🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐گیارہویں قسط ⭐🌴
یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ام القریٰ میں پروان چڑھنے والے ابو بکر اپنے لڑکپن اور جوانی میں اپنے ہم سنوں میں پائے جانے والی برائیوں اور آلایشوں سے محفوظ تھے۔ انھوں نے جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہ چکھی حالانکہ ان کے اردگرد شراب کے رسیا پائے جاتے تھے۔ فکر معاش کی عمر کو پہنچے تو ایک تجارت پیشہ قوم کا فرد ہونے کی بنا پر ان کا میلان تجارت ہی کی طرف ہوا۔ انھوں نے کپڑے کی تجارت شروع کی۔ ایک پر کشش شخصیت اور عمدہ اخلاق کا مالک ہونے کی وجہ سے انھیں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ جلد ہی ان کا شمار مکہ کے بڑے تاجروں میں ہونے لگا۔ انھوں نے پہلا تجارتی سفراٹھارہ برس کی عمر میں کیا، آخری بار مدینہ سے شام کے شہر بصرہ کو گئے۔ ان سفروں کی وجہ سے باہر کے تاجر ابو بکر کو خوب پہچانتے تھے۔ ابو بکر بیدار عقل، بلند نظراور قلب سلیم رکھتے تھے۔ مکہ کے بہت کم لوگ اس معاملے میں ان کے ہم پلہ تھے۔ ڈاکٹر جواد علی کا کہنا ہے کہ ابو بکر لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ماہر علم الانساب تھے، مکہ کے تمام قبیلوں کے نسب ان کو ازبریاد تھے۔ ہر قبیلے کے عیوب و نقائص اور محامد و فضائل سے بخوبی واقف تھے۔
ان کی پہلی شادی بنو عامر کی قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے ہوئی۔ اگرچہ ایک بار وہ اپنے شوہر کے ساتھ مدینے بھی گئیں، لیکن مسلمان نہ ہوئیں۔ ابو بکر سے علیحدگی اختیار کر کے دوسری شادی کر لی اور مکہ میں مقیم رہیں۔ ابوبکر کی دوسری شادی بنو کنانہ کی ام رومان بنت عمر سے ہوئی جو پہلے طفیل بن سنجرہ کی زوجیت میں رہ چکی تھیں۔ صرف انھوں نے ہجرت میں ابوبکر کا ساتھ دیا۔ تیسری شادی بنو کلب کی ام بکر سے ہوئی، جو مسلمان ہوئیں نہ ہجرت کی۔ ابو بکر نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ بنو خثعم کی اسما بنت عمیس سے ابو بکر کی چوتھی شادی ہوئی جو ان کی وفات کے بعد حضرت علی کی زوجیت میں آئیں۔ بنو خزرج کی حبیبہ بنت خارجہ سے ان کی پانچویں شادی ہوئی۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے دوستی بعثت سے پہلے کی ہے۔ وہ اس محلے میں رہتے تھے، جہاں خدیجہ بنت خویلد اور دوسرے بڑے تاجر سکونت رکھتے تھے۔ جب آپ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد انھی کے گھر منتقل ہوگئے تو ابوبکر کا آپ سے ربط ہوا۔ میل جول بڑھا اور اخلاق و عادات کی مماثلت نے دونوں میں گہری دوستی پیدا کر دی۔ کچھ مورخین کا یہ خیال درست نہیں کہ آپ دونوں کے تعلقات اسلام کی آمد کے بعد استوار ہوئے، پہلے محض ہم سایگی اور یکسانی خیالات ہی تھی۔ ابوبکر پہلے مرد تھے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نماز ادا کی۔ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ اور پس وپیش ضرور دکھائی سوائے ابو بکر بن ابوقحافہ کے۔ جب میں نے ان کو اسلام کی طرف بلایا، انھوں نے تامل کیے بغیر میری آواز پر لبیک کہا۔‘‘ (ابن ہشام) اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اس کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا، لوگوں کو انفرادا ی طور پر اور علانیہ اسلام کی طرف بلایا۔ عثمان بن عفان، عبد الرحمان بن عوف، طلحہ بن عبید اﷲ، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام اور ابو عبیدہ بن جراح ابوبکر کی کوششوں ہی سے مسلمان ہوئے۔ ابو بکر نے نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی نصرت و حمایت بھی کی۔ ایک باربیت اﷲ میں قریش آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھپٹ پڑے اور کہا: تم نے ہمیں برے انجام کی دھمکی دی ہے اور ہمارے معبودوں کے متعلق بری باتیں کی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ ان میں سے ایک نے آپ کی چادر کے دونوں پلو پکڑ کر کھینچ لیے (اور گلا گھونٹنے لگا)۔ ابوبکر آپ کا دفاع کرنے کھڑے ہو گئے۔ روتے جاتے اور فرماتے: کیا تم ایک شخص کو محض اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے؟ تب انھوں نے آپ کو چھوڑا۔ ابو بکر معرو ف مال دار تاجر تھے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ اسی میں سے غلام خرید کر آزاد کرتے اور مسلمانوں کو قوت پہنچاتے۔ ایک روزدیکھا کہ نو مسلم بلال کو ان کے آقا نے کڑی دوپہر میں تپتی ریت پر لٹایا اور سینے پر بھار ی پتھر رکھ کر کہا کہ اسلام چھوڑنے کا اعلان کرو ورنہ ایسے ہی مار ڈالوں گا۔ ابو بکر نے انھیں فوراً مہنگے داموں خرید کر آزاد کر دیا۔ ایک اور اذیتیں پانے والے مسلمان غلام عامر بن فہیرہ کو خرید کر نہ صرف آزاد کیا، بلکہ اپنی بکریاں چرانے کی ملازمت بھی دے دی۔ ہجرت کے بعدپانچ ہزار درہم لے کر مدینہ پہنچے تو وہاں بھی یہ پیسے اسی مصرف میں لاتے رہے۔
واقعۂ معراج کے موقع پر ابو بکر نے حیرت انگیز قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ والوں سے فرمایا کہ رات انھوں نے بیت المقدس کا سفر کیا، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور پھر سیر آسمان کو گئے۔ مشرکین مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا، مکہ سے شام تک ایک ماہ کی مسافت ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمد ایک رات میں دو ماہ کا سفر طے کر کے لوٹ آئیں؟ کچھ مسلمان بھی متردد ہوئے، لیکن ابوبکر نے ان کو گم راہ ہونے سے بچالیا۔ انھوں نے کہا کہ جو اﷲ لمحوں میں آسمان سے وحی اتار دیتا ہے، اس کے لیے کیا دشوار ہے کہ رات بھر میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنی مسافت طے کرا دے؟ حق کی بلا تاخیر تصدیق کرنے پر پیغمبر علیہ السلام نے ابو بکر کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
جب قریش نے بنو ہاشم کا بائیکاٹ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کنبے کو شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تو آپ نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ایک سو کے قریب صحابہ نے حبشہ کی راہ لی جن میں عثمان بن عفان، جعفر بن ابو طالب اور زبیر بن عوام شامل تھے۔ ابو بکر نے ایک عرصہ سختیاں جھیلیں، جب ان کے لیے عبادت بھی دشوار ہوگئی تو انھوں نے براہ یمن حبشہ جانے کا قصد کیا۔ برک غماد پہنچے تھے کہ قارہ کے سردار ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ فرمایا: ’’چاہتا ہوں، کہیں الگ جا کر عبادت کروں۔‘‘ ابن دغنہ نے کہا: ’’تم جیسا شخص نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ ان کو واپس لے آیا اور قریش کو اپنی ضمانت دے کر لوٹا۔ ابو بکر جب تک مکہ میں مقیم رہے، حمزہ اور عمر کے ساتھ مل کر قریش کو ایذارسانی سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ ظن غالب ہے کہ انھوں نے بنو ہاشم کا مقاطعہ ختم کرانے کی دوڑ دھوپ کی جس کا نتیجہ قدرے دیر بعد ہوا اور کفار ہی کے کچھ انصاف پسندوں نے یہ بائیکاٹ ختم کرایا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*