📿 بغیر سمجھے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم اور غلط فہمی کا ازالہ:
آجکل بعض لوگ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھے بغیر محض اس کی تلاوت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ واضح رہے کہ یہ فقط مغالطہ اور جہالت پر مبنی بات ہے جو کہ ہرگز درست نہیں، اس کے لیے مختصر طور پر درج ذیل باتیں سمجھ لینی چاہییں:
1️⃣ قرآن وحدیث کی رو سے قرآن کریم کے حقوق میں سے جس طرح ایک حق قرآن کریم کو سمجھنا بھی ہے اسی طرح ایک حق قرآن کریم کی تلاوت کرنا بھی ہے، چنانچہ قرآن وحدیث میں تلاوتِ قرآن کا ذکر اور اس کی ترغیب کئی مقامات پر موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ، صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین، اسلاف اور بزرگانِ دین میں تلاوتِ قرآن کریم کا خصوصی اہتمام اور ذوق وشوق ملتا ہے۔ اس لیے جو شخص قرآن کریم بغیر سمجھے تلاوت کررہا ہے تو وہ ایک حق ادا کررہا ہے، البتہ اس کو چاہیے کہ وہ قرآن کریم کا دوسرا حق ادا کرنے یعنی اس کو سمجھنے کا بھی بھرپور اہتمام کرے یعنی اس حق میں کوتاہی نہ کرے تاکہ دونوں حقوق کی ادائیگی کی کوشش ہوسکے۔
2️⃣ قرآن کریم کو سمجھنے کی ترغیب دینا تو بہت اہم ہے لیکن اس کی آڑ میں فقط تلاوت کرنے کو بے فائدہ قرار دینا بالکل غلط حرکت ہے جس کی کوئی دلیل قرآن وحدیث میں نہیں ملتی۔ اس لیے ہر بات کو اپنی اپنی جگہ رکھنا چاہیے، دونوں باتوں کو خلط ملط کرنا اور ایک کی آڑ میں دوسرے کا انکار کرنا غلط ہے۔
3️⃣ قرآن کریم کی تلاوت پر جو اجر وثواب آیا ہے وہ الفاظ وکلمات کی تلاوت پر آیا ہے کہ ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، اس اجر وثواب کو سمجھ کر پڑھنے کے ساتھ مشروط کرنا بلا دلیل ہے، اس لیے فقط تلاوت پر بھی اجر وثواب ملے گا خواہ سمجھ کر پڑھا جائے یا بغیر سمجھے، البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے کی اہمیت اور فوائد بہت زیادہ ہیں۔
☀ سنن الترمذي:
2910- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ القُرَظِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ: الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ».
(بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنَ القُرْآنِ مَا لَهُ مِنَ الأَجْرِ)
4️⃣ قرآن کریم میں حضور اقدس ﷺ کی بعثت کے جو مقاصد بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک مقصد امت کے سامنے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرنا بھی ہے، جبکہ قرآن کے معانی کی تعلیم کو الگ سے مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ وکلمات اور ان کی تلاوت بھی بذاتِ خود مقصود ومطلوب ہے۔
☀ سورة الجمعة:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (2)
حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ وکلمات بھی مقصود ومطلوب ہیں، ان کی تلاوت بھی مقصود ومطلوب ہے، ان کو سمجھنا بھی مقصود ومطلوب ہے اور ان کو سمجھنے کی ترغیب دینا بھی اہم ہے، لیکن قرآن کریم کو سمجھنے کی آڑ میں قرآن کریم کی تلاوت کو غیر اہم سمجھنا غلط اور بلا دلیل ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی