی کی ہے ۔ابو بکر کی زندگی اخلاق محمدی سے آراستہ تھی ۔قارہ کے سردار ابن دغنہ نے قریش کے روبروابوبکر کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا: ’’ابوبکر فقیر و محتاج کو کما کر دیتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم ۲۲۹۷) یہ قریباً وہی الفاظ ہیں جو سیدہ خدیجہ رضی ا ﷲ عنہانے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمائے تھے، جب پہلی وحی نازل ہونے کے بعدآپ پر لرزہ طاری تھا۔یہ تفصیل تفضیل ابو بکر کی ایک بڑی دلیل ہے۔
خلافت ملنے کے بعد ابو بکرکپڑے کی کچھ چادریں پکڑ کر بازار جانے لگے ،راستے میں عمر سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر نے کہا: انھیں بیچنے بازارجا رہا ہوں ۔عمر نے کہا: آپ کے کاندھوں پر مسلمانوں کی ذمہ داری کا بوجھ ہے، آپ یہ کارو بار کیسے کر سکتے ہیں؟ سوال آیا: بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں؟ باہم مشورے سے دونوں بیت المال کے انچارج ابو عبیدہ کے پاس پہنچے۔ انھوں نے امیر المومنین کے لیے ۶ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔یہ روایت بھی ہے کہ جب امور خلافت کے ساتھ کپڑے کا کاروبار سنبھالنا مشکل ہو گیاتو انھوں نے خود وظیفہ مقرر کر نے کی درخواست کی۔پورے زمانۂ خلافت میں سنح میں ابو بکر کا دیہاتی مکان جومحض ایک خیمے جتنا تھا اور بالوں سے بنا یا گیا تھا، جوں کا توں رہا۔وہ گھر جو مسجد نبوی اور ابو ایوب انصاری کے پڑوس میں تھا، اس میں بھی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ خلافت کے پہلے چھ ماہ سنح سے پیدل مدینہ آتے رہے پھر وہ وسط مدینہ میں واقع مکان میں منتقل ہو گئے۔
ابو بکر ایسا کام سرے سے نہ کرتے جو رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہ کیا ہواور وہ عمل ہر گز نہ چھوڑتے جو آپ نے کیا ہو۔ قرآن وسنت ان کی حکومت کی بنیادتھے،قرآن میں رہنمائی ملتی نہ فرمان رسول ہوتا توصحابہ کے مجمع میں آکر دریافت کرتے اور ان کے اجماع پر کاربند ہو جاتے۔ آں حضرت کے بعد ان سے بڑھ کر اجتہاد کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ اﷲ کے سامنے جواب دہی کے شدید احساس نے ان کو جادۂ مستقیم سے ہٹنے نہ دیا ، کوئی قدم اٹھانے سے پہلے خوب مشورہ کرتے،اﷲ سے رہنمائی کی دعا مانگتے اور جب عزم پختہ ہو جاتا تو انھیں کو ئی تردد نہ ہوتا ۔انھیں ایک مسئلہ درپیش آیا جس کے بارے میں انھوں نے کتاب اﷲ میں اصل پائی نہ سنت رسول میں رہنمائی تو فرمایا: میں اپنی رائے اور سوجھ بوجھ کو کام میں لاؤں گا۔ اگر درست فیصلہ ہوا تو اﷲ کی جانب سے ہو گااور اگر غلط ہوا تو میری طرف سے ہوگا۔ میں اﷲ سے مغفرت مانگتا ہوں۔ انھوں نے کئی اجتہادات کیے جن میں سے دادا،دادی کی میراث،کلالہ کی تفسیر اورشراب خور کی حد اہم ترین ہیں۔
ایک شخص نے ابو بکر کو ’یا خلیفۃ اﷲ‘کہہ کر پکارا تو انھوں نے اسے منع کیا اورفرمایا: میں خلیفۃ اﷲ نہیں، بلکہ خلیفۃ رسول اﷲ ہوں۔ یہ جملہ ابوبکر کے دور حکومت کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو رسول اﷲ کا خلیفہ اس معنی میں کہتے تھے کہ رسول اﷲ کی لائی ہوئی شریعت کے اوامر و نواہی کے نفاذ اور آپ کی امت کی قیادت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ چنانچہ انھوں نے اس فرض سے عہدہ بر ا ہوتے ہوئے ملت اسلامیہ کو وحدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ اﷲ اور رسول کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ یہ سلطنت اپنے شہریوں کی اجتماعی رائے کی پابند تھی۔ خلیفۃ اﷲ ہونے کا انکار کرنے کا مطلب تھا، قدیم ایران و مصر اور ہندوستان کی مشرکانہ تہذیبوں کے تصور حکمرانی کی نفی کر دی جائے جو بادشاہ کو خدائی نمائندہ سمجھتے تھے ۔بادشاہوں کی تقدیس اور ان کے حکم کو وحی و الہام سمجھنا ایسا تصور ہے جو یورپ میں سترھویں صدی عیسوی تک پایا گیا، لیکن ابو بکر نے صدر اسلام ہی میں اس کا خاتمہ کر دیا، کیونکہ دین توحید اس کی قطعاً گنجایش نہیں رکھتا ۔ عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب پسند کیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر نے بیت الما ل کی ذمہ داری ابو عبیدہ بن جراح کو سونپی جنھیں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے امین الامت کا لقب عطا فرمایا تھا۔منصب قضا پر عمر بن خطاب کو بٹھایا جن کا بے لاگ انصاف مشہور ہے، کاتب یا سیکریٹری جنرل نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتب خاص زید کو مقرر کیا۔ ان عہدے داروں کے باقا عدہ دفتر تھے نہ متعین اوقات کار۔ ضرورت پیش آنے پر اپنا کام انجام دیا اورپھر دوسری طرف متوجہ ہو گئے ۔ابوبکر کی پالیسی تھی، رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقرریوں کو بر قرار رکھا جائے، چنانچہ جب عمر نے مالک بن نویرہ کو قتل کر کے اس کی بیوہ سے میدان جنگ میں شادی رچانے پر خالد کو معزول کرنے کا پرزورمشورہ دیاتو انھوں نے ان کی جگہ کسی اور کو لانے سے انکار کر دیا۔ابو بکرکی مہر خلافت پر نعم القادراﷲ نقش تھا۔
مدینہ کے محصولات میں خمس بڑی مد تھی ،وہ اس مال کو حق داروں تک پہنچانے میں بہت جلدی کرتے۔ بیت المال پہلے ابو بکر کے سنح والے گھر میں تھا ،جب وہ مدینہ منتقل ہوئے تو یہ بھی مدینہ منتقل ہو گیا ۔ اس پر کوئی چوکیدار مقرر نہ تھا، کیونکہ وہ اس میں قابل ذکر مال موجود نہ رہنے دیتے تھے جس کی حفاظت کی ضرورت محسوس ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ اس پر ایک قفل ڈال دیا جاتا۔ ابو بکرکی وفات کے بعدخلیفۂ ثانی عمر، عبدالرحمان بن عوف اور عثمان بن عفان کے ساتھ ان کے چھوڑے ہوئے بیت المال میں داخل ہوئے تو اسے بالکل خالی پایا ۔فقط ایک کپڑے کی تھیلی ملی جس میں ایک درہم پڑا ہوا تھا ۔
اپنی خلافت کے پہلے سال ابوبکر حج کرنے نہ گئے، انھوں نے عمر رضی ا ﷲ عنہ کوامیر حج بنا کر بھیجا ۔رجب ۱۲ھ میں انھوں نے عمرہ کیا،مکہ میں اپنے والد ابو قحافہ سے ملاقات کی جو اسلام لانے کے بعد وہیں مقیم ہو گئے تھے۔ پھر اسی سال (۱۲ھ) میں ابو بکر امیر المومنین کی حیثیت سے حج کرنے آئے ،دار الخلافہ میں ان کی غیرموجودگی کے وقت عثمان بن عفان نائب رہے۔اجل نے انھیں اپنی خلافت کا تیسرا حج ادا کرنے کا موقع نہ دیا۔یہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے خواب کے مطابق تھا جو آپ نے ابو بکر کو سنایا۔ فرمایا: ’’ اے ابوبکر، میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں اور میں تم سے اڑھائی سیڑھیاں آگے نکل آیا ہوں۔‘‘انھوں نے جواب دیا،خیر ہو یا رسول اﷲ، اﷲ آپ کو سلامت رکھے یہاں تک کہ آپ وہ کچھ دیکھ لیں جو آپ کو خوش کرے اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے۔ آپ نے تین دفعہ خواب دہرایا اور ابو بکر نے تینوں بار یہی جواب دیا ۔چوتھی دفعہ ابو بکر نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، اﷲ آپ کو اپنی رحمت و مغفرت کی طرف اٹھا لے گا اور میں آپ کے بعد اڑھائی سال جیوں گا۔‘‘کچھ مورخین کاکہنا ہے کہ ابو بکر نے اپنی خلافت کے دوران میں حج نہیں کیا۔
ابو بکر کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ پہلی بیوی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے عبداﷲ (وفات ۱۱ھ) اور اسماء (وفات ۷۴ھ)، دوسری بیوی ام رومان بنت عامرسے عبدالرحمان (وفات ۵۳ھ) اور عائشہ (وفات ۵۸ھ)، چوتھی بیوی اسماء بنت عمیس سے محمد(قتل کی تاریخ: ۳۸ھ) اور پانچویں بیوی حبیبہ سے ام کلثوم نے جنم لیا۔ ان کی بیویوں کو ان سے کوئی شکایت نہ ہوئی، البتہ نان و نفقے کی کمی ضرور رہی۔ اولاد کی حسن تربیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ عائشہ کو جو کم عمری میں بیاہ کر باپ کے گھر سے رخصت ہوئیں، بے شمار اشعار، ضرب الامثال اور خطبے زبانی یاد تھے۔ عربوں کے واقعات اور ان کی تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی دوسری بیٹی اسماء ذات النطاقین گھرداری کی خوبیوں کا مرقع تھیں۔ باپ نے ان کی مشقت بھری زندگی دیکھی تو ایک خادمہ بھیج دی۔ اسماء کی عمر سو برس سے زیادہ تھی اور وہ نابینا ہوچکی تھیں جب حجاج نے ان کے بیٹے عبد اﷲ بن زبیر کومکہ میں محصور کر دیا۔ اس نے صلح کے بدلے گورنری اور ما ل و دولت دینے کی پیش کش کی ۔وہ بوڑھی ماں سے مشورہ کرنے آئے ، انھوں نے جگر تھام کر اپنے بیٹے کو جرات دلائی اور مصالحت سے منع کر دیا۔ ابو بکر کے بیٹے عبداﷲ اور عبدالرحمان شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور خود بھی شعر کہتے تھے۔ عبدالرحمان نے بدر و احد کی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف حصہ لیا اور بعد میں مسلمان ہوئے۔
ابوبکر زمانۂ جاہلیت میں بھی امانت دار تھے، لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کرتے اورانھیں وقت پرادا کرتے پھر خلافت کی امانت کبریٰ کو خوب ادا کیا۔ خود فرماتے ہیں: ’’ہم نے مسلمانوں کے کھانے میں سے چونی بھوسی استعمال کی اور ان کے موٹے جھوٹے کپڑوں سے تن ڈھانکا۔‘‘ مکہ میں وہ ۴۰ ہزار درہم کے مالک تھے، اسلام کی راہ میں انفاق کرتے کرتے یہ رقم گھٹ کر ۵ہزاردرہم رہ گئی جب انھوں نے مدینہ ہجرت کی۔ ہجرت کے فوراً بعدسہیل و سعد کی زمین پر مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو زمین کی قیمت ابو بکر نے اداکی۔ رفتہ رفتہ ان کا سب مال اﷲ کی راہ میں خرچ ہو گیا۔ ابوبکرپر کامل اعتماد ہونے کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے مال کو بے تکلف اپنے مال کی طرح خرچ فرماتے تھے۔
سیدنا ابو بکر نے خلافت کی ذمہ داریاں انتہائی تقویٰ و امانت کے ساتھ اداکیں۔وہ کسی بھی درجے میں خیانت نہ کرناچاہتے تھے، احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان کی اہلیہ نے حلوہ کھانے کی فرمایش کی تو مسلمانوں کے بیت المال پر بوجھ ڈالنا منظور نہ کیا، بلکہ روزانہ ملنے والے وظیفے میں سے کچھ رقم پس انداز کی تب حلوہ لیا۔زہد و ور ع کا حال یہ کہ ایک روز درخت پرچڑیا دیکھی تو کہا: او پرندے، تیری زندگی کیا خوب ہے۔درخت کے پھل کھاتا ہے اور اس کے سایے میں وقت گزارتا ہے ۔حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں۔ کاش، ابوبکر تجھ جیسا ہوتا۔ایک دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے چند سوالات دریافت فرمائے: ’’آج روزہ کس نے رکھا ؟جنازے میں شرکت کس نے کی؟ محتاج کو کھانا کس نے کھلایا؟ بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟‘‘ سب کے جواب میں ابو بکر ہی نے ہاں کہا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اوصاف جس میں جمع ہو جائیں، جنتی ہے۔‘‘ خلیفہ بننے کے بعدابوبکر عمرہ کرنے گئے تو لوگ احتراماً ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ انھیں ہٹا کر کہا: اپنی اپنی راہ چلو ۔ابو بکراپنا کام خود کرتے ،اونٹ پر سواری کرتے ہوئے نکیل ہاتھ سے گرپڑتی تو خود اتر کر نکیل اٹھاتے۔ لوگوں نے کہا: ہم سے کیوں نہیں کہتے ؟جواب دیا: میرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کا مجھ کو حکم ہے،انسان سے کچھ نہ مانگوں۔خلافت سنبھالنے سے پہلے وہ سنح سے مدینہ آ کر غریب عورتوں کی بکریاں دوہا کرتے، خلیفہ بنے تو ایک عورت نے کہا: آج ہمارے گھرمیں بکریاں دوہنے والا کوئی نہ رہا ۔ان کا جواب تھا: میں اب بھی تمھارے جانور دوہتا رہوں گا۔مدینہ کے کنارے پر ایک اندھی محتاج بڑھیا رہتی۔ سیدنا عمر اس ارادے سے جاتے کہ اس کی کچھ خدمت کریں۔ وہاں پہنچتے تو معلوم ہوتا ،کوئی آدمی خدمت کر کے جاچکا ہے۔ ایک روز وہ کھوج لگانے کے لیے چھپ کر کھڑے ہو گئے۔وقت مقررہ پر انھوں نے آنے والے شخص کودیکھا تو وہ ابوبکر تھے۔محلے میں نکلتے تو بچے بابا بابا کہہ کرابو بکر سے لپٹ جاتے ۔ایک سال سردیوں میں انھوں نے کمبل خریدکر مدینہ کے غربا میں بانٹے۔
ابو بکر اپنے گورنروں کی کارر وائیوں پر نگاہ رکھنے کے ساتھ رعایا کے حالات سے با خبر رہتے ۔مظلوم کی فوراً داد رسی کرتے۔ ان کی نصیحتوں میں ان کی طبعی خصوصیت صداقت کے ساتھ ان کی دانش جھلکتی ہے۔ ایک کمانڈر کو نصیحت کی کہ لوگوں کی پردہ دری نہ کرنا، بلکہ ان کے ظاہری حالات پر اکتفا کرنا۔جہاں فساد نظر آئے اس کی اصلاح کرنا۔ عکرمہ سے کہا کہ جب کچھ کرنے کا وعدہ کرو تو اسے کر گزرو۔کسی جرم کی سزا میں حد سے تجاوز نہ کرنا۔رعایا کو وعظ فرمایا: ’’سنو، اگر تم مجھ سے تقاضا کرو کہ میں اس طرح کام کر وں جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عمل فرماتے تھے تو میں نہ کر سکوں گا۔ آپ کو اﷲ نے وحی سے نوازکر معصوم بنایا تھا،میں تم سے بہتر انسان نہیں ہوں، لہٰذا مجھے کچھ چھوٹ اور رعایت دو۔اگر میں درست راہ پر چلوں تو میری پیروی کرواور اگر مجھے کج راہ ہوتے پاؤ تو سیدھا کر دو۔‘‘ عراق میں مجتمع فوجوں کو ابو بکر نے جو نصیحت کی اسے پڑھ کر ان کے پختہ ایمان کا پتا چلتا ہے۔تم اﷲ کے مددگار ہو،جو اﷲ کی مدد کرے، اﷲ اسے فتح دیتا ہے ۔ہزاروں کی جمعیت اگر معصیت کی راہ اختیار کر لے تو بے دست وپا ہو جاتی ہے، لہٰذا گناہوں سے خبردار رہو۔ ابوبکر خود مختصر گفتگو کرتے اور دوسروں کو بھی اختصار کلام کی ہدایت کرتے۔یزید بن ابو سفیان کو فرمایا: طویل کلامی بات ذہن سے محو کر دیتی ہے۔
ابو بکر کے چند جامع کلمات: موت سے محبت کرو، زندگی عطاکی جائے گی۔امانت سب سے بڑی سچائی ہے اور خیانت سب سے بڑا جھوٹ۔صبر نصف ایمان اور یقین پورا ایمان ہے۔تعزیت کے بعد مصیبت مصیبت نہیں رہتی۔ اگر کوئی نیکی رہ جائے تو اسے پانے کی کوشش کرواور جب پا لو تو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ جس سے مشورہ چاہواس سے کچھ نہ چھپاؤ ورنہ اپنی قبر خود کھودو گے۔
حدود اﷲ کے باب میں ان کی احتیاط اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ فرمایا: اگر میں خود کسی کو خدا کی کوئی حد توڑتے ہوئے دیکھوں تو اس وقت تک سزا نہیں دے سکتا جب تک دوسرا گواہ نہ ہو۔ایک قائد کو وصیت کی کہ ان کا ظاہر قبول کرلو اور باطن ان پر چھوڑ دو ۔ایاس بن عبد یالیل فجاہ کے نام سے مشہور ہے ،ابو بکر کے پاس آیا اور مرتدوں سے مقابلے کے لیے اسلحہ مانگا۔اسے اسلحہ مل گیاتو اس نے ڈاکا زنی اور غارت گری کا پیشہ اختیار کر لیا ، پھر جب وہ گرفتار ہو کر خلیفۂ اول کے پاس لایا گیا تو آپ نے اسے بقیع کے مقام پر بھڑکتے ہوئے الاؤ میں جھونکنے کا حکم دیا ۔یہ واحد واقعہ ایسا ہے جسے ابو بکر کے بردباری ،تحمل اور دور اندیشی پر مبنی دور حکومت کے غیر موافق کہا جا سکتا ہے۔ مستشرقین نے اس واقعہ کو خوب اچھالا ہے، حالانکہ اس فیصلے کی بنیاد قرآن مجید میں پائی جاتی ہے: ’انما جزاؤا الذین یحاربون اﷲ ورسولہ و یسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض‘ ’’جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ بری طرح قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا انھیں مملکت سے جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘ (المائدہ۵:۳۳) تقتیل میں جلانا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اسلامی مملکت کا اسلحہ لے کر اسے مملکت ہی میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرنے سے بڑا فساد کیا ہو سکتا تھا، لیکن ابو بکر نے اس ڈاکوکو دی جانے والی سزا کو اپنی فروگزاشت سمجھا۔ وہ اس واقعے پر افسوس کرتے رہے اور ایک بار کہا: کاش میں نے فجاہ سلمی کو جلانے کی بجائے قتل کر دیا یا زندہ چھوڑ دیاہوتا۔ عمرو بن عاص نے شام سے بنان کا سر کاٹ کر بھیجا تو ابو بکر نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ آیندہ محض فتح کی اطلاع ارسال کی جائے،ہر گز کسی کا سر میرے پاس نہ بھیجا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی