وقت کے ساتھ ساتھ عمر میں اضافہ ایک قدرتی عمل ہے اور بڑھاپے سے کسی کو فرار نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اسے زندگی کی حقیقت سمجھتے ہیں اور زندگی کی جانب ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے لیکن جینیات کے ماہر ڈیوڈ سنکلئر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
دو عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط اپنی ایک تحقیق کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم روزمرہ زندگی میں چند سادہ سی عادتوں کو تبدیل کر لیں تو بڑھاپے کو مؤخر کر سکتے ہیں (یعنی ہم زیادہ دیر سے بوڑھے ہوں گے) جس سے نہ صرف ہم زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ زیادہ صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔
ڈیورڈ سنکلئر کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ادویات کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہو جائے گا اور اس حوالے سے جن ادویات پر کام ہو رہا ہے ان سے عین ممکن ہے کہ ہم بڑھاپے کے عمل کو مؤخر کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔
ڈیوڈ سنکلئر ایک سائنسدان ہیں جنھوں نے آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا اور آج کل ہارورڈ یونیورسٹی میں قائم ایک لیبارٹری کے انچارج ہیں۔
اس لیبارٹری میں وہ یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟
انھیں اب تک سائنس کے شعبے میں درجنوں اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑے بڑے فنکاروں کی طرح ایک سیلیبرٹی بن چکے ہیں اور ان کے ٹوئٹر پر تقریباً دو لاکھ فالوورز ہیں۔ ٹائم میگزین کے مطابق ان کا شمار دنیا کی ایک سو بااثر ترین شخصیات میں بھی ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ نہ صرف 35 نئی ایجادات کے جملہ حقوق اپنے نام کروا چکے ہیں بلکہ بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں کئی کمپنیوں کے بانی یا حصہ دار ہیں۔ ان میں کچھ کمپنیاں صرف بڑھاپے کی رفتار کم کرنے یا اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے پر تحقیق کر رہی ہیں۔
امریکی بینک، میرل لِنچ کے اندازے کے مطابق سنہ 2019 میں بڑھاپے کو روکنے کی صنعت کا کل منافع 110 ارب ڈالر تھا اور سنہ 2025 تک یہ 600 ارب ڈالر کی صنعت بن جائے گی۔
ڈیوڈ سنکلئر بڑھاپے کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں جس کا شمار سب سے زیادہ فروحت ہونے والی تصانیف میں ہوتا ہے۔ اس کتاب میں وہ اس عام خیال کی تردید کرتے ہیں کہ بڑھاپا ناگزیر ہے۔
مسٹر سنکلئر کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بڑھاپے سے متعلق اپنے خیالات کو یکسر تبدیل کر لیں۔ ان کے بقول ہمیں بڑھاپے کو ایک قدرتی عمل سمجھنے کے برعکس اسے ایک بیماری کی طرح دیکھنا چاہیے، ایک ایسا مرض جس کا علاج کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا بھی پایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم بڑھاپے سے متعلق اپنے نقطہ نظر میں زبردست تبدیلی لے آئیں تو انسانیت اپنی متوقع عمر میں بہت اضافہ کر سکتی ہے۔
مسٹر سنکلئر کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی سوچ تبدیل نہیں کرتے تو ادویات اور ڈاکٹر ہماری عمر میں صرف ایک دو سال کا ہی اضافہ کر سکتے ہیں اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ’ہم اس سے بڑھ کر کچھ کریں۔‘
اس حوالے سے مسٹر سنکلئر سے کئے گئے کچھ سوالات اور انکے جواب:
سوال: ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟
سائنسدان اب تک بڑھاپے کی نو بڑی وجوہات کی نشاندہی کر چکے ہیں اور میری گذشتہ 25 برسوں کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک وجہ ایسی ہے جس سے باقی تمام وجوہات جنم لیتی ہیں اور وہ ہے ہمارے جسم کے اندر موجود جینیاتی معلومات کا ختم ہو جانا۔
ہمارے جسم کو ہمارے والدین کی جانب سے دو قسم کی معلومات ورثے میں ملتی ہیں جن پر ہمارا ماحول اور وقت، دونوں اثر انداز ہوتے ہیں۔
معلومات کی پہلی قسم ’ڈیجیٹل‘ ہے یعنی ہمارے جنیٹک یا جینیاتی کوڈ اور دوسری قسم کی معلومات ’ایپی جینوم‘ ہوتی ہیں جن سے مراد ہمارے خلیوں کے اندر موجود وہ نظام ہے جو یہ کنٹرول کرتا ہے کہ جسم کے اندر موجود کس جِین کو ’آن‘ کرنا ہے اور کس کو ’آف‘ کرنا ہے۔
یوں جب ہمارے ایک خلیے کے اندر 20 ہزار جِینز کو جگایا یا سلایا جاتا ہے تو اس سے مذکورہ خلیے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کردار کیا ہے، اس سے اس خلیے کو شناخت ملتی ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کیا کام کرنا ہے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایپی جینوم پر لکھی ہوئی معلومات ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کسی سی ڈی پر جب خراشیں پڑ جاتی ہیں تو اس میں موجود ریکارڈ موسیقی یا ویڈیو خراب ہو جاتی ہے۔
یوں وقت کے ساتھ ساتھ جینوم اپنا کام بھول جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں۔
سوال: آپ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے بوڑھا ہونا ضروری نہیں لیکن کیوں؟
حیاتیات کی دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں بڑھاپا ضرور آنا ہے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ بڑھاپے کے عمل کو روکا کیسا جا سکتا ہے لیکن دن بدن ہم بڑھاپے کے عمل کو سست کرنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں بلکہ لیبارٹری میں تو ہم اس عمل کو الٹا کرنے کے قابل بھی ہو چکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے جسم میں موجود جینوم کو بدلا جا سکتا ہے۔
ہم جس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں، اس کے اثرات ہمارے اندر موجود سی ڈی پر پڑتے ہیں۔ اگر ہم درست انداز میں کام کریں تو ہم بڑھاپے کی گھڑیال کی سوئیوں کی رفتار بہت کم کر سکتے ہیں اور آج ہم خون اور تھوک کے نمونوں کا معائنہ کر کے اس گھڑیال کی رفتار معلوم کر سکتے ہیں۔
ہم نے چوہوں اور حتیٰ کہ وہیل جیسے بڑے جانوروں کے علاوہ مختلف انداز میں زندگی گزارنے والے انسانوں میں بھی دیکھا ہے کہ ان میں بڑھاپے کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے۔ اس کے علاہ ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ مستقبل میں آپ کی صحت کیسی رہے گی، اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آپ زندگی کیسے گزار رہے ہیں، نہ کہ آپ کی جینیاتی ساخت یا ڈی این اے پر۔
سائنسدانوں کو مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ زیادہ عمر جیتے ہیں، ان میں دوسروں کے مقابلے میں کیا چیزیں مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں صحیح قسم کی خوراک کھانا (اس کی ایک اچھی مثال بحیرہ روم کے ممالک میں کھائی جانے والی خوارک ہے)۔ اس کے علاوہ کم کیلوریز والی خوراک کھانا اور دن میں کم مرتبہ کھانا وغیرہ شامل ہیں۔ جسمانی ورزش بھی بڑھاپے کی رفتار کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جسم پر برف یا ٹھنڈا پانی ڈال کر جسم کے درجۂ حرارت کو کم کرنا بھی ایک مفید ترکیب ہو سکتی ہے۔
سوال: یہ تمام چیزیں بڑھاپے کی رفتار کم کرنے میں کیسے مدد کر سکتی ہیں؟
سائنسدان سمجھتے ہیں کہ آپ کی عادتیں اور دوسرے بیرونی عوامل مل کر بیماری اور بڑھاپے کے خلاف آپ کی قدرتی مدافعت میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں۔
ٹھنڈک یا گرمی کا احساس، بھوک اور سانس کا اکھڑنا آپ کے اندر موجود اس مدافعت کو جگا سکتا ہے۔ اس مدافعت کی جڑیں آپ کے جسم میں موجود چند جِینز میں پائی جاتی ہیں اور ہمیں ان میں سے کچھ جینز پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ جینز اصل میں ایپی جِینز کو کنٹرول کرتی ہیں اور یہ بھوک اور ورزش سے چاک و چوبند ہو کر اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ اسی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ درست خوراک اور بھوکا رہنے سے آپ بڑھاپے کی رفتار کم کر سکتے ہیں۔
اکثر امراض کی وجہ بڑھاپا ہوتا ہے، مثلاً دل کے امراض، الزائمرز اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کی بڑی وجہ بڑھاپا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اگر آپ اپنی مدافعت کو مضبوط رکھتے ہیں تو آپ زیادہ عرصہ جی سکتے ہیں۔
سوال: حال ہی میں مشہور جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دودھ پلانے والے بڑے جانوروں میں بڑھاپے کی رفتار کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ یہ بات آپ کی تحقیق کے خلاف جاتی ہے اور اس سے تو یہ لگتا ہے کہ ہم بڑھاپے کی رفتار بھی کم نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس عمل کو روک سکتے ہیں۔
آج سے دو سو برس پہلے تک انسان زیادہ سے زیادہ اسی رفتار پر سفر کر سکتا تھا جس رفتار سے گھوڑا دوڑ سکتا تھا۔ اب دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے ہم اپنی بائیولوجی پر قابو پا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی مسائل کو حل کرتی ہے اور بطور انسان ہمیں پہلے سے بہتر بنا سکتی ہے۔ ہم وہ مخلوق ہیں جو نت نئی چیزیں بنا سکتی ہے۔ اگر ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو آج ہم زندہ بھی نہ ہوتے۔
اور ہم یہ کام گذشتہ دس لاکھ برس سے زیادہ عرصے سے کر رہے ہیں۔ ہمارا اگلا قدم یہ ہو گا کہ ہم اپنی صحت پر لگی ان حدود پر قابو پا لیں جو ہمیں وراثت میں ملتی ہیں۔
ہم یہ کام روزانہ کر رہے ہوتے ہیں، مثلاً جب ہم ایسپرین کی گولی لیتے ہیں یا کپڑے تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کرتے ہیں، ہم اپنے جسم کی کیمِسٹری کو بھی بدل سکتے ہیں۔
سوال: آپ بڑھاپے کے حوالے سے ایک مختلف سوچ اپنانے کا کہتے ہیں یعنی بڑھاپے کا علاج ایک مرض کی طرح کیا جانا چاہیے لیکن کیوں؟
بیماری ایک ایسا عمل ہے جو عرصے پر پھیلا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ کسی معذوری یا موت کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ یہ بڑھاپے جیسا ہی عمل ہے۔
بڑھاپا ایک مرض ہے۔ یہ ایک عام مرض ہے لیکن کسی چیز کے عام اور قدرتی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اسے قبول کر لینا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑھاپا کینسر سے کم بری چیز ہے۔ ہم اپنی تحقیق سے ثابت کر رہے ہیں کہ یہ ایک قابلِ علاج چیز ہے، اس کی رفتار کو کم کیا جا سکتا اور اس سے بچا بھی جا سکتا ہے۔
چونکہ بڑھاپے کو ابھی تک کوئی مرض نہیں سمجھا جاتا، اسی لیے ڈاکٹر اس کے لیے کوئی دوا تجویز کرنے سے ہچکچاتے ہیں حالانکہ ان ادویات سے ممکنہ طور پر لوگوں کو صحت مند زندگی کے کئی برس مل سکتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم بڑھاپے کو ایک مرض قرار دیں یا کم از کم ایک ایسی طبی حالت جس کا علاج ممکن ہے۔
سوال: یہ بڑھاپے کے بارے میں ہماری موجودہ سوچ سے بہت مختلف سوچ ہے کیونکہ آج ہم بڑھاپے کو ایک ایسی چیز سمجھتے ہیں جس سے فرار ممکن نہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ ہم اس کا علاج کر سکتے ہیں، اس میں تاخیر کر سکتے ہیں اور حتیٰ کہ اس عمل کو الٹا سکتے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔ ہے ناں؟
جی ہاں یہ ایک انوکھی سوچ ہے لیکن جہاز اڑانا، اینٹی بائیوٹِک اور کمپیوٹر استعمال کرنا بھی تو عجیب و غریب چیزیں ہیں۔
یہ وہ راستہ ہے جسے انسانیت کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
اگر ہم طب اور درازی عمر کے حوالے سے ترقی کے خواہشمند ہیں تو اگر ہم آج تمام بیماریوں کا علاج کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو ہماری اوسط عمر میں صرف ایک دو سال کا اضافہ ہو سکے گا۔ ہمیں اس سے بہتر کام کرنا چاہیے۔
سوال: کیا آپ اپنی اس بات کی مزید وضاحت کر سکتے ہیں کہ لیبارٹری کی سطح پر آپ بڑھاپے کے عمل کو الٹا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں؟
ہم اس تلاش میں تھے کہ کسی طرح ایپی جینوم صاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں، کسی طرح اس سی ڈی پر آنے والی خراشوں کو صاف کر کے پالش کر سکیں۔ اس کے لیے ہم نے کئی جِینز پر کام کیا تاکہ بڑھاپے کے عمل کو محفوظ انداز میں الٹا چلا سکیں۔
ہم اس میں ناکام رہے لیکن اس دوران ہم نے تین قسم کی جِینز کا سراغ لگا لیا، جنھیں ’یماینکا فیکٹرز‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ جینز ہیں جو خلیوں سے ان کی شناخت چھینے بغیر بڑھاپے کے عمل کو الٹا کر سکیں۔
پھر ہم نے اس کا تجربہ ایسے چوہوں پر کیا جن کی آنکھوں کی خون کی رگیں خراب ہو چکی تھیں۔ ہم نے اس عمل سے چوہوں کی آپٹِک نروز کو بحال کر دیا۔
سوال: آپ کے خیال میں یہ چیز انسانوں میں بھی کام کر سکتی ہے؟
کچھ سرمایہ کاروں کا خیال ہے یہ ممکن ہے۔ میں ان لوگوں سے آج صبح ہی فون پر بات کر رہا تھا۔
چوہوں پر دو سال کے تجربات خاصے حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں اور اگلے دو تین برس میں ہم انسانوں پر اس قسم کا پہلا تجربہ کر لیں گے۔
سوال: اب تک سائنس کی دنیا میں ایسا کیا کچھ دریافت ہوا ہے اور ادویات پر جو تحقیق ہو رہی ہے، ان میں ایسا کیا ہے جس سے بڑھاپے کی رفتار کم کی جا سکتی ہے؟
کچھ ایسے قدرتی اور مصنوعی مالیکیول موجود ہیں جن سے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ ہم جانوروں اور حتیٰ کے انسانوں میں بڑھاپے کی رفتار کم کر سکیں گے اور ان میں کم از کم دو ایسے ہیں جو ادویات کی شکل میں فروخت بھی ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے سامنے یہ حوصلہ افزا چیز بھی موجود ہے کہ ذیابیطس والے لوگ ان لوگوں سے زیادہ جی رہے ہیں جنھیں شوگر نہیں۔
آج کل دسیووں ہزاروں ایسے لوگوں پر بھی تحقیق ہو رہی ہے جو ’میٹفورمین‘ لیتے رہے ہیں اور کینسر کی شرح، امراض قلب اور الزائمرز پر بھی اسی قسم کی تحقیق ہو رہی ہے۔
سوال: کیا ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں؟
نہیں۔۔۔ (سکلئر نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا)
سوال: آخر طب کے شعبےمیں تحقیق کا مقصد کیا ہے؟یہ کہ ہم زیادہ طویل ا ور صحتمند زندگی گزاریں؟
بالکل درست۔ ہم بھی یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم مختلف بیماریوں کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے، بجائے ان بیماریوں پر مرہم پٹی لگانے کے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم امراض کی جڑوں کو نشانہ بناتے ہیں تو اس کا اثر زیادہ ہو گا اور اس (بڑھاپے کے علاج ) چیز کے اثرات پورے جسم پر ہوں گے۔
ہمیں صرف دل کے بوڑھا ہونے کے عمل کو سست نہیں کرنا چاہیے، ساتھ ساتھ دماغ چاہے بوڑھا ہوتا رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دنیا میں الزائمرز کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔
ہمیں ایک ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ہمارے جسم کے تمام حصوں کو بہت عرصے تک صحتمند رکھے۔ میں ایسی ہی حکمت عملی کی بات کر رہا ہوں۔
سوال: بحیثیتِ مجموعی معاشرے پر اس قسم کی چیزوں کے اثرات کیا ہوں گے؟
اگر آپ 90 برس یا اس سے زیادہ عمر تک صحتمند رہتے ہیں تو صاف ظاہر ہے انفرادی سطح پر اس کے بہت فائدے ہیں۔
یوں آپ (ایک زندگی میں) مختلف شعبوں میں کیریئر بنا سکتے ہیں، اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں اور یوں آپ اپنے بچوں پر بوجھ بھی نہیں بنتے۔ اس کے علاوہ اس کے معاشی فوائد بھی ہیں۔
میرا، میرے ساتھیوں اور لندن کے چند ماہرینِ معاشیات کا اندازہ ہے کہ صرف امریکہ میں اگر لوگوں کی زندگی میں صرف دو دو برس کا اضافہ ہو جائے تو آئندہ چند عشروں میں امریکہ کی معیشت میں 86 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر لوگوں کی صحتمند زندگیوں میں دس برس کا اضافہ ہو جائے تو یہ مالیت 300 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
معیشت میں یہ اضافہ اس وجہ سے ہو گا کہ لوگ بیمار نہیں ہوں گے۔ امریکہ میں ہر سال مریضوں کی دیکھ بھال پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر یہی پیسہ تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں استعمال ہو تو اس سے پورا معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
سوال: امریکی بینک، میرل لِنچ کے اندازے کے مطابق (بڑھاپے پر قابو پانے کی) اس صنعت کی مالیت دسیوں ارب ڈالر ہے اور بہت جلد یہ صنعیت سینکڑوں ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اس صنعت میں آخر اتنا پیسہ کیوں لگایا جا رہا ہے اور اس میں لوگوں کی اتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے؟
کیونکہ یہ دنیا کی شاید وہ سب سے بڑی ضرورت ہے جو پوری نہیں کی جا رہی۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے اس سائنسی پیشرفت سے فائدہ نہیں ہو گا، بشمول بچوں کے۔
جسم کی قدرتی قوتِ مداقعت کو طاقتور بنانے سے دنیا بدل جائے گی اور کئی دہائیوں تک عالمی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔
یہ دنیا آج کی دنیا سے اتنی ہی مختلف ہو گی جتنی آج کی دنیا اینٹی بائیوٹکس کی ایجاد سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہے۔
سوال: آپ کچھ ایسی کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہیں جو عمر کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو ملتوی کرنے یا پلٹانے کے حوالے سے مصنوعات بناتی ہیں۔ آپ کو یہ فکر نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ بجائے ایک محقق کے ایک ایسے شخص کے طور پر جانے جائیں گے جو اس سب سے منافع حاصل کرنا چاہتا ہے؟
میرا ہدف لوگوں کو صحت مند بنانا ہے اور ادویات بنانے کا واحد طریقہ ٹیمیں بنانا ہے جو انھیں تیار کریں۔ میں یہ ہی کر رہا ہوں۔
سوال: کیا آپ یہ کام کاروباری شخص کے بجائے ایک محقق کے طور پر نہیں کر سکتے؟
نہیں۔ ایک دوا بنانے پر لاکھوں ڈالر لگتے ہیں۔
سوال: مگر آپ نہیں سمجھتے کہ ان کمپنیوں کے ساتھ آپ کے روابط کی وجہ سے آپ کی سائنس پر شک کیا جا سکتا ہے؟
میری سائنس خود کافی ہے۔ اسے ابھی تک غلط ثابت نہیں کیا گیا۔
زمرے
صحت و تندرستی