🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پچپن⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پچپن⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*زرتوش طنزیہ ہنسی  ہنس پڑا اور شافعیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔*
*میں نے تمہیں پہلی نظر دیکھا تو یقین نہیں آیا تھا کہ تم انسان ہو ۔۔۔زرپوش نے کہا۔۔۔۔ پھر یقین ہو گیا کہ تم انسان ہی ہو،،،،،، یہ بتا دو کہ تم یہاں اکیلی کس طرح آئی ہو، اور کس طرح راستہ بھول گئی ہو ،یہ سن لو کہ تم میری شرط پوری کئے بغیر یہاں سے جا نہیں سکوں گی، اگر جان کی بازی لگاؤ گی تو میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا،،،،، بولو کہاں سے آئی ہو اور کہاں جا رہی ہو۔*
شافعیہ گہری سوچ میں کھو گئی وہ سوچنے لگی کہ اس شخص کو اپنی اصلیت بتا دے اور یہ بھی کہ وہ اپنے چچا وغیرہ کے ساتھ ایک خزانہ اٹھانے گئی تھی، اور وہاں سب قتل ہو گئے ہیں، خزانے کے خیال سے شافعیہ کا دماغ روشن ہو گیا ،اس نے سوچا کہ اس شخص کو خزانے کا لالچ دیا جائے تو یہ بہت خوش ہوگا اور جان بخشی کر دے گا،،،،،،شافعیہ نے اسے خزانے کے متعلق سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی کہ کس طرح وہ بھی اپنے چچا کے ساتھ تھا اس غارتک گئی تھی، اور کس طرح کچھ ڈاکو اور لٹیرے آگئے جو جانتے تھے کہ یہاں خزانہ ہے، شافعیہ نے اسے یہ ساری روداد سنادی لیکن اپنے متعلق یہی بیان رکھا کہ وہ حسن صباح کی جنت کی حور ہے اور خزانے کے لالچ میں آ گئی تھی۔
میں تمہیں اس جگہ کا راستہ بتا دیتی ہوں۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ دو دنوں کی مسافت ہے وہاں اب سوائے کٹی اور جلی ہوئی لاشوں کے کچھ نہیں ہوگا ،جاؤ اور وہ بکس اٹھا کر لے آؤ۔
 بدقسمت اور بے عقل لڑکی!،،،،،، زرتوش نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں تم جھوٹ نہیں بول رہی تم جانتی ہو میں خزانے کی طرف چل پڑا تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گا، تم نے مجھے دھوکا نہیں دیا لیکن وہ سب لوگ جو اس غار میں خزانے پر مارے گئے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیا تھا، ہم لوگ اس خزانے کے لالچ میں کبھی نہیں آئے ان خزانوں پر بڑے بڑے جابر بادشاہ کٹ مرے ہیں۔
تم وہاں جاؤں تو صحیح۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔۔۔اب وہاں مرنے مارنے والا کوئی نہیں آئے گا، وہ جو آئے تھے وہ اس خزانے کے حصے دار تھے اور وہ تمام خزانہ خود لے جانا چاہتے تھے۔
میں کہہ رہا ہوں یہ لالچ مجھے نہ دو۔۔۔ زرتوش نے کہا۔۔۔ ہم لوگ تمہاری تہذیب سے تمہارے رہن سہن سے اور تمہاری شاہانہ طور طریقوں سے دور جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہیں، تم ہمیں جنگلی کہہ لو وحشی اور درندے کہہ لو لیکن ہم جو کچھ بھی ہیں اپنے آپ میں خوش اور مطمئن ہیں،،،،،،، تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ لوگ چھپا ہوا خزانہ اٹھانے گئے تو سب مارے گئے، بلکہ جل ہی گئے، ہمارے بزرگ ہمیں بتا گئے ہیں کہ کبھی کسی چھوپے ہوئے اور مدفون خزانے کے لالچ میں نہ آنا لوٹا ہوا خزانہ جہاں کہیں بھی چھپا کر رکھا جائے وہاں بدروحوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
یہ بدروحیں سانپوں کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہیں ،یا بڑے زہریلے بچھو بن جاتے ہیں، خزانے تک پہنچنے والے جونہی خزانے پر ہاتھ رکھتے ہیں سانہ یا بچھو نکل آتے ہیں اور ڈس انہیں اہیں ختم کر دیتے ہیں، کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ بد روحیں نہ ہوں تو وہاں جنات پہنچ جاتے ہیں ،جو انسانوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور خزانے کی حفاظت کرتے ہیں، تمہارے آدمیوں پر جن لوگوں نے حملہ کیا تھا انہیں بدروحیں یا جنات لائے تھے اور وہاں تک پہنچایا تھا ،چونکہ وہ بھی خزانہ اٹھانے گئے تھے اس لئے آپس میں لڑ مرے اور بدروحوں یا جنات نے مشعلوں سے انہیں جلا ڈالا، کیا تم نے کبھی سنا نہیں کہ مدفون خزانوں پر سانپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں؟ 
میں تمہیں جانے پر اکسا نہیں رہی۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔۔۔میں نے ایک خزانے کی نشاندہی کی ہے، کبھی دل میں آئے تو وہاں چلے جانا۔
میں وہاں کبھی نہیں جاؤں گا ۔۔۔زرتوش نے کہا ۔۔۔تم جس حسن بن صباح کو اللہ کا بھیجا ہوا امام کہتی ہو، اس کے بڑے ہی دلکش اثرات میرے قبیلے تک آئے تھے، مجھے بڑی ہی حسین لڑکیوں کے اور ایسے ہی خزانوں کے لالچ دیے گئے تھے، حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی اس امید پر آئے تھے کہ قبیلے کا سردار جال میں آ گیا تو سمجھو پورا قبیلہ ہاتھ آگیا ،میرا قبیلہ جنگجو ہے، شہسوار ہے، حسن بن صباح مجھے اور قبیلے کو اپنی طاقت بنانا چاہتا تھا ،میں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا ،ہمارے کچھ اپنے عقیدے ہیں۔
ہاں اسلام کا کچھ اثر قبول کیا ہے، وہ اس لئے کہ اسلام کوئی لالچ نہیں دیتا اسلام کوئی لالچ قبول نہیں کرتا ،اگر مسلمانوں کے سلطان حکمرانی کو دماغ پر سوار کرلیں اور ان کے امیر عمارت کو اپنا نشہ بنا لیں تو پھر حسن بن صباح جیسے ابلیس کامیاب نہ ہو تو کیوں نہ ہو، ان کی نسبت تو ہم جنگلی اچھی ہیں جنہوں نے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو قبول نہیں کیا۔
ایک بات سنو۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ تم باتیں کتنی اچھی اور اخلاقی کرتی ہو، لیکن ایک بے بس بھٹکی ہوئی اور کمزور سی لڑکی پر رحم نہیں کرتے۔
 تو نے مجھے حسن بن صباح سے ڈرانے کی کوشش کی ہے۔۔۔ زرتوش نے کہا ۔
اگر میں کہوں کہ میں مسلمان ہوں اور حسن بن صباح کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں تو میرے ساتھ تمہارا سلوک کیا ھوگا؟،،،،، شافعیہ نے کہا۔
میں کہوں گا تم مجھے دھوکا دے رہی ہو۔۔۔ زرتوش نے کہا۔۔۔ مجھے کچھ بھی کہہ لو، میں وحشی ہوں ،درندہ ہوں،،،،،،، میں دو راتیں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا ،کیا یہ رحم نہیں کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنا قیدی نہیں بنا رہا ؟،،،،،،،،تم مجھے اس خواہش سے محروم نہیں کر سکوں گی، تمہاری نجات اسی میں ہے کہ دو راتوں کے لئے مجھے قبول کر لو۔
شافعیہ پھر گہری سوچ میں ڈوب گئی، اسے اپنے حسن کا اچھی طرح اندازہ تھا، وہ جب اس سیاہ فام شخص کو دیکھتی تھی تو اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا ،سوچتے سوچتے اسے ایک روشنی نظر آئی۔
کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔زرتوش نے کہا۔۔۔ میں تم پر کوئی ظلم نہیں کر رہا، اس کے بعد تم آزاد ہو گی، اور یہ ایک مرد کا وعدہ ہے ۔
صرف آج کی رات ۔۔۔شافعیہ نے کہا۔۔۔ میری یہ شرط مان لو ،صرف آج کی رات صبح مجھے رخصت کر دینا۔
چلو مان لیا ۔۔۔زرتوش نے ہنستے ہوئے کہا ۔
کپڑا مجھے دے دو۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔
کپڑا صبح ملے گا ۔۔۔زرتوش نے کہا۔۔۔یہ کپڑا صبح تمہارا ہوگا ،رات کو میرا ہے ۔
اس دوران زرروش شراب ایک ایک گھونٹ پیتا رہا ،شافعیہ کو رضامند دیکھ کر اس نے کچھ اور شراب چڑھا لیا ،اس نے بڑے پیار سے شافعیہ کو بستر پر لٹا دیا، اس پر ایک تو شراب کا نشہ طاری تھا، اور اس کے ساتھ شافعیہ کے حسن و جوانی کا نشہ بھی شامل ہو گیا تھا ،وہ دیکھ نہ سکا کہ شافعیہ کا دایاں ہاتھ اپنی نیفے کے اندر چلا گیا ہے، زرتوش اسکے اوپر جھکا تو شافعیہ نے پوری طاقت سے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار دیا، زرتوش پیچھے ہٹا شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور خنجر ایک اور وار کیا، زرتوش پیٹھ کے بل گرا ،اس نے اپنے دونوں ہاتھ وہاں رکھ لئے جہاں اس کو خنجر لگے تھے، اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی خنجر صحیح مقام پر لگے تھے، خون کا فوارہ پھوٹ آیا تھا، شافعیہ اسے دیکھتی رہی ،زرتوش کے دونوں ہاتھ جو سینے پر رکھے ہوئے تھے ڈھیلے پڑ گئے اور اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔
 شافعیہ نے اسکے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا اور وہ کپڑا نکال لیا جس پر زرتوش نے کوئلے سے راستے بنائے تھے، یہ کپڑا اس نے اپنے کپڑوں کے اندر نیفے میں اڑس لیا، اب اسے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ زرتوش کے نوکر چاکر جاگ رہے ہوں گے۔
وہ آہستہ آہستہ باہر نکلی، باہر خاموشی تھی کسی اور خیمے میں روشنی نہیں تھی، وہ سب شاید سو گئے تھے اور وہ اس خیال سے سو گئے ہوں گے کہ ان کے سردار کو بڑا خوبصورت شکار مل گیا ہے، اور وہ اب شراب اور بدکاری میں مگن ہوگا ،شافعیہ  دبے پاؤں گھوڑں تک پہنچی۔
زین قریب ہی رکھی تھی، اس نے اپنے دونوں گھوڑوں پر زینیں رکھیں اور اچھی طرح کس لی، خیمے میں جا کر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور کمر کے ساتھ باندھ لی، باہر جاکر اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کے کھانے والے تھیلے بندھے ہوئے تھے اور ایک مشکیزے میں پانی اچھا خاصا موجود تھا، اب اسے پانی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ جنگل تھا اور جنگل میں پانی کی کمی نہیں ہوتی۔
اسے ایک خیال آ گیا ،یہ تو اس نے دیکھا نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے، وہ پھر خیمے چلی گئی ،دو دیے جل رہے تھے، شافعیہ نے کپڑا نیفے سے نکال کر اپنے سامنے زمین پر پھیلا دیا اور دیکھا کہ اسے کس طرف جانا ہے، یہ راستہ اچھی طرح دیکھ لیا کپڑا لپیٹ کر پھر نیفے میں اڑس لیا اور خیمے سے نکل آئی۔
وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور گھوڑا چل پڑا، لیکن اس نے گھوڑے کو زیادہ تیز نہ چلنے دیا تاکہ اس کے قدموں کی آواز خیموں کے اندر تک نہ پہنچ سکے، خاصی دور جا کر اس نے باگوں کو جھٹکا دیا تو گھوڑے کی رفتار تیز ہو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وسم کوہ میں امن قائم ہوچکا تھا، باطنیوں کی لاشیں گھسیٹ کر ایک قلعے سے دور چند ایک لمبے چوڑے گڑھے کھود کر ان میں پھینک دی گئیں، اور اوپر مٹی ڈال دی گئی تھیں، سالار اوریزی کے لشکر کے شہیدوں کو الگ الگ قبروں میں پورے احترام سے دفن کیا گیا تھا۔
سلطان برکیارق اپنے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ وسم کوہ پہنچ گیا تھا، اور تینوں بھائیوں نے سالار اوریزی ،مزمل آفندی اور بن یونس کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا تھا۔
لیکن سالار اوریزی !،،،،،،برکیارق نے پہلے روز یہاں پہنچ کر کہا تھا ۔۔۔صرف قلعہ سر کرکے ہمارا کام ختم نہیں ہوجاتا ،ہمارا مقصد یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے اثرات کو اور اس کے پھیلائے ہوئے غلط عقائد کو ختم کیا جائے، اس کے لیے قلعہ الموت کو سر کرنا ضروری ہے، ورنہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
آپ پوری سلطنت کا لشکر قلعہ الموت کے محاصرے کے لئے لے جائیں۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ آپ اس قلعے کو سر نہیں کر سکیں گے، اس لئے نہیں کہ باطنی بڑے زبردست جنگجو ہیں ،بلکہ وجہ یہ ہے کہ قلعہ بلندی پر بنایا گیا ہے اور اس کے تین اطراف سے دریا گزرتا ہے، آپ ایک بار اس قلعے کو دیکھ لیں۔
میں نے یہ قلعہ بڑی اچھی طرح دیکھا ہوا ہے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ میں خود کہا کرتا ہوں کہ اس قلعے کو سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے، لیکن سوچنے والی بات یہی ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے، وہ حسن بن صباح ہے، اگر اس شخص کو سر کرلیا جائے تو صرف قلعہ الموت ہی نہیں بلکہ ان باطنیوں کے تمام قلعے اور ان کے تمام اسرار ہمارے قدموں میں آ گریں گے، ہمیں تین چار ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جو قلعہ الموت میں داخل ہوکر حسن بن صباح کو اسی طرح قتل کردیں جس طرح حسن بن صباح کے فدائی ہمارے علماء اور حاکموں کو قتل کر چکے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں۔
میں آج تک کیا کہتا رہا ہوں ۔۔۔مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔دو جانباز تو یہاں بیٹھے ہیں، ایک میں ہوں اور دوسرا بن یونس، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم سیدھے جاکر حسن بن صباح کو قتل نہیں کر سکتے ،ہمیں کچھ جانبازیاں کرنی پڑیں گی، آپ اجازت دیں تو میں کچھ اور جانباز تیار کرلوں۔
 اس مسئلے پر بہت دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور یہ سب اس نتیجے پر پہنچے کہ جس طرح حسن بن صباح زمین دوز وار کرتا ہے اور سامنے لڑنے کے لیے نہیں آتا اسی طرح اسے ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار طے کرنا پڑے گا،،،،،،، تاریخ کے دامن میں جو واقعات اب تک محفوظ ہیں ان سے یہ شہادت ملتی ہے کہ مسلمان سالار اور دوسرے حاکم آپس میں اس قسم کی باتیں تو کر لیتے تھے لیکن عملی طور پر وہ ایسے طریقے اختیار نہیں کرتے تھے جو حسن بن صباح کے طریقوں کے توڑ پر ثابت ہو سکتے، مسلمان میدان جنگ میں لڑنے کی مہارت اور جذبہ رکھتے تھے، لیکن حسن بن صباح لشکروں کی دو بدو لڑائی کا قائل نہیں تھا، وہ سانپوں اور بچھوؤں کی طرح ڈنگ مارا کرتا تھا ،پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے فدائی تیار کر رکھے تھے اور وہ فدائی زہریلے ناگوں اور بچھوؤں جیسے ہی تھے۔
سلطان برکیارق نے اپنا ایک مسئلہ پیش کر دیا، اس نے کہا کہ اس کی صحت اس قابل نہیں رہی کہ سلطانی کے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے، مسلمان مورخو ں میں سے اکثر نے تو سلطان برکیارق کی بیماری کا ذکر ہی نہیں کیا، اور جن دو مسلمان مورخوں نے ذکر کیا ہے وہ اتنا ہی کیا ہے کہ سلطان برکیارق علیل ہو گیا تھا ،البتہ ایک یورپی تاریخ دان ہیمز سٹیفن نے تفصیلی سے ذکر کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہا تھا۔
اس نے لکھا ہے کہ سلطان برکیارق ایک باطنی لڑکی کے زیر اثر آ گیا تھا اور اس نے اس دوران بڑے غلط فیصلے کیے تھے، اور اپنی ماں تک کی بے ادبی کی تھی، برکیارق نے اس لڑکی کو جو اس کی بیوی بن گئی تھی اپنے ہاتھوں کو قتل کیا تھا، اور اس سے برکیارق کے ضمیر سے گناہ کا بوجھ اتر جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔
خانہ جنگی کا بوجھ بھی برکیارق  نے اپنے ضمیر پر لے رکھا تھا، اس نے اپنی ماں کے قدموں میں جا کر سر رکھا تھا اور معافیاں مانگی تھیں ،اس نے اللہ تبارک و تعالی کی بہت عبادت کی تھی اور وہ اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا رہتا تھا لیکن خانہ جنگی میں جو لوگ مارے گئے تھے، برکیارق اپنے آپ کو ان سب کا قاتل سمجھتا تھا ،اس نے سلطنت کے امور کے سلسلے میں بڑے اچھے فیصلے کئے تھے اور اس نے اپنی زندگی سلطنت کے استحکام کے لئے اور عوام کی خوشحالی کے لیے اور حسن بن صباح کی تباہی کے لئے وقف کردی تھی، اسے علماء نے یقین دلایا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کے گناہ معاف کر دیے ہیں لیکن وہ جب تنہا ہوتا تو اپنے ضمیر کا سامنا کرنے سے گھبراتا اور پریشان ہو جاتا تھا۔
یہ ایسا ذہنی مرض تھا جس نے اس کے دماغ پر یعنی سوچنے کی قوت پر اور جسم پر بھی اثر کیا اس کی جسمانی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جوانی میں ہی وہ بوڑھا نظر آنے لگا تھا، طبیبوں نے اس کے علاج میں دن رات ایک کر دیا تھا، اسے ایسی ایسی دوائی تیار کرکے دیں تھیں جن کا کوئی عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن مرض بڑھتا ہی گیا اور برکیارق ایسے مقام پر پہنچا جہاں اس نے محسوس کیا کہ وہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے معذور ہو گیا ہے۔
ہم تینوں بھائیوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھیں۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ مجھے توقع تو یہ تھی کہ یہ تقسیم سلطنت کے اندرونی مسائل اور دفاعی ضروریات کے لیے اچھی ثابت ہوگی، یہ اچھی ہی ثابت ہو رہی تھی کیونکہ ہم تینوں بھائیوں میں اتفاق اور اتحاد اور انہوں نے میرے ہی فیصلوں کو تسلیم کیا لیکن میں اب شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ میں اب سلطنت کا کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں رہا ،میں تم سب سے مشورہ نہیں لے رہا بلکہ فیصلہ سنا رہا ہوں کہ آج سے میرے دونوں بھائی محمد اور سنجر سلطنت کے سلطان ہونگے اور سلطنت تین کی بجائے دو حصوں میں تقسیم ہو گی، لیکن اس کا مرکز مرو میں ہی رہے گا۔
سب پر سناٹا طاری ہوگیا ،برکیارق کا یہ فیصلہ اچانک اور غیر متوقع تھا ، سالار اوریزی نے برکیارق کے اس فیصلے کے خلاف کچھ کہا اور دوسروں نے اس کی تائید کی لیکن برکیارق اپنے فیصلے پر قائم رہا اور اس نے یہ بھی کہا کہ تم لوگ میرے جذبات میں آگئے تو اس کا سلطنت کو نقصان ہو سکتا ہے ،کچھ دیر بحث مباحثہ جاری رہا لیکن برکیارق نے سختی سے اپنا آخری فیصلہ ایک بار پھر سنایا اور سب کو خاموش کر دیا۔
میں سلطنت سے لاتعلق نہیں ہو جاؤں گا۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ جہاں کہیں تمہیں میری ضرورت محسوس ہوئی میں پہنچوں گا اور میری جان اور میرا مال سلطنت کے لیے وقف رہے گا۔
برکیارق بظاہر خوش وخرم نظر آتا تھا اور وہ ہر بات بڑی خوشگوار انداز میں کرتا تھا ،اس نے اگر کبھی اپنی بیماری کا ذکر کیا تو اس میں مایوسی اور اداسی کی جھلک نہیں تھی، اس نے مزمل کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
مزمل !،،،،،برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ شمونہ میرے ساتھ آئی تھی اور وہ میرے ساتھ واپس نہیں جائے گی، میں حیران ہوں کہ راستے میں اس نے میرے ساتھ کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب تمہارے ساتھ شادی کر ہی لینا چاہتی ہے، بلکہ وہ ایک ہی بات کرتی ہے کہ وہ جہاد کرنا چاہتی ہے، اس کا اسے موقع نہیں مل رہا ،،،،،،،،،،،کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ وسم کوہ کی فتح کی خوشی میں تمہارا نکاح آج ہی پڑھا دیا جائے؟ 
سب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے برکیارق کی تائید کی، یہ شادی بہت عرصہ پہلے ہو جانی چاہیے تھی اور ہونی ہی تھی لیکن مزمل اور شمونہ پر ایسی کیفیت طاری رہتی تھی کہ شادی کو وہ نظر انداز کرتے چلے آرہے تھے ،دونوں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنا لیا تھا اور وہ تھا حسن بن صباح کا قتل اور باطنیوں کا قلع قمع،،،،،،،، مزمل اور شمونہ جوانی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے ،شمونہ کو جب اطلاع ملی تھی کہ وسم کوہ فتح کر لیا گیا ہے اور اس میں مزمل آفندی اور بن یونس کا خاصہ ہاتھ ہے، اور ان دونوں نے کامیابی سے باطنیوں کو دھوکا دیا ہے، تو وہ اڑ کر مزمل کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی، لیکن اکیلے وہاں تک جانا ممکن نہیں تھا، اسے پتہ چلا کہ سلطان برکیارق وسم کوہ جا رہا ہے تو وہ فوراً برکیارق کے پاس جا پہنچی اور کہا کہ وہ بھی جانا چاہتی ہے ،اس طرح برکیارق اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
اسی شام وسم کوہ میں مزمل اور شمونہ کی شادی ہوگئی۔
اگلے روز برکیارق نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا، اسے محمد اور سنجر کے ساتھ ایک روز بعد مرو کیلئے روانہ ہو جانا تھا، یہ لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، کوئی سلطان پسند نہیں کرتا کہ وہ جب کھانے پر بیٹھا ہو تو دربان اندر آکر اسے اطلاع دے کہ فلاں شخص آیا ہے، یا فلاں واقعہ ہوگیا ہے ،لیکن برکیارق نے اپنے دربانوں کو کہہ رکھا تھا کہ وہ کھانے پر بیٹھا ہو یا گہری نیند سویا ہوا ہو کوئی خاص واقعہ ہوجائے یا کوئی خاص آدمی اسے ملنے آجائے تو اسے جگا لیا جائے، یہ دربانوں کی صوابدید پر تھا کہ وہ ملاقاتیوں کے چھان بین کر کے دیکھیں گے کہ یہ ملاقات فوری طور پر ضروری ہے یا نہیں۔
قلعہ وسم کوہ میں برکیارق کھانے پر بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ اس کے دونوں بھائی تھے، سالار اوریزی تھا ،مزمل آفندی اور بن یونس تھے اور وسم کوہ کا نیا امیر بھی تھا جسے برکیارق نے مقرر کیا تھا، دربان اندر آیا اور کہا کہ ایک خاتون بہت ہی بری حالت میں آئی ہے اور کہتی ہے کہ بہت عرصے سے سفر میں تھی اور مرتے مرتے منزل پر پہنچی ہے، برکیارق نے کہا کہ اسے اندر بھیج دو۔
ایک جواں سال عورت کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی، اس کے کپڑوں پر گرد بیٹھی ہوئی تھی، اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا جیسے لاش قبر سے نکل کر آئی ہو، اس کی آنکھیں نیم وا تھیں، اور اس کا منہ کھلا ہوا تھا ،اگر دربان اسے سہارا نہ دیتا تو وہ گر پڑتی، برکیارق کے کہنے پر اسے بٹھا دیا گیا، اور وہ اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔
 میرا نام شافیعہ۔۔۔ عورت نے بڑی ہی مشکل سے یہ الفاظ باہر کو دھکیلے۔۔۔ میں یہی کی رہنے والی ہوں، اور ابو جندل کی بھتیجی ہوں،،،،،،،،، ۔۔۔۔اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو جھک گئی، وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
اسے اٹھا کر فورا طبیب کے پاس لے جاؤ۔۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ یہ بیمار تو ہے ہی بھوکی اور پیاسی بھی لگتی ہے ،یہ ہوش میں آجائے تو اسے کھانے کو کچھ دے دینا ،اس کے بعد میں اگر یہاں ہوا تو مجھے بتانا ،میں چلا گیا تو سالار اوریزی کو اطلاع دے دینا۔
 شافعیہ سولہ سترہ دنوں بعد وسم کوہ پہنچی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برکیارق مرو پہنچا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ہر طرف اعلان کردیا کہ وہ اب سلطان نہیں اور اب محمد اور سنجر سلطان ہیں، برکیارق نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی تھی، لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ بھائیوں میں اختلافات پیدا ہو گیا ہے، اور چھوٹے دونوں بھائی جیت گئے ہیں اور انہوں نے بڑے بھائی کو سلطانی سے معزول کر دیا ہے۔ 
عوام کا یہ ردعمل برکیارق تک پہنچا تو اس نے یہ انتظام کیا کہ سرکاری اہلکار لوگوں کو تمام سلطنت میں بتا دیں کہ یہ فیصلہ اس نے خود بیماری کی وجہ سے کیا ہے، اور لوگ محمد اور سنجر کے وفادار ہو جائیں۔
لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ برکیارق بیمار ہے تو مسجدوں میں اس کی صحت یابی کی دعائیں ہونے لگیں، اس کی بیماری کی خبر تمام تر سلطنت میں پھیل گئی اور اصفہان تک بھی پہنچی۔
اصفہان کی جامع مسجد کے خطیب اس وقت کے ایک بڑا ہی مشہور عالم قاضی ابو الاعلاء بن ابو محمد نیشاپوری تھے، عالم ہونے کے علاوہ وہ مرد میدان بھی تھے، ان کے خطبوں میں جہاد کی تلقین زیادہ ہوتی تھی، وہ جب خطبہ دیتے تو اس میں الفاظ کا ہیر پھیر اور پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ایسی سادہ زبان میں خطبہ دیا کرتے تھے کہ معمولی سے ذہن کے لوگ بھی اصل بات سمجھ جاتے تھے، وہ باطنیوں کے بہت بڑے دشمن تھے، انہیں پتہ چلا کے برکیارق بیمار ہوگیا ہے اور بیماری نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اس نے سلطانی چھوڑ دی ہے تو وہ اسی وقت مرو کے لیے روانہ ہوگئے ۔
بڑے ہیں لمبے سفر کے بعد وہ مرو پہنچے اور برکیارق کا مہمان بنے، برکیارق انہیں اپنا دینی اور روحانی پیشوا سمجھا کرتا تھا ،قاضی ابو الاعلاء نے برکیارق سے پوچھا کہ اس کی بیماری کیا ہے، وہ دیکھ رہے تھے کہ برکیارق وقت سے پہلے مرجھا گیا ہے، لیکن اسے ظاہری طور پر کوئی بیماری نہیں، برکیارق نے انہیں بتایا کہ وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے ذہن پر کیا اثر ہو گیا ہے کہ وہ کھویا کھویا سا رہتا ہے، اور یوں خوف سا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ ہونے والا ہو۔
قاضی ابو الاعلاء نے اسے تمام علامات پوچھیں اور اس کے طبیب کو بلایا، طبیب آیا تو قاضی نے طبیب سے پوچھا کہ اس نے برکیارق میں کیا بیماری دیکھی ہے۔
یہ پتا چل جاتا تو میں اب تک انہیں صحت یاب کر چکا ہوتا ۔۔۔طبیب نے کہا۔۔۔ میں اپنا تمام تر علم اور تجربہ آزما چکا ہوں لیکن سلطان ٹھیک نہیں ہورہے ،معلوم ہوتا ہے ان کے ذہن اور دل پر کوئی ایسا بوجھ ہے جسے یہ بیان نہیں کر سکتے یا سمجھ ہی نہیں سکتے۔
قاضی نے برکیارق سے بہت پوچھا کہ وہ دل پر کیا بوج لیے ہوئے ہے ،لیکن برکیارق نے بتانا مناسب نہ سمجھا ،وہ بیان ہی نہ کر سکا کہ اسے اندر ہی اندر کیسی دیمک کھا رہی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ قاضی ابوالاعلاء صاحب نے کہا۔۔۔ آپ کے والد محترم ملک شاہ کو باطنیوں نے دھوکے میں ایسا زہر پلا دیا تھا جو آہستہ آہستہ انہیں کھاتا رہا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے، معلوم ہوتا ہے آپ کو بھی باطنیوں نے کوئی چیز کھلا دی ھے جس کا آپ کو پتہ ہی نہیں چلا۔
میں نے اس شک کے پیش نظر بھی دوائیاں دی ہیں۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ اگر انہیں کسی بھی قسم کا زہر پلا دیا گیا ہوتا تو اس کے اثرات ان دوائیوں سے ختم ہو جاتے، یہ کچھ اور ہی ہے۔
میں آج رات تنہائی میں بیٹھونگا ۔۔۔قاضی نے کہا۔۔۔ اللہ نے مجھے کشف کی کچھ طاقت عطا فرمائی ہے ،مجھے کچھ شک ہے کہ یہ سفلی تعویز کا اثر ہے، حسن بن صباح سفلی عمل سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ وہ یہ عمل اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے، اگر ایسا ہوا تو مجھے آج رات پتہ چل جائے گا۔
برکیارق نے قاضی ابوالاعلاء صاحب کے لیے ایک خاص کمرہ تیار کروا دیا جس میں مصلّہ قرآن پاک اور جو کچھ بھی قاضی نے کہا رکھ دیا گیا ،رات عشاء کی نماز کے بعد قاضی ابو الاعلاء نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور مصلّے پر بیٹھ گئے،،،،،،، وہ رات کے آخری پہر تک مراقبے میں رہے اور پھر تہجد ادا کی، اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور سوگئے، طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد وہ کمرے سے نکلے اور برکیارق کے پاس گئے۔
میرا شک صحیح نکلا ہے۔۔۔ اس نے برکیارق سے کہا۔۔۔ یہ سفلی تعویز کا اثر ہے، لیکن یہ حسن بن صباح نے نہیں کیا بلکہ یہاں کوئی آدمی ہے جس نے اپنے طور پر آپ کو ختم کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے، میں اس کا توڑ کر دوں گا لیکن یہاں نہیں میں کل صبح اصفہان کے لئے روانہ ہو جاؤں گا ،اس تعویذ کے لئے کم از کم تین راتوں کا چلّہ کرنا پڑے گا پھر تعویذ لکھا جائے گا ،جب یہ تعویذ تیار ہوگیا تو میں آپ کو بھیج دوں گا، اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا وہ میں تعویذ لانے والے کو بتا دوں گا۔
برکیارق کو باطنی معاف نہیں کرسکتے تھے، پہلے سنایا جاچکا ہے کہ برکیارق ایک لڑکی کے ساتھ شادی کر کے نہ دانستہ طور پر حسن بن صباح کا اعلی کار بن گیا تھا ،یہ اس لڑکی کا کمال تھا لیکن وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ برکیارق کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کی عقل سے پردہ اٹھ گیا ،یہ شمونہ کا کمال تھا، برکیارق نے اپنی اس بیوی کو اپنے ہاتھوں قتل کیا اور اس کے بعد اس نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کر دیا جائے گا ،باطنی اپنے اتنے زیادہ ساتھیوں کا خون کیسے معاف کر دیتے، انہوں نے جس طرح دوسری کئی ایک شخصیات کو قتل کیا تھا برکیارق کو بھی قتل کر دیتے، لیکن انہیں موقع نہیں مل رہا تھا کیونکہ برکیارق جدھر بھی جاتا تھا اس کے اردگرد محافظوں کا حصار ہوتا تھا، اگر قاضی ابو الاعلاء کی تشخیص صحیح تھی تو یہ عمل باطنیوں نے ہی کیا تھا۔
قاضی ابو الاعلاء اگلے روز فجر کی نماز کے فوراً بعد واپس اصفہان کو چل پڑے، ان کے ساتھ دس بارہ آدمی تھے جو ان کے ایسے مرید تھے کہ ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے، وہ قاضی کو کہیں اکیلا نہیں جانے دیتے تھے، کیونکہ اس وقت تک باطنی کئی ایک علماء دین کو قتل کر چکے تھے۔
اصفہان میں اہلسنت کی اکثریت تھی وہ اپنے خطیب قاضی ابو الاعلاء کی غیرحاضری بڑی بری طرح محسوس کر رہے تھے، وہ پوچھتے تھے خطیب کہاں گئے انہیں بتایا گیا کہ سلطان برکیارق بیمار ہیں اور ان کی عیادت کو گئے ہیں، یہ تو لوگوں کو پہلے پتا تھا کہ برکیارق بیمار ہے لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ جامع مسجد کے خطیب ان کی عیادت کو گئے ہیں تو لوگ متفکر ہوئے کہ برکیارق کچھ زیادہ ہی بیمار ہو گیا ہے، وہاں کے لوگ برکیارق کو اس لیے زیادہ عزیز رکھتے تھے کہ اس نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا ،اصفہان میں باطنیوں نے مسلمانوں کا اچھا خاصا کُشت و خون کیا تھا۔
آخر ایک روز ان کے لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کے خطیب واپس آگئے ہیں، کئی لوگ ان کے گھر جا پہنچے اور برکیارق کی صحت کے متعلق پوچھا، قاضی ابوالاعلاء نے کہا کہ اتفاق سے کل جمعہ ہے میں مسجد میں سب کو بتاؤں گا کہ برکیارق کس بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے، اور اب اس کی حالت کیا ہے۔
اگلے روز جمعہ تھا جمعہ کے روز تو جامع مسجد نمازیوں سے بھر جایا کرتی تھی، لیکن اس جمعہ کی نماز کے وقت یہ حالت ہو گئی تھی کہ مسجد کے اندر تیل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی، اور بہت سے نمازیوں کو مسجد کے باہر صفیں بچھانی پڑیں، سب سلطان برکیارق کی بیماری کے متعلق تازہ اطلاع سننے آئے تھے ،خطبے سے پہلے قاضی ابوالاعلاء صاحب ممبر پر کھڑے ہوکر بڑی ہی بلند آواز سے برکیارق کی بیماری کے متعلق بتانے لگے۔
برکیارق بن ملک شاہ کو کوئی جسمانی بیماری نہیں۔۔۔ قاضی ابو الاعلاء نے کہا۔۔۔ میں نے مراقبے میں بیٹھ کر کشف کے ذریعے معلوم کیا ہے، برکیارق پر سفلی تعویز کا اثر ہوگیا ہے اور یہ کارستانی کسی باطنی کی ہے ،سب لوگ برکیارق کی صحت یابی کے لیے دعا کریں کوئی پتہ نہیں کس کی اللہ سن لے اور برکیارق کی صحت بحال ہوجائے، میں اس کے لیے ایک تعویذ تیار کر رہا ہوں جس میں تین چار دن لگ جائیں گے، اس تعویز سے ان شاء اللہ اس پر جو سفلی کے اثرات ہیں رفع ہو جائیں گے۔
نماز کے بعد برکیارق کی صحتیابی کے لئے خصوصی دعا کی گئی۔
 قاضی ابوالاعلاء نے یہ اعلان کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی کہ وہ تعویذ تیار کر رہا ہے ان کے ذہن سے شاید یہ حقیقت نکل گئی تھی کہ باطنی نظر نہ آنے والے سائے کی طرح ہر جگہ موجود رہتے ہیں اور ذرا ذرا خبر اوپر پہنچا کر اس کے خلاف جو کارروائی ضروری ہو کرتے ہیں۔
اگلے روز فجر کی نماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو قاضی ابوالاعلاء امامت کے لیے مصلے پر جا کھڑے ہوئے ، عموماً یوں ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے پہلی صف میں ان کے خاص آدمی کھڑے ہوتے تھے تاکہ قاضی پر کوئی حملہ نہ کر سکے، اس روز فجر کی نماز کے وقت جب قاضی مصلے پر کھڑے ہوئے اور تکبیر پڑھی جا رہی تھی  تو دوسری صف سے ایک آدمی بڑی تیزی سے آگے بڑھا اور اگلی صف کے دو آدمیوں کو کو زور سے دھکا دیا دونوں آدمی اس دھکے سے سنبھل نہ سکے اور امام کے ساتھ ٹکرائے، اس شخص نے اتنی دیر میں خنجر نکال لیا تھا قاضی ابو الاعلاء چوک کر پیچھے مڑے کہ یہ کیا ہوگیا ہے، بیشتر اس کے کہ انہیں پتہ چلتا یہ کیا ہوا ہے خنجر ان کے دل میں اتر چکا تھا، خنجر باہر نکلا اور پھر ان کے دل میں اتر گیا۔
نمازی تو کچھ بھی نہ سمجھ سکے ادھر قاضی مصلے پر گرے، ادھر ان کا قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور خنجر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر کیا اور بڑی زور سے نعرہ لگایا،،،،،، شیخ الجبل امام حسن بن صباح کے نام پر۔۔۔۔ اور اس نے خنجر نیچے کو کھینچا اور اپنے سینے میں اتار لیا۔
ایک اور عالم دین باطنیوں کے نذر ہوگئے،،،،،یہ پانچویں صدی ہجری کا آخری سال تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قاضی ابوالاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری کے قتل کی اطلاع مرو پہنچی تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ سلطان کے محل میں کیا ردعمل ظاہر ہوا ہوگا ،وہ تو ایک دھماکہ تھا جس نے پہلے تو سب کو سن کر دیا اور اس کے بعد سب شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے، برکیارق کا سب سے چھوٹا بھائی سنجر کچھ زیادہ ہی جوشیلا تھا لیکن وہ ایسا جذباتی نہیں تھا کہ عقل پر جذبات کو غالب کر دیتا، پھر اسے فن حرب و ضرب میں بہت ہی دلچسپی تھی اور اس میں قیادت کے جوہر بھی تھے، ابھی وہ جوان تھا اور جوانی نے ایسا جوش مارا کہ اس نے اعلان کر دیاکہ وہ باطنیوں کے قلعوں پر حملہ کرے گا اور واپس مرو میں اس وقت آئے گا جب باطنیوں کا نام و نشان مٹ چکا ہوگا۔
اس وقت سلطنت سلجوقیہ کا وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی تھا ،وہ اس سلطنت کے مشہور وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی مرحوم کا بیٹا تھا، پندرہ برس پیشتر ایک باطنی نے نظام الملک خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا تھا، اب ان کا بیٹا ابو مظفر علی وزیراعظم تھا اور سلطان نے اسے مخرالملک کا خطاب دیا تھا ،وہ اپنے باپ جیسا دور اندیش اور دانشمند تھا، اسے قاضی ابو الاعلاء کے قتل کی خبر ملی تو وہ اسی وقت سلطان کے محل پہنچا۔
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان محمد اور سلطان سنجر کا رد عمل کیا ہے، اس نے دیکھا کہ ردعمل بڑا ہی شدید ہے تو اسے خطرہ محسوس ہوا کہ یہ دونوں بھائی اس غم و غصے سے مغلوب ہو کر کوئی غلط فیصلہ یا جلد بازی کر گزریں گے، اس نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ منصوبہ اسے بنانے دیں کہ انتقامی کاروائی کیسے کی جائے اور کب کی جائے۔
اب ہم سوچنے میں مزید وقت ضائع نہیں کریں گے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ اب ہمیں الموت پر یا باطنیوں کے دوسرے بڑے اڈے قلعہ شاہ در پر حملہ کر دینا چاہیے ،یہی فیصلہ کرتا ہوں اور میں اس فیصلے کی تائید چاہتا ہوں کہ شاہ در میں حسن بن صباح کا استاد رہتا ہے ،ہم پہلے اس اڈے کو تباہ کریں گے۔
شاہ در وہ قلعہ بند شہر تھا جہاں سے حسن بن صباح اپنے استاد احمد بن عطاش سے تربیت حاصل کر کے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض علاقے پر چھا گیا تھا ،اور اس نے الموت میں جنت بھی بنا لی تھی۔
وزیر اعظم ابو المظفر علی اپنے مرحوم باپ کی طرح صرف وزیراعظم ہی نہیں تھا بلکہ سپہ سالار بھی تھا ،یعنی جنگجو تھا اور میدان جنگ میں قیادت کی اہلیت بھی رکھتا تھا ،اس نے برکیارق محمد اور سنجر سے کہا کہ اسے اجازت دیں کہ وہ قلعہ شاہ در کے محاصرے کا منصوبہ تیار کرے اور اپنے لشکر کو اپنی نگرانی کے تحت تیار کرے۔
آپ ضرور کریں۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ لیکن تین چار دنوں سے زیادہ وقت ضائع نہ ہو ،اس حملے اور محاصرے کی قیادت میں خود کروں گا، آپ منصوبہ تیار کرلیں، اور لشکر کو بھی ضروری تربیت دے لیں۔
اُدھر قلعہ وسم کوہ میں شافعیہ اگلے روز ہوش میں آئی، اس نے ہوش میں آتے ہی پہلی بات طبیب کو یہ بتائی کہ وہ چار پانچ دنوں سے بھوکی ہے اور صرف پانی پی رہی ہے، طبیعت نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ وہ مریضہ کے منہ میں  قطرہ قطرہ شہد اور دودھ ٹپکاتا رہے، اسے فوراً اتنی غذا نہیں دینی تھی جس سے پیٹ بھر جاتا ،کیونکہ اس کا جسم اتنی زیادہ غذا کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا ،اس وقت برکیارق مرو جانے کے لیے وسم کوہ سے رخصت ہو چکا تھا۔
طبیب نے سالار اوریزی کو اطلاع دی کہ مریضہ ہوش میں آ گئی ہے، سالار اوریزی اسی وقت پہنچا اور مریضہ کی حالت دیکھی وہ تو زندہ لاش تھی ابھی کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی ،وہ شافعیہ کو تسلی دلاسا دے کر وہاں سے آ گیا ،اس نے بہتر یہ سمجھا کہ مریضہ کے ساتھ کوئی عورت ہونی چاہیے، وہاں عورتوں کی کمی نہیں تھی لیکن محسوس یہ کیا گیا کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی عقل والی عورت ہو، اوریزی نے اس لیے یہ محسوس کیا تھا کہ شافعیہ نے سرگوشی میں ایک آدھ بات بڑی مشکل سے کہی تھی اور یہ بات ایسی تھی کہ اوریزی سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام سی قسم کی لڑکی نہیں اور اس کا کوئی خاص پس منظر ہے، اسے شک ہوا تھا کہ یہ باطنیوں کی لڑکی ہو گی۔
سالار اوریزی نے مزمل کے ساتھ بات کی، تو مزمل نے کہا کہ وہ شمونہ کو لڑکی کے پاس بھیج دے گا جس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ عورت عورت کے ساتھ دل کی بات کر دیا کرتی ہے ،شمونہ تجربے کار تھی جس سے یہ امید رکھی جاسکتی تھی کہ وہ شافعیہ کے سینے سے راز کی کوئی بات اگر ہوئی تو نکال لے گی۔
دن گذر گیا اور رات گہری ہونے لگی شافعیہ کو اتنا زیادہ شہید دودھ دیا جا چکا تھا کہ اس کے جسم میں جان آگئی اور وہ تھوڑا تھوڑا بولنے لگی، رات کو اس نے اپنے ہاتھ سے شہد ملا دودھ پیا اور پھر اسے تھوڑی سی ٹھوس غذا دی گئی،شمونہ اس کے ساتھ رہی، شافعیہ بے ہوشی کی نیند سو گئی اور اگلے سورج نکل آنے کے خاصا بعد جاگی، شمونہ نے دیکھا کہ اب وہ اچھی طرح بول سکتی ہے۔
شمونہ نے اس سے پوچھا وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے ؟
شافعیہ نے کہا کہ وہ یہیں سے گئی تھی اور واپس یہیں آ گئی ہے، یہاں سے گئی تھی تو میرے ساتھ میری چھوٹی بہن تھی اور چچا بھی تھا ۔۔۔شافعیہ نے کہا ۔۔۔واپس آئی ہوں تو اکیلی ہوں۔
شافعیہ نے شمونہ کو اپنی پوری داستان سنا ڈالی کہ وہ کس طرح اور کیوں یہاں سے رخصت ہوئی تھی اور کہاں تک گئی اور کسطرح واپس آئی، اس نے کسی بات پر پردہ نہ ڈالا۔
شمونہ اسی وقت گھر گئی اور مزمل کو شافعیہ کی ساری داستان سنائی ،مزمل اسی وقت سالار اوریزی کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ لڑکی نے اپنے متعلق کیا سنایا ہے، سالار اوریزی نے کہا کہ وہ حیران تھا کہ اس کا یہ عہدے دار شمشیر ابلک  کہاں غائب ہو گیا ہے، اس کی کہیں لاش نہیں ملی تھی نہ ہی وہ کہیں زخمی حالت میں پڑا تھا ،اب شافعیہ نے سالار اوریزی کو اس سوال کا جواب دے دیا۔
شافعیہ زر توش کو قتل کر کے وہاں سے نکلی تو نقشے نے اس کی صحیح رہنمائی کی وہ تین چار دن گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی سفر طے کرتی رہی اسے اس جنگل میں کوئی بستی اور کوئی انسان نہ ملا ،اس نے بہت مشکلات برداشت کیں، اسے یہ احساس رہا ہی نہیں تھا کہ کتنے دن اور کتنی راتیں گزر گئیں ہیں ،وہ جنگل سے نکل کر بنجر ویرانوں میں داخل ہوئی جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا تھا، نہ وہاں کوئی سبز پتا دکھائی دیتا تھا، وہ وہاں سے بھی نکل آئی۔
سفر کے آخری آٹھ دس دن اس کے لیے قیامت کے دن تھے، اس پر ایک آفت یہ پڑی کہ ایک گھوڑے کو رات کے وقت زہریلے شراپ نے ڈس لیا اور گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا ،اب اس کے پاس ایک گھوڑا رہ گیا تھا وہ اس پر سوار ہوئی اور دو دنوں بعد پھر ایک بھرے جنگل میں داخل ہوئی اور طوفان باد باراں میں پھنس گئی، بڑا ہی خوفناک طوفان تھا، بجلی کڑکتی تھی اور دو مرتبہ بجلی دو درختوں پر گری اور ٹہن ٹوٹ کر نیچے آ پڑی،آگے ایک ندی تھی جس میں سیلاب آ گیا تھا ،شافعیہ نے روکنے کی بجائے گھوڑا ندی میں اتار دیا لیکن سیلاب اس قدر تیز و تند تھا کہ گھوڑے کو اپنے ساتھ بہانے لگا بہت دور جا کر پانی پھیلا تو گھوڑا پانی میں چل کر باہر نکل آیا، لیکن شافعیہ یہ معلوم نہ کر سکی کہ وہ اب کہاں ہے، اس نے کپڑا نکالا اس کپڑے پر کوئلے کی لکیریں ڈالی گئی تھیں، مصیبت یہ آ پڑی کہ وہ سیلاب میں اتری تھی اور تمام کپڑے بھیگ گئے تھے اس لیے اس کپڑے سے کوئلے کی لکیریں مٹ گئی تھیں۔
وہ اللہ کے بھروسے آگے ہی آگے بڑھتی گئی، ایک اور دن کی مسافت کے بعد اس کے راستے میں ایک اور چشمہ آ گیا، وہاں وہ گھوڑے کو پانی پلانے کے لئے رک گئی، اس نے خود بھی پانی پیا لیکن اس کے پاس کھانے کا سامان ختم ہو چکا تھا ،وہ جب پانی پی چکی تو اسے یاد آیا، جب وہ خزانے والی غار کی طرف جارہی تھی تو یہ چشمہ راستے میں آیا تھا، اس چشمے کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی وہ اس ٹیکری پر چڑھ گئی اور ادھر ادھر دیکھا، اسے دو اور نشانیاں نظر آ گئیں اور یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ وہ ایک دن زیادہ سے زیادہ دو دن کی مسافت دور رہ گئی ہے اور اب اس کی منزل آئی کہ آئی۔
پھر یوں ہوا کہ وہ ایک جنگل میں جا رہی تھی اب اس کے دل پر ایسا بوجھ نہیں تھا کہ وہ ایک بار پھر راستہ بھول گئی ہے، اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ صحیح راستے پر جا رہی ہے۔ پہلے وہ اللہ کی مدد اور رہنمائی مانگتی تھی اب اس نے اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دیا، وہ جا رہی تھی کہ اچانک سات آٹھ بھیڑیے کہیں سے نکلے اور اس کی طرف دوڑ پڑے، گھوڑے کو ایڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی گھوڑا ڈر کر ہی خود بھاگ اٹھا اور بہت ہی تیز بھاگا ،بھیڑیے بھی رفتار کے بہت تیز تھے اور یقیاً بھوکے تھے اس لئے وہ دوڑے ہی چلے آ رہے تھے اور فاصلہ بہت کم ہوتا جا رہا تھا۔
 شافعیہ نے سوچا کہ بھیڑیوں نے گھوڑے کو پکڑ لیا تو گھوڑا گرے گا اور وہ بھی گھوڑے کے ساتھ گرے گی اور کچھ بھیڑیے گھوڑے کو اور کچھ اسے مار کر کھانا شروع کردیں گے، وہ سوچنے لگی کہ گھوڑے سے کس طرح کود کر اترے اور کسی اور طرف دوڑ پڑے، لیکن کودنا تو شاید آسان تھا لیکن خطرہ یہ تھا کہ دو چار بھیڑیئے اس کے پیچھے دوڑ کر اسے پکڑ لیں گے۔
شافعیہ نے سامنے دیکھا ایک پھیلا ہوا بہت بڑا درخت راستے میں آ رہا تھا ،درخت ایک ٹہن زمین سے متوازی تھا۔
شافعیہ نے سوچ لیا کہ وہ اس ٹہن کو پکڑ لے گی اور گھوڑا اس کے نیچے سے نکل جائے گا گھوڑا پوری رفتار سے جا رہا تھا اور بھیڑیے اس کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ آدھے دائیں طرف اور آدھے بائیں طرف ہو گئے تھے، درخت قریب آگیا شافعیہ نے رکابوں سے پاؤں باہر نکال لیا اور جب وہ درخت کے نیچے سے گزری تو ہاتھ اوپر کرکے ٹہن پکڑ لیا، اس کا خیال تو یہ تھا کہ ٹہن بڑے آرام سے اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور گھوڑا نیچے سے نکل جائے گا لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ وہ کس رفتار سے جا رہی ہے، اس نے ٹہن پکڑ لیا اور ٹہن نے جب اسے اتنی زیادہ رفتار سے روکا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے بازو ٹہن کے ساتھ رہ گئے ہیں اور باقی جسم گھوڑے کے ساتھ چلا گیا ہے، اسے اپنے سے الگ ہوتے ہی وہ گر پڑی، کچھ چوٹ گرنے  سے آئی اور شدید درد کرنے لگی، اسے حاصل صرف یہ ہوا کہ بھیڑیوں سے بچ گئی تھی گھوڑا اور بھیڑیے دور نکل گئے تھے۔
شافعیہ نے ذرا بلند زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا اسے کچھ ایسی امید تھی کہ شاید گھوڑا اتنا تیز دوڑے کے بھیڑیے ہار کر اسے چھوڑ دیں اور گھوڑا واپس آجائے، لیکن یہ امید ایک جھوٹی امید تھی، گھوڑا ایک طرف موڑا تھا اور بھیڑیے لپک جھپک کر اس کی ٹانگوں پر منہ ڈال رہے تھے، آخر شافعیہ نے اپنے گھوڑے کو گرتے دیکھا وہ ایک بار اٹھا لیکن بھیڑیوں نے اسے پھر گرا لیا اور اس کے بعد وہ اٹھ نہ سکا۔
اب شافعیہ نے منزل تک پیدل پہنچنا تھا، وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہتی تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن بعد منزل پر پہنچ جاتی لیکن نہ جانے کتنے دن اسے اپنا جسم اپنی ٹانگوں پر گھسیٹنا تھا وہ بھیڑیوں کی طرف سے مطمئن ہو گئی تھی کیونکہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے اتنا بڑا اور اتنا تندرست گھوڑا مل گیا تھا اب بھیڑیوں کو ضرورت نہیں رہی تھی پھر بھی شافعیہ اس راستے سے ہٹ کر چلنے لگی۔
وہ چھٹی یا ساتویں دن وسم کو پہنچی لیکن اس حالت میں جیسے وہ اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائے وہاں پہنچی ہو۔
سالار اور یزیدی شافعیہ کی یہ داستان سنی تو اس نے کہا کہ اس لڑکی کو سرکاری حیثیت دے کر خصوصی مہمان بنا کر رکھا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مرو میں روز و شب بڑے ہی سرگرم تھے،فوج کو محاصرے کی اور قلعہ توڑنے کی اور پھر دست بدست لڑائی لڑنے کی تربیت دی جارہی تھی، یہ راز چھپایا نہ گیا کہ قلعہ شاہ در کو محاصرے میں لے لیا جائے گا ،اس ٹریننگ کی نگرانی وزیراعظم فخرالملک ابوالمظفر علی کر رہا تھا، محمد اور سنجر اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ وہ لشکر کو فوراً کوچ کے لیے تیار کرے، لیکن ابو مظفر علی جلد بازی کا قائل نہیں تھا، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بے شک قیادت محمد اور سنجر ہی کریں لیکن وہ خود ساتھ ہوگا ،وہ لوگوں کو بھی ترغیب دے رہا تھا کہ اپنی فوج میں شامل ہوجائیں اور باطنیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوں۔
لوگ جوق درجوق فوج میں شامل ہو رہے تھے، اور ابو المظفر علی ان سب کو بڑی تیزی سے ٹریننگ دلوا رہا تھا ،برچھیاں اور تیر الگ بن رہے تھے اور وزیر اعظم ان کی بھی نگرانی کرتا تھا، مختصر یہ کہ ہر طرف ابوالمظفر علی ہی نظر آتا تھا ،اپنے عوام میں وہ پہلے ہی مقبول تھا لیکن اب لوگوں نے اسے باطنیوں کے خلاف اتنی تیاریوں میں دیکھا تو اس کے کردار اور زیادہ قائل ہوگئے اور اسے بڑی ہی اونچی اور قابل قدر شخصیت سمجھنے لگے ،وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ خانہ جنگی میں جو لوگ مر گئے تھے ان کا انتقام لینے کا وقت آ گیا ہے، یہ ایک ایسی خلش تھی جو لوگوں کو فوج میں شامل ہونے پر اکسا رہی تھی۔
مشہور تاریخ دان ابن اثیر نے ایک بڑا ہی دردناک واقعہ لکھا ہے، وہ یوں ہے کہ محرم کی دس تاریخ تھی اس روز ابوالمظفر علی نے روزہ رکھا ،صبح کے وقت وہ روز مرہ معمولات کے لئے باہر نکلا تو اس نے محمد اور سنجر اور اپنے تین چار احباب سے کہا کہ گزشتہ رات اس نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو خواب میں دیکھا ہے، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جلدی آ جاؤ، آج کا روزہ تم نے ہمارے پاس آکر افطار کرنا ہے۔
فخر الملک!،،،،،،، ایک بڑے قریبی دوست نے ابوالمظفر علی سے کہا۔۔۔ ہونا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے، خواب مبارک ہے لیکن میری ایک بات مان لیں آج کا دن اور آنے والی رات آپ گھر سے باہر نہ نکلیں، مجھے کچھ خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے یاد فرمائیں اور میں گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ابو المظفر علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ بلاوا آیا تو میں حاضری ضرور دونگا۔
اس روز ابوالمظفر علی روزمرہ معمول سے ہٹ کر یوں کیا کہ گھر چلا گیا اور زیادہ وقت نفل پڑھنے اور تلاوت قرآن میں گزارا، کچھ صدقہ بھی دیا ،عصر کے وقت گھر سے باہر نکلا اسے گھر کے سامنے ایک مفلوک الحال شخص ملا ،جو رونی صورت بنائے اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
 مسلمان تو جیسے ختم ہی ہو گئے ہیں۔۔۔ اس شخص نے مایوسی کے لہجے میں کہا۔۔۔ کوئی ایک بھی نہیں رہا جو مجھ مظلوم کی فریاد سنئے ۔
میں سنوں گا میرے بھائی!،،،،، ابو المظفر نے اس کے اور قریب جا کر پوچھا ۔۔۔۔۔۔ بتاؤ تو سہی تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟ 
اس شخص نے اپنی جیب میں سے ایک کاغذ نکالا اور ابوالمظفر علی کی طرف بڑھا کر بولا کہ میں نے اپنی فریاد لکھ لی ہے، اور یہ پڑھ لیں، ابوالمظفر علی اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر پڑھنے لگا تو اس شخص نے بڑی تیزی سے کپڑوں کے اندر سے چھری نکالی اور ابو المظفر علی کے پیٹ میں گھونپ کر ایسی پھیری کہ ابو المظفر علی کا پیٹ چاک ہو گیا۔
ابوالمظفر علی تو گر پڑا لیکن اتفاق سے کچھ آدمی وہاں سے گزر رہے تھے انہوں نے دیکھ لیا ،یہ پہلا باطنی تھا جس نے فوراً ہی اپنے آپ کو مار نہ لیا ،اسے شاید خودکشی کی مہلت نہ ملی کیونکہ ان آدمیوں نے اسے پکڑ لیا تھا اور اس کے ہاتھ سے چُھری بھی لے لی تھی۔
فخر الملک ابو المظفر علی کے قتل کی خبر فوراً شہر میں پھیل گئی اور لوگ اکٹھے ہونے سے شروع ہوگئے، برکیارق محمد اور سنجر بھی پہنچ گئے اس وقت ابو المظفر علی فوت ہو چکا تھا ،قاتل بھی وہی تھا سلطان سنجر نے کہا کہ اسے اسی چھری سے یہی اس طرح قتل کیا جائے کہ اس کی گردن کاٹ کر اور سر الگ کر کے پھینک دیا جائے۔
او باطنی کافر!،،،،،، محمد نے اس سے پوچھا۔۔۔۔ تو نے دوسرے باطنی قاتلوں کی طرح خود کشی کیوں نہیں کر لی؟ 
*میں جانتا ہوں مجھے قتل کے بدلے قتل کیا جائے گا۔۔۔ قاتل نے کہا۔۔۔ میں مرنے سے پہلے تم لوگوں کے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں ،وہ یہ کہ تمہارے اپنے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں تم اپنا مخلص اور ہمدرد سمجھتے ہو لیکن وہ باطنی ہیں اور وہ ایک ایک آدمی کو قتل کریں گے۔
باطنی نے سات آٹھ آدمیوں کے نام لئے وہ کوئی اونچے عہدوں والے آدمی نہیں تھے لیکن ان کی کچھ نہ کچھ سرکاری حیثیت تھی، اس وقت برکیارق محمد اور سنجر پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ،ابن اثیر نے لکھا ہے کہ انہوں نے اسی وقت ان سات آٹھ آدمیوں کو بلوا لیا اور جلاد کو بھی بلا کر حکم دیا کہ اس باطنی سے پہلے ان آدمیوں کی گردنیں اڑا دی جائیں ،وہ سب آدمی چلاتے چینختے رہے کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن ان کی گردنیں اڑا دی گئیں ۔*
*جلاد آخری آدمی کو قتل کر چکا تو ابوالمظفر علی کے قاتل نے پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے شروع کر دیئے ،اس سے پوچھا وہ کیوں ہنسا ہے۔*
*ہنسوں نہ تو اور کیا کرو۔۔۔۔ باطنی نے کہا۔۔۔۔یہ سب بے گناہ تھے میں نے یہ سوچ کر ان کے نام لیے تھے کہ میں تو مر ہی رہا ہوں تو کیوں نہ چند مسلمان کو ساتھ لے کر مروں ،تم سب جاھل اور گنوار ہو کہ عقل سے ذرا بھی کام نہیں لیتے۔*
*سلطان کے حکم سے اسے بھی جلاد کے حوالے کر دیا گیا ،جلاد نے اس کی گردن اپنی تلوار سے نہ کاٹی بلکہ حکم کے مطابق اسے نیچے گرایا اور اسی کی چھری سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا گیا۔*
*اب ہم قلعہ شاہ در کا محاصرہ کریں گے۔۔۔ سنجر نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا۔۔۔ کل صبح کوچ ہوگا۔*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی