🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر باسٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داستان کو اس مقام پر لے چلتے ہیں جہاں عبید عربی کی نشاندہی پر بڑھئی اور سبزیوں کے تاجر کو پکڑا گیا اور ایک روز کے بعد انہیں جلاد کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
سالار اوریزی نے عبید عربی کو بڑے پیار اور شفقت سے اپنے پاس بٹھایا اور اس سے پوری بات سنی تھی اور عبید عربی نے اسے اپنی داستان سنائی تھی جو وہ شافعیہ کو سنا چکا تھا، اس کا یہ بیان پچھلے سلسلے میں تفصیل سے پیش کیا جا چکا ہے۔
آئے سلجوقی سالار !،،،،،،عبید عربی نے کہا۔۔۔۔ میں اللہ کے وجود کا قائل ہو گیا ہوں، میں تو آپ کو قتل کرنے آیا تھا لیکن آج آپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنے ہاتھوں قتل کردیں،،،،،، ہمارا خدا بھی حسن بن صباح تھا رسول بھی حسن بن صباح، اور حسن بن صباح کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو یوں قدر احترام سے سنا کرتے تھے جیسے یہ بات آسمان سے اتری ہو، ہمارے لئے نیکی اور بدی کا کوئی تصور نہیں تھا ،ہمارا امام کہا کرتا ہے کہ جو فعل اچھا لگتا ہے وہ کرو اور اسے گناہ مت سمجھو، گناہ اس فعل کو کہتے ہیں جو تم نہ کرنا چاہتا ہو ،لیکن یہاں آکر میں نے اپنی اصلیت کو پا لیا ہے۔
تمہیں اس کا اجر اللہ دے گا۔۔۔سالار اوریزی نے کہا تھا۔۔۔ تم ان کا انجام بھی دیکھ لو گے جن کی تم نے نشاندہی کی ہے، اور تمہیں جو صلہ ملے گا وہ سب لوگ دیکھیں گے،،،،،،، میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کیا ان دونوں کے علاوہ تم ایسے آدمی بتا سکتے ہو جو وسم کوہ میں موجود ہوں؟
نہیں قابل احترام سالار!،،،،، عبید عربی نے کہا۔۔۔ ضرور ہوں گے لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی جگہ ہر باطنی دوسرے باطنیوں کو جانتا ہو، حسن بن صباح کے بعض فدائیوں کو یوں چھپا کر رکھا جاتا ہے کہ کوئی دوسرا فدائی بھی اسے نہیں جانتا،،،،،، میں چونکہ آپ کو قتل کرنے کے لئے آیا تھا اس لئے میں انہیں دو آدمیوں سے واقف ہو سکا جن کے ذمے مجھے پناہ میں رکھنا تھا ،مجھے آپ کے قتل کے بعد خود کشی کر لینی تھی یا موقع ملتا تو فرار ہونا تھا، اور میرے پکڑے جانے کا بھی امکان تھا اس صورت میں آپ نے تشدد اور ایذا رسانی کے ذریعے مجھ سے یہ راز اگلوانے لینا تھا کہ یہاں کتنے باطنی ہیں اور وہ کہاں کہاں رہتے ہیں، اور ان میں فدائی کون کون ہے، میں نے اپنے اس راز پر اپنی جان دے دینی تھی لیکن ایذا رسانی سے بڑے مضبوط آدمی بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور وہ راز اگل دیتے ہیں،،،،،،، پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ ان کا سراغ لگا لوں، یہ بھی اس لئے کہ آپ کو تو ان لوگوں نے قتل ہی کرنا ہے، میری جان بھی خطرے میں آ گئی ہے ،میں نے حسن بن صباح کے دو بڑے ہی اہم اور تجربے کار آدمی پکڑوادیئے ہیں اور اب یہ لوگ موقع ملتے ہی مجھے قتل کردیں گے، لیکن میں جان کی بازی لگا کر باقی باطنیوں کا سراغ لگاؤں گا۔
سالار اوریزی نے کہا کہ وہ اسے بچائے رکھنے کی پوری پوری کوشش کرے گا ،اس نے یہ بھی کہا کہ دوسرے باطنی اور فدائیوں کا سراغ کہاں سے لگائے،،،،،سالار اوریزی نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں آدمی جو عبید نے پکڑوایا ہیں کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔
یہ امید دل سے نکال دیں۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ انہیں آپ کوئی لالچ دے سکتے ہیں جو یہ کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے، دوسرا طریقہ ایذا رسانی کا ہے یہ لوگ مرنا پسند کریں گے لیکن بتائیں گے کچھ بھی نہیں، میرا معاملہ کچھ اور ہے، آیا تو میں بھی مارنے اور مرنے کے لئے تھا، لیکن میری جذباتی دنیا میں جو شدید زلزلہ آیا یہ مجھے آپ کے سامنے اس صورت میں لایا جو آپ دیکھ رہے ہیں، اسے میں اللہ تعالی کا ایک معجزہ کہتا ہوں ،لیکن یہ دونوں آدمی اس درجے کے باطنی ہے جو فخر سے اپنی جان بھی دے دیا کرتے ہیں، انہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ آپ انہیں سزائے موت دیں گے۔
یہ تو میرا فیصلہ ہے۔۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ کل سارے شہر میں منادی کرواؤں گا کہ دو باطنیوں کو قلعے کے باہر سزائے موت دی جائے گی اور تمام لوگ اس وقت اکٹھے ہو جائیں پھر میں انہیں،،،،،،،،گستاخی معاف قابل احترام سالار!،،،،، عبید عربی نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔ آپ کی باقی بات بعد میں سنوں گا،ایک طریقہ میرے دماغ میں آیا ہے جس سے باطنیوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے ،آپ ان دونوں کو سر عام سزائے موت دے دیں گے، یہ آپ بہت اچھا کریں گے کہ شہر کے تمام لوگوں کو اکٹھا ہونے کو کہہ رہے ہیں، یہاں جتنے باطنی ہیں یا بڑھئی اور سبزیوں کے باغ کے مالک جیسے آدمی ہیں، وہ بھی لوگوں میں شامل ہونگے، ان دونوں کے سر جلاد کاٹ چکے گا تو مجھے پورا پورا یقین ہے کہ ایک یا دو آدمی الموت کی طرف روانہ ہو جائیں گے، یہ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ اس قسم کا سنگین واقعہ فوراً الموت جاکر حسن بن سبا کو سنائیں، آپ یہ بندوبست کریں کہ چند ایک آدمی شہر کے ہجوم سے باہر باہر دیکھتے رہیں، وہ جب کسی ایک یا دو یا تین آدمیوں کو گھوڑوں پر سوار الموت کی طرف رخ کرکے جاتا دیکھیں تو انہیں گھیر کر پکڑ لیں وہ یقیناً حسن بن صباح کے آدمی ہوں گے۔
وہ سب کے سب تو نہیں ہوں گے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ دوسرے پھر بھی شہر میں ڈھکے چھپے رہیں گے ،بہرحال مجھے تمہاری یہ تجویز بہت پسند آئی ہے میں اس پر عمل درآمد کرواؤں گا۔
جو تجربہ اور دانشمندی آپ کو حاصل ہے وہ مجھے نہیں۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ لیکن میں یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ منادی میں یہ بھی شامل کریں کہ تمام لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ گھروں میں سے نکل کر قلعے کے باہر اکٹھے ہوں اور ان دو آدمیوں کو جلاد کے ہاتھوں کٹا دیکھیں،،،،،، اس طرح یہ ہوگا کہ کوئی باطنی اپنے گھر میں بیٹھا نہیں رہے گا۔
تم اور شافعیہ بہت بڑے انعام کے حق دار ہو عبید!،،،،،، سالار اوریزی نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔میں سمجھ نہیں سکتا کہ تم دونوں کو کیا انعام دوں۔
انعام کی حقدار تو شافعیہ ہے۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔اگر آپ ہم دونوں کو انعام دینا ہی چاہتے ہیں تو سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ مجھے شافعیہ کو اور شافعیہ مجھے دے دیں۔
یہ تو طے ہے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ ان دونوں باطنیوں کو پرسوں جہنم داخل کرکے میں تم دونوں کا نکاح پڑھا دوں گا۔
سالار اوریزی نے اسی وقت مزمل آفندی اور بن یونس کو بلوا لیا، اور عبید عربی کی تجویز انہیں سنائی، انہوں نے آپس کے صلح مشورہ سے طے کر لیا کہ یہ کارروائی کس طرح کی جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ وسم کوہ کا بچہ بچہ قلعے کے باہر گھوڑ دوڑ کے میدان کے ارد گرد اکٹھا ہو گیا تھا، منادی میں یہ حکم بھی شامل تھا کہ تمام لوگ حکماً باہر آئیں گے، عورتیں اس طرف جو قلعے کی دیوار تھی اس پر اکٹھی ہو گئی تھی، گھر بالکل خالی ہوگئے تھے، بڑھئی اور سبزیوں کے باغ والے کو قلعے سے نکالا گیا، ان کے ہاتھ ان کی پیٹھوں کے پیچھے بندھے ہوئے تھے، چار محافظ انہیں لے جارہے تھے، ہجوم نے اس طرف سے انہیں راستہ دیا اور ان دونوں کو میدان کے عین وسط میں لے جا کر کھڑا کر دیا گیا ،کچھ ہی دیر بعد سالار اوریزی اپنے چھ گھوڑ سوار محافظوں کے ساتھ قلعے سے باہر آیا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔
محافظ ہجوم کے پیچھے رک گئے اور سالار اوریزی وہاں جا پہنچا جہاں دونوں باطنیوں کو کھڑا کیا گیا تھا ،مزمل آفندی اور بن یونس بھی وہی تھے لیکن وہ تماشائیوں کے ہجوم کے پیچھے گھوڑوں پر سوار تھے اور ایک دوسرے سے دور دور تھے، ان کی نظریں ہجوم پر لگی ہوئی تھیں اور وہ دونوں ایک جگہ رکتے نہیں تھے بلکہ گھوڑوں کو آہستہ آہستہ اس کے پیچھے پیچھے چلا رہے تھے، ان کے ساتھ سالار اوریزی کے محافظ دستے کے دو گھوڑ سوار بھی تھے وہ بھی ہجوم کے پیچھے پیچھے ایک طرح کی گشت کر رہے تھے ،محافظ دستے کے دو آدمی شہر کی دیوار پر اس جگہ کھڑے تھے جہاں سے قلعہ الموت کی طرف جانے والا راستہ نظر آتا تھا، وہاں سے الموت تک دو دنوں کی مسافت تھی۔
اے ایمان والو!،،،،،، سالار اوریزی نے بڑی ہی بلند آواز میں ہجوم سے خطاب کیا۔۔۔۔یہ دو آدمی میرے یا سلطنت سلجوقیہ کے مجرم نہیں بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دین اسلام کے مجرم ہیں، یہ حسن بن صباح کے پیروکار ہیں جسے ابلیس نے زمین پر اتارا ہے، یہ دونوں باطنی یہاں فدائیوں کو پناہ میں رکھتے تھے اور اب انہوں نے ایک ایسے فدائی کو پناہ دی تھی جو مجھے قتل کرنے آیا تھا، لیکن اللہ کی قدرت دیکھو کہ یہ دونوں میرے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، اگر حسن بن صباح اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہے یا اس کے ہاتھوں میں کوئی خدائی طاقت ہے تو ان دونوں کو قتل ہونے سے بچا لے، لیکن اس کے پاس جو طاقت ہے وہ ابلیسیت کی طاقت ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں ان دونوں کو ذاتی انتقام کے طور پر قتل کر رہا ہوں، میں اللہ کی راہ میں ہر وقت قتل ہونے کے لیے تیار رہتا ہوں، تمام لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ باطنی ہونا بہت بڑا جرم ہے، جس کی سزا موت ہے، اس شہر میں ابھی اور باطنی موجود ہیں یہ تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ جس کسی پر شک ہو کہ وہ باطنی ہے اس کے متعلق اطلاع دے، یہ بھی سن لو کہ صرف شک پر بھی میں سزائے موت دوں گا، اگر حسن بن صباح یہ اعلان کر دے کے اس کا مذہب بالکل الگ تھلگ ایک مذہب ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر کسی باطنی کو صرف اس لئے سزا نہیں دی جائے گی کہ وہ باطنی ہے، ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے ،لیکن یہ لوگ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، یہ ایسا گناہ ہے جسے میں معاف نہیں کر سکتا ،کیونکہ معاف کرنے کو بھی میں گناہ سمجھتا ہوں، حسن بن صباح کے حکم سے ہمارے بہت سے علمائے دین، خطیب اور امام اور وزیر قتل کیے جا چکے ہیں، ان باطنیوں نے مرو میں خانہ جنگی بھی کروا دی تھی، میں ان بے گناہوں کے خون کا انتقام لے رہا ہوں۔
سالار اوریزی ایک طرف ہٹ گیا اور اس کے اشارے پر جلاد جو سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھا اور ہاتھ میں چوڑے پھل والی تلوار تھی، تیزی سے آگے آیا اور اس نے ایک باطنی کو زمین پر دو زانو کرکے اسے آگے کو جھکا دیا ،اس کی تلوار بلند ہوئی اور دوسرے ہی لمحے اس باطنی کا سر اس کے جسم سے الگ ہو کر مٹی میں گر پڑا تھا، اس کے بعد دوسرے باطنی کو بھی اسی طرح جہنم واصل کر دیا گیا۔
سالار اوریزی نے حکم دیا کے ان کی لاشیں دور جنگل میں لے جا کر پھینک دی جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اتنا بڑا ہجوم باطنیوں کی لاشوں کی طرف دوڑ پڑا، لوگ لاشوں کو کو ٹھڈ مارنے لگے، اور ان پر انہوں نے تھوکا بھی، ہجوم میں سے مختلف آوازیں اٹھ رہی تھیں، پیچھے والے لوگ کہہ رہے تھے کہ انہیں بھی لاشوں پر تھوکنے کا ثواب حاصل کر لینے دیا جائے، ایک بڑی ہی بلند اور دبنگ آواز گرج رہی تھی۔۔۔۔ زندہ رہے گا تو صرف اسلام رہے گا۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں یہ کون تھا، لوگ اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور آگے بڑھ بڑھ کر باطنیوں کی لاشوں پر ٹوٹ پڑتے تھے، کچھ لوگ ان باطنیوں کی کھوپڑیوں کو ٹھڈ مار مار کر ہجوم سے باہر لے گئے اور اسی طرح ٹھڈ مارتے مارتے دور جنگل تک لے گئے اور کہیں پھینک کر واپس آئے ، تھوڑی سی دیر میں دونوں لاشوں کی کھال اتر چکی تھی اور اب لوگ انہیں پتھر مار رہے تھے۔
سالار اوریزی نے شہر کی دیوار پر دو آدمی کھڑے کر رکھے تھے وہ اس ہجوم کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ دو گھوڑوں پر سوار ہجوم میں سے نکل کر اس راستے پر ہو گئے تھے جو الموت کو جاتا تھا ،مزمل بن یونس اور ان کے دو اور ساتھی ان سواروں کو نہیں دیکھ سکتے تھے، دیوار پر جو آدمی کھڑے تھے وہ بڑی تیزی سے دوڑتے نیچے آئے اور انہیں مزمل آفندی نظر آیا جو اس بے قابو اور بھپرے ہوئے ہجوم کے ارد گرد اپنے گھوڑے پر سوار گشت کر رہا تھا۔
دیوار سے اتر کر آنے والے آدمیوں نے مزمل کو بتایا کہ وہ دیکھ نہیں سکا کہ دو سوار ہجوم میں سے نکل کر الموت کی سمت چلے گئے ہیں، مزمل گھوڑا دوڑا کر اور کچھ آگے جا کر دیکھا اسے وہ دونوں سوار نظر آگئے، اتنی دیر میں وہ خاصی دور نکل گئے تھے۔
بن یونس اور دوسرے دو آدمیوں کو ڈھونڈ کر جلدی لاؤ۔۔۔ مزمل آفندی نے ان آدمیوں سے کہا۔۔۔ میں ان دونوں کے پیچھے جاتا ہوں اور تم دونوں بھی پیچھے پیچھے آجانا ۔
مزمل آفندی نے گھوڑا تیز نہ دوڑایا رفتار اتنی ہی رکھی کہ وہ دونوں سوار اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں، آگے گھنا جنگل تھا اور ٹیکریاں اور چٹانیں بھی تھیں، جن کی وجہ سے راستے میں کئی موڑ آئے اور ان موڑوں کی وجہ سے سوار نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔
مزمل کم و بیش ایک میل دور نکل گیا تھا جب بن یونس چار آدمیوں کے ساتھ گھوڑے دوڑاتا اس تک پہنچ گیا ،یہ چار آدمی سالار اوریزی کے محافظ دستے کے منتخب سوار تھے ،وہ صرف شہسوار ہی نہیں تھے بلکہ بڑے ہی تجربے کار چھاپہ مار بھی تھے،،،،،الموت کی طرف جانے والا یہ راستہ ٹیکریوں میں سے جاتا تھا ،اور آگے آگے جانے والے دونوں سوار نظر نہیں آتے تھے، مزمل آفندی نے اپنی اس سوار جماعت کے ساتھ گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور ٹیکریوں کے علاقے میں داخل ہو گئے، اگلے دونوں سوار اس راستے سے آگے نکل گئے تھے اور وہ مزمل کو نظر آ گئے ،اس جماعت نے اپنے گھوڑوں کی رفتار خاصی کم کردی ،شک تو یہ تھا کہ یہ دونوں آدمی باطنی ہیں اور الموت حسن بن صباح کو اطلاع دینے جا رہے ہیں کہ عبید عربی نے ان دونوں آدمیوں کو پکڑوا کر سزائے موت دلوا دی ہے جن کے یہاں اس نے پناہ لی تھی، لیکن یہ دونوں سوار کوئی عام سوار بھی ہو سکتے تھے، انہیں روک کر پوچھنا تو بیکار تھا کہ وہ کون ہیں، انہوں نے یہ تھوڑے ہی بتا دینا تھا کہ وہ باطنی ہیں اور الموت جا رہے ہیں، مزمل آفندی اور بن یونس یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کس طرح معلوم کیا جائے کہ یہ دونوں مشکوک ہیں۔
اگلے دونوں سوار چلتے چلے گئے اور پیچھے والے چھے سوار ان کی رفتار سے ذرا تیز چلتے گئے، آگے علاقہ کچھ ہموار آ گیا تھا، ذرا اور آگے گئے تو آگے جانے والے دونوں سواروں میں سے ایک نے پیچھے دیکھا اس نے اپنے ساتھی کو اپنے سر سے کچھ اشارہ کیا تو اس نے بھی پیچھے دیکھا دونوں نے گھوڑوں کی رفتار خاصی تیز کر لی، صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ اپنے تعاقب میں آنے والے سواروں سے خاصا زیادہ آگے نکل جانا چاہتے ہیں ۔
یہ ہمارے ملزم ہیں۔۔۔مزمل آفندی نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔ انہیں جانے نہ دینا۔
سب نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے دوڑ پڑے، اگلے دو سوار اگر مشتبہ یا ملزم نہ ہوتے تو وہ پروا ہی نہ کرتے بلکہ رک کر دیکھتے کہ ان لوگوں نے گھوڑے کیوں دوڑائے ہیں، لیکن انہوں نے بھی گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور ان کے گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے، تعاقب میں جانے والے سواروں کے جو گھوڑے تھے وہ فوجی گھوڑے تھے، جنہیں بڑی اچھی خوراک ملتی تھی اور تھے بھی وہ اعلی نسل کے گھوڑے، تھوڑی دور جا کر انھوں نے اگلے سواروں کے ساتھ فاصلہ بہت ہی کم کر دیا ۔
اگلے دونوں سوار ایک دوسرے سے الگ الگ ہوگئے، ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف چلا گیا ،ان کے تعاقب میں جانے والوں کی تعداد چھے تھی انہوں نے بھی اپنے گھوڑوں کو پھیلا دیا ،یعنی تین ایک طرف اور تین دوسری طرف ہوگئے اور گھیرا ڈالنے کے انداز سے ان کے پیچھے گئے، ان دونوں سواروں نے بچ نکلنے کے لئے گھوڑوں کو انتہائی تیز رفتار کر لیا، لیکن فوجی گھوڑے ان پر جا پہنچے۔
زندہ پکڑنا ہے۔۔۔ مزمل نے بڑی ہی بلند آواز سے اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔پکڑے نہ جائیں تو زخمی کر کے گرا لو، قتل نہیں کرنا۔
ایک سوار گھیرے میں آ کر رک گیا، اس نے تلوار نکالی اور تعاقب میں جانے والوں نے بھی تلوار نکال لی، لیکن اس آدمی نے مقابلہ نہ کیا بلکہ تلوار اپنے دل کے مقام پر رکھ کر ایسی دبائی کے آدھی تلوار اس کے جسم میں داخل ہوئی اور پیچھے سے اس کی نوک باہر آگئی، وہ گھوڑے سے گرا اور جب اسے جا کر دیکھا تو اس نے اتنا ہی کہا کہ تم کسی فدائی کو زندہ نہیں پکڑ سکوں گے، اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے آخری سانس لی اور مر گیا۔
اس کا ساتھی بھی گھیرے میں آ گیا تھا لیکن اس نے تلوار تو نکالی خود کشی نہ کی بلکہ مقابلے میں اتر آیا ،پہلے تو اس کا مقابلہ تین سواروں کے ساتھ تھا، اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر جس طرح گھوڑے کو گھما پھرا کر پینترے بدلے اور تلوار گھمائیں اس سے پتہ چلا کہ یہ بڑا ہی ماہر تیغ زن ہے ،اس نے ایک آدمی کو زخمی بھی کر دیا لیکن زخم شدید نہ تھا۔
تین سواروں نے گھوم گھوم کر اس پر وار کئے لیکن وہ ہر وار بچاتا گیا ،حتیٰ کہ اس کا گھوڑا ذرا سا زخمی ہو گیا، توقع تھی کہ گھوڑا زخمی ہوکر بھاگ اٹھے گا اور سوار کے قابو سے نکل جائے گا، لیکن سوار نے اسے قابو میں رکھا، وہ شخص دراصل جان کی بازی لگائے ہوئے تھا، اسے آخر مارے ہی جانا تھا لیکن وہ اس کوشش میں تھا کہ جاتے جاتے دو تین آدمیوں کو بھی لیتا جائے۔
پہلے تو اس کا مقابلہ تین آدمیوں کے ساتھ تھا، اس کے ساتھی نے اپنے آپ کو خود ہی قتل کر لیا تھا اس لئے جو تین آدمی اس کی طرف گئے تھے وہ بھی ادھر آ گئے اور اب یہ اکیلا سوار چھ آدمیوں کے گھیرے میں آ گیا تھا، اور مزمل نے ایک بار پھر کہا کہ اسے زندہ پکڑو۔
اب یہ چھ کے چھ سوار اس کوشش میں تھے کہ یہ سوار خود کشی کیلئے اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھے تو فوراً جھپٹ کر تلوار چھین لی جائے، لیکن وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کر رہا تھا، بلکہ جم کر پینترے بدل بدل کر چھ گھوڑ سواروں کا مقابلہ کر رہا تھا، اسے زخم آ چکے تھے اور سب زخم اس کی ٹانگوں پر تھے، یہ چھ تیغ زن سوار اس کوشش میں تھے کہ اسے جان سے نہ مارا جائے اور اتنا سا زخمی کردیا جائے کہ گر بھی پڑے اور زندہ بھی رہے۔
آخر یوں ہوا کہ مزمل کے ایک سوار نے پیچھے سے آ کر اس کی تلوار والا ہاتھ زخمی کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے ایسا پکڑا کے گھوڑے سے گرا دیا ،تین چار سواروں نے اتر کر اس پر قابو پا لیا انہوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ اس کی چادر پھاڑ کر اس کے زخموں پر باندھ دی تاکہ وسم کوہ تک اس کا خون اتنا نہ نکل جائے کہ وہ زندہ بھی نہ رہ سکے، اسے اسی کے گھوڑے پر ڈال لیا گیا، اس پر غشی طاری ہو چکی تھی اس کے دوسرے ساتھی کا گھوڑا بھی پکڑ لیا گیا اور اس کی لاش وہیں پڑی رہنے دی۔
جب یہ قافلہ وسم کوہ کے قریب آیا تو بن یونس کو ایک احتیاط کا خیال آگیا، اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وسم کوہ میں اور باطنی بھی ہوں گے، انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان کے دو ساتھی الموت روانہ ہوگئے ہیں، احتیاط یہ کرنی چاہیے کہ انہیں معلوم نہ ہو سکے کہ الموت جانے والوں میں سے ایک مارا جا چکا ہے اور دوسرے کو زخمی کر کے پکڑ لائے ہیں۔
بن یونس نے بڑی اچھی بات سوچی تھی لیکن ان کے پاس کوئی ایسا کپڑا نہیں تھا جس سے اس باطنی کو چھپا لیتے ،مزمل نے اپنے ساتھیوں کو وہیں روک لیا اور ایک سے کہا کہ وسم کوہ جائے اور وہاں سے ترپال یا کمبل یا بڑے سائز کی دو بوریاں لے آئے،،،،، اس سوار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
وسم کوہ کوئی دور نہیں تھا وہ سامنے نظر آرہا تھا ،سوار دو بڑی بوریاں لے کر واپس آ گیا ،بہوش باطنی کو اس طرح دو بوریوں میں بند کر کے گھوڑے پر ڈال لیا گیا جیسے یہ کوئی سامان ہو، یہ قافلہ چل پڑا اور وسم کوہ میں داخل ہوا اور وہاں سے سالار اوریزی کے یہاں جا پہنچا، انہوں نے زخمی باطنی کو گھوڑے سے اتارا اور اندر ایک کمرے میں لے گئے، اس سے بوریاں اتار دی اور جب سالار اوریزی نے دیکھا تو فوراً حکم دیا کہ جراح اور طبیعت کو لایا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
طبیب اور جراح آئے تو سالار اوریزی نے انہیں بتایا کہ یہ بیہوش زخمی باطنی ہے اور اس کے سینے سے راز نکالنے ہیں، جراح نے کہا پہلے اس کے زخموں کا بندوبست کریں گے تاکہ خون رک جائے ورنہ یہ خون نکل جانے سے ہی مر جائے گا۔
خون نکل جانے دو۔۔۔ بوڑھے طبیب نے کہا۔۔۔ اس کے جسم میں اتنا ہی خون رکھا جائے گا جو اسے زندہ رکھے گا، اس کا زیادہ سے زیادہ خون نکل جانا چاہیے۔
جراح نے اور باقی سب نے حیرت زندگی کے عالم میں طبیب کی طرف دیکھا ،وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ خون نکل جانے سے انسان مر جاتا ہے لیکن طبیب کا تجربہ کچھ اور کہتا تھا، اسے بتایا گیا تھا کہ یہ باطنی ہے اور اس کے سینے سے راز نکالنے ہیں، باطنی اپنی جان دے دیا کرتے تھے راز نہیں دیتے تھے ،طبیب جانتا تھا کہ باطنیوں کے خون میں حشیش کے علاوہ نہ جانے کیسی کیسی جڑی بوٹیوں کے اثرات شامل ہوتے ہیں، اس نے کچھ عرصہ گزار مرو میں دو باطنیوں کا یہی علاج کیا تھا کہ وہ اتفاق سے زخمی تھے اور طبیب نے ان کا خون بہہ جانے دیا تھا، اور پھر انہیں ایسی غذا اور ایسی دوائیاں دیتا رہا کہ نیا خون پیدا ہوا تو وہ باطنی راز دینے پر آگئے تھے، اس باطنی پر بھی طبیب وہی طریقہ آزما رہا تھا، اس طبیب نے کوئی جڑی بوٹی دریافت بھی کر لی تھی جو ذہن کو نارمل حالت میں لے آتی تھی اور جسم پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے۔
کیا خون نکل جانے سے یہ مر نہیں جائے گا؟،،،،،، سالار اوریزی نے پوچھا ۔
میں زندگی اور موت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔۔۔ طبیب نے کہا میں صرف یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ یہ زندہ رہ گیا تو آپ اسے بدلے ہوئے روپ میں دیکھیں گے، اور اگر اس کے زخم فوراً ٹھیک کر دیے گئے اور یہی خون اس کے جسم میں رہا تو پھر آپ ایذا رسانی کے ذریعے اس کی جان لے سکتے ہیں راز نہیں۔
سب خاموش ہو گئے اور طبیب نے زخمی کے منہ میں قطرہ قطرہ پانی ٹپکانا شروع کردیا، اس پانی میں اس نے دوائی ملا دی تھی کچھ دیر پانی پلا کر اس نے زخمی کے منہ میں وہ دودھ پلانا شروع کردیا جس میں شہد ملا ہوا تھا، زخمی کے زخموں سے خون امنڈتا ہی چلا آ رہا تھا ،وہ تنو مند جوان تھا اور اس کے جسم میں سیروں کے حساب سے خون موجود تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو رہا تھا جب طبیعت نے اپنی انگلیاں زخمی کے نبض پر رکھ دیں، زخمی کے چہرے کا رنگ ایسا پھیکا پڑ گیا تھا جیسے اس کی زندگی کا بھی سورج غروب ہو رہا ہو اس کے زخموں کے نیچے ایک خاصا بڑا برتن رکھا ہوا تھا وہ بھر چکا تھا،،،،، طبیب نے جراح سے کہا کہ اب وہ اس کے زخموں کی مرہم پٹی کر دیے تاکہ مزید خون نکلنا بند ہو جائے ، زخمی بیہوش تھا اور اب اس کی سانسوں کا تسلسل کمزور سا ہو گیا تھا، جراح نے زخموں کو صاف کر کے مرہم پٹی شروع کردی۔
دوائیاں لگا کر پٹیاں باندھی گئیں تو طبیب نے ایک بار پھر زخمی کے منہ میں پانی ٹپکانا شروع کر دیا جو اس کے حلق سے اترتا چلا جا رہا تھا، یہ ثبوت تھا کہ وہ زندہ ہے اور پانی قبول کر رہا ہے ورنہ پانی اس کے منہ سے واپس نکلنا شروع ہو جاتا، اس طرح خاصا پانی ٹپکا کر طبیب پھر اسے شہد ملا دودھ قطرہ قطرہ دینا شروع کر دیا۔
بہتر ہے آپ سب اپنے اپنے کام کاج میں لگ جائیں۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ اپنے اپنے ٹھکانے پر چلے جائیں اور آرام کریں یہ کل دوپہر کے بعد شاید ہوش میں آئے گا اور اب میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ اللہ کی رضا سے زندہ رہے گا۔
وہ رات گزر گئی اگلا دن بھی گزر گیا اور پھر ایک رات اور آگئی طبیب اس دوران زخمی کے منہ میں کچھ نہ کچھ ٹپکاتا رہا، اس میں شہد ملا دودھ بھی تھا دوائی ملا پانی بھی تھا اور کچھ اور دوائیاں بھی تھیں اور وہ زخمی کے زخموں کو بھی دیکھ رہا تھا کہ ان سے خون نہیں نکل رہا،،،،،، خون بند ہو چکا تھا اور اب زخمی کے منہ میں طبیب کچھ ٹپکا تھا تو زخمی اپنا منہ خود ہی کھول لیتا تھا ،جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہوش میں آ رہا ہے، لیکن اس قدر کمزوری محسوس کر رہا ہے کہ اس سے بولا بھی نہیں جاتا۔
وہ رات گزری اور اس رات کے بطن سے جس صبح نے جنم لیا وہ صبح امید افزا ثابت ہوئی، زخمی نے بڑی ہی نحیف آواز میں پوچھا میں کہاں ہوں۔
اپنے عزیزوں کے پاس۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔دل پر کوئی غم اور بوجھ نہ رکھو، تم وہاں ہوں جہاں تمہارے لیے پیار ہی پیار ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
زخمی ابھی اتنا کمزور تھا کہ وہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتا تھا، لیکن وہ ہوش و حواس میں آگیا تھا، طبیب اس کی حرکت بڑی غور سے دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھیں دائیں بائیں گھومتی تھیں، اور آنکھوں کی ان حرکات کو بھی طبیعت بڑی اچھی طرح دیکھ رہا تھا۔
طبیب کے انداز میں ایسی شفقت تھی جس کا اظہار زخمی زبان سے تو نہیں کرتا تھا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات سے معلوم ہوتا تھا جیسے متاثر تو ہو رہا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ ہے کہاں۔
ایک دن اور ایک اور رات گزر گئی جب سے زخمی یہاں آیا تھا تین مرتبہ اس کے زخموں کی پٹی بدلی گئی تھی اور اب خون نہیں نکلتا تھا، وہ بیٹھنے لگا اور اسے مقوی غذائیں دی جانے لگی جو وہ اپنے ہاتھ سے کھاتا تھا۔
طبیب نے مزمل آفندی بن یونس اور باقی ان افراد کو جن کا زخمی کے کمرے میں جانے کا امکان تھا خصوصی ہدایات دے دی تھی کہ زخمی کے ساتھ ان کا رویہ اور باتیں کس قسم کی ہوگی، جب طبیب نے دیکھا کہ اب زخمی کے ہوش و حواس بحال ہوگئے ہیں اور صرف جسمانی کمزوری ہے تو اس نے سالار اوریزی اور دو تین افراد کو کمرے میں جانے کی اجازت دے دی، زخمی کا ردعمل یہ تھا کہ وہ حیرت سے ہر فرد کو دیکھتا اور اس کے ماتھے پر شکن آ جاتے جیسے وہ اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں اور اسے اس سوال کا جواب نہ مل رہا ہو، زخمی سالار اوریزی کو اچھی طرح جانتا تھا اور تقریباً ہر روز اسے دیکھتا تھا ،مزمل آفندی اور بن یونس سے بھی وہ واقف تھا ،اور جب عبید عربی اس کے سامنے آیا تو بھی وہ سوچ میں گم ہوگیا کہ اس جوان خوبرو آدمی کو کہاں دیکھا تھا۔
میں شاید ایک بڑے ہی حسین خواب سے بیدار ہوا ہوں ۔۔۔زخمی نے کہا ۔۔۔میں خواب میں ایک بہت ہی خوبصورت اور بڑی ہی خوش نما جگہ دیکھ رہا تھا جس میں حسین اور نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اور کہتے تھے یہ جنت ہے اور یہ حوریں ہیں،،،،،، معلوم نہیں وہ خواب تھا یا یہ خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ اس نے کچھ دیر سوچ کر جھنجھلاہٹ کے لہجے میں کہا۔۔۔ میں خواب اور حقیقت میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔
طبیب نے اسے ایک دوائی دی جس کے اثر سے وہ سوگیا، طبیب نے الگ جاکر سالار اوریزی وغیرہ سے کہا کہ اب یہ جوانسال باطنی ہمارے قبضے میں آگیا ہے اگر میں کامیاب نہ ہوتا تو یہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوتا اور مقابلے پر اتر آتا، اس کے ذہن سے زخمی ہونے سے پہلے کی زندگی کی ہر بات نکل گئی ہے، اب اس سے پوچھنا ہے کہ وہاں کیا ہوتا تھا اور وہ یہاں کیا کرتا تھا۔
یہ تبدیلی اسی رات سامنے آگئی ،زخمی کو بدستور مقوی غذا کھلائی جارہی تھی طبیب نے اسے دوائیاں بھی دیں اور اس کے پاس بیٹھ گیا ،زخمی پچھلی زندگی کی باتیں یوں ذہن پر زور دے دے کر یاد کرتا تھا جیسے اس نے وقعی خواب دیکھا تھا، زخمی چپ ہو گیا اور خلاؤں میں گھورنے لگا جیسے اسے کوئی خاص بات یاد آ گئی ہو ،یا وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
وہ میری بہن تھی۔۔۔ زخمی نے کہا ،اور اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا، جو غصے کی علامت تھی، اس نے غضب ناک آواز میں کہا۔۔۔ وہ میری بہن تھی اور میں اس کے ساتھ،،،،،، نہیں،،،، نہیں،،،، میں اس شیطان کو قتل کر دوں گا۔
وہ بے قابو ہو چلا تھا ،طبیب اور سالار اوریزی نے پیار اور محبت اور شفقت سے اسے ٹھنڈا کر لیا، اور پوچھا کہ وہ اصل بات بتائے اور حسن بن صباح کو قتل کرنے کا انتظام وہ خود کریں گے۔
اسے سب کچھ یاد آگیا تھا، اس کی ایک بہن تھی جو اسے یاد آئی تو اس کا ذہن بیدار ہو گیا، اور زخمی ہونے سے پہلے کی ساری زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی، اس نے سب سے پہلے یہ بتایا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ قلعہ الموت حسن صبح کو یہ اطلاع دینے جا رہا تھا کہ ہمارے دو آدمی اس شخص نے پکڑا وا کر مروا دیے ہیں جسے الموت سے سالار اوریزی کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ،وہ جس انداز اور جس لہجے میں بات کر رہا تھا اس میں رنج و ملال تھا، اس میں رنج و ملال تھا ،تاسف بھی تھا اور کچھ عتاب بھی تھا، اس نے بتایا کہ اس کا باپ حسن بن صباح کا ایسا مرید تھا کہ اسے خدا کا بھیجا ہوا نبی سمجھتا تھا۔
اس کی عمر پندرہ سولہ سال تھی اور اس کی ایک چھوٹی بہن تھی جس کی عمر تیرہ سال تھی، ان کی ماں فوت ہو گئی۔
وہ اور اس کی بہن اپنے باپ کے لیے مسئلہ بن گئی ،باپ نے دوسری شادی نہ کی اور ایک روز وہ اسے اور اس کی بہن کو ساتھ لے کر الموت چلا گیا، یہ لوگ بغداد کے رہنے والے تھے۔
باپ نے الموت جا کر اسے اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کے سامنے پیش کردیا اور التجاء کی کہ امام اس کے بچوں کو قبول کر لے، اور یہ اس کے لئے بڑی سعادت ہوگی، اس کی بہن بہت خوبصورت لڑکی تھی باپ ان دونوں کو حسن بن صباح کے حوالےکر کے وہاں سے آ گیا۔
بہن بھائی کو پہلے اپنی ماں یاد آیا کرتی تھی، اب باپ بھی یاد آنے لگا اور پھر گھر کی یاد بھی ستانے لگی، لیکن یہ کیفیت دو تین دن رہی، وہاں حسن بن صباح کے استادوں نے ان دونوں کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ اپنے ماں باپ اور گھر کو بھول گئے، انہیں الگ الگ کر دیا گیا تھا، یہ تو انہیں معلوم ہی نہ ہو سکا کہ انہیں جو شاہی کھانے کھلائے جا رہے ہیں ان کھانوں میں حشیش کے علاوہ اور بھی اشیاء ملی ہوئی ہوتی ہے جو انسان کی سوچ اور فکر اور شخصیت کو ہی بدل دیتی ہے، اس شخص کو اپنی بہن کے ساتھ بہت ہی پیارا تھا لیکن بہن کو اس سے الگ کر دیا گیا تو اس نے ذرا سا بھی محسوس نہ کیا کہ اس کی بہن اب اس کے ساتھ نہیں اور نہ جانے اسے کہاں لے گئے ہیں۔وہ نہ سمجھ سکا کہ حسن بن صباح انسانی فطرت سے بڑی اچھی طرح واقف ہے ،وہ جانتا تھا کہ فدائی اس وقت بننے شروع ہوتے ہیں جب عقل اور روح ابھی کچی ہوتی ہے، اور پھر فدائی اس وقت بنتے ہے جب ان تمام اعمال کی نہ صرف اجازت دے دی جاتی ہے بلکہ ان کا ارتکاب لازمی قرار دے دیا جاتا ہے جن میں لذت اور لطف ہوتا ہے، وہ دراصل یہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ الموت میں انسانوں کے ضمیر مار دیے جاتے ہیں، ضمیر کے احتجاج اور ردعمل کو دبانے کے لیے ہی وہاں حشیش پلائی جاتی تھی، اور گناہوں کا نشہ بھی طاری کر دیا جاتا تھا، اصل نشہ تو ان حسین اور نوجوان لڑکیوں کا ہوتا تھا جنھیں اس جنت کی حوریں کہا جاتا تھا اور انہیں خاص تربیت دی جاتی تھی، ان لڑکیوں کی بھی برین واشنگ کی ہوئی ہوتی تھی، وہ اپنے آپ کو سچ مچ جنت کی حوریں سمجھتی تھیں، حسن بن صباح کے عقیدے کی بنیاد یہ تھی کہ جو بات یا جو عمل اور فعل دل کو اچھا لگے کر گزرو۔
اس نے بتایا کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے دل سے خون کے رشتوں کا تقدس صاف ہو گیا، کسی فدائی کو کہا جاتا کہ اپنے ماں کا گلا کاٹ دو یا اپنے باپ کو قتل کر دو تو وہ یوں اپنے ماں اور اپنے باپ کو قتل کردیتا تھا جیسے وہ اس کے بد ترین دشمن تھے اور وہ ان دونوں کو قتل کرنے کے لئے ہی پیدا ہوا تھا ،حسن بن صباح نے بعض بیٹوں کے ہاتھوں اپنے باپوں کو قتل کروایا، بعض باپون نے حسن بن صباح کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو قتل کر دیا تھا ۔
اس باطنی نے جس نے اپنا نام ابن مسعود بتایا تھا ایک بڑی تکلیف دہ بات سنائی ،اس نے کہا کہ ساڑھے چار پانچ سال بعد جب وہ پکا فدائی بن چکا تھا اسے جو حور دی گئی وہ اس کی چھوٹی بہن تھی ،ان دونوں کی ذات میں یہ احساس بیدار ہوا ہی نہیں کہ یہ بہن بھائی ہیں، ابن مسعود کا یہ احساس فہم وسم کوہ میں آٹھ نو سال بعد بیدار ہوا تھا جب طبیب نے اس کے ذہن کو بیدار کردیا تھا ،اس کا خون ایک بار پھر جوش میں آ گیا اور وہ مٹھیاں بھینچ کر اور دانت پیس کر اٹھ کھڑا ہوا۔
میں حسن بن صباح کو قتل کروں گا ۔۔۔۔اس نے کہا ۔۔۔پھر میں اسی خنجر سے اپنے آپ کو مار لوں گا۔
بیٹھ جاؤ ابن مسعود!،،،،،، طبیب نے کہا۔۔۔۔ تمہاری یہ خواہش اور یہ ارادہ بھی پورا ہو جائے گا ،لیکن ابھی اپنے آپ کو قابو میں رکھو ،تمہارے زخم ابھی کچے ہیں اگر تم نے خون کو یوں گرمایا اور اتنا ابال دیا تو زخم کھل سکتے ہیں پھر تم کچھ نہیں کر سکو گے۔
سالار اوریزی نے بھی اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے تسلیاں دیں کہ وہ بھی یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ صرف حسن بن صباح کوئی قتل نہیں کریں گے بلکہ الموت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، اس طرح دوسروں نے بھی کچھ نہ کچھ کہہ کر اسے ٹھنڈا کر لیا۔
وہ بار بار یہی کہتا تھا کہ حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرے گا، اور اپنی بہن کو وہاں سے واپس لے آئے گا، ایک بار تو اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی بہن کا سامنا بھی نہیں کرسکے گا اور وہ بہن کو بھی قتل کر دے گا۔
اس سے پوچھا گیا کہ فدائی بن کر وہ کیا کام کیا کرتا تھا،،،،، اس نے اپنے ان کاموں کی تفصیل سنائی جو اس سے گزرے ہوئے چھ سات برسوں کے عرصے میں کروائے گئے تھے ،یہ پراسرار غارت گری اور عیش و عشرت کی روداد تھی، اس نے کہا کہ قتل کرنا اور پھر قتل ہوجانا اور اپنے سینے میں خنجر اتار لینا ایسے ہی تھا جیسے کوئی آدمی سو گیا اور جاگ اٹھا اور پھر سو گیا، اس نے بتایا کہ الموت میں انسان کو اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ خود کشی میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔
اس کے بعد مجھے قافلے لوٹنے کا کام دے دیا گیا۔۔۔ ابن مسعود نے کہا۔۔۔میں آج پہلی بار محسوس کر رہا ہوں اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتا ہوں کہ میں درندوں سے بڑھ کر ظالم تھا ،اور میں نے معصوم بچوں اور بے گناہ مردوں اور عورتوں کا خون بہایا ہے، ہم قافلوں پر اس طرح جھپٹ پڑتے تھے جس طرح بھیڑئے بھیڑوں کے ریوڑ پر ٹوٹ پڑتے ہیں ،ہم بھیڑیوں سے کم نہ تھے، کوئی آدمی ذرا سی بھی مزاحمت کرتا یا یا شک ہو تاکہ یہ مزاحمت کرے گا ہم اس کے سینے میں خنجر اتار دیا کرتے تھے ،میں نے نے ماؤں کی گودیوں سے بچے اور بچیاں نوچی ہیں، ہمارے لئے حکم تھا کہ کوئی خوبصورت بچہ اور کوئی خوبصورت بچی نظر آئے تو اسے اٹھا لاؤ ،ہم قافلے کو لوٹ کر واپس آتے تو پیچھے خون کی ندیاں چھوڑ آتے تھے ،کچھ دور تک ہمیں چیختی چلاتی ماؤں اور دھاڑءلیں مارمار کر روتے آدمیوں کی جگر پاش آوازیں سنائی دیتی تھیں جو ہمارے گھوڑوں کے ٹاپوں میں دب جاتی تھیں، ہمیں اس کامیابی پر اس قدر خوشی ہوتی تھی کہ ہم چیختے اور چلاتے تھے، ہمارے ساتھ قافلے سے اٹھائی ہوئی چند ایک نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی تھیں، ہم ہم ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور عیش موج کر کے جشن مناتے تھے،،،،، مجھے آج یہ بھی یاد نہیں کہ کتنے انسان میرے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، کہ وہ سیکڑوں میں تھے یا ہزاروں میں مجھے کچھ یاد نہیں،،،،،، میں نے یہ قتل و غارت نشے کی حالت میں کئے تھے اور کبھی یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک خواب تھا اور اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اور اب میں بیدار ہوں، لیکن وہ حقیقت تھی مجھے درندہ بنا دیا گیا تھا اور میں اس میں روحانی لذت محسوس کرتا تھا،،،،، اب میں انتقام لوں گا ،مجھے انہوں نے قاتل بنا دیا تھا ،اب میں انہیں قتل کروں گا۔
تم اکیلے یہ کام نہیں کر سکو گے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا ۔۔۔قتل کرنے جاؤ گے اور جاتے ہیں خود ختم ہو جاؤ گے، ہم تمہیں بار بار کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کام ہے ہم اس اس اڈے کو ہی اکھاڑ پھینکیں گے جہاں کا قاتل تیار کیے جاتے ہیں اور معصوم بچوں کو گناہوں کی وادیوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں بہن بھائی کا مقدس رشتہ بھی دم توڑ جاتا ہے،،،،،، انتقام لینے کے لئے کوئی خاص طریقہ اختیار کرنا پڑے گا، تم صرف یہ بتا دو کہ یہاں وسم کوہ میں کون کون باطنی ہے اور فدائی کون کون ہے ان کی نشاندہی کروں اور ہم پہلے انہیں پکڑتے ہیں اور تلوار تمہارے ہاتھ میں دیں گے کہ یہ یہ لو ان کی گردنیں اڑا دو۔
ابن مسعود نے تین مکان بتائیں اور کچھ لوگوں کے نام بھی لیے، سالار اوریزی نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلایا اور ان مکان پر چھاپا مارنے کے لئے کچھ ضروری ہدایات دی ،اس نے کہا کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔
چھاپا مار دستہ فوراً گھوڑوں پر سوار ہوا اور ان تینوں مکانوں پر بیک وقت چھاپا مارا گیا، ان تینوں مکانوں میں سے جو افراد پکڑے گئے ان میں تین جوان سال اور بڑی خوبصورت عورتیں تھیں، سات آدمی تھے اور بچہ ایک بھی نہ تھا، ان کو پکڑنے کے لیے بڑھے تو ان میں سے چار نے خنجر نکال لیے، لیکن وہ مقابلے پر نہ آئے بلکہ خنجر اپنے دلوں میں اتار لیے اور گرفتاری سے بچ کر دنیا سے ہی اٹھ گئے، دو آدمیوں نے بڑے آرام سے اپنے کپڑوں کے اندر سے کچھ نکالا اور منہ میں ڈال لیا ،وہ وہیں کھڑے رہے چھاپا مارنے والوں نے انہیں پکڑنے کو آگے بڑھے تو وہ بڑے اطمینان سے خود ہی آگے آ گئے اور انہیں گرفتار کرلیا گیا،لیکن چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ وہ گر پڑے اور مر گئے، انہوں نے زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی۔
تین عورتیں جو پکڑی گئی تھیں ان کے چہروں پر ذرا سا بھی کوئی خوف یا ملال نہ تھا، بلکہ ہونٹوں پر ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ تھی، تینوں مکانوں میں سے کچھ مقدارحشیش کی اور کچھ جڑی بوٹیاں برآمد ہوئیں اور سونے کی شکل میں خاصا مال ملا ،اس کے علاوہ خنجر تلوار اور تیر و کمان ملے۔
صرف ایک آدمی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا، چھاپا مارا اس گھر میں داخل ہوئے تو وہ جواں سال آدمی بالائی منزل کے ایک کمرے میں سے نکلا اس نے نیچے دیکھا اور چھت سے اس طرح کودا کہ منڈیر سے لٹکا اور گلی میں کود گیا، ایک چھاپہ مار اسے پکڑنے کے لیے باہر نکلا لیکن وہ جوان سال باطنی چھاپا مارا کے کھڑے گھوڑوں میں سے ایک گھوڑے پر کود کر سوار ہوا اور ایڑ لگا دی، جتنی دیر میں اسے پکڑنے والا چھاپا مار اپنے گھوڑے پر سوار ہوتا اتنی دیر میں وہ باطنی دور نکل گیا تھا ،چھاپا مار کچھ دور تک اس کے تعاقب میں گیا لیکن وہ بہت ہی فاصلہ طے کر گیا تھا اور اب اس کے پیچھے جانا بیکار تھا۔
سات ہی آدمی ہاتھ آئے تھے جن میں سے چھ نے خودکشی کر لی اور ساتواں بھاگ نکلا، پیچھے تین عورتیں رہے گئیں جنہیں سالار اوریزی کے حوالے کر دیا گیا، سالار اوریزی نے ان سے پوچھا کہ وہ ان کی بیویاں تھیں اور وہ یہاں کیا کرتی تھیں۔
ہم میں سے کوئی بھی کسی کی بھی بیوی نہیں تھی۔۔۔ ان تینوں میں سے ایک نے پراعتماد لہجے میں کہا ۔۔۔ہم ان سب کی داشتائیں تھیں، اور ان کی تفریح کا ذریعہ، ہمارا کوئی اور کام نہیں تھا ،ہم صرف یہ بتا سکتی ہیں کہ قتل کی باتیں ہوتی رہتی تھیں، اور پھر یہ پتہ چلا کہ عبید عربی نام کے ایک آدمی نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
ان عورتوں سے راز لینے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ کچھ بھی نہ بتا سکیں، اور آخر اسی کو سچ مان لیا گیا کہ یہ کچھ بھی نہیں جانتیں۔
یہ سارا واقعہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو خواہ کسی نے ہی سرانجام دیا تھا ،یہ سالار اوریزی کے کام آیا ،اتنی بڑی کامیابی کو وہ اپنے تک ہی محدود نہیں رکھ سکتا تھا ،اس نے سلطان محمد کو اطلاع دینے کے لئے قاصد مرو بھیج دیا ،دوسرا قاصد سنجر کی طرف شاہ در بھیجا، سنجر بھی سلطان ہی تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*