🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینتالیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینتالیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو تین دنوں بعد رے سے اور شہریوں کی کچھ نفری کا ایک لشکر چلا ،لیکن اسے مرو نہیں پہنچنا تھا ،بلکہ مرو کے قریب ایک پہاڑی علاقے میں چھپ کر رہنا تھا ،مزمل اور دوسرا قاصد اس لشکر کے ساتھ تھا، یہ لشکر اگلے روز اس مقام تک پہنچا جہاں اسے پہنچنا تھا، فوج میں دو تجربے کار سالار تھے جن کا جذبہ ان کے تجربے سے زیادہ تیز تھا ۔
مزمل مرو پہنچا اور سیدھا محمد کے پاس گیا، وزیراعظم سمیری کے پاس براہ راست جانا مناسب نہیں تھا، اس نے محمد کو بتایا کہ ابو مسلم رازی نے ایک لشکر دیا ہے جو فلاں مقام تک پہنچ گیا ہے، اور اسے اگلے حکم کا انتظار ہے۔
وزیراعظم نے تمام انتظامات اتنی خوبی سے خفیہ طور پر مکمل کر دیے ہیں کہ اس لشکر تک یہ ہدایات پہنچ جائیں گی کہ انہیں کیا کرنا ہے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ میں اسی انتظار میں تھا کہ ابو مسلم رازی کوئی لشکر بھیج دیں، معلوم نہیں انہوں نے ہتھیاروں کا الگ ذخیرہ بھیجا ہے یا نہیں۔
بھیجا ہے۔۔۔۔ مزمل نے جواب دیا۔۔۔بے شمار اونٹوں پر تلواریں پرچھیاں اور کمانیں اور تیر لدے ہوئے آئے ہیں ۔
ہمیں ان ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ برطرف کئے ہوئے فوجیوں کو یہ ہتھیار پہنچانے ہیں، یہ انتظام موجود ہے کہ ہتھیار ان تک کس طرح پہنچائے جائیں۔
اتنے دنوں سے سلطان کی فوج شہر سے دور جنگلوں اور پہاڑیوں کے اندر برطرف فوجیوں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی ،برطرف کیے ہوئے فوجی بھی آخر عسکری تجربہ رکھتے تھے۔ انھوں نے سرکاری فوج کو نقصان پہنچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب سرکاری فوج کا کوئی دستہ پہاڑیوں کے اندر گشت کرتا آگے نکل جاتا تو اسے پچھلے حصے پر برطرف فوجی حملہ کر دیتے اور چند ایک فوجیوں کو مار کر پہاڑیوں کے اندر ہی ادھر ادھر ہو جاتے، ان فوجیوں کی کمان اوریزی کے ہاتھ میں تھی، اوریزی کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سرکاری فوج برطرف فوجیوں کی خیمہ گاہ کا محاصرہ کر کے تلاشی لے گی اور کچھ آدمیوں کو گرفتار کیا جائے گا، یہ چال اوریزی کے دماغ کی اختراع تھی کہ خیمہ گاہ شام کے بعد خاموشی سے خالی کردی جائے اور فوجیوں پر عقب سے حملہ کیا جائے۔
اس کی یہ اسکیم کامیاب ہوگئی تو اس نے برطرف فوجیوں کے سالار کو اور دو تین عہدے داروں کو اپنے ساتھ رکھ لیا، اور خبر رسانی کا انتظام بھی کر لیا، اور سابقہ فوجیوں کو پہاڑیوں کے اندر اور جنگلوں میں بکھیر دیا ،اوریزی تک ہرخبر بروقت پہنچ رہی تھی، یہ طریقہ جنگ اسی نے بتایا تھا کہ سرکاری دستوں کے پچھلے حصے پر چھاپہ مارو اور چند ایک آدمیوں کو گھائل کر کے غائب ہو جاؤ۔
سپہ سالار حجازی کی جان پر بنی ہوئی تھی، سلطان برکیارق اسے ہر روز بلاتا اور پوچھتا تھا کہ برطرف فوجیوں کا کچھ سراغ ملا یا نہیں، سپہ سالار حجازی منہ لٹکا کر غلاموں کی طرح یہی ایک جواب دیتا تھا کہ ان کا سراغ تو نہیں ملا لیکن وہ ہر روز ہمارے کسی نہ کسی دستے کے چند ایک آدمی مار کر غائب ہوجاتے ہیں، ایک روز تو اس نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ رات ان باغیوں نے فوج پر شب خون مارا ہے اور بہت سا جانی نقصان کرکے غائب ہوگئے ہیں۔
ایک روز محمد کو ابومسلم رازی کا ایک زبانی پیغام ملا ،وہ یہ تھا ،،،،،،کہ اسے یہ دیکھ کر بہت ہی دکھ ہو رہا ہے کہ ہم لوگ جو سلطنت کو نہیں بلکہ اسلام کو فروغ دے رہے تھے اب اپنا ہی خون بہا رہے ہیں، رازی نے محمد سے کہا تھا کے وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس جائے لیکن یہ خیال رکھے کہ اس کی باطنی بیگم اس کے ساتھ نہ ہو، محمد اسے اسلام اور سلطنت کا واسطہ دے کر کہے کہ وہ ہوش میں آئے اور اگر اسلام کے ساتھ اس کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے تو اپنی سلطنت کو ہی بچا لے۔
ابومسلم رازی کے قاصد نے محمد سے یہ بھی کہا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے بتا دیا جائے کہ وہ سلطانی سے دستبردار ہوجائے یا اپنی باطنی بیوی کو چھوڑ دے اسی سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے، اور پھر وہی باہمی پیار پیدا ہو جائے گا جو اُس لڑکی کے آنے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔
ابومسلم رازی نے یہ بھی کہا تھا کہ برکیارق نہ مانے تو اسے کہہ دینا کہ وہ نتائج کے لیے تیار رہے اور یہ بھی کہ یہ نتائج اس کے لئے اور اسکی باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے ۔
محمد اسی وقت وزیر اعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس گیا اور اسے ابومسلم رازی کا یہ زبانی پیغام سنایا۔
مجھے توقع تھی کہ وہ ایسا پیغام ضرور بھیجے گا ۔۔۔وزیراعظم نے کہا۔۔۔ اپنے بھائی تک یہ پیغام تم ہی لے جا سکتے ہو ،میں تو بظاہر اسی کا اور اس  کی بیگم کا آدمی ہوں، تم سلطان سے ملو اور اس کے ساتھ یہ بات کرو میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ وہ ذرا سا بھی اثر قبول نہیں کرے گا بلکہ الٹا تمہیں دھمکیاں دے گا ،بہرحال ہمیں اپنا یہ فرض بھی ادا کر دینا چاہیے کہ ہم نے اسے پہلے خبردار کردیا تھا۔
محمد اسی وقت برکیارق کے پاس چلا گیا، اتفاق سے وہ اسے اکیلا مل گیا ۔
دیکھا محمد !،،،،،برکیارق نے کہا۔۔۔ یہاں کیا خون خرابہ ہو رہا ہے، اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہماری ماں اگر لوگوں کو نہ بھڑکاتی تو وہ اوریزی کو آزاد نہ کراتے ،یہ سارا خون ریز فساد وہیں سے شروع ہوا ہے ۔
میرے سلطان بھائی !،،،،،،محمد نے کہا۔۔۔میں آپ کے ساتھ آج آخری بات کرنے آیا ہوں ،ہوش میں آئیں اور دیکھیں یہاں کیا ھو رھا ھے، خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے، یہ رک سکتی ہے یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ خون خرابہ رکے یا بہتا رہے، اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے 
تم فکر نہ کرو محمد !،،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔میں نے فوج بھیج دی ہے اور دو تین دنوں تک باغی پکڑے جائیں گے یا فوج انہیں وہیں ختم کر دے گی۔
سلطان عالی مقام !،،،،،محمد نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کی فوج کسی ایک باغی کو بھی نہیں پکڑ سکتی، میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز ہماری فوج کے پندرہ بیس آدمی مارے جا رہے ہیں ،میں آپکے ساتھ صاف بات کرتا ہوں اگر آپ سچے دل سے چاہتے ہیں کہ آپس کی قتل و غارت بند ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا بلند ہو اور یہ سلطنت قائم رہے تو سلطانی کی گدی سے اٹھ کر الگ ہو جائیں، یا اس باطنی لڑکی روزینہ کو چھوڑ دیں ،کون نہیں جانتا کہ حکم آپکی یہ بیگم دیتی ہے لیکن یہ حکم آپ کی زبان سے نکلتا ہے، آپ کے لئے اب کوئی اور راستہ نہیں رہا ،سلطانی چھوڑ دیں یا اس بیوی کو چھوڑ دیں۔
ہوش میں آ محمد!،،،،،، سلطان برکیارق نے سلطانوں کے سے لہجے میں کہا۔۔۔پہلے میں نے اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے اب ایسا نہ ہو کہ میں اپنے بھائی کو قید خانے میں ڈال دوں، میں تمہیں اور سنجر کو چھوڑ دوں گا اپنی اس بیوی کو نہیں چھوڑوں گا،،،،،،،اور رہا سوال سلطانی کا تو یہ میں جانتا ہوں کہ ہماری ماں تمہیں اس گدی پر بٹھانا چاہتی ہے۔
ٹھیک ہے سلطان محترم !،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ آپ کا دماغ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا گیا ہے، اب میں آپ کو آخری بات کرتا ہوں کہ مجھے آپ قید خانے میں ڈال دیں یا جلاد کے حوالے کردیں لیکن اس سے حالات سدھریں گے نہیں اور زیادہ بگڑے گے، اور اسکے جو نتائج ہونگے وہ آپ کے لئے اور آپ کی اس باطنی بیوی کے لیے بڑے ہی بھیانک ہونگے۔
محمد اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے نکل آیا، واپس آکر اس نے اپنے چھوٹے بھائی سنجر کو ساتھ لیا اور دونوں اپنی ماں کے پاس گئے، ان کی ماں نظر بند تھی لیکن اس کے یہ دونوں بیٹے اسے مل سکتے تھے، محمد نے اپنی ماں کو بتایا کہ ابو مسلم رازی کا کیا پیغام آیا ہے، پھر اسے بتایا کہ وہ برکیارق کے ساتھ بات کر کے آ رہا ہے، لیکن برکیارق نے اسے قید میں ڈالنے کی اور سزائے موت دینے کی دھمکی دی ہے۔
مقدس ماں !،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں، اب مجھے جہاد پکار رہا ہے، آپ اور سنجر یہیں رہیں گے، آپ نے ہماری کامیابی کے لیے دعا کرنی ہے اور اس کے سوا کسی اور کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنی، نہ کسی کے ساتھ جھگڑا مول لینا ہے، صرف ایک عورت نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا ڈالا ہے اور ایک مجاہد قوم کو دو حصوں میں کاٹ کر انہیں آپس میں ٹکرا دیا ہے، ان حالات میں مجھے یہاں نہیں رہنا چاہیے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری سے میری بات ہو چکی ہے، سالار اوریزی بھی میرا انتظار کر رہا ہے،،،،،، میں آج رات غائب ہو جاؤنگا۔
تم جہاں بھی جاؤ گے میری دعائیں تمہارے ساتھ ہو گی۔۔۔ ماں نے کہا۔۔۔ مسلمان مائیں اپنے بیٹوں کو قربان کرتی چلی آئی ہیں ،میں اس روایت کو زندہ رکھو گی تمہارا باپ تمہاری ہی طرح دیندار اور مجاہد تھا، اس نے اپنی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھی تھی، اور اس نے اپنی جان اس راستے پر دے دی جا بیٹے اللہ تیرے ساتھ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پانچ سات دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک رات شہر کے کسی کونے سے آواز آئی کہ شہر کو ایک لشکر نے محاصرے میں لے لیا ہے، یہ آواز ذرا سی دیر میں سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ جاگ اٹھے۔
ایک زمانہ گزر گیا تھا کہ یہ شہر محاصرے میں نہیں آیا تھا ،نہ کوئی ایسا خطرہ تھا اس لیے شہر کے تمام دروازے رات کو کھلے رہتے، صرف یہ احتیاط کی جاتی تھی کہ ہر دروازے کے ساتھ ایک دو کمرے تھے جن میں فوجی رہتے تھے ،انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ رات کو کون اندر آیا ہے اور کون نکل گیا ،اس رات جب شہر محاصرے میں آگیا تو ان فوجیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شہر کے تمام دروازے بند کردیے اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع دی، حجازی گہری نیند سویا ہوا تھا اس نے محاصرے کا لفظ ہی سنا تو ہڑبڑا کر اٹھا اور شب خوابی کے لباس میں ہی دوڑ پڑا اور شہر پناہ کے ایک برج میں جا کھڑا ہوا۔
شہر کے دروازے کھول دو ۔۔۔باہر سے للکار سنائی دی۔۔۔ نہیں کھولو گے تو ہم دروازے توڑ کر اندر آ جائیں گے، پھر ہم کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔
فوج کے متعدد دستے شہر سے دور سابق فوجیوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے، اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت کہاں تھے، باقی جو فوج تھی اسے اسی وقت جگا کر شہر پناہ پر چڑھا دیا گیا۔
شہرپناہ برائے نام تھی، یہ کوئی مضبوط قلعہ نہیں تھا، فوجیوں نے تیر پھینکنے شروع کردیے محاصرہ کرنے والی فوج کی طرف سے ایک بار پھر للکار اٹھی کہ مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ شہریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، لیکن سپہ سالار حجازی نے تیراندازی جاری رکھنے کا حکم دیا ،حجازی نے للکار کر یہ بھی پوچھا کہ تم کون لوگ ہو اور کس ملک سے آئے ہو ،اس کا جواب نہ آیا۔ سلطان برکیارق کو اطلاع دی گئی تو وہ اٹھ کر آگیا اور سپہ سالار حجازی کے ساتھ ایک برج میں جا کھڑا ہوا۔
رات ایسے ہی ایک دوسرے کو للکارتے گزر گئی ،صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ اپنے ہی لوگ ہیں اور ان میں برطرف کیے ہوئے فوجی بھی شامل ہیں، چونکہ شہر کی فوج بہت تھوڑی تھی اس لئے سلطان کے حکم سے شہریوں کو مقابلے کے لیے تیار کیا جانے لگا، یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ فوج یا لشکر رے سے آیا ہے اور یہ وہاں کے امیر شہر ابومسلم رازی کا بھیجا ہوا ہے ،شہریوں کو یہ خبر ملی تو ان میں بہت سے لوگوں نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا، شہری یہ شور کرنے لگے کہ اپنی فوج نے اپنی ہی شہر کو کیوں محاصرے میں لے لیا ہے ،اس کی کوئی اور وجہ ہوگی۔
 حسن بن صباح کا ایجنٹ طبیب بہت خوش تھا کہ اس کی زمین دوز کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں اور باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے، وہ اس پر تو اور ہی زیادہ خوش تھا کہ شہری بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ،لیکن اس نے دیکھا کہ شہری مقابلے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ اپنی ہی سلطنت کی فوج ہے، طبیب نے دوسری چال چلی وہ یہ کہ اپنے آدمیوں سے کہا کہ شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رے کا حاکم ابو مسلم رازی باغی ہو گیا ہے، اور اس نے امام حسن بن صباح کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اس کی مدد سے اس شہر کو فتح کرنے آیا ہے۔
 کچھ ہی دیر بعد یہی افواہ ایک سچی اطلاع اور خبر کی صورت میں سارے شہر میں پھیل گئی ،شہری ایک بار پھر جوش و خروش سے مقابلے کے لئے تیار ہوگئے، شہرپناہ پر ایک انسانی دیوار کھڑی ہوگئی، شہر سے تیروں کا مینہ برسنے لگا۔
محاصرہ کرنے والے نہتّے تو نہیں آئے تھے، ان کے پاس بھی کمانیں اور تیروں کا ذخیرہ تھا، اور ان کے پاس بڑے ماہر تیر انداز بھی تھے، انہوں نے جوابی تیر اندازی شروع کی تو دیوار پر لوگ تیر کھا کھا کر گرنے لگے، نقصان دونوں طرف سے ہو رہا تھا۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے دیکھا کہ ایک غلط افواہ پھیلا کر شہریوں کو بھڑکایا گیا ہے، تو اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ شہریوں تک یہ خبر پہنچائیں کہ ابو مسلم رازی نے حسن بن صباح کی بیعت نہیں کی بلکہ ہمارا اپنا سلطان اپنی بیوی کے ذریعے حسن بن صباح کا مرید ہو گیا ہے، اور اس شہر میں بےشمار باطنی آگئے ہیں۔
وزیراعظم کے آدمی بھی خاصے تجربہ کار تھے انھوں نے بھی یہ خبر اپنے طریقے سے پہنچانی شروع کردیں اور اس کے اثرات بھی دیکھنے میں آنے لگے ،وہ اس طرح کے کچھ شہری شہر کے دفاع سے منہ موڑ کر نیچے اتر آئے۔
ہوا یہ کہ کسی طرح سلطان کی اُس فوج کو پتہ چل گیا کہ شہر محاصرے میں ہے جو فوج برطرف فوجیوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھی، ان دستوں کا کمانڈر کوئی عقلمند آدمی تھا، اس نے اپنے دستے اکٹھے کئے اور انہیں واپس لے آیا، اس نے دلیری کا یہ مظاہرہ کیا کہ عقب سے محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کردیا ،سپہ سالار حجازی نے یہ منظر دیکھا تو اس نے یہ حکم دے دیا کہ شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں اور اندر کی فوج اور شہری باہر نکل کر محاصرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑیں۔
بڑی خونریز لڑائی لڑی گئی اور سورج غروب ہو گیا ،اندر سے گئی ہوئی فوج اور شہری واپس آگئے ،وہ دیکھ نہ سکے کہ ان کے ساتھ ہی حملہ آور فوج یعنی جس لشکر نے شہر کو محاصرے میں لیا تھا وہ بھی شہر میں آگئے، انھوں نے شہر کے تمام دروازے پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی اس طرح تمام دروازے جل گئے۔
رات کو شہر میں لڑائی ہی ہوتی رہی اس کے ساتھ ہی حملہ آور لشکر کی طرف سے یہ اعلان ہوتے رہے کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ہمارے خلاف نہ لڑو ہم باطنیوں کو یہاں سے نکالنے آئے ہیں ،لیکن لڑائی جاری رہی اور شہری دو حصوں میں تقسیم ہوتے گئے، بعض طبیب کی افواہ کو سچ مانتے تھے اور دوسرے دوسری قسم کی افواہ کے قائل ہوگئے ،لیکن شہر کی گلیوں میں خون بہتا رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر دن اور ہفتے گزرتے چلے گئے اور یہ خون بہتا ہی رہا۔
ایک خانہ جنگی تھی جس میں حسن بن صباح کے پیروکار اور تخریب کار تیل ڈالتے رہے اور سلطنت سلجوقیہ میں بھائی بھائی کا خون بہاتا رہا، تاریخ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلطان کی گدی کی یعنی اقتدار کی خانہ جنگی تھی لیکن مستند اور حقائق پر نظر رکھنے والے مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ آگ حسن بن صباح نے لگائی تھی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان برکیارق مسلسل اپنی بیوی روزینہ کے زیراثر چلا آرہا تھا ،احکام روزینہ کے دماغ کی اختراع ہوتے تھے جس کا خفیہ رابطہ ایک عورت کے ذریعے طبیب کے ساتھ تھا اور اسے حسن بن صباح کے احکام اور ہدایات اسی طبیب کی طرف سے اس عورت کی وساطت سے ملتی تھیں۔
سلطان برکیارق کے محل کے اردگرد حفاظتی انتظامات بڑے ہی سخت کردیئے گئے تھے، یہ تو فورا ہی واضح ہو گیا تھا کہ دو بھائی ایک طرف ہیں اور بڑا بھائی دوسری طرف۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کا کردار ڈھکا چھپا رہا وہ بظاہر برکیارق اور روزینہ کا زر خرید غلام بنا رہا لیکن درپردہ محمد اور ابو مسلم رازی کے ساتھ تھا، سلطان کے یہاں جو نیا منصوبہ بنتا یا کوئی حکم ملتا وہ وزیر اعظم ابو مسلم رازی اور محمد تک پہنچا دیا کرتا تھا، ان لوگوں کو اور ان کے حامی فوج کو باغی کہا گیا تھا، ان باغیوں کا سپہ سالار اوریزی تھا جو بڑا ھی قابل اور قومی جذبے سے سرشار آدمی تھا۔
ایک روز عبدالرحمن سمیری نے مزمل کے ساتھ درپردہ رابطہ کرکے کہا کہ اب وہ شمونہ کو استعمال کرے، کیوں کہ روزینہ کو قتل کرانا یا اس کا اثر برکیارق اسےاتارنا ممکن نظر نہیں آتا ،شمونہ فریب کاری اور اداکاری کی ماہر تھی، اور جب سے خانہ جنگی شروع ہوئی تھی وہ تڑپتی تھی کہ وہ بھی اس میدان میں کچھ کر کے دکھائے، اس کے اندر حسن بن صباح کے خلاف جو انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ بھڑک اٹھا تھا ،وہ عقل و دانش والی لڑکی تھی وہ جب دیکھتی تھی کہ باطنیوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیا ہے اور خون بہتا ہی چلا جارہا ہے تو وہ پنجرے میں بند پنچھی کی طرح پھڑپھڑاتی اور پنجرہ توڑنے کی ناکام کوشش کرتی تھی، آخر مزمل نے اسے بتایا کہ اب وزیراعظم سمیری نے اس کے لیے موقع پیدا کرلیا ہے۔
خانہ جنگی کو چھ سات مہینے گزر گئے تھے یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ ابو مسلم رازی سلطان برکیارق کے خلاف اپنی فوج اور اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہا ہے، ایک روز وزیراعظم سمیری روزینہ کے پاس گیا اور اس سے معمول کے مطابق بتایا کہ خانہ جنگی کی صورتحال کیا ہے۔
آج ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ نیکی کا ایک کام کرنا ہے اور یہ آپ کے اختیار میں ہے ۔
آپ بتائیں کیا کام ہے۔۔۔۔ روزینہ نے پوچھا ۔۔۔میں آپ کی خدمت نہیں کروں گی تو اور کس کی کرونگی؟ 
اس خانہ جنگی نے تو ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔۔۔ وزیر اعظم نے کہا ۔۔۔میں ابو مسلم رازی ،محمد اور سنجر کو قتل کروانے کا انتظام کر رہا ہوں، لیکن اس وقت آپ سے ایک اور عرض کرنا چاہتا ہوں، میرا ایک بڑا ہی معزز اور پیارا دوست تھا وہ بیچارہ مارا گیا ہے، وہ گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایک برچھی جو کسی نے دوسرے کو ماری تھی وہ اسے لگ گئی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا، اس کے دو جوان بیٹے تھے دونوں خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں، اس کی صرف بیوی اور ایک جوان بیٹی بچ گئی ہے، لیکن ان کے گھر میں کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہیں ،لڑکی جوان ہے اور کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں باغیوں کے ہاتھ چڑھ گئی تو بیچاری کی زندگی برباد ہوجائے گی، میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کے یہاں نوکروں اور نوکرانیوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن ایک سلجھی ہوئی اور سلیقہ شعار اور خوبصورت کنیز آپ کے پاس ضرور ہونی چاہیے، اگر آپ میری یہ عرض مان لیں تو میں یہ لڑکی آپ کے حوالے کردوں، اس سے ایک تو آپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور سب سے بڑی نیکی تو یہ ہوگی کہ ایک پردہ دار یتیم لڑکی کو سہارا اور پردہ مل جائے گا، میں اس لڑکی کی ہر طرح ضمانت دینے کو تیار ہوں۔
آپ کو اتنی لمبی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ روزینہ نے کہا ۔۔۔اس لڑکی کو ساتھ لے آتے اور میں اسے اپنے پاس رکھ لیتی، آپ اسے لے آئیں، اگر اس کی ماں بھی آنا چاہتی ہے تو آجائے ،میں اسے رہائش کے لیے جگہ دے دونگی۔
نہیں بیگم محترمہ !،،،،،وزیراعظم نے کہا۔۔۔اس کی ماں اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہے، آپ اس کی بیٹی کو رکھ لیں اور کبھی کبھی اسے اپنے گھر جانے کی اجازت دے دیا کریں۔
 اس طرح شمونہ روزینہ کے پاس پہنچ گئی اس نے روزینہ کو اپنا نام نگینہ بتایا ،اس کے ساتھ ہی وہ رو پڑی اور اپنے باپ اور بھائیوں کو یاد کر کر کے گھر کی باتیں سنانے لگی، شمونہ نے ایسی اداکاری کی جیسے وہ بالکل ہی سیدھی سادی اور پردہ نشین لڑکی ہو، اور اسے دنیا کی ہوا ہی نہ لگی ہو۔
آپ مجھے سمجھاتی رہیں کہ میں نے یہاں کیا کرنا ہے ۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔میں آپ کی پسند اور مرضی پر پوری اترنے کی کوشش کروں گی، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو یہ سمجھ کر معاف کر دینا کہ میں غریب اور پسماندہ سے گھرانے کی لڑکی ہوں، ایسا شاہانہ گھر تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
روزینہ کو شمونہ بہت ہی اچھی لگی، شمونہ میں اس نے جو سادگی اور بے ساختہ پن دیکھا وہ تو اسے بڑا ہی پیارا لگا ،شمونہ کی عمر تو جوانی کی تھی لیکن اس نے شادی نہیں کی تھی اور اپنی صحت کو برقرار رکھا تھا اس لیے وہ اپنی عمر سے کم اور نوجوان لگتی تھی ،شمونہ کو معلوم تھا کہ روزینہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے، شمونہ اس تربیت سے بہت اچھی طرح واقف تھی اور اس تربیت کو اس نے عملی زندگی میں بھی استعمال کیا تھا۔
 اب وہ ایسی تربیت اور تجربے کو روزینہ کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے لگی۔
چند دنوں میں ہی شمونہ نے شاہی طور طریقے سیکھ لیے، یہ طور طریقے تو وہ پہلے ہی سے جانتی تھی، روزینہ کے دل میں اس نے اپنی جگہ پیدا کرلی، ابھی سلطان برکیارق نے شمونہ کو نہیں دیکھا تھا، روزینہ نے جب دیکھا کہ شمونہ بڑی تیزی سے سارے کام اور انداز وغیرہ سیکھ لیے تو ایک روزاس نے شمونہ کو سلطان برکیارق کے سامنے کیا اور کہا کہ یہ ایک تحفہ ہے جو وہ اسے دے رہی ہے۔
یہ میری اور آپ کی کنیز ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اس کا نام نگینہ ہے، اور یہ ہے بھی نگینہ۔
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے۔۔۔ سلطان برکیارق نے اپنا بازو شمونہ کی طرف پھیلا کر کہا۔۔۔ یہاں آؤ، ہاں ادھر بیٹھ جاؤ۔
نہیں !،،،،،،شمونہ نے لجاتے اور شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میری جگہ آپ کے پلنگ پر نہیں ،یہ محترمہ بیگم کی جگہ ہے اگر بیگم اجازت دیں گی تو میں آپ کے پاس بیٹھ جاؤنگی۔
میں تمہیں بیگم کی جگہ اپنے پاس نہیں بیٹھا رہا ۔۔۔سلطان برکیارق نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ اگر میں تمہیں ایک پھول پیش کروں تو تم اسے ایک بار سونگھو گی تو ضرور۔
شمونہ نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ نے مسکرا کر اسے سر سے ہلکا سا اشارہ کیا تو شمونہ پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی ،تو سلطان برکیارق نے بازو اس کی کمر میں ڈال کر اپنے قریب کر لیا ۔
آپ نے پھول سونگھ لیا ہے ۔۔۔شمونہ نے برکیارق کے بازو سے نکل کر اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ اب اسی کے پاس جارہا ہے جس کی ملکیت ہے۔
روزینہ اور برکیارق نے بے ساختہ قہقہہ لگایا، شمونہ کا جادو کام کر گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شمونہ کی حیثیت روزینہ کی نگاہوں میں ایسی ہوگئی جیسے وہ اس کی کنیز نہیں بلکہ ہمراز سہیلی ہو، ایک روز شمونہ روزینہ سے بڑی سادگی سے پوچھا کہ یہ امام حسن بن صباح کون ہے، اور باطنی کسے کہتے ہیں؟ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حسن بن صباح امام بھی ہے اور نبی بھی، شمونہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس کی باتیں سن سن کر دل سے اس کی مرید ہو گئی ہوں۔
روزینہ نے حسن بن صباح کی باتیں شروع کردیں اور ثابت کر دیا کہ وہ زمین پر امام ہے اور آسمانوں میں نبی ہے، اس نے یہ بھی کہا کہ الموت میں خداوند تعالی نے اسے جنت بنادی ہے، اس طرح روزینہ نے حسن بن صباح کی ایسی باتیں سنائیں کہ شمونہ جھوم اٹھی۔
میری یہ خواہش ہے ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ ایک بار صرف ایک بار اللہ کے اس مقدس انسان کو دیکھوں، میں نے پہلے بھی اس کے متعلق ایسی ہی باتیں سنی ہیں، کیا آپ مجھے اس کی زیارت نہیں کرا سکتیں؟ 
کیوں نہیں نگینہ !،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔ کسی وقت تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دوں گی۔
اس روز کے بعد شمونہ اکثر حسن بن صباح کا ذکر چھیڑ دیتی اور اس طرح باتیں کرتی جیسے وہ حسن بن صباح کی عبادت کر رہی ہو، اس دوران شمونہ نے وہ عورت دیکھ لی جس کے ذریعے روزینہ طبیب کے ساتھ رابطہ رکھتی اور پیغام دیتی تھی، شمونہ وزیراعظم سمیری سے چوری چھپے ملنے کا موقع پیدا کرلیا کرتی تھی۔
اب وہ وزیراعظم سے ملی تو اسے کہا کہ شاہی طبیب سے کہیں کہ وہ سفوف مجھے دے دیں، یہ بھی کہا کہ سفوف تھوڑا نہ ہو اچھی خاصی مقدار میں ہونا چاہیے، اور طبیب یہ بھی بتا دے کہ ایک وقت میں یہ کتنا استعمال کیا جائے کہ اس کے ذائقہ اور بو کا پتا نہ چلے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں سے یہ ارادہ لے کر واپس آیا کہ وہ سلطان ملک شاہ کو قتل کرے گا ،یہ حسن بن صباح کے ذاتی طلسم اور حشیش کا اثر تھا کہ اسکا دماغ ہی ان لوگوں نے الٹا کر دیا تھا ،سلطان کے طبیب نے اسے کچھ دوائیاں پلا پلا کر ٹھیک کیا تھا اور اس کا دماغ واپس اپنی اصلی حالت میں آگیا تھا، اب شمونہ اس طبیب سے وہی دوائی منگوا رہی تھی۔
وزیراعظم نے اگلے ہی روز شمونہ کو وہ دوائی دے دیں جو سفید رنگ کا ایک سفوف تھا، وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ ایک صراحی میں اسکی کتنی مقدار ڈالنی ہے۔
شمونہ دیکھ رہی تھی کہ روزینہ ہر صبح ایک بڑی خوبصورت اور سنہری صراحی میں مشروب ڈالتی تھی اور اس میں کچھ ملاتی تھی ،شمونہ جانتی تھی کہ یہ صراحی میں کیا ملا رہی ہے ،روزینہ کو شمونہ پر مکمل طور پر اعتبار آ گیا تھا، اس لیے وہ اپنی بیشتر حرکتیں شمونہ سے چھپاتی نہیں تھی ،اس نے شمونہ سے کہہ رکھا تھا کہ سلطان جب اپنے کام سے واپس آئیں اور وہ موجود نہ ہو تو سلطان کو ایک پیالا اس مشروب کا پلانا ہے 
روزینہ اکثر شمونہ کے ساتھ حسن بن صباح اور اسکی جنت کی باتیں کیا کرتی تھی، اور شمونہ اس کی یہ باتیں ایسے اشتیاق سے سنا کرتی جیسے اس پر مد ہوشی طاری ہوئی جارہی ہو، کبھی شمونہ یہ بھی کہہ دیتی کہ آپ کتنی خوش نصیب ہیں کہ ایسے نبی کی زیارت کر چکی ہیں جسے اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے لئے اس زمین پر اتارا ہے، ایک روز روزینہ نے حسب معمول صراحی میں مشروب ڈالا اور شمونہ سے کہا کہ یہ سلطان کے کمرے میں رکھ دے ،شمونہ صراحی لے گئی اور سلطان کے کمرے میں بھی چلی گئی لیکن اس نے صراحی وہاں رکھنے کی بجائے غسل خانے میں لے جاکر نالی میں بہا دی۔
شمونہ نے روزینہ کا روزمرہ کا معمول دیکھ لیا تھا ،اسے معلوم تھا کہ اس وقت روزینہ کونسے کمرے میں ہوگی اور وہ کتنی دیر وہاں رہے گی، شمونہ نے بڑی تیزی سے ویسا ہی مشروب صراحی میں ڈالا اور شاہی طبیب کا دیا ہوا سفوف نکال کر ذرا سا صراحی میں ملا دیا اور اسے اچھی طرح ہلایا۔
 سلطان برکیارق جب اپنے روزمرہ امور سلطنت سے واپس آیا تو روزینہ دوڑی آئی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اس مشروب کا پیالہ برکیاروق کو پلا دیا۔
اس روز رات سونے تک سلطان برکیارق کو یہی مشروب پلایا جاتا رہا ،شمونہ دو تین مرتبہ سلطان برکیارق کے کمرے میں گئی، ایک بار تو برکیارق نے اسے بلایا تھا اور باقی دو مرتبہ وہ کسی نہ کسی بہانے چلی گئی تھی ،وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سلطان برکیارق کے رویے میں یا بولنے کے انداز میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں، وہ کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکھ رہی تھی، ایک یہ کہ برکیارق دن کے وقت بھی سویا کرتا تھا لیکن اس روز وہ کروٹیں بدلتا رہا اور سو نہ سکا۔
 صبح جب شمونہ اپنے روزمرہ کے کام کاج کے لیے روزینہ کے کمرے میں گئی تو روزینہ نے اسے پہلی بات یہ سنائی کہ سلطان ساری رات بہت بےچین رہے ہیں، اور اچھی طرح سو نہیں سکے۔
بےچین نہ رہیں تو اور کیا کریں۔۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ جس سلطان کی سلطنت میں آپس کی قتل و غارت ہو رہی ہو اور خانہ جنگی روزبروز خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہو وہ سلطان کیسے سکون سے سو سکتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ نے اپنا یہ کام جاری رکھا ،روزینہ مشروب میں نشہ ملا دیتی اور شمونہ وہ صراحی انڈیل کر اور مشروب ڈال دیتی اور اس میں اپنا سفوف ڈال دیتی، وہ سلطان برکیارق میں نمایاں تبدیلی دیکھنے لگی ۔
شمونہ نے موقع پیدا کر کے وزیراعظم سمیری کے ساتھ مختصر سی ملاقات کی اور اسے بتایا کہ وہ اپنا کام کررہی ہے اور سلطان میں تبدیلی آ رہی ہے، تبدیلی یہ کہ وہ اب کسی کسی وقت گہری سوچ میں کھو جاتا اور بات سنجیدگی سے کرتا تھا، وزیراعظم نے اسے یہ نئی بات بتائی کے طبیب نے کہا ہے جس مشروب میں کوئی نشہ خواہ اسمیں حشیش ہی ملا ہوا ہو اس میں یہ سفوف معمول کے دگنی مقدار سے ڈال دو تو بھی نشہ اثر نہیں کرتا۔
طبیب کی یہ ہدایت شمونہ کےلیےبڑی آسان تھی، روزانہ مشروب غسل خانے کی نالی میں گرانا خطرناک تھا وہ کسی بھی وقت پکڑی جاسکتی تھی، اس نے اب یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزینہ نشے والا سفوف صراحی میں ڈالتی تو شمونہ اس میں اپنا سفوف زیادہ مقدار میں ملا دیتی۔
 خانہ جنگی دور دور تک پھیل گئی تھی، سرکاری فوج لڑ تو رہی تھی لیکن اس کی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی، اس فوج کو باطنیوں نے مسلمانوں کے روپ میں پورا کیا اور اس میں شامل ہوگئے، تاکہ یہ آگ جلتی رہے، امن و امان تباہ ہوگیا لوگوں کو کھانے کے لیے اناج بھی نہیں ملتا تھا ،جو لوگ نہ سرکاری فوج کے ساتھ تھے نہ باغیوں کے ساتھ تھے وہ تو ڈر کے مارے باہر ہی نہیں نکلتے تھے، باطنی شہر میں بھرتے چلے جارہے تھے اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ کسی بھی دن حسن بن صباح یہاں آ دھمکے گا اور سلطان کی گدی پر بیٹھ کر سلطان برکیارق کو قتل کر دے گا۔
 ایک روز شمونہ وزیراعظم سے ملی اور اسے کہا کہ وہ طبیب سے کوئی ایسا زہر لا دے جو جسم میں جاتے ہی جسم کو بے جان کر دے۔ وزیراعظم نے اسی روز ایک  زہر شمونہ کو دے دیا جو شمونہ نے اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز سلطان برکیارق نے اپنے آرام والے کمرے میں ہی وزیراعظم سمیری کو بلایا، وزیراعظم فوراً پہنچا۔
کیا آپ نے خانہ جنگی کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں سوچا؟،،،،، سلطان برکیارق نے عجیب سی بے بسی کے لہجے میں پوچھا اور آہ بھر کر بولا۔۔۔ محترم سمیری آپ میرے باپ ہیں کوئی حل نکالیں، یہ خون میرے دماغ کو چڑھ رہا ہے۔
عبدالرحمن سمیری سلطان برکیارق کی یہ بات سن کر حیران تو ہوا ہی تھا لیکن اسے حیرت اس کے لہجے سے ہوئی، وہ تو غنودگی کی حالت میں بولا کرتا تھا یا اس کے لہجے میں رعونت ہوتی تھی، پھر وزیراعظم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ روزینہ کمرے میں داخل ہوئی تو سلطان برکیارق نے اسے کہا کہ تم ذرا باہر ٹھہرو، روزینہ نے آنکھیں پھاڑ کر سلطان برکیارق کی طرف دیکھا اور اندر آگئی ،وہ جب بھی دیکھتی کہ سپہ سالار حجازی یا وزیراعظم آیا ہے تو دوڑ کر سلطان کے پاس آبیٹھتی اور یوں باتیں کرتی تھی جیسے سلطنت کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں ہو اور حکم اسی کا چل رہا ہو۔
باہر کی صورتحال کیا ہے؟،،،،، روزینہ نے وزیر اعظم سے پوچھا۔
 روزینہ !،،،،،سلطان برکیارق نے بڑی جاندار آواز میں کہا ۔۔۔میں موجود ہو تو تمہیں بات کرنے کی ضرورت نہیں ،میں نے تمہیں کہا تھا کہ باہر ٹھہرو۔
روزینہ آہستہ آہستہ اٹھی اور قدم گھسیٹتی ہوئی باہر نکل گئی ۔
میں آپ سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ سلطان برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا کہ کوئی طریقہ سوچیں کہ یہ خانہ جنگی رک جائے۔
میں تو سوچتا ہی رہتا ہوں۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ آپ سے بات کرتے ہچکچا جاتا ہوں ،بات آپ کے ساتھ کرتا ہوں تو جواب محترمہ بیگم صاحبہ سے ملتا ہے ،،،،سلطان محترم خون جو بہ رہا ہے یہ میری اور آپ کی گردن پر ہوگا، اس کی سزا صاف نظر آرہی ہے، نہ یہ سلطنت رہے گی نہ اس کا کوئی سلطان رہے گا ،نہ کوئی وزیراعظم ہوگا ،ہم ہونگے لیکن غلامی کی زنجیروں سے بندھے ہوئے، ہمارے سر تن سے جدا کر دیے جائیں گے، اگر آپ اجازت دیں تو صلح سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔
آپ کسی حل پر پہنچے اور مجھے بتائیں۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔
شمونہ نے پہلی بار روزینہ کو خفگی یا مایوسی کی حالت میں دیکھا، شمونہ نے اس سے پوچھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک ہے یا وہ کوئی گڑبڑ محسوس کررہی ہے، روزینہ نے اکھڑی ہوئی سی آواز میں جواب دیا ،اس وقت روزینہ پیالے میں کوئی مشروب ڈال رہی تھی۔
میری طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ سلطان کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ،ان کے لئے یہ خاص شربت تیار کررہی ہوں، سلطان کے غم نے ان کے دماغ پر بہت برا اثر کیا ہے ،کبھی کبھی ان کی یہ حالت ہو جایا کرتی ہے تو میں انہیں یہ شربت پلایا کرتی ہوں، وزیراعظم اٹھ کر جائیں گے تو انہیں یہ شربت پلا کر سلا دوں گی، پھر وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔
شمونہ سمجھ گئی کہ اس شربت میں یا تو حشیش کی زیادہ مقدار ملائی گئی ہے یا کوئی تیز نشہ ملایا گیا ہے، شمونہ کو شک ہوا کہ سلطان برکیارق نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہے جس کی شمونہ کو توقع نہیں تھی، شمونہ سلطان برکیارق کو اتنا زیادہ سفوف پلا چکی تھی کہ اب تک سلطان کو صحیح ذہنی حالت میں آ جانا چاہیے تھا۔
روزینہ نے شربت وہیں پڑا رہنے دیا اور وہاں سے نکل گئی، وہ شاید یہ دیکھنے گئی تھی کہ وزیراعظم چلا گیا ہے یا نہیں ،شمونہ نے طبیب کا دیا ہوا زہر اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا تھا، اس نے بڑی تیزی سے وہ پڑیا نکالی اور شربت میں ڈال کر حل کر دی۔
اس کے بعد فوراً روزینہ آ گئی اور کہنے لگی کہ وزیراعظم نے لمبی ہی بات شروع کردی ہے، بہتر ہے کہ یہ شربت انھیں ابھی پلا دوں،،،،،، روزینہ نے پیالہ اٹھایا اور سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف چلی گئی، شمونہ اس کے پیچھے پیچھے گئی۔
روزینہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوئی، شمونہ دروازے کے ساتھ باہر کھڑی رہی، اسے روزینہ کی آواز سنائی دی،،، سلطان محترم یہ شربت پی لیں آپ بہت تھکے ہوئے ہیں،،،،، یہ کہہ کر روزینہ کمرے سے نکلنے لگی، شمونہ آگے ہوگئی، اس نے دیکھا کہ سلطان برکیارق نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور وہ وزیر اعظم کے ساتھ بات کر رہا تھا، بات ختم کرتے ہی اس نے یہ شربت پی لینا تھا جس میں شمونہ نے بڑا ہی تیز زہر ملا دیا تھا۔
سلطان برکیارق پیالا اپنے منہ کی طرف لے جانے لگا تو شمونہ تیر کی طرح دروازے سے اس تک پہنچی اور بڑی گھبراہٹ میں کہا،،،،مت پینا یہ شربت سلطان ،،،،اس نے لپک کر وہ پیالہ سلطان کے ہاتھ سے لے کر تپائی پر رکھ دیا، روزینہ کمرے سے نکل چکی تھی شمونہ کی اس حرکت سے واپس آگئی۔
 یہ کیا بدتمیزی ہے شمونہ!،،،،، روزینہ نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ سلطان کے ہاتھ سے پیالا کیوں چھین لیا ہے؟ 
سلطان محترم !،،،،،شمونہ روزینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ابھی کسی کو بلا کر کہیں کہ ایک بلی یا کتا یا کوئی اور جانور یہاں لے آئے اور پھر یہ شربت اسے بلا کر دیکھیں،،،،،، اس میں آپ کی بیگم نے زہر ملایا ہوا ہے، اگر میں جھوٹی ثابت ہوئی تو اپنا سر پیش کر دوں گی۔
روزینہ نے تو واہی تباہی بکنی شروع کردی اور سلطان برکیارق حیرت سے کبھی روزینہ کو اور کبھی شمونہ کو دیکھتا تھا ،وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ شمونہ نے اس سے زہر منگوایا تھا، وہ دانش مند آدمی تھا وہ سمجھ گیا کہ شمونہ نے کوئی چال چلی ہے، سلطان کے حکم کے بغیر وزیراعظم باہر گیا اور ایک خادم سے کہا کہ ایک بلی یا کتا فوراً پکڑ کر لائے۔
روزینہ وہیں کھڑی رہی اور شمونہ کو دھمکیاں دیتی رہی، وہ تو سچی تھی کیونکہ اس نے شربت میں زہر نہیں ملایا تھا، اسے صرف یہ ڈر تھا کہ اس شربت میں اس نے ذرا تیز نشہ ملایا تھا، بلی یا کتے کو بلانے کی صورت میں یہ ہونا تھا کہ اس جانور نے تھوڑی دیر بعد گر کر سو جانا تھا۔
سلطان کا حکم تھا اس لئے ایک کتا فوراً حاضر کیا گیا، سلطان کتا لانے والے سے کہا کہ اس پیالے میں جو شربت ہے یہ کتے کے منہ میں انڈیل دو، خادم نے کتے کا منہ کھولا اور شمونہ نے آدھا پیالہ شربت کتے کے حلق سے نیچے اتار دیا، سلطان نے کہا اس کتے کو چھوڑ دو، کتے کو چھوڑ دیا گیا۔
 کتا کمرے سے باہر کو چل پڑا ،دہلیز سے بھی آگے چلا گیا لیکن اس سے آگے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ رک گیا ،اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں اور وہ گر پڑا ذرا سی دیر اس کی ٹانگیں کانپی اور پھر ٹانگیں ساکت ہوگئیں ،کتا مر گیا تھا۔
سلطان برکیارق فوراً اٹھا اور اس نے قہر بھری نظروں سے روزینہ کو دیکھا ،اس نے اس کمرے میں داخل ہوتے ہی روزمرہ کی طرح کمر بند سے لمبا خنجر نکال کر قریب ہی تپائی پر رکھ دیا، سلطان نے کچھ بھی نہ کہا لپک کر خنجر اٹھایا اس کی نیام کھینچ کر پرے پھینکی اور روزینہ کی طرف بڑھا، روزینہ اس سے دو ہی قدم پر کھڑی حیرت کا مجسمہ بنی ہوئی تھی۔
نہیں سلطان!،،،،، وزیراعظم سمیری نے برکیارق کی طرف لپکتے ہوئے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ یہ کام آپ کا نہیں جلاد کا ہے۔
وزیراعظم کا آخری لفظ اس کی زبان پر ہی تھا کہ سلطان برکیارق کا خنجر  روزینہ کے پیٹ میں اتر چکا تھا، اس نے خنجر کھینچا اور کہا لوگ سچ کہتے تھے کہ یہ باطنی ہے اور اس ابلیس حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے۔ سلطان روزینہ کے گرنے سے پہلے ایک بار پھر خنجر روزینہ کی پسلیوں میں اتار دیا۔ روزینہ گری سلطان نے خنجر کھینچ لیا اور فرش پر پھینک دیا۔
سلطان نے کچھ دیر آخری سانس لیتی ہوئی روزینہ کو دیکھا اور اس کے بہتے ہوئے خون کو دیکھا ،شمونہ اور وزیراعظم بھی روزینہ کو مرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
محترم سمیری !،،،،،سلطان برکیارق غم سے بوجھل آواز میں کہا۔۔۔ اسے یہاں سے اٹھوا دیں، لاش اٹھانے والوں سے کہہ دیں کہ اسے کفن نہیں پہنایا جائے گا نہ ہی اس کا جنازہ پڑھایا جائے گا، کتے کو بھی اٹھواں دیں اور کہیں ویرانے میں گڑھا کھود کر کتے کو بھی اس کے ساتھ دفن کردیں ۔
سلطان کا سر ڈولنے لگا جیسے وہ چکرا کر گر پڑے گا ،وزیراعظم نے لپک کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔
مجھے میری ماں کے پاس لے چلو۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔
 آپ چل سکیں گے ؟،،،،،وزیراعظم سمیری نے پوچھا۔
 ہاں !،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔۔ چل کر جاؤں گا۔
وہ وزیراعظم کے ساتھ کمرے سے نکل گیا ،ماں جس کمرے میں نظر بند تھی وہ قریب ہی تھا، برکیارق اپنے سہارے چلتا ہوا وہاں پہنچا، وزیراعظم ساتھ تھا اور شمونہ پیچھے کھڑی دیکھ رہی تھی۔
برکیارق وزیراعظم کے ساتھ ماں کے کمرے میں داخل ہوا ،ماں غم کی تصویر بنی بیٹھی تھی، برکیارق کو دیکھ کر اس کے چہرے پر غصے کی سرخی آگئی، برکیارق اس کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور ماں کے قدموں میں گر پڑا ،پھر سر اس کی گود میں رکھ دیا۔
مجھے بخش دو ماں!،،،،، سلطان برکیارق نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ کا بھٹکا ہوا بیٹا آپ کی آغوش میں واپس آگیا ہے ۔
سلطان نے روزینہ کو قتل کر دیا ہے۔۔۔ وزیر اعظم نے کہا ۔۔۔اور اب سلطان اپنی خواہش کا اظہار کر کے آپ کے قدموں میں آ گرے ہیں۔
ماں نے برکیارق کو اٹھا کر اپنے بازوؤں میں لے لیا، اور اس کا منہ چومنے لگی۔
باہر خون بہ رہا تھا، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا، اور باطنی جلتی پر تیل ڈال رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی