🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر سینتالیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر سینتالیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق نے رابعہ کی رہائش کا انتظام کرنے کا حکم دیدیا اور یہ بھی کہ اس کے بچوں کو بھی یہاں لے آئیں،،،،،،، وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا کہ اس عورت کی رہائش پر پہرہ ضرور ہونا چاہیے اور پہرہ ایسا ہو کہ اسے پتہ نہ چلے ،دو تین ملازموں کو یہ فرض سونپا جائے کہ وہ ہر وقت اس پر نظر رکھیں، سلطان برکیارق نے اس مشورے کے مطابق حکم جاری کردیا۔
اس کے بعد سلطان برکیارق نے باہر آکر وزیراعظم سے کہا کہ جنگ بند کرانا اس کا کام ہے ،اور وہ جس قدر جلدی ہو سکے یہ قتل و غارت رکوا دے۔
سمیری چلاگیا اور سلطان برکیارق نے اپنے دربان سے کہا کہ وہ کنیز نگینہ کو میرے کمرے میں بھیج دیے،اس نے جا کر دیکھا اس کے کمرے کے فرش سے روزینہ کا خون دھو دیا گیا تھا، اور دروازے کے باہر جو خون گرا تھا وہ بھی صاف کر دیا گیا تھا، کمرے میں پھر قالین ویسے ہی بچھ گیا تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا، جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ برکیارق پلنگ پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شمونہ کمرے میں داخل ہوئی اور کنیزوں کی طرح آداب بجا لائی، سلطان برکیارق نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، شمونہ قالین پر بیٹھ گئی۔
نگینہ!،،،،،، سلطان برکیارق نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا۔۔۔ اب تم کنیز نہیں ہو، میرے دل میں تم نے اپنا درجہ خاصہ بلند کرلیا ہے، اوپر بیٹھو یا میرے پاس پلنگ پر بیٹھ جاؤ ۔
شمونہ قالین سے اٹھی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔۔۔ برکیارق  نے کہا۔۔۔ تم نے سلجوقی سلطنت کو مزید خون خرابے سے بچا لیا ہے،،،،، میں تمہیں اس کا انعام دینا چاہتا ہوں، بولو کیا چاہیے۔
سلطان عالی مقام!،،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ میں نے آپ کی والدہ محترمہ سے بھی کہا تھا اور آپ سے بھی کہتی ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ،نئی زندگی یا موت دینے والا صرف اللہ ہے، اللہ نے اگر مجھے اس کا سبب بنایا ہے تو  یہ میرا کمال نہیں میں کوئی انعام نہیں چاہتی۔
لیکن میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ تم نے میری صرف جان ہی نہیں بچائی بلکہ میری ذات اور میری شخصیت کو ایک تباہی سے بچایا ہے، میں ایک شیطان کے قبضے میں آگیا تھا اُس نے مجھ سے میری ماں کی توہین کرائی یہ ایک کبیرہ گناہ ہے جو معلوم نہیں اللہ تعالی بھی معاف کرے گا یا نہیں ،اور اس شیطان نے مجھے میرے بھائیوں کا دشمن بنایا اور یہ جو قتل و غارت میری سلطنت میں شروع ہوگئی ہے یہ بھی میرے حساب میں لکھی جائے گی، تم آگئی تو میں راہ راست پر آگیا ہوں ،یہ کوئی معمولی کارنامہ اور مجھ پر معمولی احسان نہیں۔
میں نے انعام حاصل کرلیا ہے سلطان محترم!،،،،،، شمونہ نے کہا ۔۔۔۔میں یہ کام کرنا چاہتی تھی ،مجھے امید نہیں تھی کہ میں کامیاب ہو جاؤں گی لیکن اللہ نے میری دعائیں قبول کی اور میں کامیاب ہوگئی، یہ انعام کچھ کم نہیں کہ میں نے جو کرنا چاہا وہ ہوگیا۔
میں تمہیں ایک انعام دینا چاہتا ہوں۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔تم اب روزینہ کی جگہ لوگی آج سے تم کنیز نہیں ہو، میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ کر کے حالات کو معمول پر لے آؤں تو تمہارے ساتھ شادی کر لوں گا، مجھے ایسی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ تم انکار کرو گی۔
سلطان محترم !،،،،،شمونہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ آپ یہی امید رکھیں کہ میں انکار ہی کروں گی، اس انکار کا ایک جواز ہے اور اس کا پس منظر بھی ہے، آپ پس منظر سنیں پھر شادی کرلیں گے ۔
مطلب یہ کہ تم شادی شدہ ہو۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔
میں شادی شدہ نہیں ہوں ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ لیکن میں مرد کی فطرت کی کمزوریوں سے اور مرد کے وجود سے اور مرد کی عیش پرستی اور لذت پرستی سے ناواقف نہیں ہوں، پہلی بات یہ ہے کہ سلطان عالی مقام میرا نام نگینہ نہیں شمونہ ہے ،میں نے یہاں اپنا صحیح نام اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر نہیں بتایا تھا، میں بچپن میں ایک قافلے سے اغوا کی گئی تھی اور میری پرورش حسن بن صباح کی جنت میں ہوئی تھی، جوان ہوئی تو میں حسن بن صباح کے زیرسایہ رہی ،میرے اندر ابلیسیت سمودی گئی تھی اور پھر مجھے اس طرف بھیج دیا گیا ،میں آپ کو کوئی لمبی داستان نہیں سناؤ گی میں نے بڑے بڑے سرداروں عہدے داروں اور کمانڈروں کو حسن بن صباح کے سانچے میں ڈھالا ہے ،پھر جس طرح آپ راہ راست پر آگئے ہیں اسی طرح اللہ نے مجھے روشنی دکھائی اور میں بھی اللہ کی راہ پر آگئی،،،،،،،،، اللہ نے مجھے یہ انعام دیا کہ مجھے میری ماں مل گئی جس کی آغوش سے مجھے برسوں پہلے نوچا گیا تھا ،پھر مجھے ایک اور انسان مل گیا جس نے مجھے ولی اور روحانی محبت سے آشنا ہی نہیں بلکہ سرشار کیا، اس آدمی نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دی کہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر یہیں کا ہو کے رہ گیا ہے ،وہ اصفہان کا رہنے والا ہے اور اس کا نام مزمل افندی ہے ،وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لیے گیا تھا لیکن ان کے جال میں آ گیا ،انہوں نے اپنے خصوصی طریقوں سے اس کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا اور اسے سلطان ملک شاہ مرحوم کے قتل کے لیے تیار کرکے یہاں بھیج دیا،،،،،، یہ سلطان مرحوم کی خوش نصیبی تھی اور یہ مزمل کی بھی خوش نصیبی تھی کہ اس نے میرے ساتھ اس ارادے کا ذکر کر دیا ،میں نے سلطان مرحوم کو بتا دیا، سلطان مرحوم نے طبیب کو بلایا اور طبیب نے اسے دوائیاں وغیرہ دے کر اس کے دل و دماغ سے باطنیوں کے اثرات نکال لئے ،اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لانے میں میرا عمل داخل بھی ہے ،ہم دونوں کی محبت ایک دوسرے کی روح میں اتری ہوئی ہے۔
پھر تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟،،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا۔
ہم دونوں کا مقصد اور عہد ایک ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا ہے، یہ عہد پورا کرکے ہم شادی کریں گے، لیکن ہمارے سامنے مشکل یہ رہی ہے کہ مجھے بھی اور مزمل کو بھی قلعہ الموت میں بہت سے لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں، ہم وہاں گئے تو جاتے ہی پکڑے جائیں گے، ہم حسن بن صباح کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی موقع نہیں مل رہا تھا ،آپ کی شادی روزینہ سے ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ روزینہ حسن بن صباح کی جنت سے آئی ہے، پھر میں اور مزمل سنتے رہے کہ اس لڑکی نے آپ کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے، اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے ہی شروع کرائی ہے، میں تڑپتی رہی کہ روزینہ کو کس طرح قتل کروں لیکن کوئی راستہ اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا ،آخر مجھے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے ملوایا گیا اور انہوں نے مجھے یہاں کنیز رکھوایا۔
شمونہ نے سلطان برکیارق کو تفصیلا سنایا کہ اس نے روزینہ کے دل میں اپنا اعتماد کس طرح پیدا کیا تھا، اس نے بتایا کہ جو تربیت روزینہ کو ملی تھی وہی تربیت اسے دی گئی تھی ،شمونہ نے بتایا کہ اس نے وہی تربیت اور وہی تجربہ روزینہ پر استعمال کیا اور اس کے دل میں اتر گئی۔
شمونا نے سلطان برکیارق کو یہ نہ بتایا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا بلکہ زہر شمونہ نے اپنے ہاتھوں سے ملایا اور یہ منصوبہ جو اس نے سوچا تھا کامیاب رہا۔
شمونہ نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اس نے اگر برکیارق کو بتا دیا کہ روزینہ نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا تو ہو سکتا ہے کہ برکیارق کو افسوس ہو کہ اس نے بلاوجہ روزینہ کو قتل کیا ،شمونہ نے برکیارق کو یہ بھی بتایا کہ روزینہ شربت میں خاص قسم کی حشیش ملایا کرتی تھی اور شمونہ نظر بچا کر یہ شربت غسل خانے میں انڈیل دیتی اور دوسرا شربت ڈال کر اس میں وہ دوائی ملا دیتی تھی جو طبیب نے مزمل کو دی تھی، مختصر یہ کہ شمونہ نے برکیارق کو لمحہ بہ لمحہ اپنے کارنامے کی تفصیلات سنائی برکیارق اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
سلطان عالی مقام !،،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔اگر آپ نے میرے ساتھ شادی کی یا جذباتی طور پر مجھے مجبور کیا تو یہ انعام نہیں ہوگا بلکہ میرا جو انعام ہے اس سے آپ مجھے محروم کریں گے ،آپ کی سلطنت میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی موجود ہے، مجھے آزاد رہنے دیں،میرا عہد ابھی پورا نہیں ہوا ،میرے سینے میں حسن بن صباح کے خلاف نفرت اور انتقام کا طوفان اٹھتا ہے جسے میں بڑی مشکل سے دباتی ہوں، میں اس شیطان تک تو نہیں پہنچ سکتی لیکن جہاں پتہ چلے گا کہ اس کا کوئی فدائی مرد یا عورت فلاں جگہ موجود ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے ذہر پلاؤں گی ۔
میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ اور پوچھا مزمل آفندی کہاں ہے؟ 
وہ سالار اوریزی کے ساتھ ہی۔۔۔۔ شمونہ نے جواب دیا۔۔۔ اس کا رابطہ آپکے دونوں بھائیوں محمد اور سنجر کے ساتھ رہتا ہے، اسے معلوم ہے کہ باطنی دونوں طرفوں کی فوجوں اور شہر میں بھی موجود ہیں ،اور وہی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں ،مزمل ان باطنیوں کے قتل کے لیے دیوانہ ہوا جاتا ہے، میں اسے آپ سے ملواؤں گی۔
سلطان برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا وہ یکلخت اٹھ بیٹھا اور لپک کر شمونہ کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا اور پھر اس ہاتھ کو چوما اور پھر بڑے احترام سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
اگر ایک عورت اتنا بڑا کام کرسکتی ہے تو میں تو سلطان ہوتے ہوئے اور زیادہ بڑے کام کرسکتا ہوں۔۔۔ سلطان برکیارق نے بڑے جوشیلے اور پر عزم لہجے میں کہا۔۔۔زندگی میں صرف شادی ہی تو ایک مسئلہ نہیں ہوتا، مجھے بہت کچھ کرنا ہے اور میں کرونگا۔
اب میرے لیے کیا حکم ہے۔۔۔ شمونہ نے برکیارق سے پوچھا اور کہا ۔۔۔میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں ،میں اپنے تجربے کی بنا پر کہتی ہوں کہ مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہئے ،میں آپ کے سامنے نہ ہی رہوں تو اچھا ہے ،ورنہ آپ کے ارادے متزلزل رہیں گے اور جب بھی آپ مجھے دیکھیں گے تو آپ کے دل میں یہ خواہش تڑپے گی کہ میں روزینہ کی جگہ لے لوں، مجھے آپ جب بھی یاد کریں گے فوراً پہنچوں گی۔
ہاں شمونہ !،،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔تم نے مجھے بیدار کردیا ہے اور تم نے میرے اندر ایک عزم پیدا کیا ہے، تم نے جو کہا ٹھیک کہا ہے، تم اپنی ماں کے پاس چلی جاؤں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمہیں بھی مجبور کر دوں کہ میرے ساتھ شادی کر لو، اب میں ہمہ وقت سلطنت کے کاموں میں مصروف ہوجاونگا ۔
شمونہ اٹھی اور آداب بجا لا کر برکیارق کے کمرے سے نکل آئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔
سلطان برکیارق نے وزیراعظم سمیری کو بلایا، تھوڑی دیر بعد سمیری آگیا۔
 اس طبیب کے گھر آج رات ہی چھاپہ مارنے کا انتظام کریں ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ چھاپہ آدھی رات کے کچھ دیر بعد مارا جائے، بہرحال یہ انتظام آپ نے کرنا ہے۔
انتظام ہو جائے گا ۔۔۔وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ لیکن میں سلطان محترم کو بتا دوں کہ ان لوگوں کو زندہ پکڑنا آسان نہیں ہوگا، میں اجازت چاہتا ہوں کہ وہ لوگ مقابلہ کرے تو ہم یہ کوشش نہ کرے کہ انہیں زندہ پکڑا جائے، البتہ یہ کوشش ضرور ہوگی کہ ایک دو آدمی زندہ ضرور پکڑے جائیں ۔
یہ سب کچھ سوچنا آپ کا کام ہے۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ صبح تک مجھے یہ لوگ زندہ یا مردہ دیکھنے ہیں۔
اس زمانے میں وزیراعظم سپہ سالاری کا اور فن حرب و ضرب کا پورا پورا تجربہ رکھتے تھے ،ضرورت کے وقت وزیراعظم فوج کی کمان بھی لے لیا کرتا تھا، وزیراعظم نے جاکر چھاپے کیلئے آدمی منتخب کر لیے، اس چھاپہ مار جماعت کا جو کماندار تھا اسے بھیجا گیا کہ وہ طبیب کا گھر دیکھ آئے، طبیب کا گھر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ پورے شہر میں مشہور ہو گیا تھا، بہرحال کماندار چلا گیا اور وہ گھر اس نظر سے دیکھ آیا کہ رات اس گھر پر چھاپہ مارنا ہے۔
اس رات طبیب کے گھر میں کچھ زیادہ ہی آدمی اکٹھے ہو گئے تھے، انہیں پتہ چل گیا تھا کہ خانہ جنگی بند کرنے کا حکم مل گیا ہے، پتہ اس طرح چلا کہ سلطان برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو حکم دیا تھا کہ سرکاری فوج کو لڑنے سے روک دیا جائے، سپہ سالار حجازی نے ہر طرف قاصد دوڑا دیے تھے اور جس طرف زیادہ دستے تھے اس طرف وہ خود چلا گیا تھا، اس طرح سلطان کا حکم کوئی راز نہیں رہا تھا یہ فوراً باطنیوں تک پہنچ گیا تھا، ان باطنیوں میں جو لیڈر قسم کے افراد تھے وہ طبیب کے یہاں اکٹھے ہوگئے تھے اور وہ اس صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے تھے، انہیں ابھی یہ سوچنا تھا کہ خانہ جنگی کس طرح جاری رکھی جائے اور اس صورتحال میں کس قسم کی تخریب کاری کی جا سکتی ہے۔
اس حویلی میں کم و بیش بیس آدمی اکٹھے ہوگئے تھے ،رات گزرتی جارہی تھی اور یہ لوگ اس طرح تبادلہ خیالات اور بحث مباحثہ کر رہے تھے جیسے ان کا سونے کا کوئی ارادہ نہیں ،طبیب بار بار کہتا تھا کہ خانہ جنگی بند ہوگئی تو وہ شیخ الجبل (حسن بن صباح) کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔
غور اس پر کریں کہ سلطان نے یہ حکم دیا ہی کیوں ہے۔۔۔ طبیب کے ایک دست راست نے کہا۔۔۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ روزینہ ناکام ہوگئی ہے۔
میں نے یہی سوچ کر رابعہ کو بلوایا تھا۔۔۔ طبیب نے کہا۔۔۔ اور اسے روزینہ کے پاس جانے کو کہا تھا ،لیکن رابعہ ابھی تک واپس نہیں آئی، اس کے گھر آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ اس کے بچے بھی گھر میں نہیں ہیں گھر خالی پڑا ہے ۔
پھر وہ پکڑی گئی ہے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سلطان برکیارق کو بھائیوں نے قتل کردیا ہو ،خانہ جنگی بند کرنے کا حکم محمد نے ہی دیا ہوگا۔
اس گروہ کو ابھی پتہ نہیں چلا تھا کہ ہوا کیا ہے، وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے اور رات آدھی گزر گئی تھی، یہ ایک بڑی حویلی تھی جس کی ساخت ایک قلعے جیسی تھی، اس کی چھت ساتھ والے مکانوں کی چھتوں سے ملتی تھی، ان آدمیوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ سنائی دے رہی ہے، سب خاموش ہو گئے۔ قدموں کی آہٹیں صاف سنائی دے رہی تھیں، ان میں سے کچھ آدمی دوڑ کر صحن میں آئے اور اوپر دیکھنے لگے۔
عبدالرحمان سمیری کی بھیجی ہوئی چھاپہ مار جماعت کسی قریبی مکان میں داخل ہو کر اوپر گئی اور چھتوں کے ذریعے طبیب کی چھت تک پہنچی، نیچے سے باطنیوں نے دیکھ لیا اور کوئی زور سے پکارا تیار ہو جاؤ بھائیوں، حویلی کے برآمدے میں دو دیے جل رہے تھے ان کی روشنی صحن میں بھی جا رہی تھی۔
صحن میں جو باطنی نکلے تھے ان میں سے کچھ برآمدے کی طرف دوڑے اور دو دروازے کی طرف گئے اور دروازے کی زنجیر اتارنے لگے، منڈیر سے ایک چھاپہ مار نے ان پر برچھی پھینکی جو ایک باطنی کی پیٹھ میں اتر گئی، دوسرے نے ایسی دلیری کا مظاہرہ کیا کہ باہر بھاگنے کی بجائے اس نے اپنے ساتھی کی پیٹ میں سے برچھی نکال لی اور چھاپہ ماروں سے مقابلے کے لئے تیار ہوگیا ،چھاپہ مار دوڑتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف آئے اور بڑی ہی تیزی سے نیچے اترنے لگے۔
کمرے میں سے تمام باطنی تلواریں اور برچھیاں لے کر نکل آئے ،چھاپہ ماروں کی تعداد پچیس یا تیس تھی ،باطنی بیس تھے، حویلی کے صحن میں بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا ،وہ چھاپہ مار دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے تھے تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے، چھاپہ ماروں کا کماندار بار بار چلا رہا تھا کہ ان میں سے دو تین کو زندہ پکڑو لیکن باطنی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے انداز سے دلیری سے لڑ رہے تھے۔
چھاپہ مار تجربہ کار تھے ان کے چند ایک آدمی زخمی ہوچکے تھے اور وہ گر پڑے تھے، لیکن زیادہ نقصان باطنیوں کا ہو رہا تھا ،دیکھا گیا کہ ایک باطنی نے جب دیکھا کہ اس کے ساتھی مارے گئے ہیں اور چھاپہ مار غالب آگئے ہیں تو وہ دوڑ کر ایک طرف ہو گیا ،دو تین چھاپہ مار اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھے لیکن باطنی نے اپنی تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی، ایک باطنی جو کسی کمرے میں چھپ گیاتھا نکلا اور دروازے کی طرف دوڑا، اس وقت کوئی چھاپہ مار دروازے کے قریب نہیں تھا باطنی دروازہ کھول رہا تھا کہ دو چھاپہ ماروں نے اس پر وار کرنے کی بجائے اسے ایسا جکڑا کے وہ لڑنے کے قابل نہ رہا، اسے زندہ پکڑ لیا گیا۔
طبیب بھی مارا گیا اور اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی پاؤں پر کھڑا نہ رہا صرف ایک کو زندہ پکڑا گیا ،چھاپہ ماروں کا کماندار زخمی باطنیوں کو دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ ان میں کوئی معمولی زخمی ہو گا تو اسے اٹھا کر لے جائیں گے، اس نے ایک زخمی کو دیکھا جو پیٹ کے بل پڑا تھا اس نے اپنی تلوار جو اس کے قریب ہی پڑی تھی اٹھائی اور اوپر کرکے اپنے پیٹ میں مار لی، پانچ چھاپہ مار مارے جا چکے تھے اور زخمی تقریبا سب ہی ہوئے تھے لیکن وہ چل پھر سکتے تھے، چھاپہ ماروں نے اپنے زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا لیا اور زندہ باطنی کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آئے۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری چھاپہ ماروں کی واپسی کے انتظار میں بے تاب ہو رہا تھا آخر چھاپہ مار پہنچ گئے، سب کے کپڑے خون سے لال تھے انہوں نے زندہ باطنی وزیراعظم کے حوالے کیا اور اسے بتایا کہ باقی سب مارے گئے ہیں، یہ بھی بتایا کہ باطنیوں نے کس بے خوفی سے مقابلہ کیا تھا ۔
اسے اس کمرے میں لے جاؤ ۔۔۔وزیراعظم سمیری نے کہا۔
وہ ایک خاص کمرہ تھا جو محل کے ایک دور کے حصے میں تھا، محل کا حسن اور رونق اور کہاں یہ کمرہ کہ اس میں جو داخل ہوتا وہ ناک پر کپڑا رکھ لیتا تھا، کیونکہ یہ کمرہ ایسی بدبو سے بھرا رہتا تھا جو ناقابل برداشت تھی، یہاں ملزموں اور مشتہبوں سے تفتیش کی جاتی تھی ،تفتیش کا مطلب پوچھ گچھ نہیں بلکہ ایسی غیرانسانی اذیتیں دی جاتی تھی کہ آدمی مر مر کر جیتا تھا ،بعض مر جاتے تھے ان کی لاشیں کچھ دن وہیں پڑی رہنے دی جاتی تھی اور وہ دوسرے ملزموں کو دکھا کر کہا جاتا تھا کہ سچ بولو ورنہ تمہاری لاش بھی ان لاشوں کے ساتھ پڑی ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس باطنی کو اس کمرے میں لے جایا گیا اور کچھ دیر بعد وزیراعظم سمیری اپنے دو خاص آدمیوں کے ساتھ وہاں گیا ،باطنی سے کہا کہ وہ اگر سچ بولے گا تو اس کی جان بخشی کردی جائے گی اور انعام بھی دیا جائے گا، ورنہ اس کا حشر بہت برا ہوگا۔
میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا ۔۔۔باطنی نے کہا ۔۔۔میرے جسم کو پاؤں سے کاٹنا شروع کر دو میری زبان سلامت رہنے دو تو بھی میری زبان پر وہ سچ نہیں آئے گا جو تم لوگ سننا چاہتے ہو۔
اس کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا گیا، بہلانے اور ورغلانے کا ہر حربہ آزمایا گیا اور لالچ دیے گئے لیکن وہ شخص مسکراتا رہا اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا ،وزیراعظم سمیری نے اپنے آدمیوں کو سر سے ہلکا سا اشارہ کیا اور خود باہر نکل آیا، ان آدمیوں نے دروازہ بند کر دیا۔
صبح طلوع ہوئی اور سورج کچھ اوپر اٹھا تو وزیراعظم سمیری اپنے گھر سے نکلا وہ اپنے دفتر میں جانے کی بجائے اسی کمرے میں چلا گیا جس میں باطنی کو رکھا گیا تھا ،اس نے دیکھا کہ اس باطنی کو اس کے آدمیوں نے الٹا لٹکایا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں کے ساتھ دس دس سیر وزنی پتھر بندھے ہوئے تھے ،وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اس نے کچھ بھی نہیں بتایا بلکہ یہ بولتا ہی نہیں، وزیراعظم نے انہیں کہا کہ اپنا عمل جاری رکھو اور اگر یہ مر جاتا ہے تو مر جانے دو لیکن کوشش کرو کہ یہ کچھ اگل دے۔
چار پانچ گھنٹے گزر گئے تو وزیراعظم سمیری ایک بار پھر اس کمرے میں گیا، باطنی ابھی تک الٹا لٹکا ہوا تھا، سمیری حیران ہو رہا تھا کہ یہ شخص انسان ہے یا پتھر کا مجسمہ ہے، اس نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا۔
کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا ،وزیراعظم سمیری اور اس کے دونوں آدمیوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہ ایک عورت تھی جس کے بال کھلے اور بکھرے ہوئے تھے، اس نے غریبانہ سے کپڑے پہن رکھے تھے اور پریشان حال نظر آتی تھی، وہ الٹے لٹکے ہوئے باطنی کے ساتھ لپٹ گئی اور رونے اور چیخنے لگی، باطنی کو چھوڑ کر وہ وزیراعظم سمیری کے قدموں میں جا گری اور اس کے قدموں میں ماتھا رگڑنے لگی۔
اللہ تمہیں اس سے بڑا عہدہ دے ۔۔۔اس عورت نے روتے ہوئے فریاد کی ،،،،کہ یہ میرا بھائی ہے، ایک ہی ایک بھائی ہے اس پر کوئی شک نہ کرو اسے باطنی نہ سمجھو، اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اللہ کے نام پر اسے چھوڑ دو ورنہ میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔
دونوں آدمی اس عورت کو اٹھا کر باہر کو دھکیلنے لگے لیکن وزیراعظم سمیری نے انہیں روک دیا اور اس عورت سے پوچھا کہ وہ اندر کس طرح آ گئی ہے ۔
میں دربانوں کے آگے روئی اور فریادیں کی تھیں۔۔۔ عورت نے کہا ۔۔۔انہوں نے مجھے روک لیا تھا لیکن ان کے دلوں میں رحم آگیا اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ تمہارا بھائی فلاں کمرے میں بند ہے۔
آرام سے بات کرو۔۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے اسے کہا۔۔۔ ہم کسی پر بلاوجہ ظلم نہیں کرتے، تمہارا یہ بھائی ہم نے اس طبیب کے گھر سے پکڑا ہے جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی ہے، ان لوگوں نے ہمارے چھاپہ ماروں کا مقابلہ کیا تھا اور سب مارے گئے ہیں، تمہارا یہ بھائی زندہ پکڑا گیا ہے، یہ بتاؤ کہ یہ وہاں کیا کر رہا تھا۔
میں جانتی ہوں یہ وہاں کیوں گیا تھا۔۔۔ عورت نے کہا۔۔۔ یہ اس طبیب کے پاس گیا تھا ،اسے پیٹ کی کوئی بیماری لگی ہوئی ہے، طبیب اسے اپنے ساتھ ہی رکھتا تھا اور اس سے اپنے گھر کے اور دوائی خانے کے چھوٹے موٹے کام کرواتا تھا ،اور اس کی اسے اجرت دیتا تھا۔
لیکن یہ تو اپنے منہ سے کہتا ہے کہ میں باطنی ہوں۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔اس نے کہا ہے کہ میں شیخ الجبل کو دھوکا نہیں دوں گا، اور سچ نہیں بولوں گا ۔
اس سے پوچھیں کہ یہ جانتا ہے کہ شیخ الجبل کون ہے ۔۔۔عورت نے کہا۔۔۔ اسے ان شیطانوں نے یہ بتایا ہوگا کہ شیخ الجبل اللہ کا بھیجا ہوا کوئی نبی یا ولی یا امام ہے، اس سے پوچھو کہ حسن بن صباح کون ہے تو یہ نفرت سے تھوک دے گا۔
یہ عورت باربار وزیراعظم کے آگے ہاتھ جوڑتی اور جھک کر اس کے پاؤں پکڑتی اور یہی فریاد کرتی کہ میرے بھائی کو چھوڑ دو یہ بے گناہ ہے اور میرا اور میرے بچوں کا واحد سہارا ہے، اس عورت کا تڑپنا رونا اور بے حال ہو جانا کچھ اثر کر گیا ،وزیراعظم سمیری سوچ میں پڑ گیا آخر اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے اتار کر لٹا دو اور اسے پانی پلاؤ۔
اب میری ایک بات سنو۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے اس بدحال عورت سے کہا۔۔۔ میں تمہیں اس بھائی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دوں گا ،اگر یہ حسن بن صباح کا چیلا ہے تو بتا دے، اگر نہیں تو تم مجھ سے تسلیم کروا لو کہ اس کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میری تسلی ہوگئی تو میں اسے چھوڑ دوں گا۔
اس باطنی کو اتارا گیا پانی پلایا گیا اور پھر وزیر اعظم کے کہنے پر اسے کچھ کھلایا گیا اور اس عورت کے ساتھ اسے کمرے میں تنہا چھوڑ دیا گیا ،وزیراعظم سمیری وہاں سے جاچکا تھا۔
بےوقوف!،،،،،، اس عورت نے باطنی کے ساتھ لپٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تم زندہ کس طرح پکڑے گئے تھے ،بھاگ جاتے مر جاتے۔
میں تو دروازے سے نکل رہا تھا کہ انہوں نے پکڑ لیا۔۔۔ باطنی نے کراہتے ہوئے کہا۔۔۔ تم نے تو کمال ہی کر دیا ہے ،کیا مجھے یہاں سے نکلوا سکو گی؟ 
 میں نے کوئی بھی کام ہاتھ میں لیا ہے تو کرکے ہی چھوڑا ہے۔۔۔ عورت نے کہا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں یہاں سے نکال لے جاؤں گی ،اگر انہوں نے نہ چھوڑا تو مجھے یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ تم یہاں ہو، میں تمہیں کسی نہ کسی طرح فرار کرا لونگی ،مجھے یہ بتاؤ کہ میں کسے اطلاع دوں کہ تم یہاں ہو، میں تو اپنے گروہ کو جانتی ہوں لیکن ہر کسی کو نہیں۔ باطنی نے اسے بتانا شروع کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دن کے پچھلے پہر وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ خانہ جنگی بند کرانے اور حالات کو معمول پر لانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، سلطان برکیارق ذہنی طور پر اس قدر ٹھیک ہوگیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم باپ سلطان ملک شاہ کی طرح باتیں کرنے لگا تھا ،اس نے یہاں تک کہا کہ خانہ جنگی رک جائے تو دونوں طرف کے لشکروں کو اکٹھا کرکے میں ایسی طاقتور فوج بناؤں گا جو ایک ہی ہلے میں حسن بن صباح کا صفایا کردے گی۔
 دربان کمرے میں داخل ہوا۔
سلطان عالی مقام !،،،،،،دربان نے جھک کر کہا ۔۔۔۔ایک عورت آئی ہے ملاقات کی اجازت چاہتی ہے۔ 
سلطان برکیارق کے چہرے پر خفگی کے تاثرات آگئے اور اس نے وزیراعظم سمیری کی طرف دیکھا اس وقت سلطان کسی عام آدمی سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔
میں جانتا ہوں وہ کون ہے ۔۔۔وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ اسے آنے دیں سلطان محترم۔
وزیراعظم نے دربان سے کہا کہ اسے اندر بھیج دو ۔
رابعہ کمرے میں داخل ہوئی، سلطان برکیارق نے اسے اس حالت میں دیکھا تو کچھ پریشان سا ہو کر بولا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا ہے، رابعہ میرے محل میں تم اس حالت کو کس طرح پہنچی ہو ؟،،،،،،،رابعہ ہنس پڑی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے اور بوسیدہ تھے، اور وہ بھکارن لگتی تھی۔
یہ میں آپ کو بتاؤں گا سلطان محترم!،،،،،،، وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ پہلے میں اس سے وہ باتیں سن لوں جس کے لیے میں نے اسے بلایا تھا۔
کام کرآئی ہوں۔۔۔ رابعہ نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ بھی بھلا کوئی کام تھا ،میں نے اس سے وہ سب کچھ اگلوا لیا ہے جو آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں، اس کے جسم کے آپ ٹکڑے کر دیتے وہ نہ بولتا۔
وہ عورت جو تفتیش والے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس باطنی سے لپٹ گئی تھی اور وزیراعظم سمیری کے قدموں میں ماتھا رگڑ رگڑ کر فریادیں کرتی تھی وہ اس باطنی کی بہن نہیں تھی نہ اس کی کچھ لگتی تھی، وہ رابعہ تھی، رابعہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ تھی، پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر سلطان برکیارق کے آگے جھک گئی اور اس نے راز اگل دیئے تھے اور اب عبدالرحمن سمیری نے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس نے رابعہ کو صبح اپنے پاس بٹھا کر بتایا تھا کہ رات ہم نے طبیب کے گھر چھاپہ مارا ہے اور اسکا صرف ایک آدمی زندہ پکڑا گیا ہے لیکن وہ بولتا نہیں۔
بولے گا ۔۔۔رابعہ نے پراعتماد انداز سے کہا۔۔۔ میں وہاں آؤں گی لیکن آپ کا وہاں ہونا لازمی ہے۔
وزیراعظم سمیری اور رابعہ نے ایک اسکیم بنالی ،اور رابعہ اٹھ کر چلی گئی، جو وقت مقرر کیا گیا تھا اس وقت وزیراعظم اس کمرے میں پہنچ گیا اور رابعہ ایک غریب مفلوق الحال اور پریشان حال عورت کے بہروپ میں اس کمرے میں جا پہنچی، اور وہ اداکاری کی جو پہلے سنائی جا چکی ہے، وزیراعظم اپنے دونوں آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے آگیا اور رابعہ نے اس باطنی کو رام کر لیا ،یہ باطنی رابعہ کو جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ رابعہ اس قدر عیار اور تجربہ کار ہے کہ جنگل میں نکل جائے تو درندوں کو بھی اپنا مرید بنالے، اس باطنی نے رابعہ کو وہ باتیں بھی بتا دیں جو رابعہ کو بھی معلوم نہیں تھیں، یہ باطنیوں کے کچھ اور ٹھکانے تھے اور باطنیوں کی تخریب کاری کی تفصیلات تھیں۔
یہ کام اور ایک کامیاب اداکاری رابعہ ہی کرسکتی تھی، ورنہ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی غریب سی عورت محل کے احاطے میں داخل بھی ہو سکتی اور پھر وہ اس کمرے تک پہنچ جاتی جہاں کوئی غیر متعلق سرکاری کارندہ بھی نہیں جا سکتا تھا۔
 تم بہت بڑے انعام کی حقدار ہو رابعہ !،،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ میں تمہارے لئے اس محل میں رہائش کا خصوصی انتظام کروا رہا ہوں ،تمہارے بچوں کی تعلیم و تربیت ہمارے ذمے ہوگی،،،،،، اب تم جاؤ اپنا حلیہ سہی کرو ،میں تمہیں پھر بلاؤں گا۔
رابعہ فاتحانہ چال چلتی وہاں سے چلی گئی۔ وزیراعظم سمیری نے سلطان برکیارق سے کہا کہ اب ہمیں اس باطنی کو زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں، میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے قید میں ڈالنے کی بجائے ختم ہی کردیا جائے۔
دربان کو بلایا گیا اور اسے کہا گیا کہ فلاں آدمی کو بلائے، وہ آدمی آیا تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ اس باطنی کو قتل کرکے اس کی لاش کہیں دبا دو ،لیکن قبرستان میں نہیں۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے سلطان سے ایک ایسا حکم جاری کروایا جس نے تاریخ کا رخ ہی پھیر دیا، وزیراعظم نے سلطان کو مشورہ دیا کہ جن باطنیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے انہیں پکڑ لیا جائے، کسی سے کچھ بھی نہ پوچھا جائے نہ انہیں سزائے قید دی جائے بلکہ قتل کر دیا جائے، سلطان برکیارق پہلے ہی شرمسار تھا کہ وہ ایک باطنی لڑکی کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا اور سلطنت کو خانہ جنگی میں جھونک دیا ،وہ اپنے اندر ایک تلخی محسوس کرتا تھا جو کبھی کم ہوتی اور کبھی اتنی زیادہ کہ اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی اور وہ غصے میں آجاتا تھا ،اسی کیفیت میں اس نے وزیراعظم کی بات مان لی اور کہا کہ اس کی روحانی تسکین اسی طرح ہوگی کہ اس کے سامنے ان باطنیوں کے سر اڑا دیے جائیں۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری نے مشہور مؤرخ "ابن اثیر" ابن خلدون" اور ابن جوزی" کے حوالوں سے لکھا ہے کہ باطنیوں کے جن ٹھکانوں کی نشاندہی ہوگئی تھی وہاں چھاپے مارے گئے اور یہ چھاپے اس انداز سے مارے گئے کہ زیادہ سے زیادہ باطنی پکڑے گئے، جن میں چند ایسے باطنی تھے جو طبیب کی طرح سرداری درجے کے تھے، وہ احکام اور ہدایات جاری کرتے تھے اور تخریب کاری کو خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلائے رکھنا ان کی ذمہ داری تھی، ان تمام سرداروں کو لاکر کچھ بھی نہ کہا گیا صرف یہ کیا گیا کہ تین چار جلاد بلائے گئے جو ان کی گردنیں کاٹتے گئے، ان کی لاشیں ایک ہی گھڑے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی جاتی تھی۔
یہ سلسلہ چار پانچ دن چلتا رہا اور سلطان کو یہ اطلاع ملی کہ خانہ جنگی رک گئی ہے اور تمام سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے، اس اطلاع کے فوراً بعد سپہ سالار ابو جعفر حجازی، نائب سپہ سالار اوریزی جو باغی ہوگیا تھا، محمد اور سنجر سلطان کے پاس آگئے، سلطان یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ابومسلم رازی بھی ان کے ساتھ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق دوسروں کے لئے تو نہ اٹھا لیکن ان کے پیچھے ابومسلم رازی کو دیکھا تو وہ اس کے احترام میں اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر اور جھک کر اس کے ساتھ مصافحہ کیا، اور پھر سب کو بٹھا کر ان کے کھانے پینے کے انتظام کرنے کا حکم دیا۔
محترم رازی !،،،،،سلطان برکیارق نے ابومسلم رازی سے کہا ۔۔۔آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے والد مرحوم یاد آگئے ہیں، لیکن آپ یہاں کیسے، کیا میری حیرت بے معنی ہے؟ 
ابومسلم رازی بہت بوڑھا ہو گیا تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا دست راست اور بڑا ہی گہرا دوست تھا، ملک شاہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ابو مسلم رازی صرف ایک شہر اور اس کے مضافاتی علاقے کا امیر ہے، دونوں اسلام کے شیدائی اور حسن بن صباح کے دشمن تھے ،سلطان برکیارق تو یوں تھا جیسے ابومسلم رازی کے ہاتھوں میں پیدا ہوا ہو۔
نہیں بیٹے!،،،،، ابومسلم رازی نے سلطان برکیارق سے کہا ۔۔۔تمہاری حیرت بے معنیٰ نہیں، تمہیں معلوم نہیں کہ میں اپنے لشکر کے ساتھ تمہارے دارالسلطنت سے تھوڑی ہی دور موجود رہا ہوں، میں نے تم سے یہ سلطنت چھیننی نہیں تھی بلکہ اس سلطنت کو حسن بن صباح سے محفوظ رکھنا تھا ،مگر تم ایک باطنی لڑکی کے چنگل میں ایسے آئے کہ تمہیں نیک و بد کی تمیز سے ہی اس نے محروم کردیا، اور تم میں سود و زیاں کا احساس ہی نہ رہا، اب قاصد نے یہ خبر دی کہ تم نے خانہ جنگی روکنے کا حکم دیا ہے تو یہ لڑکے مان ہی نہیں رہے تھے، لیکن میرے عزیز بیٹے میں نے زمانہ دیکھا ہے ،میں نے انہیں کہا چلو چلتے ہیں شاید بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔
یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا ۔۔۔اس باطنی لڑکی کو میں نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا ہے، اور میں سب سے پہلے عظیم ماں کے قدموں میں جا گرا اور اس سے اپنے گناہ بخشوائے، پھر میں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جو کارروائیاں کی ہیں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
سلطان برکیارق نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح باطنیوں کے ٹھکانوں کا سراغ لیا گیا ہے، اور کس طرح چھاپے مار کر انھیں پکڑا جا رہا ہے اور ان سب کو قتل کیا جارہا ہے، ان سب کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ دارالسلطنت میں اور سلطان کے محل میں انقلاب آرہا ہے ،سب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی، وہ جب یہاں آئے تھے تو ان کے چہروں پر تناؤ تھا اور ان سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ سلطان کو شک اور شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، سلطان برکیارق کی باتیں سن کر ان کے چہروں پر رونق آگئی۔
 اب میں چاہتا ہوں۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ کہ دونوں طرفوں کے لشکر اکٹھے کرکے ایک لشکر بنا دیا جائے، اور پھر اس لشکر کو کچھ دن تربیت دے کر قلعہ الموت پر حملہ کیا جائے، چند ایک باطنیوں کو قتل کردینے سے حسن بن صباح کے باطل عقیدے کے طوفان کو روکا نہیں جا سکتا، مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ اس شیطان نے بڑے ہی وسیع و عریض علاقے کو اپنے زیراثر کرلیا ہے،،،،،،، 
زیر اثر بھی ایسا کے ہمارا لشکر قلعہ الموت کی طرف پیش قدمی کرے گا تو ان علاقوں کے لوگ ہمارے لشکر کا اگر مقابلہ نہیں کریں گے تو لشکر کے راستے میں رکاوٹ ضرور پیدا کریں گے۔
ابومسلم رازی کے کہنے پر سلطان برکیارق کی ماں کو وہاں بلا یا گیا ،ماں آئی تو اپنی تینوں بیٹوں کو اور ان سب کو اکٹھا بیٹھے دیکھ کر رو پڑی ،اور ہاتھ آسمان کی طرف کر کے ان کے اتحاد اور پیار کی دعائیں مانگنے لگی، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج اس کے بیٹے اور بیٹوں کے سالار اور ابو مسلم رازی جیسا عالم اور فاضل یہ سب ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔
اوپر جن مؤرخوں کے حوالے دیے گئے ہیں انہوں نے اور مسیحی مورخوں نے لکھا ہے کہ ابو مسلم رازی عالم اور فاضل تھا دوراندیش اور دانش مند تھا، اس نے اس اجتماع میں ایک نئی تجویز رکھی اور زور دیا کہ اس پر فوری طور پر عمل کیا جائے، تجویز یہ تھی کہ تینوں بھائی ایک ہی دارالسلطنت میں اکٹھے نہ رہیں، کیونکہ انسان بڑی کمزور چیز ہے، اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری اقتدار پرستی ہے، اس سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصے کا حکمران سلطان برکیارق ہو اور دوسرے حصے کا محمد اور سنجر، لیکن مرکز سلطان برکیارق کے تحت رہے، تاکہ سلطنت کی مرکزیت بھی قائم رہے اور اتحاد بھی ،ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا کہ سلطنت کو بانٹا نہ گیا تو امور سلطنت اور دیگر مسائل کا سارا بوجھ صرف ایک سلطان کے سر پر پڑا رہے گا جو اس کے لیے کسی وقت بھی ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برائے نام وزیراعظم نہیں تھا ،وہ بھی عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ آدمی تھا ،اس نے ابومسلم رازی کی اس تجویز کی پرزور تائید کی اور کہا کہ یہ تقسیم ابھی ہو جانی چاہیے، اسے التوا میں نہ رکھا جائے۔
سلطان برکیارق کی ماں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا، اور دونوں سالاروں ابوجعفر حجازی اور اوریزی نے بھی کہا کہ یہ قابلِ داد اور قابلِ عمل ہے ،چنانچہ اسی وقت نقشے سامنے رکھے گئے اور سلطنت کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ،لیکن اس پر عمل صرف اس لئے ملتوی کیا گیا کہ سرکاری فوج اور باغی فوج کے دستے شہر میں آجائیں اور اس شہر کو باطنیوں سے صاف کردیا جائے تو پھر اطمینان سے تقسیم پر عمل کیا جائے گا۔
اس تقسیم پر تینوں بھائی رضامند ہوگئے اور ماں نے بھی اس کی منظوری دے دی۔
تاریخ کے مطابق جو حصّے محمد اور سنجر کو دیئے گئے ان میں شام ،عراق، موصل، آزربائیجان، اور ارمنیا، قابل ذکر ہیں، باقی تمام حصہ برکیارق کو ملا، لیکن یہ بھی طے پایا کہ بالادستی اور برتری برکیارق کو حاصل ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بکھرے ہوئے دستے اکٹھے کیے جارہے تھے اور وہ شہر میں آ رہے تھے ،سلطان برکیارق نے حکم دے دیا کہ جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آئے اسے قتل کردیا جائے، اس حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی نے کسی غیر باطنی کو ذاتی رنجش یا دشمنی کی بنا پر قتل کیا اور جواز یہ پیش کیا کہ یہ باطنی تھا اس کے قاتل کو فورا قتل کر دیا جائے گا ،اور اس کے پسماندگان سے تاوان وصول کرکے مقتول کے پسماندگان کو دیا جائے گا، سرکاری طور پر انتظام کیا گیا کہ کوئی مشکوک آدمی شہر میں نظر آئے تو پوری چھان بین کی جائے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا وہ اس شہر کا باشندہ ہے یا نہیں، اگر نہیں تو اسے کسی حکم کے بغیر قتل کر دیا جائے۔
شہر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو جانتے تھے کہ یہ خانہ جنگی باطنیوں نے زمین دوز تخریب کاری کے ذریعے شروع کرائی ہے، وہ یہ جانتے تھے کہ کون باطنی اور کون مسلمان ہیں اور اس شہر کا قدیم باشندہ ہے، جب باطنیوں کے قتل کا حکم پہنچا تو انہوں نے باطنیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کردیا۔
شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی حکم یہ تھا کہ شہر میں سے کسی ایک کو بھی باہر نہ جانے دیا جائے اور شہر کے اندر صرف ان فوجیوں کو آنے دیا جائے جو شہر سے باہر بکھر کر لڑ رہے تھے، اس حکم کا یہ اثر ہوا کہ شہر سے نکلنے کی کوشش کرنے والے باطنی پکڑے گئے اور قتل کردئے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی