ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ التوبۃ آیت نمبر 102
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۰۲﴾
ترجمہ: اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انہوں نے ملے جلے عمل کیے ہیں، کچھ نیک کام، اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلے گا۔ (٧٨) یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
تفسیر: 78: منافقین تو اپنی منافقت کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے، اور اب تک انہیں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ لیکن مخلص مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو سستی کی وجہ سے جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق یہ کل دس حضرات تھے۔ ان میں سے سات کو اپنی اس سستی پر اتنی سخت شرمندگی ہوئی کہ ابھی آنحضرت ﷺتبوک سے واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ یہ خود اپنے آپ کو سزا دینے کے لیے مسجد نبوی پہنچے، اور اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا۔ آپ ﷺکی واپسی کا وقت قریب تھا، اور جب آپ ﷺواپس تشریف لائے اور آپ ﷺنے انہیں بندھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟ اس پر آپ ﷺکو علم ہوا کہ انہوں نے اس لیے اپنے آپ کو باندھ رکھا ہے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اب میں بھی ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ خود انہیں کھولنے کا حکم نہ دیدے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، اور انہیں کھول دیا گیا۔ ان سات حضرات میں حضرت ابو لبابہ (رض) بھی تھے جن کے نام سے ایک ستون اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے، اور اسے اسطوانۃ التوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس ستون سے اپنے آپ کو اس وقت باندھا تھا جب بنو قریظہ کے معاملے میں ان سے ایک غلطی ہوگئی تھی، لیکن حافظ ابن جریر (رح) نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ واقعہ تبوک سے متعلق ہے اور اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (دیکھئے تفسیر ابن جریر ج : 11 ص :12 تا 16) باقی تین حضرات جو تبوک نہیں گئے تھے، ان کا ذکر آگے آیت نمبر 106 میں آ رہا ہے۔ اس آیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجائے تو اسے مایوس ہونے کے بجائے توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اور غلطی کی تاویلیں کرنے کے بجائے ہر ممکن طریقے سے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ امید دلائی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے۔