شاعر: مکیش عالم
آنکھ میں تیرا عکس ترے ہی ایک خیال سے ٹوٹ گیا
جھیل کا چاند تو مچھلی کی ہلکی سی چال سے ٹوٹ گیا
چاہنے والو پیار میں تھوڑی آزادی بھی لازم ہے
دیکھو میرا پھول زیادہ دیکھ بھال سے ٹوٹ گیا
مشکل دور میں اپنوں پر دعوے داری بھی کیا کرتے
پت جھڑ آئی تو ہر پتا اپنی ڈال سے ٹوٹ گیا
کچے سپنوں سے اچھا ہے پکی نیندیں سو لینا
ایسے خواب کو کیا رونا جو پلک کے بال سے ٹوٹ گیا
دل کے آگے عقل کی ساری چالیں پھیکی ہوتی ہیں
دیکھو راجا ادنیٰ سے پیادے کی چال سے ٹوٹ گیا
ٹوٹ گیا یوں آنکھ سے آنسو ہجر کے دھڑکے سے عالمؔ
جیسے گھنگرو طبلے کی پہلی ہی تال سے ٹوٹ گیا