اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼


 سورہ التوبۃ آیت نمبر 36
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ  کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ  اَرۡبَعَۃٌ  حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ۙ  فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ  اللّٰہَ  مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳۶﴾

ترجمہ:  حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے۔ (٣٣) جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، یہی دین (کا) سیدھا سادہ (تقاضا) ہے، لہذا ان مہینوں کے معاملے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، (٣٤) اور تم سب ملکر مشرکوں سے اسی طرح لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔

تفسیر:  33: سورت کے شروع میں جو اعلان براءت کیا گیا ہے اس میں بت پرستوں کی ایک قسم کو حرمت والے مہینے ختم ہونے تک مہلت دی گئی تھی، اس مناسبت سے عرب کے بت پرستوں کی ایک معقول رسم کی تردید ضرور تھی جو آیت نمبر 36 اور 37 میں کی گئی ہے۔ اس رسم کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے چاند کے چار مہینوں کو حرمت والے مہینے سمجھا جاتا تھا۔ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان چار مہینوں میں جنگ کی ممانعت تھی۔ عرب کے بت پرستوں نے اگرچہ بت پرستی شروع کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو بہت کچھ بدل ڈالا تھا، لیکن ان مہینوں کی حرمت کو سب تسلیم کرتے تھے، اور ان میں جنگ کو ناجائز سمجھتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ ممانعت ان کو مشکل معلوم ہونے لگی، اس لیے کہ ذوالقعدہ سے محرم تک تین متواتر مہینوں میں لڑائی بند رکھنا ان کے لیے دشوار تھا، چنانچہ اس مشکل کا حل انہوں نے یہ نکالا تھا کہ وہ کسی سال میں کہہ دیتے تھے کہ اس مرتبہ صفر کا مہینہ محرم سے پہلے آئے گا، یا محرم کے بجائے صفر کے مہینے کو حرمت والا مہینہ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اس طرح وہ محرم کے مہینے میں لڑائی کو جائز قرار دے لیتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حج چونکہ مختلف موسموں میں آتا تھا اس لیے بعض مرتبہ وہ موسم ان کی تجارت کے لیے ساز گار نہیں ہوتا تھا تو وہ حج ذوالحجہ کے بجائے کسی اور مہینے میں کرلیتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے کبیسہ کا ایک حساب بھی گھڑ لیا تھا جس کی تفصیل امام رازی نے اپنی تفسیر میں بیان فرمائی ہے اور حافظ ابن جریر کی بعض روایات سے بھی ان کی تائید ہوتی ہے۔ مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کی اس رسم کو نسیئ کہا جاتا تھا جس کا ذکر آیت نمبر 37 میں آرہا ہے۔ 34: یعنی اللہ تعالیٰ نے مہینوں کی جو ترتیب مقرر فرمائی ہے، اس میں رد وبدل کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس مہینے میں لڑائی حرام تھی اس میں اسے حلال کرلیا گیا، جو ایک بڑا گناہ ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والا خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، کیونکہ اس کا برا انجام اس کی جان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ ساتھ ہی اس جملے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے اور ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی فکر اور دونوں سے زیادہ کرنی چاہیے۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی