🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐چوتھی قسط ⭐🌴
یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خلافت علی منہاج النبوۃ:
امام کائنات کو خواب میں دوخلفاء دکھانے گئے جن کی خلافت عین منہج نبوی کے مطابق ہوگی اور وہ آپ کے طریقے سے ذرہ برابر انحراف نہیں کریں گےرحمت کائنات فرماتےہیں میں سویا ہواتھا مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں اتنے میں ابو بکر آگئے انہوں نے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا تاکہ مجھے آرام وسکون کا موقع دیں انہوں نے دو ڈول نکالے لیکن ان کے ڈول نکالنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے پھر عمر آگئے انہوں نے ابوبکر سے ڈول لے کر(خوب پانی نکالا) میں نے کبھی اس سے زیادہ قوت کےساتھ ڈول کھینچتےکسی کو نہیں دیکھا حتی کہ لوگ سیر ہوکر چلے گئے اور حوض ابھی بھرا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ پھوٹ رہا تھا۔(صحیح مسلم حدیث 2392)
پہلا خطبہ خلافت:
بیعت کے بعد سیدنا ابو بکر نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان اقدس کے لائق حمد وثنا بیان کی اور فرمایا حاضرین کرام مجھے تمہارا سربراہ بنایا گیا ہے اور میںخود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرنا اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے حتی کہ اس سے مظلوم کا حق وصول کر لوں ان شاءاللہ جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیتےہے جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اللہ تعالیٰ ان پر عمومی عذاب نازل کر دیتاہے میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگے تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں اُٹھو نماز ادا کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ (البدایہ و النہایہ 305-306/6)
جبکہ آج ہمارے حکمرانوں کی تیاریاں عروج پر ہیں غریب عوام کا خون چوسنے کےلیے ہر طرح کے جال بچھائے جا رہے ہیں اور کروڑوں روپے کا سرمایہ رائیگاں کیا جارہاہے حالانکہ یہ منصب حکومت امام کائنات اور صحابہ کرام کا تشکیل دیا ہوا ہے آج اس منصب پر مسلط ہونے کے لیے ہر دنیا دار آدمی تیار ہے جو کہ دین اسلام سے کورے نظر آتے ہیں جیسے کہ امیدواران الیکشن سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے تھے اور سوالات بھی ایسے کہ جن کے جوابات ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ بھی بآسانی دے سکتا ہے کسی سے فجر کی نماز کی رکعتیں پوچھی جا رہی ہیں اور کسی سے قرآن پاک کے پاروں کے متعلق پوچھا جا رہا ہے جوکہ انسانیت کےلیے اللہ نے ضابطہ حیات اتارا ہے تو ان کے سوالوں کے جواب بھی نہیں آرہے تھے یہاں تک کہ ایک نام نہاد مسلم بول پڑا کہ قرآنی سوالات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث سے دوری نے انہیں جلاد بنادیا ہے کہ غریبوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک پیاس سے ان کے سامنے تڑپتے رہیں اور انکے رونگٹے بھی کھڑے نہ ہوں اور انکی سیاست بھی ایک جھوٹ کا حال ہے آج اپنے مفاد کی سیاست کی جاتی ہے اور عوام کو جھوٹ پے جھوٹ تحفۃ پیش کیا جاتاہے۔ (الامان والحفیظ) اور ایک وہ بھی تو سیاسی لیڈر تھے۔
صدیق اور سیاسی بصیرت:
سیدنا ابو بکربے پناہ سیاسی بصیرت کے حامل تھے اور حالات کے نشیب و فراز پر گہری نگاہ رکھتے تھے اپنے دور کی حکومتوں اور ان کےقوانین سے بھی پوری طرح آگاہ تھے اس وقت ایران اور روم کی دو مملکتوںکا تمام دنیا میں شہرہ تھا اور کسی معاصر حکومت کو ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ تھی اور جمہوریت کا اس زمانے میں کہیں نام و نشان نہ تھا تمام حکومتیں جبروآمریت کی بنیاد پر قائم تھیں آج کے حکمرانوں کی طرح رعایا ان کے ہاتھوں سخت تکلیف میں مبتلا تھی ہر باشندہ ملک کو انہوں نے دبا کر رکھا ہواتھا اور لوگوں سے اچھوتوں کا سا برتاؤ رکھا جاتا تھا سیدنا ابو بکر کے عہد خلافت میں دنیا کی ان دو عظیم مملکتوں کے جو علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے وہاں کامل مساوات کا قانون نافذ کیا گیا سیدنا صدیق نے فوج کے سر براہوں کے نام حکم جاری کیا کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب سے یکساں معاملہ کیا جائے کسی سے بے گارنہ لی جائے اور کسی کو محکوم اور مفتوح سمجھ کر مبتلائے اذیت نہ کیا جائے چھوٹے بڑے ہر طبقے کے لوگوں سے عدل و انصاف کیا جائے کسی قوم کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کیا جائے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا کھلنے الفاظ میں اعلان کیا جائے حالانکہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں نے مساوات کا کبھی نام تک بھی نہیں سناتھا وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل اور طریق گفتگو سے نہایت خوش ہوئے اور بہت سے لوگ صرف ان کے اس رویے سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔(ابو بکر صدیق لمحمد حسین ھیکل صفحہ 25)
جیسے حکمران ویسی رعایا:
ایک بدوی خاتون نے سیدنا صدیق سے پوچھا اے خلیفہ رسول جاہلیت کے بعد اللہ نے ہمیں اسلام کیوجہ سے جو نعمت عطا کی ہے ہم اس پر کب تک قائم رہیں گے صدیق نے فرمایا:
بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ
تم لوگ اس پر اس وقت تک قائم رہو گے جب تک تمہارے حکمران اسلام پر قائم رہیں گے وہ کہنے لگی حکمرانوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ صدیق نے فرمایا:
أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ
کیا تمہاری قوم کے شرفاء اور سردار نہیں ہیں جو قبیلے والوں کو حکم دیتے ہیںاور وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں اس نے کہا بالکل ہیں۔ جناب صدیق نے فرمایا:
فَهُمْ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ
یہی لوگ تو حکمران ہیں۔ (صحیح بخاری3834)
وسعت علم اور صدیق:
رحمت کائنات نے دنیائے اسلام کے پہلے حج میں سیدنا صدیق کو مدینہ منورہ سے امیر الحج بناکر روانہ فرمایا عبادات میں سے مناسک حج کا علم انتہائی دقیق ہے اگر صدیق کے پاس وسعت علم نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی امیر الحج نہ بناتے اور اسی طرح نماز کے معاملہ میں بھی رحمت کائنات نے سیدنا صدیق ہی کو اپنا نائب بنایا اور رسول اکرم نے سیدنا انس سےجو کتاب الصدقہ لکھوائی تھی اس کو سیدنا صدیق سے روایت کیا ہے وہ صدقہ کے بارے میں سب سے زیادہ قابل اعتماد دستاویز ہیں کوئی شرعی مسئلہ ایسا نہیں جس میں سیدنا صدیق نے غلطی کی ہو۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام کے کئی ایک ایسے مسئلے مذکور ہیں جن میں انکو غلطی لگی۔ (ابو بکر افضل الصحابہ ص 60)
اجتہاد اور صدیق:
سیدنا صدیق کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کی اصل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے نہ ملتی تو وہ اس میں اجتہاد کرتے اور کہا کرتے تھے:
أَقُولُ فِيهَا بِرَأْي فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمَنَ الشَّيْطَانِ
السنن الصغير للبيهقي (2/ 362)
میں اپنی رائے سے کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو یہ میری غلطی ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔
جب بھی ان کے پاس کوئی مسئلہ آتا تو وہ کتاب اللہ سے اس کا حل ڈھونڈتے اگر مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ کرام سے اس بارے میں پوچھتے ایسے موقعوں پر آپ کہا کرتے تھے:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَنْ نَبِيِّنَاصلى الله عليه وسلم
السنن الكبرى للبيهقي (10/ 114)
اللہ کا شکر ہے ہم میں ایسے لوگ موجو دہیں جنہوں نے رسول کی سنت کو محفوظ کر رکھا ہے۔
۔
لیکن دور حاضر میں اہل الرائے کا ایک ٹولہ دلیلیں تو ابو بکر و عمر کے اجتہاد کی پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اکثر و بیشتر مسائل حدیث رسول سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ سچ کہا تھا سیدنا علی نے (الکلمۃ حق أرید بہا الباطل) آئیڈیل اور نمونہ تو صحابہ کے اجتہاد کو پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں شریعت کی مخالفت کرتے ہیں اللہ انہیں ہدایت دے اور دین کی سمجھ دے۔
صدیق بطور فیصل:
سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنے نہایت معتمد ساتھی سیدنا عمر فاروق کے خلاف ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا تھا۔آئیے اس واقعہ کے بارے میں ان کا موقف پڑھتے ہیں ہوا کچھ یوں کہ سیدنا عمر نے اپنی ایک انصاری اہلیہ کو طلاق دے دی تھی اس خاتون سے ان کا بیٹا عاصم تھا کچھ عرصہ بعد سیدنا عمر نے دیکھا کہ وہ انصاری خاتون اپنے بیٹے کو اٹھائے تھی اور بچہ دودھ پینا چھوڑ چکا تھا اور اب چلنے پھرنے کےقابل ہوگیا تھا سیدنا عمر نے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ماں سے چھیننا چاہا اور تھوڑی سختی بھی کی کہ بچہ رونے لگا سیدنا عمر کہنے لگے میں اپنے بیٹے کا تمہاری نسبت زیادہ حقدار ہوں یہ جھگڑا سیدنا صدیق تک پہنچا تو سیدنا صدیق نے ماں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فرمایا اس بچے کے لیے ماں کی محبت و شفقت اس کو گود اور بستر تمہاری نسبت زیادہ بہتر ہے حتی کہ بچہ جوان نہ ہوجائے اور اپنا فیصلہ خود نہ کرے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ماں زیادہ مشفق و مہربان زیادہ رحم دل زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ نرم مزاج ہےجب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کرے تب تک وہ بچے کی زیادہ حقدار ہے۔ (مصنف عبدالرزاق 54/7 حدیث 2600)
صدیق بطور خطیب:
سیدنا ابو بکر نے لشکر اسامہ کے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! ٹہرو میں تمہیں کچھ ہدایات دینا چاہتا ہوں۔ انہیں اچھی طرح یاد کرلو، نہ خیانت کرنا، نہ مال غنیمت چرانا، نہ بد عہدی کرنا، نہ لاشوں کی بے حرمتی کرنا، نہ پھل دار درخت کاٹنا، نہ بلاضرورت بکری گائے اور اونٹ ذبح کرنا۔(اب ذرا سوچئے جتنے کاموں سے سیدنا صدیق نےمنع کیا ہے ان میں سے وہ کونسا ایسا کام ہے جو ہم اورہمارے حکمران نہیں کرتے؟ پھر فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ وہ ان سب امور کی پانبدی کر کے فتح عزت وعظمت و کامیابی ان کا ثمرہ بنتی تھی اور ہم ان سب کاموں میں مخالفت کرتے ہیں تو ذلت و رسوائی آج ہمارا مقدر بن چکی ہے) عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزروگے جو گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف ہوں گے۔ان سے تعرض نہ کرنا، تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہوجو تمہارے لیے رنگ برنگے کھانے لائیں گے تم ہر کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمہارا ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوگا جنہوں نے اپنے سر درمیان سے مونڈ رکھے ہونگے اور بقیہ بالوں کو پٹیوں کی مانند چھوڑ دیا ہوگا ایسے لوگوں کو تہ تیغ کر دینا، اب اللہ کا نام لیکر روانہ ہو جاؤ۔پھر سیدنا ابوبکر نے سیدنا اسامہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اصنع ما أمرك به نبي الله صلى الله عليه و سلم ابدأ ببلاد قضاعة ثم إيت آبل ولا تقصرن في شيء من أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا تعجلن لما خلفت عن عهده
رسول کے حکم کی تعمیل کرنا جنگ کی ابتدا بلاد قضاعہ سے کرنا پھر آبل (موجودہ اردن کے جنوب میں واقع ایک شہر ہے) پر حملہ آور ہونا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میںذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرنا اور رحمت کائنات کے عہد سے پیچھے مت ہٹنا۔
سیدنا اسامہ کا لشکر چلاگیا اہل لشکر امام کائنات کے حکم کے مطابق قضاعہ کےقبائل پر حملہ آور ہوئے آبل فتح کیا اور مال غنیمت او رفتح کے ساتھ سرخرو ہوکر لوٹے ان کا یہ پورا مشن چالیس روزہ تھا اور چالیس ہی دن میں مکمل کامیابی مل گئی۔ (تاریخ الطبری 45-47/4،والسیرہ النبویۃ الصحیحہ للدکتور العمری 470-467/2)
سیدنا صدیق کی اولو العزمی:
سیدنا صدیق نہایت درجہ اولو العزم اور صمیم القلب خلیفہ تھے ان کی اولوالعزمی کے واقعات تو بہت ہیں لیکن یہاں ہم چند ایک ذکر کرتے ہیں۔
1۔ مرتدین اور مانعین زکاۃ کا فتنہ بپا ہوا تو سیدنا صدیق نے فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنےکااعلان فرمایا زیادہ تر صحابہ نے اس بات سے اختلاف کیا جن میں سیدنا عمر بھی شامل تھے لیکن سیدنا صدیق اپنے ارادے پر قائم رہے اور بہ درجہ غایت اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جو لوگ نماز اور زکاۃ میں فرق کرینگے میں ان سے ضرور جنگ کروں گا چاہے مجھے اکیلا ہی کیوں نا مقابلہ کرنا پڑے۔
2۔ عراق میں مثنی بن حارثہ شیبانی جب برسر پیکار تھے تو انہوں نے دربار خلافت سے مزید فوج کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیق نے ان کی امداد کےلیے خالد بن ولید کو اچھی خاصی فوج دیکر عراق روانہ کیا۔
3۔ شام کے محاذ پر فوج بھیجنے کی ضرورت پڑی تو تمام عرب سے فوجیں جمع کیں پھر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اور اسلامی فوج کے سربراہوں کی طرف سے جو شام میں مقیم تھے دشمن پر حملہ کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ سی ہوئی تو سیدنا خالد بن ولید کو وہاں پہنچنے اور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ (الصدیق ابو بکر لمحمد حسین ھیکل ص 40،41)
سیدنا صدیق کا وقت رحلت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر کی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے اس لیے سیدنا عمر کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرام آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے سب سے زیادہ خبر گیری سیدنا عثمان کرتے تھے۔ (اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لمحمود المصری)
جب انکی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا:
قَدْ رَآنِي فَقَالَ: إِنِّي فَعَّالٌ لِمَا أُرِيدُ
ترتیب و تہذیب البدیہ والنہایہ للدکتور السلمی،ص 33
طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتاہوں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدنا ابو بکر نے فرمایا:
انظروا ماذا زاد في مالي منذ دخلت في الإمارة فابعثوا به إلى الخليفة بعدي
صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1
جب سےمیں خلیفہ بنا ہوں اس دوران جتنا مال بڑھا ہے وہ میرے بعد والے خلیفہ کو پہنچا دینا۔
ہم نے جب ان کا مال چیک کیا تو ایک نوبی غلام تھا مصر کے جنوب میں سوڈان کے شہر نوبہ میں ایک قوم آباد تھی یہ غلام انہیں میں سے تھا اور یہ خلیفہ کے بچے کھلاتا تھا۔اس کے علاوہ ایک اونٹ تھا جو ان کے باغ کو سیراب کرتا تھا ہم نے یہ دونوں چیزیں سیدنا عمر کی خدمت میں بھیج دیں تو وہ رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکر پر اللہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*