🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐آٹھویں قسط ⭐🌴


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐آٹھویں قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شانِ اقدس میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں۔ آپ کا ایمان تمام صحابہ میں سب سے کامل تھا۔ آپ کو بچپن ہی سے بُت پرستی سے نفرت تھی۔
آپ کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے والد ابو قحافہ (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے) آپ کو بُت خانے لے گئے اور بُتوں کو دیکھ کر کہنے لگے بیٹا یہ تمہارے خدا ہیں انہیں سجدہ کرو۔ یہ کہہ کر ان کے والد بُت خانے سے باہر چلے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بُت کے قریب گئے اور بُت کو مخاطب کرکے کہنے لگے میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔ بُت کچھ نہ بولا۔ پھر کہا میں برہنہ ہوں مجھے کپڑے دے۔ بُت خاموش رہا۔ پھر آپ نے ایک پتھر اٹھایا اور بُت سے کہا میں تجھے پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ بُت چپ رہا۔ آخر آپ نے زور سے اسے پتھر مارا اور وہ بُت اوندھے منہ نیچے آ گرا۔ اسی وقت آپ کے والد بھی بُت خانے میں آ گئے۔ انہوں نے جب بُت کو اوندھے منہ گرے ہوئے دیکھا تو بیٹے سے کہا یہ تم نے کیا کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہی کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے والد غصے میں انہیں گھر لے آئے اور ان کی والدہ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ اپنے شوہر سے کہا اس بچے کو کچھ نہ کہو کیونکہ جس رات یہ بچہ ہوا اس وقت میرے پاس کوئی بھی موجود نہ تھا۔ میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ اے اللہ کی بندی ! تجھے خوشخبری ہو اس بچے کی جس کا نام آسمانوں پر صدیق ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یار اور رفیق ہے۔
علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ حضور اکرم رضی اللہ عنہ کا ارشاد مبارک ہے کہ “حضرت ابو بکر صدیق لوگوں میں سب سے بہتر ہیں علاوہ اس کے کہ وہ نبی نہیں۔“
ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اُمت میں سب سے افضل ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس اُمت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابو بکر اور عُمر رضی اللہ عنھم ہیں۔ (تایخ الخلفاء)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت فرماتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 25)
حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ قیامت کے دن تین کُرسیاں خالص سونے کی بنا کر رکھی جائیں گی اور ان کی شعاعوں سے لوگوں کی نگاہیں چندھیا جائیں گی۔ ایک کرسی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام جلوہ فرما ہوں گے دوسری میں بیٹھوں گا اور ایک خالی رہے گی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لایا جائے گا اور اس پر بٹھائیں گے۔ ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ “آج صدیق اللہ کے حبیب اور خلیل کے ساتھ بیٹھا ہے۔“ (شرف النبی امام ابو سعید نیشاپوری صفحہ 279)
سبحان اللہ ! روزِ محشر بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان و شوکت کے پھریرے لہرا رہے ہوں گے۔ لوگ ان کے مقام و مرتبے کو دیکھ کر رشک کر رہے ہوں۔ حورانِ جنت ان کی عظمت کے ترانے گا رہی ہوں گی۔
ابو داؤد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابو بکر سن لو میری اُمت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے۔ (ابوداؤد)
ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے بھی میرے ساتھ احسان کیا تھا میں نے ہر ایک کا احسان اتار دیا علاوہ ابوبکر کے۔ انہوں نے میرے ساتھ ایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن ان کو اللہ تعالٰی ہی عطا فرمائے گا۔ (ترمذی شریف)
مسلمانو ! حضرت ابو صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام تمام صحابہ میں سب سے افضل ہے کوئی صحابی ان سے بڑھ کر فضیلت والا نہیں۔ یوں تو آپ کے فضائل بے شمار ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں مگر چار خوبیاں آپ میں ایسی ہیں جو کسی بھی صحابی میں نہیں۔ حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چار ایسی خوبیوں سے سرفراز فرمایا جن سے کسی کو سرفراز نہیں کیا۔ اول آپ کا نام صدیق رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں۔ دوئم آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غارِ ثور میں رہے۔ سوئم آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت میں رفیقِ سفر رہے۔ چہارم حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھائیں تاکہ دوسرے لوگوں کے آپ امام اور وہ آپ کے متقدی بنیں
آپ کا سب سے مشہور لقب صدیق ہے ،
وسمي الصديق لبداره إلى تصديق رسول الله صلى الله عليه وسلم في كل ما جاء به صلى الله عليه وسلم. وقيل: بل قيل له الصديق لتصديقه له في خبر الإسراء.
آپ نے ہر معاملہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں پہل کی ، اس لئے آپ کا لقب صدیق رکھا گیا۔
اللہ تعالی کا نازل کردہ لقب" صدیق"
سنن دیلمی میں ، ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " يا أبابكر، إن الله سماك الصديق ".
ترجمہ:ائے ابو بکر اللہ تعالی نے تمہارا نام" صدیق "رکھا ہے-
حضرت مولائے کائنات علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے کہ یہ لقب اللہ رب العزت نے نازل فرمایا: آپ حلفیہ بیان کرتے ہیں:لانزل الله عزوجل اسم ابی بکر من السماء الصديق –
ترجمہ:اللہ تعالی نے ابوبکر کے لئے صدیق کا لقب آسمان سے نازل فرمایا۔(مختصر تاریخ دمشق ،جلد،13،ص52) واقعہ معراج کی تصدیق :
تاریخ الخلفاء میں امام حسن بصری اورحضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: وأول ما اشتهر به صبيحة الإسراء
آپ کایہ لقب شب معراج کے اگلے دن کی صبح سے مشہور ہوا(تاریخ الخلفاء ص،11)
مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاءمیں روایت ہے: عن عائشة رضي الله عنها قالت جاء المشركون إلى أبي بكر فقالوا هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري به الليلة إلى بيت المقدس قال أو قال ذلك؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إني لأصدقه بأبعد من ذلك بخبر السماء غدوة وروحة فلذلك سمي الصديق
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے"راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآتے ہیں"ابوبکر صدیق نے کہا:"بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں"۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا(تاریخ الخلفاء ص،11)
کنیت ، ابوبکر :
عرب میں بالعموم کنیت کا رواج تھا ، یہ کبھی اولاد کے نام پرہوتی ہے ، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ہے اورکبھی کسی اورمناسبت کے پیش نظر رکھ دی جاتی ، جیسے ابوہریرہ ، ابوتراب وغیرہ ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آسمانی نام:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا قریب سے گزر ہوا ، حضرت جبریل نے عرض کیا ، یا رسول اللہ!وہ ابوقحافہ کے صاحبزادے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم آسمان میں رہنے والے بھی انہیں پہچانتے ہو؟ جبریل امین نے عرض کی :والذی بعثک بالحق لهو فی السماء اشهر منه فی الارض ، وان اسمه فی السماء الحليم
ترجمه :قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق ورسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا!حضرت ابوبکر کا زمین کی نسبت آسمانوں پر زیادہ شہرہ ہے ، وہاں ان کانام حلیم ہے ۔(الریاض النضرۃ ،ج1،ص82)
تفسیر قرطبی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت مذکور ہے : حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپناسارا مال ومتاع راہ خدا میں خرچ کرنے کے بعد ایک پیوندزدہ عباء پہن کر حاضربارگا ہ ہوئے جس میں گنڈیوں کی جگہ کانٹے لگے ہوئے تھے ، اسی لمحہ طائر سدرہ جبریل امین پیغام ِخداوندی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالی صدیق اکبر کو سلام فرماتاہے ،آپ اُن سے دریافت کریں کہ وہ اس فقر کی حالت میں اپنے رب سے راضی ہیں کہ نہیں ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب حضرت صدیق سے فرمایا تو آپ بے اختیارروپڑے اور کہنے لگے میں اپنے رب سے ناراض کیسے ہوسکتا ہوں؟ بے شک میں اپنے رب سے راضی ہوں ،اس کو تین بار دہراتے رہے ۔حضرت جبریل نے عرض کیا :حضور! بیشک اللہ تعالی فرماتاہے ؛میں اُن سے راضی ہوچکا ہوں جس طرح وہ مجھ سے راضی ہے۔ اور اللہ کے حکم سے تمام حاملین عرش بھی وہی لباس پہنے ہوئے ہیں جوآپ کے صدیق نے پہنا ۔ ﴿ تفسیر قرطبی ،سورة الحدید ، آیت نمبر :10﴾
وعن ابن عمر قال : كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وعنده أبو بكر وعليه عباءة قد خللها في صدره بخلال فنزل جبريل فقال : يا نبي الله! ما لي أرى أبا بكر عليه عباءة قد خللها في صدره بخلال ؟ فقال : "قد أنفق علي ماله قبل الفتح" قال : فإن الله يقول لك اقرأ على أبي بكر السلام وقل له أراض أنت في فقرك هذا أم ساخط ؟ فقال رسول صلى الله عليه وسلم : "يا أبا بكر إن الله عز وجل يقرأ عليك السلام ويقول أراض أنت في فقرك هذا أم ساخط" ؟ فقال أبو بكر : أأسخط "على ربي ؟ إني عن ربي لراض! إني عن ربي لراض! إني عن ربي لراض! قال : "فإن الله يقول لك قد رضيت عنك كما أنت عني راض" فبكى أبو بكر فقال جبريل عليه السلام : والذي بعثك يا محمد بالحق ، لقد تخللت حملة العرش بالعبي منذ تخلل صاحبك هذا بالعباءة-
﴿ تفسیر قرطبی ،سورة الحدید ، آیت نمبر :10﴾
حلیہ مبارک :
آپ کا رنگ سفید ، رخسار ہلکے ہلکے ، چہرہ باریک اور پتلا ، پیشانی بلند ، منحنی جسم ، چادرباندھتے تو نیچے ڈھلک جاتی اور داڑھی کو سرخ سیاہ مد بی لگایا کرتے (الکامل فی التاریخ ،ج2،ص420)
قریش کے مشہور قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ نے آپ کے اوصاف حسنہ کا بایں الفاظ اعتراف کیا: إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتكسب المعدوم وتحمل الكل وتعين على نوائب الدهر وتقري الضيف.
ترجمہ ؛ اے ابوبکر !بے شک آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزورں کا بوجہ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ افراد کے کام آتے ہیں۔(تاریخ الخلفاء،12)
عہدجاہلیت میں بھی آپ معزز ومکرم :
امام نووی فرماتے ہیں: وكان من رؤوساء قريش في الجاهلية وأهل مشاورتهم ومحبباً فيهم وأعلم لمعالمهم ۔
ترجمہ ؛حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں او راہل مشاورت میں ہوتا تھا،آپ کی شخصیت نہایت محبوب تھی، قریش کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے تھے(تاریخ الخلفاء ص،12)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی