ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ التوبۃ آیت نمبر 3
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿۳﴾
ترجمہ: اور حج اکبر کے دن (٢) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ بھی مشرکین سے دست بردار ہوچکا ہے، اور اس کا رسول بھی۔ اب (اے مشرکو) اگر تم توبہ کرلو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہوگا، اور اگر تم نے (اب بھی) منہ موڑے رکھا تو یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، اور تمام کافروں کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔
تفسیر: 2: دست برداری کا یہ حکم آچکا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں سے انصاف کی خاطر ان مختلف مدتوں کی ابتداء اس وقت سے فرمائی جب ان کو ان سارے احکام کی اطلاع ہوجائے، پورے عرب میں اعلان کا سب سے مؤثر ذریعہ یہ تھا کہ یہ اعلان حج کے موقع پر کیا جائے، کیونکہ اس وقت سارے عرب کے لوگ حجاز میں جمع ہوتے تھے، اور اس وقت تک مشرکین بھی حج کے لئے آتے تھے، چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو حج ٩ ہجری میں ہوا، اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ نفس نفیس تو حج کے لئے تشریف نہیں لے گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بناکر بھیجا تھا ان کے بعد آپ نے حضرت علی (رض) کو بھی اسی مقصد سے روانہ فرمایا کہ وہ ان احکام کا سب کے سامنے اعلان کردیں، وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں یہ معمول تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی معاہدہ کیا ہوتا اور وہ اسے ختم کرنا چاہتا تو یہ ضروری سمجھا جاتا تھا کہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان یا تو وہ خود کرے یا اس کا کوئی قریبی عزیز، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو روانہ فرمایا . (الدرالمنثورص ١١٤ ج، ٤ بیروت ١٤٢١ ھ) ۔ واضح رہے کہ حج اکبر ہر حج کو اس لئے کہتے ہیں کہ عمرہ چھوٹا حج ہے اور اس کے مقابلے میں حج بڑا حج ہے، اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر حج جمعہ کے دن آجائے تو وہ حج اکبر ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، جمعہ کے دن حج ہو تو بیشک دو فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں ؛ لیکن صرف اسی کو حج اکبر قرار دینا درست نہیں ہے، بلکہ یہ لقب ہر حج کا ہے، چاہے وہ کسی بھی دن ہو۔