🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر ساٹھ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی نے یہ جو بات کرنی تھی بالکل ٹھیک کہی تھی، سالار اوریزی نے جاسوسوں اور مخبروں کو بلاکر خاص ہدایات دی تھی کہ قلعے میں کوئی اجنبی آئے تو اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھیں ،شہر میں فدائیوں کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا، سالار اوریزی نے ایک خاص ہدایت یہ دی تھی کہ تاجروں کا جب مال آتا ہے تو اسے ضرور دیکھیں اگر مال اتارتے وقت اچھی طرح نہ دیکھ سکے تو یہ دیکھیں اس میں سے مختلف اشیاء کہاں کہاں جاتی ہیں، وہاں جا کر دیکھیں ،اوریزی نے بڑی عقلمندی کی بات کی تھی وہ کہتا تھا کہ جہاں فدائی ہوں گے وہاں حشیش ضرور ہوگی، حشیش باہر ہی سے آتی ہوگی، حشیش کے ذریعے فدائیوں کو پکڑا جا سکتا ہے، اس سے پہلے کسی شہر میں اور کسی قلعے میں ایسی جانچ پڑتال اور دیکھ بھال کا کسی کو بھی خیال نہ آیا تھا، اوریزی کو احساس تھا کہ عبدالملک بن عطاش کو وہ مروا کر وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکتا ،اس پر قاتلانہ حملہ ہونا ہی تھا۔
شافعیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ اس خوبرو جوان سال آدمی کا اصل نام ناصر تھا اور وہ یہاں آکر عبید عربی بن گیا تھا، لیکن شافعیہ نے نام کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی، نام پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا تھی عبید عربی نے کہا تھا کہ کبھی وہ ناصر ہوا کرتا تھا اور پھر اس کا نام عبید عربی رکھ دیا گیا تھا ،شافعیہ نے اس کی اس بات اور وضاحت کو سچ مان لیا تھا ۔
شافعیہ!،،،،، شمونہ نے کھانے کے بعد شافعیہ سے کہا۔۔۔ اب تم اپنے لیے کسی کو منتخب کر ہی لو۔
شمونہ نے شافعیہ کو یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ یہ لڑکی عالم شباب میں ہے اور غیر معمولی طور پر حسین بھی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پیار کے دھوکے میں آکر حسن بن صباح کی جنت میں پہنچا دی جائے۔
میں عبید کو کسی دن گھر لاؤں گی۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔آپ دونوں بھی اسے دیکھ لیں اور مجھے بتائیں کہ میرا انتخاب کیسا ہے۔
تمہارا انتخاب یقینا اچھا ہوگا شافعیہ!،،،،،مزمل نے کہا۔۔۔لیکن ہم صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ عبید کتنا خوبرو ہے اور تمہیں کتنا چاہتا ہے، ہمیں تو اس کی اصلیت اور اس کا باطن دیکھنا ہے، ہم تمہیں کسی فریب کار کے چنگل میں نہیں جانے دیں گے۔
شافعیہ نے وہ رات بیچینی سے کروٹیں بدلتے گزاری، آنکھ لگتی تھی تو اسے خواب میں عبید عربی نظر آتا تھا ،آنکھ کھل جاتی تو اسی کے تصور میں گم ہو جاتی، وہ محسوس کرنے لگی جیسے رات بڑی ہی لمبی ہو گئی ہو ،آخر صبح طلوع ہوئی اور شافعیہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی، ملاقات کا وقت ابھی دور تھا وقت گزارنے کے لیے وہ کام کاج میں مصروف ہو گئی اور ملاقات کا وقت قریب آگیا۔
میں اسے ملنے جا رہی ہوں۔۔۔ شافعیہ نے شمونہ سے کہا۔۔۔ میری اتنی فکر نہ کرنا میں بچی تو نہیں ہوں ۔
پھر بھی محتاط رہنا ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔اسے اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھو اور اسے یہاں ضرور لانا۔
شافعیہ گھر سے نکلی پھر قلعے سے نکل گئی اور سبزیوں والے باغ میں جا پہنچی، عبید عربی اس کے انتظار وہاں پہلے سے موجود تھا ،شافعیہ کو دیکھ کر دوڑا آیا اور اس کا بازو پکڑ کر باغ کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جہاں درختوں پر چڑھی ہوئی بیلوں نے چھاتہ سا بنا رکھا تھا ،اس کے نیچے گھاس تھی، اور تین اطراف بیلوں اور پودوں کی اوٹ تھی، تنہائی میں بیٹھنے کے لئے وہ جگہ موزوں تھی، اور رومان پرور بھی تھی ،دونوں وہاں جا بیٹھے تھوڑی دیر بعد دونوں دنیا سے بے خبر ہو گئے۔
پہلے ایک فیصلہ کرلو۔۔۔ شافعیہ نے عبید عربی سے کہا۔۔۔ میں تمہیں ناصر کہا کرو یا عبید؟
عبید بہتر ہے ۔۔۔عبید عربی نے جواب دیا۔۔۔ نام کو اتنی اہمیت کیوں دیتی ہو، اگر محبت ہے تو نام کچھ بھی ہو سکتا ہے، محبت نہیں تو بڑے پیارے پیارے نام بھی بھدے اور بےمعنی لگتے ہیں۔
اس روز انہوں نے بہت باتیں کیں، پیار کی باتیں، گزرے ہوئے وقت کی باتیں، لیکن ایسی نہیں کہ دلوں پر اداسی اور ملال آجاتا ،شافعیہ نے اسے کہا تھا کہ ایسی کوئی بات یاد نہ کرو یا یاد نہ دلاؤ جس میں تلخیاں ہو، وہ کہتی تھی کہ ہم آہیں بھریں گے فریادی کریں گے اور روئیں گے تو بھی ہمیں ماں باپ نہیں ملیں گے ،نہ ان کا پیار ملے گا، پیار تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دینا ہے۔
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے، محبت کی وارفتگی اور خودسپردگی ایسی جیسے یہ دو جسم ایک ہو جانے کی کوشش کر رہے ہوں، شافعیہ کہتی تھی کہ وجود ہو تو محبت کا ہو، ہمارے اپنے کوئی وجود نہیں، اگر ہیں تو انہیں اس طرح پاک اور صاف رکھنا ہے کہ خیال ہی نہ آئے کہ جسم کو تسکین کی ضرورت ہے۔
عبید عربی نے اسے یقین دلایا کہ اس کی نظر جسم پر ہے نہیں، وہ بار بار ایک تشنگی کا اظہار کرتا تھا، یہی وہ تشنگی تھی جس سے شافعیہ مری جا رہی تھی، اب وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت کے چشمے بن گئے، وہ یوں محسوس کرنے لگے جیسے یہ چشمے سوکھ گئے تھے اور اچانک پھوٹ پڑے ہوں۔
دن آدھا گزر چلا تھا جب وہ کسی کی آواز پر اچانک بیدار ہوگئے اور گھروں کو جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں تمہیں کسی دن اپنے گھر لے چلو گی۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔میں تمہیں ان لوگوں سے ملواؤں گی جن کے پاس میں رہتی ہوں،،،،،،، انہیں تم میرے ماں باپ ہی سمجھو۔
شافعیہ!،،،،، عبید عربی نے کہا۔۔۔ ان کے پاس لے جانے سے پہلے مجھے خود سمجھ لو، میں کچھ نہیں چاہتا، میں پیار کا تشنہ ہوں۔
وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محبت نے ان پر دیوانگی طاری کر دی تھی، اسی شام دونوں قلعے کی دیوار پر وہیں کھڑے تھے جہاں گزشتہ شام ان کی ملاقات ہوئی تھی۔
اگلے روز پھر سبزیوں کے باغ میں اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے ،شام کے وقت وہ پھر قلعے کی دیوار پر کھڑے تھے۔
اس طرح وہ آٹھ دس روز ملتے رہے اور ایک روز شافعیہ عبید عربی کو اپنے گھر لے گئی، شمونہ کو عبید خاص طور پر پسند آگیا تھا، مزمل نے اس کے ساتھ کچھ ایسی ذاتی سوالات کیے جنہیں وہ ضروری سمجھتا تھا، عبید عربی نے اسے مایوس نہ کیا۔
میری ایک خواہش ہے۔۔۔ عبید عربی نے مزمل سے کہا۔۔۔ میں سپہ سالار اوریزی سے ملنا چاہتا ہوں، اس کے ہاتھ چومنے کو جی چاہتا ہے، اس نے جو کارنامے کر دکھائے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا ،عبدالملک بن عطاش کو قتل کون کرسکتا تھا!،،،،، یہ قلعہ وسم کوہ کوئی اور فتح نہیں کر سکتا تھا ،اور پھر جس طرح اس سالار نے قلعہ ناظروطبس لیا ہے یہ اسی کی دانش مندی اور عسکری فہم و فراست کا نتیجہ ہے، مجھے اس سے ملا دیں۔
میں ملوں آؤں گا۔۔۔ مزمل نے کہا ۔
میں دراصل فوج میں جانا چاہتا ہوں۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ میں سپہ سالار اوریزی کے ماتحت سلطنت کی اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔
شمونہ اور مزمل کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ عبید عربی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا فدائی ہے، مزمل دلی طور پر تیار ہو گیا تھا کہ اسے سالار اوریزی سے ملوا دیا جائے گا، اس نے عبید عربی سے کہا کہ سالار اوریزی سے ملاقات کرا دی جائے گی لیکن تمہاری جامع تلاشی ہوگی اور تمہارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوگا۔
میں نے ان سے ملنا ہے۔۔۔ عبید عربی نے کہا۔۔۔ ان کے سامنے کسی ہتھیار کی نمائش نہیں کرنی۔
عبید عربی کو وسم کوہ میں آئے دو مہینے ہو گئے تھے، اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ سالار اوریزی کو عبید عربی نے قتل کر دیا ہے ،اس دوران بڑھئی نے اپنے ایک جاسوس کو یہ پیغام دے کر قلعہ الموت بھیجا تھا کہ امام سے کہنا سالار اوریزی کو اتنی جلدی قتل نہیں کیا جاسکتا ،کیوں کہ کوئی آدمی اس کے قریب نہیں جاسکتا ،بڑھئی نے حسن بن صباح کو یقین دلایا تھا کہ یہ کام ہو جائے گا اور عبید عربی موقع ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا ہے، بڑھئی نے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ عبید عربی نے اس گھر تک رسائی حاصل کر لی ہے جس گھر کے افراد سالار اورریزی کے قابل اعتماد لوگ ہیں، بلکہ یہ اس حلقے کے لوگ ہیں جو سالار اوریزی کی دوستی کا ذاتی حلقہ ہے، امید ہے ان لوگوں کے ذریعے سالار اوریزی تک عبید عربی پہنچ جائے گا۔
ایک روز شافع نے صاف طور پر محسوس کیا کہ عبید کچھ پریشان ہے اور بولتا ہے تو اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے، شافعیہ نے پوچھا تو اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شافعیہ کو ٹال دیا ،لیکن باتیں کرتے کرتے عبید کی بے چینی بڑھتی گئی ایک بار اس نے یوں کیا کہ شافعیہ کا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا اور اس نے اپنی انگلیاں شافعیہ کی انگلیوں میں الجھا رکھی تھیں، عبید عربی نے اپنے ہاتھ کو اتنی شدت سے مروڑا جیسے اس کے ہاتھ میں لڑکی کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا اور اسے وہ توڑنے کی کوشش کر رہا تھا ،شافعیہ درد سے بلبلا اٹھی، اس نے عبید کا چہرہ دیکھا تو چہرہ لال سرخ ہوا جا رہا تھا ،شافعیہ نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔
کچھ نہیں شافعیہ!،،،،،، کچھ نہیں ہوا،،،،، عبید عربی نے اکھڑی اکھڑی آواز میں کہا۔۔۔کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے،،،،،،،،،، میں جلدی ہی اپنے آپ میں آ جاؤں گا، یوں محسوس کرتا ہوں جیسے کوئی غیبی طاقت میرے وجود کے اندر آکر مجھ پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہو،،،،، تم گھبراؤ نہیں چلو گھر چلیں،،،،،،، میں شام تک ٹھیک ہو جاؤں گا اور ہر روز کی طرح دیوار پر ملیں گے۔
عبید عربی کی یہ حالت دیکھ کر شافعیہ کو بھی ویسی ہی بے چینی محسوس ہونے لگی تھی، عبید عربی نے اسے بہت تسلی دی اور کہا کہ وہ شام کو اسے بالکل ہشاش بشاس دیکھے گی ،شافعیہ اپنے گھر چلی گئی اور عبید عربی بڑھئی کے گھر چلا گیا۔
شافعیہ اس کی یہ کیفیت سمجھ ہی نہیں سکتی تھی ،عبید کو جسمانی ایٹھن ہو رہی تھی ،جو صاف علامت کی کہ یہ شخص نشے سے ٹوٹا ہوا ہے۔
تمہیں امام کی قسم کوئی بندوبست کرو۔۔۔ عبید نے بڑھائی سے کہا۔۔۔ آج تو میری حالت بہت ہی بگڑ گئی تھی ،کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی کو یا کسی اور کو کچھ شک ہوجائے، اگر آج مجھے حشیش نہ ملی تو میں پاگل ہو جاؤں گا اور ہو سکتا ہے اس پاگل پن میں تمہاری گردن مروڑ دوں۔
آج شام تک امید ہے تمہارا نشہ پورا ہو جائے گا۔۔۔ بڑھئی نے کہا۔۔۔میں نے تمہیں بتایا ہے کہ یہاں آنے والے مال کو کھول کر دیکھا جاتا ہے ،سالار اوریزی نے بڑا سخت حکم جاری کر رکھا ہے کہ حشیش کا ایک ذرہ بھی اس قلعہ بند شہر میں نہ آئے، اور اگر کسی کے پاس حشیش یا اس قسم کا کوئی اور نشہ پکڑا جائے اسے فورا قید خانے میں بند کر دیا جائے۔
سالار اوریزی نے یہ حکم یہ سوچ کر جاری کیا تھا کہ حشیز صرف فدائی یا حسن بن صباح کے جاسوسوں اور تخریب کار پیتے ہیں، یہ نشہ ان باطنیوں کا ہی تھا ،سالار اوریزی نے سوچا تھا کہ ان لوگوں کو یہاں نشہ نہ ملا تو یہاں سے بھاگ جائیں گے، پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے حشیش وہاں پہنچ ہی جاتی تھی، مگر اتنی زیادہ دن ہوگئے تھے الموت سے حشیش نہیں آئی تھی، عبید عربی نشے سے ٹوٹا ہوا تھا۔
دن کے پچھلے پہر جب سورج مغرب کی طرف اتر رہا تھا شافعیہ قلعے کی دیوار پر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی، ہر شام اس کی عبید عربی کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی، شافعیہ گھر سے نکلنے ہی لگی تھی کہ مزمل آگیا اس نے شافعیہ کو بازو سے پکڑا اور اندر شمونہ کے پاس لے گیا۔
میں تمہیں بہت بری خبر سنانے لگا ہوں شافعیہ!،،،،،،، مزمل نے کہا۔۔۔۔وقتی طور پر تمہیں یہ خبر بری لگے گی لیکن اچھا ہوا کہ ایک بہت بڑے خطرے کا پہلے ہی علم ہو گیا ہے۔
شمونہ اور شافعیہ کے رنگ اتنی سی بات سے ہی اڑ گئے ،دونوں خبر سننے کو بے تاب ہو گئیں۔
خبر یہ تھی کہ تاجروں کا مال اونٹوں سے قلعے کے باہر اترا تھا، مال سے مال کے تبادلے وہی ہوا کرتے تھے ،جس روز تاجروں کا مال آتا تھا اس روز وہاں بہت ہی رونق اور لوگوں کا کا جمگھٹا ہوتا تھا، ویسے بھی وہاں منڈی لگتی تھی لیکن اتنے زیادہ لوگ ہر روز نہیں ہوتے تھے، سالار اوریزی کے حکم کے مطابق وہاں کچھ لوگ گھومتے رہتے اور دیکھتے پھرتے کہ کون کیا لایا ہے اور یہاں کون کیا خرید کر قلعے کے اندر لے جا رہا ہے۔
ایک مخبر نے ایک آدمی کو دیکھا جو الگ تھلگ کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا تھا، یہ تھیلا اتنا سا ہی تھا کہ چغّے کے اندر چھپایا جا سکتا تھا ،مخبر نے دیکھا کہ بڑھئی اور عبید عربی اس کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے، پھر بڑھئی نے وہ تھیلا اس سے لے لیا اور اپنی چغّے کے اندر کر کے اوپر بازو رکھ دیئے اور ایک طرف چل پڑا ،عبید عربی بھی اس کے پیچھے گیا۔
مخبر کو کچھ شک ہوا اس نے ان دونوں آدمیوں کو بتایا جو کسی بھی تاجر کا مال کھول کر دیکھ سکتے تھے، یہ دونوں آدمی دوڑتے ہوئے بڑھئی اور عبید عربی کے پیچھے گئے، انھیں دیکھ کر وہ دونوں بھی دوڑ پڑے اور ایک دروازے میں داخل ہو گئے ،یہ قلعے کی ایک طرف کا دروازہ تھا۔
وہ بھاگ کر جا ہی کہاں سکتے تھے، انہیں قلعے کے اندر پکڑ لیا گیا ،انہیں یہ تھیلا جس آدمی نے دیا تھا وہ پہلے ہی کہیں روپوش ہو گیا تھا، اس تھیلے کو کھول کر دیکھا تو اس میں خشک حشیش بھری ہوئی تھی، یہ خاصی لمبی مدت استعمال کے لئے کافی تھی، بڑھئی اور عبید عربی کو پکڑ کر کوتوال کے پاس لے گئے کوتوال نے دونوں کو قید خانہ میں بھیج دیا۔
شافعیہ نے جب سنا کہ عبید عربی قید خانے میں بند ہوگیا ہے تو اس کے آنسو بہنے لگے اور وہ مزمل کے پیچھے پڑ گئی کہ وہ اسے قید خانے میں لے چلے، وہ عبید عربی سے ملنا چاہتی تھی ،وہ کہتی تھی کہ عبید عربی ایسا آدمی نہیں ،شمونہ اور مزمل اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ کسی انسان کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ درپردہ کیا ہے، لیکن شافعیہ عبید عربی کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں تھی ،وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں اور یہ ضرور کہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔
مزمل نے شافعیہ کی یہ جذباتی حالت دیکھی تو وہ پریشان سا ہو گیا ،اس نے شافعیہ سے کہا کہ وہ جا کر معلوم کرتا ہے کہ عبید عربی حشیش اپنے پاس رکھنے کا مجرم ہے یا نہیں، ہو سکتا ہے اسے معلوم ہی نہ ہو اور یہ حشیش اس کے چچا بڑھائی کے لیے آئی ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی اور بن یونس سالار اوریزی کے خاص آدمی تھے، اوریزی نے ان دونوں کو جاسوسی کے محکمے میں باقاعدہ طور پر رکھ لیا تھا، لیکن اوریزی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ بھی ہو گئے تھے، قید خانے میں کوئی اور آدمی نہیں جا سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس کے لیے کہیں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی، مزمل بن یونس کو ساتھ لے کرقید خانے کے مہتمم سے ملا اور کہا کہ وہ ان دو قیدیوں سے ملنا چاہتا ہے جنہیں گزشتہ روز حشیش کے سلسلے میں گرفتار کر کے یہاں بھیجا گیا تھا۔
مہتمم نے اسی وقت قیدخانے کے دروغہ کو بلا کر کہا کہ ان دونوں کو ان دو قیدیوں کے پاس لے جائیں جن کے قبضے سے حشیش برآمد ہوئی تھی، دروغہ نے ان دونوں کو لے گیا ،اور دروغہ نے ہی انہیں بتایا کہ بڑھئی کو ایذارسانی والے کمرے میں لے جایا گیا ہے، اور اسے بہت ہی اذیتیں دی جا رہی ہیں لیکن وہ بتا نہیں رہا کہ یہ حشیش کہاں سے آئی تھی، اس پر شاک یہ ہے کہ وہ فدائی ہے اور الموت کا جاسوس بھی ہے ،عبید عربی کے متعلق دروغہ نے بتایا کہ وہ کوٹھری میں بند ہے اور وہ تو یوں سمجھو کہ پاگل ہو چکا ہے، دروغہ نے یہ رائے دی کہ وہ نشے سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے اور بھول ہی گیا ہے کہ وہ انسان ہے۔
بڑھئی کو تو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،مزمل اور بن یونس کوٹری تک گئے جس میں عبید عربی بند تھا ،اس نے جب مزمل کو دیکھا تو دوڑ کر سلاخوں تک آیا اور سلاخوں کو پکڑ کر جھنجھوڑنے لگا۔
خدا کے لئے مجھے تھوڑی سی حشیش دے دو۔۔۔۔ عبید عربی نے چلا چلا کر کہا۔۔۔میں مرجاؤں گا،،،، مجھے اتنی زیادہ اذیت دے کر نہ مارو،،،، مجھے حشیش نہیں دیتے تو مار ڈالو۔
مزمل نے اسے بتایا کہ حشیش تو قلعے میں بھی داخل نہیں ہوسکتی، اسے قید خانے میں حشیش کیسے دی جاسکتی ہے، عبید عربی نے یہ سنا تو اس نے سلاخوں کو پکڑ کر زور زور سے اپنا سر سلاخوں کے ساتھ مارا، اس کی پیشانی سے خون بہنے لگا دروغہ ساتھ تھا اس نے جب اس قیدی کی یہ حالت دیکھی تو دو تین سنتریوں کو پکارا ۔
تین سنتری دوڑے آئے، دروغہ نے انہیں کہا کہ وہ رسیاں لے آئیں اور اس قیدی کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیں اور ٹانگیں بھی باندھ دیں۔
وہ طریقہ بڑا ہی ظالمانہ تھا جس سے عبید عربی کے ہاتھ اور پاؤں باندھے گئے، مزمل اور بن یونس وہاں سے آگئے، عبید عربی کی چیخیں دور تک ان کا تعاقب کرتی رہیں۔
اسے تھوڑی سی حشیش دے دی جائے تو یہ بتا دے گا کہ حسن بن صباح کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے۔۔۔ مزمل نے دروغہ سے کہا۔۔۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے۔
پھر بھی نہیں بتائے گا۔۔۔ دروغہ نے کہا۔۔۔ ہمیں ان لوگوں کا بہت تجربہ ہے، اسے تھوڑی سی بھی حشیش مل گئی تو یہ شیر ہوجائے گا پھر تو یہ بولے گا ہی نہیں۔
مزمل اور بن یونس قید خانے سے مایوسی کے عالم میں نکل آئے، ان دونوں کو اگر کچھ دلچسپی تھی تو وہ شافعیہ کے ساتھ تھی، ان دونوں کو تو یقین ہو گیا تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا ہے اور یہ مشکوک آدمی ہے، اب یہ معلوم کرنا تھا کہ اس کا تعلق حسن بن صباح کے ساتھ ہے یا نہیں، لیکن شافعیہ نہیں مان رہی تھی، ان دونوں نے گھر جاکر شافعیہ کو یقین دلانے کی کوشش کی بھی لیکن وہ نہیں مانتی تھی، وہ روتی اور بری طرح تڑپتی تھی، کہتی تھی مجھے سالار اوریزی تک لے چلو میں عبید کو قید خانے سے نکلوا لوں گی،،،،،، سالار اوریزی قلعے کا امیر بھی تھا، وہ عبید عربی کو چھوڑ سکتا تھا لیکن مزمل اور بن یونس ایسی شفارش نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ جانتے تھے کہ سالار اوریزی باطنیوں کے معاملے میں کس قدر حساس ہے اور انتقام سے بھرا ہوا ہے۔
اگلے روز شافعیہ کی جذباتی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اس نے رو رو کر برا حال کر لیا، اس نے مزمل کو مجبور کر دیا کہ وہ آج بھی قید خانے میں جائے اور عبید عربی کو دیکھ کر آئے اور اسے بتائے کہ وہ کس حال میں ہے۔
مزمل چلا گیا اور عبید کو دیکھ آیا ،عبید کی حالت اب یہ تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں تو بندھے ہوئے تھے، ماتھے سے خون رس رہا تھا اور وہ ایسی بری طرح چیخ اور چلا رہا تھا جیسے کسی کتے کو باندھ کر مارا پیٹا جارہا ہو۔
مزمل نے شافعیہ اور شمونہ کو عبید عربی کی یہ حالت بالکل ایسی ہی بتائی جیسی وہ دیکھ کر آیا تھا، یہ سن کر شافعیہ کی حالت بھی ویسی ہی ہونے لگی، شمونہ عورت تھی شافعیہ کی یہ حالت اسے برداشت نہ ہو سکی اور وہ رونے لگی، مزمل نے کہا کہ چلو دونوں سالار اوریزی کے پاس چلتے ہیں۔
کیا سالار اوریزی اسے چھوڑ دے گا؟،،،شمونہ نے پوچھا۔
چھوڑے گا تو نہیں۔۔۔ مزمل نے جواب دیا۔۔۔ میں سالار اوریزی سے صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ طبیب کو قید خانے میں بھیجے کہ وہ عبید عربی کو دیکھے اور کوشش کرے کہ اس کے ذہن سے نشے کا اثر اتر جائے اور وہ صحیح حالت میں آ جائے، پھر اس سے پوچھیں گے کہ حشیش اس کے پاس کہاں سے آئی تھی، بس یہی ایک صورت ہے کہ ہم عبید عربی کو بچا سکتے ہیں، اگر وہ نہیں بتائے گا تو ہم بھی اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے، پھر تو ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ حسن بن صباح کا آدمی ہے اس صورت میں اگر شافعیہ مر بھی گئی تو ہم پرواہ نہیں کریں گے۔
اس زمانے میں قیدی کے ساتھ کسی کو ذرا سی بھی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوا کرتی تھی، قید خانے میں قیدی مرتے ہی رہتے تھے، قید خانے میں ڈالے جانے کا مطلب ہی یہی ہوتا تھا کہ یہ شخص بڑا خطرناک مجرم ہے اور یہ ذرا سے بھی رحم کا حقدار نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل اور شعمونہ سالار اوریزی کے پاس جا پہنچے ،انہوں نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ شافعیہ بھی روتی رہی چلاتی وہاں پہنچ گئی، دربان اسے اندر جانے سے روکتا تھا لیکن شافعیہ اسے دھکیلتی اور اس کا منہ نوچتی تھی، آخر دربان نے اندر جا کر سالار اوریزی کو بتایا کہ ایک لڑکی باہر یوں واویلا بپا کیے ہوئے ہے اور روکے رکتی نہیں ،سالار اوریزی نے اسے بھی اندر بلا لیا۔
سالار اوریزی کو بتایا جا چکا تھا کہ ایک بڑھئی اور اس کا جوان سال بھتیجا حشیش کے ساتھ پکڑے گئے ہیں اور انہیں یہ حشیش باہر کا ایک آدمی دے کر غائب ہو گیا تھا، سالار اوریزی نے حکم دے دیا تھا کہ یہ مرتے ہیں تو مر جائیں ان سے پوچھے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کا تعلق باطنیوں کے ساتھ ضرور ہوگا ،اب مزمل اور شمونہ سالار اوریزی کو عبید عربی اور شافعیہ کی ملاقاتوں کا قصہ سنا رہے تھے، شافعیہ اندر گئی تو اس نے اپنا واویلا بپا کر دیا ،وہ کہتی تھی عبید ایسا آدمی نہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
سالار اوریزی شافعیہ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا ،کیونکہ وہ اس لڑکی کے متعلق سب کچھ جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ یہ لڑکی کس طرح اس علاقے میں پہنچی تھی، اور اس نے اور کیا کچھ کیا ہے، لیکن اوریزی کسی مشکوک آدمی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا، شافعیہ کی جذباتی حالت یہ تھی کہ اس نے عبید عربی کی رہائی کے خاطر آگے بڑھ کر اور اس کے پاؤں پکڑ لیے، وہ کہتی تھی کہ اسے قید خانے میں جانے دیا جائے ،وہ عبید سے صحیح بات پوچھ لے گی، اور وہ اسے بتا بھی دے گا۔
سالار اوریزی نے حکم دیا کے طبیب کو قید خانے میں بھیجا جائے کہ وہ عبید عربی کی مرہم پٹی کرے اور اگر کوئی دوائی کارگر ہو سکتی ہے تو وہ بھی دے، اور شافعیہ کو بھی قید خانے میں جانے دیا جائے کہ یہ عبید کی حالت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔
طبیب اور شافعیہ قید خانے میں گئے، مزمل اور شمونہ ان کے ساتھ تھے، قید خانے کے دو سپاہی بھی ان کے ساتھ ہو لئے تاکہ عبید عربی کو قابو میں رکھا جائے۔
عبید کی حالت پہلے سے زیادہ بری اور قابل رحم ہو چکی تھی ،اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور وہ فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا، اور اس کے حلق سے بڑی ڈراؤنی آوازیں نکل رہی تھیں، ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر سلاخوں والا دروازہ کھول دیا۔
شافعیہ دوڑ کر اندر چلی گئی، کوٹھڑی میں ناقابل برداشت بدبو تھی، عبید نے شافعیہ کو دیکھا تو رو رو کر اس کی منتیں کرنے لگا کہ انہیں کہو اسے کھول دیں، اس نے چیخنا چلانا بند کر دیا، وہ اب شافعیہ شافعیہ ہی کہے جا رہا تھا ،اس کے ماتھے سے خون بہہ بہہ کر اس کے چہرے پر جم گیا تھا، شافعیہ نے فرش پر بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے اس طرح تسلی دلاسے دینے لگی جیسے ماں دودھ پیتے بچے کے ساتھ پیار کیا کرتی ہے۔
شافعیہ،،،،، شافعیہ،،،،،،عبید عربی ہناپتی آواز میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔ مجھے پاگل ہونے سے بچا لو،،،،، ان لوگوں سے مجھ بچالو،،،،، اپنی پناہ میں لے لو مجھے، شافعیہ!،،،،،شافعیہ۔
طبیب عبید کی مرہم پٹی کرنا چاہتا تھا اور اسے کوئی دوائی بھی دے دی تھی، لیکن شافعیہ کی وارفتگی اور دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے عبید کو اپنی گود میں اور زیادہ گھسیٹ لیا اور اپنا ایک گال اس کے چہرے پر رکھ دیا ،شافعیہ تو شاید بھول ہی گئی تھی کہ وہاں اس کے اور عبید کے سوا کوئی اور بھی موجود ہے۔
تم میری پناہ میں ہوں عبید!،،،، شافعیہ نے اس کے ساتھ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں اللہ کی پناہ میں ہیں، تم پاگل نہیں ہوں گے اور یہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تمہارے ہمدرد اور اور غمخوار ہیں،،،،،، زخم کی مرہم پٹی کرا لو پھر میں تمہارے پاس بیٹھو گی۔
نہیں !،،،،،عبید عربی نے شافعیہ کا ایک بازو دونوں ہاتھ میں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بولا۔۔۔ تم چلی جاؤ گی، مجھے ان لوگوں کے حوالے کر کے نہ جانا ،یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے،،،،،،پانی پلاؤ شافعیہ، پانی،،،،، مجھے کچھ چاہئے، پتا نہیں کیا چاہیے۔
شافعیہ نے اسے بٹھا کر اپنے ہاتھوں پانی پلایا، پھر اپنے ہاتھوں اس کے چہرے سے خون دھو ڈالا اور پھر طبیب نے اس کی مرہم پٹی کردی، اگر شافعیہ اسے مرہم پٹی کروانے کو نہ کہتی تو وہ طبیعت کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیتا،،،،،، عبید عربی کی ذہنی حالت بالکل بگڑ گئی تھی ،وہ بے معنی سی باتیں بھی کر جاتا تھا ،اور اس کی بعض باتیں تو تو پلّے ہی نہیں پڑتی تھیں، اس کی زبان جیسے اکڑی ہوئی تھی جو صحیح الفاظ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔خدا نے آدم کو جنت سے نکال دیا تھا ،اس نے یہ الفاظ اس طرح کہے تھے جیسے خواب میں بول رہا ہو، شافعیہ کے سوا یہ الفاظ کوئی نہ سمجھ اور سن سکا۔
طبیب نے تھوڑے سے پانی میں ایک دوائی کے چند قطرے ڈال کر شافعیہ کو پیالہ دیا کہ اسے پلا دے، شافعیہ کے ہاتھ سے اس نے یہ دوائی پی لی، کچھ دیر انتظار کیا گیا تو دیکھا کہ عبید عربی پر خاموشی طاری ہوگئی تھی، اور نیند سے اس کا سر ڈولنے لگا تھا ،یہ دوائی کا اثر تھا۔
ذرا ہی دیر بعد عبید عربی کی آنکھیں بند ہو گئی اور سر ڈھک گیا ،اسے فرش پر لیٹا دیا گیا ،طبیب نے اشارہ کیا کہ سب لوگ یہاں سے نکل چلیں، شافعیہ وہاں سے اٹھتی نہیں تھی، لیکن طبیب نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی، سب باہر نکل آئے اور کوٹھڑی کا دروازہ پھر مقفل کر دیا گیا، شافعیہ سلاخوں کو پکڑ کر وہیں کھڑے سوئے ہوئے عبید عربی کو دیکھتی رہی ،شمونہ نے اسے پکڑا اور ساتھ لے آئی، یہ سب دروغہ کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں جا بیٹھے۔
میں حیران ہوں محترم طبیب!،،،، دروغہ نے کہا۔۔۔کل یہی شخص سلاخوں کے ساتھ اپنا سر پھوڑ رہا تھا ،اگر ہم اسے باندھ نہ دیتے تو اب تک یہ زندہ نہ ہوتا ،میں حیران ہوں آج اس لڑکی کو دیکھ کر یہ قیدی آگ سے پانی بن گیا ہے۔
میں نے اسے بڑی ہی غور سے دیکھا ہے۔۔۔ طبیب نے یوں بات کی جیسے قاضی فیصلہ سنا رہا ہو۔۔۔ مجھے اس کے کل کے رویے کے متعلق کچھ بتایا دیا گیا تھا، میں نے خود دیکھا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ لگ کر وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا ،میں نے اسے جو دوائی دی ہے یہ صرف نیند کے لیے ہے میں اسے سلانا چاہتا ہوں ،تاکہ اس کا تھکا ٹوٹا ہوا ذہن ٹھکانے پر آجائے، اسے علاج نہ سمجھا جائے، میں نے اس کا علاج دیکھ لیا ہے یہ علاج صرف شافعیہ کے پاس ہے، شافعیہ اس کے پاس آتی رہے تو یہ اپنی صحیح ذہنی حالت پر آ جائے گا ،یہ نشے سے ٹوٹا ہوا ہے ،اور خطرہ ہے کہ یہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے گا۔
طبیب نے تشخیص کرکے کچھ ہدایات دی، اور زور دے کر کہا کہ اس قیدی کو شافعیہ کے ساتھ کچھ دن رکھا جائے، یہ اپنے دل کی ڈھکی چھپی باتیں بھی شافعیہ کے آگے اُگل دے گا۔
قید خانے سے نکل کر یہ سب لوگ سالار اوریزی کے پاس گئے، طبیب نے سالار اوریزی کو عبید عربی کے متعلق رپورٹ دی اور اسے بھی کہا کہ عبید کا علاج شافعیہ ہے۔
سالار محترم!،،،،،، شافعیہ نے کہا ۔۔۔اگر آپ مجھے عبید کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیں تو کیا میں اس کے ساتھ قید خانے کی کوٹھری میں رہوں گی؟،،،،،،،، میں اس کے ساتھ وہاں بھی رہنے کو تیار ہوں، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں میں اس کے ساتھ دلجمعی کے ساتھ رہ سکوں؟،،،، میں پہلے جو بات نہیں مانتی تھی وہ اب مان لی ہے، عبید نشے سے ٹوٹا ہوا ہے، مجھے اس سے پہلے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ کوئی نشہ کرتا ہے، اگر آپ اس سے کچھ اور پوچھنا چاہتے ہیں تو وہ میں پوچھ لوں گی،،،،،،،،،، مجھے پورا یقین ہے کہ یہ باطنی نہیں۔
جذبات سے نکلو شافعیہ!،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ مجھے اب یقین ہونے لگا ہے کہ عبید اور یہ بڑھئی حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہیں، مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ عبید تمہیں محبت کا دھوکا دے رہا ہے اور یہ لوگ تمہیں یہاں سے اڑا لے جائیں گے اور قلعہ الموت میں حسن بن صباح کے حوالے کر دیں گے، یہ لوگ اتنے پکے ہوتے ہیں کہ بڑھئی نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا، حالانکہ اسے ایسی اذیتیں دی گئیں ہیں جو ایک تندرست گھوڑا بھی شاید برداشت نہ کرسکے، عبید ابھی کچا معلوم ہوتا ہے۔
شافعیہ نے سالار اوریزی کو کہا تھا کہ عبید کو کسی اچھی جگہ منتقل کر دیا جائے تو وہ اس سے اگلوا لے گی کہ وہ اصل میں کیا ہے، کہاں سے آیا ہے، اور کس ارادے سے آیا ہے،اور اس بڑھئی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔ سالار اوریزی کو تو اصل راز کی ضرورت تھی، کسی کو اذیت میں ڈالنا ضروری نہیں تھا، اس نے حکم دے دیا کہ عبید عربی کو کسی اچھی جگہ منتقل کردیا جائے ،یہ جگہ قید خانے کے باہر بھی ہوسکتی ہے، اور وہاں پہرا کھڑا کر دیا جائے، یعنی عبید کو قیدی قرار دے کر رکھا جائے، اور شافعیہ جس وقت چاہے اور جتنی دیر تک چاہے اس کے پاس رہ سکتی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبید عربی کو اسی دن قلعے میں ایک کمرہ تیار کرکے بھیج دیا گیا اور باہر دو سپاہی پہرے پر کھڑے کر دیے گئے، اس کمرے میں بڑا اچھا پلنگ اور نرم بستر تھا ،اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی وہاں موجود تھیں، ایک ملازم بھی وہاں بھیج دیا گیا۔
اس رات شافعیہ عبید عربی کے کمرے میں آئی اور اس نے دیکھا کہ بہت دیر سوکر وہ کچھ سکون میں آگیا تھا ،اسے دراصل یہ تھوڑا سا سکون اس لیے ملا تھا کہ اسے قید خانے سے نکال دیا گیا تھا اور شافعیہ اس کے پاس تھی، ویسے وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں لگتا تھا۔
شافعیہ اس کے پاس پلنگ پر اسی طرح بیٹھی جس طرح وہ سبزیوں کے باغ میں بیلوں اور پودوں کی اوٹ میں بیٹھا کرتے تھے، اب اس کمرے میں جس کا دروازہ بند تھا اور کسی کے آنے کا خطرہ نہیں تھا شافعیہ نے اور زیادہ جذباتی مظاہرے کیے، جن میں بناوٹ نہیں بلکہ اس کی روح شامل تھی، عبید اس کے ساتھ اس طرح لگ کر بیٹھ گیا تھا جس طرح ڈرا سہما ہوا بچہ ماں کی آغوش کی پناہ میں جا دبکتا ہے، اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ عبید عربی حشیش کے نشے سے ٹوٹا ہوا تھا ،جن فدائیوں کو باہر قتل یا کسی دوسری واردات کے لیے بھیجا جاتا تھا انہیں حشیش ملتی رہتی تھی اور وہ جیسا نشہ بھی طلب کرتے انہیں مل جاتا تھا، لیکن وسم کوہ میں جیسا کہ سنایا جاچکا ہے، سالار اوریزی نے حشیش اور دوسری منشی اشیاء کی بھی بندش لگا رکھی تھی۔
حشیش نہ ملنے کے اثرات تو دماغ پر بہت ہی برے ہوتے تھے، لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ ایسا آدمی جو نشے سے ٹوٹا ہوا ہوتا تھا محض نشے کی خاطر راز اگل دیتا تھا، عبید کو پاگل ہو جانا چاہیے تھا لیکن شافعیہ ایک ایسا نشہ تھا جس نے عبید کے دماغ سے حشیش نہ ملنے کے اثرات زائل کرنے شروع کر دیے۔
اس کے ساتھ طبیب کی دوائی کے اثرات بھی تھے، طبیب اپنی دوائی کی خوراک کم کرتا جا رہا تھا ،اس سے عبید کو نیند کم آنے لگی تھی، مختصر یہ کے شافعیہ کے والہانہ پیار نے اور طبیب کی دوائی نے عبید کو شے کی طلب کی اذیت سے نکال لیا ،ایک روز شافعیہ پیار ہی پیار میں اسے اس بات پر لے آئی کہ وہ اپنا آپ بے نقاب کر دے۔
عبید عربی تو جیسے اسی انتظار میں تھا کہ شافعیہ اس سے یہ بات پوچھے، اس نے بڑی لمبی کہانی شروع کر دی، اس نے شافعیہ کو سنایا کہ جب شافعیہ اصفہان سے اپنے چچا ابو جندل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی تو تھوڑا ہی عرصے بعد عبید اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک قافلے میں کہیں جا رہا تھا، اس کا باپ تاجر تھا اور مال بیچنے اور خریدنے کے لئے جا رہا تھا، پہلی بار وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا، اس وقت عبید کا نام ناصر تھا، اور یہی وہ نام تھا جو اس کے ماں باپ نے رکھا تھا۔
راستے میں قافلے پر لٹیروں نے حملہ کردیا، عبید عربی نے سنایا کہ لٹیروں نے جہاں سب کچھ لوٹ لیا وہاں یہ ظلم بھی کیا کہ خوبصورت بچیوں اور جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے، اور ایک لٹیرے نے اسے بھی اٹھا لیا، اسے ابھی تک یاد تھا کہ اس لٹیرے نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ بڑا ہی خوبصورت بچہ ہے، اس وقت اس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی، عبید نے سنایا کہ اس کی ماں بھی اور اس کا باپ بھی لٹیرے کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے، اس نے اپنے ماں باپ کو قتل ہوتے دیکھا تھا ،وہ تو رو رو کے بے ہوش ہو گیا تھا۔
لٹیروں نے اسے شاہ در پہنچا دیا ،شاہ در میں اس کی تربیت ہونے لگی اور وہ بڑا ہونے لگا، جب اس کی عمر انیس بیس سال ھو گئی تو اسے قلعہ الموت بھیج دیا گیا ،وہاں اسے حسن بن صباح کو پیش کیا گیا جس نے اسے جنت میں داخل کر لیا ،اسے دوسروں کی طرح حشیش پلائی جاتی تھی اور وہاں بڑی خوبصورت لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ وہ رہتا اور عیش و تفریح کرتا تھا۔
اسے وہاں ہر عیش اور موج حاصل تھی، لیکن پیار کہیں بھی نہیں تھا ،ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ شیخ الجبل ایک دن اسے بلائے گا اور کہے گا کہ اپنا خنجر نکالو اور اپنے آپ کو قتل کر لو ، یہ مظاہرہ اس کے سامنے چند مرتبہ ہوا تھا اور ہر بار ایک فدائی اپنی ہی ہاتھوں ہلاک ہو جاتا تھا۔
عبید عربی کی شخصیت ہی بدل گئی اور وہ اس ذہنی مقام تک پہنچ گیا جہاں وہ خود چاہنے لگا کے شیخ الجبل اسے حکم دے کہ اپنا پیٹ چاک کر دو تو وہ اسے اپنا پیٹ چاک کرکے دیکھا دے ،پھر بھی پیار کی تشنگی پوری طرح ختم نہ ہوئی، حسن بن صباح کی جنت میں ایک سے ایک حسین اور نوجوان لڑکی تھی، لیکن وہ سب خوبصورت اور پرکشش جسم تھے، ان کے اندر جیسے دل تھا ہی نہیں اور روح بھی نہیں تھی۔
آخر ایک روز اسے شیخ الجبل امام حسن بن صباح نے بلایا اور کہا کہ تم وسم کوہ جاؤ گے، اور وہاں سپہ سالار اوریزی کو قتل کرنا ہے، اور پھر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا بلکہ وہاں اپنے آپ کو اسی خنجر سے ہلاک کر لینا۔
وہ یہاں آیا ،یہ بڑھئی اس کا چچا بالکل نہیں لگتا، بلکہ یہ اسی کام کے لئے یہاں موجود ہے کہ کوئی فدائی آئے تو اسے پناہ دی جائے اور یہاں کی خبریں الموت بھیجی جائیں، اس نے سبزیوں کے باغ کے مالک کا نام بھی لیا اور کہا کہ وہ بھی حسن بن صباح کا آدمی ہے۔
عبید نے بتایا کہ وہ ابھی دیکھ رہا تھا کہ سالار اوریزی کو کس طرح اور کہاں قتل کیا جا سکتا ہے کہ اتنے میں اسے شافعیہ مل گئی اور شافعیہ سے اسے وہ پیار مل گیا جس کے لیے وہ مرا جا رہا تھا۔
بڑھئ اور سبزی والے کے پاس حشیش ختم ہوگئی انہوں نے عبید کو دوسرے نشے پلائے لیکن وہ حشیش ہی طلب کرتا تھا، حشیش آئی اور پکڑی گئی، اس سے جو حالت اس کی ہوئی وہ پہلے سنائی جا چکی ہے، اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ حشیش کے نشے سے وہ اس حد تک ٹوٹ گیا تھا کہ اس نے اپنا سر پھوڑ لیا تھا، لیکن اس نے قید خانے میں شافعیہ کو دیکھا تو اسے ٹوٹنے کے اثرات کم ہو گئے، دراصل پیار کی اثرات زیادہ زہریلے تھے، شافعیہ نے والہانہ محبت کا مظاہرہ یہ کیا کہ اسے قید خانے سے نکلوا لیا اور اس کمرے میں لے آئی، مختصر یہ کہ یہ شیش پر شافعیہ کی والہانہ محبت غالب آگئی اور عبید نے اپنا یہ راز اگل کر یوں سکون محسوس کیا جایسے اسکے وجود میں زہر بھرا ہوا تھا اور یہ زہر نکل گیا ہو۔
میں اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں شافعیہ!،،،،، عبید عربی نے کہا۔۔۔۔ سپہ سالار اوریزی کو یہ ساری بات سنا دو اور اسے کہو کہ مجھے جو سزا دینا چاہے وہ میں ہنسی خوشی قبول کر لوں گا۔
سالار اوریزی نے اسے کوئی سزا نہ دی، بڑھئی اور سبزیوں کے باغ کے مالک کو سر عام سزائے موت دی گئی ان کی لاشیں اور سر شہر سے دور جنگل میں پھینک دیئے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*