🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھپن⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھپن⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*ابوالمظفر*  *علی کے قتل نے مرو کی آبادی کو تو جیسے آگ لگا دی تھی، لوگ مقتول کے گھر کی طرف دوڑ پڑے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا، روکے ہوئے سیلاب کی طرح یہ ہجوم بے قابو ہوتا جا رہا تھا اور انتقام انتقام کے فلک شگاف نعرے زمین و آسمان کو جھنجوڑ رہے تھے، ابو المظفر علی کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر سے نکل کر مضافاتی علاقوں میں پہنچ گئیں، وہاں کے لوگ بھی شہر کی طرف دوڑ پڑے۔*
*برکیارق کے چھوٹے بھائی سنجر نے ابو المظفر کی لاش کے قریب کھڑے ہو کر اعلان کردیا کہ اب قلعہ شاہ در کا محاصرہ ہوگا اور کل کوچ کیا جائے گا، لیکن ان کے بزرگ مشیروں نے کہا کہ ایسے فیصلے غصے اور جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیے جاتے ورنہ جلد بازی میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ان مشیروں کا مشورہ یہ تھا کہ اطمینان سے بیٹھ کر کوچ کا اور محاصرے کا منصوبہ تیار کر لیا جائے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوچ چند دنوں بعد کیا جائے کیونکہ شہریوں کا جوش وخروش اور جذبہ انتقام ایسا نظر آرہا ہے کہ لشکر میں کچھ اور شہری شامل ہو جائیں گے۔*
محاصرے کا منصوبہ تو بالکل تیار تھا جو ابوالمظفر علی مرحوم نے بنایا تھا اس کے مطابق لشکر کو اسی کی نگرانی میں ٹریننگ دی گئی تھی، اب کوچ کا دن ہی مقرر کرنا تھا، مقتول وزیر اعظم کی تہجیز و تکفین ہوچکی تو برکیارق ،محمد ،سنجر اور جنگی امور کے مشیروں کی کانفرنس ہوئی اس میں سالاروں کو بھی شامل کیا گیا، اسی کانفرنس میں ضروری امور طے کر لیے گئے اور کوچ کا دن بھی مقرّر ہو گیا ،اس روز مرو میں اور اردگرد کے علاقوں میں منادی کرادی گئی کہ جو لوگ لشکر میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ فوراً مرو پہنچ جائیں،،،،،،، تین چار دنوں میں اس لشکر کی نفری بے انداز ہوگئی اور کوچ کا دن آگیا، کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس لشکر کی تعداد کتنی تھی اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنے تھے، صرف یہ لکھا ہے کہ ایک تو باقاعدہ فوج تھی اور اس کے ساتھ ایک لشکر غیر فوجیوں کا تیار کیا گیا تھا، یہ لوگ گھوڑے اپنے لائے تھے اور ہتھیار بھی ان کے اپنے ،ایک فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس لشکر کی قیادت سنجر نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی محمد کرے گا۔
پھر صبح طلوع ہوئی تمام لشکر جس میں باقاعدہ فوج بھی تھی اور تربیت یافتہ شہری بھی، میدان میں ترتیب سے کھڑے ہوگئے، محمد گھوڑے پر سوار لشکر کے سامنے آیا اور اس نے لشکر سے خطاب کیا۔
اسلام کے مجاہدوں !،،،،،،،محمد نے بلند آواز میں کہا ۔۔۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں، ہم کوئی ملک فتح کرنے نہیں جا رہے، ہم ابلیسیت کو جڑ سے اکھاڑنے جارہے ہیں، یہ کسی سلطان کی جنگ نہیں اور یہ کسی سلطنت کی بھی جنگ نہیں، یہ ہم سب کی ذاتی جنگ ہے ہم سب کا اللہ ایک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان ایک ہے، ہم سب ایک ہی جذبے سے سرشار ہوکر ایک ہی ہدف پر جا رہے ہیں، ہم نے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا فتح ہوگی تو یہ اسلام کی فتح ہوگی اور اگر خدا ناخواستہ ہم پسپا ہوئے تو ہم پر اللہ کی لعنت پڑے گی، میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے حسن بن صباح کی ابلیسی فرقے کو ختم کرنا ہے، بے گناہوں کے خون کا انتقام لینا ہے، خون خرابہ روکنا ہے، اور مت بھولو کہ یہ وہ ابلیسی فرقہ ہے جس نے یہاں بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا اور بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا ،ان باطنیوں نے ہمارے علمائے دین کو قتل کیا ،نظام الملک خواجہ حسن طوسی جیسی شخصیت کو قتل کیا اور اب ان کے بیٹے ابو المظفر علی کو قتل کر دیا ہے،،،،،،، اور یہ تو تم جانتے ہو کہ اس فرقے نے اصفہان میں شاہ در میں اور کئی دوسری جگہوں پر کس بے رحمی سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے، تم نے لڑنا ہے اور کسی اجر کے لالچ کے بغیر لڑنا ہے، فتح تبھی حاصل کرو گے جب اللہ کی راہ میں خون کے نذرانے پیش کرو گے، یہ تو تم جانتے ہو کہ اللہ کسی کا جذبہ جہاد اور جذبہء ایثار فراموش نہیں کیا کرتا ،میں ایک آخری بات کہوں گا ،تم میں سے کسی کے دل میں کوئی شک اور شبہ ہے یا کوئی وہم ہے یا وہ دلی طور پر اس جہاد کے لئے تیار نہیں تو میں اسے اجازت دیتا ہوں کہ وہ ابھی لشکر سے نکل جائے، کوچ شروع ہو گیا اور کسی نے پیٹھ دکھانے کی کوشش کی تو اسے وہی قتل کر دیا جائے گا۔
ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہوا اس نعرے میں ان عورتوں اور بچوں کی آوازیں بھی شامل تھیں جو لشکر کو رخصت کرنے کے لئے اور خدا حافظ کہنے کے لیے وہاں اکٹھے ہوگئے تھے، مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں کھڑی تھیں، لشکر وہاں سے چلا تو عورتوں نے ہاتھ پھیلا کر اللہ سے لشکر کی سلامتی اور فتح کی دعائیں مانگیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ وزیراعظم ابوالمظفر علی کو قتل کر دیا گیا ہے اور قاتل نے خودکشی کرلی ہے، کچھ دنوں بعد اسے دوسری اطلاع یہ دی گئی کہ سلطنت سلجوقیہ کا ایک بہت بڑا لشکر شاہ در کی طرف کوچ کر گیا ہے اور اب تک وہ وہاں پہنچ چکا ہوگا،،،،،، یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ حسن بن صباح مسکرایا نہیں بلکہ اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر آگیا ،اس سے پہلے اسے اطلاع ملتی تھی کہ مسلمانوں نے فلاں قلعے کا محاصرہ کر لیا ہے تو وہ یوں مسکرا اٹھتا تھا جیسے اسے کوئی غم اور کوئی فکر نہ ہو، مسلمان کوئی قلعہ فتح کرلیتے تو بھی حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں آتا تھا، لیکن اب یہ سن کر کہ سلطنت سلجوقیہ کا لشکر شاہ در پہنچ چکا ہوگا تو وہ خلاؤں میں دیکھنے لگا۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح کے پاس فدائیوں کی کوئی کمی نہیں تھی، وہ تو ایک لشکر تھا ،حسن بن صباح کسی بھی فدائی کو اشارہ کر دیتا تو وہ فدائی اپنی جان اپنے ہاتھ سے لے لیتا تھا ،لیکن یہ فدائی ایک منظم فوج کی طرح لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، فدائیوں کے خنجر اور ان کی چھُریاں چلتی تھی ،وہ دھوکے میں قتل کرتے تھے یا زمین کے نیچے سے وار کر جاتے تھے تھے، حسن بن صباح نے سلطنت سلجوقیہ میں خانہ جنگی کرا دی تھی، اس نے ایسی بہت سی شخصیات کو قتل کروا دیا تھا جنہیں کلیدی حیثیت حاصل تھی، اس وقت تک دو وزیراعظم فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہ حسن بن صباح کا ہی کمال تھا لیکن اس کے ایک اشارے پر جان قربان کردینے والا فدائیوں کا لشکر میدان میں آکر جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔
حسن بن صباح کو قلعہ شاہ در کے محاصرے کی اطلاع ملی تو وہ متفکر ہو کر گہری سوچ میں کھو گیا ،کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنے مشیروں وغیرہ کو بلایا۔
شاہ در بڑا ہی مضبوط قلعہ بند شہر ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن اب ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ہم نے سلجوقیوں کو جتنی ضرب لگائی ہے وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے اب وہ زخمی شیر کی طرح انتقام لینے نکلے ہیں ،یہ مت بھولو کہ شاہ در میرے لیے قلعہ الموت سے زیادہ مقدس ہے، وہاں میرا پیر و مرشد عبد الملک بن عطاش رہتا ہے، شاہ در کو ہر قیمت پر بچانا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلجوقی اس شہر کو فتح کر لیں، اگر انہوں نے یہ قلعہ سر کرلیا تو وہ میرے پیرومرشد کو بڑی ہی تزلیل اور توہین کریں گے، ہمارے پاس ایسا کوئی منظم لشکر نہیں جو یہاں سے کوچ کر جائے اور محاصرے کو محاصرے میں لے لے، ہمیں اپنا طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا، یہاں سے دس فدائی بھیج دو وہ اپنے آپ کو اہل سنت کہلائیں گے اور مبلغ بن کر جائیں گے وہ سلطان محمد کو قتل کریں گے اور سپہ سالار کو بھی قتل کریں گے، اور اگر دو اور سالاروں کو قتل کر دے تو محاصرہ نہ صرف ٹوٹ جائے گا بلکہ پورے کا پورا لشکر بھاگ جائے گا۔
اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ ایک معمر مشیر نے کہا ۔۔۔صرف سلطان مارا گیا تو محاصرے میں ذرا سی بھی جان نہیں رہے گی، میں اپنے منتخب کئے ہوئے فدائی بھیجوں گا۔
 میرا پیر و مرشد عبدالمالک بن عطاش اتنا کچا نہیں کہ وہ شہر سلجوکیوں کو دے دے گا۔۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔وہ کوئی نہ کوئی ڈھنگ کھیلے گا اور میرا خیال ہے وہ سلجوقیوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائے گا ،پھر بھی میں اسے فرض سمجھتا ہوں کہ باہر سے اس کی مدد کروں، میں دس قلعے دے سکتا ہوں شاہ در نہیں دونگا،،،،،، فدائیوں کو بھیج دو۔
 اس زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا سپہ سالار مارا جاتا تو پورے کا پورا لشکر بددل ہو جاتا تھا ،بادشاہ خود اپنے لشکروں کی قیادت کیا کرتے تھے، لیکن بادشاہ مارا جاتا تو سارا لشکر بھاگ جاتا تھا ،حسن بن صباح کی یہ سوچ بے بنیاد نہیں تھی کہ محمد کو قتل کر دیا جائے، محمد سلطان تھا جس کے مارے جانے سے محاصرے ٹوٹ جانا تھا، باطنی فدائیوں کے لیے کسی کو قتل کر دینا معمولی سا کرتب تھا، فدائیوں کو پکڑے جانے کا اور سزا کا تو کوئی ڈر ہی نہیں تھا، کیونکہ وہ اپنے شکار کو قتل کر کے اپنے آپ کو بھی مار ڈالتے تھے۔
شاہ در قلعہ بند شہر تھا ،اور یہ قلعہ الموت کے بعد باطنیوں کا بڑا مضبوط اڈا تھا، اس شہر کا جو قلعہ تھا وہاں بہت سے برج اور برجیاں تھیں، شہر کے ارد گرد جو شہر پناہ تھی وہ کوئی معمولی سی دیوار نہ تھی، بلکہ خاصی چوڑی تھی ،بلند بھی تھی اور بہت ہی مضبوط ،یہ شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ اس کے پیچھے اور ایک پہلو پر اونچی پہاڑی تھی ،ان اطراف سے قلعے پر حملہ کرنا خود کشی کے برابر تھا ،دوسرے دو اطراف میں دیوار پر چھوٹی بڑی برجیاں تھی جن میں ہر وقت تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے تیار رہتے تھے ،شہر کے چاروں اطراف کی لمبائی تاریخ میں چھ کوس لکھی ہے۔
اس شہر کا حکمران حسن بن صباح کے پیر استاد عبد الملک بن عطاش کا ایک بیٹا احمد بن عبدالملک تھا ،اس کا ایک بھائی احمد بن عطاش بھی وہی تھا، دونوں جنگجو تھے اور دھوکہ دہی اور فریب کاری میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
سلطان برکیارق نے جب باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا تو حسن بن صباح نے اس کے جواب میں حکم دے دیا تھا کہ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا جائے، میں نے پہلے یہ قتل اور انتقام کا سلسلہ سنا چکا ہوں، باطنی قافلوں کو لوٹا کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے پناہ مال ودولت اکٹھا کر لیا تھا۔ سلجوقی سلطانوں نے یہ لوٹ مار کا سلسلہ خاصی حد تک روک دیا تھا ،دو شہروں مرو اور رے میں سلطان کے حکم سے کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا تھا ،اس کے جواب میں شاہ در میں عبدالملک بن عطاش کے حکم سے مسلمانوں کو قتل کیا جانے لگا اور وہاں سے مسلمان بھاگ کر دوسرے شہروں میں چلے گئے تھے، اس سے پہلے شاہ در میں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی تھی اور اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی،  عبدالملک بن عطاش نے قافلے لوٹنے کا حکم بھی دے دیا تھا، ان لوگوں نے تین چار قافلے لوٹے تھے جن میں سے ایک قافلہ حجاج کا تھا ،اس قافلے میں بہت سے ملکوں کے حاجی تھے، ہندوستان کے حاجی بھی اس میں شامل تھے، یہ خبریں سلجوقی سلطنت کے سلطان تک پہنچتی رہی تھیں، اور اس کا ایک ہی حل سوچا گیا تھا کہ شاہ در پر حملہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر دی جائے ۔
اب اس شہر کو محاصرے میں لے لیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 شاہ دیر کو محاصرے میں لینے کی اطلاع وسم کوہ سالار اوریزی کو بھی مل گئی، وہ تو قلعہ الموت پر حملے کے منصوبے بناتا رہتا تھا اور اس مقصد کے لئے وہ زمین ہموار کر رہا تھا ،اور اس نے ایک فوج بھی تیار کرنی شروع کر دی تھی، اسے جب شاہ در پر محاصرے کی اطلاع ملی تو اس نے مزمل آفندی اور بن یونس کو بلایا، یہ دونوں ابھی تک یہیں تھے ،ان دونوں نے بھی باطنیوں کو تہس نہس کر دینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
میں نے تم دونوں کی مدد سے وسم کوہ تو فتح کرلیا ہے ۔۔۔سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں ہوں مجھے اس وقت شاہ در ہونا چاہیے تھا، میں اس قلعے کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتا، ان باطنیوں نے وہاں کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑا، زندہ وہی رہا جو وہاں سے بھاگ آیا تھا۔
الموت کو فتح کرنے کی تیاریاں جاری رکھیں۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ اگر آپ نے الموت فتح کرلیا تو آپ کا یہ کارنامہ تاریخ قیامت تک لوگوں کو سناتی رہے گی، اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہوگا،،،،،،،،،  لیکن میں ایک بات سوچتا ہوں، میں نے الموت اچھی طرح دیکھا تھا، اب سنا ہے کہ الموت ایک بند شہر بن گیا ہے اور کوئی اجنبی وہاں چلا جائے تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے یا وہ کس طرف سے آیا تھا، یہ بھی سنا ہے کہ اس کا دفاع زیادہ مضبوط کر دیا گیا ہے، لیکن اس شہر کے اب دو حصہ بن گئے ہیں، ایک جو شہرہ ہے اوپر نظر آتا ہے، اور دوسرا شہر اس کے نیچے ہے جسے آپ زمین دوز کہہ لیں ،سنا ہے نیچے ایسی بھول بھلیاں ہیں جن میں گیا ہوا آدمی نکل نہیں سکتا، میرا خیال ہے الموت پر حملے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس شہر کے اندر کیا ہے اور اسے کس طرح فتح کیا جاسکتا ہے۔ 
تم وہاں کس طرح جاکر دیکھ سکتے ہو؟،،،،، سالار اوریزی نے پوچھا۔
اتفاق ایسا ہوا ہے کہ یہ بات آج ہی ہوگئی ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ میں آپ کے ساتھ یہ بات کرنا ہی چاہتا تھا، میں اور بن یونس الموت جائیں گے، ہمارا جانے کا سب سے بڑا مقصد حسن بن صباح کا قتل ہوگا، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کام تقریبا ناممکن ہے لیکن میں دوسرا کام ضرور کروں گا، وہ یہ کہ اس شہر کے نیچے جا کر دیکھوں گا کہ وہاں کیا ہے اور پھر شہر کے ارد گرد گھوم کر دیکھوں گا کہ اس میں کس طرح لشکر کو داخل کیا جاسکتا ہے جب تک یہ پتا نہیں چلے گا ہم کتنا ہی بڑا لشکر لے جائیں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
شہر کے اندر جانے کے لیے تمہارا روپ بہروپ کیا ہوگا ؟۔۔۔سالار اوریزی نے پوچھا۔
فدائی!،،،،،، مزمل نے جواب دیا ۔۔۔ہم دونوں حسن بن صباح کے فدائی یا پیروکار بن کر جائیں گے۔
یہ بات ہم پر چھوڑیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ ہم نے سب کچھ سوچ لیا ہے زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ہم مارے جائیں گے، اگر آپ ابلیسیت کے اس طوفان کو روکنا چاہتے ہیں تو کسی نہ کسی کو تو اپنی جان قربان کرنا پڑے گی، ان ہزارہا جانوں کو یاد کریں جو حسن بن صباح کے حکم سے باطنیوں کے ہاتھوں سے ہوئی اور پھر مرو کی خانہ جنگی کو یاد کریں جس میں بے حساب خون بہہ گیا تھا ہم نے اس خون کا حساب چکانا ہے ،ہم جس روز ان جانوں کو اور خون کو بھول گئے اس روز ہمارے عظیم دین اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا۔
مزمل اور بن یونس کا عزم اور منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح باطنی مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب اور سرکاری انتظامیہ میں کسی نہ کسی بھیس اور بہروپ میں مخلص اور بے ضرر افراد کی حیثیت سے داخل ہوکر ڈنک مار جاتے ہیں، اسی طرح ایک جماعت تیار کی جائے جو حسن بن صباح کے اندرونی حلقوں تک پہنچ جائے اور پہچانی نہ جاسکے اور اس طرح باطنیوں کے جڑوں میں بیٹھ کر ان کا خاتمہ کیا جائے ،مزمل کی بیوی شمونہ بھی یہی مشن اپنے دل میں لیے بیچ و تاب کھاتی رہتی تھی، اب اسے پتہ چلا کہ مزمل اور بن یونس قلعہ الموت جارہے ہیں تو وہ بھی تیار ہوگئی، شافعیہ کے دل میں شمونہ کی ایسی محبت پیدا ہو گئی تھی کہ جب اس نے سنا کہ شمونہ الموت جارہی ہے اور کیوں جارہی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئی، اس کے دل میں بھی باطنیوں کے خلاف زہر بھر گیا تھا، ویسے بھی وہ اکیلی رہے گئی تھی، وہ تھی تو نوعمر لیکن خزانے والے غار سے تنہا واپسی کے دوران اسے جو تجربات ہوئے تھے ان سے اس کی شخصیّت میں پختگی پیدا ہو گئی تھی اور پھر اس کے اندر ایک عزم بھی پیدا ہو گیا تھا جسے وہ اچھی طرح سمجھ نہیں سکتی تھی، لیکن شمونہ کے ساتھ رہنے سے اس کے سامنے ہر ایک چیز واضح ہوگئی، اس نے شمونہ سے کہا کہ وہ بھی ان کی مہم میں شامل ہونا چاہتی ہے۔
شمونا نے مزمل اور بن یونس کے ساتھ بات کی تو انہوں نے اس خیال سے شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جانا بہتر سمجھا کہ وہ جس بہروپ میں جائیں گے اس میں ایک نوجوان لڑکی کارآمد ثابت ہوگی،،،،،، ان چاروں نے زیادہ انتظار نہ کیا پانچ گھوڑے لیے چار گھوڑوں پر یہ پارٹی سوار ہوئی اور پانچویں گھوڑے پر کھانے پینے کا اور دیگر سامان لاد لیا گیا ،ان کی منزل قلعہ الموت تھی دراصل موت کی منزل تھی ،زیادہ تر امکان یہی تھا کہ وہ زندہ واپس نہیں آسکیں گے، مزمل کو پہلے وہاں کا تجربہ ہو چکا تھا وہ تو زندہ ہیں آیا تھا لیکن وہ جس جذبے والا مزمل تھا وہ مرگیا تھا ، شمونہ نے شافعیہ کو ذہن نشین کرا دیا تھا کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہاں موت زیادہ قریب ہو گی، اور اگر وہ زندہ رہی تو ذلت و خواری میں زندہ رہے گی، شافعیہ نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ وہ جو عزم ساتھ لے کر چلی ہے اس پر وہ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شاہ در کا محاصرہ مکمل ہوچکا تھا اور شہر میں داخل ہونے کے لیے حملے بھی شروع ہوگئے تھے ،محمد نے اور اسکے سالاروں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ بہت ہی مضبوط ان کی توقعات سے بھی زیادہ مستحکم قلعہ ہے جسے چند دنوں یا چند مہینوں میں سر نہیں کیا جاسکے گا، شہر پناہ پر تیر اندازوں اور برچھیاں پھینکنے والوں کا ایک ہجوم کھڑا تھا ان کے سامنے پتھروں کی بڑی مضبوط آڑیں تھیں۔
محمد نے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچتے ہی جاسوسوں سے رپورٹیں لی تھی، سلجوقیوں کے جاسوسی کا نظام مضبوط اور کارآمد تھا شاہ در میں بھی جاسوس موجود تھے جو محاصرے سے پہلے ہی باہر نکل آئے تھے کیونکہ انہوں نے محمد کو اندر کی ساری صورت حال اور احوال اور کوائف بتانے تھے، انہوں نے بتایا کہ شاہ در میں کوئی باقاعدہ فوج نہیں لیکن ہر شہری لڑنے کے لیے تیار ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان شہریوں کو قلعے سے باہر لایا جائے تو یہ باقاعدہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں اور نہ ہی انہیں ایک لڑنے والے لشکر کی تربیت اورتنظیم کا علم ہے، البتہ ان میں جذبہ بڑا ہی سخت ہے، جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ اس شہر میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کو اس شہر سے قتل عام اور لوٹ مار کے ذریعے بھگا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا تھا۔
اندر کی ایک اور بات معلوم ہوئی یہ جاسوسوں نے نہیں بتائی تھی ایک اور ذریعے سے معلوم ہوئی تھی،،،،،،، ناچیز محمد ساجد اشرفی یہ ذریعہ آپ کو بعد میں بتائے گا،،،،،، شاہ در کے باطنیوں نے چند مہینے پہلے ایک قافلہ لوٹا تھا اس قافلے میں زیادہ تر حجاج تھے جو حج سے واپس آرہے تھے، اس میں امیر کبیر تاجر بھی تھے، مال ودولت کے علاوہ باطنیوں نے قافلے سے کچھ نوجوان اور خوبصورت لڑکیاں بھی اغوا کرلی تھیں، تاریخ میں ایک لڑکی کا ذکر ملتا ہے جس کا نام نور تھا، وہ عراق کی رہنے والی تھی اور اپنے باپ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کرنے گئی تھی، باپ کے علاوہ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی اور ایک بھائی بھی، ماں اور بھائی باطنی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، باپ بچ گیا تھا وہ کسی طرح شاہ در اپنی بیٹی کے پیچھے آ گیا تھا۔
اس وقت نور کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی اور وہ کچھ زیادہ ہی حسین تھی، اس قسم کی لڑکیوں کو قلعہ الموت بھیج دیا جاتا تھا جہاں انہیں حسن بن صباح کی جنت کی حوریں بنایا جاتا اور خاص تربیت دی جاتی تھی، ان لڑکیوں میں اگر کوئی اور خصوصی ذہانت ہوتی تو انہیں دوسرے علاقوں میں تخریب کاری کے لیے بھیج دیا جاتا تھا ،نور کچھ ایسی حسین لڑکی تھی کہ یہ حسن بن صباح کے پیر استاد عبد الملک بن عطاش کے چھوٹے بھائی احمد بن  عطاش کو پسند آگئی اور اس نے نور کے ساتھ شادی کرلی، اس وقت احمد بن عطاش کی عمر پچاس سال تھی۔
لڑکی روز و شب روتے گزارتی تھی ،اس کی ماں ماری گئی تھی اور اس کا بھائی بھی قتل ہو گیا تھا ،اس کا باپ اپنی اس بیٹی کے ساتھ اتنی محبت اور پیار کرتا تھا کہ وہ بھی ساتھ آگیا اور احمد بن عطاش کا ملازم بن گیا، نور اپنے باپ کو اس روپ میں دیکھتی تو اور زیادہ روتی اور کڑھتی تھی ،نور کے باپ نے احمد بن عطاش کا اعتماد حاصل کرلیا، وہ اکثر سوچتا تھا کہ یہاں سے اپنی بیٹی کو کس طرح نکال کر لے جائے لیکن کوئی ذریعہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔
آخر ایک روز باپ بیٹی کو خبر ملی کہ سلجوقیوں کے لشکر نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے، نور نے وضو کیا اور اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے لگی، وہ روتی جاتی اور نفل پڑتی جاتی تھی، آخر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سسکیاں لے لے کر اللہ کو پکارا اور کہا،،،،،،،، یا اللہ اپنے اس گھر کی لاج رکھ لے جس کا حج کر کے آئی ہوں، شیطان کے چیلوں کو تباہ کر دے، اس نے اللہ سے شکوہ بھی کیا کہ اللہ نے اسے حج کا کیا اجر دیا ہے، وہ بار بار کہتی تھی کہ شیطان کے ان چیلوں کو تباہ کر دے ،اس کی آواز بلند ہوتی چلی گئی اور اتنی میں احمد بن عطاش کمرے میں داخل ہوا اس نے نور کی یہ دعا سن لی تھی۔
اللہ اس گھر کی لاج رکھے گا جہاں تم موجود ہو۔۔۔ احمد بن عطاش نے طنزیہ کہا۔۔۔ فوراً اٹھو اور یہ دعا ختم کردو، تم میری بیوی ہو اور تم آزاد نہیں ہوسکتی ۔
اگر میرا اللہ سچا ہوا تو تم ذلیل ہوکر مروگے۔۔۔ نوراحمد بن عطاش سے کہا۔۔۔ تم نے مجھے اللہ کی عبادت سے روکا ہے، تم ذلیل ہو کر مرو گے میں تمہیں ذلت کی موت مرتا دیکھوں گی۔
 نور نے پہلی بار اپنے خاوند کے خلاف زبان کھولی تھی، اس کی آواز میں غصہ اور انتقام تھا اور اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی، احمد بن عطاش نے اس کے منہ پر بڑا ہی زور دار تھپڑ مارا ،نور چپ ہو گئی اور احمد بن عطاش کمرے سے نکل گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ شروع کے سلسلے میں سنایا جاچکا ہے کہ عبدالملک بن عطاش کسی سفلی عمل کا یا ایسے ہی کسی اور عمل کا ماہر تھا جس سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکتا تھا یا دوسروں پر اثر انداز ہوا جا سکتا تھا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نے یہ عمل حسن بن صباح کو بھی سکھایا تھا، لیکن بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے یہ عمل کم ہی استعمال کیا تھا ،اس کی شخصیت اور کردار کا اپنا ہی ایک جادو تھا جس کے زور پر اس نے وہ مقبولیت حاصل کی تھی جس نے تاریخ میں ایک نئے اور انوکھے باب کا اضافہ کردیا تھا۔
عبدالملک بن عطاش ضعیف العمر تھا اس نے شہر اور دیگر امور اپنے بیٹوں کے حوالے کردیے تھے اور وہ خود اسی سفلی عمل میں لگا رہتا تھا، ایک مورخ لکھتا ہے کہ ایک خاص کمرہ تھا جس میں کوئی اجنبی چلا جاتا تو اس پر غشی طاری ہونے لگتی تھی کیونکہ اس کمرے میں ایک تو بدبو ناقابل برداشت تھی اور دوسرے یہ کہ اس میں انسانی کھوپڑیاں اور دوسری ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں، اس کے علاوہ اس کمرے میں چند ایک پنجرے رکھے ہوئے تھے کسی میں سانپ بند تھا اور کسی میں آلو بند کئے ہوئے تھے ،تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ اس نے کوئی ایسا عمل کیا ہو کہ فلاں شہر یا فلاں سلطان یا فلاں بادشاہ تباہ ہو جائے ،اور وہ تباہ ہوگیا ہو، لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی تھوڑی بہت طاقت ضرور تھی جسے مؤرخین نے سفلی عمل کہا ہے۔
اسے جب اطلاع ملی کہ سلجوقی لشکر نے شہر کو محاصرے میں لے لیا ہے اور لشکر اتنا زیادہ ہے کہ شہر کو فتح کر ہی لے گا تو وہ اپنے اس خاص کمرے میں پہنچا اور ایک پنجرے میں سے ایک آلو نکالا، اس نے کمرے کا دروازہ بند کرلیا ،اس کا خاص نوکر ہر وقت کمرے کے دروازے کے باہر موجود رہتا تھا جسے وہ  کسی ضرورت کے تحت اندر بلا لیا کرتا تھا ،یہ خاص نوکر نور کا باپ تھا۔
عبدالملک بن عطاش دو دن اور دو راتیں کمرے میں بند رہا ،اس دوران نوکر اسے صرف دودھ پلاتا رہا جس میں شہد ملا ہوتا تھا ،اس کے بعد اس نے نوکر سے کہا کہ وہ فلاں اور فلاں آدمی سے کہے کہ ایک نابینا آدمی کہیں سے پکڑ کر لایا جائے، یہ حکمران خاندان کا تھا جسکا حکم چلتا تھا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک بھکاری سا نابینا پکڑ کر لایا گیا اور اسے عبدالملک بن عطاش کے حوالے کردیا گیا ،عبدالملک اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور دو دن اور دو راتیں اسے اپنے ساتھ رکھا، معلوم ہوا کہ عبدالملک اس نابینا کے جسم پر چھُری کی نوک مارتا تھا اور وہاں سے جو خون نکلتا تھا وہ اس آلو کو پلاتا تھا۔
یہ نابینا جب اس کمرے سے نکلا تو اس کے جسم پر بہت سے زخم تھے، جو ایسے ہی تھے کہ وہاں چھُری بار بار چبھوئی گئی تھی۔ عبدالملک بن عطاش نے نوکر سے کہا کہ اسے طبیب کے پاس لے جا کر اس کی مرہم پٹی کرادے اور پھر اسے اس کے بیٹے احمد بن عطاش کے پاس لے جائے اور کہے کہ اسے اچھی خاصی رقم انعام کے طور پر دے دی جائے،،،،،،،،، یہ کارروائی مکمل ہوگئی تو نوکر پھر عبدالملک کے پاس آیا۔
عبدالملک نے اسے اندر بلایا اور کہا کہ اس الّو کو پکڑ کر رکھے، نوکر نے پکڑا اور عبدالملک کے کہنے پر اس کا منہ کھولا ،عبدالملک نے اس کھلے ہوئے منہ میں چھوٹا سا ایک کاغذ تہہ در تہہ کرکے ڈال دیا اور نوکر سے کہا کہ اس کا منہ کالے دھاگے سے اچھی طرح باندھ دے، پھر عبدالملک بن عطاش نے یہ الو پنجرے میں بند کردیا اور نوکر کے ساتھ کچھ باتیں کیں، اس نوکر پر اسے پورا پورا اعتماد تھا اور کچھ راز داری بھی تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نوکر نے یہ اعتماد اس مقصد کے لئے پیدا کیا کہ اسے کبھی یہ موقع مل جائے کہ اپنی بیٹی نور کو اس سے آزاد کر کے نکل بھاگے اور سلجوقیوں کے پاس پہنچ جائے۔
محمد نے اپنے تیر اندازوں کو کئی بار دیوار کے قریب جاکر اوپر کے ہجوم پر تیر چلانے کے لیے بھیجا لیکن اوپر سے بارش کی طرح تیر آتے تھے اور محمد کے تیرانداز پیچھے ہٹاتے تھے، محمد نے حکم دیا کہ فوری طور پر بڑی کمانے تیار کی جائیں جن سے نکلے ہوئے تیر دور سے دیوار کے اوپر تک پہنچ جائیں۔
محمد اپنی ایک سالار کے ساتھ قلع کے ارد گرد گھوم رہا تھا ،وہ گھوڑے پر سوار تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کوئی ایسی جگہ نظر آ جائے جہاں سے دیوار توڑنے کی کوشش کی جائے یا کوئی اور ذریعہ نظر آجائے، محمد چونکہ سلطان تھا اور اس لشکر کا کمانڈر بھی تھا اسلئے سلجوقی پرچم بھی اس کے ساتھ تھا اس کے پیچھے دائیں بائیں اور آگے اس کے سوار محافظ تھے جنہوں نے اسے حصار میں لے رکھا تھا۔
 پرچم اور محافظ دو ایسی نشانیاں تھیں کہ دور سے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ بادشاہ سلطان ہے یا اس لشکر کا سپہ سالار ہے، پھر دشمن کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسی پر حملہ کیا جائے یا زیادہ تر تیروہیں پھینکے جائیں اور اسے مارا جائے تاکہ پرچم گرپڑے، پرچم گرنے کی صورت میں لشکر کے کماندار یا بادشاہ کے مارے جانے کی صورت میں پورا لشکر بددل ہو کر پسپا ہو جایا کرتا تھا۔
محمد کے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا وہ جدھر جاتا تھا تیر ادھر ہی زیادہ آتے تھے، لیکن وہ تیروں کی زد سے باہر تھا، چلتے چلتے وہ ایک درخت کے قریب پہنچا تو ایک تیر درخت کے تنے میں آن لگا، اور وہیں کُھب گیا، وہاں تو تیروں کی بارش آرہی تھی اس لیے ایک ایک تیر کو دیکھنے کا کوئی مطلب نہیں تھا، لیکن یہ تیر جو درخت کے تنے میں زمین سے ذرا اوپر لگا تھا محمد کی نظروں میں آگیا، اس تیر کے ساتھ کوئی کاغذ یا کپڑا بندھا ہوا تھا ،محمد رک گیا اور اس نے ایک محافظ سے کہا کہ یہ تیر تنے سے نکال لائے، محافظ گھوڑے سے اترا اور وہ تیر تنے سے نکال کر محمد کو دے دیا۔
 محمد نے ٹھیک دیکھا تھا ،تیر کے درمیان میں تہہ کیا ہوا ایک کاغذ یا چھوٹا سا کپڑا دھاگے سے لپٹا ہوا تھا، محمد نے جلدی جلدی سے دھاگا اتارا اور دیکھا یہ کاغذ جیسے باریک چمڑے کا چند انچ چوڑا اور اتنا ہی لمبا ٹکڑا تھا اور اس پر کچھ لکھا ہوا تھا ،محمد نے تحریر پڑھی، اس میں لکھا تھا کہ آج یا کل یا کسی بھی وقت شہر سے ایک الّو اڑے گا جو آپ کے لشکر کی طرف آئے گا اور شاید یہ ان تمام لشکر کے اوپر سے چکر کاٹ کر شہر میں واپس آجائے یا کہیں غائب ہو جائے، یہ الّو جونہی نظر آئے اسے تیروں سے مار گرائیں، اور جہاں یہ گرے وہیں اس پر خشک گھاس وغیرہ ڈال کر آگ لگا دینا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔
یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عبدالملک بن عطاش نے کہا تھا کہ اس نے جو عمل کیا ہے اس سے سلجوقیوں کا پورا لشکر نہیں تو لشکر کا کمانڈر اندھا ہو جائے گا، اگر آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا تو ضرور ہی ہوجائے گا ،اور پھر وہ جو بھی فیصلہ یا جو بھی کاروائی کرے گا وہ اس کے خلاف جائے گی۔
محمد نے اس پیغام کو بے معنی اور فضول سمجھ کر پھینک نہ دیا، اسے معلوم تھا کہ باطنی اور خصوصاً عبدالملک بن عطاش کالا جادو جانتے ہیں اور انہوں نے ضرور کچھ عمل کیا ہوگا اور یہ پیغام اپنی ہی کسی جاسوس نے باہر پھینکا ہوگا۔
محمد نے یہ پیغام اپنے سالاروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تمام لشکر میں یہ پیغام پہنچا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ جونہی انہیں آلو اڑتا ہوا اپنی طرف آتا نظر آئے اس پر تیر چلائیں اور اسے گرانے کی کوشش کریں، اور وہ جب گر پڑے تو اس کو وہی جلاڈالیں،،،،،،، پیغام فوراً تمام لشکر تک پہنچ گیا۔
 اس پیغام کے بعد لشکر کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ شہر کی دیوار پر کھڑے تیراندازوں پر تیر چلاتے تھے اور بار بار اوپر بھی دیکھتے تھے، وہ دن گزر گیا اور رات کو بھی سپاہی اوپر دیکھتے رہے، پھر اگلا دن طلوع ہوا ایک طرف سے شور اٹھا تھا کہ وہ الو اڑا،،،،سب نے دیکھا کہ ایک الّو شہر میں سے اڑا اور ایک طرف سے سلجوقی لشکر کے اوپر گیا، لشکر کے مجاہدین نے اس پر تیر چلائے اور اتنے تیر چلائے کہ اس کا بچ کر نکلنا ممکن نہیں تھا، الّو گرا اور سب نے دیکھا کہ چار پانچ تیر اس کے جسم میں اتر گئے تھے۔
 محمد کو اطلاع دی گئی تو وہ گھوڑاسرپٹ دوڑاتا وہاں پہنچا ،اس نے دیکھا کہ الّو کا منہ کالے دھاگے سے بندھا ہوا تھا ،محمد نے حکم دیا کہ ابھی گھاس وغیرہ لائی جائے اور آگ لگا دی جائے، وہاں خشک گھاس کی کمی نہیں تھی مجاہدین گھاس لے آئے اور خشک ٹہنیاں بھی اٹھا لائیں اور الو کے اوپر ڈھیر کرکے آگ لگادی ۔
کیا اللہ نے نور کی دعا سن لی تھی؟،،،،، کیا یہ معجزہ تھا؟،،،،، آخر یہ کون تھا جس نے دشمن کے گھر سے یہ پیغام پھینکا تھا؟،،،،، بہرحال یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ خطرہ ٹل گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر مزمل بن یونس شمونہ اور شافعیہ الموت کی طرف جارہے تھے الموت میں خطرہ شمونہ اور مزمل کے لئے تھا حسن بن صباح کے خاص آدمی ان دونوں کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے ،مزمل حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا اور حسن بن صباح نے اس کا دماغ آلٹا چلا گیا تھا اور وہ واپس مرو یہ ارادہ لے کر گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا۔
شمونہ حسن بن صباح کی خاص چیز بنی رہی تھی ،اب شمونہ جوان نہیں تھی بلکہ جوانی کی آخری حد پر تھی، پھر بھی حسن بن صباح اوراسکے آدمی اسے اچھی طرح پہچان سکتے تھے ،اس طرح مزمل اور شمونہ نے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا تھا مزمل نے داڑھی پوری طرح بڑھا لی تھی اور شمونہ نقاب میں تھی، شافعیہ کا چہرہ بھی نقاب میں تھا، لیکن انہیں الموت پہنچ کر کہیں نا کہیں بے نقاب ہونا ہی تھا ،انہوں نے اپنے بچاؤ کی کچھ ترکیبیں سوچ لی تھیں لیکن جو خطرہ انہوں نے مول لیا تھا وہ کوئی معمولی خطرہ نہیں تھا، پہلے دن کے سفر کے بعد انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد ایک بڑی خوبصورت جگہ پر قیام کیا یہ ایک ندی تھی جس کے کنارے انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا انہیں رات بھر وہی رکنا تھا گھنے درخت تھے خودرو پودے تھے اور سامنے ایک ٹیکری تھی وہ بھی سبزے سے ڈھکی ہوئی تھی، انہوں نے گھوڑوں کو کھول دیا گھوڑوں نے پانی پیا اور پھر گھاس کھانے لگے۔
شام تاریک ہوگئی تو انہوں نے دو مشعلیں جلائیں اور زمین میں گاڑ دیں ،کھانا کھولا اور دستر خوان بچھا دیا ،چاروں کی نظریں دسترخوان پر لگی ہوئی تھیں مزمل نے ویسے ہی اوپر دیکھا تو اسے سات آٹھ قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا، اس آدمی کے قدموں کی آہٹ نہیں سنائی دی تھی ،یوں معلوم ہوا جیسے زمین میں سے اوپر سے اٹھ آیا ہو ،یہ شک بھی ہوتا تھا کہ یہ کوئی جن ہے جو انسان کے روپ میں ظاہر ہوا ہے، اس نے لمبی سفید عبا پہن رکھی تھی اور اس کے سر پر عمامہ تھا ،وہ جوان سال تھا اور اس کی داڑھی بڑی اچھی طرح تراشی ہوئی تھی ،وہ جس لباس میں تھا یہ اس علاقے کے معززین کا لباس تھا۔
او بھائی!،،،،،، مزمل نے اسے کہا۔۔۔ دسترخان تیار ہے آؤ ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ ۔
میں مہمان نہیں۔۔۔ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔میں پہلے سے یہاں موجود ہوں تم لوگ ابھی ابھی پہنچے وہ اس لیے تم مہمان ہوں اور میں میزبان ہوں ،ہم دس آدمی ہیں جو اس ٹیکری کے دوسری طرف پڑاؤ کی ہوئے ہیں، کھانا مجھے پیش کرنا چاہیے تھا۔
مزمل اور شمونہ اسے بڑی ہی غور سے دیکھ رہے تھے یہ دونوں ہلتی ہوئی جھاڑیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔
 میں ابھی آیا ۔۔۔اس سفید پوش نے کہا۔۔۔ اور وہاں سے چل پڑا۔
یہ ٹیکری کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی مٹی کے اونچے ڈھیر کی مانند تھی وہ آدمی اس ٹیکری کے پیچھے چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا ،اس کے واپس آنے تک مزمل اور اس کی پارٹی حیران و پریشان رہے اور یہ لوگ کچھ بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ شخص آیا کیوں تھا اور یہ چلا کیوں گیا ہے ،خطرہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ ایک بڑی ہی خوبصورت اور نوجوان لڑکی تھی، اس آدمی نے کہا تھا کہ وہ دس آدمی ہیں، دس آدمی ان دو آدمیوں پر آسانی سے قابو پا سکتے تھے اور شمونہ اور شافعیہ کو اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے۔
وہ آدمی آیا تو اس نے ہاتھوں میں کچھ اٹھا رکھا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی وہ ان لوگوں کے پاس آکر دوزانو ہوا اور جو کچھ اس نے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ ان کے دستر خوان پر رکھ دیا ،وہ بھنے ہوئے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے، وہ چمڑے کا ایک چھوٹا سا مشکیزہ بھی لایا تھا ،بڑا ہی خوبصورت مشکیزہ تھا اور یہ بھرا ہوا تھا، پانی ہی ہوسکتا تھا۔
یہ مشکیزہ اپنے پاس رکھیں۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ یہ ایک خاص شربت ہے، یہ پی کر دیکھیں تمہاری طبیعت ہشاش بشاس ہوجائے گی اور تھکن کا تو نام و نشان نہیں رہے گا، میں تمہارے کھانے میں اور زیادہ مخل نہیں ہونا چاہتا۔
وہ اٹھا اور چلا گیا ،وہ تیکری کی اوٹ میں ہوا تو مزمل اٹھا اور دبے پاؤں تیز تیز چلتا ٹیکری پر چڑھ گیا اور ٹیکری کے اوپر جا کر لیٹ گیا۔
مزمل نے دیکھا کہ ٹیکری سے بیس پچیس قدم دور تین مشعلیں جل رہی تھیں، اسی کے لباس جیسے دس آدمی نیم دائرے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، مزمل چھپتا چھپاتا پھونک کر قدم رکھتا ٹیکری سے اتر گیا وہ ان لوگوں کی باتیں سننا چاہتا تھا۔
جب وہ نیچے اترا تو وہ کھڑا نہ رہا بلکہ بیٹھ کر آہستہ آہستہ سرک گیا ،وہ آدمی جو انہیں گوشت دے گیا تھا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا پہنچا تھا ،وہ ہنس بھی رہا تھا ،مزمل اٹھا اور جھک جھک کر ایک چوڑے تنے والے درخت تک جا پہنچا اور اس طرح چھپتا چھپاتا ان کے قریب چلا گیا جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتا تھا۔
کمال کی چیز ہے بھائیو!،،،،، اس آدمی نے کہا ۔۔۔دوسری بھی بُری نہیں لیکن اس کی عمر شاید تیس برس سے زیادہ اوپر ہوگئی ہے پھر بھی اچھی چیز ہے ۔
شیخ الجبل کی نظر کرم ہے بھائی!،،،، ایک نے کہا۔۔۔ یہ اسی کا کرم ہے کہ ہمیں سفر میں اتنی خوبصورت چیز مل گئی ہے ۔
اب سوچوں انہیں یہاں لائیں کیسے؟،،،، ایک نے کہا۔
یہ اپنی چیزیں سمجھو بھائی!،،،،، ایک اور بولا۔۔۔ دو آدمی ہمارا کیا بگاڑ لیں گے، پہلے کھانا کھا لو اور انہیں بھی کھا لینے دو، مشکیزہ بھی انہیں ہمارا یار دے آیا ہے تھوڑی دیر بعد انہیں اس دنیا کی ہوس بھی نہیں رہے گی۔
مزمل نے اور کوئی بات نہ سنی اس کا شک رفع ہو گیا تھا ،وہ جس طرح چھپتا چھپاتا وہاں تک پہنچا تھا اسی طرح دبے پاؤں جھکا جھکا ایک درخت سے دوسرے درخت تک اوٹ میں چلتا ٹیکری تک پہنچا اور ٹیکری کے اوپر جانے کی بجائے ایک طرف سے ٹیکری سے گھوما اور اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا۔
اس کی غیر حاضری میں شمونہ نے مشکیزہ کھولا تھا اور پھر اسے سونگھا تھا، اس کا تو لڑکپن اور نوجوانی کا زیادہ حصہ ان باطنیوں کے ساتھ اور حسن بن صباح کے ساتھ گزرا تھا، اس نے مشکیزہ سونگھا تو اٹھی اور مشکیزہ ندی میں انڈیل دیا۔
ہوشیار رہنا بھائی !،،،،مزمل نے کہا ۔۔۔شیخ الجبل کے آدمی ہیں،،، حسن بن صباح کے،،،، اب یہ دیکھنا ہے کہ حسن بن صباح کے یہاں ان کی کیا حیثیت ہے، اور یہ کہاں جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے فدائی ہوں لیکن ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
باطنی ہی معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ میں نے مشکیزہ کھول کر سونگھا اس میں حشیش ملا ہوا شربت تھا ،میں ندی میں انڈیل آئی ہوں، اب یہ آدمی آئے تو انہیں ہی بتائیں گے کہ ہم نے مشکیزہ خالی کردیا ہے اور شربت واقعی اچھا تھا۔
ان کا گوشت بھی نہ کھاؤ۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ اس میں بھی کچھ ملا ہوا ہوگا، میں سمجھتا ہوں ان کی نظر شافعیہ اور شمونہ پر ہے ،ہم سے انہوں نے کیا لینا ہے۔
مزمل نے گوشت کے تمام ٹکڑے بیٹھے بیٹھے ندی میں پھینک دیئے اور اپنا کھانا کھا لیا ،اتنے میں ان دس آدمیوں میں سے تین آدمی آگئے ،مزمل اور بن یونس نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور وہ تینوں بیٹھ گئے ۔
مشکیزہ والا شربت پی لیا ہے ؟،،،،،ایک نے پوچھا۔
پی لیا ہے۔۔۔ مزمل نے جواب دیا اور مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔اس شربت نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم اور تم آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایسے دو مشکیزے اور دے دو ہم وہ بھی پی جائیں گے، مزمل نے ان کے ذرا فریب سرک کر رازدارانہ لہجے میں کہا ہم شاہ در سے آرہے ہیں اور شیخ الجبل کے پاس جا رہے ہیں ،ہم دونوں بھی فدائی ہیں اس لڑکی کو شیخ الجبل کی خدمت میں پیش کرنا ہے۔
تم لوگ محاصرے سے کس طرح نکل آئے ہو؟،،،،، ایک سفید پوش نے پوچھا۔
ہم محاصرے سے ایک روز پہلے نکل آئے تھے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ محاصرے کی اطلاع تو ہمیں پہلے ہی مل چکی تھی، شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے پیرو مرشد عبدالملک بن عطاش نے ہمیں ایک پیغام دے کر امام کی طرف بھیجا ۔
پیغام کیا ہے؟،،،،، ایک نے پوچھا۔
یہ جانتے ہوئے کہ تم ہمارے ہیں بھائی ہو یہ راز تمہیں نہیں بتاؤں گا۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ اور تم مجھ سے پوچھو گے بھی نہیں، اپنا آپ تم پر اس لئے ظاہر کردیا کہ تمہارے متعلق یقین ہوگیا ہے کہ تم اپنی ہی آدمی ہو ۔
کیا شاہ درکے فدائی حملہ آوروں کے سالاروں کو ختم نہیں کر سکتے؟،،،،،،،، ایک اور سفید پوش بولا۔
کیوں نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ لیکن ہمیں حکم ہی کچھ اور دیا گیا ہے اور ہم اس حکم کی تعمیل کے لیے جارہے ہیں،،،،،،،اگر ہم دونوں کو حکم ملتا تو ہم برکیارق ،محمد اور سنجر کو اور انکے ایک دو سالاروں کو ختم کرچکے ہوتے۔
وہ ہم کرلیں گے۔۔۔ ایک سفید پوسٹ نے بے اختیار کہہ دیا،،،،،،،،دیکھتے ہیں محاصرہ کس طرح قائم رہتا ہے۔
 یہ وہی دس فدائی تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے بھیجے جارہے تھے اور ان کا کام یہ تھا کہ انہوں نے محمد اور اسکے سالاروں کو قتل کرنا تھا، ان کے قتل کا طریقہ پہلے بتایا جاچکا ہے یہ ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 یہ تینوں فدائی کچھ دیر باتیں کرکے اور اپنی اصلیت بے نقاب کرکے چلے گئے، ان کے جانے کے بعد مزمل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا آج رات سونا نہیں، بتایا نہیں جا سکتا کہ آج رات کیا ہو جائے۔
 اس رات بہت کچھ ہوگیا ،انہوں نے مشعلیں جلتی رکھیں ،انہیں جلائے رکھنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ درندے آگ کے قریب نہیں آتے، اس کے علاوہ انہیں روشنی کی ضرورت تھی۔
آدھی رات سے کچھ پہلے تک سبھی جاگ رہے تھے، وہ بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ لیٹے ہوئے تھے، انہیں اس طرح محسوس ہوا جیسے کوئی ٹیکری کے قریب آرہا ہے ،وہ جنگل کا کوئی جانور اور درندہ بھی ہو سکتا تھا، لیکن مزمل اور بن یونس کو کچھ اور ہی تھا ،مزمل نے سرگوشی میں سب سے کہا کہ اس طرح آنکھیں بند کر لیں جیسے گہری نیند سوئے ہوئے ہوں۔
وہ دو آدمی تھے مزمل اور بن یونس نے آنکھیں ذرا سی کھول کر دیکھ رہے تھے، انہوں نے لیٹنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ مزمل تھا اس کے قریب شافعیہ تھی، پھر یونس تھا اور اس  سے ذرا پرے شمونہ تھی، دونوں آدمی دبے پاؤں ان کے بالکل قریب آگئے، ایک مزمل کے اوپر جھکا اور دوسرا بن یونس کے اوپر ،دونوں نے آہستہ آہستہ خراٹے لینے شروع کر دیئے۔
 پھر دونوں اکٹھے ہو کر شافعیہ پر جھوکے وہ رکوع کی پوزیشن میں چلے گئے تھے، ایک نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی،،،،،،،، انہیں کوئی ہوش نہیں،،،،،، آرام سے اٹھاؤ۔۔۔۔ اور وہ دونوں اپنے اپنے بازو شافعیہ کے نیچے کرکے اٹھانے لگے۔
 پیشتر اس کے کہ ان دونوں کو پتہ چلتا کہ یہ کیا ہوا ہے ایک ہی پیٹھ میں مزمل کا اور دوسرے کی پیٹھ میں بن یونس کا خنجر اتر چکا تھا، ان دونوں نے ان پر ایک ایک اور وار کیا، اور پھر دونوں کو گھسیٹ کر ندی میں پھینک دیا ،ندی تو ایسی گہری نہیں تھی لیکن پہاڑی ندی ہونے کی وجہ سے اس کا بہاؤ بڑا تیز تھا،ندی چند قدم ہی دور تھی، مزمل اور بن یونس بڑے اطمینان سے آکر پھر اسی طرح لیٹ گئے۔
 زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تین اور سفید پوش آگئے، انہوں نے بھی وہی کاروائی کی جو پہلے ان کے دو ساتھی کر چکے تھے ،ان میں سے بھی ایک نے سرگوشی کی یہ ہوش میں معلوم نہیں ہوتے، دوسرے نے سرگوشی میں کہا کہ معلوم نہیں وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں ،پھر یہ بھی شافعیہ کو اٹھانے کے لئے جھکے اور پھر مزمل اور بن یونس کے خنجر حرکت میں آگئے، وہ تینوں فدائی تھے جو زندگی اور موت کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، لیکن ان کے ساتھ جو ہوا وہ ان کے لیے غیر متوقع تھا ،اگر انہیں معلوم ہوتا یا ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ اپنے ہتھیار ہاتھوں میں تیار رکھتے لیکن ان پر جو حملہ ہوا وہ اچانک تھا۔
 مزمل بھائی!،،،،،، بن یونس نے کہا ۔۔۔اب باقی جو پانچ رہ گئے ہیں ان کا انتظار یہاں نہ کرو، چلو ان لڑکیوں کو بھی تلوار یا خنجر دو پہلے وہ آئے تھے اب ہم چلتے ہیں۔
 پیشتر اس کے کہ باقی پانچ یا ان میں سے دو تین آتے ان چاروں نے جلدی جلدی سے ایک اسکیم تیار کرلی اور سامنے والی ٹیکری کے اوپر چلے گئے ،دونوں لڑکیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھی ،مزمل اور بن یونس خنجروں سے مسلح تھے۔
مزمل کی قیادت میں اس کے ساتھی چھپتےچھپاتے آگے بڑھتے گئے اور اتنے آگے چلے گئے جہاں سے وہ ان کی باتیں سن سکتے تھے ،وہ اپنے ساتھیوں کی باتیں کر رہے تھے۔
 ایک نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے ہمارے اپنے بھائی ہمیں ایک لڑکی کے پیچھے دھوکا دے رہے ہیں۔
سب چلو اور ان کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک نے کہا ۔۔۔اگر وہ کوئی گڑبڑ کر رہے ہوئے تو انہیں یہیں ختم کر دیں گے۔
پانچوں چل پڑے، مزمل اور اس کے ساتھی وہیں جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے وہ پانچوں ان کے قریب سے گزرے، مزمل کے اشارے پر سب نے ان پر خنجروں اور تلواروں سے حملہ کردیا ،مزمل کی بدقسمتی کی اس کا پاؤں کسی جھاڑی میں یا درخت کی جڑ کے ساتھ اٹک گیا اور وہ منہ کے بل گرا، اس کے ساتھیوں نے حملہ بھرپور کیا تھا لیکن ان پانچ سفید پوشوں میں سے ایک الگ ہوگیا اور وہ مزمل کے قریب اس حالت میں آیا کہ مزمل اٹھ رہا تھا ،اس سفید پوش فدائی نے بڑی تیزی سے اپنا خنجر نکالا اور مزمل پر وار کیا، مزمل نے وار تو بچا لیا لیکن خنجر اسکے دائیں کندھے میں اتر گیا اور یوں لگا جیسے ہنسلی کٹ گئی ہو،مزمل نے جوابی وار ایسا کیا کہ فدائی پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکا مزمل نے بڑی تیزی سے دو تین خنجر مارے اور اسے گرا لیا ،اس کے ساتھیوں نے باقی چار کو گرا لیا اور ان سب پر اتنے وار کئے گئے کہ ان کا زندہ رہنا ممکن ہی نہ رہا۔
انہوں نے بہت بڑا اور خطرناک شکار مارا تھا لیکن مزمل ایسا زخمی ہوا کہ اس کا خون امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا ،وہ اب آگے سفر کرنے کے قابل نہیں رہا تھا ، بن یونس نے اسکے زخم میں کپڑا ٹھوس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور سب نے فیصلہ کیا کہ یہیں سے اور اسی وقت واپسی کا سفر اختیار کیا جائے تاکہ دوپہر تک وسم کوہ پہنچ جائیں، مزمل کا اتنا زیادہ خون ضائع نہیں ہونا چاہیے تھا، انھوں نے اسی وقت رخت سفر باندھا اور واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے، انہوں نے ان دس فدائیوں کا سامان دیکھا ہی نہیں، نہ ہی اسے یہ ہاتھ لگانا چاہتے تھے، البتہ ان کے گھوڑے اور ہتھیار اپنے ساتھ لے گئے، یہ ان کا مال غنیمت تھا انہیں غالبا یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ انہوں نے ان دس فدائیوں کو قتل کرکے شاہ در کے محاصرے میں کیسی جان ڈال دی ہے، یہ دس فدائی وہاں پہنچ جاتے تو محمد بھی نہ ہوتا اور وہاں کے سالار بھی مارے جاتے، پھر محاصرے نے بری طرح ناکام ہونا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محاصرہ بڑا ہی سرگرم ہوگیا تھا لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی، چونکہ مرو کا لشکر انتقام سے پاگل ہوا جارہا تھا اس لیے سالاروں کو یہ مشکل پیش نہیں آئی تھی کہ وہ انہیں آگے کس طرح دھکیلیں، بلکہ مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ یہ لشکر بار بار دیوار کے قریب یا دروازوں کی طرف اٹھ دوڑتا تھا اور اسے روکنا پڑتا تھا، وہاں شجاعت اور بے خوفی کی تو ضرورت یقیناً تھی لیکن عقل کے بغیر شجاعت بڑی ہی نقصان دہ تھی۔
یہاں تک دلیرانہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات دیوار کے قریب جاکر کمند اوپر پھینکی گئی کمند چھوٹی دو برجوں کے درمیان اٹک گئی اور دو تین مجاہدین رسّہ پکڑ کر اوپر جانے لگے، دیوار کے اوپر سے تیر آتے تھے اور ان تیر اندازوں کو دور رکھنے کے لئے سلجوقی تیر اندازوں نے بے پناہ تیر پھینکنے شروع کردیئے، مجاہدین رسّہ چڑھتے گئے لیکن کچھ دور سے دیوار والے تیر اندازوں نے رسّہ چڑھتے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کردیے اور برچھیاں بھی پھینکی گئیں اور ان پر جلتی ہوئی مشعلیں بھی پھینکیں، مجاہدین زخمی بھی ہوئے اور دو کے کپڑوں کو آگ لگ گئی، مگر اس آگ کے باوجود اوپر ہی جاتے رہتے تو رسّے کو بھی آگ لگ سکتی تھی، بہرحال اوپر جانا ممکن نہ رہا اور یوں کچھ مجاہدین شدید زخمی ہو کر رسّی سے اتر آئے۔
شہر کے دو اطراف پہاڑی تھی اس طرف بھی تیر اندازوں کو لے جایا گیا لیکن وہاں مشکل یہ تھی کہ پہاڑی کے دامن اور شہر کی دیوار کے درمیان فاصلہ بہت تھوڑا تھا ،مجاہدین پہاڑی پر چڑھتے تھے تو شہر پناہ کے تیر انداز ان پر تیروں کی بارش برسا دیتے تھے۔
دروازے توڑنے کی بھی کوشش کی گئی، مجاہدین کلہاڑوں سے توڑنے کے لئے دروازوں تک پہنچ گئے لیکن آدھے ہی زندہ واپس آ سکے، دروازہ توڑنے کا ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ درختوں کے بہت وزنی ٹہن کاٹے گئے ان سے شاخیں وغیرہ اتار دی گئیں اور بےشمار مجاہدین نے ایک ٹہن کو کندھوں پر اٹھایا اور دوڑتے ہوئے ایک دروازے تک گئے اور اس ٹہن کا اگلا سرا دروازے پر مارا ،دروازے اتنے مضبوط تھے کہ نہ ٹوٹ سکے، توڑے تو جاسکتے تھے لیکن اوپر سے برچھیاں اور تیر آتے تھے۔
آخر منجنیقیں استعمال کی گئیں، یہ سب چھوٹی منجنیقیں تھیں جن میں زیادہ وزنی پتھر نہیں ڈالے جاسکتے تھے، بہرحال ہر منجنیق ایک من وزنی پتھر پھینک سکتی تھی۔
شہر پناہ کے ارد گرد گھوم پھر کر دیکھا گیا شاید کہیں سے ذرا سی دیوار کمزور ہو ایسی دو تین جگہیں دیکھی گئیں اور منجنیقوں سے وہاں پتھر مارے گئے لیکن دیوار اس قدر چوڑی تھی کہ اس میں شگاف ڈالنا ممکن نہیں تھا۔
ادھر قلعہ الموت میں حسن بن صاح  پیچ و تاب کھا رہا تھا ،وہ صبح و شام اس خبر کا منتظر رہتا تھا کہ اس کے ان فدائیوں نے جنہیں اس نے خود بھیجا تھا محمد اور اسکے تمام سالاروں کو قتل کردیا ہے اور خودکشی کرلی ہے ،لیکن ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا اور اسے ایسی کوئی خبر نہیں مل رہی تھی ،اسے شاہ در کے اندر سے خبر نہیں جا سکتی تھی کیونکہ شہر محاصرے میں تھا۔ اسے باہر کے جاسوس خبریں پہنچاتے تھے، وہ یہ جواز تو قبول کرتا ہی نہیں تھا کہ قتل کا موقعہ نہیں ملا۔
اس نے آخر اپنے جاسوس بھیجے اور کہا کہ ان دس بھائیوں کا سراغ لگاؤ وہ کہاں چلے گئے ہیں، انہیں پتا نہ چلے درپردہ وہ یہ معلوم کرو کہ انہوں نے ابھی تک اپنا کام کیوں نہیں کیا۔
اس کے جاسوس قلعہ الموت سے شاہ در کے مضافات میں پہنچ گئے انہوں نے بہت تلاش کی، عمرو بھی گئے اور رے بھی گئے لیکن وہ دس فدائی انہیں کہیں نظر نہ آئے،آخر کسی اور نے جنگل میں سے گزرتے بکھری ہوئی ہڈیاں دیکھیں اور سفید عمامے اور  پھٹی ہوئی عبائیں دیکھیں ،کچھ اور نشانیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ کھوپڑیاں دیکھیں تو یہ پوری نہیں تھی یہ حسن بن صباح کے دس فدائین ہی ہو سکتے تھے جن کی لاشیں درندوں اور گدھوں نے کھا لی تھی، کچھ اور نشانیاں مل گئی اور حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی کہ فدائی اپنے ہدف تک پہنچ ہی نہیں سکے تھے۔
تاریخ میں شہادت ملتی ہے کہ ضعیف العمر عبدالملک بن عطاش کسی کسی وقت دیوار پر جا کھڑا ہوتا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بلند آواز سے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتا رہتا اور سلجوقی لشکر کی طرف پھونک مارتا رہتا تھا ،معلوم ہوتا ہے اس کا سفلی عمل یا اسکا جو کوئی عمل اس کے ہاتھ میں تھا ناکام ہوچکا تھا ،وہ یہ فقرہ بار بار کہا کرتا ۔۔۔۔۔دشمن آنکھوں سے اندھا نہ ہوا تو عقل سے اندھا ہو جائے گا۔
محاصرے کو تین چار مہینے گزر گئے تو شاہ در والوں نے ایک بڑی دلیرانہ کاروائی شروع کر دی ،رات کے وقت شہر کا کوئی ایک دروازہ کھلتا اور اس میں سے دو سو یا تین سو آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح بڑی تیزی سے باہر نکلتے اور بالکل سامنے سلجوقی لشکر پر ٹوٹ پڑتے، جس قدر نقصان کر سکتے کرکے اسی تیزی سے واپس چلے جاتے تھے، ان کا اپنا جانی نقصان تو ہوتا تھا لیکن سلجوقی لشکر کا جانی نقصان کئی گناہ زیادہ ہوتا تھا ،بے شمار سلجوقی شدید زخمی بھی ہوجاتے تھے، تیسری چوتھی رات شاہ در کے دروازے سے ایسا ہی حملہ اچانک ہوتا اور پھر واپس چلا جاتا تھا، ان کا انداز بگولے جیسا ہوتا تھا ،یہ دلیرانہ کاروائی ڈیڑھ دو مہینے چلتی رہی آخر محمد نے دیکھا کہ محاصرہ طول پکڑ رہا ہے اور ذرا سی بھی کامیابی نہیں ہو رہی تو اس نے حکم دیا کی منجنقیں شہر کے اردگرد لگا کر کم وزنی پتھر شہر کے اندر پھینکے جائیں اور اس کے ساتھ ہی فلیتے والے تیر آگ لگا کر مسلسل اندر پھینکے جاتے رہے۔
دو تین مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شہر سے جو آدمی حملہ کرنے کے لئے باہر آتے تھے ان میں سے بعض اتنے زخمی ہوتے تھے کہ واپس نہیں جا سکتے تھے، ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ شہری محاصرے سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ محاصرہ جلدی ٹوٹ جائے، یا شہر محاصرہ کرنے والوں کے حوالے کردیا جائے ،شہری ضروریات زندگی سے محروم ہوگئے تھے اور زیادہ نقصان تاجروں اور دکانداروں کا ہو رہا تھا جنہیں باہر سے مال مل ہی نہیں رہا تھا۔ مورخوں نے لکھا ہے، یہ تھی وجہ کہ محمد نے شہریوں کو اور زیادہ پریشان کرنے کے لیے شہر پر پتھر اور فلیتے والے آتشی تیر برسانے شروع کر دیئے ،محاصرے کو آٹھ نو مہینے ہو چلے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک صبح شہر کا ایک دروازہ کھلا اور ایک آدمی باہر آیا جس کے ہاتھ میں سفید جھنڈا تھا ،باہر آتے ہی اس کے پیچھے دروازہ پھر بند ہو گیا، یہ آدمی سلجوقی لشکر کے قریب آگیا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ وہ سلجوقی سلطان کے لیے ایک پیغام لایا ہے۔
ایک سالار کو جو وہاں کہیں قریب ہی تھا اطلاع دی گئی ،سالار آیا اور وہ اس آدمی کو سلطان محمد کے پاس لے گیا ،یہ پیغام قلعے کے حاکم احمد بن عبدالملک کی طرف سے تھا ،اس نے لکھا تھا کہ ہم لوگ تمہارے ایک اللہ اور ایک رسول اور ایک قرآن کو مانتے ہیں، اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آخری رسول ہیں، اس کے بعد ہم شریعت کی پوری پابندی کرتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں آزادی سے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا رہا ،ہمارا اختلاف صرف امامت پر ہے آپ ہمارے امام کو نہیں مانتے تو یہ اتنی بڑی بات نہیں کیونکہ امام نبی یا رسول نہیں ہوتا، پھر ہم اطاعت قبول کرتے ہیں، تو کیا شریعت میں جائز ہے کہ ایک ہی مذہب کا ایک فرقہ اطاعت قبول کرلے تو اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور اسے جینے کے حق سے محروم رکھا جائے؟ 
چونکہ اس پیغام میں اطاعت کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے اپنا رویہ کچھ نرم اور صلح جُو کرلیا ،لیکن اس میں چونکہ مذہب کا ذکر بھی تھا اس لئے محمد نے بہتر سمجھا کہ علماء سے فتویٰ لے لیا جائے، محمد نے پیغام کا جواب دیا کہ وہ اپنے علماء سنت والجماعت سے فتوی لے کر فیصلہ کرے گا۔
 اس موقع پر علمائے دین نے اپنا وہی کردار پیش کیا جو آج تک چلا آرہا ہے، ابوالقاسم رفیق دلاوری نے لکھا ہے کہ علماء اس مسئلے پر متحد اور متفق نہ ہوئے بعض علماء نے تو یہ فتوی دے دیا کہ حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے اس لیے اس پر تشدد جائز نہیں، بعض علماء نے کوئی بھی فتوی دینے سے معذوری کا اظہار کردیا ،اس وقت ایک بڑے ہی مشہور عالم دین جن کا نام شیخ ابوالحسن علی بن عبدالرحمن تھا انہوں نے فتوی دیا کہ باطنی اسلام کا فرقہ نہیں بلکہ ان کے عقائد خلاف اسلام ہیں اور ان کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا قتل واجب ہے، اور حالات و واقعات گواہ ہیں کہ باطنی قتل و غارت گری میں یقین رکھتے ہیں اور ان میں ابلیسیت کا عنصر غالب ہے، انہوں نے فتوے میں یہ بھی لکھا کہ باطنی اپنے امام کا حکم مانتے ہیں اور شریعت کو الگ رکھتے ہے، یہ فرقہ ان چیزوں کو بھی حلال قرار دیتا ہے جو شریعت اسلامی کی رو سے حرام قرار دی جا چکی ہے، لہذا اس فرقے کو بخشنا اسلام کے حق میں نہیں۔
 محمد نے یہ فتویٰ شاہ در احمد بن عبدالملک کی طرف بھیج دیا، شہر کے اندر سے ایک اور پیغام آیا جس میں لکھا تھا کہ حاکم قلعہ درخواست کرتا ہے کہ سلجوقی سلطان اپنے علمائے دین کو شہر کے اندر بھیجے تاکہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ بحث مباحثہ ہو سکے اور پھر یہ معاملہ کسی نتیجے پر پہنچایا جائے۔
اس وقت اصفہان کے قاضی ایک عالم دین قاضی ابوالاعلاء صاعد بن یحییٰ تھے جو شیخ الحنفیہ تھے،  محمد نے انہیں شاہ در بلوایا، قاضی بن یحییٰ آئے تو محمد نے انھیں بتایا کہ انھیں شادر کے اندر حاکم شہر کے پاس بھیجا جا رہا ہے، متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اصفہان کے اس قاضی کو شاہ در احمد بن عبدالملک کے مطالبے پر بھیجا گیا تھا کہ اس نے جو مسئلہ پیش کیا تھا اس مسئلہ پر شاہ در کے علماء سے بحث کرنی تھی تاکہ کسی نتیجے پر یا کسی فیصلے پر پہنچا جائے۔
 قاضی صاعد بن یحییٰ چار محافظوں کے ساتھ شہر کے اندر چلے گئے توقع تو یہ تھی کہ ان کا سارا دن شہر میں ہی گزر جائے گا کیونکہ مسئلہ بڑا نازک اور پیچیدہ تھا جس پر بحث اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی تھی، لیکن قاضی موصوف جلدی واپس آگئے اور سلطان محمد سے ملے۔
 سلطان محترم!،،،،،،، قاضی بن یحییٰ نے کہا۔۔۔۔ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور یہ شہر کسی نہ کسی طرح فتح کرنے کی کوشش کریں یہ باطنی انتہائی عیار لوگ ہیں، حاکم شہر کے چہرے پر میں نے ابلیسیت اور عیاری کا بڑا نمایاں تاثر دیکھا ہے ،انہیں کسی بھی شرعی مسئلے پر بات نہیں کرنی تھی اور نہ ہی یہ کوئی وضاحت چاہتے تھے، مجھ سے ان کے علماء نے بحث تو کی لیکن صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ کچھ اور چاہتے ہیں، میں نے یہ بھی اپنے دماغ اور تجربے سے معلوم کر لیا، اس شہر کا حاکم اور حاکم کا بوڑھا باپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی طرح یہاں سے ٹل جائیں یا انہیں اتنا وقت مل جائے کہ یہ شہر کو بچانے کی مزید تیاریاں کرلیں، یہ لوگ صرف اوقت اور مہلت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
 محمد کے ساتھ اسکے سالار بھی تھے، سالاروں نے قاضی صاعد بن یحییٰ کی تائید کی اور کہا کہ ان باطنیوں کو مزید مہلت نہ دی جائے۔
 قابل احترام قاضی اصفہان !،،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ میں آپ کے سامنے طفل مکتب ہوں، میرے دل میں اسلام اور شریعت کا احترام ہے، میں ڈرتا ہوں کہ میرا کوئی قدم اور کوئی کاروائی شریعت کے خلاف نہ ہو جائے ،آپ یہ بتائیں کہ انہوں نے یہ جو مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ باطنی مسلمان ہیں وغیرہ یہ کہاں تک صحیح ہے، اور کیا ہمیں شریعت اجازت دیتی ہے کہ انہیں ختم کیا جائے یا بخش دیا جائے؟ 
 کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔قاضی بن یحییٰ نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ یہ باطنی ابلیس کے پجاری ہیں، انہیں بخشنا غیر اسلامی فعل ہے، ان لوگوں کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ یہ شریعت کے قائم کئے ہوئے اصولوں کو توڑ موڑ کر قرآن کی خلاف ورزی اور توہین کر رہے ہیں،،،،،،،،،، آپ ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں۔
*ایک اور بات بتائیں ۔۔۔محمد نے پوچھا ۔۔۔کیا آپ نے یہ دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ اندر شہر کا کیا حال ہے، اور شہریوں کا ردعمل اور ان کی حالت کیا ہے؟*
 *ہاں سلطان !،،،،قاضی موصوف نے کہا۔۔۔ یہ تو مجھے صاف طور پر پتہ چل گیا ہے کہ شہر کی حالت بہت بری ہے اور شہری شہر کے حاکم کے پیچھے بری طرح پڑے ہوئے ہیں کہ محاصرے کسی نہ کسی طرح ختم کروایا جائے، یہ بات حاکم شہر نے خود بھی کہی ہے، اس نے انداز تو اپنا اختیار کیا تھا لیکن میں اصل بات سمجھ گیا ،اس نے کہا تھا کہ شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں آپ لوگوں نے اتنی سنگ باری کی ہے کہ کئی مکان ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اور لوگوں نے گھروں میں بیٹھنا اور سونا چھوڑ دیا ہے، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آتشی تیروں نے کئی مکان جلا ڈالے ہیں، اس نے یہ بھی کہا کہ امن وامان ختم ہو چکا ہے اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ رہی ہے،،،،،،،، میں نے شہر کی یہ حالت اپنی آنکھوں دیکھی ہے، حاکم شہر وقت اور مہلت چاہتا ہے کہ اس کے شہری ذرا سانس لے لیں، اور ان کا تعاون حاصل کرلیا جائے، اس کے ساتھ ہی حاکم شہر آپ کو دھوکہ دے کر باہر سے رسد منگوانا چاہتا ہے، آپ محاصرے میں شدت پیدا کردیں، فتح انشاء اللہ آپ کی ہوگی۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی