🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر تریسٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ سارا واقعہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو خواہ کسی نے ہی سرانجام دیا تھا ،یہ سالار اوریزی کے کام آیا ،اتنی بڑی کامیابی کو وہ اپنے تک ہی محدود نہیں رکھ سکتا تھا ،اس نے سلطان محمد کو اطلاع دینے کے لئے قاصد مرو بھیج دیا ،دوسرا قاصد سنجر کی طرف شاہ در بھیجا، سنجر بھی سلطان ہی تھا۔
سالار اوریزی کا قاصد سلطان محمد کے پاس پہنچا اور یہ پیغام سنایا تو سلطان محمد کچھ دیر تک اس کو دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو جیسے وہ قاصد کی بات نہ سمجھ سکا ہو، اسے توقع نہیں تھی کہیں سے اس قام کی خبر بھی آئے گی کہ حسن بن صباح کے آدمی بھی پکڑے جائیں گے، اور راز فاش کر دیں گے جو پتھر دل تھے، سلطان محمد کی حیرت زدگی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک دو روز پہلے اسے سنجر نے پیغام بھیجا تھا کہ بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا ہے، اس خزانے کے ساتھ دوسری اچھی خبر یہ تھی کہ حسن بن صباح کے دو بڑے ہی تجربے کار تخریب پکڑے گئے اور انہیں مگر مچھوں نے کھا لیا تھا۔
اس وقت حسن بن صباح کی سلطنت دور دور تک پھیل گئی تھی، اور وہ اس سلطنت کا بے تاج بادشاہ تھا ،کم و بیش ایک سو چھوٹے اور بڑے قلعے باطنیوں کے قبضے میں تھے، یہ کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی، یہ حسن بن صباح کے اثرات لوگوں نے اس انداز سے قبول کر رکھے تھے کہ حسن بن صباح دلوں پر راج کرتا تھا ،تاریخ نویسوں نے بھی اس کے زیر اثر علاقوں کو اس کی سلطنت ہی لکھا ہے،،،، اتنی بڑی سلطنت میں حسن بن صباح کے دو چار تخریب کاروں اور فدائیوں کا مارا جانا کوئی ایسا نقصان نہیں تھا کہ حسن بن صباح کے بازو اور اس کے اثرات کمزور ہوجاتے، اس کے پاس پچاس ہزار سے زائد فدائی تھے، لیکن نور کے باپ نے جس طرح خزانہ حاصل کرلیا تھا اور اس کے تخریب کاروں کو مگرمچھوں کے حوالے کردیا تھا، اور پھر عبید عربی نے جو پردے اٹھائے اور دو باطنیوں کو سزائے موت دلوائی تھی ،اور پھر ابن مسعود کا واقعہ تھا، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سلطان محمد سلطان سنجر ،اور سالار اوریزی اور ان کے دیگر سالاروں کے حوصلوں میں جان آگئی، اور ان سب نے ان واقعات کو خدائی اشارہ سمجھا کہ فتح حق پرستوں کی ہوگی۔
ادھر الموت میں وسم کوہ سے بھاگا ہوا باطنی حسن بن صباح کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وسم کوہ میں کیا انقلاب آگیا ہے، اس نے تفصیل سے بتایا کہ عبید عربی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا اس نے اپنے دو آدمی سالار اوریزی سے قتل کروا دئیے ہیں اور پھر ایک اور پرانے فدائی ابن مسعود نے وسم کوہ کے تمام باطنیوں کو پکڑوا دیا ہے، لیکن وہ پکڑے نہیں گئے بلکہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح اس قسم کی خبروں سے کبھی پریشان نہیں ہوا تھا لیکن اب اسے ایسی خبر ملتی تھی تو وہ گہری سوچ میں کھو جاتا اور اس کے چہرے پر رنج و الم کا تاثر آ جاتا تھا ،اس کی ایک وجہ تو عمرتھی، وہ خاصا بوڑھا ہوچکا تھا، دوسری وجہ اس کے پریشان ہونے کی یہ تھی کہ اس نے ابھی تک اپنی فوج نہیں بنائی تھی، فوج سے مراد تربیت یافتہ لشکر تھا جسے وہ میدان جنگ میں لڑا سکتا، اس کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی اور اس کے فدائی اس کے اشارے پر اپنی جان قربان کر دیا کرتے تھے، لیکن وہ صرف چھری چاقو چلانا جانتے تھے اور لوگوں کو دھوکے میں لا کر قتل کرنے کے فن کے ماہر تھے، اس نے تھوڑے عرصے سے اپنے مشیروں اور مصاحبوں سے کہنا شروع کردیا تھا کہ باقاعدہ فوج تیار کی جائے جو باقاعدہ جنگ کی تربیت یافتہ ہو ،وہ مشیروں سے کہتا تھا کہ سلجوقی ایک نہ ایک دن الموت پر حملہ ضرور کریں گے، الموت کا قلعہ ناقابل تسخیر تھا ،ایک تو وہ وسیع و عریض چٹان پر بنایا گیا تھا، اور اس کے تین طرف دریا تھا ،لیکن وہ بے خبر نہیں تھا کہ مسلمان قربانی دینے پر آگئے تو وہ اس قلعے میں داخل ہوجائیں گے۔
اس نے اسی وقت اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا اور بتایا کہ وسم کو میں کیا ہوا ہے ،اور ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی پیروکار اس طرح غداری نہ کرے، کچھ دیر مشورے اور بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ہر شہر اور قصبے میں دو دو فدای بھیج دیئے جائیں، جو وہاں اپنے آدمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے ملتے ملاتے رہیں، اور جہاں کہیں شک ہو کہ فلاں شخص غداری کرے گا کسی ثبوت کے بغیر اس شخص کو قتل کر دیا جائے۔
جب سے حسن بن صباح کا پیر استاد عبد الملک بن عطاش قتل ہوا تھا حسن بن صباح کچھ مغموم سا رہنے لگا تھا شاید وہ تنہائ محسوس کر رہا تھا،،،،،، وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا آدمی حسن بن صباح کو ساری بات سنا چکا تو حسن بن صباح کو اپنا پیر و مرشد بہت یاد آیا، اس پر کبھی کوئی مشکل آ پڑتی تو وہ اپنے مرشد کی طرف قاصد بھیج کر مشورہ لے لیتا یا اسے اپنے ہاں بلا لیتا تھا ،اب وسم کوہ کی یہ خبر سن کر اسے اپنا پیر و مرشد عبد الملک بن عطاش یاد آیا ،لیکن اب اسے اپنے مرشد سے زیادہ خزانہ یاد آیا جسے نکلوانے کے لیے اس نے قاصد کو حاذق کے پاس بھیجا تھا اور حاذق نے قاصد کو یقین دلایا تھا کہ وہ کچھ دنوں بعد وہ خزانہ امام حسن بن صباح کے قدموں میں لا رکھے گا، بہت دن گزر گئے تھے شاہ در سے حاذق نے کوئی اطلاع نہیں بھیجی تھی کہ اس نے خزانہ نکال لیا ہے یا نہیں ،اسے یہ خیال آ رہا تھا کہ خزانہ حاذق نکال چکا ہوتا تو اب تک وہ الموت پہنچ گیا ہوتا، حاذق نے خزانہ شاہ در تو نہیں لے جانا تھا۔
حسن بن صباح کو شک ہونے لگا کہ حاذق دھوکا نہ دے گیا ہو، وہ جانتا تھا کہ خزانہ ایسی چیز ہے جو باپ بیٹے کو اور سگے بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے،،،،،، وسم کوہ سے بھاگا ہوا آدمی ابھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، حسن بن صباح کے دو تین مصاحبین بھی وہاں موجود تھے، اس نے ان کے ساتھ شاہ در کے خزانے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ خزانہ مرشد عبد الملک بن عطاش چھپا گیا تھا، اور دو آدمی اس خزانے کی اصل جگہ سے واقف تھے اور اس جگہ تک پہنچنے کا راستہ صرف ان دو کو معلوم تھا، لیکن ابھی تک وہ دونوں نہیں پہنچے۔
یا امام !،،،،،ایک مصاحب نے کہا ۔۔۔زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ خزانے کا معاملہ ہے، اس آدمی کو ایک بار پھر شاہ در بھیجیں اور وہ حاذق سے مل کر واپس آئے اور بتائے کہ وہ کیا کر رہا ہے،،،،،،، ہوسکتا ہے حاذق وہاں موجود ہی نہ ہو، اگر وہ شاہ در سے جاچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خزانہ نکال کر کہیں غائب ہو گیا ہے، یا وہ زندہ ہی نہیں۔
ہمارا آدمی شاہ در تک ہی جا سکتا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ یہ تو ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ خزانہ ہے کہاں۔
مجھے معلوم ہے یا شیخ الجبل!،،،،،، وسم کوہ سے بھاگ کر جانے والے آدمی نے کہا۔۔۔۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں نے ایک لمبا عرصہ شاہ در میں گزارا ہے ،اور میں حاذق کے ساتھ رہا ہوں ،اور ہمارے پیر استاد عبد الملک بن عطاش مجھ پر پورا اعتماد رکھتے تھے، کیا یہ بہتر نہیں کہ میں شاہ در چلا جاؤں؟
حسن بن صباح تو خوشی سے اچھل پڑا ،اسے تو توقع ہی نہیں تھی کہ کوئی اور بھی اس خزانے سے واقف ہو گا جو اس کا پیرومرشد نہ جانے کتنے عرصے سے کہیں رکھ رہا تھا، اس نے اس آدمی سے کہا وہ فوراً شاہ در کو روانہ ہو جائے۔
یا شیخ الجبل !،،،،،ایک معمرمصاحب نے کہا۔۔۔ اگر یہ شخص خزانے والی جگہ سے واقف ہے تو اس کے ساتھ دو تین آدمی بھیج دیئے جائیں، اگر حاذق شاہ در میں نہ ملے تو یہ شخص خزانے والی جگہ چلا جائے اور دیکھے وہاں کچھ ہے بھی یا نہیں، اگر حاذق بھی نہیں اور خزانہ بھی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ یہ مال و دولت حاذق لے اڑا ہے۔
حسن بن صباح نے اسی وقت یہ انتظام کرنے کا حکم دے دیا ،اس نے دوسرا حکم یہ دیا کہ خزانہ اگر حاذق نے نکال لیا ہے تو وہ جہاں کہیں نظر آئے اسے قتل کردیا جائے،،،،،، باطنیوں اورخصوصاً فدائیوں کے لیے اپنے دشمن کو ڈھونڈ نکالنا کوئی مشکل کام نہیں تھا ،وسم کوہ سے بھاگ کر آنے والا یہ جوانسال آدمی جس کا نام حیدر بصری تھا دو روز بعد دو آدمیوں کو ساتھ لے کر شاہ در کے لئے روانہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت مرو میں فوجی سرگرمیاں عروج کو پہنچی ہوئی تھیں، حسن بن صباح کی طاقت کو کچلنے کے لیے ایک فوج تیار ہو رہی تھی، لوگ اس فوج میں شامل ہو رہے تھے اور انہیں جنگ کی تربیت دی جا رہی تھی، اب اس فوج کا ہدف قلعہ الموت تھا ،سب جانتے تھے کہ الموت کو فتح کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے ،فوج کو ذہن نشین کرایا جارہا تھا کہ قلعہ الموت کی ساخت کیسی ہے اور شکل و صورت کیسی ہے، اور وہ کس طرح ایک چٹان پر بنایا گیا ہے، اور اس کے دروازے تک پہنچنے میں کیسی کیسی دشواریاں اور خطرے حائل ہیں۔
یہ حکم تو سلطان محمد کا تھا کہ ایسی فوج تیار کی جائے جس کی نفری کم نہ ہو ، اور اگر کم ہو بھی تو اس میں ایسا جذبہ اور ایسی اہلیت اور صلاحیت ہو کہ اگلی جنگ کو فیصلہ کن بنا سکے، اور اس کے بعد باطنی فرقے کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہو، لیکن سلطان محمد ضرورت سے زیادہ محتاط تھا، وہ ابھی اس فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا، سلطان محمد کا وزیر ابونصر احمد تھا، ابونصر احمد سلطان محمد کے باپ سلطان ملک شاہ کے وزیر خواجہ حسن طوسی نظام الملک مرحوم کا چھوٹا بیٹا تھا، ابو نصر احمد اپنی نگرانی میں یہ فوج تیار کروا رہا تھا ،اور وہ اس کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن تھا، اس معاملے میں وہ سلطان محمد سے اتفاق نہیں کرتا تھا ،اس کا ارادہ یہ تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کردیا جائے تاکہ حسن بن صباح کو مزید تیاری کا موقع نہ ملے۔
سلطان محمد اسے ابھی حملے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ،لیکن ابو نصر احمد کا باطنیوں کے خلاف جذبہ بڑا ہی شدید تھا ،اور کبھی کبھی تو وہ جذباتی بھی ہو جایا کرتا تھا، ایک تو مسلمان کی حیثیت سے وہ حسن بن صباح کو ابلیس کہتا ہے اور اس سے شدید نفرت کرتا تھا ،اور اس کے ساتھ ابونصر احمد حسن بن صباح کو اپنا ذاتی دشمن بھی سمجھتا تھا ،پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ ابو نصر احمد کے باپ نظام الملک مرحوم کو حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کیا تھا ،پھر ابو نصر احمد کا بڑا بھائی ابو المظفر علی وزیر بنا تو اسے بھی ایک فدائی نے قتل کر دیا تھا، ابونصر احمد اپنے باپ اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کو بے تاب تھا۔
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو نصر احمد کی یہ ایک خامی تھی کہ وہ جذبے میں جذبات کو شامل کر لیتا تھا، اور پھر بھول جاتا تھا کہ جنگ میں کچھ احتیاط بھی لازمی ہوتی ہیں۔
اب ابونصر احمد کو خبر ملی کہ وسم کوہ میں حسن بن صباح کے دو فدائی صراط مستقیم پر آکر حسن بن صباح سے متنفر ہو گئے ہیں، تو وہ اپنے کسی خیال کے پیش نظر وسم کوہ جانے کے لیے بے تاب ہو گیا ،اس نے سلطان محمد سے اجازت چاہی اور ساتھ یہ وجہ بتائی کہ وہ ان دونوں فدائیوں سے قلعہ الموت کے اندر کی باتیں معلوم کرے گا جو حملے میں ہمارے کام آئیں گی ،سلطان محمد نے اسے اجازت دے دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز ابو نصر احمد محافظ دستے کے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ وسم کوہ روانہ ہوگیا، اس کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی، اس مسافت کو کم کرنے کے لیے اس نے گھوڑوں کی رفتار تیز رکھی اور اپنے محافظوں سے کہا کہ شام سے پہلے کہیں پڑاؤ نہیں کیا جائے گا،،،،،، گھوڑے دن بھر چلتے رہے اور شام کو پہلا پڑاؤ کیا ،گھوڑوں کو کھلایا پلایا گیا اور خود بھی کھا پی کر تھوڑا سا آرام کیا اور آدھی رات سے کچھ بعد ابونصر احمد نے روانگی کا حکم دیدیا ،اس طرح اگلے روز کے پچھلے پہر یہ قافلہ وسم کوہ پہنچ گیا۔
سالار اوریزی ابو نصر احمد کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا وہ بھی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا کہ الموت پر فوراً حملہ کیا جائے، لیکن دونوں مجبور تھے کیونکہ سلطان اجازت نہیں دے رہا تھا ،رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی ابونصر احمد کے کہنے پر سالار اوریزی نے ابن مسعود کو بلایا اور اس کا تعارف ابو نصر احمد سے کروایا۔
سالار اوریزی نے ابن مسعود کے جذبات اور باقی ساری باتیں ابونصر احمد کو سنائیں، ابو نصر احمد نے بے تحاشا خراج تحسین پیش کیا اور اسے کہا کہ وہ اسے اپنی فوج میں بڑا عہدہ دے گا۔
مجھے کسی چھوٹے بڑے عہدے کی خواہش نہیں۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔ قابل احترام سالار اوریزی نے آپ کو بتا دیا ہے کہ میرا عزم کیا ہے اور میرے سینے میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے، میں حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کروں گا اور اپنی بہن کو واپس لاؤں گا۔
کیا تمہاری بہن تمہارے کہنے پر تمہارے ساتھ آ جائے گی؟،،،،، ابو نصر احمد نے پوچھا۔
نہیں!،،،،،، ابن مسعود نے جواب دیا۔۔۔ میں تو نشے کی کیفیت سے نکل کر ہوش و حواس میں آگیا ہوں، لیکن میری بہن اسی کیفیت میں ہوگی جس میں اسے رکھا جاتا ہے، وہ تو مجھے پہچانے گی ہی نہیں ،اگر پہچان بھی لے گی تو مجھے اپنا بھائی تسلیم نہیں کرے گی اسے اٹھا کر لانا پڑے گا۔
یہ کام اکیلے نہیں کر سکو گے ۔۔۔ابو نصر احمد نے کہا۔۔۔۔ یہ ایک فوج کا کام ہے اور فوج بھی ایسی جو بہت ہی طاقتور ہو،،،،،،،،،،میں نے ایسی فوج تیار کرلی ہے، میں تمہیں اس فوج کے ساتھ لے جاؤں گا اور تم میری رہنمائی کرو گے ،مجھے یہ بتاؤ کہ قلعے کا محاصرہ کر کے ہم قلعے میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں اور جب داخل ہو جائیں گے تو اندر ہمارا کیسا مقابلہ ہوگا۔
اصل مقابلہ تو اندر ہوگا۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ الموت میں داخل ہونا ناممکن ہے تو آپ شاید تسلیم نہ کریں، الموت ایک قلعہ بند شہر ہے جو ایک چٹان پر کھڑا ہے، اگر آپ نے یہ باہر سے دیکھا ہے تو آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ محاصرہ کیسے کریں گے ،محاصرہ چٹان کے نیچے ہو گا جس سے اندر والوں کو یہ تکلیف پہنچا سکیں گے کہ باہر سے رسد اندر نہیں جا سکے گی اور اندر سے کوئی باہر نہ آ سکے گا ،یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ چٹان کے دامن میں کھڑے ہو کر تیر پھینکیں اور وہ قلعے کی دیواروں تک پہنچ جائیں۔
دروازے کیسے ہیں؟،،،،، ابو نصر احمد نے پوچھا۔
بہت مضبوط! ۔۔۔۔ابن مسعود نے جواب دیا۔۔۔ چٹانوں جیسے مضبوط بڑی موٹی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں، اور ان پر لوہے کے خول چڑھے ہوئے ہیں،،،،،،،، قابل صد احترام وزیرٰ!،،،، الموت قدرت کا ایک شاہکار ہے، یا اسے ایک عجوبہ سمجھیں، یقین نہیں آتا کہ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر ہوا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ چٹان کا ایک حصہ ہے اور اسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، آپ حسن بن صباح کی دانش اور عقل تک نہیں پہنچ سکتے، محاصرے میں نقصان آپ کا ہوگا، وہ اس طرح کے اوپر سے جو تیر نیچے آئیں گے وہ خطا نہیں جائیں گے۔
قلعے میں داخل ہونے کی ایک ہی صورت ہے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ اندر کچھ آدمی ہوں جو حسن بن صباح کے مخالف اور ہمارے حامی ہوں، وہ اندر سے دروازے کھول دیں ،یا ایک ہی دروازہ کھول دیں۔
الموت کے اندر آپ کو کوئی ایک بھی انسان حسن بن صباح کا مخالف نہیں ملے گا۔۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔وہ تو آپ کے مقابلے میں جانوں کی بازی لگا دیں گے، آپ کو کوئی غدار نہیں ملے گا ،البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ابھی سے کچھ آدمی باطنیوں کے بہروپ میں الموت میں داخل کر دیں، یہ آدمی یہ ظاہر کرتے رہیں گے کہ وہ حسن بن صباح کے مرید یا پیروکار ہی نہیں بلکہ اس کے شیدائی ہیں، لیکن محترم سالار آپ کسی پتھر دل آدمی کو بھی اندر بھیج دیں تو وہ چند دنوں کے اندر ہی اندر آپ کا آدمی نہیں رہے گا، الموت میں ایسے آدمی موجود ہیں جو کسی مشکوک کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انھوں نے اس شخص کا ضمیر اور اس کی روح بھی دیکھ لی ہو، اسے وہ قتل نہیں کرتے بلکہ جنت میں داخل کر دیتے ہیں، پھر وہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے، اور جب وہ باہر نکلے گا تو اس عزم کے ساتھ نکلے گا کہ آپ کو قتل کردے ۔
تم نے الموت میں تیس سال گزارے ہیں۔۔۔ ابو نصر احمد نے کہا ۔۔۔کیا تم کوئی طریقہ نہیں سوچ سکتے، ہمارے پاس ایسے جاں باز موجود ہیں جو اپنی جانیں قربان کر دیں گے، لیکن صرف جان قربان کردینے سے ہی کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا ،اپنا مقصد پورا ہو جائے اور جان چلی جائے تو ہم لوگ کہتے ہیں کہ شہیدوں کا لہو رنگ لایا کرتا ہے ۔
میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اندر کیا ہے اور یہ قلعہ کس مقام کا ہے۔۔۔ابن مسعود نے کہا۔۔۔ آپ کی فوج قلعے میں داخل ہو بھی گئی تو اصل لڑائی قلعے کے اندر ہوگی،عموماً یوں ہوتا ہے کہ فاتح فوج قلعے میں داخل ہوتی ہے تو قلعے کی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے، یا شہر کی آبادی اپنی فوج کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ فاتح فوج شہر کو تباہ کر دے گی، لیکن الموت میں معاملہ الٹ ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی فوج کو اندر کھینچنے کے لیے خود ہی دروازے کھول دیئے جائیں گے، اور آپ اس خوش فہمی میں اندر چلے جائیں کہ آپ نے قلعہ سر کرلیا ،تو یہ ایک بڑا ہی خطرناک پھندہ ہوگا ،جس میں آپ کی فوج پھنسا کر تباہ و برباد کر دی جائے گی، قلعے کے اندر آپ کو بھول بھلیاں ملیں گی ،ان میں سے وہی گزر سکتا ہے جو ان سے واقف ہو، اجنبی ان بھول بھلیوں میں بھٹک جاتے ہیں، قلعے اور شہر کے نیچے چٹان کاٹ کاٹ کر وسیع تہہ خانے بنے ہوئے ہیں، اور ان میں جو بھی راستے ہیں وہ بھول بھلیوں جیسے ہیں، اندر جاکر آپ کی فوج بکھر جائے گی یا فرد فرد بکھر جائیگی، پھر فدائی اور دوسرے باطنی آپ کی فوج کو کاٹ دیں گے۔
ابن مسعود اچھا خاصا تجربے کار اور ہوشمند معلوم ہوتا تھا ،وہ ہر بات جنگی نقطہ نگاہ سے کر رہا تھا ،ابو نصر احمد اور سالار اوریزی اس سے جو تفصیلات معلوم کر رہے تھے وہ سب جنگی نوعیت کی تھی، وہ سالاروں کی نگاہ سے الموت کے اندرونی ماحول کو دیکھ رہے تھے ۔
مگرمچھ بڑا ہی خوفناک جانور ہوتا ہے۔۔۔ابن مسعود نے کہا۔۔۔ جانور نہیں میں تو اسے درندہ کہوں گا ،اس پر نہ تیر اثر کرتا ہے نہ برچھی نہ تلوار لیکن اسکا بھی ایک نازک حصہ ہوتا ہے اور وہ ہے اس کا پیٹ، وہاں ذرا سا چاقو مارو تو مگرمچھ بے بس ہو جاتا ہے، اسی طرح قلعہ الموت ایک پہاڑ نظر آتا ہے، جسے زلزلے کے شدید جھٹکے بھی راستے سے نہیں ہٹا سکتے ،لیکن اس میں بھی ایک دو کمزوریاں ہیں ،ایک کمزوری اس شہر کی آبادی ہے ،یہ لوگ آپ کی فوج کے خلاف لڑیں گے لیکن جلدی حوصلہ ہار جائیں گے، اصل لڑنے والے فدائی ہیں جن کی تعداد ہزار ہا ہے، اور وہ پورا ایک لشکر ہے لیکن یہ لشکر پراسرار قتل اور خودکشی میں مہارت رکھتا ہے ،یا چھری چاقو چلا سکتا ہے، ان لوگوں کو امام نے حکم دے رکھا ہے کہ ہتھیار ڈالنے یا پکڑے جانے سے بہتر یہ ہے کہ خود کشی کر لو، یہ لوگ جانوں کی بازی لگا کر آپ کا مقابلہ کریں گے، لیکن جوں ہی دیکھیں گے کہ مقابلہ آسان نہیں تو اپنی تلوار اور خنجر اپنے ہی جسموں میں اتار لیں گے، لیکن یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب آپ کی فوج بھی اس طرح جانوں کی بازی لگا کر یا یوں کہیں کی دیوانگی کے عالم میں لڑے گی اور ان لوگوں پر غالب آجائے گی,,,,,,,,,
اب میں آپ کو الموت کا وہ پیٹ دکھاتا ہوں جو مگرمچھ کی طرح بہت ہی نازک ہے، وہاں آپ چاقو کی نوک سے کھال چیر کر اسے بے بس بھی کر سکتے ہیں اور اس میں داخل بھی ہو سکتے ہیں، یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ الموت کے تین اطراف دریا بہتا ہے، اس کے پچھلے حصے میں جو چٹان ہے اس کے نیچے دامن میں ایک دروازہ چٹان کاٹ کاٹ کر بنایا گیا ہے، وہاں سے دریا چٹان کے ساتھ ٹکرا کر گزرتا ہے ،یہ دروازہ جو ایک غار کے دہانے جیسا ہے تقریباً آدھا دریا میں ڈوبا رہتا ہے، اندر کی طرف بڑا ہی مضبوط دروازہ لگایا گیا ہے جو اندر سے مقفل رہتا ہے، دریا کا پانی اس دروازے تک آ جاتا ہے اور اگر دروازہ کھولا جائے تو پانی اور اندر آ جاتا ہے، لیکن آگے راستہ دریا کی سطح سے اونچا بنایا گیا ہے اس لئے پانی آگے تک نہیں آ سکتا، اس دروازے تک پہرا بھی ہوتا ہے لیکن بہت اندر کی طرف سنتری گشت کرتا ہے، یہ قلعے کا تہہ خانہ ہے، جس میں اترو تو آگے بھول بھلیاں آ جاتی ہیں، ان میں سے وہی اس دروازے پر پہنچ سکتا ہے جو ان بھول بھلیوں سے واقف ہو۔
یہ دروازہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے؟،،،،، ابو نصر احمد نے کہا۔
نکل بھاگنے کے لیے۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں فدائیوں کے اس درجے تک پہنچ گیا تھا جس درجے کے ہر فدائی کو قلعے کے بہت سے راز بتا دیے جاتے ہیں، میں نے یہ ساری بھول بھلیاں اور یہ راستے دیکھے ہوئے ہیں، دریا کی طرف یہ چور دروازہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ قلعہ کوئی طاقتور فوج فتح کرلے تو حسن بن صباح اور اس کے قریبی مصاحب مشیروں وغیرہ اس دروازے سے بھاگ نکلیں، دروازے سے کچھ دور کشتیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں، کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ دریا میں دروازہ بھی ہوگا، اندر سے اس دروازے تک جو راستہ جاتا ہے وہ ایسی بھول بھلیوں میں سے گزر کر جاتا ہے کہ کوئی بھولے بھٹکے بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا ،لیکن میں پہنچ سکتا ہوں ۔
بس اتنا کافی ہے۔۔۔ ابو نصر احمد نے کہا۔۔۔ میں جو معلوم کرنا چاہتا تھا وہ تم نے زیادہ ہی تفصیل سے بیان کردیا ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی، مجھے ایسے ہی ایک آدمی کی ضرورت تھی جو الموت کے اندر چلا جائے اور دروازہ کھولے، یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں کوئی چور دروازہ بھی ہے وہ تم نے بتا دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ صرف تم اس دروازے تک پہنچ سکتے ہو،،،،،،، اب تم بتاؤ کہ الموت کو محاصرے میں لیں تو کیا تم اندر جاکر وہ دروازہ کھول سکتے ہو؟
ایک بات آپ بھول گئے محترم وزیر!،،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ یہ یا کوئی اور قلعے میں داخل ہو ،سوال یہ ہے کہ وہ داخل کس طرح ہوگا؟
وہ میں ہوں گا۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔یہ خبر حسن بن صباح تک پہنچ چکی ہوگی کہ میں نے وسم کوہ میں تمام باطنیوں کی نشاندہی کرکے سب کو مروا دیا ہے، ان میں سے ایک بھاگ گیا تھا وہ یقینا حیدر بصری تھا، میں الموت چلا جاؤں گا اور حسن بن صباح سے کہوں گا کہ ان باطنیوں کو پکڑوانے اورمروانے والا یہی حیدر بصری تھا، اور میں تو سلجوقیوں کا قیدی بن گیا تھا، اور انہوں نے مجھ پر اتنا تشدد کیا کہ میرے تو ہوش بھی ٹھکانے نہیں رہے اور اب میں فرار ہو کر آیا ہوں۔
ہم تمہیں ایسے خطرے میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے۔۔۔۔ابونصر احمد نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح استادوں کا استاد ہے، وہ تمہاری بات کو سچ مانے گا ہی نہیں۔
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح فریبکار ہی فریب کار کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے ،میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا ڈھونگ رچاؤں گا، یہ تو ابھی سوچنا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میں حسن بن صباح کو دھوکا دے سکوں گا۔
سب دیکھ رہے تھے کہ ابن مسعود حسن بن صباح اور اس کے فرقے کے خلاف اس قدر بھپرا اور بھڑکا ہوا تھا کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس قسم کے خطرے مول لینے کو بھی تیار ہوگیا تھا کہ وہ الموت جاکر حسن بن صباح جیسے ابلیس کو دھوکہ دے گا، اور پھر اس کے بعد چور دروازہ بھی کھول دے گا، بہرحال سالار اوریزی اور ابو نصر احمد کو یہ کاوش نہ کرنی پڑی کہ وہ ابن مسعود کو دلائل دے کر یا کسی اور طریقے سے الموت جانے کے لیے تیار کرتے وہ خود ہی تیار ہو گیا تھا، اب سوال یہ سامنے آیا کہ ابن مسعود کب جائے، اور اسے کس طرح بھیجا جائے ،اور اسے کس طرح اندر اطلاع بھیجی جائے کہ اب وہ دریا والا دروازہ کھول دے ۔
اس سوال پر جب بات شروع ہوئی تو مشکل یہ سامنے آئی کہ سلطان محمد کو کس طرح راضی کیا جائے کہ وہ الموت پر حملے کی اجازت دے دے، ابونصر احمد کہتا تھا کہ فوج بالکل تیار ہے، سالار اوریزی ابونصر احمد کا ہم خیال تھا،،،،، آخر طے یہ پایا کہ جب فوج مرو سے کوچ کرے گی تو پانچ سات روز پہلے وسم کوہ ابن مسعود کو اطلاع بھجوا دی جائے گی کہ اب وہ الموت چلا جائے، الموت کو محاصرے میں لے لیا جائے گا تو ابن مسعود اگر حسن بن صباح کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا تو وہ کسی رات شہر کی دیوار سے مشعل ہلائے گا جو یہ اشارہ ہوگا کہ اس نے دروازہ کھول دیا ہے، اور پھر ابو نصر احمد کچھ جانبازوں کو دریا کی طرف سے قلعے میں داخل کر دے گا ،اور وہ کام کر لیں گے۔
نہیں قابل احترام وزیر!،،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔مجھے اتنا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ میں کل صبح روانہ ہو جاؤں گا اور اپنا کھیل کھیلوں گا، اگر میں کامیاب ہوگیا تو مجھے خاصا وقت چاہیے کہ میں ان راستوں سے اور زیادہ واقف ہو جاؤں اور ان راستوں کے سنتریوں کے ساتھ بھی علیک سلیک ہو جائے، اور انہیں یہ تاثر ملے کہ میں اس طرف امام کی اجازت یا حکم سے آتا جاتا رہتا ہوں،،،،،،،، آپ جب کبھی الموت کو محاصرے میں لے لیں گے تو میں دریائی دروازہ کھول کر مشعل سے آپ کو اشارہ دے دوں گا۔
وزیر نصراحمد اور سالار اوریزی ابن مسعود کی اس تجویز سے متفق ہوگئے، اور اسے کہہ دیا کہ وہ اگلی صبح جس حلئیے اور جس حالت میں جانا چاہتا ہے روانہ ہو جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز ابونصر احمد مرو کو واپسی سفر پر روانہ ہوا تو سالار اوریزی بھی اس کے ساتھ تھا، ابو نصر احمد نے ہی سالار اوریزی سے کہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور دونوں مل کر سلطان محمد کو قائل کریں گے کہ وہ فوری طور پر حملے کی اجازت دے دیں۔
تقریباً تین دنوں کی مسافت کے بعد دونوں مرو پہنچے اور اگلے روز دونوں سلطان محمد کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے سلطان محمد کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے الموت کے اندرونی ساخت اور دیگر احوال وکوائف کے متعلق کتنی قیمتی معلومات حاصل کرلی ہیں، اور جس شخص نے یہ معلومات دی ہے وہ محاصرے سے پہلے الموت میں داخل ہو چکا ہو گا، دونوں نے سلطان محمد کو ابن مسعود کی ساری باتیں سنائی اور کہا کہ انہیں حملے کی اجازت دی جائے۔
بہت دیر تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ ہوتا رہا اور آخر سلطان محمد نے ابو نصر احمد کو الموت پر حملے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ کوچ ایک مہینے بعد ہوگا، اور اس ایک مہینے میں فوج کو دن رات تیاری کروائی جائے گی ،سلطان محمد نے دوسری بات یہ کہی کہ اس حملے میں سالار اوریزی شامل نہیں ہوگا بلکہ وہ واپس وسم کوہ جاکر اپنی فوج تیار کرے گا اور ابو نصر احمد کو جتنی بھی کمک کی ضرورت ہوگی وہ سالار اوریزی وسم کوہ سے بھیجتا رہے گا۔
اس وقت جب ابو نصر احمد اور سالار اوریزی مرو میں سلطان محمد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ وسم کوہ سے ایک فدائی جو اپنا نام ابن مسعود بتاتا ہے بڑی بری حالت میں آیا ہے اور شرف ملاقات کا متمنی ہے،،،،،،،، حسن بن صباح کسی فدائی کو نہیں ٹالا کرتا تھا ،اس نے ابن مسعود کو بلایا۔
ابن مسعود جب حسن بن صباح کے سامنے گیا تو رک گیا ،اس کی حالت بہت ہی بری تھی، کپڑے انتہائی میلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے، وہ ننگے پاؤں تھا اس کے ایک پاؤں سے تھوڑا تھوڑا خون نکل رہا تھا، اس کے سر کے بال مٹی سے اٹے ہوئے تھے ،اس کے جسم سے بدبو آتی تھی۔
وہ حسن بن صباح کے کمرے میں داخل ہوا تو صاف نظر آتا تھا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں وہ پاؤں گھسیٹ رہا تھا ،وہ رکا اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوئیں پھر اس کا سر ڈولا اور وہ اس طرح گرا کے پہلے اس کے گھٹنے فرش پر لگے پھر پہلو کو لڑھک گیا۔
حسن بن صباح نے کہا اسے طبیب کے پاس لے جایا جائے اور وہ اس کا علاج معالجہ کرے اور اسے کچھ کھلایا پلایا بھی جائے۔
یہ کون ہے ؟،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔۔۔ مجھے اس کا نام ابن مسعود بتایا گیا ہے، اور یہ وسم کوہ سے آیا ہے ،کیا یہ وہی ابن مسعود نہیں جس کے متعلق حیدر بصری نے یہاں آکر بتایا تھا کہ ابن مسعود نے وہاں تمام فدائیوں کو پکڑوا دیا تھا، اور ان سب نے اپنی جانیں اپنے ہاتھوں لے لی ہیں؟
حسن بن صباح کو بتایا گیا کہ یہ وہی ابن مسعود ہے، حسن بن صباح کچھ حیران ہوا کہ اس نے اگر وسم کوہ میں اپنے ساتھیوں کو پکڑوادیا تھا تو اسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا، اور سلجوقی ایسے تو بے مروت نہیں کہ اسے انعام و اکرام نہ دیتے اور اس حالت میں اسے چھوڑ دیتے، حسن بن صباح کے مشیروں نے کہا کہ ان سوالوں کے جواب یہی شخص دے سکتا ہے، اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔
حیدر بصری کو حسن بن صباح نے اس کام کے لیے شاہ در کے لئے روانہ کر دیا تھا کہ وہ حاذق سے ملے اور اس سے پوچھے کہ اس نے ابھی تک خزانہ الموت کیوں نہیں پہنچایا ،حیدر بصری کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ حاذق اگر شاہ در سے غیر حاضر ہے تو حیدر بصری اسے ڈھونڈے اور اگر وہ نہ ملے تو حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اس جگہ چلا جائے جہاں خزانہ رکھا ہے اور وہاں سے اٹھا کر الموت پہنچا دے،،،،،،،، حیدر بصری نے حسن بن صباح کو بتایا تھا کہ اسے معلوم ہے وہ خزانہ کہاں ہے، اور وہاں سے کس طرح نکالا جا سکتا ہے۔
ابن مسعود رات بہت دیر بعد ہوش میں آیا، اسےنہلایا گیا صاف ستھرے کپڑے پہنائے گئے اور پھر اسے کچھ کھلایا پلایا گیا ،طبیب نے اسے سلا دیا تاکہ اس کی کمزوری کم ہو جائے اور پھر یہ غشی میں نہ چلا جائے۔
اگلی صبح اسے حسن بن صباح کے پاس لے گئے، حسن بن صباح اس کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا، وہ جانتا تھا کہ وسم کوہ میں یہ انقلاب کس طرح آیا ہے ،حیدر بصری نے اسے بتایا تو تھا لیکن ابن مسعود کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہونے لگا اور وہ ابن مسعود سے وسم کوہ کی واردات سننے کو بے تاب تھا۔
ابن مسعود کو جب حسن بن صباح کے کمرے میں داخل کیا گیا تو اس سے اچھی طرح چلا نہیں جاتا تھا ،حسن بن صباح نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا کہ وہ اس حالت میں کہاں سے آیا ہے، اور اس پر کیا گزری ہے، اور وسم کوہ میں کیا ہوا تھا۔
میں سلجوقیوں کی قید سے فرار ہو کر آیا ہوں یا شیخ الجبل!،،،،،، ابن مسعود نے لرزتی کانپتی اور قدر نحیف آواز میں کہا۔۔۔ وہ ظالم سلجوقی مجھ سے الموت کی باتیں پوچھتے تھے اور یہ بھی پوچھتے تھے کہ یہاں اور کون کون تمہارے فرقے کا آدمی ہے، میں انہیں کوئی جواب نہیں دیتا تھا تو وہ مجھے ایسی ایسی اذیتیں دیتے تھے جو شاید ہی کوئی انسان برداشت کر کے زندہ رہ سکتا ہو ،لیکن میں اپنے شیخ الجبل اور امام کو ذہن میں رکھ لیتا تھا اور میرا جسم ہر اذیت برداشت کر لیتا تھا ،میں نے انہیں کچھ بھی نہیں بتایا۔
پھر تمہارے ساتھیوں کی نشاندی کس نے کی تھی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا ۔۔۔تم شاید نہیں جانتے کہ تمہارا ایک ساتھی حیدر بصری یہاں پہنچ گیا ہے، اور وہ پوری بات سنا چکا ہے۔
حیدر بصری!،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔۔اس نے تو یہاں پہنچ کر اپنے مطلب کی کہانی سنانی ہی تھی، میں نہیں جان سکتا نہ جاننا چاہوں گا کہ حیدر بصری نے آپ کو کیا بات سنائی ہے، میں یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم سب کو حیدر بصری نے مروایا ہے، اس سے پہلے ہمارا ایک فدائی وہاں سالار اوریزی کو قتل کرنے گیا تھا ،لیکن ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی کے جال میں آ گیا اور اس نے اُن دو آدمیوں کو مروا دیا جنہوں نے اسے آپ کے حکم کے مطابق رکھا تھا ،سالار اوریزی نے ان دونوں کو گرفتار کرکے سرعام ان کے سر قلم کر دیے ہیں۔
ابن مسعود نے عبید عربی کا نام اس لیے نہیں لیا تھا کہ وہ اسے کسی مصیبت میں ڈالنا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ اب یہ باطنی اسے پکڑ کر الموت نہیں لا سکیں گے۔
یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔عبید عربی کی نشاندہی پر حیدر بصری پکڑا گیا ہے، حیدر بصری نے یقیناً سلجوقیوں سے منہ مانگا انعام لیا اور ہم سب کو پکڑوادیا۔ سلجوقیوں نے سب سے پہلے مجھے پکڑا اور پوچھا کہ یہاں باطنی کون کون ہیں، میں نے انہیں صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میرے جسم کی بوٹیاں نوچنی شروع کر دو میں اپنے کسی ساتھی کا سراغ نہیں دونگا، تب سالار اوریزی نے خود آکر مجھے بتایا کہ تمہارے ایک ساتھی حیدر بصری نے سب کچھ بتا دیا ہے، اور اسے اتنا زیادہ انعام دیا گیا ہے جو تم لوگ تصور میں بھی نہیں لا سکتے، میں نے کہا کہ تم لوگوں کو ہر باطنی کا پتہ چل گیا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھتے ہو، یا شیخ الجبل انہوں نے مجھے تو مار ہی ڈالا تھا اور شاید وہ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ میں اب یہاں سے نکل ہی نہیں سکتا ، جسمانی طور پر میں بہت ہی کمزور ہو گیا تھا، آخر ایک روز مجھے فرار کا موقع مل گیا اور میں وہاں سے نکل آیا ،امام آپ کے عظیم نام پر میں نے اس جسمانی حالت میں بھوکے پیاسے یہ سفر طے کیا ہے۔
ابن مسعود کی آواز یوں ڈوبتی چلی جا رہی تھی جیسے وہ ابھی بے ہوش ہوجائے گا ،وہ ذرا خاموش ہوا اور لمبے لمبے سانس لئے اور پھر کمزور سی آواز میں بولنے لگا۔
یہاں میں اتنی مسافت پیدل طے کرکے جھوٹ بولنے نہیں آیا یا امام !،،،،،ابن مسعود نے کہا۔۔۔ میں وہیں وسم کوہ میں رہتا تو اپنی جنت کی حوروں جیسی ایک نوجوان لڑکی کا خاوند ہوتا ،مجھے ایسی دو لڑکیاں یوں دکھائی گئی تھیں کہ انہیں باری باری میرے حوالے کر دیا گیا تھا ،میرے لیے وہاں شہزادوں جیسی زندگی تھی لیکن میں شیخ الجبل کو جان دے سکتا ہوں دھوکہ نہیں دے سکتا۔
اگر حیدر بصری کو تمہارے سامنے بٹھا دیا جائے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور وہ وہی بیان دے جو وہ دے چکا ہے تو تم اسے کس طرح جھٹلاؤ گے؟
یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے کہا۔۔۔ اس وقت حیدر بصری کو میرے سامنے بیٹھا ہوا ہونا چاہیے تھا، آپ اسے بلاتے کیوں نہیں، میں تو اس امید پر آیا تھا کہ حیدر بصری کی موجودگی میں یہ سارا بیان دوں گا ۔
وہ شاہ در چلا گیا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اسے آ لینے دو ،تمہیں ایک بار پھر حیدر بصری کی موجودگی میں یہ بیان دینا پڑے گا۔
میری ایک التجا ہے یا شیخ الجبل!،،،،، ابن مسعود نے کہا ۔۔۔آپ اسے یہاں فوراً بلوا لیں، میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میرے جسم پر آپ کو کوئی زخم یا کوئی چوٹ نظر آئے گی لیکن آپ کی آنکھ میرے جسم کے اندر دیکھ سکتی ہے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ میں زندہ کس طرح ہوں ،میرے جسم کے اندر اتنی چوٹیں ہیں کہ میں شاید جانبر نہیں ہو سکوں گا، میں مرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ یقین ہوجائے کہ میں سچا اور حیدر بصری جھوٹا اور دھوکے باز ہے۔
حسن بن صباح کو جیسے یقین ہونے لگا کہ ابن مسعود جھوٹ نہیں بول رہا، لیکن حیدر بصری کو اس نے شاہ در بھیج دیا تھا ،حسن بن صباح نے اپنے دو مشیروں سے بات کی کہ حیدر بصری کب تک واپس آ سکتا ہے، مشیروں نے کچھ باتیں کچھ مشورے دیے اور حسن بن صباح کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ وہ تو خزانہ لانے گیا ہے، اسے ابھی واپس نہ بلوایا جائے تو ٹھیک ہے۔
کیسا خزانہ؟،،،،،،،، ابن مسعود نے بیدار ہوتے ہوئے بلکہ چونک کر پوچھا ۔۔۔کونسا خزانہ؟،،،،،، اگر آپ نے اسے کہیں سے خزانہ یا کوئی قیمتی مال لانے کے لئے بھیج دیا ہے تو پھر یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ واپس آ جائے گا ،آپ ایک بڑے زہریلے سانپ کو اعتماد میں لے رہے ہیں، اس کے پیچھے کچھ آدمی بھیجیں جو اسے پکڑ کر لے آئے ،کوشش کریں کہ وہ خزانے تک نہ پہنچ سکے۔
ابن مسعود کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ خزانے کا معاملہ کیا ہے، شاہ در سے دور جھیل میں سے جو خزانہ حاذق نکالنے گیا تھا اس کے متعلق ابن مسعود کو کچھ بھی معلوم نہ تھا، پھر بھی وہ دماغ لڑا لڑا کر بات کر رہا تھا اور اس کی ہر بات اب قیاس آرائیوں سے تعلق رکھتی تھیں، وہ اسی حسن بن صباح کا تربیت یافتہ تھا ،اسی شیخ الجبل اور امام نے اسے بدی اورابلیسیت کے راستے پر ڈالا تھا، اس نے بہت حد تک حسن بن صباح کو متاثر کرلیا تھا، اس کے بولنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابن مسعود کو سچا سمجھنے لگا ہے، اس نے یہ فیصلہ سنایا کہ ابن مسعود کو حیدر بصری کی واپسی تک قید میں نہ ڈالا جائے، بلکہ اپنی نگرانی میں رکھا جائے اور یہ پابندی عائد کردی جائے کہ یہ قلعے سے باہر نہ جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت حیدر بصری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شاہ در میں اپنے باطنی ساتھیوں کے یہاں بیٹھا ہوا تھا، اس نے حسن بن صباح سے یہ تو کہہ دیا تھا کہ وہ عبدالملک بن عطاش کے خزانے والی جگہ سے واقف ہے، لیکن شاہ در پہنچ کر اسے خیال آیا کہ اس جگہ تک پہنچنے کا طریقہ اور راستہ تو اسے معلوم ہی نہیں ،نہ یہ معلوم ہے کہ خزانہ چٹانوں میں کس جگہ رکھا گیا تھا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پریشانی کے عالم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔
وہ عبدالملک بن عطاش کے عروج کے زمانے میں شاہ در رہ چکا تھا ،حاذق بھی یہیں تھا، حیدر بصری بھی حاذق کے درجے کا فدائ تھا اس لیے وہ عبدالملک بن عطاش کی محفل میں جایا کرتا تھا، اور کبھی کوئی راز کی بات ہوتی تو اس میں بھی حیدر بصری کو شامل کیا جاتا تھا ،لیکن جہاں تک خزانے کا تعلق تھا عبدالملک بن عطاش نے حیدر بصری کو اس سے ناواقف رکھا تھا، اسے اس خزانے کا جو پتہ چلا تھا وہ حاذق نے اسے بتایا تھا ،حاذق کے ساتھ حیدر بصری کی بڑی گہری دوستی تھی، جب حاذق نے اسے خزانے کے متعلق بتایا تو اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسے شخص کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، اب حسن بن صباح نے اس کا براہ راست تعلق پیدا کر دیا اور اسے شاہ در بھیج دیا کہ وہ خزانہ نکال کر لے آئے، اور حیدر بصری نے پورے اعتماد کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ لے آئے گا، مگر جب تفصیلات جاننے کی ضرورت پڑی تو حیدر بصری کو خیال آیا کہ وہ تو صرف ایک جھیل اور جھیل کے درمیان تھوڑے سے چٹانی علاقے سے آگاہ ہے ،اور اس سے زیادہ اسے کچھ بھی معلوم نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز نور کا باپ اکیلا اپنے کھیتوں میں گھوم پھر رہا تھا ،نور اپنے گھر میں تھی، اچانک دو آدمیوں نے پیچھے سے نور کے باپ کو پکڑ لیا، وہ پیچھے مڑا تو دیکھا ان میں ایک حیدر بصری تھا جسے وہ بڑی اچھی طرح جانتا تھا ،پہلے سنایا جاچکا ہے کہ نور کا باپ عبدالملک کا خاص معتمد ملازم تھا ،اس لئے عبدالملک کے پاس جو لوگ آتے جاتے رہتے تھے انہیں نور کا باپ بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔
اوہ۔۔۔حیدر بصری ہو۔۔۔ نور کے باپ نے مسرت کے لہجے میں کہا۔۔۔۔تم پھر آگئے ہو؟،،،، تمہیں مل کر میرا دل خوش ہو گیا ہے، لیکن میرے دوست بہت احتیاط سے رہنا، سلجوقی سلطان سنجر یہاں موجود ہے اور سلجوقی ذرا سے شک پر بھی باطنیوں کو پکڑ لیتے ہیں۔
ہمیں دھوکا نہ دے بڈھے!،،،،، حیدر بصری نے کچھ طنز اور غصے کے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے الموت میں معلوم ہو گیا تھا کہ تو نے اور تیری بیٹی نور نے پیر و مرشد عبد الملک بن عطاش کو دھوکا دیا تھا ،اور اس کی شکست کا باعث بنے تھے۔
اور اب یہ سلجوقیوں کا وفادار بن گیا ہوگا۔۔۔ حیدر بصری کے ساتھی نے طنزیہ کہا۔۔۔ اس کے پاس اتنی خوبصورت لڑکی جو ہے۔
نور کے باپ نے پراعتماد اور پراثر لہجے میں انہیں بتانا شروع کردیا کہ اس نے کسی کو دھوکا نہیں دیا ،بلکہ عبدالملک بن عطاش نے یہاں سے جاتے وقت ان کی پروا ہی نہ کی، اور باپ بیٹی کو سلجوقی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے گئے ،اس نے انہیں یہ یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا پیروکار ہے، اور اس نے اپنی بیٹی کسی کے حوالے نہیں کی، نہ ہی وہ اسے یہاں کسی سے بیاہے گا ۔
تم نہیں جانتے حیدر بصری!،،،، نور کے باپ نے کہا ۔۔۔کہ تمہیں دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے، میں تم جیسے کسی ساتھی کے انتظار میں تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت پہنچا دے ،حاذق تھا اسے میں چوری چھپے مل لیا کرتا تھا، اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اور میری بیٹی کو الموت لے جائے گا، لیکن وہ ایسا گیا کہ وہ واپس ہی نہیں آیا۔
یہاں نہیں۔۔۔ حیدر بصری نے کہا۔۔۔ہمارے ساتھ چلو، اور وہاں باتیں ہونگی، ہم تمہیں پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ تمہیں ہم نے زندہ چھوڑنا ہی نہیں، چونکہ تم ہمارے ساتھی رہے ہو اس لیے تمہیں یہ موقع دیں گے کہ جو کہنا چاہتے ہو کہہ لو۔
تمہاری جگہ نہیں تم میرے گھر چلو۔۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔۔وہاں تمہیں میری بیٹی بھی ملے گی اور پھر میں تمہیں یقین دلاؤں گا کہ میں تمہارا ہی ساتھی ہوں، اور یہاں کچھ مجبوری اور زیادہ تر اپنے مقصد کے لئے رکا ہوا ہوں۔
حیدر بصری اور اس کا ساتھی اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہو رہے تھے، حیدر بصری نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ وہ انھیں پکڑوا دے گا۔
تم مجھے یرغمال بنائے رکھو۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔ تم دونوں کے پاس خنجر تو ضرور ہوں گے، اگر نہیں تو پھر تم فدائی ہو ہی نہیں سکتے، تمہیں جہاں تک شک ہو کہ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے اور اب تم پکڑے جاؤ گے تو خنجر میرے سینے میں اتار دینا اور نکل بھاگنا ،اور نکل نہ سکے تو اپنے آپ کو ختم کرنا تو جانتے ہی ہو،،،،،، میں کہتا ہوں میرے ساتھ چلو۔
حیدر بصری اور اس کا ساتھی کوئی جاھل اور گنوار تو نہ تھے کہ اس کی باتوں میں آجاتے، وہ بھی تجربے کار آدمی تھا اور اتنی زیادہ عمر میں اس نے عملی زندگی کا بہت تجربہ حاصل کر لیا تھا ،بہت سی بحث اور جھک جھک کے بعد نور کا باپ حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو اپنے گھر لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
نور نے حیدر بصری کو دیکھا تو اسے پہچاننے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہوئی، نور نے حیدر بصری کو اپنے سابق خاوند عبدالملک بن عطاش کے ساتھ کئی بار دیکھا تھا، گھر میں داخل ہوتے ہی نور کے باپ نے نور کو آنکھوں سے ایسا اشارہ دے دیا جو نور سمجھ گئی اور بڑے تپاک سے حیدر بصری سے ملی، نور نے بھی ایسی باتیں کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تک باطنی ہے، اور حسن بن صباح کو اپنا امام سمجھتی ہے، اس نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کی خوب خاطر تواضع کی۔
اس دوران حیدر بصری اور اس کا ساتھی نور کے باپ کے ساتھ باتیں کرتے رہے، صاف پتہ چلتا تھا کہ انہیں نور کے باپ پر ابھی اعتبار نہیں آیا، اور اسے شاہ در کی شکست کا مجرم سمجھ رہے ہیں، نور کے باپ نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کوئی زیادہ باتیں نہ کی، اور یہ کہا کہ حاذق یہاں ہوتا تو وہ ثبوت پیش کرتا کہ وہ ابھی تک حسن بن صباح کا مرید ہے یا نہیں،،،،،،،، یہاں سے حاذق کی بات چلی تو نور کے باپ نے کہا کہ وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ حاذق کسی جگہ کی بات کر رہا تھا کہ وہاں پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے خزانہ رکھا تھا۔
خزانے کی بات شروع ہوئی تو حیدر بصری کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ وہ اسی خزانے کے لیے آیا ہے، اور وہ خزانے والی جگہ سے بھی واقف ہے لیکن یہ بھول گیا ہے کہ اس جگہ تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔
نور کے باپ نے حیدر بصری کی یہ بات سنی تو اس کے دماغ میں روشنی چمکی اور اس کے چہرے پر رونق آگئی۔
اب میں تمہیں یقین دلا سکوں گا کہ میں کس کا وفادار ہوں۔۔۔ نور کے باپ نے حیدر بصری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ میں تمہیں وہاں تک لے جاؤں گا اور سیدھا خزانے تک پہنچا دوں گا، ظاہر ہے تم لوگ خزانہ نکال کر واپس شاہ در نہیں آؤ گے بلکہ وہیں سے الموت چلے جاؤ گے ،میں نور کو بھی ساتھ لے جاؤں گا اور تم لوگ خزانے کے ساتھ ہم دونوں کو بھی الموت لے چلنا ،اس طرح میں اور میری بیٹی سلجوقیوں کی قید سے اور اس پابند زندگی سے آزاد ہو جائیں گے۔
نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو بتایا کہ حاذق کے ساتھ اس کا یارانہ بڑا ہی گہرا اور رازدارانہ تھا ،حاذق نے اسے خزانے والے راز میں بھی شریک کر رکھا تھا۔
حیدر بصری نے جب یہ بات سنی تو وہ بھول ہی گیا کہ نور کا باپ مشتبہ اور مشکوک آدمی ہے، اس کے ذہن پر تو اس کا شیخ الجبل امام حسن بن صباح سوار تھا، اس نے نور کے باپ سے کہا کہ وہ اس خزانے کو نکالنے میں اس کی مدد کرے، اور وہ اسے اور اس کی بیٹی کو الموت پہنچا دے گا ۔
ظاہر ہے یہ تفصیلات اور یہ منصوبے کوئی اتنی جلدی طے نہیں ہوئے ہوں گے، ہوا یہ کہ نور کے باپ نے کہا کہ وہ ایک اپنے قابل اعتماد آدمی کو بھی ساتھ لے جائے گا، اور تمام انتظامات مکمل کر لے گا، اس نے یہ بھی کہا کہ اسے باہر نکلنا پڑے گا تاکہ وہ آدمی کو بھی تیار کر لے، حیدر بصری اور اس کے ساتھی کو یہ سن کر شک ہوا کہ یہ شخص انہیں پکڑوادے گا ،حیدر بصری نے یہ شک صاف الفاظ میں ظاہر کر دیا۔
پھر اس کا مطلب یہ ہو گا۔۔۔ نور کے باپ نے کہا ۔۔۔کہ تم صرف مجھے اور میری بیٹی کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر لے جاؤ گے اور خزانہ تمہارے ساتھ نہیں ہوگا، اگر خزانہ چاہتے ہو تو مجھے باہر نکلنے دو ،یہ ہے میری بیٹی اسے یرغمال بنا کر جہاں جی چاہے لے جاؤ میں دلی طور پر یہ چاہتا ہوں کہ ہم سب الموت اکٹھے جائیں اور خزانہ ہمارے ساتھ ہو، اس طرح مجھے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ شیخ الجبل میری نیت پر شک نہیں کرے گا، اور اس کے دل سے یہ الزام نکل جائے گا کہ شاہ در کی شکست کا ذمہ دارمیں ہوں۔
نور کے باپ نے اس مسئلے میں بھی حیدر بصری کو اپنا ہم خیال بنا لیا ،اور اسے کہا کہ وہ ایک بڑی گھوڑا گاڑی اور تین زندہ بھیڑوں کا انتظام کرلے، حیدر بصری نے پوچھا کہ بھیڑوں کو کیا کرنا ہے، تو نور کے باپ نے کہا کہ یہ وہاں چل کر بتاؤں گا ،وہ جب حاذق کے ساتھ خزانے والی جھیل تک جا رہا تھا تو حاذق پانچ بھیڑیں اپنے ساتھ لے گیا تھا ،نور کے باپ نے اس سے پوچھا تھا کہ بھیڑوں کا کیا استعمال ہوگا تو حاذق نے یہی جواب دیا تھا کہ وہاں چل کر بتاؤں گا۔
مختصرآً یہ واقعہ یوں ہوا کہ حیدر بصری اور اس کا ساتھی گھوڑا گاڑی کا انتظام کرنے چلے گئے، اور نور کا باپ یہ بتا کر کہ وہ اپنے آدمی کے پاس جا رہا ہے سلطان سنجر کے وزیر کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ دو فدائی اس کے جال میں آگئے ہیں، لیکن وہ انہیں پکڑوانا نہیں چاہتا بلکہ بہت برے انجام تک پہنچانا چاہتا ہے، اس نے وزیر کو یہ بھی بتایا کہ انہیں حسن بن صباح نے اسی خزانے کے لیے بھیجا ہے جو سلطنت کے سرکاری خزانے میں جمع ہو چکا ہے۔
وزیر نے اسے اجازت دے دی اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو بھی پوری طرح محفوظ رکھے، اور کوئی خطرہ مول نہ لے، اور اسے جو کچھ بھی چاہیے وہ یہاں سے لے لے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا ،شاہ در شہر پر نیند کا غلبہ طاری ہو چکا تھا ،اس شہر کے مضافات کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک گھوڑا گاڑی نکلی جس کا رخ اس جھیل کی طرف تھا جس کےوسط میں عبدالملک بن عطاش کا خزانہ تھا اور جو اب وہاں نہیں تھا، گاڑی کے آگے دو گھوڑے جتے ہوئے تھے اور ان کی باگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی، گاڑی میں نور بھی تھی، حیدر بصری اور اس کے دو ساتھی تھے، اور ایک آدمی وہ تھا جیسے نور کا باپ اپنے ساتھ لایا تھا ،گاڑی میں تین بھیڑیں بھی تھیں، نور کا باپ راستے سے اچھی طرح واقف تھا اس راستے پر وہ جا بھی چکا تھا اور واپس بھی آ چکا تھا۔
شہر سے کچھ دور جا کر نور کے باپ نے گھوڑوں کی رفتار تیز کر دی وہ اس کوشش میں تھا کہ صبح طلوع ہونے تک وہ آبادیوں سے دور جنگل بیابان میں جا پہنچے، اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ پوری رات گاڑی چلتی رہے گی اور صبح کے وقت کہیں رکیں گے۔
صبح طلوع ہوئی تو وہ ایک ایسے جنگل بیابان میں پہنچ چکے تھے جس کے پیڑ پودوں کے لئے انسان ایسا جانور تھا جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہو، دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا اور پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کسی انسان کا گزر نہیں ہوا، نور کا باپ اس بیابان میں سے پہلے حاذق کے ساتھ گزرا تھا ،انہوں نے کچھ دیر گھوڑوں کو آرام دیا اور خود بھی کچھ کھایا پیا اور پھر چل پڑے۔
نور اور اس کا باپ حاذق کے ساتھ اس طرف آئے تھے تو حاذق بڑی جلدی میں تھا ،اس نے گھوڑوں کو اتنا زیادہ دوڑیا تھا کہ گھوڑے پسینے سے نہا گئے اور ہانپ کانپ رہے تھے، اب گھوڑوں کی باگیں نور کے باپ کے ہاتھ میں تھی اور اسے کوئی جلدی نہیں تھی، اسے معلوم تھا کیا کرنا ہے اور اس نے اپنے ساتھی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیا تھا اور نور کو بھی، اب وہ بڑے آرام سے گھوڑوں کو چلا رہا تھا اور ایک اور رات آ گئی، وہ گھوڑوں کو کھلانے پلانے کے لیے اور خود آرام کرنے کے لیے رک گئے، وہ گزشتہ رات جاگتے رہے تھے اس لئے جونہی لیٹے سب سو گئے، نور کا باپ اور اس کا ساتھی، حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں کو سوتے میں بڑے آرام سے قتل کر سکتے تھے لیکن نور کا باپ اس قدر جلا بھنا ہوا تھا کہ وہ انھیں بڑے ہی خوفناک انجام تک پہنچانا چاہتا تھا، نور کا باپ قافلے کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان باطنی لٹیروں نے اس قافلہ کو لوٹ لیا اور اس کی بیٹی کو اٹھا کر لے آئے تھے، اور اس کے باقی بچوں کو انہوں نے قتل کر دیا تھا ،اور اس کی بیوی کو بھی قتل کر دیا تھا، اس کے سینے میں ان باطنیوں کے خلاف انتقام کے شعلے بھڑکتے رہتے تھے۔
رات گزر گئی اور یہ قافلہ گھوڑا گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا ،نور کا باپ حاذق کے ساتھ آیا تھا تو رات کو جھیل پر پہنچے تھے، لیکن اب نور کا باپ دن کے وقت وہاں پہنچ رہا تھا، فاصلہ بہت ہی تھوڑا رہ گیا تھا نور کے باپ نے دانستہ رات وہاں گزاری تھی۔
کچھ دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے ،نور کے باپ نے دو چیزیں دور سے ہی دیکھ لیں۔
ایک تو چار پانچ مگرمچھ تھے جو جھیل سے نکل کر خشکی پر سوئے ہوئے تھے، دوسری چیز وہ کشتی تھی جس میں وہ خزانہ نکال کر لایا تھا ،وہ کشتی اسی جگہ جھیل کے کنارے موجود تھی جہاں اس نے اور نور نے اسے گھسیٹ کر آدھا خشکی پر کر دیا تھا، کچھ ٹوٹی پھوٹی کشتیاں بھی پڑی تھیں، لیکن اصل کشتی ان سے کچھ دور تھی، نور کے باپ نے گھوڑا گاڑی وہاں جا روکی اور سب کو اترنے کے لیے کہا۔
سب اترے اور بھیڑوں کو بھی اتار لیا گیا ،پھر بھیڑوں کو کشتی میں پھینک کر سب سوار ہوگئے اور چپّو نور کے باپ نے اور اس کے ساتھی نے سنبھال لیے، کشتی جونہی جھیل میں ذرا آگے گئی تو تین چار مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی کی طرف آئے، نور کے باپ نے کہا کہ ایک بھیڑ جھیل میں پھینک دو ۔
ایک بھیڑ حیدر بصری نے اٹھائی اور جھیل میں پھینک دی ،سارے مگرمچھ اس بھیڑ پر ٹوٹ پڑے کچھ اور آگے گئے تو دو اور مگرمچھ آگئے، نور کے باپ نے حیدر بصری سے کہا کہ ایک اور بھیڑ جھیل میں پھینک دے جو اس نے پھینک دی ، نور کا باپ اور اس کا ساتھی بڑی تیزی سے چپو مار رہے تھے، جھیل کا پانی پرسکون تھا اس لیے کشتی کی رفتار خاصی تیز تھی۔
چھوٹے مگرمچھ بھی جھیل میں نظر آ رہے تھے لیکن وہ سب ادھر کو ہی چلے گئے جدھر مگرمچھوں نے دو بھیڑوں کو پکڑ لیا اور اسے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے تھے ۔
آخر کشتی اس خشکی پر جا لگی جس پر چٹانیں تھیں اور اس ذرا سے اس چٹانی علاقے کے وسط میں خزانے والے غار تھے، نور کے باپ نے حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اتر جائے اور وہ کشتی باندھ کر آتا ہے، نور کے باپ کا ساتھی اور نور بھی اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کشتی میں سے اتریں گے ، حیدر بصری اور اس کے دونوں ساتھی کود کر خشکی پر چلے گئے، نور کے باپ نے انہیں کہا کہ وہ آگے چلیں۔
جونہی ان تینوں نے پیٹھ پھیری نور کے باپ نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور دونوں نے چپو مارنے شروع کر دیے اور کشتی خشکی سے ہٹ آئی اور تیزی تیز ہوتی چلی گئی، حیدر بصری اور اس کے ساتھیوں نے گھوم کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ یہ لوگ کشتی کہاں لے جا رہے ہیں، آخر حیدر بصری نے بلند آواز سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو۔
ان چٹانوں کے اندر چلے جاؤ۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔ تمہیں خزانہ مل جائے گا، ہمیں خزانے کی ضرورت نہیں۔
نور کے باپ اور اس کے ساتھی نے بڑے بلند قہقہے لگائے، تب حیدر بصری سمجھا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تینوں نے جھیل میں چھلانگیں لگا دیں اور کشتی کی طرف تیرنے لگے، انہیں غالباً یہ توقع تھی کہ وہ تیر کر اس ساحل پر پہنچ جائیں گے جہاں سے وہ کشتی پر سوار ہوئے تھے ، لیکن مگر مچھوں نے انہیں دیکھ لیا اور بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھے ،نور کے باپ نے کشتی کی رفتار اور تیز کردی اور کنارے جا لگے، انہوں نے ایک بھیڑ بچا لی تھی جسے اٹھا کر وہ کشتی سے نکل آئے ان تینوں باطنیوں کے انجام کا تماشہ دیکھنے لگے۔
ان تینوں کی آخری چیخیں آسمان کا سینہ چاک کر رہی تھیں لیکن یہ چیخیں الموت تک نہیں پہنچ سکتی تھیں، کچھ دیر تک ان کی چیخیں اور آہ و بکا سنائی دیتی رہیں ،اور وہ تینوں دکھائی دیتے رہے، اور پھر مگرمچھ انہیں پانی کے نیچے لے گئے ۔
نور کے باپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو پھیلائے اور لمبی آہ بھری اور پھر نور اور اپنے ساتھی کو سر کا اشارہ کیا کہ آؤ چلیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*