ڈڈو، چھپڑ ،جھیل اور پیڈو (ادھوری کہانی)


 کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک چھپڑ میں دو ڈڈو رہتے تھے، بنیادی طور پر ڈڈو چھپڑ میں خوش رہتے ہیں لیکن ان دونوں ڈڈؤں نے سن رکھا تھا کہ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت جھیل ہے جہاں کا حسن اور دلکشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، انواع و اقسام کی نعمتیں  خشکی اور پانی میں کھانے پینے کو اور بے فکری کی زندگی ، ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح وہاں پہنچا جائے لیکن "فاصلہ" زیادہ ہونے کی وجہ سے انکے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ خود سے وہاں پہنچ سکتے۔ کبھی کبھار اُس چھپڑ کے پاس ایک "پیڈو(بھیڑ)" بھی  آجاتا تھا جو کبھی وہاں سے پانی پی لیتا تھا اور کبھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ بھی جاتا تھا، آہستہ آہستہ پیڈو اور ڈڈؤں کی گپ شپ شروع ہوئی  اور کچھ عرصے میں بے تکلفی ہوگئی۔ ڈڈؤں نے دوچار بار پیڈو کو اُس جھیل کے بارے میں بتایا لیکن اتفاق سے پیڈو نے وہ جھیل کبھی دیکھی نہیں تھی اس لئے ڈڈؤں کی جھیل کے بارے میں دلچسپ باتیں کبھی کبھی پیڈو کے سر کے اوپر سے گذر جاتی تھیں۔


یار یہ تم کیا ہر وقت اس جھیل کی کہانیاں ہی ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہو؟ ایک دن پیڈو نے تنگ آکر پوچھ ہی لیا۔ دونوں ڈڈؤں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر پیڈو کو دیکھا اور پھر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ کیا میں نے کوئی لطیفہ سُنایا ہے؟ پیڈو برامان کر بولا۔ "ارے نہیں نہیں پیڈو بھائی ، ایسی کوئی بات نہیں ہم تو اس لئے "ہنس" پڑے کہ ابھی تو آپ اتنے بیزار ہو جھیل کے تذکرے پر لیکن اگر ایک بار آپ نے جھیل دیکھ لی تو آپ نے وہیں کے ہو کر رہ جانا ہے اور پھر کبھی واپس آنے کا نام نہیں لینا"۔ یہ سن کر پیڈو بولا "تو یار اگر اتنی ہی خوبصورت جگہ ہے تو تم لوگ خود وہاں کیوں نہیں رہنے چلے جاتے ؟ ایویں ای یہاں بیٹھے "جلے پھپھولے" پھوڑتے رہتے ہو"۔  یہ سن کر دونوں ڈڈؤں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر آسمان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے  تو ایک ڈڈؤ ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگا "پیڈو بھائی، اگر ہمارے بس میں ہوتا تو ہم بھلا اس گندے چھپڑ میں ڈبکیاں لگاتے؟ ہم تو اڑتے ہوئے وہاں چلے جاتے"۔ "کیوں کس نے روکا ہے تمہیں؟" پیڈو نے تنک کر پوچھا۔ دوسرا ڈڈؤ بولا "پیڈو بھائی روکا تو کسی نے نہیں مگر ہم چھوٹے چھوٹے ہیں  اور یہاں سے وہاں کا فاصلہ زیادہ ہے، راستہ نہ صرف دشوار بلکہ ریگستانی ہے یہاں سے نکلنے کے بعد جھیل تک درمیان میں نہ کوئی سبزہ ہے نہ پانی، ہم تو راستے میں ہی گرمی اور پیاس سے مرجائیں گے اور پھر کسی پرندے کا شکار ہوجانے کا خوف الگ، ایسے میں بھلا ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہاں تک جائیں"۔ "تو یار جب ایک چیز ممکن ہی نہیں تو کیوں اپنا وقت جھیل کے بے کار تذکرے میں برباد کرتے ہو" پیڈو جھلا کر بولا" ہائے پیڈو بھائی ! آپ کو ابھی صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے نا اُس جھیل کا احوال ، اسی لئے ایسی باتیں کرتے ہیں ، ہم سے پوچھیں، ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہمارے پر لگ جائیں اور ہم اُڑ کر وہاں پہنچ جائیں  اور پھر  ۔ ۔ ۔  "موجاں ای موجاں" یہ جملہ کہ کر دونوں ڈڈو بے ہنگم اچھل کود میں مشغول ہوگئے اور پیڈو منہ بناکر وہاں سے روانہ ہوگیا۔

کچھ دنوں بعد پیڈو کا پھر وہاں آنا ہوا تو دونوں ڈڈؤ حسب معمول ایک دوسرے کو "داستانِ جھیل" سنا رہے تھے پیڈو کو آتا دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ "ہاں بھئی آج تم لوگ بڑے خاموش ہو؟ لگتا ہے جھیل کا بھوت اتر گیا دماغ سے" پیڈو نے آتے ہی جگت لگائی۔ " ارے نہیں پیڈو بھائی ، ہم تو آپ کے آنے سے پہلے جھیل ہی کی باتیں کر رہے تھے"۔ " اچھا! تو تم لوگوں کی یہ داستان آخر کب تک چلتی رہے گی؟" پیڈو نے پوچھا۔ "بس پیڈو بھائی! جب تک جان ہے تب تک یہ داستان ہے" ایک ڈڈو ٹھنڈی آہ بھر کربولا۔ "ویسے پیڈو بھائی ! آپ کو شاید ہماری باتوں پر تو یقین نہیں آتا لیکن اگر آپ تھوڑی سی ہمت کرلیں تو نہ صرف ہماری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوجائے گی بلکہ آپ بھی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جائیں گے جو نہ آپ نے پہلے کبھی دیکھی ہوگی ، نہ ایسی جگہ کے بارے میں کبھی سنا ہوگا" دوسرا ڈڈو بولا۔" نہیں بھائی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے چکر میں آکر نہ میں یہاں کا رہوں اور نہ وہاں کا" ۔ پیڈو انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ "ارے پیڈو بھائی آپ ایک بار ہماری بات مان کر تو دیکھیں ، یہ آپ کی زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ ثابت ہوگا"۔ ایک ڈڈو بولا۔"ناں بابا! تمھارے ساتھ چلا گیا تو میں تو اپنی دنیا سے دور ہوجاؤں گا اور تم لوگ اپنی نئی دنیا میں مگن، اسطرح تو میں بے وجہ خوار ہوجاؤں گا، نہ یہاں کا رہوں گا نہ وہاں کا" پیڈو نے منہ بناتے ہوئے کہا"ارے نہیں پیڈو بھائی! ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب ہم یہاں سے ایک ساتھ چلیں گے تو وہاں بھی ایک ساتھ ہی رہیں گے، ہم بھلا کیوں الگ ہوں گے ایک دوسرے سے" ایک ڈڈو جلدی سے بولا"ہاں پیڈو بھائی، ہم تیوں ساتھ رہیں گے ، برابری کے ساتھ ہر بات ، ہر چیز ، ہر کام ، مل کر رہیں گے، مل کر کھائیں گے"۔ پیڈو بولا" لو بھلا مل کر کیسے رہیں گے تم لوگ پانی میں رہنے والے میں خشکی پر، تم جھیل کے پانی میں گھومتے پھرو گے میں خشکی پر بور ہوتا رہوں گا، تمھاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوجائے گی پھر توکون میں کون؟"۔ ایک ڈڈو بولا "پیڈو بھائی یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم جھیل پر مل جل کر رہیں گے ، چلنا پھرنا ، اُٹھنا بیٹھنا، رہنا سہنا، کھانا پینا، سب اکھٹے اور ساتھ ساتھ کریں گے"۔ "نہ بھائی ابھی تو ایسا کچھ نہیں بعد میں اس پر بات کریں گے" یہ کہ کر پیڈو وہاں سے روانہ ہوگیا۔

کچھ دن بعد پیڈو پھر چھپڑ کی طرف آنکلا ، دونوں ڈڈو ایک طرف منہ لٹکائے بیٹھے تھے، پیڈو کو آتا دیکھ کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ "ہاں بھئی تم لوگ کیوں ہیکل اینڈجیکل بنے بیٹھے ہو؟خیر تو ہے آج دونوں کے منہ پر ساڑھے گیارہ کیوں بج رہے ہیں؟" پیڈو نے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔ 'نہیں پیڈو بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ، بس ویسے ہی خاموش بیٹھے ہیں" ایک ڈڈو بولا۔ "ہاں تو وہ کیا بنا تمھاری جھیل کا؟ وہیں ہے ابھی تک یا کوئی اُٹھا کر کےلے گیا؟" پیڈو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ "کون اٹھائے گا جھیل کو، آپ ہی نے اٹھانا ہے اب" ایک ڈڈو منہ بناکر بولا۔ "کیا مطلب؟ میں جھیل کو اُٹھاؤں گا؟" پیڈو حیران ہوکر بولا۔ "ارے نہیں پیڈو بھائی! آپ جھیل کو نہیں بلکہ ہمیں اُٹھائیں گے ، اور پھر ہم تینوں مل کر یہاں سے جھیل کی جانب روانہ ہوں گے" دوسرے ڈڈو نے جلدی سے بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔ "نہیں بھئی! میں نے اپنے سرپنچ سے بات کی تھی اس نے صاف منع کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ اگر گئے تو واپس نہ آنا" پیڈو نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ "تو پیڈوبھائی واپس کس نے آنا ہے ہم تیوں نے مل کر وہیں رہنا ہے اب ، آپ گھبرائیں نہیں اور ہمت کریں ، یقین کریں زندگی سنور جائے گی ہم سب کی " پہلا ڈڈو بولا۔ "ویسے " پیڈو کھنکار کر بولا "کوئی حرج تو نہیں ہے کہ میں تمہیں لے کر جھیل تک چلا جاؤں لیکن انجان علاقہ، کیسے رہیں گے، کیا کریں گے، یہ سوچ کر الجھن ہوتی ہے" پیڈو الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔ "ارے پیڈو بھائی ، کیسی الجھن، کیسی پریشانی، مل کر رہیں گے، جو کریں گے مل کر کریں گے، جب تینوں ساتھ ہوں گے تو کیسی حیرانی اور کیسا انجانا پن؟"  دوسرا ڈڈو جوشیلے انداز میں بولا۔

کافی دیر ہوچلی تھی سفر کرتے ہوئے  اور اب سورج بھی آہستہ آہستہ اپنی تیزی دکھانے لگا تھا، علی الصبح دونوں "تیسرے" پر سوار ہوکر جھیل کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے تھے، راستہ ریگستانی سا تھا ہر طرف ریت ہی ریت درمیان میں کچھ ٹیلے سے ۔ "راستے کا صحیح اندازہ ہے نا تم لوگوں کو؟" پیڈو نے اونچی آواز میں ڈڈؤں سے پوچھا۔ "جی پیڈو بھائی جس جانب سورج غروب ہوتا ہے ہم نے اُسی جانب سفر کرنا ہے ، وہیں ہماری منزل ہے۔ راستے میں دو تین بار ریت کے طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہر بار پیڈو دونوں ڈڈؤں کو اپنے جسم کے نیچے چھپا لیتا اور خود کان دبائے آنکھیں بند کئے طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتا، ڈڈؤں کوہر بار یہی لگتا ہے اب نہیں بچیں گے لیکن پیڈو کسی نہ کسی طرح اُنہیں اپنے بڑے بڑے بالوں اور بھاری وجود میں ڈھانپتے چھپاتے ، ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان تیز ہواؤں میں اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ سورج اب تیزی سے اپنے سفر کے اختتامی مراحل طے کر رہا تھا۔ریگستانی راستہ ختم ہوچلا تھا اب نیم پہاڑی ڈھلانی راستہ طے کیا جارہا تھا۔ ڈھلانی راستہ ختم ہونے کے بعد تینوں مسافروں نے دور دور تک نظر دوڑانے کی کوشش کی سامنے بھی کچھ دکھائی نہ دیا دائیں بھی لیکن جب بائیں جانب دیکھا تو ڈڈؤں کے ساتھ ساتھ پیڈو کا بھی جیسے سانس رکنے سا لگا۔

سامنے جھیل کا خوبصورت منظر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

تینوں کا خوشی کے مارے براحال تھا جیسے کسی مردے کے جسم میں جان پڑگئی ہو، پیڈو نے باقی راستہ جیسے اُڑتے ہوئے طے کیا اور پھر کچھ ہی دیر میں تینوں جھیل کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔


یہ 2017-2018 کے ایک سچے واقعے کی بنیاد پر لکھی جانے والی ادھوری کہانی ہے جسے بوجوہ مکمل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی