🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐دسویں قسط ⭐🌴


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐دسویں قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہجرت : سیرت کی تمام معتبر کتابوں میں ہجرت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے مختصرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے بعض خوش نصیب افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا لیکن اکثر اپنی سرکشیوں کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے رفقاء کار کو طرح طرح کی تکالیف دیتے چنانچہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم نازل ہوا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطر سفر میں اپنے رفیق سفر کا جب انتخاب فرماتے ہیں تو آپ کی نگاہ سیدنا صدیق اکبر پر جا کر ٹھہرتی ہے ۔ اسی سفر میں وہ واقعہ بھی پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سوار ہو گئے اور چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچے ۔ غار کی صفائی کی، آپ تین دن تک وہاں رہے ۔ آپ کی بیٹی روزانہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آپ کے لیے کھانا پہنچاتیں ۔ دشمن آپ کی تلاش میں پیچھے پیچھے غار تک پہنچ گیا ۔ یہاں تک کے اس کے قدم بھی دکھائے دینے لگے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم کے بارے میں خوف ہوا تو تسلی کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں مزید سیدنا صدیق اکبر کی صحابیت کا اعزاز بھی اپنے سینے پر تاقیامت نقش کردیا ۔اس غار میں وہ سانپ کے ڈسنے والا واقعہ بھی پیش آیا۔ جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن سیدنا صدیق اکبر کی ایڑھی پر لگایا ۔
خلافت : سیرت حلبیہ اور دیگر کتب سیرت میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابو بکر سے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔
امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتا ب ”ازالۃ الخفاء ” میں خلافت کے مفہوم پرنہایت ہی عمدہ اور لطیف بحث کی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :” حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہو ئے تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فرمایا…تمام کوششوں کا مرجع اقامت دین تھی … علوم دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا ) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، ارکانِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام ، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام ، مقد مات کا انفصال ، قاضیوں کا تقرر ، امر با لمعروف ( عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا ) و نہی عن المنکر ( بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں ان جملہ امور کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس ِ نفیس فر ما یا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر ہوئے وعظ و نصیحت فر مائی ، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا ،جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فر مائی ، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے ، وصول زکوٰۃ کے واسطے عامل ما مور کیے ، وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا ،رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا ، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا ، غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات کے فیصلے کیے گئے قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا۔وغیرہ گویا خدائی احکامات کو نبوی منہج کے مطابق نافذ کرنے کا نام خلافت ہے ۔
خاندان نبی کا خیال : خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا بہت زیادہ خیال فرمایا ۔ ان کی تمام معاشی و معاشرتی ضروریات کو پورا کیا ۔یہ ایسی عظیم الشان حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام پر لکھی جانے والی تمام معتبر کتب اس بات پر گواہ ہیں ۔
خلافت کے بعد ابتدائی خطبہ: امام ابن سعد نے طبقات اور امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شاندار فقید المثال خطبہ دیا :حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں ۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلوائوں گا۔ اور جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔ جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں ۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب میں خدا اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں اللہ تم پر رحم فرمائے اب نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔
ریاستی ذمہ داریاں : تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ۔امن و آشتی ، عدل و انصاف ،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں ،معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔
نمایاں کارنامے : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بے شمار کارنامے ایسے ہیں جن پر دنیا رہتی دنیا تک ناز کرے گی ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے ۔ ان میں مدعیان نبوت کا فتنہ سر فہرست ہے ۔یمن میں اسود عنسی ، یمامہ میں مسیلمہ کذاب ، جزیرہ میں سجاح دختر حارث ، بنو اسد و بنو طی میں طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعویٰ داغ دیے ۔ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کے لیے مصلحت اختیار کر لی جاتی ۔ بلکہ یہ تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے ۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبر نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلعہ قمع کیا۔
فتنہ مانعین زکوٰۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاک تو تھا آپ کو نہیں ۔ آپ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبوی میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔
اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتداء ہوئی ۔ عراق میں آپ نے سیدنا خالد بن ولید کے تحت لشکر روانہ کیا ۔ عراق کے بہت سے مضافات آپ نے فتح کیے ۔ خورنق ، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا ۔ بوازیج ، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی ۔ اہل انبار سے کامیاب معرکہ لڑا گیا ، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا ، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے ، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے گئے ۔لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے ۔
جمع قرآن کی خدمت بھی آپ کے مبارک دور کی یادگار ہے ۔ قیامت کی صبح تک آنے والے ہرشخص پر آپ رضی اللہ عنہ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبر برابر کے شریک ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ تصوف یعنی سلوک و احسان کے سلسلہ نقشبندیہ میں آپ کی حیثیت بہت قابل قدر ہے ۔آپ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق ایک سوبیا لیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق مر وی ہیں ۔ جن کو امام جلال الدین سیو طی نے ”تاریخ الخلفاء ” میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ،اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاََمیراث جدہ، میراث جد ، تفسیر ِ کلالہ ، حد شرب خمر۔وغیرہ ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی