🌻 بڑوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا حکم
📿 بزرگوں اور بڑوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا حکم:
1️⃣ والدین، بزرگوں، اساتذہ اور بڑوں کے تشریف لانے کے وقت ادب واحترام اور تعظیم کی خاطر ان کے لیے اٹھ کھڑے ہونا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ بعض اکابرِ امت نے اس کو مستحب بھی قرار دیا ہے، حتی کہ بعض احادیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹوں کی تربیت کے لیے بھی مفید ہے۔ اس لیے اس کو بہر صورت ناجائز کہنا درست نہیں۔
2️⃣ زیرِ نظر مسئلے سے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بعض حضرات اس کھڑے ہونے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اُس حدیث شریف سے استدلال کرتے ہیں جس میں حضور اقدس ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘ (سنن الترمذی) تو واضح رہے کہ اس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ یہ حدیث اُس شخص کے بارے میں ہے جو اپنے لیے اس بات کو پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوا کریں، ظاہر ہے کہ یہ تکبر اور عجب کی علامت ہے جو کہ اخلاقی مرض ہے۔ یا اس حدیث سے مراد وہ صورت ہے جس میں وہ شخص تو بیٹھا رہے اور لوگ اس کے سامنے اس کے لیے مسلسل کھڑے رہیں، یہ صورت بھی قابلِ مذمت ہے۔ اس لیے اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ بڑوں کے تشریف لانے پر ان کی تعظیم کی خاطر کھڑے ہونا ناجائز ہے۔ البتہ اس حدیث سے یہ بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ اُس شخص کو بھی چاہیے کہ وہ تکبر اور عجب کے طور پر اس کو اپنے لیے دوسروں کا کھڑا ہونا پسند نہ کرے اور نہ ہی اس کی وجہ سے کسی اخلاقی مرض کا شکار ہو، بلکہ وہ یہی سمجھے کہ چھوٹوں کا یوں کھڑا ہوجانا ان کی تربیت اور ادب کا حصہ ہے۔
📚 عبارات
☀ صحيح البخاري:
3043- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ هُوَ ابْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ هُوَ ابْنُ مُعَاذٍ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَكَانَ قَرِيبًا مِنْهُ فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ»، فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ، قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ، قَالَ: لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ. (بَاب إِذَا نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ)
☀ عمدة القاري شرح صحيح البخاري:
وفيه أمر السلطان والحاكم بإكرام السيد من المسلمين وإكرام أهل الفضل في مجلس السلطان الأكبر والقيام فيه لغيره من أصحابه وسادة أتباعه وإلزام الناس كافة بالقيام إلى سيدهم، ولا يعارض هذا حديث معاوية: «من سره أن يتمثل له الرجال فليتبوأ مقعده من النار»، لأن هذا الوعيد إنما توجه للمتكبرين وإلى من يغضب أو يسخط أن لا يقام له، وقال القرطبي: إنما المكروه القيام للمرء وهو جالس إلخ. (بَاب إِذَا نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ)
☀ سنن الترمذي:
2755- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ. فَقَالَ: اجْلِسَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
(بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ)
☀ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: يَجُوزُ بَلْ يُنْدَبُ الْقِيَامُ تَعْظِيمًا لِلْقَادِمِ إلَخْ) أَيْ إنْ كَانَ مِمَّنْ يَسْتَحِقُّ التَّعْظِيمَ، قَالَ فِي «الْقُنْيَةِ»: قِيَامُ الْجَالِسِ فِي الْمَسْجِدِ لِمَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ تَعْظِيمًا وَقِيَامُ قَارِئِ الْقُرْآنِ لِمَنْ يَجِيءُ تَعْظِيمًا لَا يُكْرَهُ إذَا كَانَ مِمَّنْ يَسْتَحِقُّ التَّعْظِيمَ. وَفِي «مُشْكِلِ الْآثَارِ»: الْقِيَامُ لِغَيْرِهِ لَيْسَ بِمَكْرُوهٍ لِعَيْنِهِ، إنَّمَا الْمَكْرُوهُ مَحَبَّةُ الْقِيَامِ لِمَنْ يُقَامُ لَهُ، فَإِنْ قَامَ لِمَنْ لَا يُقَامُ لَهُ لَا يُكْرَهُ. قَالَ ابْنُ وَهْبَانَ أَقُولُ: وَفِي عَصْرِنَا يَنْبَغِي أَنْ يُسْتَحَبَّ ذَلِكَ أَيِ الْقِيَامُ لِمَا يُورِثُ تَرْكُهُ مِنَ الْحِقْدِ وَالْبَغْضَاءِ وَالْعَدَاوَةِ لَا سِيَّمَا إذَا كَانَ فِي مَكَان اُعْتِيدَ فِيهِ الْقِيَامُ، وَمَا وَرَدَ مِنَ التَّوَعُّدِ عَلَيْهِ فِي حَقِّ مَنْ يُحِبُّ الْقِيَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ كَمَا يَفْعَلُهُ التُّرْكُ وَالْأَعَاجِمُ اهـ. قُلْت: يُؤَيِّدُهُ مَا فِي «الْعِنَايَةِ» وَغَيْرِهَا عَنِ الشَّيْخِ الْحَكِيمِ أَبِي الْقَاسِمِ: كَانَ إذَا دَخَلَ عَلَيْهِ غَنِيٌّ يَقُومُ لَهُ وَيُعَظِّمُهُ، وَلَا يَقُومُ لِلْفُقَرَاءِ وَطَلَبَةِ الْعِلْمِ فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: الْغَنِيُّ يَتَوَقَّعُ مِنِّي التَّعْظِيمَ، فَلَوْ تَرَكْته لَتَضَرَّرَ، وَالْفُقَرَاءُ وَالطَّلَبَةُ إنَّمَا يَطْمَعُونَ فِي جَوَابِ السَّلَامِ وَالْكَلَامِ مَعَهُمْ فِي الْعِلْمِ. وَتَمَامُ ذَلِكَ فِي «رِسَالَةِ الشُّرُنْبُلَالِيُّ». (كِتَابُ الْحَظْرِ وَالْإِبَاحَةِ: بَابُ الِاسْتِبْرَاءِ وَغَيْرِهِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی