🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐پہلی قسط ⭐🌴
یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔[1]
حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ۵۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا۔ ابو بکر کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔ مرہ ہی پر ان کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتا ہے۔ کلاب بن مرہ آپ کے جبکہ تیم بن مرہ ابو بکر کے جد تھے۔ عبداﷲ اپنی کنیت ابو بکر اور ان کے والد عثمان اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت ابو قحافہ سے مشہور ہیں۔ ابو بکر کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر اورکنیت ام خیر تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوبکرکے کئی بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تو ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے نذر مانی کہ اب اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔ ان کے بچپن کا یہ نام قبول اسلام کے بعد بدل کر عبداﷲ ہو گیا۔ خون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے، متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ ابو بکر جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ اگرچہ عمر بھر ابو بکر اپنی کنیت سے موسوم کیے جاتے رہے، لیکن اس کنیت کا یقینی سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ انھیں جوان اونٹوں (بکر) کی پرورش اور ان کے علاج معالجے سے دل چسپی تھی یا شایدان کا سب سے پہلے اسلام لانا (بکر الی الاسلام) اس کنیت کا سبب بنا۔ ان کا ایک نام عتیق بھی ہے، جس کے معنی ہیں: خوب صورت اور سرخ و سفید، شروع سے نیک۔ ایک سبب یہ ہے کہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم اﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد (عتیق اﷲ) ہو۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۷۹) ہمیشہ سچ بولنے اورواقعۂ معراج کی فی الفور تصدیق کرنے کی وجہ سے صدیق کا لقب ملا۔ ان کی رافت و شفقت کی وجہ سے ان کو اواہ بھی کہا جاتا۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔
(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1)
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔
(مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347)
سیرت حلبیہ میں ہے کہ کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
آپ رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:
عتیق
صدیق
عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔
(صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:
مَنْ اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر.
’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔
(المعجم الاوسط، من اسمه الهيثم، الرقم: 9384)
آپ رضی اللہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق
’’اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔
(الاصابة فی تمييز الصحابة، حرف النون، 8: 332)
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:
هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟
’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق.
’’اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں‘‘۔
انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة.
’’جی ہاں! میں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔
(المستدرک علی الصحيحين، الرقم: 4515)
پس اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ صدیق مشہور ہوگئے۔
قبول اسلام
حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا:
’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’مکہ سے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا: ’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’قریش سے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔
(الرياض النضرة، ابوجعفر طبری، 1: 83)
والدین کریمین
آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر قرشی تیمی ہے۔ کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان کے وارث ہوئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت فاروقی میں وفات پائی۔
(تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 1: 296)
آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ کنیت ’’ام الخیر‘‘ ہے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔ مدینہ منورہ میں جمادی الثانی 13ہجری میں وفات پائی۔
(الاصابة فی تمييز الصحابة، 8: 386)
ازواج اور اولاد
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج (بیویوں) کی تعداد چار ہے۔ آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ کے دوران شام میں حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔
(الرياض النضرة، امام ابو جعفر طبری، 1: 266)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ، حضرت سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ بنت ابی بکر) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔
حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں:
ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ
ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ
محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ
(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، الرقم: 11)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*