دو چار گام راہ کو ہموار دیکھنا
پھر ہر قدم پہ اک نئی دیوار دیکھنا
آنکھوں کی روشنی سے ہے ہر سنگ آئینہ
ہر آئنہ میں خود کو گنہ گار دیکھنا
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
میداں کی ہار جیت تو قسمت کی بات ہے
ٹوٹی ہے کس کے ہاتھ میں تلوار دیکھنا
دریا کے اس کنارے ستارے بھی پھول بھی
دریا چڑھا ہوا ہو تو اس پار دیکھنا
اچھی نہیں ہے شہر کے رستوں سے دوستی
آنگن میں پھیل جائے نہ بازار دیکھنا
کلام: ندا فاضلی