🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چونسٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*یکے* بعد دیگرے ایسے واقعات ہو گئے تھے اور ہوتے چلے جا رہے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو حسن بن صباح زوال پذیر ہوجائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے تک یوں نظر آتا تھا جیسے فتح اور ہر ابلیسی کام میں کامیابی حسن بن صباح کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، اس کے جانباز فدائی سلطنت سلجوقیہ کی جڑوں میں اتر گئے تھے، اس نے مسلمانوں میں خانہ جنگی تک کرا دی تھی، اپنوں نے اپنوں کا اس قدر خون بہایا تھا کہ تاریخ کے اوراق اس خون سے لال ہیں ، حسن بن صباح نے جس سیاسی معاشرتی اور مذہبی شخصیت کو اور جس حاکم کو قتل کرنا چاہا وہ اپنے فدائیوں سے کرا دیا،،،،،،،، حکمرانی تو سلجوقیوں کی تھی لیکن ان لوگوں کے دلوں پر حسن بن صباح راج کرتا تھا، ایک تو وہ لوگ تھے جو اس کے مرید ہو گئے تھے ،ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اسے نبی مانتے تھے اور زیادہ تر لوگ آسمان سے اترا ہوا امام سمجھتے تھے، دوسرے وہ لوگ تھے جن پر حسن بن صباح اور اس کے فدائی دہشت گرد بن کر آسیب کی طرح سوار ہو گئے تھے۔
لوگ یقین سے کہتے تھے کہ حسن بن صباح کے پاس کوئی جادو ہے ورنہ ایسا کبھی بھی نہ ہوتا کہ ایک آدمی ایک طاقتور سلطنت کے لئے اتنا خطرناک اور دہشت گرد مسئلہ بن جاتا، مورخوں نے بھی یہی لکھا ہے ،تاریخ ایسی شہادت پیش کرتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جادو ضرور تھا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن بنا دیتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطنت سلجوقیہ کی فوج میں اور لوگوں میں بھی بددلی سی پائی جاتی تھی جیسے وہ حسن بن صباح کو شکست نہیں دے سکیں گے، اس فوج نے باغیوں کے قبضے میں آئے ہوئے جس قلعے کا بھی محاصرہ کیا وہاں سے فوج ناقابل برداشت جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو آئی تھی۔
پھر لوگوں کے کانوں میں یہی ایک خبر پڑتی تھی کہ آج حسن بن صباح نے وزیر اعظم کو یا کسی حاکم کو یا کسی عالم دین کو قتل کروا دیا ہے، لوگ فدائیوں کو جن بھوت سمجھنے لگے تھے ،لیکن سالار اوریزی نے وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا، پھر شاہ در پر بھی قبضہ کیا گیا ،اور پھر حسن بن صباح کے پیر و استاد عبد الملک بن عطاش کو بھی قتل کر دیا گیا، اور اس کے علاوہ لوگوں کو یہ خبر ملنے لگی کہ باطنی فدائی پکڑے جانے لگے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کو بھی پکڑوا رہے ہیں ،اور یہ بھی کہ وہ حسن بن صباح کے غدار اور مسلمانوں کے وفادار ہو گئے ہیں تو لوگوں کی نگاہوں میں حسن بن صباح ایک انسان کے روپ میں سامنے آنے لگا۔
سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد مرو میں الموت پر حملے کے لیے بہت بڑی فوج تیار کر رہا تھا، اور زیادہ تر وقت اس کی ٹریننگ پر صرف کرتا تھا ،وہ وزیراعظم تھا لیکن ہمہ وقت سپہ سالار بن گیا تھا، اس نے محسوس کرلیا تھا کہ فوج میں حسن بن صباح کو پراسرار اور ایسی شخصیت سمجھا جارہا ہے جس کے ہاتھ میں کوئی غیبی طاقت ہے، فوج کا جذبہ اور لڑنے کا حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ابونصر احمد ساری فوج کو اکٹھا کر کے سناتا رہتا تھا کہ باطنیوں پر کس طرح کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں۔
وہ فوج کو قرآن کی وہ آیات سناتا رہتا تھا جن کا تعلق جہاد کے ساتھ تھا ،یہ آیت تو وہ اکثر سنایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔ *اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا ﴿٪۷۶﴾*
"ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ،اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے (اعلاء دین اور رضائے الٰہی کیلئے) لڑو بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے"
پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ سالاروں اور ان سے کم درجہ کمانڈروں کو پوری طرح آرام بھی نہیں کرنے دیتا تھا ،انہیں اکٹھا کرکے الموت کے محاصرے اور تسخیر کے طریقے بتاتا اور ان کے مشورے اور تجاویز غور سے سنتا تھا ،اس کے جوش و خروش اور سرگرمیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا تھا، اسے ابن مسعود نے الموت کے اندر کی معلومات دے دی تھی، وہ اب اپنے سالاروں کو الموت کے اندر کے نقشہ بنا بنا کر دکھاتا اور انہیں یقین دلاتا تھا کہ الموت کو فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
عبید عربی اور ابن مسعود جیسے پتھر دل فدائی جو کسی دوسرے کی اور اپنی جان لینے کو ایک پرلطف کام سمجھتے تھے اپنے ہی امام حسن بن صباح کی جان کے دشمن ہو گئے تھے، ان کے ایمان پر ابلیسیت کے جو پردے پڑ گئے تھے وہ انھوں نے اتار پھینکے تھے۔
یہ تمام واقعات لوگوں کو سنائے جاتے رہے تو ان میں جو بد دلی پیدا ہو گئی تھی وہ نکل گئی، لوگ تسلیم کرنے لگے کہ اللہ ان کی مدد کر رہا ہے ،لوگوں کو مسجدوں میں خطبوں میں بتایا گیا کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، یہ آیت فوج میں شامل ہونے والے لوگوں کو ذہن نشین کرا دی گئی تھی،،،،، *وقٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۹۳﴾*
"اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں (کفر و باطل پرستی سے) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر،"
ان حالات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح کا زوال شروع ہو گیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابن مسعود الموت چلا گیا تھا اور اس نے غداری کا سارا الزام حیدر بصری کے سر تھوپ دیا اور خود مظلوم اور مسلمانوں کی قید سے فرار کا ہیرو بن گیا تھا ،اس وقت اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ حیدر بصری کو امام شیخ الجبل نے شاہ در خزانہ نکالنے کے لئے بھیج دیا ہے، ابن مسعود کو جب پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اسے خزانہ مل گیا تو وہ واپس ہی نہیں آئے گا۔
اس نے یہ الفاظ منہ سے نکال تو دیے تھے لیکن وہ شیخ الجبل کے آگے جھوٹ بولنے کی سزا سے بے خبر نہیں تھا،،،،، سزائے موت،،،، اگر حیدر بصری خزانہ لے کر یا خزانے کے بغیر ہی آجاتا تو اس کو گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جاتے ، لیکن یہ بھی اللہ کی مدد ہی تھی کہ حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو خزانے والی جھیل کے مگر مچھ ہضم کر چکے تھے، اور حیدر بصری نے اب کبھی واپس نہیں آنا تھا۔
نور کے باپ نے بڑا ہی خوفناک انتقام لیا تھا، یہ پچھلی قسط میں سنایا جاچکا ہے، نور کے باپ نے اپنی انتقامی کاروائی کو یہیں پر ختم نہیں کر دیا تھا، حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو مگرمچھوں کے حوالے کر کے وہ اپنے ساتھی اور نور کے ساتھ گھوڑا گاڑی میں سوار ہوا اور واپس چل پڑا، اب اس نے کچھ سوچ کر گھوڑوں کو دوڑایا نہیں رفتار آہستہ رکھی، اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہ دو یا تین رات راستے میں ہی گزارے گا۔
چوتھے روز وہ شام کے بعد اس وقت شاہ در میں داخل ہوا جب رات تاریک ہو گئی تھی، وہ دانستہ ایسے ہی وقت شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا جب اسے وہ باطنی نہ دیکھ سکیں جنہیں معلوم تھا کہ وہ حیدر بصری کے ساتھ خزانے والی جھیل کو گیا تھا ،ان باطنیوں کے صرف ایک گھر سے وہ واقف تھا ،وہ لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ شہر کے ساتھ ہی ایک گاؤں میں رہتے تھے۔
وہ سیدھا سلطان سنجر کے وزیر کے گھر کے سامنے جا رکا ،اور وزیر کو پتہ چلا تو اس نے اسے اندر بلا لیا،،،،،،، نور کے باپ نے وزیر کو بتایا کہ وہ کیا کر آیا ہے اور اب وہ کیا کرے گا ،وزیر اس کی بات سن کر خوش تو بہت ہوا لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرنا ہے محتاط ہو کر کرے، وہ اپنی اور اپنی بیٹی کی حفاظت سے بھی کوتاہی نہ کرے۔
اس نے گھوڑا گاڑی وہیں چھوڑی اور وزیر سے درخواست کی کہ اس گھوڑا گاڑی کو چھپا کر رکھ دیا جائے اور یہ کسی کے سامنے نہ آئے،،،،،،، وزیر نے گھوڑا گاڑی اور گھوڑے کو چھپا کر رکھنے کا حکم دیدیا ،نور کا باپ نور اور اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر وہاں سے اپنے گھر گیا اور انہیں یہ کہا کہ دو دن وہ باہر نہ نکلیں، اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ واپس آگئے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو روز بعد نور کا باپ شہر سے نکلا اور گاؤں میں اس باطنی کے گھر گیا جہاں باطنی اکٹھے ہوا کرتے تھے ،وہاں تین چار باطنی موجود تھے جن میں ایک فدائ تھا ۔
آ گئے تم لوگ؟،،،،،، ایک دو نے بیک زبان کہا۔۔۔۔ گھوڑا گاڑی کی آواز نہیں آئی،،،،،،، حیدر اور دوسرے کہاں ہیں؟
نور کا باپ کوئی جواب دیئے بغیر یوں چارپائی پر بیٹھا جیسے نڈھال ہو کر گر پڑا ہو، اس نے سر جھکا کر دونوں ہاتھ سر پر رکھ لئے جو کوئی اچھی نشانی نہیں تھی، باطنیوں نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا ہوا کیا ہے؟
کیا بتاؤں دوستو!،،،،،، نور کے باپ نے بڑی ہی کمزور اور شکست خوردہ آواز میں کہا کہ جان بچ گئی ہے ،اور میری جوان بیٹی کی عزت بھی بچ گئی ہے،،،،،،، حیدر بصری اور اس کے ساتھی خزانہ لے کر کہیں اور نکل گئے ہیں ،وہ آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے، میں نے اتنا ہی سنا کہ وہ اسی گھوڑا گاڑی پر مصر چلے جائیں گے، بہرحال وہ الموت نہیں گئے غداری کر گئے ہیں۔
باطنی اس سے پوچھنے لگے کہ یہ سب ہوا کیسے؟،،،،،، نور کے باپ نے کہا کہ وہ خیریت سے خزانے کے غار تک پہنچ گئے تھے اور بکس اٹھا کر لائے کشتی میں بھی رکھ لئے، مگر مچھوں نے حملہ کیا تو ان کے آگے بھیڑیں پھینک کر کنارے سے آ لگے اور پھر بکس گاڑی میں ڈال لئے۔
نور کے باپ نے رنج و الم سے دبی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہاں سے چلنے لگے تو وہ آگے بیٹھا اور گھوڑوں کی باگیں ہاتھوں میں لے لیں، لیکن حیدر نے اس کے ہاتھوں سے باگیں لے کر اسے پیچھے بٹھا دیا اور گاڑی چلا دی، کچھ دیر کے سفر کے بعد ایسی جگہ پہنچے جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک شاہ در کی طرف آتا ہے اور دوسری پگڈنڈی کسی اور طرف چلی جاتی ہے۔
اس نے المناک آواز میں آہستہ آہستہ بتایا کہ حیدر نے گھوڑا گاڑی دوسری پگڈنڈی کی طرف موڑ دی، اور نور کے باپ نے اسے بتایا کہ شاہ در کو وہ دوسرا راستہ جاتا ہے حیدر نے نہ جانے کس زبان میں کچھ کہا تو حیدر کے ساتھیوں نے نور کے باپ کو اور اس کے ساتھی اور نور کو بھی اٹھا کر دوڑتی گھوڑا گاڑی سے باہر پھینک دیا اور گھوڑے دوڑا دیے، جتنی دیر میں وہ اٹھتے اور سنبھلتے گھوڑا گاڑی دور آگے جا کر ایک موڑ مڑ چکی تھی اور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئی تھی۔
پھر نور کے باپ نے سنایا کہ وہ بیابان سنسان اور خطرناک جنگل تھا اور نور کا باپ صرف اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے متعلق پریشان تھا ،ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا جو کوئی رہزن یا ڈاکو لوٹ لیتا ،سب سے زیادہ قیمتی چیز نور تھی، اسے چھپائے رکھنا بہت ہی مشکل نظر آرہا تھا وہ شہر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر ہو گئے ،اور شیخ الجبل کو یاد کرتے چل پڑے۔
ہمیں زندہ واپس آنے کی کوئی امید نہیں تھی۔۔۔۔ نور کے باپ نے سنایا۔۔۔ جنگل میں ذرا سی بھی آہٹ ہوتی تھی تو میں ڈر جاتا کہ یہ رہزن ہی ہوں گے، ہم خاصی دور نکل آئے تو پیچھے سے سات اونٹ آتے نظر آئے، اب تو ہم اور زیادہ ڈرے، ہماری تلواریں گھوڑا گاڑی میں چلی گئی تھیں، بھاگنا بھی بے کار تھا، شتر سواروں نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور اونٹوں پر سوار ہو کر اونٹ ہمارے پیچھے دوڑا دیے وہ ہمیں پکڑ سکتے تھے،،،،،،،
ہم نے اپنے آپ کو قسمت اور تقدیر کے حوالے کر دیا، اونٹ قریب آگئے تو میں نے دیکھا کہ سات میں سے چار اونٹوں پر سامان لدا ہوا تھا اور تین خالی تھے، ان کے ساتھ پانچ آدمی تھے وہ ہمارے قریب آئے تو ان کا انداز ایسا تھا جس سے یہ شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ رہزن یا ڈاکو ہیں، انہوں نے ہمیں مسکرا کر دیکھا اور ایک نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور کہاں جا رہے ہو،،،،،،،، میں نے انہیں یہ جھوٹا بیان دیا کہ ہم اونٹوں پر آ رہے تھے اور شاہ در جا رہے ہیں راستے میں دو رہزنوں نے سامان بھی لوٹ لیا ہے اور اونٹ بھی لے گئے ہیں،،،،،،،،
میری یہ بات سن کر ایک نے کہا کہ وہ اگر ڈاکو تھے تو اتنی خوبصورت لڑکی کو کیوں چھوڑ گئے ہیں، میں نے دوسرا جھوٹ بولا کہ اس وقت یہ لڑکی جنگل کے اندر ایک اوٹ میں چلی گئی تھی، اس نے وہاں سے دیکھ لیا تھا اور چھپی رہی تھی میں نے اسے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے پھر میں نے ان شتربانوں کی منت سماجت کی کہ ہمیں اونٹوں پر شاہ در پہنچا دیں اور وہ جتنی اجرت مانگیں گے وہاں انہیں دی جائے گی، وہ کوئی بھلے لوگ تھے جو ہمیں اونٹوں پر سوار کر کے یہاں لے آئے اور میں نے انہیں کچھ اجرت دے دی ،لیکن راستے میں انہوں نے تین دن لگا دیے، ہم تینوں تو گھر میں نڈھال ہو کر پڑے رہے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ کن الفاظ میں سنائیں گے کہ وہ سننے والے مان لیں۔
وہ تو ہم نے مان لیا ہے۔۔۔ ایک باطنی نے کہا۔۔۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ تم جیسے بوڑھے نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ قتل کردیا ہو اور خزانہ ہضم کر لیا ہو، اب یہ سوچو کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
تم سب ان کے تعاقب میں نکل جاؤ تو بھی ان تک نہیں پہنچ سکتے۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔ یہ تو دیکھو کہ دن کتنے گزر گئے ہیں، اب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی الموت چلا جائے اور شیخ الجبل کو بتا دے کہ خزانہ حیدر بصری لے اڑا ہے، وہ الموت گیا ہوتا تو ہمیں اس کے ساتھی راستے میں پھینک کیوں جاتے۔
ان میں سے ایک آدمی اسی وقت الموت جانے کے لیے تیار ہوا اور گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا، نور کا باپ اٹھا اور دکھ زدہ آدمی کی طرح سر جھکائے ہوئے اسی طرح گھر سے نکل آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ الموت میں ابن مسعود باقاعدہ قید میں تو نہیں تھا لیکن اس کی باقاعدہ نگرانی ہو رہی تھی ،حسن بن صباح نے کہا تھا کہ یہ خیال رکھا جائے کہ یہ شخص کہیں یہاں سے نکل نہ جائے۔
ابن مسعود ایک کشمکش میں مبتلا رہتا تھا، جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ،اسے ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر بصری خزانہ لے کر آ گیا تو اس کا پول کھل جائےگا، اس نے سوچ لیا تھا کہ حیدر بصری کو جھٹلانے کی پوری کوشش کرے گا لیکن آنے کی صورت میں خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح اسی کو سچا اور دیانتدار سمجھتا تھا، اس صورت میں حسن بن صباح کے منہ سے یہی الفاظ نکلنے تھے کہ اس شخص ابن مسعود کو لے جاؤ اور عبرتناک موت مار ڈالو۔
آخر ایک روز بلاوا آگیا ،ابن مسعود اندر سے کانپتا ہوا امام کے کمرے تک پہنچا، اس نے سینے میں خنجر اڑس لیا تھا ،اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ امام جب اسے سزائے موت سنائے گا تو وہ خنجر نکال کر امام کے دل میں اتار دے گا۔
آؤ ابن مسعود!،،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مجھے یہ تو خوشی ہے کہ تم سچے نکلے اور اب میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ تم سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو گئے ہو، لیکن اس اطلاع نے مجھے بہت دکھ دیا ہے کہ حیدر بصری اپنے ساتھیوں کے ساتھ سارا خزانہ لے اڑا ہے، معلوم ہوا ہے کہ وہ مصر جا رہا ہے، دن اتنے گزر گئے ہیں کہ اب اس کا تعاقب محض بیکار ہے۔
یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔ کیا مصر میں ہمارا کوئی آدمی نہیں؟
وہ انتظام تو میں کر ہی دوں گا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن یہ تو بہتے دریا کی تہہ میں سے سوئی ڈھونڈنے والی بات ہوگی ،مصر بہت بڑا ملک ہے جس کے کئی شہر اور قصبے ہیں، معلوم نہیں یہ بدبخت کہاں جا آباد ہو گا۔
یا شیخ الجبل !،،،،،،،ابن مسعود نے بڑی جاندار اور پُر اعتماد آواز میں کہا۔۔۔ اب میں وہ باتیں بھی کر سکتا ہوں جو پہلے آپ تک نہیں پہنچائی تھی ،حیدر نے سلجوقیوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ دریا کی طرف الموت کا ایک چور دروازہ ہے، اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس دروازے تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے، الموت کا محاصرہ ضرور ہی ہوگا اور سلجوقیوں کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ دریا والے دروازے سے اندر آئیں گے ۔
اندر سے دروازہ کون کھولے گا؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
ان کے ایک دو آدمی آپ کے پیروکاروں کے بہروپ میں قلعے میں پہلے ہی آ جائیں گے۔۔۔ ابن مسعود نے کہا ۔۔۔انہیں اس دروازے تک اندر سے پہنچنے کا راستہ معلوم ہوگا ،حیدر بصری نے انہیں بڑی اچھی طرح سمجھا دیا تھا ۔
وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔۔میں اس کا بندوبست کر لوں گا۔
ایک عرض ہے یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے کہا ۔۔۔آپ کا بندوبست یقیناً بے مثال ہو گا، لیکن وہ دروازہ میری ذمہ داری میں دے دیں پھر اس تک کسی کے پہنچنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو جائے گا، میں وسم کوہ میں بہت عرصے بعد پکڑا گیا اور اس سے پہلے میں وہاں اتنا زیادہ عرصہ رہا ہوں کہ فوج کے بیشمار چیدہ چیدہ آدمیوں کو پہچانتا ہوں، وہ کسی بھی بہروپ میں آئیں میں انہیں پہچان لونگا ،اس سے پہلے مجھے مرو جانے دیں ۔
وہاں جا کر کیا کرو گے ؟،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔۔۔ کیا پکڑے نہیں جاؤ گے؟
نہیں یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے جواب دیا ۔۔۔وسم کوہ میں مجھے بہت سے لوگ پہچانتے ہیں مرو میں نہیں ،میں مرو سے واقف ہوں اور کچھ عرصہ وہاں رہا ہوں لیکن لوگوں میں زیادہ اٹھا بیٹھا نہیں،،،،، سلطان محمد کا وزیراعظم ابونصر احمد الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اسے قتل کیا جا سکتا ہے، لیکن میں کہتا ہوں اسے قتل نہیں کریں گے اسے قتل کر دیا تو اس کی جگہ کوئی اور وزیراعظم بن جائے گا اور وہ حملے کی تیاری جاری رکھے گا بلکہ سلطان کو خوش کرنے کے لئے فوراً حملہ کر دے گا، میں نے یہ سوچا ہے کہ ابو نصر احمد کو زندہ رہنے دیا جائے اور اسے اپنے اثر میں لے لیا جائے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان محمد پر اس وزیراعظم کا اثر غالب ہے، ہم اس وزیراعظم کو اپنے جال میں لاکر سلطان محمد کو اپنے رنگ میں رنگ سکتے ہیں ۔
یہ کام کون کرے گا ؟
میں کروں گا یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے جواب دیا۔۔۔۔ آپ مجھے مرو جانے دیں ،اور میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔
زریں کون ہے؟
وہ میری سگی بہن ہے۔۔۔۔ ابن مسعود نے جواب دیا ۔۔۔آپ کو یاد نہیں رہا میرا باپ ہم دونوں کو آپ کی خدمت میں پیش کر گیا تھا، زریں جنت میں ہے اور میں اس کے ذریعے ابونصر احمد کو اپنے ہاتھ میں لے لونگا، بڑی ہی خوبصورت اور تیز طرار لڑکی ہے، وہاں میں اپنے آپ کو چھپا کر رکھوں گا، مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ابو نصر احمد جذباتی اور حسن پرست ہے اسے ہم شیشے میں اتار لیں گے ۔
حسن بن صباح گہری سوچ میں کھو گیا۔
آپ کو یاد ہوگا یا شیخ الجبل !،،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔۔ ہم نے ان کے ایک وزیر اعظم سعید الملک کو اپنے اثر میں لے ہی لیا تھا ،وہ بہت عرصہ ہمارے زیر اثر رہا تھا پھر نہ جانے کس غدار نے یہ راز فاش کردیا اور سلطان نے اس وزیراعظم کو جلاّد کے حوالے کردیا تھا ،ابو نصر کو بھی اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں آپ مجھے مرو جانے دیں اور یہ اجازت بھی دے دیں کہ میں زریں کو اپنے ساتھ لے جاؤں،،،،،،، ہاں یہ بھی یاد آیا یا شیخ الجبل!،،، آپ نے سلطان برکیارق کو بھی تو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا،،،،،،، اگر آپ میرا مشورہ قبول کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابو نصر احمد کو بھی اسی طرح آپ کی مٹھی میں دے دیں گے۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح بوڑھا ہو گیا تھا، اس میں پہلے والی بات نہیں رہی تھی ،وہ مشورے کم ہی سنا کرتا تھا، اس پر پے در پے چوٹ ہی ایسی پڑی تھی کہ اس کا دماغ کچھ کمزور ہو گیا تھا ،سب سے بڑی چوٹ تو یہ تھی کہ اس کا پیر و مرشد عبد الملک بن عطاش مرا نہیں بلکہ مار دیا گیا تھا، اور یوں لگتا تھا جیسے اس نے جو جادو حسن بن صباح کو سکھایا تھا وہ اس کے ساتھ ہی قبر میں چلا گیا تھا۔
یہ چوٹ بھی کم نہ تھی کہ اس کے اپنے فدائی جن پر اسے مکمل بھروسہ تھا اتنا زیادہ خزانہ لے کر غائب ہو گئے تھے، یہ تو اسے ابھی معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا ایک اور قابل اعتماد فدائی جس کا نام ابن مسعود تھا اور جو اس کے سامنے بیٹھا اسے مشورے دے رہا تھا اسے بہت بڑا فریب دے رہا تھا، اس فدائی کو یہ فریب کاری حسن بن صباح نے خود ہی سکھائی تھی ،اور وہ اس کا اور اس کے استادوں کا ہی شاگرد تھا ،یہ طلسم سامری تھا جو ابن مسعود سامری کے ہی خلاف استعمال کر رہا تھا ،حسن بن صباح جیسا ابلیس اس کا پورا پورا اثر لے رہا تھا۔
حسن بن صباح نے اسی وقت اپنے دو تین مشیروں کو بلایا اور ابن مسعود نے جو مشورے دیے تھے وہ ان کے آگے رکھے اور پوچھا کہ ان مشوروں پر عمل کیا جائے یا نہیں۔
کچھ دیر تک بحث مباحثہ چلا ابن مسعود نے مشیروں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا اور یہ فیصلہ لے لیا کہ ابن مسعود اپنی بہن زریں کو ساتھ لے کر مرو چلا جائے ،اور اس کے ساتھ دو آدمی بھیجے جائیں جو راستے میں ان کی حفاظت کریں کیونکہ اتنی حسین اور نوجوان لڑکی اسکے ساتھ جا رہی ہے،،،،، ابن مسعود نے انہیں بتایا تھا کہ وہ اپنے ان آدمیوں کو جانتا ہے جو مرو میں رہتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن مسعود یہ فیصلہ لے کر وہاں سے نکلا اور اپنی بہن زریں کی تلاش میں جنت کی طرف چلا گیا ،بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ جنت کا وہ علاقہ اس قدر حسین سر سبز اور شاداب تھا جو الفاظ کے احاطے میں آ ہی نہیں سکتا، وہاں کے پیڑ پودے اور پھول ایسے تھے جو عام طور پر دیکھنے میں نہیں آیا کرتے تھے، وہاں کے پرندے بھی کچھ ایسے تھے جن کا تعلق اس علاقے کے ساتھ نہیں تھا ،وہ دور دور سے لائے گئے تھے ،یہ رنگا رنگ پرندے تھے، وہاں سے ایک ندی گذرتی تھی جو بڑی ہی شفاف تھی ،عجوبہ یہ تھا کہ الموت بلندی اور بڑی ہی چوڑی چٹان پر آباد تھا، لیکن اس بلندی پر بھی یہ مصنوعی ندی بنا لی گئی تھی، دریا سے مصنوعی طریقوں سے پانی اوپر چڑھایا جاتا تھا اور یہ ندی جنت کے درمیان سے بل کھاتی گزرتی تھی۔
اس جنت میں جو حوریں گھومتی پھرتی شوخیاں کرتی اور ہنستی کھیلتی نظر آتی تھیں وہ اس زمین کی لڑکیاں لگتی ہی نہیں تھیں، اصل بات جو مورخوں نے لکھی ہے وہ یہ تھی کہ جسے اس جنت میں داخل کیا جاتا تھا اسے پہلے تھوڑی سی حشیش پلا دی جاتی تھی ،اور بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے علاوہ ایک خاص قسم کی جڑی بوٹی تھی جو حسن بن صباح کی دریافت تھی، اسے کسی کیمیاوی عمل سے گزار کر نشہ آور بنا دیا گیا تھا، اس کے علاوہ جنت میں کئی جگہوں پر اس جڑی بوٹی کو کاشت کر دیا گیا تھا ،جس کا اثر یہ تھا کہ اس کی خوشبو بھی نشہ طاری کردیتی تھی اس کے علاوہ اس جڑی بوٹی کا نشہ بھی پلا دیا جاتا تھا۔
اس کا اثر کچھ ایسا تھا کہ انتہائی بھدی اور بدنما چیزیں بھی بڑی ہی دل کش اور خوشنما لگتی تھیں۔
اپنی جانیں ہنستے کھیلتے ہوئے قربان کرنے والے فدائی اسی جنت کے نکالے ہوئے آدمی تھے، انہیں جب یہاں سے نکالا جاتا تھا تو وہ تڑپتے بحال ہوتے چیختے اور چلاتے تھے کہ انھیں یہاں سے نہ نکالا جائے، لیکن ان کی برین واشنگ اس حد تک ہو چکی ہوتی تھی کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ وہ فلاں جگہ جائیں فلاں کو قتل کرے پھر اسی خنجر سے اپنے آپ کو بھی قتل کردیں اور پھر وہ ہمیشہ اس جنت میں رہیں گے۔
ابن مسعود بھی اس جنت میں رہتا تھا اور یہاں سے نکل کر حشیش پیتا رہا تھا ،لیکن اس پر جنت کی حقیقت جس طرح بے نقاب ہوئی وہ بیان ہو چکی ہے،،،،،، اب ایک عرصے بعد اور ایک بدلے ہوئے نارمل انسان کی طرح وہ اس جنت میں اپنی بہن کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا تو اسے اپنے دل میں خلش سی محسوس ہو رہی تھی، اور ضمیر میں ایک کانٹا سا اتر گیا جس کی چبھن اسے بے چین کیے ہوئے تھی، اسے کئی لڑکیاں نظر آئیں اور وہ سب ایک ایک نوجوان کو ساتھ لیے عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی تھیں اور بعض بے حیائی کے مظاہرے کر رہی تھیں، ان کی ہنسی جلترنگ جیسی مترنم تھیں، ابن مسعود اپنے خون میں حرارت محسوس کرنے لگا جو وہ پہلے بھی محسوس کیا کرتا تھا، لیکن اب اس حرارت میں ایمان کی تپش تھی ۔
عمر اسے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی۔
اس نے رک کر ادھر دیکھا، اسکا نام عمر بن مسعود تھا، اسے ابن مسعود کہتے تھے، اور صرف اسکی بہن تھی جو اسے عمر کے نام سے پکارا کرتی تھی، اس نے ادھر دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی تو اسے اپنی بہن نظر آئی جو اسکی طرف دوڑتی آرہی تھی، وہ اس کی طرف چل پڑا۔
بہن قریب آ کر اس کے گلے لگ گئی اور اس نے بہن کو اپنے بازوؤں میں بھنیج لیا، لیکن بہن کا انداز اور ملنے کا طریقہ بہن والا نہیں تھا ،بہن کو یہ تو احساس تھا کہ یہ اس کا بھائی ہے لیکن اس رشتے کے تقدس کو وہ بھول چکی تھی، یہ تو ابن مسعود بھی بھول گیا تھا لیکن اب وہ آیا تو یہ احساس اس پر غالب تھا کہ یہ اس کی چھوٹی بہن ہے اور وہ اس کا بڑا بھائی ہے اور بڑے بھائی اپنی بہنوں کی عزت اور ان کے محافظ ہوا کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو جان بھی قربان کر دیا کرتے ہیں۔
وہ بہن کو ان حرکتوں سے روک نہیں رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ نہیں سمجھے گی، اور یہ ایسے نشے میں ہے جس پر خطبے واعظ اور آیات قرآنی ذرا سا بھی اثر نہیں کر سکتیں، بہن اسے گلے شکوے کے انداز سے کہہ رہی تھی کہ وہ اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا، اور وہ اسے ڈھونڈتی رہی ہے، بہن اسے ندی کے کنارے ایک خاص جگہ چلنے کو کہہ رہی تھی اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے کی بھی کوشش کر رہی تھی، لیکن ابن مسعود کے قدم اٹھ نہیں رہے تھے جیسے اس کے پاؤں زمین نے جکڑ لیے ہوں، وہ جانتا تھا کہ زریں اسے اس جگہ کیوں لے جا رہی ہے۔
میری بات سن لو زریں!،،،،،، ابن مسعود نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم دونوں کل صبح مرو جا رہے ہیں، تم جانتی ہو گی کہ مرو بڑا خوبصورت شہر ہے، اور ہم دونوں کچھ عرصہ وہاں رہیں گے۔
زریں نے اس سے پوچھا کہ ہم مرو کیوں جا رہے ہیں؟،،،،،،،،، ابن مسعود نے اسے بتایا کہ سلجوقی وزیراعظم کو اپنے قبضے میں لینا ہے، اور یہ کام زریں کرے گی، اس نے زریں کے ساتھ وہی بات کی جو حسن بن صباح کی ساتھ کر چکا تھا۔
یہ تمہاری ذہانت اور عقل کا امتحان ہوگا۔۔۔ابن مسعود نے کہا۔۔۔تم اس میں کامیاب ہو جاؤ گی تو شیخ الجبل تمہیں بہت اونچا درجہ دے دے گا ،بہت سی باتیں تمہیں پہلے بتا دی جائیں گی اور کچھ میں تمہیں مرو چل کر بتاتا رہوں گا۔
ابن مسعود نے بہن کو ذہنی طور پر بھی تیار کرلیا اور بہن خوش ہوگئی کہ وہ اس آدمی کے ساتھ جا رہی ہے جس کی محبت اس کے دل میں معجزن ہے، اس جنت میں کوئی لڑکی جو حور کہلاتی تھی کسی آدمی کے ساتھ دلی محبت نہیں کرتی تھی، لیکن زریں ابن مسعود کو دلی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر چاہتی تھی۔
یہ خون کا رشتہ تھا ،یہ الگ بات ہے کہ زریں اس خون کی کشش کو ہوس کا رنگ دے رہی تھی اور اس کے تقدس کو ذہن سے صاف کر چکی تھی، بلکہ اس کے ذہن سے یہ رشتے دھو دیئے گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک قافلہ مرو کی طرف جا رہا تھا ،پانچ گھوڑے تھے، ایک پر ابن مسعود دوسرے پر اس کی بہن زریں، تیسرے اور چوتھے گھوڑے پر دو باطنی سوار تھے، اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان اور زادراہ تھا ،زریں نقاب میں تھی، جو دو آدمی ابن مسعود کے ساتھ جارہے تھے وہ مرو سے بڑی اچھی طرح واقف تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس شہر میں باطنی کہاں کہاں رہتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں، زادِ راہ میں حشیش اور دوسری جڑی بوٹی کا نکالا ہوا پانی خاصی تعداد میں ساتھ تھا۔
یہ دونوں باطنی بہت خوش تھے کہ ان کے ساتھ ایک حور جا رہی تھی، انہوں نے راستے میں ہنستے ہوئے دو تین بار ابن مسعود سے کہا تھا کہ ہم تین ہیں اور حور ایک ہے، ایک اور ہونی چاہیے تھی، راستے میں دو یا تین رات آئیں گی، انہیں معلوم نہیں تھا کہ ابن مسعود اب فدائی نہیں بلکہ اس لڑکی کا بڑا بھائی ہے جسے اس کے ساتھی حور کہہ رہے تھے اور اسے راستے میں آنے والی راتوں کی تفریح کا سامان سمجھ رہے تھے، ابن مسعود بڑی مشکل سے ان کی یہ باتیں برداشت کر رہا تھا وہ ذرا سا بھی اشارہ نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اب فدائی نہیں کچھ اور ہے، اس نے اپنی بہن کو دیکھا وہ ان دونوں کے باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
پہلے دن کا سورج غروب ہوگیا، مختصر سا یہ قافلہ کچھ دیر چلتا رہا آخر ایک خوشنما جگہ رات گزارنے کے لئے رک گیا ،انہوں نے کھانے پینے کا سامان کھولا اور اس کے ساتھ نشہ بھی پیالوں میں ڈالا اور کھانے پینے لگے، پھر وہ سونے کی جگہیں دیکھنے لگے۔
ابن مسعود نے دونوں ساتھیوں کو الگ لے جا کر کہا کہ آج رات اس لڑکی کو آرام کرنے دیں، اس نے آج پہلی بار اتنی لمبی اور تھکا دینے والی گھوڑ سواری کی ہے، اس لیے اس کی تھکن کو ہم سمجھ سکتے ہیں جو مرد ہو کر بھی اتنے تھک گئے ہیں، اس نے کہا کہ یہ لڑکی ہماری اپنی ملکیت ہے کہیں بھاگ تو نہیں جائے گی،،،،،، اس نے اس طرح کی باتیں کرکے اپنے ساتھیوں کو راضی کر لیا کہ وہ آج رات خود بھی آرام کریں گے اور لڑکی کو بھی پورا آرام کرنے دیں گے۔
ابن مسعود نے زریں کو ایک ہموار جگہ پر بستر بچھا کر سلا دیا اور اپنا بستر اس کے قریب ہی بچھایا، کسی ایک کو تو لڑکی کے قریب ہونا چاہیے تھا ،دوسرے دونوں آدمیوں نے اپنے بستر خاصی دور بچھائے، اور ایک نے ازراہ مذاق کہا کہ اپنی حور سے آج رات دور ہی رہیں تو اچھا ہے ،انہیں دراصل ابن مسعود نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اس جگہ سوئے جہاں انہوں نے بستر بچھائے تھے۔
وہ لیٹے اور دن بھر کی تھکن نے انہیں بڑی جلدی گہری نیند میں مدہوش کر دیا، لیکن ابن مسعود جاگ رہا تھا نیند نے اس پر نہیں بلکہ اس نے نیند پر غلبہ پا لیا تھا ،اس رات اسے ایک ضروری کام کرکے سونا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ رات آدھی گزر جائے، چاند اوپر اٹھتا آرہا تھا اور چاندنی میں اسے اپنی بہن سوئی ہوئی نظر آرہی تھی، زریں گناہوں کا ایک بڑا ہی خوبصورت پتلا تھی، پھر بھی ابن مسعود کو اس کے خفتہ چہرے پر معصومیت نظر آرہی تھی، اس کے آنسو نکل آئے اسے اپنی ماں یاد آئی جو مر گئی تھی، پھر اسے اپنا باپ یاد آیا جو ان دونوں بچوں سے بڑا ہی پیار کرتا تھا لیکن بچوں کی قسمت یوں پھوٹی کے باپ حسن بن صباح کو نبی مانتا تھا، ابن مسعود کو وہ وقت یاد آیا جب اس کی یہ بہن پیدا ہوئی تھی، اور وہ اسے ایک زندہ کھلونا سمجھا کرتا تھا ،پھر بہن بڑی ہوتی گئی اور دونوں بڑے پیار سے ہنستے کھیلتے جوان ہوئے تھے، مگر قسمت انہیں کہاں اور کس روپ میں لے آئی۔
ماضی کی جھلکیاں ذہن میں آئیں تو ابن مسعود کا خون کھولنے لگا، ابن مسعود کا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا جو اس کے بستر پر پڑی تھی، وہ وقت ہو گیا تھا جس وقت کے انتظار میں وہ سویا نہیں تھا، اس نے تلوار اٹھا لی اور بڑے آرام سے نیام سے نکالی، نیام بستر پر رکھی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ ننگے پاؤں اس طرح اپنے ساتھیوں کی طرف چلا جس طرح بلّی یا شیرنی اپنے شکار کی طرف بڑھتی ہے کہ ذرا سی بھی آواز پیدا نہ ہو۔
اس طرح دبے پاؤں اور پھونک پھونک کر پاؤں رکھتے ابن مسعود اپنے ساتھیوں کے سر پر جا پہنچا ساتھی، بڑی ہی گہری نیند سوئے ہوئے تھے دونوں کے درمیان ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ تھا، ابن مسعود ایک ساتھی کے قریب صحیح زاویے پر کھڑا ہوگیا۔
وہ اس ساتھی پر جھکا، تلوار کی دھار اس کی شہہ رگ پر رکھی اور اس جوانی میں اس کے جسم میں جتنی طاقت تھی وہ طاقت لگا کر تلوار دبائی اور آگے پیچھے کھینچی اور ایک دو سیکنڈ میں باطنی کی گردن کاٹ دی، باطنی تڑپنے لگا۔
اس نے انتظار نہ کیا اور ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر زور دار وار کر کے دوسرے باطنی کی گردن بھی کاٹ دی ،اس نے پہلے ساتھی کو اس لئے بکرے کی طرح ذبح کیا تھا کہ تلوار زور سے مارتا تو اس کی آواز سے دوسرا ساتھی جاگ اٹھتا۔
اس نے تلوار زمین پر رگڑی پھر درختوں کے پتے توڑ کر تلوار پر پھیرے کہ اس پر خون کا داغ دھبہ نہ رہے، وہ عجیب سا سکون اور اطمینان محسوس کرنے لگا اور اپنے بستر پر آکر تلوار نیام میں ڈالی اور سو گیا۔
صبح طوع ہوئی تو ابن مسعود جاگ اٹھا ،زریں ابھی تک سوئی ہوئی تھی ،ابن مسعود اسے جگانے لگا ،آگے کو سفر کرنا تھا لیکن اس نے ہاتھ کھینچ لیا اس نے سوچا یہ اور سو لے، اسے کوئی جلدی نہیں تھی وہ اپنی بہن کو گناہوں کی دنیا سے نکالنا چاہتا تھا ،وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا ،وہ اپنی سوئی ہوئی بہن کو دیکھتا رہا ،قتل کر دینا اور قتل ہوجانا اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، وہ مطمئن اور مسرور تھا کہ اس نے دو گنہگاروں سے اپنی بہن کی عزت بچالی تھی۔
آخر زریں جاگ اٹھی اور اٹھ بیٹھی، ابن مسعود کھانے پینے کا سامان لے آیا ،ذریں اٹھ کر ایک طرف چلی تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں کیا وہ ابھی تک جاگے نہیں؟
وہ کبھی نہیں اٹھیں گے۔۔۔ ابن مسعود نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ میرے ساتھ آؤ میں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے۔
ابن مسعود زریں کو اپنے ساتھ اس جگہ لے گیا جہاں ان کے دونوں ساتھیوں کی سر کٹی لاش پڑی ہوئی تھیں، زریں لاشوں کو دیکھ کر ڈری نہیں، گھبرائی نہیں بلکہ خاموشی سے ابن مسعود کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، زریں نے ایسی کٹی لاشیں دیکھی تھیں، الموت میں اس نے کئی بار جلاد کو سب کے سامنے لوگوں کے سر قلم کرتے دیکھا تھا ۔
انہیں میں نے شیخ الجبل کے حکم سے قتل کیا ہے۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔ شیخ الجبل نے مجھے کہا تھا کہ تمہارے ساتھ ایک لڑکی جارہی ہے نہ تم نے اسے کسی اور نیت سے ہاتھ لگانا ہے نا یہ دو آدمی لڑکی کو راستے میں تفریح کا ذریعہ بنائیں، تمہیں ہم کسی اور مقصد کے لئے لے جا رہے ہیں، شیخ الجبل نے کہا تھا کہ راستے میں تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی کو تفریح کے لیے استعمال کرے تو اسے دوسرے وہیں قتل کردیں،،،،،، یہ دونوں تمہارے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے، اور دن کو راستے میں تم نے سنا تھا کہ یہ کیسی باتیں کرتے آرہے تھے، میں نے انہیں رات سوتے میں قتل کر دیا ہے۔
ابن مسعود نے زریں سے یہ نہ کہا کہ اس نے انہیں اس لیے قتل کیا ہے کہ تم میری بہن ہو، اور کوئی بھائی اپنی بہن کی عزت کے ساتھ کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اور کوئی آدمی اس طرح کی باتیں منہ سے نکالے گا تو بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑے گا، وہ جانتا تھا کہ زریں یہ بات نہیں سمجھ سکے گی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں تھی اور اس کا دماغ اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں تھا، ابن مسعود کو جھوٹ بولنا پڑا۔
زریں نے کچھ بھی نہ کہا ،جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں تھی کہ دو آدمی مارے گئے ہیں، وہ ابن مسعود کے ساتھ واپس اپنے بستر پر آئی، کچھ کھایا پیا اور دونوں نے بستر سمیٹے، اور اپنے مقتول ساتھیوں کی تلوار اور خنجر لیے اور یہ سارا سامان لے کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چل پڑے،لاشیں وہیں پڑے رہنے دیں، جنہیں جنگل کے درندوں اور گوشت خور پرندوں نے کھانا تھا۔
وہ دونوں پانچوں گھوڑے اپنے ساتھ لے جا رہے تھے، ابن مسعود نے زریں سے کہا کہ اب رفتار تیز کریں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں، زریں اتنی لمبی اور تیز رفتار گھوڑے کی سواری کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے اپنے بھائی کا کہنا مان لیا اور رفتار تیز کر دی۔
ایک اور رات آئی اور وہ رات گزارنے کے لیے رکے، بستر بچھائے اور کھانا کھایا، زریں نے حشیش پی اور اس وقت اس نے ابن مسعود سے پوچھا کہ وہ حشیش کیوں نہیں پی رہا ؟
ابن مسعود نے کوئی بہانہ پیش کردیا ،وہ نہیں چاہتا تھا کہ زریں بھی حشیش پئے ،لیکن ابھی اسے اس نشے سے محروم رکھنا خطرہ مول لینے والی بات تھی وہ جانتا تھا کہ نشے سے ٹوٹے ہوئے انسان کی حالت کیا ہو جاتی ہے، لیکن زریں کو حشیش پلائی تو اس نے اس کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا، اس کے دل میں ابن مسعود کی محبت موجزن تھی وہ محبت کا اظہار جسمانی طور پر کرنے کی عادی تھی اور یہی ایک طریقہ جانتی اور اسی کو جائز سمجھتی تھی، اس نے ابن مسعود کے ساتھ ایسا ہی اظہار کیا ،ابن مسعود نے بڑی ہی دشواری سے اسے اپنے جسم سے دور رکھا اور آخر یہ کہا کہ وہ شیخ الجبل کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کرے گا ،اور اس خلاف ورزی پر اس نے اپنے دو ساتھی قتل کر دیے ہیں۔
یہ ایک ایسی دلیل تھی جو زریں نے قبول کرلی ،یہ تو پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس کے دل سے خون کے رشتوں کا تقدس دُھل چکا تھا۔
یہ رات بھی گزر گئی یہ دن ان کے سفر کا آخری دن تھا، اس روز تو ابن مسعود نے گھوڑے دوڑا بھی دیے تھے، تاکہ سفر میں ایک اور رات نہ آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*