🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھیالیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھیالیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت ماں برکیارق کو اپنے قدموں سے اٹھا کر اور بازؤں میں لے کر اس کا منہ چوم رہی تھی، اس وقت چار پانچ شاہی ملازم روزینہ کی لاش اٹھا رہے تھے۔
وہ سب حیران تھے کہ یہ ہوا کیا اور یہ کیسے ہوا ،وہ جانتے تھے کہ سلطنت سلجوقیہ کا سلطان برکیارق ہے لیکن حکم روزینہ کا چلتا تھا اور اس سلطنت کی وہ ملکہ تھی۔ شمونہ شاہی خاندان کی فرد نہیں تھی، وہ تو ایک کنیز تھی,,,,,,,, ایک خادمہ!,,,,,,,ملازم اس سے پوچھ سکتے تھے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے۔
یہ  قتل ہوگئی ہے۔۔۔ شمونہ نے بڑے شگفتہ لہجے میں جواب دیا۔۔۔ اسے سلطان نے اپنے ہاتھوں قتل کیا ہے۔
 اس سے کیا جرم سرزد ہوگیا تھا؟ 
 کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ باطنی تھی۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ یہ اُس شیطان حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی تھی۔
 اچھا ہوا سلطان کو پتہ چل گیا ۔۔۔عہدےدار نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور بولا ،،،،اللہ تیرا شکر،،،، سب تعریفیں تیری ذات کے لیے ہیں،،،،، سلطان کہاں ہے؟ 
اپنی والدہ محترمہ کے پاس۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔۔اللہ نے اس سلطنت پر بڑا ہی کرم کیا ہے اب آپس کا خون خرابہ بند ہوجائے گا ۔
میرے دو بھائی تھے۔۔۔ عہدے دار نے کہا۔۔۔ وہ فوج میں عہدے دار تھے، دونوں اس خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں، میرا گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔
 شکر ادا کرو اللہ کا ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی نے سلطنت کو بچا لیا ہے، یہ باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی، مجھے آپ کے بھائیوں کا بہت افسوس ہے، یہ سب اِسی کے ہاتھوں کرایا گیا ہے جس کی لاش آپ دیکھ رہے ہیں ،سلطان حکم دے گئے ہیں کہ اس کی لاش اور مرا ہوا یہ کتا بوری میں ڈال کر کسی جگہ گڑھا کھود کر دبا دو، انہوں نے کہا ہے کہ اسے قبرستان میں دفن نہ کرنا، نہ اسے کفن پہنانا ہے، نہ اس کا جنازہ پڑھنا ہے،،،، اور یہ احتیاط بھی کرنی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ سلطان نے اپنی بیگم کو قتل کردیا ہے،،،، لاش اٹھائیں اور فرش اچھی طرح صاف کروا دیں۔
ایک بوری لائی گئی جس میں روزینہ کی لاش اور مرے ہوئے کتے کو ڈالا گیا اور بوری کا منہ بند کرکے ملازم اٹھالے گئے، دوسرے ملازم فرش دھونے لگے، شمونہ نکل کر برآمدے میں کھڑی ہوگئی ،روزینہ کی لاش باہر والے دروازے سے بھی نکل گئی تھی، شمونہ گہری سوچ میں کھو گئی۔
کیا کہا شمونہ بی بی!،،،،، شمونہ کو ایک خادمہ کی آواز سنائی دی جو اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی، لیکن شمونہ اسے دیکھ نہیں سکی تھی، خادمہ سمجھی کہ شمونہ نے اسے کچھ کہا ہے، شمونہ نے اس کی طرف دیکھا اور چونکی۔
میں کہہ رہی تھی کہ انسان اپنی حقیقت اور اصلیت کو بھول جاتا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔یہ بدنصیب یوں سمجھ بیٹھی تھی جیسے یہ ہمیشہ اس سلطنت کی ملکہ بنی رہے گی، یہ اللہ کو بھول گئی تھی اور شیطان کی پجارن بن گئی تھی، حکمرانی کا نشہ اپنا تختہ اپنے ہاتھوں الٹ دیا کرتے ہیں۔
عبرت تو کوئی حاصل نہیں کرتا ۔۔۔خادمہ نے کہا۔۔۔ جس کے سر پر سلطانی کا تاج رکھ دیا جاتا ہے وہ سب سے پہلے یہ بھولتا ہے کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے، اس ملکہ کا انجام دیکھ لو ایک کتے کے ساتھ دفن ہو رہی ہے۔
اور اس کی قبر بھی نہیں بنے گی۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ یہاں وہ عورت دفن ہے جس نے کچھ عرصہ اس سلطنت پر حکومت کی تھی اور سلطان کو بھی اپنا غلام بنا لیا تھا۔
شمونہ اپنے خیالوں میں کھو گئی تھی، روزینہ کی لاش دور نکل گئی تھی محل کے باہر والے دروازے میں ایک عورت آن کھڑی ہوئی، دربان نے اسے دیکھا اور سر سے اشارہ کیا، عورت اندر آ گئی ۔
شیطان کی دوسری پجارن آگئی ہے۔۔۔ خادمہ نے کہا۔
غور سے سن لو۔۔۔ شمونہ نے خادمہ سے کہا۔۔۔ اسے یہ پتا نہ چلے کہ روزینہ ماری جا چکی ہے، تم دیکھ رہی ہو کہ باہر والے دربان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ جو بوری گھوڑا گاڑی میں محل سے نکالی گئی ہے اس میں روزینہ کی لاش تھی، تم یہاں سے چلی جاؤ اور سامنے نہ آنا۔
یہ تھی وہ عورت جو روزینہ کے پاس آتی اور اسے پیغام لے کر اس طبیب تک پہنچاتی تھی جو حسن بن صباح کا بھیجا ہوا خاص آدمی تھا، اور جس نے زمین دوز طریقوں سے خانہ جنگی شروع کرائی تھی، یہ عورت پیغام لایا بھی کرتی تھی اس کی عمر پینتیس سال کے لگ بھگ تھی اور وہ خوبصورت عورت تھی ،ایسا لباس پہنتی تھی کہ کسی شاہی خاندان کی عورت معلوم ہوتی تھی، روزینہ نے اسے شمونہ کے متعلق بتا دیا تھا کہ یہ اس کی ہمراز کنیز ہے اور حسن بن صباح کی غائبانہ مرید ہے، اس کی وجہ سے یہ عورت شمونہ کے ساتھ بھی کچھ بے تکلف ہو گئی تھی۔ شمونہ کسی کو اپنے ساتھ بے تکلف کرنے کے فن میں مہارت رکھتی تھی، اس عورت کے ساتھ شمونہ کی اچھی خاصی دوستی پیدا ہوگئی تھی۔
 یہ عورت ذرا قریب آئی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، شمونہ بھی کھل کر مسکرائی اور اس کے استقبال کو آگے بڑھی۔
کونسے کمرے میں ہے؟،،،،،، اس عورت نے روزینہ کے متعلق پوچھا ۔
شمونہ کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اب وہ کسی بھی کمرے میں نہیں بلکہ ایک کتے کے ساتھ بوری میں بند ہے اور شاید اب تک زمین میں بھی دبائی جا چکی ہوگی، لیکن شمونہ نے یوں نہ کہا ،نہ ہی اسے ایسا کہنا چاہیے تھا۔
آپ آئیں تو سہی۔۔۔ شمونہ نے کہا ۔۔۔آج آپ کو کچھ انتظار کرنا پڑے گا ،وہ سلطان کے پاس ہیں اور شاید انہیں معلوم تھا کہ آپ آ رہی ہیں ،انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ آئیں گی تو میں آپ کو کمرے میں بیٹھاؤں،،،، آ جائیں۔
شمونہ اسے اس کمرے میں لے گئی جہاں وہ روزینہ کے ساتھ کاناپھوسی کیا کرتی تھی، اسے احترام سے بٹھایا اور کہا کہ میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں ،روزینہ اس عورت کی بہت خاطرتواضع کیا کرتی تھی، شمونہ بھی یہی اشارہ دے کر کمرے سے نکل گئی کہ وہ اس کی خاطرتواضع کرے گی۔
تھوڑی ہی دیر بعد شمونہ جب اس کمرے میں واپس آئی تو اس کے ساتھ محل کے دو محافظ تھے، ایک کے ہاتھ میں بڑی لمبی رسی تھی۔
 اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دو اور اس کے پاؤں بھی باندھو ۔۔۔شمونہ نے اسکی طرف اشارہ کرکے کہا۔
محافظ آگے بڑھے تو وہ عورت حیرت زدگی کے عالم میں شمونہ کی طرف دیکھنے لگی، دونوں محافظوں نے اسے گرا کر اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے اور پھر اسی رسی کے ساتھ پاؤں بھی باندھ دیے، اس دوران وہ چیختی اور چلاتی رہیں اور شمونہ سے پوچھتی رہی کہ یہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے ۔
اسے فرش پر پھینک دو۔۔۔ شمونہ نے محافظوں سے کہا ۔۔۔اور دروازہ باہر سے بند کر دو۔
شمونہ محافظوں کے ساتھ باہر نکل آئی اور دروازہ باہر سے بند کردیا ،شمونہ وہیں کھڑی کچھ سوچنے لگی ۔
تم دونوں یہیں ٹھہرو ۔۔۔شمونہ نے محافظوں سے کہا۔۔۔ میں سلطان کو اطلاع دینے جا رہی ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق اپنی ماں کے سامنے بیٹھا تھا، ماں کے چہرے پر ایک مدت بعد رونق آئی تھی۔ برکیارق کی آنکھیں پرنم تھیں، وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اس کی ماں کو سنا چکا تھا کہ روزینہ کو برکیارق نے کیوں اور کس طرح قتل کیا ہے، ماں نے جب یہ سنا کے روزینہ اس کے بڑے بیٹے کو زہر پلا رہی تھی تو ماں تڑپ اٹھی اور اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کا بیٹا بچ گیا ۔
دربان کمرے میں داخل ہوا ،سب نے اس کی طرف دیکھا۔
سلطان محترم کی کنیز آئی ہے۔۔۔ دربان نے کہا۔۔۔ اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے ۔
اسے فوراً اندر بھیج دو۔۔۔ برکیارق کی ماں نے کہا۔۔۔یہ تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے جس نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے، اور سلجوقی سلطنت کو بڑے خطرے سے محفوظ کر دیا ہے۔
 شمونا کمرے میں داخل ہوئی، برکیارق کی ماں اٹھی اور لپک کر شمونہ کو گلے لگا لیا ،وہ شمونہ کو چومتی اور اس کا شکر ادا کرتی تھی۔
میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ میں اسی مقصد کے تحت روزینہ کی کنیز بنی تھی، یہ باتیں بعد میں کریں گے میں سلطان عالی مقام کو یہ اطلاع دینے آئی ہوں کہ روزینہ کی لاش کتے کے ساتھ بوری میں بند کرکے لے گئے ہیں ،اور دوسری اطلاع اس سے زیادہ ضروری ہے ،وہ یہ کہ اتفاق سے ایک عورت آگئی ہے جسے میں اچھی طرح جانتی ہوں، وہ روزینہ کو پیغام دینے اور اس کے پیغام لے جانے آیا کرتی تھی، یہ پیغام حسن بن صباح کی طرف سے آتے تھے ،میں نے روزینہ کے ساتھ بے تکلفی پیدا کر لی تھی اور اس عورت کے ساتھ بھی، ابھی ابھی تو میں نے اسے یہ کہہ کر کمرے میں بٹھا دیا کہ روزینہ کو اطلاع دیتی ہوں، میں محافظ دستے کے دو آدمی ساتھ لے گئی اور ایک رسی بھی میرے کہنے پر انہوں نے اس عورت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں اور اسے ایک کمرے میں بند کر دیا ہے، یہ ہے وہ عورت جس سے آپ کو بڑے ہی قیمتی اور چونکا دینے والے راز ملیں گے، تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سلطنت پر کتنا بڑا خطرہ منڈلا رہا تھا، اور مجھے امید ہے کہ آپ نے بروقت کارروائی کی تو یہ خطرہ ٹل جائے گا ،اور آپ کو پتہ چلے گا کہ اس شہر میں کتنے زیادہ باطنی اکٹھے ہوگئے ہیں۔
سلطان برکیارق کو ابھی معلوم نہیں تھا کہ شمونہ کون ہے اور اس نے اس مقصد کو اپنا فرض کیوں بنایا تھا ،وہ تو اسے ایک کنیز سمجھتا تھا جو کسی مجبوری کے تحت نوکری کی تلاش میں آئی تھی، اصل حقیقت تو عبدالرحمن سمیری جانتا تھا ۔
تم یہ ساری باتیں کس طرح جانتی ہو؟،،،،، سلطان برکیارق نے شمونہ سے پوچھا ۔
اس سوال کا جواب بعد میں دوں گی۔۔۔ شمونہ نے جواب دیا ۔۔۔ہو سکتا ہے اس کا جواب سلطان کو کوئی اور دے۔
تم وہیں چلو۔۔۔ برکیارق نے شمونہ سے کہا۔۔۔ اس عورت کو کمرے میں بند رہنے دو۔
سلطان برکیارق اپنے وزیراعظم سمیری سے کہہ چکا تھا کہ خانہ جنگی فوراً بند کر دی جائے، لیکن مشکل یہ تھی کہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ لڑائی کہاں کہاں ہو رہی ہے، سرکاری فوج تک تو حکم پہنچایا جاسکتا تھا لیکن باغی فوج تک حکم پہنچانا محال ہو رہا تھا، کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے سالار وغیرہ کہاں ہیں، سالار اوریزی روپوش تھا، اور اس باغی فوج کی کمان برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد کے ہاتھ میں تھی، اور سلطان تک یہ اطلاع بھی پہنچ گئی تھی کہ رے سے امیر شہر ابومسلم رازی نے بھی اپنی فوج بلکہ ایک بڑا لشکر تیار کر کے محمد اور سالار اوریزی کی مدد کے لئے بھیجا ہے، اب یہ پتہ چلانا تھا کہ محمد اور سالار اوریزی کہاں ہیں۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے تین چار قاصد بلوائے ،ایک کو تو سرکاری فوج کے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ اپنی فوج کو اکٹھا کر کے شہر میں لے آئے، اور جنگ بند کر دیں، باقی قاصدوں کو یہ کام دیا گیا کہ وہ کسی طرح یہ معلوم کریں کہ سالار اوریزی اور محمد کہاں ہیں ،اور انہیں یہ پیغام دیں کہ سلطان برکیارق نے اپنی والدہ محترمہ کے حکم سے جنگ بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، اور وہ دونوں ہمارے پاس پہنچ جائیں 
خانہ جنگی بند کرانا کوئی آسان کام نہیں تھا، کیونکہ خانہ جنگی کی صورت یہ نہیں تھی کہ دونوں طرفوں کی فوجی ایک میدان میں لڑ رہی ہوں، لڑائی کی صورت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ سرکاری اور باغی فوجی چھوٹے بڑے دستوں میں بٹ گئی تھی، اور یہ جنگ شہر سے نکل کر مضافات میں اور اس سے بھی دور دور جنگلوں میں پھیل گئی تھی، ایک دوسرے پر
 شب خون مارے جاتے تھے، اور کہیں دستے آپس میں جم کر لڑتے تھے ،دونوں طرف زخمی اور ہلاک ہورہے تھے، بعض کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچ جاتی تھی اور اکثر لاشیں وہیں گھوڑوں تلے روندی کچلی جاتی تھیں۔
 یوں بھی ہوتا تھا کہ سرکاری یا باغی فوج کا کوئی آدمی مارا جاتا اور اس کی لاش گھر آجاتی تو اس کا کوئی بھائی یا باپ یا چاچا وغیرہ اسے ذاتی یا خاندانی قتل سمجھ کر انتقام کے لیے خانہ جنگی میں شامل ہو جاتا، باطنیوں نے لوگوں کا یہ ردعمل اور انداز دیکھا تو انہوں نے طبیب کو بتایا ،طبیب تخریب کاری کا ماہر تھا اس نے اپنے آدمیوں کو ایک خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا ،جس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ کسی آدمی کی لاش شہر میں آتی تو اس کے گھر والوں کو بتایا جاتا کہ اسے فلاں آدمی نے لڑائی میں قتل کیا ہے، مقتول کے گھر کے آدمی اس آدمی کے گھر پر ٹوٹ پڑتے اور ان کے ایک دو آدمیوں کو قتل کر دیتے، یہ سلسلہ یوں آگے چلایا گیا اور باطنی تخریب کار کسی گھر میں آکر یہ اطلاع دیتے کہ تمہارا جو آدمی لڑنے گیا تھا وہ آدمی مارا گیا ہے اور اس کی لاش کو گھوڑوں تلے کچل اور مسل دیا گیا ہے اور اسے فلاں آدمی نے قتل کیا ہے، اس اطلاع کا ردعمل بھی یہی ہوتا کہ مقتول کے وارث اس گھر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتے، اس طرح اس خانہ جنگی میں یہ نیا پہلو پیدا ہوگیا جس نے لوگوں کے درمیان ذاتی دشمنی پیدا کردی، شہر کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے اندر سے مقفل رکھتے تھے۔
 بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ خانہ جنگی دو سال جاری رہی تھی، لیکن مستند مورخ کچھ حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ خانہ جنگی ایک سال اور ایک یا دو مہینے لڑی گئی تھی، اور اس نے سلطنت اور لوگوں کو بھی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا تھا ،سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا کہ سلطنت کا انتظام تہہ و بالا ہو گیا تھا اور اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوا کہ حسن بن صباح نے بڑے وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کرلیا، یا یوں کہیے کہ ان علاقوں کو اس نے زیر اثر لے لیا، سلطنت سلجوقیہ کو خانہ جنگی میں الجھا کر اس نے اپنا مقصد بڑی آسانی سے پا لیا تھا، اسے صرف سلطنت کی فوج روک سکتی تھی لیکن اس سلطنت کو اس نے خاک و خون کے بڑے ہی خوفناک کھیل میں الجھادیا، سرکاری فوج کا سپہ سالار ابوجعفر حجازی چونکہ شہر میں ہی تھا اور یہیں سے لڑائی کو کنٹرول کر رہا تھا اس لئے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے قاصد کے پہنچتے ہی وہ آ گیا ،اس نے سلطان برکیارق کو اپنی ماں کے پاس بیٹھا دیکھا تو وہ کچھ پریشان بھی ہوا اور حیران بھی۔
 حجازی !،،،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ جنگ فوراً بند کردو اور اپنی فوج کو اس شہر میں بلالو۔ 
سلطان عالی مقام !،،،،،،حجازی نے کہا۔۔۔ سلطان کے حکم کی تعمیل فوراً ہوگی، لیکن دستے کچھ ایسے بھی گِھر گئے ہیں کہ انہیں لڑائی سے ہٹانا اور شہر میں لانا بڑا ہی دشوار اور دقت طلب کام ہے۔
 کوشش کرو یہ کام ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر شروع ہو جائے ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ اور یہ بھی سن لو کہ ہم نے سالار اوریزی کو معاف کردیا ہے، کسی اور کو بھی گرفتار یا ہلاک یا زخمی نہیں کرنا، تلواریں نیاموں میں ڈالو ۔
سپہ سالار حجازی فوراً روانہ ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان محترم !،،،،،وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ خانہ جنگی کو روکنے اور دونوں اطراف فوجوں کو الگ الگ کر کے شہر میں لانے کے لئے کچھ دن تو چاہیے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس عورت سے کچھ پوچھ گچھ کر لیں جسے کنیز نے پکڑا ہے، راز کی باتیں تو اس سے معلوم ہوں گی، لیکن میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورتیں یا آدمی اپنی جان دے دیتے ہیں راز نہیں دیا کرتے۔
ہاں۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ یہ خطرہ تو ہے ،لیکن ہم کوشش کرتے ہیں شاید اس عورت کی زبان سے کچھ اگلوا سکیں، ہمیں ناکامی ہوئی تو زندہ یہ بھی نہیں رہے گی،،،،،، میں اپنی اس کنیز نگینہ کا احسان ساری عمر نہیں بھول سکوں گا، اگر ماں نے مجھے اجازت دے دی تو میں اس کے ساتھ شادی کر لوں گا۔
شمونہ نے روزینہ اور سلطان برکیارق کو اپنا نام نگینہ بتایا تھا، اس لئے برکیارق اسے نگینہ ہی سمجھ رہا تھا، اس کا نام عبدالرحمان سمیری کو معلوم تھا لیکن اس نے سلطان کو ابھی اصل نام نہ بتایا۔
میرے بیٹے!،،،،،، ماں نے برکیارق سے کہا۔۔۔یہ خون خرابہ رک جائے اور سلطنت پر خطروں کے گھٹائیں منڈلا رہی ہیں یہ اڑ جائیں تو میں تمہیں شادی کی اجازت بھی دے دوں گی، اور میرا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر اچھی لڑکی کوئی اور نہیں ہوگی۔
وزیراعظم سمیری نے جب یہ سنا کہ سلطان شمونہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اور سلطان کی ماں بھی اسی لڑکی کو پسند کر رہی ہے تو اسے پریشانی سی ہوئی، کیونکہ شمونہ مزمل آفندی کی محبت میں گرفتار تھی اور اس نے مزمل کے ساتھ ہی شادی کرنی تھی ،سمیری کو پریشانی یہ تھی کہ جب یہ صورت پیدا ہوگئی کہ سلطان شمونہ سے شادی کا فیصلہ کرے گا تو اسے کس طرح قائل کیا جا سکے گا کہ شمونہ سے ہاتھ اٹھا دے اور اسے دل سے نکال دے ،کیونکہ یہ مزمل کے ساتھ منسوب ہے۔
دونوں اس کمرے میں گئے جہاں وہ عورت اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی اور اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے، سلطان برکیارق نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور اسے کہا کہ اس عورت کے ہاتھ پاؤں کھول دے ۔
ذرا سی دیر میں عورت کے ہاتھ پاؤں کھل گئے اور وہ واہی تباہی بکنے لگی کہ سلطان کی ایک ادنیٰ سی کنیز نے اس کے ہاتھ پاؤں بندھوا دیے تھے۔
تم کون ہو؟،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا۔۔۔ اور یہاں کیا لینے آئی تھیں۔
 میں سلطان عالی مقام کی بیگم کی سہیلی ہوں!،،،،،، عورت نے جواب دیا۔۔۔ میں ان کے پاس آتی رہتی ہوں، آج آئی تو آپ کی کنیز نے،،،،،،،،، 
تمہیں رسیوں سے بندھوا دیا ۔۔۔سلطان برکیارق نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔اور تمہیں میری بیگم دیکھنے نہیں آئی، تم کس کی بیٹی ہو؟ تم کس کی بیوی ہو؟ تمہارا گھر کہاں ہے ؟مجھے ٹھیک جواب دو اور میں تمہارے ساتھ تمارے گھر چلوں گا۔
میرا نام رابعہ ہے۔۔۔ عورت نے جواب دیا۔۔۔ میں شاہ در کی رہنے والی ہوں اور یہاں اپنے خاوند کے ساتھ رہتی ہوں، لیکن میں آپ سے یہ عرض کروں گی کہ میرے گھر نہ آئیں کیونکہ میرا شوہر بڑاہی ظالم آدمی ہے، اور وہ وہمی بھی ہے، اگر آپ یا کوئی اور میرے گھر آیا تو میرا خاوند مجھ پر نہ جانے کیسے کیسے الزام تھوپ دے اور میری پٹائی شروع کردے، میں شاہ در کے ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں۔
تمہارا نام رابعہ نہیں ہے۔۔۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے کہا۔۔۔ تمہارا باپ کسی بھی قبیلے کا سردار نہیں، نہ تمہارا کوئی خاوند ہے، میری ایک بات غور سے سن لو اپنی اصلیت فوراً بتا دو اس میں تمہارا فائدہ ہے ،اگر تمہارا یہ ارادہ ہے کہ تم کوئی راز اگلنے سے پہلے اپنے آپ کو ہلاک کر لو گی تو یہ خیال دل سے نکال دو ۔
سمیری نے محافظ دستے کے کماندار سے کہا۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرلو۔
رابعہ فوراً اٹھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی ناف پر رکھ لئے، کماندار طاقتور آدمی تھا اس نے پیچھے ہوکر عورت کے دونوں بازو پکڑے اور بڑی زور سے جھٹکا دے کر بازو اس کی پیٹھ کے پیچھے کرلیے، سمیری آگے بڑھا اور اس کی قمیض اوپر کر دی، اس نے سلطان برکیارق سے کہا کہ یہ دیکھ لیں عورت نے نیفے میں ایک خنجر اڑسا ہوا تھا، سمیری نے یہ خنجر اس کے نیفے سے نکال لیا۔ سلطان محترم !،،،،،سمیری نے برکیارق سے کہا ۔۔۔اس خنجر کی نوک یقیناً زہر میں بجھی ہوئی ہے، کسی جانور کو مار کر دیکھ لیں ۔
وزیراعظم سمیری نے اس عورت کے بال مٹھی میں پکڑ کر بڑی زور سے جھٹکا دیا عورت کے دانت بج اٹھے، دوسرا جھٹکا دے کر سمیری نے اس کا سر پیچھے کردیا۔
ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے۔۔۔ سمیری نے کہا۔۔۔ ایسی اذیتیں دیں گے کہ مرو گی بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہوگی، حسن بن صباح تمہیں ہم سے چھڑا نہیں سکے گا، کہو سچ بولتی ہو؟ 
کیا سچ بولوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔کیا آپ لوگوں میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ میں اتنے بڑے باپ کی بیٹی،،،،،،،، 
 وزیراعظم سمیری نے اس کی بات پوری نہ ہونے دی اور بڑی زور سے جھٹکا دیا ،جس سے وہ پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکرائی، محافظوں کا کماندار آگے بڑھا ۔
مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی زبان کھولوں۔۔۔ کماندار نے کہا۔
سلطان برکیارق کے اشارے پر کماندار رابعہ کی طرف بڑھا اور اس کی گردن اور اس کے کندھے کے درمیان میں کوئی رگ اپنی مٹھی میں لے کر دبائی، رابعہ تڑپنے لگی اس کا منہ کھل گیا ،یہ عورت اتنے طاقتور کماندار کی مٹھی میں ایسے ہی تھی جیسے شیر نے ایک خرگوش کو اپنے منہ میں لے رکھا ہو۔
 کہو میں باطنی ہوں۔۔۔ کماندار نے کہا۔
اس کے ساتھ ہی کماندار نے مٹھی اور زور سے دبائی تو عورت کا چہرہ لال سرخ ہو گیا، اور وہ اور زیادہ تڑپنے لگی، کماندار نے ایک بار پھر کہا کہ وہ کہے کہ میں باطنی ہوں۔ رابعہ نے اپنا سر زور زور سے ہلایا ،جیسے وہ اقرار کر رہی ہو، کماندار نے اس کی رگ چھوڑ دی وہ فرش پر گری اور ایک ہاتھ سے وہ رگ دبانے لگی، اس کا چہرہ بتاتا تھا وہ ابھی تکلیف میں ہے۔
بولو !،،،،،کماندار نے اسے پاؤں کی ٹھوکر خاصے زور سے لگا کر کہا۔
مجھے قتل کردو۔۔۔ رابعہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر میں اپنا سینہ کھول کر راز آپ کے آگے انڈیل دیتی ہوں تو بھی مجھے قتل کر دیا جائے گا، وہ یہ نہیں کریں گے کہ میری گردن کاٹ دیں گے، بلکہ بڑی ہی اذیت ناک موت مارینگے، میرے تمام کپڑے اتار کر میرے جسم پر شہد مل دینگے پھر میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر جنگل میں پھینک دیں گے، آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے اور مکھیاں کس طرح مجھے کھائیں گی، بچھوں اور دوسرے زہریلے کیڑے بھی میری کھال کو کاٹتے رہیں گے، میں نے اس طرح ایک عورت کو مرتے دیکھا ہے ،وہ پورے دس دن تڑپتی رہی تھی اور حشرات الارض آہستہ آہستہ اس کی کھال کو کھاتے رہے تھے ،میں اس موت سے ڈرتی ہوں۔
 مت ڈرو !،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔میں تمہیں ساری عمر یہیں اسی محل میں رکھوں گا ،چاہو گی تو کسی اچھے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا یہیں آرام سے عمر
 گزارو گی اور بڑے ہی عیش و عشرت میں رہو گی۔
اگر جھوٹ بولوگی تو سن لو۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ تمہیں قیدخانے میں بڑی ہی بد بودار کوٹھری میں پھینک دیا جائے گا، جس میں چوہے اور زہریلے کیڑے رہتے ہیں، دن کے وقت تمہیں الٹا لٹکا کر نیچے دہکتے انگارے رکھ دیا جایا کریں گے، اور ان پر ایک آدمی مرچیاں پھینکتا رہے گا، تصور میں لاؤ کہ مرچوں کا دھواں تمہاری ناک اور منہ کے راستے تمہارے اندر جائے گا تو تمہاری کیا حالت ہوگی، رات کو تمہیں اس کوٹھری میں بند کر دیا جائے گا ،بہتر ہے کہ تم اپنی اصلیت بتا دو اور تمہارا رابطہ حسن بن صباح کے جن لوگوں کے ساتھ ہے وہ بتا دو کہاں کہاں رہتے ہیں، انہیں پتہ ہی نہیں چلنے دیا جائےگا کہ ہمیں یہ راز تم نے دیا ہے۔
مسلمان مؤرخوں نے اور یورپی مورخوں نے بھی متفقہ طور پر لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں کو ایسی تربیت دی جاتی تھی کہ ان کی فطرت ہی بدل جاتی تھی، ان کے لیے زندگی اور موت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی، وہ زندہ رہتے تھے تو صرف حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل کے لئے زندہ رہتے تھے اور جب اپنی جانیں لینے پر آتے تھے تو بڑے فخر اور اطمینان سے اپنی جان دے دیتے تھے، ہر فدائی کے پاس وہ عورت ہوتی یا مرد ایک خنجر ہوتا تھا، جس کی نوک زہر میں بجھی ہوئی ہوتی تھی، ان میں سے کوئی پکڑا جاتا اور وہ دیکھتا کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں اور راز اگلنا ہی پڑے گا تو وہ خنجر نکال کر اپنے دل میں اتار لیتا تھا ،رابعہ نے بھی اپنے پاس ایک خنجر اسی مقصد کے لیے رکھا ہوا تھا، لیکن وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جانتا تھا کہ ہر فدائی کے پاس خنجر ہوتا ہے، اس نے اس عورت کے لباس سے خنجر نکال لیا ،اس خنجر کی موجودگی ہی یہ پکا ثبوت تھا کہ وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ عورت ہے ،سلطان برکیارق کے ذہن میں اگر ابھی تک کوئی شک باقی تھا تو وہ بھی نکل گیا۔
 میں اپنے دو بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ رابعہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔۔۔دونوں ابھی چھوٹے ہیں۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا خاوند بھی ہے۔۔۔ عبدالرحمن سمیری نے کہا۔۔۔ اور وہ بھی یقیناً فدائی ہوگا۔
میرا کوئی خاوند نہیں۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔میں کبھی کسی کی بیوی نہیں رہی، اس بچے کا باپ کوئی اور ہے، اور دوسرے کا کوئی اور، میں نے اپنی زندگی شیخ الجبل حسن بن صباح کے نام وقف کر دی تھی، میری ساری عمر فریبکاری میں گزری ہے۔
وہ ہم جانتے ہیں۔۔۔ عبدالرحمن سمیری نے کہا۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ فدائی عورتیں کیا کچھ کرتی ہیں ،ہمیں یہ بتاؤ کہ یہاں جو فدائی ہیں وہ کہاں کہاں رہتے ہیں؟ 
اس شہر کی ایک چوتھائی آبادی باطنیوں کی ہے۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ کوئی ایک بھی اس شہر کا باشندہ نہیں ،سب باہر سے آئے ہیں، میں اتنے زیادہ لوگوں کے گھر تو بتا نہیں سکتی، صرف ایک جگہ بتاتی ہوں وہاں رات کو چھاپہ ماریں تو آپکو فدائوں کا ایک مرکز مل جائے گا، وہاں جو آدمی ہونگے ان کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گی کہ ہر آدمی حسن بن صباح کا فدائی ہے۔
اس نے طبیب کے گھر کا پتا بتا دیا ،پھر اس نے چند اور اہم آدمیوں کے نام اور ٹھکانے بتائے۔
آپ کی سلطنت میں خانہ جنگی حسن بن صباح نے شروع کرائی تھی۔۔۔ رابعہ نے بتایا۔۔۔سلطان کو مٹھی میں لینے اور انہیں کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کے لیے روزینہ کو بھیجا گیا تھا ،روزینہ سلطان کو صبح شام ایک خاص قسم کی حشیش پلاتی رہی تھی، اور پھر اس کیفیت میں وہ اپنے حسن و جوانی کا طلسم استعمال کرتی تھی، سلطان تو جوان ہیں اور ان کے جذبات بھی جوان ہے، روزینہ اور اس جیسی لڑکیاں پتھروں کو بھی موم کر لیا کرتی ہیں، میں روزینہ اور طبیب کے درمیان ایک رابطہ ہوں، اگر روزینہ انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تو اسے میرے سامنے لائیں میں آپ کو اس محل میں وہ جگہ دکھاؤ گی جہاں اس نے حشیش رکھی ہوئی ہے۔
کیا روزینہ مجھے قتل کرنا چاہتی تھی؟،،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،رابعہ نے جواب دیا۔۔۔آپ پوری طرح اس کی مٹھی میں تھے، آپ کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، قتل صرف اس صورت میں آپ کو کیا جاتا کہ آپ بیدار ہوکر اسکی مٹھی سے نکل آتے،،،،،،  ہاں آپ کے دونوں بھائیوں کو آپ کی ماں کو اور آپ کے وزیراعظم کو قتل کرنا تھا، لیکن کچھ دیر بعد،،،،، ایک بات اور بتاتی ہوں لیکن میں شک میں ہوں، آپ کی یہ جو کنیز ہے اس نے اپنا نام نگینہ بتایا ہے ،مجھے کچھ ایسا شک ہوتا ہے کہ اس کا نام نگینہ نہیں کچھ اور ہے، میں لڑکپن میں حسن بن صباح کے پاس گئی تھی، مجھے دھوکے میں لے جایا گیا تھا ،مجھے کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ یہ کنیز اس وقت وہیں تھی، یہاں میں نے اسے دیکھا تو کچھ یقین بھی آنے لگا کیونکہ یہ روزینہ کے ساتھ پوری طرح بے تکلّف تھی اور اسکی رازدار بھی تھی، کبھی کبھی حسن بن صباح کی باتیں بھی کرتی تھی، اور روزینہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی یہ کنیز فطری طور پر باطنی ہے اور غائبانہ طور پر حسن بن صباح کی مرید ہے ۔
سلطان برکیارق نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کی طرف دیکھا، وزیراعظم نے سلطان کو آنکھ کا ہلکا سا اشارہ کیا۔
کیا تم اپنے بچوں کو یہاں لانا چاہو گی؟،،،،، وزیراعظم سمیری نے رابعہ سے پوچھا ۔
کیا آپ مجھے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔۔ رابعہ نے پوچھا۔
 نہیں !،،،،،وزیراعظم سمیری نے کہا ۔۔۔۔تم کہتی ہو کہ اپنے بچوں کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہو، اب تم صرف اس صورت میں زندہ رہو گی کہ یہیں رہو، تمھارے بچے یہاں آ جائیں گے، ہمیں بتاؤ کہ وہ کہاں ہیں؟ 
بچے ہیں تو وہیں،،،،،، رابعہ نے کہا۔۔۔میرا اتنا قیمتی سامان بھی وہاں پڑا ہے ۔
سب کچھ آ جائے گا ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ تم صرف جگہ بتا دو۔
 رابعہ نے اپنا گھر اچھی طرح سمجھا دیا۔
بچوں کو ابھی لے آئیں۔۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ سامان رات کو اس طرح لائیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے ورنہ میں ماری جاؤں گی اور میرے بچے بھی محفوظ نہیں رہیں گے،،،،،،،، لیکن ایک بات تو میں نے سوچی ہی نہیں تھی وہ اب دماغ میں آئی ہے، اگر روزینہ یہیں  ہے تو میں یہاں کس طرح رہ سکتی ہوں، وہ تو کسی وقت بھی مجھے قتل کروا دے گیا، دھوکے میں زہر پلا دے گی، اگر اسنے مجھے قتل نہ کیا تو میرے بچوں کو مروا ڈالے گی یا اغوا کرادے گی، اس کے پاس ایک ایسا زہر ہے جس کا کوئی ذائقہ نہیں۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور محافظ دستے کے کماندار نے سلطان برکیارق کی طرف دیکھا، اس بات کا جواب سلطان ہی دے سکتا تھا، وہ نہیں جانتے تھے کہ سلطان روزینہ کے قتل کو ابھی پردے میں رکھنا چاہتا ہے یا نہ جانے اس کا کیا خیال ہے۔
 تم روزینہ کو یہاں نہیں دیکھ سکو گی۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ وہ دفن ہوچکی ہے، اس سارے محل میں گھوم پھر کر دیکھ لو وہ زندہ نہیں۔
 دفن ہو چکی ہے؟،،،،، رابعہ نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔کیوں کیا وہ بیمار ہو کر مر گئی ہے یا،،،،، 
ہم پر اس کی اصلیت بے نقاب ہوگئی تھی۔۔۔ سلطان برکیارق نے جواب دیا۔۔۔۔۔میں نہیں جانتا کہ تمہیں حسن بن صباح سے کیا ملتا تھا، اگر یہ بتا دو تو یہاں سے تمہیں دگنا انعام اور معاوضہ ملے گا، اب تم وہی کام ہمارے لئے کرو جو تم حسن بن صباح کے لئے کرتی رہی ہو، پہلے تم آوارہ پھرتی رہی ہو اب تم اس محل کی ایک قابل عزت فرد بنا دی جاؤ گی،،،،،،، سوچ لو اب تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔
پہلے یہ سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے کسی فدائی سے راز لینا ایسا ہی ناممکن تھا جیسے ایک پتھر سے دودھ کی دھاریں نکالی جائیں ،یہ ایک معجزہ تھا کہ ایک فدائی عورت نے سارے ہی راز دے دیے تھے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سلطان برکیارق اس کے بھائی اس کی ماں اور وزیراعظم اسلام کے تحفظ بقا اور فروغ کے لیے لڑ رہے تھے ،اور ان کا ایمان تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ رابعہ اپنی جوانی حسن بن صباح کے باطل عقیدے کو سینے سے لگائے گزار دی تھی، اور وہ سمجھتی تھی کہ حسن بن صباح نے اسکی فطرت ہی بدل ڈالی ہے، لیکن ممتا ایسا جذبہ ہے جو ماں کا دین و ایمان بھی ہلا ڈالتا ہے،اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچوں نے اسے راز اگلنے پر مجبور کر دیا تھا، بہرحال یہ ایک معجزہ تھا کہ رابعہ نے تمام راز دے دیے اور بہت سے آدمیوں کی نشاندہی بھی کی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی