معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1935
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ. قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ: فَمَنْ؟ (رواه البخارى ومسلم)
امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یقینا ایسا ہوگا کہ تم (یعنی میری امت کے لوگ) اگلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے بالشت برابر بالشت اور برابر ذراع (یعنی بالکل ان کے قدم بہ قدم چلو گے) یہاں تک کہ اگر وہ گھسے ہوں گے گوہ کے بل میں تو اس میں بھی تم ان کی پیروی کرو گے۔ عرض کیا گیا کہ اے خدا کے رسول کیا یہود و نصاری (مراد ہیں؟) آپ نے فرمایا تو اور کون؟ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح عقائد و ایمانیات، عبادات، اخلاق اور معاشرت و معاملات، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ کے بارے میں ہدایت دیں اور امت کی رہنمائی فرمائی اسی طرح مستقبل میں واقع ہونے والے دینی زوال و انحطاط تغیرات اور فتنوں کے بارے میں بھی امت کو آگاہی دی ہے اور ہدایات فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ پر منکشف فرمایا تھا کہ جس طرح اگلی امتوں میں دینی زوال و انحطاط آیا اور وہ طرح طرح کی گمراہیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوئیں اور اللہ تعالی کی نظر عنایت اور نصرت سے محروم ہوئیں ایسے ہی حالات آپ کی امت پر بھی آئیں گے۔ اس انکشاف و اطلاع کا مقصد یہی تھا کہ آپ صلی اللہ وسلم امت کو آنے والے اس خطرہ سے آگاہ کرے اور اس بارے میں ہدایات دیں۔ حدیث کی کتابوں میں "کتاب الفتن" یا "ابواب الفتن" کے زیر عنوان جو حدیثیں روایت کی گئی ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کے اسی سلسلہ کے ارشادات ہیں ان کی حیثیت صرف پیشن گوئیوں کی نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد و مدعا امت کو آئندہ آنے والے فتنوں سے باخبر کرنا اور انکے اثرات سے تحفظ کا داعیہ پیدا کرنا اور طریق کار کے بارے میں ہدایات دینا ہے۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں درج ہونے والی حدیثیں پڑھی جائیں ان میں غور و فکر کیا جائے ان کی روشنی میں خود اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیاجائے اوران سے ہدایت و رہنمائی حاصل کی جائے۔ تشریح ..... "شبر" کے معنی بالشت اور "ذراع" کے معنی ہاتھ کی انگلیوں کے سرے سے لے کر کہنی تک کی مقدار جو ٹھیک دو بالشت برابر ہوتی ہے۔ حدیث کے الفاظ "شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ" کا مطلب بالکل وہ ہے جو اردو محاورہ میں "قدم بقدم" کا ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یقینا ایک وقت ایسا آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگ اگلی امتوں کے گمراہ لوگوں کی قدم بقدم پیروی کریں گے جن گمراہیوں اور غلط کاریوں میں وہ مبتلا ہوئے تھے یہ بھی ان میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی سر پھرے پاگل نے ضب (گوہ) کے بل میں گھسنے کی کوشش کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسے پاگل ہوں گے جو یہ مجنونانہ حرکت کریں گے (مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی احمقانہ حرکتوں میں بھی ان کی پیروی اور نقالی کریں گے یہ دراصل کامل پیروی اور نقالی کی ایک تعبیر و تمثیل ہے) آگے حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد سن کر کسی صحابی نے عرض کیا کہ حضرت! ہم سے پہلی امتوں سے کیا یہودونصاریٰ مراد ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ نہیں تو اور کون ....... مطلب یہ ہے کہ ہاں میری مراد یہودونصاری ہی ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی سطروں میں عرض کیا گیا یہ صرف پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ بڑے مؤثر انداز میں آگاہی ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والے خبردار اور ہوشیار رہیں اور یہود و نصاریٰ کی گمراہیوں اور غلط کاریوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوں۔