🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر ستاون⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد نے قاضی اصفہان کو پورے احترام سے رخصت کیا اور اپنے کچھ گھوڑسوار محافظ ساتھ بھیجے۔*
*محمد نے محاصرے میں یوں شدت پیدا کی کہ منجینیقوں سے سنگ باری اور تیز کردی اور فلیتوں والے تیر اور زیادہ پھینکنے شروع کر دیئے، اس کے ساتھ ہی تقریباً ہر رات دروازوں پر حملے شروع کردیئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کے حوصلے بالکل ہی پست ہوگئے، اور دیکھا گیا کہ شہرپناہ پر تیراندازوں کی تعداد آدھی بھی نہیں رہ گئی تھی، ان میں تو کچھ مر گئے اور کچھ زخمی ہوئے تھے لیکن بہت سے اچھے بھلے تیرانداز بھی منہ موڑ گئے تھے، وہ اب اس ذہنی کیفیت تک پہنچ گئے تھے جہاں جذبے ختم ہوجاتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے کا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے ،مختصر بات یہ کہ لڑنے والے شہری اب یہ چاہتے تھے کہ وہ مزاحمت کم کردے اور سلجوقی لشکر شہر لے لیں تاکہ یہ قیامت جو ان پر دن رات گرتی رہتی ہے ختم ہو جائے۔*
چند ہی دنوں بعد شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی جو گھوڑے پر سوار تھا ہاتھ میں سفید جھنڈا لیے باہر آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا یہ سوار کوئی پیغام لایا تھا اسے سلطان کے پاس لے گئے۔
حاکم شہر نے اس پیغام میں استدعا کی تھی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اس شہر سے اپنی آبادی کے ساتھ نکل جائے اور اسے دوسری اجازت یہ دی جائے کہ وہ قلعہ خلجان میں چلا جائے، آبادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ شاہ در کی تمام تر آبادی وہاں سے چلی جانا چاہتی تھی، بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہیں انہیں جانے دیا جائے۔
خالنجان اصفہان سے تھوڑی ہی دور ایک قلعہ تھا کسی وقت باطنیوں نے اس قلعے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے اپنا ایک اور اڈا بنانے کی کوشش کی تھی، لیکن سلطان ملک شاہ مرحوم نے اس قلعے پر اچانک ایسی یلغار کی کے قلعے پر قبضہ کرلیا اور اسی باطنی کو زندہ رہنے ملا جو بھاگ نکلا تھا ،اب وہ قلعہ کسی کے بھی قبضے میں نہیں تھا۔
یہاں آیا یقیناً عبدالملک بن عطاش یاد آتا ہے ،اس نے کہا تھا کہ سلجوقی سلطان اور سالار اگر آنکھوں سے اندھے نہ ہوئے تو عقل سے اندھے ہو جائیں گے ،وہ مسلسل اپنا عمل کرتا رہا تھا اور شہر پناہ پہ کھڑے ہو کر اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کچھ بڑبڑاتا اور باہر والے لوگوں پر پھونکیں مارتا رہتا تھا، کچھ ایسی شہادت ملتی ہے کہ اس کے عمل نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھایا تھا۔
محمد دیکھ چکا تھا کہ حاکم شہر نے مذہب کے نام پر کس قسم کی عیاری اور مکاری کا مظاہرہ کیا ہے، اسے اصفہان کے قاضی نے بھی بتایا تھا کہ یہ باطنی صرف عیاری کر رہے ہیں کہ انہیں کچھ مہلت اور وقت مل جائے، پھر بھی محمد کا رویہ یہ تھا کہ شاہ در کے حاکم نے یہ نیا استدعا باہر بھیجی کہ اسے اس کی بجائے دوسرا قلعہ دے دیا جائے تو محمد نے یہ استدعا قبول کرلی اور شہر پر سنگباری اور آتشی تیر اندازی رکوادی تھی، اور پھر اس پیغام کا جواب دیا کہ ایک مہینے کی مہلت دی جاتی ہے اس عرصے میں جس کسی نے اس شہر سے نکلنا ہے نکل جائے۔
شاہ در کے باطنیوں نے اپنی ابلیسی ذہنیت کا ایک اور مظاہرہ کر دیا وہ اس طرح کے سلجوقی لشکر کے کچھ لوگ شہر میں بھیج دیئے گئے اور ان کے ساتھ ایک سالار کو بھی بھیج دیا گیا ،ان کا کام یہ تھا کہ جو لوگ شاہ در سے نکل رہے ہیں انہیں جلدی نکالا جائے اور کوئی مزید گڑبڑ نہ ہو، لیکن سلجوقی لشکر کا ایک عہدیدار کسی گلی میں جا رہا تھا تو تین چار باطنیوں نے اس پر حملہ کر دیا ،یہ اس کی اپنی شجاعت اور قسمت تھی کہ وہ صرف زخمی ہوا مرا نہیں، لیکن باطنیوں نے اپنی نیت ظاہر کردی۔
سلطان محمد کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے اپنے آدمیوں کو شہر سے باہر نکال کر پھر شہر پر سنگ باری شروع کردی اور آگ والے تیر پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں چھوڑنا شروع کر دیے ،شہرمیں چیخ وپکار بلند ہونے لگیں اور نفسانفسی کا عالم پیدا ہوگیا۔
اب حاکم شہر احمد بن عبدالملک خود اپنے چند ایک محافظوں کے ساتھ شہر کے ایک دروازے سے باہر آیا، ایک محافظ نے سفید جھنڈا اٹھا رکھا تھا، وہ سلطان محمد سے ملنا چاہتا تھا اسے محمد تک پہنچادیا گیا۔
اس نے محمد سے معافی مانگی اور کہا کہ یہ چند ایک اشخاص تھے جنہوں نے سلجوقی عہدیدار پر حملہ کیا تھا اور اس میں حاکم شہر کی رضا شامل نہیں تھی، محمّد نے پہلے تو اس کی معافی قبول نہ کی اور کہا کہ اب وہ بزورشمشیر یہ شہر لے گا اور اس کے بعد شہریوں سے اور حاکم شہر اور اس کے خاندان سے پورا پورا انتقام لے گا ،لیکن حاکم شہر گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا تھا ،محمد نے صاف کہہ دیا کہ اسے قلعہ خالنجان نہیں دیا جائے گا۔
احمد بن عبدالملک رو پڑا اور اس نے کہا کہ خالنجان اسے نہ دیا جائے اس کی بجائے ایک اور چھوٹا سا قلعہ جس کا نام ناظر و طبس تھا اسے دے دیا جائے اور اس کے بعد وہ امن و امان سے رہے گا۔
سلطان محمد کے دل میں رحم کی موج اٹھی اور اس نے باطنیوں کی یہ شرط اور درخواست قبول کرلی اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اس قلعے میں منتقل ہوجائیں اس کے ساتھ ہی سلطان محمد نے حکم دیا کہ شاہ در کی شہر پناہ اسی طرح رہنے دی جائے لیکن قلعہ مسمار کردیا جائے، سلجوقی لشکر نے اسی وقت قلعے کو مسمار کرنا شروع کردیا۔
شاہ در پر سلجوقی سلطان کا قبضہ تو ہوگیا تھا لیکن باطنی سانپ اور بچھو تھے جو ڈسنے سے باز نہیں آسکتے تھے، اس شہر کا قلعہ بہت ہی بڑا اور پیچ در پیچ تھا ،اس میں چھوٹی برجیاں اور اس سے بڑے برج اور اس سے بڑے برج بھی تھے، کسی نے دیکھ لیا کہ ایک بڑے برج میں کوئی چھپا بیٹھا ہے، ایک سالار کچھ مجاہدین کو ساتھ لے کر دیکھنے گیا دیکھا وہاں عبدالملک بن عطاش کا چھوٹا بھائی احمد بن عطاش چھپا بیٹھا تھا ،اسے پکڑ لیا گیا۔
یہ بہت بڑا برج تھا جس کے کئی حصے تھے اس کے کچھ کمرے بالائی منزل میں تھے، محمد کو اطلاع ملی تو اس نے کہا کہ صرف اس برج کی ہی نہیں بلکہ ایسے تمام برجوں کی تلاشی لی جائے، اس برج کی تلاشی لی گئی تو تاریخ کے مطابق 80 اور باطنی برآمد ہوئے، یہ سب خنجروں اور چھوٹی تلواروں سے مسلح تھے اور چند ایک کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی تیر کشیں بھی تھیں، ان سب کو سلطان کے سامنے لے جایا گیا تب معلوم ہوا کہ احمد بن عطاش کا ایک جوان سال بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا۔
ابن عطاش!،،،،، محمد نے احمد بن عطاش سے پوچھا ۔۔۔۔۔تو یہاں چھپا کیا کر رہا تھا ؟،،،،،،،اگر سچ بولو گے تو شاید پہلے کی طرح اب بھی میرے دل میں رحم کی لہر اٹھائے گی، اگر جھوٹ بولنے کا ارادہ ہے تو میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ تجھے کیسی کیسی اذیتیں دے دے کر ماروں گا۔
کیا سلطان اتنی سی بھی بات نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ احمد بن عطاش نے بڑی دلیری سے جواب دیا۔۔۔ میں تمہاری پیٹھ میں خنجر اتارنے کے لئے یہاں رک گیا تھا، ہم اتنی جلدی شکست تسلیم نہیں کیا کرتے۔
میں نے تیری ایک پیشنگوئی سنی تھی۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ تو نے پیشن گوئی کی تھی کہ اصفہان میں تیری شوکت اور عظمت کے نقارے بجے گے، اب بتا کہاں گئی تیری وہ عظمت؟
میری پیشن گوئی غلط نہیں نکلی۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔سلطان اب بھی جاکر اصفہان میں دیکھ لے کہ لوگ میرا نام ایک پیرومرشد کی طرح لیتے ہیں، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اصفہان پر میری حکومت ہوگی ،میری پیشن گوئی کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں پر میری حکومت ہوگی اور میں اصفہان میں جدھر سے بھی گزرونگا لوگ میرے آگے سجدے کریں گے ۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان محمد کی ہنسی نکل گئی۔
میں تجھے اصفہان کی گلیوں میں ہی پھیرا رہا ہوں ۔۔۔محمد نے کہا، اور اپنے پاس کھڑے دو سالاروں کو حکم دیا ۔۔۔اس شخص کو اور اس کے بیٹے کو پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اور ہاتھ باندھ کر اور ان دونوں کے منہ کالے کرکے اصفہان کی تمام گلیوں میں گھماؤ اور سرعام ان دونوں کے سر کاٹ کر بغداد خلیفہ کے حضور پیش کر آؤ۔
اصفہان وہاں سے قریب ہی تھا اسی وقت احمد بن عطاش اور اس کے جواں سال بیٹے کے پاؤں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دی گئیں اور وہاں ان کے منہ کالے کردیئے گئے۔
سلطان محمد کی یہ کچہری کسی کمرے میں نہیں بلکہ باہر ایک درخت کے نیچے لگی ہوئی تھی، ایک تو وہاں وہ 80 باطنی کھڑے تھے جنہیں برجوں میں سے پکڑا گیا تھا ،اور بہت سے شہری اور سلجوقی لشکر کے کچھ مجاہدین بھی وہاں موجود تھے، جب احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو زنجیریں ڈال کر ان کے منہ کالے کر دیے گئے تو تماشائیوں کے ہجوم میں سے ایک نوجوان لڑکی نکلی اور دوڑ کر احمد بن عطاش کے سامنے آن کھڑی ہوئی،،،،،، وہ اس کی بیوی نور تھی جس کا پیچھے ذکر آچکا ہے۔
آئے سیاہ رُو انسان !،،،،،،نور نےبڑی بلند آواز میں کہا ۔۔۔تو نے مجھے عبادت سے اٹھایا تھا اور میں نے تجھے کہا تھا کہ تو ذلیل و خوار ہو کر مرے گا،،،،،،،اب بتا اللہ تیرا ہے کہ میرا۔
جس وقت لوگ شاہ در سے نکل رہے تھے اس وقت احمد بن عطاش کا شاہی خاندان بھی شہر سے جا رہا تھا، نور کو موقعہ ملا تو وہ تیز دوڑ پڑی اور سلطان محمد تک آن پہنچی اس کے ساتھ اس کا باپ بھی تھا جو عبدالملک بن عطاش کا قابل اعتماد ملازم بن گیا تھا ،باپ نے محمد سے اپنا تعارف کرایا اور اپنی بیٹی کے متعلق بھی بتایا کہ اسے قافلے سے اغوا کرکے احمد بن عطاش نے اپنی بیوی بنا لیا تھا۔ اس باپ نے ہی عبدالملک بن عطاش کے متعلق ساری باتیں بتائی تھی کہ کس طرح اس نے الّو کے ذریعے کالا جادو کیا تھا، اور اس کے بعد اپنا جادو چلاتا ہی رہا تھا، نور کے باپ نے محمد کو بتایا کہ چمڑے پر لکھا ہوا پیغام تیر کے ذریعے اسی نے باہر پھینکا تھا، اس باپ نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں۔
محمد نے حکم دیا کے نور اور اس کے باپ کو سلطان کے مہمان سمجھ کر رکھا جائے اور ابھی انہیں مرو بھیج دیا جائے۔
احمد بن عطاش اور اس کے بیٹے کو دو اونٹوں پر بیٹھا کر اصفہان بھیج دیا گیا ،ان کے ساتھ ایک عہدیدار تھا اور پچاس مجاہدین گھوڑوں پر سوار تھے، ابن اثیر نے لکھا ہے کہ ان دونوں کو اصفہان کی گلیوں اور بازاروں میں گھمایا پھرایا گیا اور ساتھ ساتھ یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ ان کا جرم کیا ہے اور یہ لوگ کالے جادو کے ذریعے یا کسی سفلی عمل کے ذریعے سلجوقی لشکر کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،پھر انہیں شہر کے وسط میں کھڑا کر کے سارے شہر کو اکٹھا کیا گیا اور ان کے سر تن سے جدا کر دیے گئے، سلطان محمد کے حکم کے مطابق دونوں کے سر بغداد لے جائے گئے جو دارالخلافہ تھا اور یہ سر خلیفہ کو پیش کیے گئے، خلیفہ نے ان سروں کی نمائش کی اور پھر دونوں سر آوارہ کتوں کے آگے پھینک دیے۔
اس وقت احمد بن عطاش کی پہلی بیوی قلعہ ناظروطبس میں پہنچ چکی تھی، اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے خاوند اور اس کے جوان بیٹے کا سر کاٹ دیا گیا ہے، اس سے پہلے دونوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اصفہان کی گلیوں میں گھمایا گیا تھا، یہ عورت بیوی بھی تھی اور جوان بیٹے کی ماں بھی، وہ قلعے کی سب سے اونچے برج پر چڑھ گئی اور وہاں سے اس نے چھلانگ لگادی اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔
سلطان محمد شاہ در پر اپنے لشکر کا قبضہ مضبوط کرکے واپس مرو آ گیا ،اس کا استقبال بڑی ہی شان و شوکت سے کیا گیا ،کیونکہ وہ باطنیوں کے بہت بڑے اڈے کو تباہ کر کے آیا تھا ،مرو میں ہر کوئی فکر مند اور پریشان تھا کہ شاہ در کو فتح نہیں کیا جاسکے گا، اللہ محمد اور لشکر کو خیریت سے واپس لے آیا، محمد لشکر کے ساتھ صرف خیریت سے ہی واپس نہ آیا بلکہ وہ فاتح کی حیثیت سے اپنے دارالحکومت میں داخل ہوا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محمّد نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو شاہ در بھیج دیا اور اس کے سپرد یہ کام کیا کہ وہاں کے سرکاری انتظامات کو اپنے سانچے میں ڈھال کر رواں کرے ،اور قلعہ جو مسمار کیا گیا ہے اسے از سر نو تعمیر کرے، لیکن اس کی شکل قلعے جیسی نہ ہو۔
"،،،،،،،،، اور میرے بھائی !،،،،،،،،محمد نے اپنے بھائی سنجر سے کہا۔۔۔۔ اصل کام جو تمہیں وہاں کرنا ہے وہ غور سے سن لو، شاہ در کی تقریبا آدھی آبادی وہاں سے نہیں گی، ان لوگوں نے وہیں رہنا پسند کیا ہے خیال رکھنا کہ یہ سب باطنی ہیں، ضروری نہیں کہ یہ حسن بن صباح کے فدائی ہی ہوں اور یہ محض اس کے پیروکار ہوں، لیکن محتاط ہونا پڑے گا کہ ان میں کچھ فدائی ہوسکتے ہیں، فدائی نہ ہوئے تو حسن بن صباح کے جاسوس تو ضرور ہونگے، یہ انتظام میرا ہوگا کہ یہاں سے بڑے تجربے کار جاسوس اور مخبر مستقل طور پر شاہ در بھیج دوں گا ،وہ وہاں کے ہر گھر کے اندر بھی نظر رکھیں گے اور کوئی ذرا سا بھی مشکوک شخص نظر آیا تو اسے تمہارے سامنے کھڑا کر دیں گے،،،،،، ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس طرح حسن بن صباح نے اور اس کے پیر استاد عبدالملک بن عطاش نے شاہ در کو اپنا ایک مضبوط اڈہ بنایا رکھا تھا اسی طرح ہم اس شہر کو اپنا دوسرا مرکز بنا لیں گے، جہاں سے تبلیغ بھی ہوگی اور دوسری کاروائیاں بھی کی جایا کریں گی، میں یہاں کے پورے پورے خاندان شاہ در بھیج کر وہاں آباد کردوں گا، ان خاندانوں کے افراد کو بتایا جائے گا کہ وہ کس طرح وہاں کے باطنیوں کو واپس اسلام میں لے آئیں،،،،،، تم کل صبح روانہ ہو جاؤں ۔
سنجر اگلی صبح روانہ ہوگیا۔
دو تین دنوں بعد محمد نے دربار عام منعقد کیا اس میں وہ ان مجاہدین کو انعام و اکرام دینا چاہتا تھا جنہوں نے شاہ در کے محاصرے کو کامیاب کرنے کے لیے غیر معمولی شجاعت کے مظاہرے کیے تھے، اس نے نور اور اس کے باپ کو خصوصی انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا ،اس کا کارنامہ پہلے سنایا جاچکا ہے، محمد نے نور اور اس کے باپ کو اپنے محل میں ایک کمرہ دے دیا تھا اور انہیں شاہی مہمان کی حیثیت دی تھی۔
اگلے روز دربار منعقد ہوا اور محمد نے پورے لشکر کو خراج تحسین پیش کیا ،پھر چند ایک نام پکارا اور انہیں اس طرح انعام دیے گئے ان کے کارنامے بھی بیان کیے، آخر میں نور اور اس کے باپ کو آگے بلایا گیا ،محمد نے نور کے باپ کا کارنامہ سنایا اور کہا کہ وہ جو الو تیروں سے گرایا گیا تھا وہ پورے لشکر کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا، لیکن نور کے باپ نے ایک تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر باہر بھیج دیا اور اس طرح اس آلو کو مار لیا گیا۔ پھرمحمد نے اعلان کیا کہ نور اور اس کے باپ کو کیا انعام دیا جا رہا ہے۔
سلطان محمد کے وزیراعظم کا نام سعد الملک تھا جو اس وقت دربار میں موجود تھا اور سلطان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، انعام و اکرام کی یہ تقریب ختم ہوئی تو دربار برخاست کر دیا گیا ،نور کا باپ محمد کے پاس جا کھڑا ہوا اور سرگوشی میں کہا کہ وہ اس کے ساتھ ایک خفیہ بات کرنا چاہتا ہے لیکن اس طرح کے کوئی اور موجود نہ ہو، اور کسی اور کو پتہ بھی نہ چلے کہ وہ سلطان کو ملا ہے ،سلطان نے اسے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں چلا جائے اور سلطان خود اس کے پاس آجائے گا۔
محمد سلطان تھا اسے چاہیے تاکہ اس شخص کو اپنے دربار میں بلاتا لیکن اس نے کہا کہ وہ اس شخص کے کمرے میں جائے گا یہ محمد کے کردار کی بلندی تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نور کے باپ نے نا صرف یہ کہ تیر کے ذریعے باہر ایک پیغام پہنچایا تھا پھر خود بھی وہاں سے اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر سلطان کے پاس آگیا تھا، بلکہ اس نے سلطان محمد کو شاہ در کے شاہی خاندان کے اندر کی بہت سی باتیں بتائی تھی اور یہ بھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف کیا کیا کاروائیاں کرتے اور کس طرح کیا کرتے تھے ،یہ ساری معلومات بڑی قیمتی تھی ۔
محمد ،نور اور اس کے باپ کے پاس چلا گیا۔
سلطان عالی مقام!،،،،،، نور کے باپ نے کہا۔۔۔ دربار میں آپ کی بائیں طرف ایک معزز انسان بیٹھا ہوا تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ سلطان کا وزیراعظم ہے،،،،،،،،، کیا یہ واقعی آپ کا وزیراعظم ہے؟
ہاں !،،،،،،محمد نے کہا ۔۔۔یہ میرا وزیراعظم ہے اور اس کا نام سعد الملک ہے،،،،،، کیوں،،، کیا بات ہے؟
پھر تو مجھے سوچ اور سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔۔۔ نور کے باپ نے قدر گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ ہو سکتا ہے میری نظروں نے دھوکا کھایا ہو لیکن،،،،،،
نظروں نے دھوکا کھایا ہے یا نہیں ۔۔۔محمد نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔ تمہیں جو بات کرنی ہے کہہ ڈالو ،مجھے تم پر اعتماد ہے کہوں کیا بات ہے۔
اگر میں غلطی پر ہوں تو معاف کر دیجیے گا۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔ آپ کے اس وزیراعظم کو میں نے تین بار شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے پاس بیٹھے دیکھا ہے، وزیراعظم ہر بار رات کو وہاں پہنچا اور پوری رات عبدالملک کے ساتھ رہا تھا۔
اسے تو میں نے بھی وہاں دیکھا تھا۔۔۔ نور جو پاس ہی بیٹھی تھی بول پڑی۔۔۔ مہمانوں کو شراب پلانا میرا کام تھا ،میں نے اس شخص کو عبدالملک بن عطاش کے کمرے میں اس کے ساتھ بیٹھے دیکھا اور شراب پیش کی تھی اور اس نے شراب پی تھی۔
کیا تم یہ تینوں دن بتا سکتے ہو؟۔۔۔ محمد نے کہا ۔۔۔اگر دن یاد نہ ہو تو یہ تو بتا سکو گے کہ یہ کتنے کتنے وقفے کے بعد وہاں گیا تھا۔
نور کے باپ نے کچھ سوچ کر بتایا کہ اس کی یہ تین ملاقاتیں تین تین چار چار مہینوں کے وقفے سے ہوئی تھیں، نور نے بھی اس کی تصدیق کردی سلطان محمد گہری سوچ میں کھو گیا۔
تمہاری اطلاع غلط نہیں ہوسکتی۔۔۔ محمد نے اس طرح کہا جیسے اپنے آپ سے بات کی ہو، تینوں بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ سلطنت کے دورے پر جارہا ہے ،تینوں بار اس نے مختلف جگہ بتائی تھی اور ہر بار چند دن مرو سے غیر حاضر رہا تھا۔
اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہ یہی شخص تھا ۔۔۔نور کے باپ نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے اور نور کو اس کے سامنے کھڑا کر دیں تو ہم یہی بات اس کے منہ پر کہہ دیں گے۔
نہیں !،،،،،محمد نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔۔۔ تمہارا کہنا کافی نہیں، اگر میرے وزیراعظم کا تعلق درپردہ حسن بن صباح کے استاد کے ساتھ ہے تو یقینا یہ اتنا چالاک اور عیار ہوگا کہ ثابت کر دے گا کہ تم غلط کہہ رہے ہو تم کوئی ثبوت تو پیش نہیں کرسکتے، میں اسے کسی اور طرح پکڑوں گا،،،،،،، تم دونوں کسی کو یہ پتا نہ چلنے دینا کہ تم نے یہ بات مجھے بتائی ہے۔
محمد اور سنجر کے باپ سلطان ملک شاہ نے خواجہ حسن طوسی کو اپنا وزیراعظم بنایا تھا اور اسے نظام الملک کا خطاب دیا تھا، نظام الملک عالم فاضل انسان تھا اور سپہ سالاری کے جوہر بھی جانتا تھا ،وہ باطنی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو نظام الملک کے بڑے بیٹے ابوالمظفر علی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اسے فخر الملک کا خطاب دیا گیا ،وہ بھی اپنے باپ کی طرح بڑا ہی قابل اور عالم انسان تھا، وہ بھی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو نظام الملک کا ایک بیٹا رہ گیا تھا جس کا نام ابو نصر احمد تھا ،قابلیت کے لحاظ سے وہ بھی اپنے باپ اور بڑے بھائی جیسا تھا لیکن محمد کے ہاتھ میں سلطنت آئی تو اس نے سعد الملک کو وزیراعظم بنا دیا، اس شخص سے سلطان محمد کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گیا تھا لیکن اب اس کے متعلق یہ رپورٹ ملی کہ وہ حسن بن صباح کے استاد عبد الملک بن عطاش کے یہاں جاتا رہا ہے۔
سلطان محمّد نے اپنے بڑے بھائی برکیارق اور چھوٹے بھائی سنجر سے بات کی، تینوں بھائیوں نے اپنے ایک معتمد خاص کو بلاکر مشورہ کیا اور ان سب نے ایک طریقہ سوچ لیا۔ اسی شام وزیراعظم سعد الملک نور اور اس کے باپ کے کمرے میں گیا ،دونوں اسے دیکھ کر گھبرا سے گئے، یہ شخص اپنا راز چھپائے رکھنے کے لیے ان دونوں کو غائب کرا سکتا تھا لیکن اس نے بات کچھ اور کی۔
آج کا انعام تمہیں مبارک ہو ۔۔۔سعد الملک نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔۔میں یہ کہہ کر تم پر احسان نہیں کر رہا کہ تمہیں میرے کہنے پر انعام دیا گیا ہے، شاہ در کی فتح ویسے ہی حاصل نہیں ہوگئی، تم نے مجھے دو تین بار عبدالملک بن عطاش کے پاس دیکھا ہوگا، تم مجھے یہ دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے کہ میں تو سلجوقی سلطان کا وزیراعظم ہوں، میں تمہیں ایک تو مبارکباد دینے آیا تھا دوسری یہ بات کہنی تھی کہ میں وہاں جاسوس بن کر گیا تھا اور عبدالملک پر یہ ظاہر کیا تھا کہ میں درپردہ باطنی ہوں اور شیخ الجبل کے لیے کام کر رہا ہوں، وہ بوڑھا اپنے آپ کو بڑا جادوگر اور استاد سمجھتا تھا لیکن میں اس کے دل میں اتر گیا اور ایسے راز حاصل کرلئے جو اس کی شکست کا باعث بنے۔
سلطان کو تو معلوم ہوگا کہ آپ وہاں جاسوس بن کر جاتے رہے ہیں۔۔۔ نور کے باپ نے کہا۔۔۔ آپ کو تو بے انداز انعام ملنا چاہیے۔
نہیں !،،،،،،سعدالملک نے کہا۔۔۔ میں نے جو کیا وہ سلطان کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، مجھے انعام و اکرام کی ضرورت نہیں،،،،،،، میں تمہیں یہ کہنے آیا ہوں کہ کبھی سلطان کے ساتھ ذکر نہ کر دینا کہ تم نے مجھے وہاں دیکھا تھا ،میں جس مقصد کے لیے وہاں جاتا رہا ہوں وہ میں نے پالیا ہے، لیکن اب اسے پتہ چلا کہ میں وہاں جاتا رہا ہوں تو میرے خلاف بڑا ہی بے بنیاد اور خطرناک شک پیدا ہو جائے گا۔
نہیں محترم وزیراعظم !،،،،،،نور کے باپ نے کہا۔۔۔ ہم ایسی اونچی حثیت کے بندے تو نہیں ہیں کہ سلطان کے ساتھ اس کے وزیراعظم کی باتیں کریں، میں نے اپنی اس بیٹی کو اس بوڑھے کے پنجوں سے آزاد کرانا تھا وہ کرا لایا ہوں ،اب میرے جینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس بیٹی کو کسی جوان اور معزز آدمی کے ساتھ بیاہ دوں اور خود اللہ اللہ کرتے زندگی پوری کر جاؤں۔
میں یہ فرض ادا کروں گا ۔۔۔سعد الملک نے کہا۔۔۔ تمہاری بیٹی کی شادی ایسے ہی آدمی کے ساتھ کراؤنگا جیسا تم چاہتے ہو ،یہ میری اپنی بیٹی ہے ۔
نور کے باپ نے ہاتھ جوڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسے انعام و اکرام اور دولت کی ضرورت نہیں اس کی بیٹی ٹھکانے لگ جائے گی۔
دو دن گزرگئے رات گہری ہو چکی تھی اور سعد الملک کھانے سے فارغ ہو کر اپنے خاص کمرے میں جا بیٹھا تھا، اس کے ایک ملازم نے اسے اطلاع دی کہ ایک گھوڑسوار آیا ہے اور اس سے ملنا چاہتا ہے ،ملازم نے یہ بھی بتایا کہ گھوڑسوار کی حالت اور حلیہ بتاتا ہے کہ بڑا لمبا سفر کرکے آیا ہے،،،،،،،، سعد الملک نے اسے فوراً بلوا لیا۔
بہت دور سے آئے معلوم ہوتے ہو۔۔۔ سعد الملک نے اس آدمی سے کہا اور پوچھا۔۔۔ کہاں سے آرہے ہو؟
قلعہ ناظر و طبس سے ۔۔۔اس آدمی نے جواب دیا اور ادھر ادھر دیکھا جیسے وہ کوئی راز کی بات کہنا چاہتا ہو۔۔۔ امام کے پیرومرشد عبدالملک بن عطاش نے بھیجا ہے، کیا میں یہاں کھل کر بات کر سکتا ہوں ۔
ضرور کرو۔۔۔ سعد الملک نے کہا۔۔۔ اونچی آواز میں نہ بولنا کیا پیرومرشد ابھی ناظر و طبس میں ہی ہیں؟
ایک دو دنوں بعد وہاں سے الموت چلے جائیں گے۔۔۔ اس آدمی نے کہا ۔۔۔انہوں نے آپ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب آپ آسانی سے اور بے خطرہ شاہ در جا سکتے ہیں، کیونکہ اب شاہ در آپ کی سلطنت میں آگیا ہے اور آپ اس سلطنت کے وزیراعظم ہیں ،انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے کچھ آدمی پیچھے چھوڑ آئے ہیں آپ وہاں جائیں گے تو یہ آدمی خود ہی آپکو مل جائیں گے ،پیرومرشد نے کہا ہے کہ محمد اور سنجر کو جلدی ختم کرنا ہے لیکن یہ آپ نہیں کریں گے بلکہ یہ شاہ در کے آدمی کریں گے ۔
ان آدمیوں کے نام جانتے ہو؟،،،،، سعد الملک میں پوچھا۔
نہیں !،،،،،اس آدمی نے مسکرا کر کہا۔۔۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ نام نہیں بتائے جاتے، میں یہاں زیادہ نہیں رہوں گا میں اس شہر میں اجنبی ہوں، یہاں اپنا کوئی آدمی ہے تو آپ اسے یقینا جانتے ہوں گے ،مجھے اس کے گھر کا راستہ بتا دیں یا وہاں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست کر دیں، میں کل صبح واپس چلا جاؤں گا۔
ایک نہیں یہاں اپنے تین آدمی ہیں۔۔۔ سعد الملک نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ان میں سے ایک کے گھر پہنچا دوں گا۔
سعد الملک نے ایسی باتیں کیں جن سے صاف پتہ چل گیا کہ یہ شخص باطنی ہے اور باطنیوں کے لیے ہی کام کر رہا ہے، اس نے اس آدمی کو ایک گھر کا پتہ اور راستہ سمجھا دیا اور کہا کہ وہ خود اس کے ساتھ جا سکتا ہے نہ کسی ملازم کو بھیج سکتا ہے کیونکہ اس سے اس کے خلاف شک پیدا ہو جائے گا۔
اب میری بات غور سے سن لو۔۔۔ سعد الملک نے کہا ۔۔۔دروازے پر تین بار دستک دینا اندر سے آواز آئے گی کون ہے، تم نے کہنا ہے ملک الملک۔۔۔ پھر دروازہ کھلے گا اور اندر جا کر بتانا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور یہاں تک کس طرح پہنچے ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سعد الملک حسب معمول اپنے دفتر گیا پہلے سلطان محمد سے ملا اور معمول کے مطابق کچھ باتیں کی اور اپنی روزمرہ کے کام میں لگ گیا ،اس نے سلطان محمد کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ دیکھی سوائے اس کے کہ سلطان اس صبح پہلے سے کچھ زیادہ ہی مسکرا کر باتیں کرتا تھا۔
آدھا دن گزر گیا تو محمد نے سعد الملک کو بلوایا ،سعد الملک سلطان کے دفتر والے کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک کر رک گیا، اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا، سلطان اکیلا نہیں تھا اس کے پاس ایک تو نور بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ نور کا باپ بیٹھا ہوا تھا، ایک طرف وہ آدمی کھڑا تھا جو رات اس کے پاس گیا تھا اور عبدالملک بن عطاش کا پیغام دیا تھا ،اس کے ساتھ تین آدمی زنجیروں میں جکڑے کھڑے تھے۔
آگے آؤ سعد الملک !،،،،،محمد نے اسے کہا۔۔۔ ڈرو مت یہ سب تمہارے اپنے آدمی ہیں اور انہیں تم بڑی اچھی طرح جانتے ہو، یہ سب تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں، یہ تین آدمی جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں وہ آدمی ہے جو اس مکان میں رہتے تھے جہاں تم نے اس آدمی کو بھیجا تھا ،ہم نے رات کو ہی انہیں اس مقام پر چھاپا مار کر پکڑ لیا تھا۔
سعد الملک پر غشی طاری ہونے لگی تھی، اس کی زبان بالکل ہی بند ہو گئی تھی۔
اور ان دونوں کو تم اور زیادہ اچھی طرح جانتے ہو۔۔۔ سلطان محمد نے نور اور اس کے باپ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔ اس لڑکی کے ہاتھوں تم نے کئی بار شراب بھی پی ہے اسے تو تم کبھی بھی بھول نہیں سکو گے، یہ تمہارے پیرومرشد کی بیوی تھی،،،،،، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
میں وہاں جاسوسی کے لیے جاتا رہا ہوں۔۔۔ سعدالملک نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ اس سے آگے وہ بول نہ سکا۔
تم نے کبھی مجھے راز کی کوئی بات تو بتائی نہیں تھی۔۔۔ محمّد نے کہا ۔۔۔تم وہ سانپ ہو جس نے اس سلطنت کی آستین میں پرورش پائی ہے اور اس سلطنت کو ڈنک مارا ہے ،کیا تم نے دیکھ نہیں لیا کہ فتح حق کی ہوا کرتی ہے باطل کی نہیں ،میں تمہارا یہ جھوٹ مان بھی لوں کہ تم وہاں جاسوسی کے لیے جاتے رہے ہو تو تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے کہ تم ان تین فدائیوں کو جانتے تھے اور انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ میرے ایک جاسوس کو اپنا آدمی سمجھ کر ان کے پاس رات بسر کرنے کے لیے بھیجا،،،،،، اب سزا کے لئے تیار ہو جاؤ۔
اگلی صبح گھوڑ دوڑ کے میدان میں سلطنت کے تمام تر لشکر کو ایک ترتیب میں کھڑا کیا گیا ،شہری بھی تماشہ دیکھنے آ گئے، کچھ دیر بعد سعد الملک اور تین فدائیوں کو جنہیں ان کے مکان سے گرفتار کیا گیا تھا میدان میں لایا گیا اور لشکر کے سامنے کھڑا کردیا گیا، کچھ دیر بعد سلطان محمد اور اس کا چھوٹا بھائی سنجر اور ان کا بڑا بھائی برکیارق اپنی تین چار بڑے حاکموں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار وہاں آگئے ،باقی سب نے گھوڑے پیچھے روک لئے محمد آگے چلا گیا اور ان مجرموں کے قریب جاکر گھوڑا روکا۔
تم سب اپنے وزیراعظم کو بیڑیوں میں بندھا ہوا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے۔۔۔۔۔ سلطان محمّد نے اپنے لشکر سے خطاب کیا ۔۔۔۔یہ شخص جسے میں نے وزیراعظم بنایا تھا درپردہ حسن بن صباح کا کام کرتا رہا ہے اور شاہ در کی فتح سے پہلے چوری چھپے وہ حسن بن صباح کے استاد عبد الملک بن عطاش کے پاس جاتا رہا ہے، اس سے یہ اگلوانا ممکن نہیں کہ اس کے حکم سے یا اس کے ہاتھوں میرے کتنے آدمی قتل ہو چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس نے ہمارے بہت سے آدمی قتل کروائے ہیں، یہ سانپ میری آستین میں پلتا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اپنے بیٹے پر، بیٹا اپنے باپ پر، ماں اپنی بیٹی پر، اور بیٹی اپنی ماں پر اعتماد نہ کرے، لیکن میں یہ صورت پیدا نہیں ہونے دوں گا میں ہر کسی کو صاف لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے تو اب ہم قلعہ الموت بھی لے لیں گے، اور اس باطل فرقے کا قلع قمع کرکے ہی رہیں گے، اپنا جرم اپنے ساتھیوں سے چھپایا جاسکتا ہے لیکن مت بھولو کہ اللہ کی ذات بھی موجود ہے اور اللہ تبارک و تعالی گنہگاروں کو پکڑ لیا کرتا ہے، یہ گنہگار سعد الملک اپنے ان تین قاتل فدائیوں کے ساتھ پکڑا گیا ہے اور آج اسے سزائے موت دی جا رہی ہے۔
سلطان محمد نے جلادوں کو اشارہ کیا، جلاد آگے آئے اور ان چاروں کو ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑا کرکے انہیں آگے کو جھکا دیا اور ایک ہی بار چاروں کی تلوار حرکت میں آئی اور چارسر جسموں سے کٹ کر مٹی میں جا پڑے۔*
*تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ سعد الملک ایسا ڈھکا چھپا رہا تھا کہ کسی کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا ،اسے سزائے موت دی گئی اور وہیں سلطان محمد نے اعلان کیا کہ اب سلطنت کا وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی کا چھوٹا بیٹا ابونصر احمد ہوگا۔*
*ابونصر احمد اپنے باپ اور بڑے بھائی کی طرح عالم فاضل اور سلطنت کے امور کو بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا، اس نے وہیں اعلان کردیا کہ میں اب قلعہ الموت پر فوج کشی کروں گا اور اس کی قیادت بھی میں خود کرونگا ،جس طرح ہم نے شاہ در فتح کرلیا ہے اسی طرح ہم الموت کا قلعہ بھی لے لیں گے ۔*
*لشکر سے تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے اور ان نعروں سے زمین و آسمان ہل رہے تھے۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*