🌻 بغلی قبر افضل ہے یا صندوقی قبر؟
📿 لحد یعنی بغلی قبر افضل ہے یا شقّ یعنی صندوقی قبر؟
1️⃣ عام حالات میں لحد یعنی بغلی قبر افضل اور بہتر ہے شَقّ یعنی صندوقی قبر سے، اس لیے حتی الامکان بغلی قبر ہی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ جس زمین کی مٹی نرم ہو کہ بغلی قبر نہ بنتی ہو یا بغلی قبر گر جانے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسی صورت میں صندوقی قبر بنانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار ہی نہیں۔
2️⃣ کم از کم میت کے آدھے قد یا زیادہ سے زیادہ پورے قد کے برابر قبر کا گڑھا کھودنے کے بعد قبلہ کی جانب میت رکھنے کے لیے جو جگہ بنائی جاتی ہے، اس کو لحد اور بغلی قبر کرتے ہیں۔ اسی طرح کم از کم میت کے آدھے قد یا زیادہ سے زیادہ پورے قد کے برابر قبر کا گڑھا کھودنے کے بعد درمیان میں میت کو رکھنے کے لیے ایک اور گڑھا بنانے کو شق اور صندوقی قبر کہتے ہیں۔
3️⃣ قبر کے دو حصے ہوتے ہیں:
(الف) ایک تو قبر کا وہ حصہ جس میں میت رکھی جاتی ہے اور میت رکھنے کے بعد اس پر بانس، پتھر یا سلیب وغیرہ رکھے جاتے ہیں، اسی حصے کو شق (صندوقی قبر) یا لحد (بغلی قبر) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حصہ تو گہرائی میں اس قدر بھی کافی ہے کہ جس میں سنت کے مطابق میت کو قبلہ رخ کروٹ دے کر سہولت سے رکھا جاسکے، اور شق یعنی صندوقی قبر کی صورت میں وہ پتھر یا سلیب وغیرہ میت کے جسم سے مس نہ ہو بلکہ کچھ اوپر رہے، اسی طرح لحد یعنی بغلی قبر کی صورت میں میت کا جسم چھت سے نہ ٹکرائے، اس قدر کافی ہے۔ جبکہ یہ حصہ چوڑائی اور لمبائی میں میت کی جسامت کی رعایت کرتے ہوئے بنایا جائے۔ (فتاوٰی محمودیہ، فتاوٰی قاسمیہ)
(ب) دوسرا حصہ قبر کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے جس پر مٹی ڈالی جاتی ہے یعنی شق (صندوقی قبر) کی صورت میں سلیب اور پتھر کے اوپر والا حصہ، اور لحد یعنی بغلی قبر کی صورت میں وہ بقیہ پورا گڑھا۔ تو بہتر یہ ہے کہ اس حصے کی گہرائی میت کے پورے قد کے برابر ہو، البتہ اگر یہ کم از کم میت کے آدھے قدر کے برابر بھی کھود دیا جائے تب بھی درست ہے۔ جبکہ چوڑائی میں یہ حصہ میت کے آدھے قد کے برابر ہونا چاہیے اور لمبائی میں میت کی جسامت کے مطابق رکھا جائے، مزید یہ کہ شق کی صورت میں سہولت سے سلیب اور بانس وغیرہ رکھے جاسکیں۔ (فتاوٰی محمودیہ، امداد الاحکام)
☀ الدر المختار:
(وَحَفْرُ قَبْرِهِ) فِي غَيْرِ دَارٍ (مِقْدَارَ نِصْفِ قَامَةٍ) فَإِنْ زَادَ فَحَسَنٌ. (وَيُلْحَدُ وَلَا يُشَقُّ) إلَّا فِي أَرْضٍ رَخْوَةٍ.
☀ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: مِقْدَارُ نِصْفِ قَامَةٍ إلَخْ) أَوْ إلَى حَدِّ الصَّدْرِ، وَإِنْ زَادَ إلَى مِقْدَارِ قَامَةٍ فَهُوَ أَحْسَنُ كَمَا فِي «الذَّخِيرَةِ»، فَعُلِمَ أَنَّ الْأَدْنَى نِصْفُ الْقَامَةِ، وَالْأَعْلَى الْقَامَةُ، وَمَا بَيْنَهُمَا «شَرْحُ الْمُنْيَةِ»، وَهَذَا حَدُّ الْعُمْقِ، وَالْمَقْصُودُ مِنْهُ الْمُبَالَغَةُ فِي مَنْعِ الرَّائِحَةِ وَنَبْشِ السِّبَاعِ. وَفِي «الْقُهُسْتَانِيِّ»: وَطُولُهُ عَلَى قَدْرِ طُولِ الْمَيِّتِ، وَعَرْضُهُ عَلَى قَدْرِ نِصْفِ طُولِهِ. (قَوْلُهُ: وَيُلْحَدُ)؛ لِأَنَّهُ السُّنَّةُ. وَصِفَتُهُ أَنْ يُحْفَرَ الْقَبْرُ ثُمَّ يُحْفَرَ فِي جَانِبِ الْقِبْلَةِ مِنْهُ حَفِيرَةٌ فَيُوضَعُ فِيهَا الْمَيِّتُ وَيُجْعَلُ ذَلِكَ كَالْبَيْتِ الْمُسْقَفِ، «حَلْبَةٌ». (قَوْلُهُ: وَلَا يُشَقُّ) وَصِفَتُهُ أَنْ يُحْفَرَ فِي وَسَطِ الْقَبْرِ حَفِيرَةٌ فَيُوضَعُ فِيهَا الْمَيِّتُ، «حَلْبَةٌ». (قَوْلُهُ: إلَّا فِي أَرْضٍ رَخْوَةٍ) فَيُخَيَّرُ بَيْنَ الشِّقِّ وَاِتِّخَاذِ تَابُوتٍ، ط عَنِ «الدُّرِّ الْمُنْتَقَى»، وَمِثْلُهُ فِي «النَّهْرِ». (بَابُ صَلَاةِ الْجِنَازَةِ :مطلب فِي دفن الْمَيِّت)
☀ حلبي صغير:
والأفضل في القبر اللحد إن أمكن، وإلا فالشق، وذلك بأن تكون الأرض رخوة. واللحد: أن يحفر في جانب القبلة من القبر حفيرة فتوضع فيها الميت وينصب عليه اللبن أو غيره. والشق: أن يحفر حفيرة كالنهر ويبني جابناها باللبن أو غيره، ويوضع الميت بينهما ويسقف عليه باللبن أو الخشب ولا يمس السقف الميت. قال في «المنافع»: اختاروا الشق في ديارنا؛ لرخاوة الأراضي.
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی