🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اکسٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حق و باطل کا تصادم اسی روز شروع ہو گیا تھا جس روز غار حرا سے نور حق کی کرنیں پوٹی تھیں، حق و باطل کے لشکروں نے میدانوں اور صحراؤں میں خونریز لڑائیاں لڑیں، دشت و جبل میں برسرپیکار ہوئے، پہاڑوں دریاؤں اور سمندروں میں ان کے معرکے ہوئے اور ہوتے ہیں چلے آ رہے تھے، دونوں فریقوں کی فوج کے خون سے صحراؤں کے ریت اور سمندروں کا پانی لال ہو گیا، مطلب یہ کہ حق و باطل جب بھی باہم متصادم ہوئے دُوبدو معرکہ آرا ہوئے، لیکن حسن بن صباح اٹھا تو اس نے حق کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کردی جس کا حق پرستوں کے یہاں کوئی تصور ہی نہ تھا، یہ ایک زمین دوز جنگ تھی، یہ ساری داستان جو اب تک تک میں نے سنائی ہے ایسی ہی انوکھی جنگ کی داستان ہے، یہاں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔
اہلسنت حق پرستوں نے پہلے پہل اسی لیے بہت نقصان اٹھایا کہ وہ اس طریقہ جنگ سے واقف نہ تھے، وہ تو مردان حُر تھے جو میدان میں اتر کر لڑا کرتے تھے، یہ سنایا جاچکا ہے کہ کتنی اہم شخصیات باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے، لیکن اب مسلمان اس طریقہ جنگ کو سمجھ گئے اور انھوں نے باطنیوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا، شاہ در کی فتح تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل ثابت ہوئی یہ بھی سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کا قتل بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا ،مورخین لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح کو کہیں سے بھی اپنے فرقے کے نقصان کی کوئی خبر ملتی تھی تو وہ مسکرا دیا کرتا تھا، جیسے اسے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو، اس کے قلعے لے لیے گئے تو بھی اس نے ہنس کر ٹال دیا، مگر اب اس پر سنجیدگی طاری ہو گئی تھی۔
حسن بن صباح کا پیرومرشد تو مار آ ہی گیا تھا اور حسن بن صباح نے یہ انتہائی کڑوا گھونٹ بھی نگل لیا تھا ،لیکن عبدالملک اس کے سامنے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا ،وہ یہ کہ اس نے قلعہ ناظروطبس میں حسن بن صباح سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اس نے شاہ در سے کچھ دور اچھا خاصا خزانہ چھپا کر رکھا ہوا ہے جسے وہ بوقت ضرورت استعمال کرے گا ،اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے علاوہ صرف دو آدمی ہیں جو جانتے ہیں کہ یہ خزانہ کہاں ہے۔
عبدالملک نے یہ بات کیوں کی تھی، جیسے اسے یقین تھا کہ اس نے تو مرنا ہے ہی نہیں، وہ یہ خزانہ پیچھے چھوڑ کر دنیا سے اٹھ گیا یا اٹھا دیا گیا، اس نے حسن بن صباح کو یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ خزانہ کہاں ہے، یہی بتایا تھا کہ دو آدمی جانتے ہیں لیکن اس نے ان دو آدمیوں کے نام نہیں بتائے تھے، نہ یہ بتایا کہ وہ کہاں ہے، حسن بن صباح کو تو خزانے کی ضرورت ہر وقت رہتی تھی، ضرورت نہ بھی ہوتی تو بھی اس کی فطرت خزانوں کی متلاشی رہتی تھی، وہ اب اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ اپنے پیر و مرشد کا یہ خزانہ کس طرح ڈھونڈے، اور وہ جانتا تھا کہ جب تک ان دو آدمیوں کا اتا پتہ نہ ملے ،خزانہ نہیں مل سکے گا۔
عبدالملک حسن بن صباح کے آگے ایک اور مسئلہ رکھ گیا تھا، اس نے کہا تھا کہ ہم لوگ چوری چھپے قتل کرانا جانتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے فدائی موجود ہیں جو قتل کر کے خودکشی کر لیتے ہیں، لیکن ایسے قاتل فوجوں کی یلغار کو نہیں روک سکتے، نہ ہی وہ محاصرے کو توڑتے ہیں، اس کے لیے باقاعدہ فوج کی ضرورت ہے اور اس فوج کو محاصرہ توڑنے کی اور محاصرہ کرنے کی اور میدان میں لڑنے کی تربیت دی جائے، اس نے حسن بن صباح سے یہ بھی کہا تھا کہ جن سلجوقیوں شاہ در لے لیا ہے وہ اب سیدھے الموت پر آئیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ الموت کو بھی فتح کر لیں،،،،،،، حسن بن صباح نے اس تجویز پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا، اس نے اپنے مشیروں کو بتا دیا تھا کہ وہ ایک لشکر تیار کر لیں اور پھر اس کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے کفار کو شکست دینے کے لیے ابابیلیں بھیجی تھیں، جن کی چوچوں میں کنکریاں تھیں، اسی طرح حسن بن صباح کے فرقے کے خاتمے کے لئے خداوند تعالی نے کنکریاں والی ابابیلوں کا ہی بندوبست کردیا، یہ اللہ کی مدد کی تھی اور اللہ حق پرستوں کو کچھ عرصہ آزمائش میں ڈال کر ان کی مدد کا بندوبست کر ہی دیا کرتا ہے، ورنہ شافعیہ جیسی حسین و جمیل اور مصیبت زدہ لڑکی ایسے باطنیوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنتی جو سالار اوریزی کو قتل کرنے آئے تھے، اور وسم کوہ میں رہ کر نہ جانےاور کتنی اور کیسی تباہی لاتے ، ایسا دوسرا کردار جو تاریخ کے اس باب میں ابھرا وہ نور تھی، اور اس کے ساتھ اس کا باپ تھا۔
شافعیہ کی طرح نور بھی حسین و جمیل اور جوان سال لڑکی تھی ، اس کی داستان سنائی جا چکی ہے، یہ کہنا غلط نہیں کہ شاہ در کی فتح کا باعث اس کا باپ بنا تھا اور وہ خود بھی اب وہ مرو میں سلطان کے محل میں تھی، سلطان محمد نے اسے اور اس کے باپ کو خاصا انعام و اکرام دیا تھا اور دونوں کو محل میں رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی۔
نور اب آزاد تھی ،حسین بھی تھی، جوان بھی تھی، اسے اب زندگی سے لطف اٹھانا چاہیے تھا اور یہ اس کا حق بھی تھا، اس پر جو گزری تھی وہ بڑا ہی دردناک حادثہ تھا ،اسے ایک بوڑھے نے زبردستی اپنی بیوی بنا لیا تھا لیکن اس کی حیثیت ایک زرخرید لونڈی جیسی تھی، وہ تو جہنم سے نکل کر جنت میں آئی تھی، اب اس پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ اپنی پسند کا کوئی آدمی دیکھ کر اس کے ساتھ شادی کر سکتی تھی، ایک سے بڑھ کر ایک امیر زادہ اس کی راہ میں آنکھیں بچھانے کو بیتاب تھا، لیکن اس کی اپنی بے تابیاں کچھ اور ہی نوعیت کی تھی، اس کے اندر انتقام کی آگ جل رہی تھی، بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ کسی سوچ میں کھو جاتی اور اچانک پھٹ پڑتی اور باپ سے کہتی تھی کہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہے، وہ اس پر مطمئن نہیں تھی کہ اس کا خاوند سزائے موت پا گیا ہے اور عبدالملک بن عطاش بھی جہنم واصل ہو چکا ہے، اور ان کا انتہائی مضبوط اڈہ جسے شاہ در کہتے تھے حق پرستوں کے قبضے میں آگیا ہے، انتقام کا جذبہ اسے بحال کئے جا رہا تھا۔
باپ اسے ٹھنڈا کرانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ اب اس کی شادی کسی موزوں آدمی کے ساتھ ہو جائے اور وہ اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوکر باقی عمر اللہ اللہ کرتے گزارے، نور کہتی تھی کہ شادی تو اسے کرنی ہی ہے لیکن وہ باطنیوں کے خلاف کچھ کیے بغیر کسی کی بیوی بننا پسند نہیں کرتی۔
ایسی ہی باتیں کرتے کرتے ایک روز نور نے باپ سے کہا کہ وہ شاہ در جا کر آباد ہو جائیں اور شاید اسے چین آ جائے، اس کا یہ خیال اچھا تھا ،جس شاہ در میں وہ زرخرید بیوی یا لونڈی تھی، اس شاہ در میں جاکر وہ آزادی سے گھومنا پھیرنا چاہتی تھی، اس کے باپ نے اپنی کوئی رائے ضرور ی دی ہوگی لیکن نور فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ باپ کو ساتھ لے کر شاہ در چلی جائے گی اور باقی عمر وہیں گزارے گی،،،،،،،، ایک روز اس نے اپنے باپ کو مجبور کر دیا کہ وہ سلطان کے پاس جائے اور اسے کہے کہ وہ انہیں شاہ در پہنچانے کا بندوبست کر دے اور وہاں ان کا کوئی ذریعہ معاش بھی ہو جائے تو وہ باقی عمر وہیں گزاریں گے۔
اس کا باپ سلطان محمد کے پاس گیا اور عرض کی کہ وہ اسی طرح سلطان کے محل میں سرکاری ٹکڑوں پر زندہ نہیں رہنا چاہتے، کیونکہ یہ ان کے وقار کے خلاف ہے ،باپ نے کہا کہ وہ کوئی ایسا بوڑھا تو نہیں ہوگیا کہ اپنے ہاتھوں کچھ کما نہ سکے، وہ شاہ در کو ہی موزوں سمجھتا ہے جہاں وہ اپنی روزی خود کمائے گا۔
سلطان محمد نے اسی وقت حکم دے دیا کہ نور اور اس کے باپ کو شاہ در پہنچا دیا جائے، اور سنجر کو یہ پیغام دیا جائے کہ اس باپ بیٹی کو اتنی زمین دے دی جائے جو انہیں باعزت روٹی بھی دے اور معاشرے پر وقار مقام بھی بن جائے،،،،،، اس طرح کچھ دنوں بعد نور اور اس کا باپ شاہ در پہنچ گئے انہیں سرکاری انتظامات کے تحت گھوڑا گاڑی میں وہاں تک پہنچایا گیا تھا ،سنجر کو سلطان کا حکم دیا گیا کہ انہیں زمین اور مکان فوراً دے دیا جائے ، سنجر تو ان پر بہت ہی خوش تھا، نور باپ نے جو کارنامہ کر دکھایا تھا اس کی قیمت تو دی ہی نہیں جا سکتی تھی، سنجر نے انہیں ایک تو بڑا ہی اچھا مکان دے دیا اور پھر قلعے کے باہر اچھی خاصی زرخیز زمین بھی دے دی، کچھ مالی امداد بھی دی تھی تاکہ یہ اپنی زمین کی کاشت شروع کر سکیں۔
باپ بیٹی اس مکان میں آباد ہو گئے اور پھر باپ نے ایسے نوکروں کا انتظام کرلیا جن کا پیشہ کاشتکاری تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نور اس محل میں گئی جہاں عبدالمالک اور اس کا بھائی احمد شہنشاہوں کی طرح رہتے تھے، وہ جب اس محل میں داخل ہوئی تو اس کا دم گھٹنے لگا ،وہ یوں محسوس کرنے لگی جیسے اس کا خاوند یہیں ہے، اور جونہی وہ اندر داخل ہوئی خاوند اسے دبوچ لے گا، لیکن جب وہ اس محل میں داخل ہوئی تو سنجر کی دونوں بیویوں نے اس کا استقبال بڑے ہی پیار اور خلوص کے ساتھ کیا ،وہ جانتی تھیں کہ اس لڑکی اور اس کے باپ نے شاہ در کی فتح میں کیا کردار ادا کیا ہے، نور نے وہ کمرہ دیکھا جس میں وہ اپنے بوڑھے خاوند کے ساتھ راتیں بسر کرتی تھی ،اب اس کمرے میں کوئی پلنگ نہیں تھا نہ اس وقت کی کوئی چیز موجود تھی ،وہاں سنجر کے تین بچے اتالیق سے دینی تعلیم لے رہے تھے،،،،،،، نور کو روحانی تسکین ہوئی اس کی ذات میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ کچھ سرد ہو گئی۔
اس کا باپ علی الصبح اپنی زمین پر چلا جاتا اور نوکروں سے کام کروایا کرتا تھا ،انہیں کچھ کھیتیاں تو ایسی مل گئی تھیں جن میں فصل پک رہی تھی، نور اپنے لیے اور باپ کے لیے کھانا تیار کرکے وہی کھیتوں میں لے جایا کرتی تھی، باپ اسے کہتا تھا کہ کھانا نوکر لے آیا کرے گا ،لیکن نور آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی، اور اسے یہ کھیت جو قلعے کے باہر تھے بڑے ہی اچھے لگتے تھے، یہ اس کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔
ایک روز دوپہر کے وقت باپ کے ساتھ کھانا کھا کر نور کھیتوں کی طرف نکل گئی، فصل کی ہریالی سمندر کی لہروں جیسی لگتی تھی، ہوا کے جھونکوں سے لہلہاتے کھیت اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرنے لگے، وہ دو کھیتوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلی جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک جوان سال آدمی آتا نظر آیا، اس شخص کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر لگتی تھی ،بڑا ہی خوبرو جوان تھا، دور سے ہی نور کو اس کا چہرہ شناس اور مانوس سا لگا، وہ آدمی بھی نور کو دیکھ کر کچھ ٹھٹھک سا گیا اور پھر اس نے اپنے قدم تیز کر لئے۔
اسے بھی نور کا چہرہ ایسا لگا جیسے یہ چہرہ اس نے کئی بار دیکھا ہوگا ،وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے اور پھر دونوں کے قدم تیز ہو گئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے رک گئے۔
اللہ کرے وہ خبر غلط ہو جو میں نے سنی ہے۔۔۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔سنا تھا آپ بیوہ ہو گئی ہیں، اور عبدالملک بن عطاش بھی قتل کر دیا گیا ہے اور،،،،،،،،،،
تم نے جو سنا ہے وہ ٹھیک سنا ہے۔۔۔۔نور نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔ اب یہ نہ کہنا کہ تمہیں یہ خبر سن کر دلی رنج ہوا ہے، مجھے ذرا سا بھی رنج اور ملال نہیں ہوا اور میں اب آزاد اور خوش ہوں،،،،،،،،، مجھے تمہارا نام یاد ہے، حاذق ہے نا تمہارا نام؟،،،،،،،، اب مجھے آپ نہ کہنا ،میں تم سے تین چار برس چھوٹی ہوں اور مجھے تم کہو تو زیادہ اچھا لگے گا۔
اس آدمی کا نام حاذق ہی تھا ،وہ شاہ در کا ہی رہنے والا تھا ،نور کو تو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ شخص کیا کام کرتا ہے، وہ اتنا ہی جانتی تھی کہ شاہ در کے محاصرے سے پہلے اونچی حیثیت کا آدمی تھا ،تیسرے چوتھے روز عبدالملک سے ملنے آیا کرتا تھا، نور کے خاوند سے بھی بڑے پیار اور دوستانہ انداز سے ملا کرتا تھا اور خاصا وقت ان کے پاس اندرونی کمرے میں بیٹھا رہتا تھا، اس محل میں حاذق کو خصوصی احترام حاصل تھا، کبھی نور سے اس کا آمنا سامنا ہو جاتا تو نور کو وہ مسکرا کر اور بڑے ادب و احترام سے سلام کیا کرتا تھا ۔
نور کو یہ شخص دلی طور پر اچھا لگتا تھا لیکن اس کے ساتھ اس سے بات کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا، صرف مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اونچی حیثیت کا ہونے کے علاوہ یہ شخص خوبرو تھا ،دراز قد تھا ،اور قد کاٹھ میں اتنی جاذبیت تھی کہ عورتیں اسے رک کر دیکھتی تھیں، تب نور کے دل میں ایک خواہش سر اٹھانے لگی کہ اس شخص کو کسی دن روک لے اور اپنے کمرے میں بٹھائے اور اس کے ساتھ باتیں کرے ،یہ ضروری نہیں تھا کہ حاذق اسے بہت ہی اچھا لگتا تھا ،یہ دراصل اس کا نفسیاتی اور جذباتی معاملہ تھا وہ حاذق کو اپنے بوڑھے خاوند کے مقابلے میں دیکھتی تھی، باہر کا کوئی اور آدمی تو اس محل میں جا ہی نہیں سکتا تھا، یہ واحد آدمی تھا جو وہاں جاتا تھا اور اسے محل میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی ،دوسری بات یہ تھی کہ نور کے دل میں اپنے خاوند کے خلاف انتقامی جذبہ بھی پرورش پا رہا تھا، نور حاذق کو دیکھ کر مسکرا اٹھتی تھی، اس مسکراہٹ میں صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر کی پیاس تھی ،اور اس مسکراہٹ میں پنجرے میں بند پنچھی کی تڑپ تھی، اس کو اس بے ساختہ مسکراہٹ میں بیڑیوں میں جکڑی ہوئی لونڈی کی آہیں اور فریادیں تھیں، نور پر پابندیاں ایسی لگی ہوئی تھیں کہ وہ حاذق کو روک نہیں سکتی تھی ،لیکن اس کی مسکراہٹوں کو تو بیڑیاں نہیں ڈالی جاسکتی تھیں، حاذق اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب وہ حاذق اس کے سامنے کھیتوں میں کھڑا تھا، نور نے پہلے تو کچھ یوں محسوس کیا جیسے وہ حاذق کو خواب میں دیکھ رہی ہو، یا یہ اس کا تصور ہو ،لیکن جب باتیں ہوئیں تو حاذق اس کے سامنے حقیقی روپ میں آ گیا ،،،،، اب نور آزاد تھی ،شاید اسی لیے وہ پہلے سے زیادہ حسین لگتی تھی، اس کے چہرے پر اداسی اور مظلومیت کے تاثرات نہیں تھے جو اس کے چہرے پر چپکے رہ گئے تھے، اس کی بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں، شاہ در کی دنیا ہی بدل گئی تھی، عبدالملک کا محل تو وہی تھا لیکن اب اس میں وہ نحوست اور ابلیسیت نہیں تھی، اب نور کے اور حاذق کے درمیان کچھ بھی کوئی بھی انسان حائل نہیں ہو سکتا تھا۔
میرا خیال تھا تم یہاں نہیں ہو گے۔۔۔۔ نور نے حاذق سے کہا اور بے اختیار اسکا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
مجھے جانا ہی کہا تھا۔۔۔۔ حاذق نے نور کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ لوگ حسن بن صباح کے فرقے کے تھے اور میں اہل سنت ہوں اور پکا مومن ہوں، میں نے تو اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ ان کا تختہ الٹ گیا ہے اور اسلام ایک بار پھر شاہ در میں داخل ہوگیا ہے۔
کیا تم شہر میں رہتے ہو؟،،،، نور نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،حاذق اپنے ایک گاؤں کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔۔۔میں اس گاؤں میں رہتا ہوں،،،، اکیلا ہی رہتا ہوں ۔
اکیلا کیوں؟،،،،، نور نے پوچھا۔
بیوی دھوکا دی گئی ہے۔۔۔ حاذق نے جواب دیا ۔۔۔الموت بھاگ گئی ہے وہ باطنیوں کے جال میں آ گئی تھی، یہ مجھے بعد میں پتہ چلا، مجھے اس کا کوئی غم نہیں، وہ ایک ابلیس کی مرید تھی اچھا ہوا اسی کے پاس چلی گئی ہے اور میں دھوکے اور فریب سے محفوظ ہو گیا ہوں۔
نور نے حاذق کو بتایا کہ یہ اتنی زیادہ زمین اور کھیتیاں اسے اور اس کے باپ کو سلطان نے عطا کی ہیں، اور شہر میں بڑا ہی اچھا اور کشادہ مکان بھی دیا ہے۔
حاذق نے اسے بتایا کہ اس کے آگے گاؤں کے ارد گرد تمام کھیتیاں اس کی ہیں اور ان کھیتوں نے اسے اچھی خاصی دولت دی ہے، اور شہر میں عزت بھی دی ہے۔
آؤ میں تمہیں اپنے باپ سے ملواؤں۔۔۔ نور نے کہا ۔۔۔اور حاذق کا بازو پکڑ کر اس کی طرف چل پڑی جہاں اس کا باپ کام کروا رہا تھا۔
نور کے باپ نے دیکھا کہ اس کی بیٹی ایک آدمی کو اپنے ساتھ لا رہی ہے تو وہ اس کی طرف چل پڑا ،ذرا قریب گیا تو اس کے قدم رکنے لگے، کیونکہ وہ حاذق کو پہچانتا ہی نہیں بلکہ جانتا بھی تھا ،نور کا باپ عبدالملک کا قابل اعتماد خادم بنا ہوا تھا، کئی بار حاذق عبدالملک کے پاس نور کے باپ کی موجودگی میں آیا اور ان کی باتیں نور کے باپ نے بھی سنیں، اس کی نگاہ میں حاذق باطنی تھا ،اور عبدالملک کا بڑا ہی پکا اور برخودار مرید تھا، اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حاذق حسن بن صباح کے فرقے کا خاص آدمی تھا۔
حاذق نے آگے بڑھ کر نور کے باپ سے مصافحہ کیا اور پھر اس کے ساتھ بغلگیر ہو گیا ،لیکن جس وارفتگی کا مظاہرہ اس نے کیا تھا اتنی ہی سرد مہری کا مظاہرہ نور کے باپ نے کیا ۔
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم بابنی نہیں ہو؟،،،،،نور کے باپ نے پوچھا۔
کیا یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے۔۔۔ حاذق نے جاں فضا مسکراہٹ سے جواب دیا۔۔۔۔میرا یہاں موجود ہونا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں اور ان باطنیوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، میں نور کو بتا چکا ہوں کہ میری بیوی باطنی تھی اور وہ مجھے دھوکا دے کر بھاگ گئی ہے، میں پہلے ہی جان نہ سکا کہ وہ ان شیطانوں کے چنگل میں آئی ہوئی ہے، آپ نے مجھ پر بجا طور پر شک کیا ہے ،عبدالمالک اور اس کے بھائی اور بیٹے کو میں نے اپنا دوست بنا رکھا تھا، یہ محض ایک فریب تھا ،وہ دیکھیں میری کھیتیاں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں، اگر میں ان لوگوں کے ساتھ بگاڑ کر رکھتا تو وہ مجھے قتل کر کے میری اتنی وسیع و عریض جائیداد پر قبضہ کر لیتے، میں اپنی اس جائیداد کو اور اپنی حیثیت کو بچانے کی خاطر ان کے سامنے باطنی بنا رہا اور گھر میں باقاعدہ صوم و صلاۃ کی پابندی کرتا رہا ،یہی وجہ ہے کہ میں سر اونچا کرکے اور سینہ تان کر اس شہر میں گھومتا پھرتا ہوں، اگر میں باطنی ہوتا تو میں پہلی صف کا باطنی ہوتا ،میری کاروائیاں بڑی ہی تباہ کن ہوتیں، لیکن یہاں مجھے جاننے والے جو لوگ ہیں ان سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ میں نے کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسی بات کی ہو، عبدالملک بڑا استاد بنا پھرتا تھا لیکن میں اسے بے وقوف بناتا رہا اور اسے اپنی مٹھی میں بند رکھا، اس کے قتل کی خوشی جتنی مجھے ہوئی ہے وہ شاید کسی اور کو نہیں ہوگی، اللہ نے اس خاندان قہر نازل کیا اور پورا خاندان ہی ختم ہو گیا۔
حاذق نے اور بھی بہت سی باتیں کہہ سن کر ثابت کر دیا کہ وہ حسن بن صباح کا پیروکار نہیں بلکہ مرد مومن ہے، اور اب اسلام کے فروغ اور اس عظیم دین کی بقاء کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ جب وہاں سے رخصت ہوا تو نور بڑی بے تابی سے کچھ دور تک اس کے ساتھ گئی اور چلتے چلتے اس سے پوچھا کہ وہ اسے کب اور کہاں ملے گا۔
حاذق نے اسے بتایا کہ کل وہ شہر میں جو باغ ہے اسے وہاں ملے گا ،اس نے وقت بھی بتا دیا اور باغ کا ایک خاص گوشہ بھی، شہر کے اندر یہ بڑا ہی خوب صورت باغ تھا جہاں اچھی حیثیت کے لوگ سیر سپاٹے کے لئے جایا کرتے تھے۔
حاذق چلا گیا اور نور نے یوں محسوس کیا جیسے اس کا چین اور سکون حاذق کے ساتھ ہی چلا گیا ہو، اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا ورنہ اس کے قدم حاذق کے پیچھے ہی اٹھ چلے تھے، وہ وہیں کھڑی حاذق کو جاتا دیکھتی رہی، اگر باپ اسے آواز نہ دیتا تو وہ حاذق کو دیکھتی ہی رہتی۔
نور اپنے باپ کے پاس پہنچی تو باپ سے یہ نہ پوچھا کہ اس نے کیوں بلایا ہے بلکہ اس کے ساتھ حاذق کی ہی بات چھیڑ دی، وہ باپ سے منوانا چاہتی تھی کہ حاذق باطنی نہیں اور یہ پکا مسلمان ہے، نور کے باپ کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی وہ پہلے ہی نہ صرف یہ کہ قائل ہو چکا تھا بلکہ وہ حاذق کا گرویدہ بن گیا تھا ،یہ حاذق کی زبان کا جادو تھا جو باپ بیٹی پر اثر کر گیا تھا ،اس کے بولنے کا انداز بڑا ہی پیارا اور اثر انگیز تھا۔
اتنی بڑی حیثیت کا آدمی اکیلا رہتا ہے۔۔۔ نور نے کہا۔۔۔ اس کی زمینیں دیکھو کتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
میں تمہاری بات سمجھتا ہوں نور!،،،،، نور کے باپ نے کہا۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم نے کیا سوچ کر یہ بات کہی ہے، لیکن کسی سے متاثر ہو کر فورا ہی اپنی آئندہ زندگی کے متعلق کوئی فیصلہ کر لینا اچھا نہیں ہوتا، میں تمہارے متعلق ہی سوچتا رہتا ہوں ،یہ اب مجھے سوچنے دو کہ تمہارے لئے حاذق کا انتخاب کروں یا اور انتظار کرلوں۔
نور تو اپنی زندگی کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن ابھی اس نے باپ کے ساتھ کھل کر بات نہ کی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وسم کوہ میں سالار اوریزی نے یہ جو تجربہ کیا تھا کہ حشیش کا داخلہ شہر میں بند کر دیا جائے اور تاجروں کا سامان کھول کر دیکھا جائے پوری طرح کامیاب رہا تھا ،اس کی کامیابی کا ایک واقعہ سنایا جاچکا ہے، اس نے دوسرا تجربہ یہ کیا تھا کہ کوئی شخص اس کے قریب نہ آئے، اگر کسی کا اس کے قریب آنا بہت ہی ضروری ہوتا تو اس شخص کی پوری طرح جامہ تلاشی لی جاتی تھی، سالار اوریزی نے سنجر کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ بھی شاہ در میں بھی یہی طریقہ اختیار کرے، شاہ در ایک بڑا شہر تھا اور بڑی منڈی بھی تھی، اور یہاں سے اناج دوسرے مقامات کو جاتا تھا ،سالار اوریزی نے سنجر کو تفصیلی پیغام بھیجا کہ وہ تاجروں کا سارا سامان کھول کر دیکھا کرے اور ایسا انتظام کرے کہ شہر کے اندر جو سامان لایا جائے خواہ وہ چھوٹی سی پوٹلی کیوں نہ ہو کھول کر دیکھی جائے۔
سالار اوریزی نے دوسرا طریقہ یہ پیغام میں شامل کیا کہ سنجر کسی بھی آدمی کو خواہ وہ غریب ہو یا امیر اپنی قریب نہ آنے دے، اور کسی کا آنا ضروری ہی ہو تو اس کی جامہ تلاشی لی جائے۔
جس وقت سالار اوریزی کا قاصد سنجر کے پاس بیٹھا یہ پیغام دے رہا تھا اس وقت نور شہر کے سب سے بڑے اور بڑے ہی خوبصورت باغ میں حاذق کے پاس ایک ایسے گوشے میں بیٹھی تھی جہاں انہیں ٹھنڈی ہواؤں کے سوا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، نور بالکل اسی طرح حاذق میں جذب ہوگئی تھی جس طرح شافعیہ نے اپنے آپ کو عبید عربی کی ذات میں تحلیل کر لیا تھا، یہ صرف محبت نہیں بلکہ عشق کی دیوانگی تھی، نورپر تو اس صحرا نورد کی کیفیت طاری تھی جو بھٹک بھٹک کر پیاس سے مرتا کرتا اور اپنے آپ کو گھسیٹتا ایک نخلستان میں پہنچ گیا ہوں اور اس نے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ باقی عمر اسی نخلستان میں گزار دے گا ،وہاں ٹھنڈا پانی تھا اور گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں کی۔
اس کے بعد نور کی زندگی ایک بڑے ہی حسین خواب کی طرح گزرنے لگی، نور نے حاذق کو بتا دیا تھا کہ اس کا باپ علی الصبح نکل جاتا ہے اور وہ گھر میں دوپہر تک اکیلی ہوتی ہے، حاذق نے نور کو اپنے ایک دوست کا گھر بتا دیا تھا جو اکیلا رہتا تھا ،پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ حاذق کبھی نور کے گھر آ جاتا اور کبھی نور حاذق کے دوست کے گھر میں چلی جاتی اور وہ بہت دیر تک اس طرح بیٹھے رہتے تھے جیسے ان کے جسم ایک ہو گئے ہوں، حاذق نے نور کو تو جیسے ہپنا ٹائز کر لیا تھا، حقیقت یہ تھی کہ نور ہپنا ٹائز ہونا چاہتی تھی، اس پر خود سپردگی کی کیفیت طاری رہتی تھی۔
اس کے ساتھ ہی حاذق تقریبا ہر روز نور کے باپ سے ملتا تھا اور اس کی زمینوں میں عملی دلچسپی لیتا تھا، وہ اس طرح کہ اس نے نور کے باپ کے نوکروں کے ساتھ اپنے مزارعے بھی لگا دیئے، نور کا باپ کاشتکاری سے واقف نہیں تھا ،حاذق نے اس کا یہ کام آسان کردیا ،نور کے باپ نے دو تین مرتبہ حاذق کو شام کے کھانے پر اپنے گھر مدعو کو کیا ،یہ باپ اپنی بیٹی کی جذباتی حالت بھی دیکھ رہا تھا اور حاذق کی نیت کو اور خلوص کو بھی دیکھ رہا تھا جس میں سے کوئی شک شبہے والی بات نظر نہیں آتی تھی۔
ایک روز حاذق نے نور کے باپ سے نور کو مانگ ہی لیا، نور کا باپ اسی کا منتظر تھا، حاذق کے منہ سے بات نکلی ہئی تھی کہ نور کے باپ نے بصد خوشی ہاں کر دی۔
اب شادی کا دن مقرر کرنا تھا یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا کسی دن بھی یہ بات ہو سکتی تھی۔ شام گہری ہوئی ہی تھی کہ حاذق کے گھر ایک گھوڑسوار بڑے لمبے سفر سے آیا ،حاذق اٹھ کر اور بازو پھیلا کر اس سے بغلگیر ہو کر ملا ،یہ سوار الموت سے آیا تھا اور حسن بن صباح کا ایک پیغام لایا تھا، حاذق نے اپنے نوکر سے کہا کہ وہ ٹھنڈا مشروب لائے لیکن سوار نے کہا کہ پہلے وہ پیغام سن لیا کھانا پینا بعد کی بات ہے۔
حاذق بھائی !،،،،،سوار نے کہا۔۔۔۔ یہ تو تم جانتے ہو کہ شیخ الجبل کے پیر استاد عبد الملک بن عطاش قتل ہوچکے ہیں،،،،،، یہ جو انقلاب آیا ہے اس سے تو واقف ہو۔
اس کے متعلق بات کرنا بیکار ہے، شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو ایک اور غم کھا رہا ہے، اس کے پیرو مرشد نے اسے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک خزانہ چھپایا تھا وہ جگہ کسی کو معلوم نہیں، امام نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ شاہ در میں وہ آدمی ہیں جو اس خزانے سے واقف ہیں، خزانہ ایسی چیز ہے کہ بھائی اپنے بھائی کا گلا کاٹ دیتا ہے، خطرہ یہ ہے کہ وہ دو آدمی خزانے پر ہاتھ صاف کر جائیں گے، امام نے تمہارے لیے پیغام بھیجا ہے کہ پہلے ان دو آدمیوں کا سراغ لگاؤ، یہاں کے معاملات تمہارے ہاتھ میں ہیں اپنے تمام آدمیوں کو تم جانتے ہو، شیخ الجبل امام حسن بن صباح کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ جب ہمارے لوگ شاہ در سے بھاگے تھے تو وہ دو آدمی بھی بھاگ گئے ہونگے، اگر ایسا ہے تو پھر اس خزانے کو ذہن سے اتار دینا چاہیے۔
عمار بھائی !،،،،،حاذق نے حسن بن صباح کے اس قاصد سے کہا۔۔۔ تم شاید نہیں جانتے کہ میں امام حسن بن صباح کا کس قدر شیدائی اور گرویدہ ہوں، یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں اس کی عظیم ذات کو دھوکا دوں گا، خزانے سے جودوآدمیوں واقف ہیں ان میں ایک تو میں ہوں اور دوسرا شاہ در کے اندر رہتا ہے وہ بھی دھوکا دینے والا آدمی نہیں، ہم دونوں یہاں اسی لئے ٹھہرے ہوئے ہیں کہ امام کا حکم آئے اور ہم یہ خزانہ نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دیں، اگر کچھ دن اور امام کا حکم نہ آتا تو میں خود الموت پہنچ جاتا اور امام کو اس خزانے کے متعلق بتا دیتا ۔
تو اب میں امام کو جا کر کیا جواب دوں؟،،،،،، عمار نے پوچھا۔
کہنا کے خزانہ کچھ دنوں تک الموت پہنچ جائے گا۔۔۔ حاذق نے جواب دیا۔۔۔ تم کل صبح ہی واپسی سفر پر روانہ ہو جانا ۔
شیخ الجبل امام نے مجھے ایک اور بات بھی کہی تھی۔۔۔ عمار نے کہا۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ تمہیں یا کسی اور کو میری ضرورت ہو تو میں یہاں رکا رہوں۔
نہیں !،،،،،،حاذق نے کہا۔۔۔ تم چلے جاؤ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، ہم دو آدمی کافی ہیں،،،،،، میں امام کے لئے ایک حور بھی لا رہا ہوں ۔
کون ہے وہ ؟،،،،،عمار نے پوچھا ۔۔۔کہاں سے ملی ہے۔
شاہ در کے امیر احمد بن عطاش کی نوجوان بیوی تھی ۔۔۔حاذق نے جواب دیا۔۔۔ ہمہارے ہاتھوں سے شاہ در جو نکلا ہے اس کے پیچھے اسی لڑکی اور اس کے باپ کا ہاتھ تھا، لیکن عمار بھائی ایک مشورہ دو مجھے، پہلی بار کسی لڑکی کے ساتھ دلی بلکہ روحانی محبت ہوئی ہے، اپنی جنت کی حوروں کے ساتھ بھی وقت گزارا ہے اور زندگی میں چند اور لڑکیاں بھی آئی ہیں لیکن وہ سب جسمانی معاملہ تھا، یہ پہلی لڑکی ہے جو میرے دل میں اتر گئی ہے اور میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن امام کی اجازت کے بغیر مین شادی نہیں کروں گا۔
حاذق بھائی!،،،،،، عمار نے کہا۔۔۔ تم یہ خزانہ امام تک پہنچا دو اور ساتھ یہ کہہ دینا کہ یہ لڑکی تمہیں انعام کے طور پر دے دے تو مجھے یقین ہے امام انکار نہیں کرے گا، کیا تم لڑکی کو ساتھ لا رہے ہو ؟
لڑکی کو بھی اور لڑکی کے باپ کو بھی ساتھ لا رہا ہوں۔۔۔۔حاذق نے جواب دیا۔۔۔ اگر میں لڑکی کو ساتھ نہ لایا تو یہ کسی سلجوقی کے قبضے میں چلی جائے گی ۔
میں امام کو پہلے ہی بتادوں گا۔۔۔ عمار نے کہا۔۔۔ اور تمہاری سفارش بھی کر دوں گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ دوسرا آدمی جو اس خزانے سے واقف تھا حاذق کا وہی دوست تھا جو شاہ در شہر میں اکیلا رہتا تھا، اور نور حاذق سے اس کے گھر میں کئی بار ملی تھی اور ہر بار اس نے وہاں خاصا وقت گزارا تھا ،اگلے ہی روز حاذق علی الصبح شہر کے دروازے کھلتے ہی آگیا اور نور کے گھر پہنچا، نور کا باپ ابھی روزمرہ کے کام کاج کے لیے گھر سے نہیں نکلا تھا، نور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوئی اور اور حیران بھی کہ حاذق اتنی سویرے کیوں آگیا ہے۔ حاذق نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ضروری بات کرنے آیا ہے ۔
تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ عبدالملک کے ساتھ میرے تعلقات کتنے گہرے تھے۔۔۔ حاذق نے کہا۔۔۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم کس حد تک ایک دوسرے کے ہمراز تھے میں تمہیں ایسی بات کرنے لگا ہوں جس کا کسی کے ساتھ ذکر نہ ہو ورنہ ہم تینوں قتل ہو جائیں گے، بات یہ ہے کہ عبدالملک نے شاہ در سے کچھ دور ایک جگہ بہت بڑا خزانہ چھپایا تھا ،میں اس کے ساتھ تھا اور ہمارے ساتھ ایک اور دوست تھا، عبدالملک مجھے باطنی سمجھتا تھا اور قابل اعتماد دوست بھی، میں اس کی زندگی میں اسے ایسا دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا کہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر وہ خزانہ اڑا لے جاتا اور پھر کبھی ادھر کا رخ ہی نہ کرتا، اب وہ اس دنیا سے اٹھ گیا ہے اور اس کے گھر کا کوئی مرد زندہ نہیں رہا تو میں نے سوچا کہ میں یہ خزانہ کیوں نہ نکال لوں۔
یہ تمہارا جائز حق ہے۔۔۔ نور نے کہا۔۔۔میرے دل سے پوچھو تو مجھے خزانے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں، لیکن چونکہ یہ خزانہ ان باطنیوں کا تھا بلکہ باطنیوں کے پیر و مرشد کا تھا اس لئے اسے اٹھا لینا یا نکال لینا ایک نیکی کا کام ہے اور یہ تمہارا جائز حق ہے۔
مجھ سے پوچھو تو میں بھی یہی کہوں گا۔۔۔ نور کا باپ بولا۔۔۔خزانہ نکالو اور اپنی ملکیت میں رکھو۔
لیکن میں اس خزانے کا اکیلا مالک نہیں بننا چاہتا۔۔۔ حاذق نے کہا۔۔۔تم نے اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہے ،خزانے پر میرا اتنا حق نہیں جتنا تم دونوں کا ہے، نور پر ان لوگوں نے جو ظلم ڈھائے ہیں میں اس کی یہ قیمت دے سکتا ہوں کہ ان لوگوں کا خزانہ نور کے قدموں میں رکھ دوں ،میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گا۔
یہ بھی تو سوچو۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔ ۔یہ سارا خزانہ لوٹ مار کا ہے، نہ جانے یہ لوگ کب سے قافلوں کو لوٹ رہے ہیں اور یہ خزانہ اکٹھا کرتے رہے ہیں، اس خزانے کو نکال ہی لینا چاہیے۔
تمہیں بھی تو لوٹا گیا تھا۔۔۔حاذق نے کہا۔۔۔ اللہ کا کرم دیکھو تم سے جو لوٹا گیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ تمہیں اللہ نے دے دیا ہے،،،،،، خزانہ تو سمجھو نکل آیا، اب میں وہ بات کہنے لگا ہوں جو بہت ہی ضروری ہے، ہم جب خزانہ نکالنے جائیں گے تو تم دونوں ہمارے ساتھ ہو گے ،پھر ہم نے یہاں واپس نہیں آئیں گے ورنہ خزانہ چھپانا مشکل ہو جائے گا، ہم وہیں سے اصفہان چلے جائیں گے جہاں ہمیں جاننے اور پہچاننے والا کوئی نہیں ہوگا، میں تمہیں خواب نہیں دیکھا رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم تینوں وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے۔
حاذق در اصل نور اور اس کے باپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر رہا تھا، وہ تیار ہو گئے تو اس نے انہیں بتانا شروع کیا کہ خزانہ کہاں ہے اور کس قسم کے خطروں میں سے گزر کر خزانے تک پہنچا جائے گا،،،،، شاہ در سے تقریباً ایک دن کی مسافت پر ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی، یہ جھیل نیم دائرے میں تھی اس کے درمیان خشکی تھی اور اس خشکی پر بڑی اونچی اور کچھ نیچی چٹانیں تھیں ،ان کے پیچھے خشکی ہی تھی لیکن کچھ آگے جا کر جھیل کا پانی پھر وہاں پھیل گیا تھا، اس جھیل کے کناروں پر دلدل تھی، یہ جگہ مگرمچھوں کے لیے بڑی موزوں تھی، اس جھیل میں مگرمچھ رہتے تھے جن کی تعداد بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن تھوڑی بھی تھی تو یہ تعداد بہت ہی خطرناک تھی، مگرمچھ بہت بڑے بڑے تھے ،اور ان میں مگرمچھوں کی وہ قسم بھی پائی جاتی تھی جن کی لمبائی تھوڑی سی ہوتی ہے۔
نور نے پوچھا کہ ان مگرمچھوں سے کس طرح بچا جائے گا ،تو حاذق نے بتایا کہ اس کا انتظام وہ کرے گا اور یہ انتظام انہیں جھیل پر پہنچ کر دکھایا جائے گا، لیکن یہ بھی کہا کہ انہیں جان کے خطرے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
خزانہ ایسی چیز ہے کہ انسان جان کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتا ہے، باپ بیٹی ان خطروں میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے اور حاذق نے انہیں بتا دیا کہ کس روز روانہ ہونا ہے، اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ روانگی کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ شاہ در کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہے جائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو دنوں بعد نور اس کا باپ گھر سے نکلے تو ان کے ساتھ گھر کا کچھ ضروری سامان تھا، وہ ہمیشہ کے لئے شاہ در سے نکل رہے تھے، کسی نے ان کی طرف توجہ نہ دی کے یہ کیا اٹھا کر لے جا رہے ہیں، اور کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ یہ آج واپس نہ آنے کے لئے جا رہے ہیں، شہر سے نکل کر وہ اپنی کھیتیوں میں گئے اور وہاں رکے نہیں، کام کرنے والے نوکروں نے کچھ دیر بعد آنا تھا، وہ چلتے چلے گئے اور حاذق کے گھر جا پہنچے، ایسے ہی طے کیا گیا تھا، حاذق ان کا منتظر تھا۔
کچھ دیر بعد حاذق کا دوست بھی آ گیا، انہوں نے سارا دن وہیں گزارا ،حاذق اور اس کا دوست باہر چلے گئے تھے کیونکہ انہوں نے بہت سے انتظامات کرنے تھے۔
شام گہری ہو گئی تو شاہ در کے تمام دروازے بند ہوگئے اور شہر باہر کی دنیا سے کٹ گیا ،شہر سے تھوڑی ہی دور چھوٹے سے ایک گاؤں سے ایک گھوڑا گاڑی نکلی، یہ گھوڑا گاڑی حاذق کے گھر سے نکلی تھی، یہ کوئی شاہانہ بگھی نہیں تھی بلکہ بار برادری والی تھی، اس پر تازہ کٹی ہوئی ہری فصل کے چند ایک گٹھے لدے ہوئے تھے اور کچھ گھریلو سامان تھا جس میں دو تین چار پائیاں بھی تھیں، گھوڑوں کی باگیں حاذق کے ہاتھ میں تھی اور اس کے ساتھ اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا، پیچھے سامان پر نور اور اس کا باپ سوار تھے۔
اس سامان کے ساتھ پانچ بھیڑے بھی تھیں جو ان گاڑی میں جا رہی تھیں، حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا تھا کہ یہ سامان نئی جگہ لے جانا بالکل ضروری نہیں، یہ اس لیے ساتھ لے جایا جا رہا ہے کہ خزانہ کے بکس اس سامان کے نیچے چھپائے جائیں گے، خزانے والی جگہ سے اصفہان تک کئی دنوں کی مسافت تھی اور لٹیروں کا خطرہ بھی تھا، بھیڑیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ یہ جھیل پر جا کر بتائے گا۔
جھیل تک کا سفر تقریباً ایک دن کا تھا، لیکن حاذق نے کچھ دور جا کر گھوڑے دوڑا دیے اور یہ سفر تیزی سے کم ہونے لگا ،گھوڑے بڑے ہی تندرست اور اچھی نسل کے تھے راستہ صاف تھا اس لئے ان کی رفتار تیز ہی تیز ہوتی چلی جا رہی تھی، آدھے راستے میں حاذق نے گاڑی روک لی تاکہ گھوڑے ذرا دم لے لیں۔
آدھی رات کے بعد وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے ،حاذق نے گاڑی کو جھیل کے کنارے سے کچھ دور دور رکھا تھا کہ مگرمچھ گھوڑوں پر لپک نہ سکیں، مگرمچھ پانی میں اپنا شکار پکڑا کرتا ہے ،خشکی پر آکر وہ شکار نہیں کھیلا کرتا ، حاذق نے ایسی جگہ گاڑی روکی جہاں چار پانچ کشتیاں کنارے پر رکھی ہوئی تھیں یہ پانی میں نہیں بلکہ خشکی پر تھیں۔
سب گھوڑا گاڑی میں سے اترے، حاذق نے سامان میں سے چار بڑی مشعلیں نکالیں اور چاروں کو جلا لیا ان کے دستے ایک ایک گز سے زیادہ لمبے تھے اور ان کے شعلے تو بہت ہی اوپر جا رہے تھے ،حاذق نے ایک ایک مشعل سب کو دے دی، اب چاروں کے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی۔
وہ جھیل کے کنارے پڑی ہوئی کشتیوں کے قریب گئے، دو کشتیاں تو بلکل ٹوٹ گئی تھیں، ان سب میں ایک کشتی بڑی بھی تھی اور صحیح سلامت بھی تھی اور اس میں دو چپو لگے ہوئے تھے، حاذق اور اس کے دوست نے پانچوں بھیڑیوں کو اٹھا کر کشتی میں ڈال لیا اور پھر حاذق کے کہنے پر سب کشتی میں سوار ہوگئے، دونوں دوستوں نے چپو سنبھال لیے۔
کشتی کنارے سے ذرا ہی دور گئی ہوگی کہ مشعلوں کی روشنی میں دو تین مگرمچھوں کے منہ پانی سے ابھرے ہوئے نظر آئے، یہ مگرمچھ بڑی تیزی سے کشتی پر حملہ کرنے کے لیے آرہے تھے، حاذق کے دوست نے چپو چھوڑ کر ایک بھیڑ کو اٹھایا اور پانی میں پھینک دیا، سارے مگرمچھ اس بھیڑ کی طرف ہوگئے اور اس پر ٹوٹ پڑے، بھیڑ نے ایسی خوفزدگی کے عالم میں آوازیں نکالیں کہ دل دہل جاتے تھے۔
یہ مگرمچھ اس بھیڑ کو چیرنے پھاڑنے لگے، یوں لگا جیسے پانی میں طوفان آگیا ہو۔
کشتی آگے نکل گئی کچھ آگے گئے تو دو اور مگرمچھ کشتی کی طرف آتے نظر آئے، حاذق کے دوست نے ایک اور بھیڑ کو اٹھا کر پانی میں پھینک دیا ،یہ مگرمچھ بھی بھیڑ پر جھپٹ پڑے اور کشتی آگے نکل گئی۔
حاذق نے نور اور اس کے باپ کو بتایا کہ اب مگرمچھوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا کیوں کہ جھیل کے سارے مگرمچھوں کو پتہ چل گیا تھا کہ پانی میں کوئی نیا شکار آیا ہے، وہ سب بڑی تیزی سے تیرتے اپنے ان ساتھیوں تک جا پہنچے جو ان بھیڑیوں کو چیر پھاڑ رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر کشتی اس خشکی تک جا پہنچی جو اس جھیل کے درمیان تھی، وہاں بھی ایک بھیڑ پھینکنی پڑی، کیونکہ وہاں کنارے پر تین چار مگرمچھ موجود تھے، بھیڑ کے گرتے ہی وہ بڑی تیزی سے اس تک پہنچے اور حاذق اور اس کا دوست کشتی کو کنارے تک لے گئے اور دونوں کود کر خشکی پر گئے اور کشتی کا رسّہ کھینچ کر ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھ دیا ،نور اور اس کے باپ کو بھی اترنے کے لیے کہا گیا، دونوں بڑے آرام سے اتر گئے۔
حاذق آگے آگے جا رہا تھا، زمین بڑی ہی ناہموار تھی، چھوٹے بڑے پتھروں پر پاؤں پڑتے اور پھسلتے تھے ،ذرا آگے گئے تو چٹانوں کی گلیاں سی آ گئیں، حیرت والی بات یہ تھی کہ یہ خشکی جھیل کے درمیان تھی لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی، ایسی چٹانیں بھی آئیں جن کے درمیان سے گذرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ لوگ جسم کو سکیڑ سمیٹ کر گزر گئے، انہی کئی موڑ کاٹنے پڑے اور چٹانیں اونچی ہی اونچی ہوتی چلی گئیں۔
قدرت نے ان چٹانوں کی شکل و صورت ایسی بنائی تھی کہ یہ انسان معماروں کی بنی ہوئی لگتی تھیں، بعض جگہوں پر گلیاں اتنی تنگ تھی اور چٹان اتنی اونچی کے وہاں دم گھٹتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے یہ چٹانیں آگے بڑھ کر ان انسانوں کو کچل ڈالیں گی، آخر ایک گلی ایک غار کے دہانے پر جا ختم ہوئی۔
اس دہانے میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے وہ ایک کشادہ کمرے میں آ گئے ہوں، ایک جگہ بہت سے پتھر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے، حاذق نے سب سے کہا کہ یہ پتھر ایک طرف پھینکنے شروع کردو، نور کو بھی پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینکنے پڑے، کچھ پتھر تو زیادہ ہی وزنی تھے۔
پتھر آدھے ہی ہٹائے گئے ہوں گے کہ ان کے نیچے پڑے ہوئے چار بکس نظر آنے لگے ،باقی پتھر بھی ہٹا دیے گئے۔
حاذق اور اس کے دوست نے چاروں بکسوں کے ڈھکنے اٹھا دئے، بکس مقفل نہیں تھے، جب ڈھکنے اٹھے تو نور اور اس کے باپ کو تو جیسے غشی آنے لگی ہو، ان بکس میں سونے کے سکے اور زیورات تھے اور ہیرے جواہرات تھے، اور ایک بکس میں بڑے قیمتی رنگدار اور چمکدار چھوٹے چھوٹے پتھر تھے، یہ بادشاہوں کے کام کی چیزیں تھیں، یا بڑے ہی امیر لوگ ان کے خریدار تھے، مشعلوں کی روشنی میں سونا ہیرے جواہرات اور یہ پتھر چمکتے تھے اور ان میں سے رنگارنگ کرنیں پھوٹتی تھیں۔
حاذق نے کہا کہ اب زیادہ وقت ضائع نہ کرو اور یہ بکس کشتی تک پہنچاؤ، اس وقت حاذق اور اس کے دوست کی جذباتی کیفیت ایسی ہوگئی تھی جیسے انھوں نے کوئی نشہ پی لیا ہو ،یہ خوشی کی انتہا تھی اور یہ خزانے کا نشہ یا جادو جو ان کے دماغوں کو چڑھ گیا تھا، وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے جو خوشی کی انتہا کی علامت تھی۔
یا شیخ الجبل!،،،،، حاذق کے دوست نے بازو اوپر کر کے کہا۔۔۔۔ یہ سب تیری دولت ہے ہم یہ خزانہ تیرے قدموں میں رکھیں گے۔
ہمارے پیر استاد عبدالملک کی روح بھی خوش ہوجائے گی، جب ہم الموت،،،،،، ۔۔۔۔۔حاذق بولتے بولتے چپ ہو گیا اور لہجہ بدل کر بولا۔۔۔۔ بکس جلدی اٹھاؤ ہمیں اصفہان پہنچنا ہے۔
نور کے باپ نے ان دونوں کی باتیں سن لی تھیں، حاذق نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور نور کے باپ نے منہ پھیر لیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو، اسے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں باطنی ہیں اور یہ خزانہ الموت لے جائیں گے، نور کے باپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے اور اس کی بیٹی کے ساتھ یہ کیا سلوک کریں گے، اس نے بڑی تیزی سے سوچ لیا کہ کیا کرنا ہے۔
بکسوں کے دونوں طرف لوہے کے کندے لگے ہوئے تھے جنہیں پکڑ کر بکس اٹھائے جاتے تھے، ایک بکس حاذق اور اس کے دوست نے اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اٹھا لیا اور دوسرا بکس نور اور اس کے باپ نے اٹھایا، بکس وزنی تو تھے لیکن وہ اٹھا کر باہر لے آئے، اب ان کے لئے چلنا خاصا دشوار ہو گیا تھا ،لیکن وہ بکسوں کو کہیں اٹھاتے اور کہیں گھسیٹتے دکھیلتے جھیل تک لے آئے۔
انھوں نے یہ دونوں بکس کشتی میں رکھ دئیے، نور کے باپ نے دیکھا کہ کشتی کا اگلا حصہ خشکی پر تھا اور زیادہ تر حصہ پانی میں تھا، جب حاذق اور اس کا دوست تو بکس رکھ کر واپس غار کی طرف گئے تو نور کے باپ نے کشتی کو دھکیل کر پانی میں کردیا، کشتی رسّے بندھی ہوئی تھی اس لیے اس کے بہہ جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، باپ بیٹی کشتی سے کود کر اترے اور خزانے کی طرف چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس طرح وہ چاروں پہلے دو بس اٹھا کر لے آئے تھے اسی طرح باقی دو بکس بھی اٹھا لائے، ایک ایک ہاتھ سے بکس اٹھاتے تھے اور دوسرے ہاتھوں میں ایک ایک مشعل تھی۔
اب وہ کشتی کی طرف بکس اٹھا کر آ رہے تھے تو پہلے کی طرح نور اور اس کا باپ پیچھے نہیں تھے بلکہ آگے آگے آرہے تھے، وہ اتفاقیہ آگے آگے نہیں آئے تھے بلکہ نور کے باپ نے کچھ سوچ کر یہ ہھرتی دکھائی تھی کہ غار میں جاکر بکس اٹھایا اور تیزی سے غار سے نکل آیا تھا۔
نور اور اس کے باپ نے بکس کشتی میں رکھا اور دونوں کشتی میں آگئے، حاذق اور اس کا دوست بکس اٹھائے ہوئے کشتی کے قریب آئے تو نور کے باپ نے لپک کر بکس پکڑا اور گھسیٹ کر کشتی میں کر لیا، اب اُن دونوں نے کشتی میں سوار ہونا تھا ،نور کے باپ نے فوراً اپنی مشعل نور کے ہاتھ سے لی اور بڑی ہی تیزی سے مشعل پہلے حاذق کے جسم کے ساتھ لگائی اور پھر فوراً ہی اس کے دوست کے جسم کے ساتھ لگا دی۔
مشعل کا شعلہ بہت بڑا تھا ،اس شعلے نے دونوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی ،اور آگ نے یکلخت ان کے پورے لباس کو لپیٹ میں لے لیا، اس کے ساتھ ہی نور کے باپ نے نور سے کہا کہ مشعل آگے کرو اور کشتی کا رسّہ جلا ڈالو،،،،، رسّہ بندھا ہوا تھا جسے کھولنے کے لیے نور یا اس کے باپ کو کشتی سے اترنا تھا، لیکن اتنا وقت نہیں تھا، نور نے مشعل آگے کر کے رسّے کے درمیان لگا دی، فوراً ہی رسّہ جل گیا اور کشتی پانی میں آگئی، لیکن آہستہ آہستہ چل پڑی۔
حاذق اور اس کے دوست کے کپڑوں کو آگ لگی تو دونوں پانی میں کود گئے، آگ تو بجھ گئی لیکن ان کے جسم جل گئے تھے جن پر پانی پڑا تو تکلیف بڑھنے لگی، آخر وہ دو نوجوان اور دلیر آدمی تھے پانی میں ہی دونوں نے اپنی تلوار نکال لی اور کشتی کی طرف لپکے اتنی سی دیر میں نور اور اس کے باپ نے مل کر تیزی سے چپو مارے تو کشتی کنارے سے دور آ گئی، لیکن وہ دونوں بھی کشتی کے قریب آگئے۔
نور کے باپ نے نور سے کہا کہ دونوں چپّو سنبھالو اور کشتی کو رکنے نہ دینا، حاذق اور اس کا دوست بڑی تیزی سے تیرتے کشتی کے قریب آئے اور انہوں نے کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی، نور کے باپ نے دونوں مشعلیں اٹھا کر ایک حاذق کے چہرے پر اور دوسرا اس کے دوست کے چہرے پر رکھ دیا اور زور سے آگے کو دھکیلا۔
تصّور میں لایا جا سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں تو فوراً ہی بیکار ہو گئی ہونگی، اور چہرے تو بری طرح جل گئے ہوں گے، دونوں کی اس طرح چیخیں سنائی دینے لگی جیسے بھیڑیے غرّا اور چلا رہے ہوں، اب ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھتے وہ تو ڈوب رہے تھے۔
نور کے باپ نے ایک چپّو نور کے ہاتھ سے لے لیا اور دونوں تیزی سے چپّو چلانے لگے ،دونوں دائیں بائیں جھیل میں دیکھ رہے تھے کہ مگرمچھ نہ آ جائیں، آ بھی آ جاتے تو ان کے پاس بندوبست موجود تھا، دو بھیڑ اب بھی کشتی میں موجود تھی ،لیکن اب مگرمچھوں کو شکار مل گیا تھا ،یہ تھا حاذق اور اس کا دوست، دور سے ان دونوں کی بڑی ہولناک آوازیں سنائی دیں جو فوراً ہی ختم ہو گئی، یوں لگتا تھا جیسے دونوں کو مگر مچھوں نے پکڑ لیا ہو ،مشعلوں کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی، کشتی میں مشعلیں کھڑی رکھنے کا انتظام تھا ،نور کے باپ نے دونوں مشعلیں ان جگہوں میں پھنسا دی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نور کے باپ نے یہ کوشش نہ کی کہ کشتی کو اس جگہ تک لے جائے جہاں سے انہوں نے کشتی لی تھی اور جہاں گھوڑا گاڑی رکی کھڑی تھی، ان دونوں نے کشتی کو قریبی کنارے پر لگا دیا اور اتر آئے ،دونوں نے پورا زور لگا کر کشتی کو اتنا کھینچا کہ کشتی خشکی پر آگئی۔
باپ نے نور سے کہا کہ وہ کشتی کے قریب کھڑی رہے اور اگر کشتی پانی میں جانے لگے تو اسے پکڑ کر کھینچ لے، وہ خود گھوڑا گاڑی لینے چلا گیا اب وہ ہر خطرے سے نکل آئے تھے۔
نور کا باپ گھوڑا گاڑی وہیں لے آیا اور کشتی کے قریب روک کر باپ بیٹی کشتی سے بکس اتارنے لگے، وہ علاقہ ایسا تھا جہاں سے کسی انسان کا گزر نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ علاقہ کسی راستے میں نہیں آتا تھا اور خطرناک بھی اتنا تھا کہ ادھر سے کوئی گزرتا ہی نہیں تھا۔
دونوں نے زور لگا کر چاروں بکس گھوڑا گاڑی میں لاد لیے اور سوار ہوگئے، گھوڑوں کی باگیں باپ نے سنبھال لی اور گاڑی شاہ در کی طرف موڑ کر چل پڑے، نور ابھی دیکھ رہی تھی کہ باپ یہ خزانہ کہاں لے جاتا ہے، نور کی توجہ دراصل خزانے پر تھی ہی نہیں وہ بہت بڑے صدمے سے دوچار تھی، اسے جس کے ساتھ روحانی محبت ہو گئی تھی اسے وہ اپنے ہاتھوں جلا کر اور ڈبو کر جا رہی تھی، حاذق کے خیال سے اور اس کے انجام سے اسے اتنا شدید صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو بہہ نکلے اور وہ سسک سسک کر رونے لگی۔
روتی کیوں ہو؟،،،، باپ نے نور سے کہا۔۔۔ کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بہت بڑے دھوکے سے بچ گئے ہیں؟،،،،، یہ باطنی تھے اور یہ سیدھے الموت جا رہے تھے، مجھے تو یہ راستے میں ہی ختم کر دیتے اور تمہیں وہاں لے جاکر حسن بن صباح کی حوالے کر دیتے، اور وہ ابلیس تمہیں اپنی جنت کی حور بنا دیتا، آج تو ایک خاوند کی تلاش میں ہو وہاں ہر روز تمھارا ایک نیا خاوند ہوتا،،،،، اللہ کا شکر ادا کرو جس نے ہمیں اس ذلت سے بچا لیا ہے، خدا کی قسم مجھے اس خزانے کی خوشی نہیں، خوشی ہے تو یہ ہے کہ میں آخر تمہیں بچا لایا ہوں۔
نور کو اصل غم تو یہ تھا کہ اس کی قسمت میں یہی لکھا گیا تھا کہ ایک فریب کار کے چنگل سے نکلے تو ایک اور فریب کار کی جال میں آجائے،،،،، نور کےلئے یہ صدمہ برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ،بہرحال اس نے یہ انتہائی تلخ گھونٹ نگلنے کی کوشش شروع کر دی ،اور باپ اسے سمجھاتا گیا اور پھر اسے امید بھی دلاتا رہا کہ اس کے لئے ایک مرد حق یقینا منتظر ہے، اللہ نے جہاں اتنا کرم کیا ہے وہ یہ کرم بھی ضرور کرے گا کہ نور کی شادی ہو جائے گی۔
نور کے باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے، وہ بہت جلدی شاہ در پہنچنا چاہتا تھا، راستے میں وہ ایک جگہ روکے ،گاڑی میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا ،گھوڑوں کو سستا لیا اور باپ بیٹی نے کھا پی لیا اور پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور باپ نے گھوڑے دوڑا دیئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دن تقریبا آدھا گزر گیا تھا، سنجر اپنے دفتر میں بیٹھا روزمرہ کے کام کاج میں مصروف تھا اس کے ذمے بڑا ہی نازک اور پیچیدہ کام تھا، اس نے اس شہر کو ازسرنو آباد کرنا تھا ،اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف بھی کرنا تھا، دربان نے اسے اطلاع دی کہ باہر ایک آدمی آیا ہے جس کے ساتھ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی ہے اور وہ گھوڑا گاڑی پر آئے ہیں، دربان نے بتایا کہ یہ وہی باپ بیٹی ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک مکان دیا گیا تھا اور زمین بھی دی گئی تھی۔
سنجر نے کسی حد تک بے دلی سے کہا کہ انہیں اندر بھیج دو ،اس نے غالباً یہ سوچا سوچا ہوگا کہ اپنی کسی ضرورت کی خاطر آئے ہوں گے، دربان نے باہر جا کر انہیں کہا کہ وہ اندر چلے جائیں، لیکن نور کے باپ نے کہا کہ وہ اندر نہیں جانا چاہتے سلطان خود باہر آئے۔
سنجر کو جب یہ بتایا گیا کہ باپ بیٹی اسے باہر بلا رہے ہیں تو سنجر جھنجھلاہٹ کے عالم میں باہر آگیا، نور کے باپ نے اسے کہا کہ وہ گھوڑا گاڑی تک چلے، اس وقت سنجر نے قدرے اکتاہٹ سے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟ وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ کوئی اسے جدھر لے جانا چاہے وہ اس طرف چل پڑے، نور اور اس کا باپ کچھ بھی نہ بولے اور اسے گھوڑا گاڑی تک لے گئے۔
نور کے باپ نے گاڑی پر جا کر چاروں بکس کھول دیئے اور سلطان کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر آجائے، سنجر پہلے ہی اُکتایا ہوا تھا ،وہ غصے کی حالت میں گھوڑا گاڑی پر چڑھا اور جب اس نے کھلے ہوئے بکس دیکھے تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی۔
یہ مال کہاں سے آیا ہے؟،،،،، سنجر نے ہکلاتی ہوئی زبان سے پوچھا، اور جواب کا انتظار کئے بغیر کہا۔۔۔۔ یہ تو بے انداز اور بے حد قیمتی خزانہ ہے۔
یہ میں سلطان کو اندر بیٹھ کر بتاؤں گا کہ یہ مال کس طرح آیا ہے۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔یہ سارا مال نہ آپ کا ہے نہ میرا ہے بلکہ یہ سلطنت سلجوقیہ کا مال ہے، اور یہ وہ خزانہ ہے جو یہ باطنی بلیس قافلوں سے لوٹتے رہے ہیں۔
سنجر نے فوراً چاروں بکس اٹھوایا اور اپنے کمرے میں رکھوا دیے، پھر اس نے باپ اور بیٹی کو اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ یہ خزانہ کہاں سے آیا ہے ۔
نور کے باپ نے اسے ساری داستان سنا ڈالی۔
میں تمہیں اس میں سے دل کھول کر انعام دونگا۔۔۔۔سنجر نے کہا ۔
میں اس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں لونگا۔۔۔نور کے باپ نے کہا۔۔۔ یہ سلطنت کی ملکیت ہے اور یہ اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کی جائے ،میں اپنا انعام لے چکا ہوں، مجھے مکان مل گیا ہے اور زمین بھی مل گئی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*