🌻 ماہِ رَجب کے آغاز میں ایک مفید دُعا


 🌻 ماہِ رَجب کے آغاز میں ایک مفید دُعا

مع دعائے رجب کی اِسنادی اور لفظِ ’’رجب‘‘ کی نحوی تحقیق

📿 رجب کا مہینہ شروع ہونے پر ایک بہترین دُعا:
ماہِ رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے، یہ بہت ہی عظمت والا مبارک مہینہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور اقدس ﷺ یہ دُعا مانگتے: 
اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ.
▪ ترجمہ:
اے اللہ! ہمارے لیے ماہِ رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما ئیے اور ہمیں رمضان تک پہنچائیے۔
☀ کتاب الدعاء للطبراني: 
911- حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْقَاضِي: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ عَنْ زِيَادٍ النُّمَيْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ».
☀ المعجم الأوسط:
3939- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: أخبرنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عُمَرَ الْجِنِّيُّ قَالَ: أخبرنا زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ قَالَ: أخبرنا زِيَادٌ النُّمَيْرِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ».
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ.
☀ مسند الإمام أحمد:
2346- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ زَائِدَةَ بْنِ أَبِي الرُّقَادِ، عَنْ زِيَادٍ النُّمَيْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي رَمَضَانَ». وَكَانَ يَقُولُ: «لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ غَرَّاءُ، وَيَوْمُهَا أَزْهَرُ».

⬅️ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! ہمارے لیے ماہِ رجب میں برکتیں عطا فرمائیے، ہمیں ان مہینوں میں عبادات اور طاعات کی توفیق عطا فرمائیے اور ہمیں ماہِ رمضان اور اس کی عبادات نصیب فرمائیے۔

📿 ماہِ رجب کی دعا کے فوائد اور استقبالِ رمضان:
ماہِ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگنے کے متعدد فوائد ہیں:
▪ ایک فائدہ یہ کہ اس دعا کی برکت سے ماہِ رجب، ماہِ شعبان اور ماہِ رمضان میں عبادات اور ان کی قدر دانی کی توفیق ہوجاتی ہے۔
▪ دوسرا فائدہ یہ کہ ماہِ رمضان کی تیاری کی فکر نصیب ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ماہِ رجب اور ماہِ شعبان میں عبادات کا اہتمام کرنے سے ماہِ رمضان کی عبادات دشوار نہیں رہتیں، بلکہ پہلے ہی سے ان کی عادت ہوجاتی ہے۔
▪ تیسرا فائدہ یہ کہ ماہِ رمضان کی قدر دانی دل میں پیدا ہوجاتی ہے۔
▪ چوتھا فائدہ یہ کہ اس سے ماہِ رمضان کی طرف شوق وذوق ظاہر ہوتا ہے۔

📿 ماہِ رجب کی دعا سے متعلق تنبیہ
اہلِ علم بخوبی واقف ہیں کہ ماہِ رجب کی مذکورہ دعا پر مشتمل روایت پر حضرات اہلِ علم کی جانب سے کلام ہوا ہے کہ بعض اہلِ علم اس کو شدید ضعف کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی طرف اس دعا کی نسبت درست نہیں، اور ساتھ میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہ ایک دعا ہے اور اس میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں اس لیے اگر کوئی اس کو سنت، مستحب یا ثابت سمجھے بغیر یہ دعا مانگ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ بعض اہلِ علم اس روایت کے ضعف کے باوجود فضائل میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش دیتے ہیں۔ بندہ نے استاد محترم فقیہ العصر حضرت اقدس مفتی محمود اشرف صاحب رحمہ اللّٰہ تعالٰی سے اس حوالے سے سوال کیا تو حضرت والا نے جواب میں فرمایا کہ:
’’روایت ضعیف ہے، مگر دعا عبادت کا مغز اور مؤمن کا ہتھیار ہے، مختلف اوقات، مختلف حالات اور بدلتی ہوئی ہر حالت کے بارے میں مسنون دعائیں کثرت سے منقول اور مأثور ہیں، اس لیے اس روایت پر عمل شریعت کے خلاف نہیں۔‘‘ پھر فرمایا کہ: ’’ضعیف روایت پر عمل کرنے کی جو شرائط ذکر کی گئی ہیں بظاہر وہ موجود ہیں۔‘‘

⬅️ جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
’’مذکورہ روایت معنی اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے، اور اکابرین کا اس پر عمل بھی ہے، لہٰذا اسے پڑھ لینا چاہیے، البتہ اس کی حدیث کی سند میں محدثین کو کلام ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘
(فتویٰ نمبر: 144007200140، تاریخِ اجرا: 17 مارچ 2019)

⬅️ دعائے رجب پر مشتمل روایات کے معتبر ہونے اور نہ ہونے سے متعلق تفصیلی کلام کتب میں موجود ہے، اس کی طرف مراجعت کرلی جائے۔ البتہ ماقبل کی تفصیل کا حاصل یہ سامنے آتا ہے کہ ماہِ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ دعا کے الفاظ اور ماہِ رجب کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک مفید اور اہم دعا ہے، البتہ جن حضرات کے نزدیک یہ روایات معتبر نہیں اُن کی رائے کے مطابق اس دعا  کی نسبت حضور اقدس ﷺ کی طرف نہ کی جائے۔ ذیل میں چند عبارات ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ مجمع الزوائد میں ہے:
4774- عَنْ أَنَسٍ: قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ». رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي «الْأَوْسَطِ»، وَفِيهِ زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ، وَفِيهِ كَلَامٌ، وَقَدْ وُثِّقَ. 
2️⃣ علامہ محمد بن طاہر پٹنی رحمہ اللہ ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: 
نعم روي بإسناد ضعيف: أنه ﷺ كان إذا دخل رجب قال: «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان». ويجوز العمل في الفضائل بالضعيف.
3⃣ فیض القدیر میں ہے:
(تنبيه): قال في «كتاب الصراط المستقيم»: لم يثبت عن النبي ﷺ في فضل رجب، إلا خبر: كان إذا دخل رجب قال: «اللهم بارك لنا في رجب»، ولم يثبت غيره، بل عامة الأحاديث المأثورة فيه عن النبي ﷺ كذب، وقال النووي: لم يثبت في صوم رجب ندب ولا نهي بعينه، ولكن أصل الصوم مندوب.

📿 ماہِ رجب کی پہلی رات دعا کی قبولیت:
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ: ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، یعنی: جمعہ کی رات، عید الاضحیٰ کی رات، عید الفطر کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات اور پندرہ شعبان کی رات۔‘‘ آگے فرماتے ہیں کہ: ’’میں اس کو مستحب قرار دیتا ہوں۔‘‘
☀ الأم للإمام الشافعي رحمه الله:
قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ: فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى، وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ..... قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأَنَا أَسْتَحِبُّ كُلَّ مَا حُكِيَتْ فِي هَذِهِ اللَّيَالِيِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فَرْضًا. (الْعِبَادَة لَيْلَة الْعِيدَيْنِ)
☀ السنن الكبرى للبيهقي رحمه الله:
قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ إِنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ: فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى، وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبَ، وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ. 
(الْتِمَاسُ لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)

▪ یہ بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے، ملاحظہ فرمائیں:
☀ مصنّف عبد الرزاق:
7927- قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَأَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ الْبَيْلَمَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ.
☀ فضائل الأوقات للبيهقي رحمه الله:
149- أَنْبَأَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ إِجَازَةً أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيَّ أَخْبَرَهُمْ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ ابْنَ السَّلْمَانِيِّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَا الْعِيدِ.

اس مضمون کی روایات پر محدثین نے کلام کیا ہے، البتہ فضائل میں ان پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، مزید یہ کہ اس بات کو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے قبول کیا ہے، اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رجب کا پورا مہینہ ہی عبادات کے لیے بہترین اور مبارک ہے کیوں کہ یہ حرمت اور عظمت والے چار مہینوں میں سے ہے، اس لیے عبادات کا اہتمام پہلی رات ہی سے کرلینا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ماہِ رجب کی پہلی رات دعا وعبادات کا اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مفید اور بہتر ہے۔
☀️ المجموع شرح المهذب:
قَالَ الشَّافِعِيُّ فِي «الْأُمِّ»: وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ: فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ فِي رَجَبٍ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ. ..... قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأَنَا أَسْتَحِبُّ كُلَّ مَا حَكَيْت فِي هَذِهِ اللَّيَالِي مِنْ غَيْرِ أَنْ تَكُونَ فَرْضًا. هَذَا آخِرُ كَلَامِ الشَّافِعِيِّ. وَاسْتَحَبَّ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ الْإِحْيَاءَ الْمَذْكُورَ مَعَ أَنَّ الْحَدِيثَ ضَعِيفٌ؛ لِمَا سَبَقَ فِي أَوَّلِ الْكِتَابِ أَنَّ أَحَادِيثَ الْفَضَائِلِ يُتَسَامَحُ فِيهَا وَيُعْمَلُ عَلَى وَفْقِ ضَعِيفِهَا. (مَسَائِلَ تَتَعَلَّقُ بِالْعِيدَيْنِ)
☀️ جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ:
’’رجب کی پہلی رات کی فضیلت سے متعلق ایک روایت نقل کی جاتی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی، ان میں سے ایک رجب کی پہلی رات بھی ہے، یہ روایت بعض ایسے طرق سے منقول ہے جو قابلِ اعتماد نہیں، البتہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے موقوفًا یہ روایت ثابت ہے، گو اس کی سند میں بھی مجہول راوی ہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔‘‘
(فتویٰ نمبر: 144007200018، تاریخِ اجر: 9 مارچ 2019)

📿 علمی نکتہ: لفظِ ’’رجب‘‘ منصرف ہے یا غیر منصرف؟
یہاں اہلِ علم کے لیے یہ علمی بحث بھی مفید ہے کہ لفظِ ’’رجب‘‘ منصرف ہے یا غیر منصرف، کیوں کہ ہر ایک کا اعراب مختلف ہے، اسی تناظر میں مذکورہ بالا دعا پڑھتے وقت ’’رجب‘‘ پر فتحہ پڑھیں گے یا دو زیر کی تنوین، اس لیے کہ غیر منصرف ہونے کی صورت میں اس پر حالتِ جرّ میں فتحہ آئے گا، جبکہ منصرف ہونے کی صورت میں اس کے نیچے دو زیر کی تنوین آئے گی۔ اس حوالے سے حضراتِ اہلِ علم کی دو آرا ہیں:
1⃣ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ اگر ’’رجب‘‘ سے مراد مخصوص مہینہ ہے تو یہ غیر منصرف ہوگا، اس قول کے مطابق چوں کہ ماہِ رجب کی دعا مانگتے وقت مخصوص مہینہ ہی مراد ہوتا ہے اس لیے دعا میں رجب پر فتحہ آئے گا، لیکن اگر اس سے عام مہینہ مراد ہو تو پھر یہ منصرف ہوگا۔ واضح رہے کہ رجب کن اسبابِ منع صرف کی وجہ سے غیر منصرف ہے تو اس حوالے سے بھی اہلِ علم کی متعدد آرا ہیں: بعض کے نزدیک علمیت اور عدل ہیں، اور عدل بھی اس طور پر کہ یہ ’’الرجب‘‘ سے معدول ہے، جبکہ بعض کے نزدیک اس میں علمیت اور تأنیث ہیں۔
2️⃣ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ ’’رجب‘‘ منصرف ہے کیوں کہ اس میں اسبابِ منع صرف میں سے دو اسباب یا ایک سبب جو دو کے قائم مقام ہو، نہیں پائے جاتے، ’’رجب‘‘ میں علمیت تو ہے لیکن دوسرا سبب کوئی نہیں پایا جاتا، اس لیے یہ منصرف ہے۔ بندہ کے نزدیک بھی یہی رائے راجح ہے۔
☀ حاشية الصبان على شرح الأشمونى لألفية ابن مالك:
قوله: (رجب) هو كـ«صفر» إن أريد به معين فغير منصرف؛ للعلمية والعدل عن المحلى بـ«أل»، وإلا فمنصرف، نقله الدنوشري عن السعد وغيره، ونقل شيخنا عن «شرح المواهب» لشيخه الزرقاني أن رجب من أسماء الشهور مصروف وإن أريد به معين كما في «المصباح».
☀ حاشية الخضري على ابن عقيل:
وصريح ذلك أن العلم الحقيقي لا يصح عدله عن ذي أل؛ لما ذكر فاحفظه ينفعك في مواطن كثيرة، فما نقل عن السعد وغيره من أن رجب وصفر من الشهور إذا أريد بهما معين يمنع صرفهما؛ للعلمية، والعدل عن الرجب والصفر بـ«أل» ينبغى حمله على العلمية الحكمية وهي المعبر عنها هنا بشبه العلمية؛ لما سمعت، ولأن العلم الحقيقي لا يحتاج لاشتراط التعيين، والملجىء لاشتراطه سماعهما بالصرف وعدمه هذا، ويحتمل أن منعهما للعلمية الجنسية على الأيام المخصوصة والتأنيث المعنوي باعتبار تأويلهما بالمدة، وصرفهما على اعتبار الوقت، سواء أريد بهما معين أم لا فتأمل. وفي «المصباح»: أن رجب الشهر مصروف وإن أريد به معين، وأما باقي الشهور فجمادى ممنوع؛ لألف التأنيث، وشعبان ورمضان؛ للعلمية والزيادة، والباقي مصروف، والله أعلم.

⬅️ فائدہ: 
ماہِ رجب سے متعلق فضائل، اعمال اور بدعات سے متعلق تفصیلی تذکرہ اس سلسلے کی آئندہ کی قسطوں میں ہوگا ان شاء اللہ

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی