‼️ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا کرنے سے متعلق بعض احادیث کی وضاحت


‼️ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا کرنے سے متعلق بعض احادیث کی وضاحت 

⬅️ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کا حکم: 
خود کشی کرنا بہت بڑا جرم، حرام اور گناہ کبیرہ ہے، البتہ اگر کسی شخص نے یہ گناہ کرلیا تو اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، نمازِ جنازہ ادا کیے بغیر اسے دفن کرنا درست نہیں۔ اسی پر فتویٰ ہے اور یہی حضرت امام حسن بصری، حضرت امام نخعی، حضرت امام قتادہ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور جمہور اہلِ علم رحمہم اللہ اجمعین کا مذہب ہے۔
 
⬅️ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا نہ کرنے سے متعلق ایک حدیث کی وضاحت: 
خود کشی کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے، لیکن اس کی وجہ سے کوئی مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا جب تک کے اس گناہ کو حلال سمجھ کر نہ کرے، اور خود کشی کرنے والے شخص میں کوئی اور ایسی وجہ بھی نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے اس کی نمازِ جنازہ جائز نہ ہو، اس لیے ایسے شخص کی نمازِ جنازہ ادا کرنا درست بلکہ ضروری ہے۔ البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے خود کشی کرنے والے شخص کی نمازِ جنازہ ادا نہیں فرمائی، جیسا کہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے:
978- حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ سَلَّامٍ الْكُوفِىُّ: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: أُتِىَ النَّبِىُّ ﷺ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ. (باب تَرْكِ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَاتِلِ نَفْسَهُ)
تو واضح رہے کہ جمہور حضرات اہلِ علم اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے بطورِ زجر وتنبیہ خود اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں فرمائی، تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرات صحابہ کرام نے بھی اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی، بلکہ ممکن ہے کہ حضرات صحابہ کرام نے ان کی نمازِ جنازہ ادا کی ہو۔ اس احتمال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہی روایت ’’سنن النسائی‘‘ میں بھی موجود ہے جس کے مطابق حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ نے خود کشی کرنے والے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’میں خود تو اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھوں گا۔‘‘ 
1963- أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ عَنِ ابْنِ سَمُرَةَ: أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «أَمَّا أَنَا فَلَا أُصَلِّي عَلَيْهِ». (تَرْكُ الصَّلَاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ)
حضور اقدس ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ صرف اپنی ادائیگی کی نفی فرما رہے ہیں، گویا کہ حضور اقدس ﷺ خود تو نمازِ جنازہ ادا نہیں فرما رہے ہیں جبکہ حضرات صحابہ کرام اس کی نمازِ جنازہ ادا کریں گے۔ جیسا کہ حضور اقدس ﷺ ابتدائے اسلام میں مقروض شخص کی نمازِ جنازہ بطورِ زجر وتنبیہ خود نہیں پڑھاتے تھے بلکہ اپنے حضرات صحابہ کرام سے فرمادیتے تھے کہ تم خود ہی اس کی نمازِ جنازہ ادا کرلو۔ (یہ تو ابتدائے اسلام کی بات تھی، جبکہ بعد میں حضور اقدس ﷺ مقروض کی بھی نمازِ جنازہ ادا فرمادیتے تھے۔) جیسا کہ ’’سنن ابی داود‘‘ میں ہے:
3345- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِىُّ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَا يُصَلِّى عَلَى رَجُلٍ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأُتِىَ بِمَيِّتٍ فَقَالَ: «أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: نَعَمْ دِينَارَانِ. قَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ». فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِىُّ: هُمَا عَلَىَّ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا فَتَحَ اللهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: «أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا فَعَلَىَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ». (باب فِى التَّشْدِيدِ فِى الدَّيْنِ)
اس کی تفصیل درج ذیل عبارت میں بھی ہے جبکہ تحریر کے آخر میں موجود ’’رد المحتار‘‘ کی عبارت میں بھی ہے۔
☀️ المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج للنووي:
[978]- قَوْلُهُ: (أتي النبي ﷺ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ) الْمَشَاقِصُ: سِهَامٌ عِرَاضٌ، وَاحِدُهَا مِشْقَصٌ بِكَسْرِ الْمِيمِ وَفَتْحِ الْقَافِ. وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ لِمَنْ يَقُولُ لَا يُصَلَّى عَلَى قَاتِلِ نَفْسِهِ؛ لِعِصْيَانِهِ، وَهَذَا مَذْهَبُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَقَالَ الْحَسَنُ وَالنَّخَعِيُّ وَقَتَادَةُ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ: يُصَلَّى عَلَيْهِ وَأَجَابُوا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ بِنَفْسِهِ؛ زَجْرًا لِلنَّاسِ عَنْ مِثْلِ فِعْلِهِ، وَصَلَّتْ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ، وَهَذَا كَمَا تَرَكَ النَّبِيُّ ﷺ الصَّلَاةَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ عَلَى مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ زَجْرًا لَهُمْ عَنِ التَّسَاهُلِ فِي الِاسْتِدَانَةِ وَعَنْ إِهْمَالِ وَفَائِهِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِالصَّلَاةِ عَلَيْهِ فَقَالَ ﷺ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ». قَالَ الْقَاضِي: مَذْهَبُ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً الصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَمَحْدُودٍ وَمَرْجُومٍ وَقَاتِلِ نَفْسِهِ وولد الزنى. (باب تَرْكِ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَاتِلِ نَفْسَهُ)
مذکورہ روایات اور تفصیل کے پیشِ نظر متعدد حضرات اہلِ علم نے یہ فرمایا ہے کہ اگر مذہبی اور مقتدیٰ شخصیات خودکشی کرنے والے شخص کی نمازِ جنازہ میں اس نیت سے شرکت نہ کریں تاکہ لوگوں کے لیے عبرت ہوتو یہ درست ہے۔
ذیل میں مذکورہ مسئلے سے متعلق کتبِ فقہ وفتاوٰی سے عبارات ذکر کی جارہی ہیں۔

📚 فتاوٰی جات: 
1️⃣ احکامِ میت از حضرت اقدس عارفی رحمہ اللہ:
’’جو شخص اپنے آپ کو غلطی سے یا جان بوجھ کر ہلاک کردے تو اس کو باقاعدہ غسل وکفن دے کر اور نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن کیا جائے۔ در مختار وشامی۔‘‘ (بابِ پنجم صفحہ: 210، ناشر: جامعہ فاروقیہ کراچی)
2️⃣ فتاویٰ محمودیہ:
’’خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس پر بھی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور جملہ امورِ تجہیز وتکفین موافقِ سنت ادا کیے جائیں گے، امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہی مذہب ہے، اسی پر ’’سکب الانہر‘‘ میں فتویٰ نقل کیا گیا ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (باب الجنائز: 8/ 625، ناشر: جامعہ فاروقیہ کراچی)
3️⃣ فتاویٰ محمودیہ:
’’خود کشی خواہ کسی بھی طریقے پر ہو حرام اور گناہ کبیرہ ہے، تاہم خود کشی کرنے والے مسلمان کو بھی شرعی طریقہ پر غسل دے کر کفن پہنایا جائے اور نمازِ جنازہ پڑھ کر مسلم قبرستان میں ہی دفن کردیا جائے، بالغ ہو یا نابالغ غسل، کفن، نمازِ جنازہ، دفن؛ سب شرعی طور پر لازم ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔‘‘
(باب الجنائز: 8/ 626، ناشر: جامعہ فاروقیہ کراچی)
4️⃣ فتاویٰ رحیمیہ:
’’بے شک خود کشی کرنا گناہ کبیرہ ہے، مگر شریعتِ مطہرہ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے، اگر بعض مذہبی مقتدا زجرًا لوگوں کی عبرت کےلیے نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کریں تو اس کی گنجائش ہے، مگر عوام پر ضروری ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھیں، نمازِ جنازہ پڑھے بغیر دفن نہ کریں۔ 
(کتاب الجنائز: 7/ 26، دار الاشاعت کراچی)
5️⃣ فتاویٰ ہندیہ:
وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ عَمْدًا يُصَلَّى عليه عِنْدَ أبي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللهُ، وهو الْأَصَحُّ، كَذَا في «التَّبْيِينِ». (الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ في الْجَنَائِزِ: الْفَصْلُ الْخَامِسُ في الصَّلَاةِ على الْمَيِّتِ)
6️⃣ الدر المختار:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي بِمَا فِي «مُسْلِمٍ»: أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.
7️⃣ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: بِهِ يُفْتَى)؛ لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ. زَيْلَعِيٌّ. (قَوْلُهُ: وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي إلَخْ) أَيْ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ: إنَّهُ يُغَسَّلُ، وَلَا يُصَلَّى عَلَيْهِ. إسْمَاعِيلُ عَنْ «خِزَانَةِ الْفَتَاوَى». وَفِي «الْقُهُسْتَانِيِّ» وَ«الْكِفَايَةِ» وَغَيْرِهِمَا عَنِ الْإِمَامِ السَّعْدِيِّ: الْأَصَحُّ عِنْدِي أَنَّهُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ. قَالَ فِي «الْبَحْرِ»: فَقَدِ اخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ، لَكِنْ تَأَيَّدَ الثَّانِي بِالْحَدِيثِ. اهـ. أَقُولُ: قَدْ يُقَالُ: لَا دَلَالَةَ فِي الْحَدِيثِ عَلَى ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ سِوَى «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ امْتَنَعَ؛ زَجْرًا لِغَيْرِهِ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ كَمَا امْتَنَعَ عَنِ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْيُونِ، وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ عَدَمُ صَلَاةِ أَحَدٍ عَلَيْهِ مِنَ الصَّحَابَةِ؛ إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَ صَلَاتِهِ وَصَلَاةِ غَيْرِهِ؛ قَالَ تَعَالَى «إِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ» [التوبة: 103]. ثُمَّ رَأَيْت فِي «شَرْحِ الْمُنْيَةِ» بَحْثًا كَذَلِكَ، وَأَيْضًا فَالتَّعْلِيلُ بِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ مُشْكِلٌ عَلَى قَوَاعِدِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ؛ لِإِطْلَاقِ النُّصُوصِ فِي قَبُولِ تَوْبَةِ الْعَاصِي، بَلِ التَّوْبَةُ مِنَ الْكُفْرِ مَقْبُولَةٌ قَطْعًا وَهُوَ أَعْظَمُ وِزْرًا، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ مَا إذَا تَابَ حَالَةَ الْيَأْسِ كَمَا إذَا فَعَلَ بِنَفْسِهِ مَا لَا يَعِيشُ مَعَهُ عَادَةً كَجُرْحٍ مُزْهِقٍ فِي سَاعَتِهِ وَإِلْقَاءٍ فِي بَحْرٍ أَوْ نَارٍ فَتَابَ، أَمَّا لَوْ جَرَحَ نَفْسَهُ، وَبَقِيَ حَيًّا أَيَّامًا مَثَلًا ثُمَّ تَابَ وَمَاتَ: فَيَنْبَغِي الْجَزْمُ بِقَبُولِ تَوْبَتِهِ وَلَوْ كَانَ مُسْتَحِلًّا لِذَلِكَ الْفِعْلِ؛ إذِ التَّوْبَةُ مِنَ الْكُفْرِ حِينَئِذٍ مَقْبُولَةٌ فَضْلًا عَنِ الْمَعْصِيَةِ، بَلْ تَقَدَّمَ الْخِلَافُ فِي قَبُولِ تَوْبَةِ الْعَاصِي حَالَةَ الْيَأْسِ. ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ هَذَا كُلَّهُ فِيمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ عَمْدًا، أَمَّا لَوْ كَانَ خَطَأً فَإِنَّهُ يُصَلَّى عَلَيْهِ بِلَا خِلَافٍ كَمَا صَرَّحَ بِهِ فِي «الْكِفَايَةِ» وَغَيْرِهَا، وَسَيَأْتِي عَدُّهُ مَعَ الشُّهَدَاءِ. (باب صلاة الجنائز)

✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی