سوال: آپ کے دارالافتا نے ایک فتویٰ دیا تھا (فتویٰ نمبر 144012201379) ،جس میں آپ نے کہا کہ:" اگر لڑکی کے والد یا دادا لڑکی کا نکاح بچپن میں کردیں ،تو اس سے نکاح ہو جاتا ہے، تو میرا سوال یہ تھا کہ کیا یہ لڑکی کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟ اور کیا نکاح میں لڑکی کو اپنا اختیار حاصل نہیں ہوتا ؟
جواب: واضح رہے کہ دنیا میں انسان کے جتنے بھی رشتے ہیں،ان سب میں سے سب سے زیادہ شفیق، سب سے زیادہ اپنے بچوں کی خیر خواہی اور بہتری چاہنے والا رشتہ باپ اور دادا کا ہے؛ اسی وجہ سے شریعتِ مطہرہ نے ان کے فیصلے کو تقویت دیتے ہوئے ،بچپن میں ان کے کروائے ہوئے نکاح کو نافذ مانا ہے اور بلوغت کے بعد بچوں کو اس کے فسخ کا اختیار نہیں دیاہے۔ہاں اگر بالفرض کسی لڑکی کا باپ یا دادا فاسق، فاجر، لالچی ہو اور معاشرے میں اچھی شہرت کا حامل نہ ہو بلکہ سوء اختیار میں مشہور ہو اور اس نے ایسے مرد سے نکاح کروایاہو ، جو لڑکی کا کفو (ہم پلہ)نہ ہو، تو ان صورتوں میں لڑکی کو شریعت کی طرف سے اس نکاح کے فسخ کااختیار حاصل ہے اور اس صورت میں یہ شرط ہے کہ بلوغت یاسمجھ داری کے فوراً بعد لڑکی زبان سے اس نکاح کو فسخ کردے اور اس پر گواہ بھی بنالے۔اور پھر کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں کے ذریعہ مذکورہ نکاح کو فسخ کرادے۔
البحرالرائق میں ہے :
"(قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ."
(كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء في النكاح، ج:3، ص:128، ط:دارالكتب الإسلامي)
حیلہ ناجزہ میں ہے:
"نابالغ لڑکے اور لڑکی کا سب سےمقدم ولی باپ ہے ،اگر باپ نابالغ کا نکاح کردے تو ہ نکاح لازم ہوجاتا ہے،یعنی بلوغ کے بعد بھی لڑکے لڑکی کو اس کے فسخ کرانے کا اختیار نہیں رہتا ،خواہ کفو میں نکاح کیا ہو یا غیر کفو میں ،اور مہر مثل مقررہوا ہو یا مہر میں غبن فاحش کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر غیر کفو کے ساتھ اور غبن فاحش پر نکاح کے صحیح ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں: (1) یہ کہ وہ شخص نکاح کرنے کے وقت ہوش حواس سالم رکھتا ہو ،پس اگر نشہ کی حالت میں ایسا کیا تو نکاح بالکل ہی باطل ہے۔(2) دوسری شرط یہ ہے کہ معروف بسوء الاختیار نہ ہو،یعنی اس کے قبل کوئی واقعہ ایسا نہ ہوا ہو جس کی بناء پر عموماً خیال ہوجائے کہ یہ شخص معاملات میں لالچ وغیرہ کی وجہ سے مصلحت اور انجام بینی کو مد نظر نہیں رکھتا،پس اگر کوئی شخص لالچ یا ناعاقبت اندیشی کے سبب بدتدبیری میں مشہور و معروف ہو،وہ اگر نابالغ بیٹے یا بیٹی کا نکاح غیر کفو سے کردے یا مہر میں غبن فاحش کرے ،تو وہ نکاح بھی بالکل باطل ہے۔اور جو شخص فاسق متہتک (یعنی بے باک اور بے غیرت) ہو ،وہ بھی سیئ الاختیار کے حکم میں ہے۔"
(المختارات فی مھمات التفریق والخیارات، ص:92، ط:دار الاشاعت۔کراتشی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504100689
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن