🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اٹھاون⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اٹھاون⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*سلطان*  محمد نے قلعہ شاہ در فتح کرکے احمد بن عطاش کی یہ شرط مان لی تھی کہ وہ اس کا خاندان اور شہر کے جتنے لوگ شہر سے جانا چاہتے ہیں انہیں قلعہ ناظر و طبس جانے کی اجازت دے دی جائے،  یہ دراصل شرط نہیں بلکہ ایک درخواست تھی جو ایک ہارے ہوئے حاکم قلعہ نے سلطان محمد کے آگے پیش کی تھی۔
سلطان محمد نے یہ درخواست قبول کرکے بڑی غلطی کی تھی، اگر وہ یہ درخواست قبول نہ کرتا تو تاریخ کا رخ بدل جاتا، لیکن سلطان محمد پر فتح کی خوشی اس حد تک طاری ہوگئی تھی کہ اس نے بادشاہوں والی فیاضی کا مظاہرہ کیا اور ان سانپوں اور بچھوؤں کو اجازت دے دی کہ وہ زندہ رہیں اور جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں چلے جائیں۔
اس درخواست میں یہ بھی تھا کہ شہر سے جانے والے آدھے لوگ ناظر و طبس جائیں گے اور باقی قلعہ الموت جائیں گے۔
 ان دونوں گروہوں کو سلطان محمد مسلح حفاظت دے جو انہیں وہاں تک پہنچا دے۔
 سلطان محمد نے یہ درخواست بھی قبول کرلی ۔
شاہ در سے جو لوگ جارہے تھے انہیں غیر مسلح کر دیا گیا تھا یعنی وہ نہتے تھے، انہوں نے اس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ راستے میں ان پر قافلے لوٹنے والوں کا حملہ ہو سکتا ہے یا کوئی اور مصیبت ان پر نازل ہو سکتی ہے۔
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ شاہ در کی فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی بلکہ اس فتح کی اہمیت ایسے تھی جیسے حسن بن صباح کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا گیا ہو ، قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا دوسرا مضبوط اور پرخطر اڈہ شاہ در تھا ،اس فتح کی خبر دارالحکومت میں پہنچنے کے لیے تیز رفتار قاصد روانہ کر دیے گئے تھے، یہ خبر قلعہ وسم کوہ میں سالار اوریزی تک بھی پہنچ گئی ،اس وقت مزمل آفندی شدید زخمی حالت میں پڑا تھا ،پھر یہ خبر حسن بن صباح تک بھی پہنچی اور کچھ دنوں بعد شاہ در کے وہ لوگ جو قلعہ الموت جانا چاہتے تھے وہ بھی اس کے پاس پہنچ گئے۔
عبدالمالک بن عطاش کو راستے میں اطلاع مل گئی تھی کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے اور اس کے 89 باطنی فدائیوں کو مرو میں قتل کر دیا گیا ہے، عبدالملک کو یہ اطلاع ان جاسوسوں نے پہنچائی تھی جو مرو میں موجود تھے۔
عبدالملک کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی یہ صدمہ اس کے لیے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا، ویسے بھی عبدالملک بوڑھا آدمی تھا اور اس میں قوت برداشت کم ہوگئی تھی، پھر اسے یہ اطلاع بھی ملی کہ احمد بن عطاش کی بیوی نے اپنے خاوند کی یہ خبر سن کر کے اسے جلاد کے حوالے کر دیا گیا ہے ایک بلندی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی ہے، عبدالملک کے لیے یہ دوسرا صدمہ تھا۔
عبدالملک بن عطاش قلعہ ناظروطبس میں پہنچا، یہ قلعہ اصفہان کے قریب ہی تھا، عبدالملک نے دو ایلچی اور کچھ اور آدمی اصفہان بھیجے، اصفہان میں باطنیوں کے جو جاسوس تھے انہوں نے عبدالملک کو یہ خبر دے دی تھی کہ سلطان محمد اس وقت اصفہان میں ہے اور کچھ دنوں بعد اپنے دارالحکومت مرو چلا جائے گا ،عبدالملک نے سلطان محمد کی طرف ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ اس کے چھوٹے بھائی احمد اور احمد کے بیٹے اور احمد کی بیوی کی لاشیں دے دی جائیں۔
احمد اور اس کے بیٹے کی لاشیں ایک ہی گڑھے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی گئی تھی دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے پاس بھیج دیے گئے تھے، احمد کی بیوی کو ان آدمیوں نے جو اس کے ساتھ تھے باقاعدہ دفن کیا تھا ،عبدالملک کے ایلچی سلطان محمد کے پاس پہنچے تو سلطان محمد نے انہیں اجازت دے دی کے وہ ان تینوں کی لاشیں نکال کر لے جائیں۔
ایک روز یہ تین لاشیں قلعہ ناظر و طبس پہنچ گئیں، عبدالمطلب نے جب دیکھا کہ اس کے بھائی اور بھائی کے بیٹے کی لاشیں بغیر سروں کے ہیں تو اس پر غشی طاری ہونے لگی، وہ اپنا کالا جادو اور شعبدہ بازی بھول ہی گیا، اسکی تو کمر ہی دوہری ہوگئی ،ان تینوں لاشوں کو احترام کے ساتھ دفن کیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالملک بن عطاش حسن بن صباح کا استاد اور پیرومرشد تھا، مختلف مورخوں نے مختلف رائے دی ہے، بعض نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح سرتاپا اندار اور باہر سے ابلیس تھا ،اس نے اپنے اس پیرومرشد اور استاد کو بھی دھوکے دیے تھے اور کوشش یہ کی تھی کہ اسے اتنی اہمیت اور مقبولیت نہ ملے جتنی اسے حاصل ہو گئی تھی، یہاں تک کہ بعض لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں نبی بھی کہنے لگے تھے ،بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے عبدالملک کے ساتھ پوری وفاداری کی تھی، ذہنی طور پر حسن بن صباح عبدالملک کو پیر استاد مانتا تھا اور جب اسے یہ اطلاع ملی کہ عبدالملک شاہ در سلجوقیوں کو دے کر آ گیا ہے اور اس کے چھوٹے بھائی کو اور بھائی کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے تو اس نے ضروری سمجھا کہ قلعہ ناظر و طبس جا کر اپنے استاد کی دلجوئی کرے۔
حسن بن صباح جب اپنے قلعہ الموت سے ناظروطبس کے سفر کو روانہ ہوا تو یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا کا بادشاہ یہی اکیلا شخص ہو، اس کے لیے ایسی پالکی تیار کی گئی تھی جسے بیس آدمی اٹھاتے تھے، دس آدمی آگے اور دس پیچھے، پالکی کے پردے خالص ریشم کے تھے، اورباقی پالکی کمخواب سے تیار کی گئی تھی، اس کے اندر بڑے ہی نرم گدے اور گاؤ تکیے رکھے گئے تھے ،حسن بن صباح کے ساتھ اس پالکی میں اسکی جنت کی دو حوریں بھی تھیں، جو اس کی مٹھی چاپی کرتی جا رہی تھیں، اس وقت حسن بن صباح بوڑھا ہوچکا تھا، تقریبا بیس فدائی تلواروں اور برچھیوں سے مسلح اس کے آگے آگے جا رہے تھے، بیس پچیس دائیں طرف اور اتنی ہی بائیں طرف اور اتنی ہی اس کے پیچھے تھے، یہ سب گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے لباس بڑے ہی دلکش اور دلفریب تھے، اس کے پیچھے اونٹوں پر سامان تھا اور اس سامان میں خوردونوش کی وہ اشیاء تھیں جو جنت میں ہی کسی کو مل سکتی ہوں گی، ان اونٹوں کے ساتھ ساتھ اور کچھ پیچھے سو ڈیڑھ سو مریدوں کا گروہ تھا ،وہ سب کے سب مسلح تھے۔
حسن بن صباح کا یہ قافلہ جب پہلا پڑاؤ کرنے لگا تو فدائیوں نے اس جگہ کو حصار میں لے لیا ،اس کے لئے زمین پر نرم و گداز گدے بچھا دیے گئے اور اردگرد ریشم کے پردے تان دیے گئے، باہر کا کوئی آدمی اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اس شخص نے مسلمان کے خون کے دریا بہا دیے تھے اس نے نہایت اہم اور تاریخ ساز شخصیتوں کو قتل کروا دیا تھا، سیکڑوں قافلے اس کے اشارے پر لوٹے گئے تھے، قافلوں کے ساتھ جو کمسن اور جوان بچیاں تھیں وہ اغوا کی گئی تھیں اور انہیں جنت کی حوریں بنایا گیا تھا، اب اس شخص کو ہر لمحہ اپنی جان کا غم لگا رہتا تھا، اسے کوئی ملنے کے لئے جاتا تو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور اگر کسی کو اجازت مل جاتی تو اس کی جامہ تلاشی بڑی سختی سے کی جاتی تھی۔
دو پڑاؤ کے بعد جب حسن بن صباح کا قافلہ ناظروطبس کے قریب پہنچا تو قافلے کا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا قلعے میں پہنچا اور عبدالملک کو اطلاع دی کہ شیخ الجبل حسن بن صباح کی سواری آرہی ہے، یہ خبر قلعے میں فوراً پھیل گئی، ان تمام باطنیوں کو جو وہاں موجود تھے خوشیاں منانی چاہیے تھی کہ شیخ الجبل ان کے یہاں آ رہا ہے، لیکن سب پر موت کی مرونی چھا گئی اور ان کے سر جھک گئے۔ وہ سب شکست خوردہ تھے شاہ در جیسا قلعہ سلجوقیوں کو دے آئے تھے۔ عبدالملک کے تاثرات کچھ اور تھے، غموں نے اور بڑھاپے نے اسے جھکا دیا تھا ،اس نے حکم دیا کہ قلعے کے تمام لوگ قلعے سے باہر جاکر راستے میں دونوں طرف کھڑے ہو جائیں اور اپنی امام کا استقبال کریں۔
 آخر حسن بن صباح کی سواری قلعے تک پہنچی اور قلعے کے لوگ دونوں طرف کھڑے بازو لہرا لہرا کر نعرے لگا رہے تھے۔
بند کرو یہ نعرے۔۔۔ پالکی میں سے حسن بن صباح کی آواز گرجی۔۔۔ ان ہارے ہوئے بزدلوں کو کیا حق ہے کہ وہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائیں، انہیں کہو خاموش رہیں ۔
اس کا یہ حکم لوگوں تک پہنچا دیا گیا اور وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا۔
عبدالملک بن عطاش اس کے استقبال کے لئے دروازے تک نہ آیا ،وہ اپنے کمرے میں بیٹھا رہا کچھ دیر بعد حسن بن صباح اس کے کمرے میں داخل ہوا ،عبدالملک نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن حسن بن صباح نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اٹھنے نہ دیا، عبدالملک کے آنسو جاری ہوگئے اور کچھ دیر بعد وہ سسکنے لگا ،حسن بن صباح اس کے پاس بیٹھ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا۔
 ابن صباح!،،،،،، عبدالملک نے کچھ دیر بعد کہا۔۔۔ تم لوگوں کو دھوکے میں قتل کروانا جانتے ہو لیکن قلعوں کے دفاع کا تمہیں کوئی خیال نہیں ،ہمیں ایک باقاعدہ فوج تیار کرنی چاہیے ورنہ تم دیکھ لینا ایک روز قلعہ الموت بھی ہم سے چھن جائے گا۔
پیرومرشد !،،،،،،حسن بن صباح نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔ وہ وقت کبھی نہیں آئے گا، البتہ اس وقت کا انتظار کریں جب سلجوقیوں کی سلطنت ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی، اور یہ سلطان اور ان کے خاندان ہمارے قیدی ہوں گے، میں جانتا ہوں آپ پر احمد اور اس کے بیٹے اور اس کی بیوی کا غم حاوی ہوگیا ہے ،شاہ در ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کا اتنا غم نہ کریں ہمیں قلعوں کی نہیں لوگوں کی ضرورت ہے، ہم لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔
ہوش میں آ ابن صباح!،،،،،، عبدالملک نے کہا۔۔۔ میں تجھے شیخ الجبل اور امام بنایا ہے، معلوم ہوتا ہے تو اپنی طاقت اور مقبولیت کا اندازہ بڑا غلط لگا رہا ہے، خوش فہمیوں سے نکل اگر ہمارا یہی حال رہا تو ہمارا فرقہ سکڑ سمٹ کر صرف ہم تک رہ جائے گا ،سلجوقیوں کو ہم پر یہ پہلی فتح حاصل ہوئی ہے یہ کوئی معمولی فتح نہیں، ہم شاہ در کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے لیکن اہلسنت سلجوقیوں کے ہاتھ میں بھی کوئی طاقت آ گئی ہے، میں نے اپنا جادو چلایا جو کبھی ناکام نہیں ہوا تھا لیکن میں نے الّو چھوڑا تو سلجوقیوں کے تیر اندازوں نے اسے تیروں سے گرا لیا ،اس سے مجھے خیال آیا کہ سلطان محمد کو کسی طرح پہلے پتہ چل گیا تھا کہ قلعے کے اندر سے ایک الّو اُڑے گا جو پورے لشکر پر اڑ کر واپس آ جائے گا ،لیکن الّو اڑا اور تیر اندازوں نے اسے گرا لیا ،،،،،،بتاؤ میں کیا سمجھوں۔
 نہیں پیرومرشد!،،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔۔ میں اس شکست کو فتح میں بدل کر دکھا دوں گا ،آپ اس صدمے کو اپنے اندر جذب کر لیں اور میری رہنمائی اسی طرح کرتے رہیں جس طرح کرتے رہے ہیں،،،،،، یہ بتائیں آپ وہاں کیا چھوڑ آئے ہیں؟ 
 میں وہاں جانباز قسم کے فدائی چھوڑ آیا ہوں۔۔۔ عبدالملک نے کہا۔۔  وہ عقل اور ہوش والے ہیں، وہ کسی کو یوں قتل نہیں کریں گے کہ قتل کیا اور خودکشی کرلی، میں انہیں پوری ہدایت دے کر آیا ہوں، وہ مسجدوں میں امام بنیں گے بچوں کو قرآن اور احادیث کی تعلیم دیں گے، اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں معزز افراد کی حیثیت سے رہیں گے ،میں زیادہ کیا بتاؤں وہ بڑے ہی زہریلے سانپ ہیں جو میں شاہ در میں چھوڑ آیا ہوں، وہ ان سلجوقیوں کو ایسے ڈنک مارے گے کہ وہ شاہ در سے بھاگ جائیں گے،،،،،،،،  مجھے گلہ اور شکوہ تم سے ہے کہ ہم اتنا زیادہ عرصہ محاصرے میں رہے کہ نہ جانے کتنے چاندطلوع ہوئے اور ڈوب گئے لیکن تم سے اتنا بھی نہ ہوا کہ کچھ فدائ بھیج دیتے جو سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کر دیتے جس طرح وہ پہلے قتل کرتے چلے آئے ہیں۔
 مجھے محاصرے کی اطلاع مل گئی تھی۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں نے دس منتخب فدائی بھیجے تھے جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالار وغیرہ کو قتل کرنا تھا ،لیکن آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ان دس فدائوں کا کچھ پتہ ہی نہ چلا کہاں غائب ہوگئے ہیں، آخر کچھ عرصے بعد یہ اطلاع ملی کہ ان دس کی لاشیں جنگل میں پڑی ہیں اور انھیں جنگل کے درندے کھا چکے ہیں۔
 تم نے ابھی نقصان کا اندازہ نہیں کیا ابن صباح!،،،،،،، عبدالملک نے کہا۔۔۔ ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوگیا ہے، ہمیں جو دولت اور قیمتی اشیاء قافلوں سے ملتی تھی وہ اب نہیں مل سکیں گی، شاہ در بڑی موزوں جگہ تھی، میں نے جو آخری قافلہ لٹوایا تھا اس سے ہمیں بے شمار دولت ملی تھی، میں شاہ در میں بے انداز خزانہ چھوڑ کر آیا ہوں، میں سمجھ نہیں سکتا وہ خزانہ وہاں سے کس طرح نکلوا سکتا ہوں ۔
وہ خزانہ کہاں ہے؟ 
 وہ میں نے ایسی جگہ چھپا لیا تھا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔۔۔ عبدالملک نے جواب دیا۔۔۔ شاہ در میں اپنے جو آدمی چھوڑ آیا ہوں ان میں ایک یا دو اس جگہ سے واقف ہیں، میں ذرا سنبھل لوں تو یہاں سے آدمی بھیجوں گا جو وہ خزانہ نکالنے کی کوشش کریں گے،،،،،،،  یہ بعد کی باتیں ہیں ابن صباح!،،،،فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج تیار کرو ،اگر نہیں کروگے تو قلعہ الموت بھی خطرے میں رہے گا ،مت بھولو کہ سلجوقیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور ان کے لیے یہ معمولی فتح نہیں کہ انہوں نے احمد کو سزائے موت دی ہے۔
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب حسن بن صباح کی ابلیسیت ایک پرکشش اور پراثر عقیدے کی شکل میں دور دور تک پھیل گئی تھی، اور اس کے اثرات سلجوقی سلطنت میں داخل ہو چکے تھے یہ ایک ایسا سیلاب تھا جو زمین کے نیچے نیچے آیا تھا اور لوگ شیخ الجبل کو نبی تک ماننے پر اتر آئے تھے۔ سلجوقی سلاطین پکے مومن تھے اور وہ اہل سنت والجماعت تھے، وہ دل اور روح کی گہرائیوں سے اس فتنے کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے، اور سرگرم عمل بھی تھے، لیکن یہ فتنہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ،ایک بڑی پرانی کتاب۔۔۔۔ "تاریخ آل سلجوقی اصفہانی"۔۔۔۔ میں یہ سراغ ملتا ہے کہ سلجوقی سلاطین میں وہ کونسی کمزوری تھی جس سے باطنیوں کو اپنے باطل عقیدے پھیلانے کا موقع مل گیا ،اس کتاب میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام بڑا ہی کارگر ہوا کرتا تھا، مسلمانوں کے جاسوس کفار کے درمیان موجود رہتے تھے اور پل پل کی خبر پیچھے بھیجتے تھے لیکن سلطان ملک شاہ کے باپ الپ ارسلان نے یہ محکمہ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر توڑ دیا تھا، پھر یوں ہوا کہ مسلمانوں کے جاسوس واپس آگئے۔
الپ ارسلان کو جاسوسوں کی ضرورت نہیں رہی تھی اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابھی حسن بن صباح کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا ،حسن بن صباح سلطان ملک شاہ کے دور میں اٹھا تھا ،سلطان ملک شاہ نے بھی جاسوسی کی طرف توجہ نہ دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حسن بن صباح کے جاسوس ہی نہیں بلکہ اس کے تخریب کار بھی مسلمانوں میں آگئے اور انہیں کوئی بھی پہچان نہ سکا، انہوں نے نفسیاتی تخریب کاری بھی کی اور نظریاتی بھی اور اس کے بعد انہوں نے اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ شروع کر دیا۔
یہ تھی مسلمانوں کی وہ کمزوری جس سے باطنی فریقین نے فائدہ اٹھایا ،سلطان ملک شاہ کے وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے شدت سے محسوس کیا کہ جاسوسوں کے بغیر دشمن پر کاری ضرب نہیں لگائی جاسکتی، سلطان ملک شاہ نظام الملک کا تو مرید تھا اور وہ اس کی رہنمائی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتا تھا، نظام الملک نے جاسوسی کا نظام قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور سلطان ملک شاہ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا۔
ابتدا میں مسلمان جاسوسوں کو بہت ہی دشواریوں اور خطروں کا سامنا کرنا پڑا ،حسن بن صباح کے جاسوس انہیں فوراً پہچان لیتے تھے ،مزمل آفندی کی مثال پہلے تفصیل سے سنائی جا چکی ہے ،مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن واپس یہ ارادہ لے کر آ گیا کہ وہ سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کو قتل کرے گا، یہ حسن بن صباح کے ایک ایک خاص نظام کا کمال تھا ،اس کے بعد مسلمانوں کے جاسوس کامیابیاں حاصل کرنے لگے لیکن ابھی تک ان کا یہ نظام کمزور تھا ،اب شاہ در کے محاصرے کے دوران نور کے باپ نے تیر کے ذریعے پیغام باہر بھیجا تو سلطان محمد نے سوچا کہ یہ تو اللہ کی خاص نوازش تھی کہ ایک آدمی کے دل میں باغیوں کے خلاف عناد بھرا ہوا تھا اور اس نے سلطان محمد کی مدد کی ،تو کیوں نہ ان باطنیوں میں اپنے جاسوس چھوڑ دیے جائیں جو ذرا ذرا سی بھی باتیں آکر بتاتے رہیں گے ،یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیجا تھا اور اسے خاص طور پر کہا تھا کہ اس شہر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں وہ بظاہر بے ضرر سے لگتے ہیں لیکن ان میں فدائی اور حسن بن صباح کے خاص جاسوس اور تخریب کاریقیناً ہوں گے ،سلطان محمد نے سنجر سے کہا تھا کہ وہ باطنیوں کے بہروپ میں اپنے جاسوس شاہ در بھیج دے گا۔
یہ صحیح ہے کہ سلجوقیوں نے باطنیوں کے ہاتھوں بہت ہی نقصان اٹھایا تھا ،سلجوقیوں نے حوصلہ ہارنے اور مایوس ہونے کی بجائے اپنا جہاد اس باطل کے خلاف جاری رکھا ،اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ،بدی کے خلاف لڑنے والوں کی مدد اللہ یقینا کیا کرتا ہے، یہ ایک معجزہ تھا کہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے دس فدائ جنہوں نے سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا خود قتل ہوگئے، یہ بھی تو ایک معجزہ تھا کہ عبدالملک کے کالے جادو کو اس کے اپنے ہی قابل اعتماد ملازم نے ضائع کر دیا ،وہ جو پیغام تیر کے ساتھ بندھا ہوا باہر آیا وہ یوں تھا جیسے آسمانوں سے اللہ تبارک وتعالی نے پھینکا ہو۔
حسن بن صباح اپنے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش کو تسلیاں دے کر اور اس کا حوصلہ مصبوط کرکے واپس الموت چلا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سنجر شاہ در پہنچ گیا تھا اس نے پہلا کام یہ کیا کہ شاہ در کی جو آبادی پیچھے رہ گئی تھی اسے ایک میدان میں اکٹھا کر لیا ،زیادہ تر آبادی یہاں سے چلی گئی تھی پیچھے جو لوگ رہ گئے تھے ان کی تعداد پانچ چھے ہزار تھی، جانے والے سب باطنی تھے اور پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی باطنی تھے لیکن کچھ تعداد مسلمانوں کی بھی تھی۔
سنجر نے اس آبادی کے صرف مردوں ہی کو باہر اکٹھا نہ کیا بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی ان کے ساتھ بلوالیا۔
باطنیوں کے چہروں پر خوف و ہراس نمایاں تھا، عورتوں پر تو خوفزدگی طاری تھی، ان کی آنکھیں ٹھہری ٹھہری تھیں اور چہروں پر گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی، ان میں جواں سال اور بڑی اچھی شکل و صورت کی عورتیں بھی تھیں ان میں کمسن اور نوجوان لڑکیاں بھی تھیں، اصل خطرہ تو انہیں تھا، اس زمانے میں فاتح فوج مفتوحہ شہروں کی عورتوں سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا کرتی تھیں، ان لوگوں کے چہروں پر بھی یہی خوف نظر آرہا تھا کہ نہ جانے اب انہیں کیا سزا ملے اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک ہو ۔
سلجوقی فوج کی کچھ نفری اس ہجوم کے اردگرد کھڑی کردی گئی تھی، اور فوج کی باقی نفری قلعہ مسمار کر رہی تھی۔
سنجر گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور اس نے پہلے سارے مجمعے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔
تم لوگ ڈرے ڈرے سے کیوں لگتے ہو؟۔۔۔سنجر نے کہا۔۔۔ کیا تم مجھے اور اس فوج کو اجنبی اور غیر سمجھتے ہو؟،،،، ہم نے نہ کوئی قلعہ فتح کیا ہے اور نہ ہی تم لوگوں کو قتح کیا ہے، میری ایک بات اچھی طرح سن لو ،نہ میں فاتح ہوں، نہ تم مفتوح ہو، ہم نے صرف یہ فتح حاصل کی ہے کہ اس شہر سے باطل کو نکال ہے ،کیا تم خوش نہیں ہوں گے کہ جن لوگوں نے تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر کفر کی راہ پر ڈالا تھا وہ مارے گئے ہیں، یا یہاں سے جا چکے ہیں ؟،،،،،،، تمہارے دوسرے خوف سے بھی میں واقع ہوں، تم لڑکیوں کے لئے یقیناً پریشان ہو رہے ہو ،ہم یہاں ان کی عزت کے ساتھ کھیلنے نہیں بلکہ ان کی عزت کی حفاظت کرنے آئے ہیں، اپنی بیٹیوں سے کہو کہ یہ تمہارا اپنا شہر ہے ،اس کی گلیوں میں بے خوف و خطر گھومو پھیرو، اور اگر تمہاری عزت پر فوج کا کوئی آدمی یا کوئی اور ہاتھ ڈالتا ہے تو میرے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں، میں فریاد سنوں گا اور اس آدمی کو تمہارے سامنے جلاد کے حوالے کروں گا،،،،،، 
بڑے لمبے عرصے تک محاصرے میں رہے ہو، تم پر پتھر برستے رہے ہیں اور تم پر آگ بھی برستی رہی ہے، تم مجھے اور میری فوج کو دل ہی دل میں کوس رہے ہوں گے اور بددعائیں دے رہے ہوں گے کہ ہم نے تم پر پتھر برسائے اور آگ بھی برسائی اور تمہارے کی گھر جلا دیے ہیں، لیکن سمجھنے کی کوشش کرو اس شہر پر یہ پتھر اور آتشی تیر اللہ نے برسائے، ہم تو اس کا ایک سبب بنے تھے، ایسا کیوں ہوا؟،،،،،، صرف اس لئے کہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹایا گیا اور تم نے اسی کو دین اور مذہب سمجھ لیا، یہاں شیطان کی حکمرانی رہی ہے، یہ تمہارا امام جیسے تم نبی مانتے ہو کہاں ہے؟،،،،،، یہ امام کا پیرومرشد جسے تم یوں مانتے تھے جیسے وہی تمہیں اگلے جہان جنت میں داخل کرے گا، وہ شکست کھا کر بھاگ گیا ہے۔
سنجر نے انہیں سنایا کہ عبدالملک بن عطاش جسے وہ پیرومرشد سمجھتے رہے ہیں کالے جادو میں یقین رکھتا تھا اور اس نے محاصرہ توڑنے کے لیے کالا جادو استعمال کیا تھا، اور ایک الو کو اڑایا تھا لیکن وہ الو تیروں سے مار کر گرا لیا گیا، اس نے کہا کہ جہاں ایمان میں بجھے ہوئے تیر چلتے ہیں وہاں جادو نہیں چل سکتا ،سنجر نے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ سنایا کہ انھوں نے کس طرح فرعون کے جادوگروں کو نیچا دکھایا تھا اور کس طرح ان جادوگروں کے سانپوں کو حضرت موسی علیہ السلام کا عصا نکل گیا تھا، اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کو دریا نیل نے راستہ دے دیا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔
یہ لوگ تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔۔۔ سنجر نے کہا ۔۔۔یہ سرتاپا ابلیس ہے اور یہ لوگ ابلیس کی پوجا کرتے ہیں اور انہوں نے تم سب کو بھی ابلیس کا پوجاری بنا دیا ہے، تم خوش قسمت ہو کہ یہ شہر ہماری عملداری میں آ گیا ہے ،اور وہ ابلیس یہاں سے نکل گئے ہیں، ہم یہاں تم پر حکومت کرنے نہیں آئے ہم بادشاہ نہیں، نہ تمہیں اپنی رعایا سمجھتے ہیں ،ہم اللہ کا وہ پیغام اور وہ حکم لے کر آئے ہیں جس کے مطابق تمام انسان برابر ہیں،،،،نہ کوئی بادشاہ نہ کوئی رعایا،،،،، اب میں چاہوں گا کہ تم خود زبان سے بولو،،،،، کیا یہ غلط ہے کہ یہاں قافلوں کے لٹیرے رہتے تھے اور یہاں قافلوں کو لوٹا ہوا مال آتا تھا ؟
سنجر نے تمام مجمعے پر اپنی نگاہیں گھمائیں اور خاموش رہا۔
بولو ۔۔۔کچھ دیر بعد اس نے کہا۔۔۔ دل میں کوئی بات نہ رکھو کہو میں نے جھوٹ کہا ہے یا سچ۔
 ہاں سلطان!،،،،، آخرایک آدمی کی آواز آئی۔۔۔ یہاں قافلوں کا لوٹا ہوا مال آتا تھا ۔
اور یہاں اغواءکی ہوئی بچیاں اور نوجوان لڑکیاں لائی جاتی تھیں۔ 
ہماری بچیوں کو یہاں سے اٹھایا گیا ہے۔۔۔ ایک اور آواز آئی۔۔۔۔ ہماری بچیوں کے ساتھ شادی کر کے انہیں غائب کیا گیا ہے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں لوٹی ہوئی یہ دولت اور یہ بچیاں کہاں جاتی رہی ہیں۔۔۔ سنجرنے کہا ۔۔۔یہ تمام دولت قلعہ الموت اس حسن بن صباح کے پاس اکٹھی ہوتی رہی ہے جسے تم امام اور نبی اور نا جانے کیا کیا مانتے ہو، تمہاری بچیاں اور قافلوں سے اٹھائی ہوئی بچیاں وہاں حوریں بنائی گئی ہیں۔
ہمیں ایک بات بتاؤ سلطان!،،،،،، ایک ضعیف العمر آدمی نے ہجوم سے آگے ہو کر کہا۔۔۔ قافلے ہم نے تو نہیں لوٹے، اور بچیوں کو ہم نے تو اغواء نہیں کیا، پھر ہمیں کس گناہ کی سزا دی گئی ہے، تمہاری فوج کے آتشی تیروں نے میرا گھر جلا دیا ہے، شہر میں گھوم پھر کر دیکھو بہت سے گھر جلے ہوئے نظر آئیں گے ،تمہاری فوج کے برسائے ہوئے پتھروں سے ہمارے بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
میں نے شہر میں گھوم پھیر کر دیکھ لیا ہے۔۔۔ سنجر نے کہا ۔۔۔جن لوگوں کے گھر جل گئے ہیں یا پتھروں سے تباہ ہوئے ہیں انہیں وہ گھر دیئے جائیں گے جو بالکل ٹھیک کھڑے ہیں، اگر وہ پورے نہ ہوئے تو جلے ہوئے گھر سرکاری خزانے سے نئے کر دیے جائیں گے، جب تک یہ مکان نہیں بنتے میں تمام لوگوں کا مالیہ، لگان اور دیگر محصولات معاف کرتا ہوں۔
سنجر نے اسلامی فاتحین کی روایات کے عین مطابق شاہ در کے لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ انسان واجب التکریم ہے اور اس شہر کے لوگوں کو پوری تکریم دی جائے گی اور ان کے حقوق پورے کئے جائیں گے، سنجر ان لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں میں حسن بن صباح کے تخریب کار موجود تھے جنہیں عبدالملک بن عطاش اور احمد بن عطاش خاص طور پر پیچھے چھوڑ گئے تھے، سنجر جب اس مجمعے سے خطاب کر رہا تھا اس وقت دو آدمی ان لوگوں کے پیچھے کھڑے تھے اور سنجر کا ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔
یہ شخص ہمارے لئے مشکل پیدا کر رہا ہے۔۔۔ ایک نے دوسرے سے کہا۔۔۔۔ اگر یہاں کے لوگوں نے اس سلطان کی باتوں کو دلوں میں بٹھا لیا اور انہیں دل و جان سے قبول کر لیا تو ہمارے لئے ایک مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔
کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔۔۔ دوسرے نہیں کہا۔۔۔یہ لوگ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے، ہمارا شکار یہ سلطان سنجر ہے، لوگ نہیں۔
 اور اب میں ایک نہایت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ سنجر نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے استاد عبدالملک بن عطاش کے تخریب کار یہاں موجود ہیں، وہ مسجدوں میں بھی موجود ہوں گے اور وہ ہر جگہ تمہارے درمیان گھومتے پھرتے رہیں گے ،انہیں پکڑنا یا ان کی نشاندہی کرکے پکڑوانا تمہارا فرض ہے ،اگر تم اپنے فرض سے کوتاہی کروگے تو ایک بار پھر تمہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا ،تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسے شیطان کو پکڑ کر لائے گا یا نشاندہی کرے گا اسے بے دریغ انعام دیا جائے گا۔
سلطان محمد نے جب سنجر سے کہا تھا کہ وہ شاہ در چلا جائے اور وہاں کا انتظام سنبھال لے، تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تربیت یافتہ آدمی شاہ در بھیجے گا جو جاسوسوں اور تخریب کاروں کو زمین کے نیچے سے بھی نکال لائیں گے، کچھ آدمی تو سنجر کے ساتھ ہی آ گئے تھے اور کچھ بھیجے جا رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
"ناچیز محمد ساجد اشرفی" اس داستان کو اس مقام پر لے جا رہا ہے جہاں مزمل افندی ،بن یونس، شمونہ اور شافعیہ نے دس باطنی فدائوں کو جنگل میں قتل کیا تھا ،مزمل شدید زخمی ہوگیا تھا اس کے دائیں کندھے میں ایسا خنجر لگا تھا کہ ہنسلی سے بھی نیچے چلا گیا تھا، وہاں سے خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا جسے نہ رکنے کی صورت میں موت کا خطرہ تھا، انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ آگے جانے کی بجائے پیچھے وسم کوہ چلے جائیں، وہ اسی وقت واپس چل پڑے تھے۔
 وسم کوہ ایک دن کی مسافت تھی وہ آدھی رات کو چلے تو ان کا ارادہ تھا کہ بہت تیز چلیں گے تاکہ جلدی منزل پر پہنچ جائیں اور مزمل کا خون روک دیا جائے، لیکن مزمل کا گھوڑا تیز دوڑتا یا چلتا تھا تو تو جھٹکوں سے اس کا خون اور زیادہ نکلنے لگتا تھا، اس کے زخم میں کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا اور اوپر بھی کپڑا باندھ دیا گیا تھا لیکن خون پوری طرح روکا نہیں تھا ،اس کے باوجود مزمل نے گھوڑے کی رفتار تیز رکھی لیکن راستے میں اس پر غشی طاری ہوگئی اور گھوڑوں کی رفتار کم کردی گئی۔
اگلے روز آدھا دن گزر چکا تھا جب یہ لوگ وسم کوہ پہنچ گئے، مزمل کا چہرہ اور جسم پیلا پڑ گیا تھا، جو اس امر کی نشانی تھی کہ جسم میں خون ذرا سا ہی باقی رہ گیا ہے۔ اسے فوراً سالار اوریزی کے پاس پہنچایا گیا، طبیب اور جراح دوڑے آئے اور انہوں نے مزمل کا خون روکنے کی کوششیں شروع کردیں۔
سالار اوریزی کو بتایا گیا کہ وہ دس فدائیوں کو قتل کر کے واپس آگئے ہیں ،اور فدائیوں سے ایسا اشارہ ملا تھا جیسے وہ شاہ در جا رہے تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ سلطان محمد اور اسکے سالاروں کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح انہوں نے پہلے اہم شخصیتوں کو قتل کیا تھا۔
مزمل افندی دو دنوں بعد ہوش میں آیا اور اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ کہاں ہے، اور اس کے ساتھی کہاں ہیں، اسے بتایا گیا کہ وسم کوہ میں ہے، اور اللہ نے اسے نئی زندگی عطا فرمائی ہے، اس کے بعد اس نے طبیب اور جراح سے کہا کہ اسے بہت جلدی ٹھیک کر دیں تاکہ وہ قلعہ الموت کے لیے روانہ ہو سکے ،طبیب اور جراح اسے کہتے تھے کہ وہ جسم کو زیادہ ھلائی نہیں ورنہ زخم کھل جائے گا، دراصل مزمل جوشیلا آدمی تھا وہ برداشت نہیں کر رہا تھا کہ چار پائی پر ہی لیٹا رہے۔
اس کا زخم  ملتے ایک مہینہ گزر گیا تھا ،اس دوران وسم کوہ میں یہ خبر پہنچی کہ شاہ در فتح کر لیا گیا ہے اور اس شہر کی زیادہ تر آبادی وہاں سے نکل گئی ہے، پھر یہ خبر بھی وہاں پہنچی کہ عبدالملک ناظروطبس چلا گیا ہے، اس قلعے میں پہچے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے۔
 مزمل آفندی آخری بالکل ٹھیک ہو گیا۔
 اسے ایسی غزائیں دی جاتی رہی تھیں کہ اس کے خون کی کمی پوری ہو گئی تھی ،اسے جب یہ خبر ملی کہ عبدالملک قلعہ ناظروطبس چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ شاہ در کی کچھ آبادی بھی وہاں آگئی ہے ،تو مزمل فوراً سالاراوریزی کے پاس گیا ، بن یونس کو بھی اپنے ساتھ لیتا گیا۔
سالار محترم !،،،،،،مزمل نے کہا۔۔۔ آپ قلعہ ناظروطبس لے سکتے ہیں ۔
وہ کیسے؟،،،، سالاراوریزی نے پوچھا۔
عبدالملک چند دن پہلے وہاں پہنچا ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ شاہ در لکی کچھ آبادی ہے اور کوئی فوج اس کے پاس نہیں، اس قلعے میں پہلے سے کچھ لوگ آباد ہوں گے جو اتنی جلدی اس کی لڑائی نہیں لڑیں گے، ہم اس قلعے کو محاصرے میں میں نہیں لیں گے ،میں نے ایک ترکیب سوچی ہے۔
اس نے اور بن یونس نے سالار اوریزی کو اپنا پلان بتایا ،سالاراوریزی پہلے ہی پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ وہ ایک عرصے سے وسم کوہ میں بیٹھا ہے اور کچھ کر نہیں رہا ،وہ تو باطنیوں کا ایسا دشمن تھا کہ کسی پر شک ہوتا کہ یہ حسن بن صباح کا پیروکار ہے تو اسے قتل کروا دیتا تھا، اس نے تجویز سنی تو مزمل اور بن یونس کو اجازت دے دی کہ وہ اس پر عمل کریں۔
ایک پہلو پر غور کر لیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ سلطان محمد نے عبدالملک کو اجازت دی ہے کہ وہ قلعہ ناظروطبس چلا جائے، سلطان نے اسے حفاظتی دستہ بھی دیا تھا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان نے اس شخص کی جان بخشی کر دی تھی، اگر آپ اس قلعے پر چڑھائی کرکے یہ قلعہ لیتے ہیں تو سلطان شاید اس کارروائی کو پسند نہ کرے اور وہ اسے حکم عدولی بھی سمجھ سکتا ہے۔
میں سلطان کے حکم کا نہیں اللہ کے حکم کا پابند ہوں۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح کی ابلیسیت کو کچل اور مسل دیا جائے، میں وہ قلعہ اپنی ذات کے لیے نہیں سر کرنا چاہتا ،تم اپنی تجویز پر عمل کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح عبدالملک بن عطاش کو تسلی دے کر اور اس کا حوصلہ مضبوط کرکے قلعہ الموت جا چکا تھا ،عبدالملک نے خود بھی بہت کوشش کی تھی کہ اس کا حوصلہ مضبوط ہو جائے لیکن یہ کام کوئی آسان نہیں تھا ،وہ اپنے چھوٹے بھائی اس کے بیٹے اور بھائی کی بیوی کے موت کے غم کو اپنی ذات میں جذب کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہا تھا، اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو رہا تھا۔ لیکن اسے جو چیز کھائے جا رہی تھی وہ انتقام کا جذبہ تھا۔  یہ جذبہ آگ بن کے جلا رہا تھا، اسے حسن بن صباح پر غصہ بھی تھا کہ اس نے قاتل تو ہزارہا پیدا کر لیے تھے لیکن لڑنے والا کوئی ایک آدمی بھی تیار نہیں کیا تھا، شاہ در سے اس کے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان میں مردوں کی تعداد چھ سات ہزار تھی ،باقی ان کی عورتیں بوڑھے اور بچے تھے، عبدالملک نے سوچا کہ انہیں کو فوج کی صورت میں منظم کر لے۔
سب سے پہلے ضرورت ہتھیاروں کی تھی، شاہ در سے انہیں نہتا کر کے نکالا گیا تھا، انہیں گھوڑے اور اونٹ بھی نہیں دیے گئے تھے، وہ سب پیدل یہاں تک پہنچے تھے،،،،،ایک روز اس نے ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ یہاں پہلا کام تو یہ ہے کہ از سر نو آباد ہونا ہے، لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ باقاعدہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی جائے تاکہ سے سلجوقیوں سے اس شکست کا انتقام لیا جائے۔
اس نے دیکھا کہ ان لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا جیسے وہ لڑنے کے لیے تیار ہونے سے گھبرا رہے ہوں، اگر عبدالملک کوئی سالار ہوتا یا عام سا حاکم ہوتا تو لوگ شاید اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیتے، لیکن عبدالمالک ان کا پیرومرشد اور ان کے امام شیخ الجبل کا استاد تھا ،وہ جانتے تھے کہ امام حسن بن صباح بھی اسے اپنا پیر استاد مانتا ہے، یہ ایسی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس کے آگے بول نہیں سکتا تھا ،کسی نے جرات کر کے لوگوں کی نمائندگی یہ کہہ کرکی کہ ابھی تو ہمارے پاس ہتھیار بھی نہیں اور گھوڑے بھی نہیں۔
سب کچھ آجائےگا ۔۔۔عبدالملک نے گرج کر کہا۔۔۔ ہتھیار اور گھوڑے الموت سے آ جائیں گے ،میں آج ہی قاصد کو الموت روانہ کر دوں گا اور پیغام بھیجو گا کہ ہمیں گھوڑے اور ہتھیار فوراً بھیجے جائیں، تم لوگ اب ایک فوج کی صورت میں منظم ہو کر لڑو گے۔
اس نے جوشیلی اور اشتعال انگیز تقریر ہی کر ڈالی، جس میں اس نے ان لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ اللہ کی نگاہ میں برتری انہیں حاصل ہے سلجوقیوں کو نہیں ،اس نے کہا کہ جنت کے حقدار تم ہو سلجوقی نہیں، لیکن جنت حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
اس طرح اس نے اپنے آدمیوں کو بنی نوع انسان سے برتر ثابت کیا اور سلجوقیوں کے خلاف وہ زہر اگلا کہ اس کے یہ آدمی لڑنے کے لیے تیار ہوگئے، عبدالملک آخر استاد تھا اور استاد بھی ایسا جس نے حسن بن صباح کو تعلیم و تربیت دے کر امام اور شیخ الجبل بنا ڈالا تھا۔
اس سے اگلے ہی روز کا ذکر ہے سورج سر پر آ گیا تھا جب دو مرد اور دو عورتیں قلعہ ناظروطبس میں داخل ہوئے، چاروں گھوڑوں پر سوار تھے اور پانچویں گھوڑے پر کچھ سامان لدا ہوا تھا ،ایک گھوڑے پر مزمل آفندی سوار تھا، دوسرے پر بن یونس، تیسرے پر شمونہ اور چوتھے گھوڑے پر شافعیہ سوار تھی، انہوں نے تین دنوں کا سفر دو دنوں میں طے کر لیا تھا ،وہ جب قلعے میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، ہر کوئی ان سے یہی ایک سوال پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں۔
لوگو تیار ہو جاؤ ۔۔۔۔مزمل نے آواز میں گھبراہٹ کا تاثر پیدا کر کے کہا۔۔۔ قلعہ وسم کوہ سے سلجوقیوں کی فوج آرہی ہے، یہ وہی فوج ہے جس نے وسم کوہ فتح کیا تھا ،اس کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ قلعہ ناظروطبس میں جاکر کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو،،،،،،،، پیر استاد عبدالملک بن عطاش کہاں ہیں؟،،،،،، ہم بڑی مشکل سے وہاں سے نکل کر آئے ہیں،،،،، ہمیں پیر استاد تک پہنچا دو ،ہم انہیں خبر کر دیں۔
 لوگوں میں افراتفری بپا ہوگئی اور وہ اپنے اپنے گھروں کو دوڑ پڑے، اگر بات صرف لڑنے کی ہوتی تو وہ لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے، مگر وہاں تو یہ عالم تھا کہ وہ نہتے تھے، اگر ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو بھی ان کا خوف و ہراس بجا تھا ،شاہ در پر جس طرح منجنیقوں کے پتھر اور آتشی تیر گرے تھے اس کا خوف ابھی تک ان پر طاری تھا۔
مزمل کا یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی عبدالملک تک نہیں پہنچا تھا کہ عبدالملک کو پہلے ہی کسی نے اطلاع دے دی کے باہر سے کوئی لوگ آئے ہیں اور انہوں نے لوگوں میں بھگدڑ بپا کردی ہے ،اور لوگ گھبراہٹ کی حالت میں بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں اور بعض لوگ بھاگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں، عبدالملک باہر نکل آیا تھا اور اپنی آنکھوں سے لوگوں کی خوفزدگی اور نفسانفسی دیکھ رہا تھا ،اتنے میں مزمل، بن یونس ،شمونہ اور شافعیہ اس کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے، اور گھوڑوں سے اترے۔
کون ہو تم ؟،،،،،عبدالملک نے پوچھا ۔۔۔کہاں سے آئے ہو؟ 
مزمل اور بن یونس گھوڑوں کو پیچھے چھوڑ کر عبدالملک کی طرف بڑھے اور جھک کر اس کے گھٹنے چھوئے اور پھر اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور آنکھوں سے لگایا ،عبدالملک نے غصیلی آواز میں پوچھا کہ وہ ہیں کون اور آئے کہاں سے ہیں، اور انہوں نے لوگوں سے کیا کہہ دیا ہے کہ یہاں بھگدڑ مچ گئی ہے۔
ہم آپ کے مرید ہیں یا پیرومرشد !،،،،،،مزمل نے ادب و احترام سے کہا ۔۔۔ہم امام حسن بن صباح پر جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں، یہ میری بیوی ہے اور یہ لڑکی میری بہن ہے، یہ میرا بھائی ہے اس کی بیوی اور دو بچے وسم کوہ میں ہی رہ گئے ہیں، سلجوقیوں نے قلعہ وسم کوہ فتح کرلیا تو ہم کوشش کے باوجود وہاں سے نکل نہ سکے اور یہ اتنا لمبا عرصہ وہیں رہے، ہم یہ ظاہر کرکے وہاں وقت گزارتے رہے کہ آپ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں، اور ہم اہل سنت والجماعت ہیں، وسم کوہ کا حاکم اور سپہ سالار اوریزی ہے، میں نے اس کی ملازمت حاصل کر لی تھی، اور میں نے اس پر اپنا اعتماد جما لیا تھا۔
میں نے تم سے کچھ اور پوچھنا ہے۔۔۔ عبدالملک نے بے صبر ہو کر کہا۔۔۔ یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ تم وسم کوہ سے آئے ہو، یہ بتاؤ کہ ان لوگوں کو کیا کہہ دیا ہے کہ یہ بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں؟ 
گستاخی معاف یا پیر استاد !،،،،،مزمل نے جھک کر کہا۔۔۔ یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم نے بروقت اطلاع دے دی ہے کہ ان کی طرف کیا قیامت بڑھتی چلی آ رہی ہے،،،،،، انہوں نے ہم سے پوچھا تو ہم نے انہیں بتایا کہ وسم کوہ سے فوج چل پڑی ہے اور اس فوج کو سلطان کا حکم ملا ہے کہ شاہ در سے عبدالملک بن عطاش اتنے ہزار لوگوں کے ساتھ ناظروطبس کے قلعے میں چلا گیا ہے، اپنی فوج بھیجو اور ان سب کو قتل کر کے اس قلعے پر قبضہ کر لو،،،،،،،، ہم نے لوگوں کو بس یہ بات بتائی ہے۔
عبدالملک انہیں اپنے گھر لے گیا، اجڑے تھے تو لوگ اجڑے تھے ،عبدالملک کا رہن سہن یہاں بھی شاہانہ تھا ،اس نے جو مشروب مزمل وغیرہ کو پیش کئے وہ کوئی بادشاہ ہی اپنے یہاں رکھ سکتا تھا، گھر لے جاکر عبدالملک نے شمونہ اور شافعیہ کو اپنی عورتوں کے حوالے کردیا اور مزمل اور بن یونس کو اپنے پاس بٹھا لیا۔
سلطان نے تو ہمیں امان دے دی تھی۔۔۔ عبدالملک نے کہا۔۔۔ ہم نے اسے جس طرح کہا اس نے اسی طرح کر دیا ،ہم نے کہا کہ شاہ در سے جانے والے آدھے لوگ ناظروطبس چلے جائیں گے اور آدھے قلعہ الموت جائیں گے، ہم نے کہا کہ ہماری حفاظت کے لیےایک ایک دستہ بھیجا جائے، سلطان محمد نے یہ بھی قبول کر لیا، اور دو دستے ساتھ کر دیے، لیکن اب اس نے ہم پر فوج کشی کا حکم دے دیا ہے۔
صرف فوج کشی کا نہیں، قتل کا بھی حکم دیا ہے۔۔۔ بن یونس نے کہا ۔۔۔ہم دونوں نے سالار اوریزی کی ملازمت حاصل کر لی تھی، میرا بھائی مزمل تو اس کا قابل اعتماد آدمی بن گیا تھا ،اس کی موجودگی میں سلطان کا حکم آیا تھا کہ قلعہ ناظروطبس میں فوج بھیج کر سب کو قتل کر دیا جائے اور عبدالملک کو بالکل نہ بخشا جائے۔
کیا یہ ہمارے ساتھ دھوکا نہیں ہوا ؟،،،،عبدالملک نے کہا ۔۔۔میں نے اس سلجوقی سلطان پر اعتبار کیا تھا اور میں خوش تھا کہ اس نے کشادہ ظرفی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے کہ مجھے اور وہاں سے نکلنے والے ہر شخص کو اجازت دے دی تھی،،،،،،،، 
 آپ اس کی یہ چال سمجھے نہیں یا پیر استاد!،،،،،، مزمل نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔ اس نے آپ کے لوگوں کو دو حصوں میں کاٹ کر بکھیر دیا، یہ غلطی آپ کی ہے کہ آپ نے خود ہی اس کا کام آسان کر دیا، آپ نے اسے کہا کہ آدھے آدمی الموت چلے جائیں گے اور آگے اس قلعے میں آ جائیں گے، اس نے آپ کی یہ شرطیں اس لئے مان لی تھیں کہ آپ قلعہ چھوڑ دیں اور وہ قلعے میں داخل ہو جائے۔
 اب زیادہ باتیں کرنے کا وقت نہیں ۔۔۔بن یونس  نے کہا۔۔۔فوج وسم کوہ سے چل پڑی ہے، اس وقت مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کو اور آپ کے خاندان کے ہر فرد کو بچایا جائے۔
فوج کب تک یہاں پہنچے گی؟،،،، عبدالملک نے پوچھا۔
 دو دنوں بعد!،،،،،، مزمل نے کہا ۔۔۔آپ یہاں سے نکلنے کی تیاری کریں، ہم آپ کے ساتھ الموت جائیں گے ،یہاں پہلے جو لوگ آباد تھے ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں اور اونٹ بھی، ہم ان میں سے گھوڑے بھی لے لیں گے اور اونٹ بھی، لیکن یہاں سے روانگی رات کے وقت ہوگی تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ آپ جا رہے ہیں، اگر آپ لوگوں کے سامنے نکلے تو لوگ آپ کے خلاف ہو جائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی