جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں مگن کردیا تھا


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼


  سورہ التوبۃ آیت نمبر 25
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ  اَعۡجَبَتۡکُمۡ  کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ  مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بہت سے مقامات پر مدد کی ہے، اور (خاص طور پر) حنین کے دن جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں مگن کردیا تھا، (١٩) مگر وہ کثرت تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی، اور زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم نے پیٹھ دکھا کر میدان سے رخ موڑ لیا۔

تفسیر: 19: حنین کی جنگ کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ عرب کا ایک مشہور قبیلہ بنو ہوازن اپنے سردار مالک بن عوف کی سر کردگی میں آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر جمع کر رہا ہے۔ ہوازن ایک بڑا قبیلہ تھا جس کی کئی شاخیں تھیں، اور طائف کا قبیلہ ثقیف بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم نے اپنے جاسوس بھیج کر خبر کی تصدیق فرمائی۔ اور معلوم ہوا کہ خبر صحیح ہے، اور وہ لوگ بڑے جوش و خروش سے تیاری میں مصروف ہیں۔ ہوازن کے لوگوں کی تعداد حافظ ابن حجر (رح) کے بیان کے مطابق چوبیس ہزار سے اٹھائیس ہزار تک تھی، چنانچہ آپ چودہ ہزار صحابہ کرام پر مشتمل ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے اور یہ جنگ حنین کے مقام پر لڑی گئی جو مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ مکرمہ سے تقریبا دس میل کے فاصلے پر واقع ایک وادی کا نام ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تعداد اس موقع پر چودہ ہزار تھی، جبکہ اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد کسی باقاعدہ جنگ میں نہیں ہوئی تھی، اور ہمیشہ مسلمان اپنی کم تعداد کے باوجود فتح پاتے آئے تھے، اس لیے بعض مسلمانوں کے منہ سے یہ نکل گیا کہ آج تو ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم کسی سے مغلوب ہو ہی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بجائے اپنی تعداد پر اتنا بھروسہ کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس وقت مسلمان ایک تنگ گھاٹی سے گذر رہے تھے، ہوازن کے تیر اندازوں نے اچانک ان پر اس زور کا حملہ کیا کہ بہت سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند جانباز صحابہ کے ساتھ ثابت قدم رہے اور آپ نے حضرت عباس (رض) کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں کو آواز دے کر بلائیں۔ حضرت عباس (رض) کی آواز بہت تیز تھی، وہ ایک بجلی کی طرح مسلمانوں کے لشکر میں پھیل گئی۔ اور جو لوگ میدان چھوڑ چکے تھے، وہ نئے ولولے کے ساتھ واپس آئے اور کچھ ہی دیر میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ ہوازن کے ستر سردار مارے گئے۔ مالک بن عوف اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کو چھوڑ کر فرار ہوا، اور طائف کے قلعے میں جا کر پناہ لی۔ چھ ہزار افراد جنگی قیدی بنائے گئے اور بڑی تعداد میں مویشی اور چار ہزار اوقیہ چاندی مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی