🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چوالیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*وہ* گیارہویں صدی عیسوی تھی جب اسلام اپنی تاریخ کے بہت بڑے خطرے میں گھر گیا تھا ،مورخوں نے اسے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا خطرہ کہا ہے، یہ ویسا ہی خطرہ تھا جیسا آج آپ دیکھ رہے ہیں، دنیائے کفر اسلام کو گھیرے میں لے کر حملہ آور ہو چکی ہے، بالکل ایسے ہی حالات حسن بن صباح نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیدا کر دیے تھے، یہود و نصاریٰ اس کے ساتھ مل گئے تھے اور اس کی پوری پوری پشت پناہی کر رہے تھے، اسے جس قسم کی مدد درکار ہوتی تھی وہ پیش کرتے تھے۔
سلطنت سلجوقیہ کے نیچے لاوا پک رہا تھا، بلکہ پک چکا تھا اور اب اس آتش فشاں کو پھٹنا تھا،،،،،،،،، سلطنت سلجوقیہ دراصل اسلامی سلطنت تھی اور یہ اسلام کا مرکز بن گئی تھی ،جس طرح آج دوست اور دشمن کا غدار اور وفادار کا کچھ پتہ نہیں چلتا ایسے ہی اس دور میں چہروں پر ایسے پردے پڑ گئے تھے کہ نیک و بد کی تمیز ختم ہوگئی تھی، سلطنت کا حکمران برکیارق تھا لیکن حکومت اس کی بیوی روزینہ کر رہی تھی۔
برکیارق نے اپنی ماں کو اس کے گھر میں نظر بند کر دیا تو برکیاق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر ماں کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے، تھوڑی ہی دیر بعد دو پہرےدار تلواروں اور برچھیوں سے مسلح آ گئے اور دروازے کے باہر کھڑے ہو گئے۔
یہ کیوں آئے ہیں؟،،،، ماں نے پہرے داروں کے متعلق بیٹوں سے پوچھا ۔
آپ کے سلطان بیٹے نے آپ کو اس گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔۔ اور ہمیں کہا ہے کہ ہم اس کا یہ حکم آپ تک پہنچا دیں۔
ماں پر تو جیسے سکتا طاری ہوگیا ہو، اس کے ہونٹ کانپے مگر زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا، پھر اس کے آنکھوں میں آنسو آئے جو اس کے رخساروں پر بہہ نکلے۔
آپ اتنی زیادہ پریشان کیوں ہوگئی ہیں، ہم بڑے بھائی کے غلام تو نہیں، لیکن مقدس ماں ہمیں اپنی آزادی اور غلامی کے ساتھ کوئی غرض نہیں، ہم اس سلطنت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں یہ سلطنت حسن بن صباح کے قبضے میں آ چکی ہے، حکومت روزینہ کررہی ہے ،ہم دونوں بھائیوں کو سلطنت کی حکمرانی نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اسلام کی حکمرانی کی ضرورت ہے، آپ بالکل خاموش رہیں اب برکیارق کے پاس نہیں جانا، ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہم نے اپنا بڑا بھائی اس سلطنت کی عظمت پر قربان کر دیا ہے ،اب ہمیں اجازت دے کے کفر کی اس یلغار کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں۔
اور مادر محترم !،،،،،سنجر نے کہا۔۔۔ آپ ہمارے لئے صرف دعا کریں، آپ کی دعا ہمارے لئے ایک بڑی ہی مضبوط ڈھال ہوگی، ہمیں لڑنا ہے اور آج کے بعد سلطنت سلجوقیہ کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی۔
میرے مجاہد بچو!،،،،،، ماں نے کہا میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ،تم جیسے میرے بیس بچے ہوتے تو میں اسلام کی اس سلطنت پر قربان کر دیتی، لڑنا ہے تو طریقے سے عقل سے لڑنا ،ابومسلم رازی کو اطلاع دے دو وہ بہت ہی دانش مند آدمی ہے مشورے بھی اچھے دے گا اور ہر طرح کی مدد بھی کرے گا۔
اب آپ نے برکیارق کے سامنے نہیں جانا۔۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔ اپنے آپ پر غصے کو بھی غالب نہیں آنے دینا ،اب جو بھی کرنا ہوگا وہ ہم کریں گے۔
مزمل آفندی آئے ہیں۔۔۔ پہرے دار نے اندر آ کر کہا۔۔۔وہ یہاں اندر نہیں آ سکتے، کیونکہ ہمیں بڑا سخت حکم ملا ہے ،محترم محمد اور محترم سنجر ان سے مل سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کمرے میں،،،،،، میرے لیے کیا حکم ہے؟
تمہارے لئے حکم یہ ہے کہ فوراً اس کمرے میں سے نکل جاؤ ۔۔۔محمد اور سنجر کی ماں بولی۔۔۔ اور کتوں کی طرح باہر کھڑے رہو۔ پہرےدار کھسیانا سا ہوکر محمد کی طرف دیکھنے لگا۔
مزمل آفندی کو دوسرے کمرے میں بٹھاؤ۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ ہم آتے ہیں۔
مادر محترم!،،،،،، پہرے دار نے محمد کی ماں کے آگے جھک کر کہا۔۔۔ ہم حکم کے بندے ہیں، ہمیں آپ کے خلاف حکم دیا جاتا ہے لیکن ہمارے دلوں سے آپ کا احترام نہیں نکالا جاسکتا۔
ماں نے سر جھکالیا ،پہرےدار آداب بجا لا کر باہر نکل گیا ،محمد اور سنجر اسی مکان کے ایک اور کمرے میں چلے گئے، مزمل آفندی اس کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برکیارق اور روزینہ کے پاس سلطنت کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بیٹھا ہوا تھا ،کچھ دیر پہلے برکیارق نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو کچھ حکم دئے تھے، اور پھر اپنی ماں کی نظربندی کا حکم بھی دیا تھا تو روزینہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے وزیراعظم کو بلا کر یہ سارے احکام لکھوا دے اور اسے کہے کہ ان کی تعمیل کی نگرانی وہ کرے۔
آپ ہر مسئلہ اپنے سر لے لیتے ہیں۔۔۔ روزینہ نے کہا تھا۔۔۔ آپ آخر ایک انسان ہیں ساری سلطنت کا درد اپنے دل میں بھر کر آپ کو سکون اور چین کہاں سے مل سکتا ہے، آپ کا روحانی سکون تو آپ کی ماں اور بھائیوں نے مل کر تباہ کردیا ہے، میں تو انہیں کہنا چاہتی تھی کہ آؤ تم سلطانی کی گدی پر بیٹھ جاؤ اور ذرا سلطنت کا کاروبار چلا کر دکھاؤ، یہ آپ کی ہی دیانت داری ہے اور خلوص ہے کہ آپ ان پہاڑوں سے ٹکرا رہے ہیں،،،،،، اتنا پریشان نہ ہوں میں اپنا خون آپ کی رگوں میں ڈال دوں گی۔
برکیارق نے ایک بازو لمبا کر کے روزینہ کی کمر میں ڈالا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ تھوڑی دیر بعد روزینہ نے ہی دربان کو بلا کر کہا تھا کہ وزیراعظم کو فوراً بلا لاؤ، وزیراعظم عبدالرحمن سمیری فوراً پہنچ گیا، برکیارق نے اسے بتایا کہ آج کیا ہوا ہے، اور اس نے کیا احکام جاری کیے ہیں۔
ان امور اور مسائل کی نگرانی آپ نے کرنی ہے ۔۔۔برکیارق نے کہا ۔۔۔ان احکام کی تعمیل میں یہ نہیں دیکھنا کہ یہ خاتون میری ماں ہے یا وہ لڑکے میرے بھائی ہیں، کسی کی حیثیت کا خیال نہیں رکھنا۔
سلطان محترم !،،،،،وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ میں صرف آپ کو جانتا ہوں، اگر آپ مجھے حکم دیں گے کہ اپنے ایک بیٹے کا سر کاٹ کر پیش کروں، تو میں آپ کا یہ حکم بلا حیل وحجت پورا کروں گا۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ سلطان کس قدر تھکےتھکے لگتے ہیں۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ ان کا چہرہ کس طرح اتر گیا ہے، میں نہیں چاہتی کہ یہ اور بولیں، میں آپ کو بتاتی ہوں کہ انہوں نے آج کیا احکام جاری کیے ہیں، یہ تو آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ سالار اوریزی کو قید خانے میں بند کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں محافظوں پر حملہ ہوگیا اور حملہ آور محافظوں کو قتل کرکے سالار اوریزی کو چھڑا کر لے گئے ہیں۔
یہ خبر مجھ تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ سلطان محترم نے کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے، اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو اوریزی اور اس کے حامیوں کو فوری طور پر سزائے موت دیتا،یہ غداری ہے۔
سلطان نے یہ حکم دیا ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ آج سے تیسری رات ان خیموں کو محاصرے میں لے لیا جائے جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں، پھر ایک ایک خیمے میں جا کر انہیں بیدار کیا جائے گا اور ایک جگہ اکٹھا کرکے شناخت کی جائے گی کہ حملہ آور کون کون تھے ،ہمیں یقین ہے کہ اوریزی کو انہیں میں سے چند ایک آدمیوں نے رہا کروایا ہے، اس کاروائی کا باقاعدہ منصوبہ تیار کر لیں اس میں ناکامی نہیں ہونی چاہیے،،،،،، اس کے ساتھ ہی اوریزی کو ڈھونڈنا ہے ،آپ کے پاس جاسوس ہیں اور مخبر بھی ہیں، آپ جانتے ہیں کہ مفرور اور روپوش مجرم کو کس طرح ڈھونڈا جاتا ہے۔
یہ آپ مجھ پر چھوڑیں۔۔۔۔ سلطان عالی مقام!،،،،، وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔میں اس غدار کو زمین کی ساتویں تہہ میں سے بھی نکال لاؤں گا ،آپ آگے فرمائیں۔
میں نے اپنی ماں کو اسکے گھر میں نظر بند کردیا ہے۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔ دراصل میری ماں نے ہی لوگوں کو بھڑکایا تھا کہ اوریزی کو ناحق قید کیا جارہا ہے، وہ میری ماں نہ ہوتی تو میں اسی وقت اسے جلاد کے حوالے کر دیتا، آپ نے یہ نگرانی کرنی ہے کہ میری ماں تک میرے دونوں بھائیوں کے سوا کوئی نہ جائے۔
یہ آپ کے کردار کی بلندی ہے سلطان محترم!،،،، وزیر اعظم سمیری نے کہا۔۔۔ یہ آپ کے ایمان کی پختگی ہے کہ آپ اس قسم کی ماں کا اتنا احترام کر رہے ہیں، گستاخی نہ ہو اور آپ معاف کردیں تو کہوں کہ آپ کی ماں میں وہ جذبہ اور وہ عظمت نہیں جو آپ کے والد مرحوم سلطان ملک شاہ میں تھی، آپ اپنے والد مرحوم کے صحیح جانشین ہیں۔
آپ دانش مند ہیں ۔۔۔برکیارق نے وزیر اعظم سے کہا ۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ میری ماں آپ کا بہت احترام کرتی ہے ،آپ اس کے پاس جائیں اور اسے اور دونوں بھائیوں کو کچھ پند و نصیحت کریں کہ وہ میرے لئے مشکلات پیدا نہ کریں اور میرے ساتھ تعاون کریں ، وہ میری نہیں مانتے۔
بات کچھ اور ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ سلطان برکیارق نے مجھے بے سہارا اور یتیم سمجھ کر میرے ساتھ شادی کرلی ہے، ان کی ماں کو ان کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا، وہ یہ تو سمجھ ہی نہیں رہیں کہ میں سلطان کی بیوی کم لونڈی زیادہ ہوں، میں تو ان کی خدمت کے لیے اور ان کو سکون دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکی ہوں۔
میں سب سمجھتا ہوں ۔۔۔وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ آپ سلطان کے لئے بہت ایثار کر رہی ہیں، سلطان محترم آپ نے جو احکام آج صادرفرمائیں ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں آپ کی والدہ اور بھائیوں کے پاس جا رہا ہوں ،میں جانتا ہوں اور برملا کہوں گا کہ آپ کی والدہ کا دماغ چل گیا ہے، میں سلطنت کی بقا اور سلامتی کا واسطہ دے کر انہیں اور آپ کے بھائیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا ،مجھے امید ہے کہ وہ میری بات سن لیں گے۔
سلطان برکیارق نے وزیراعظم کو جانے کی اجازت دے دی ،وزیراعظم جانے لگا تو اسنے برکیارق کی نظر بچا کر روزینہ کو آنکھ سے اشارہ کیا، وہ باہر نکلا تو روزینہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی گئی، کچھ آگے جا کر دونوں ایک کمرے میں چلے گئے ۔
کوئی خاص بات ہے؟ ۔۔۔روزینہ نے وزیراعظم سے رازدارانہ لہجے میں پوچھا۔
سلطان بہت ہی پریشان ہیں۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں کے آپ ان کا بہت زیادہ اور ہر وقت خیال رکھتی ہیں، لیکن انہیں مزید سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے ،میں آپ کے جذبہ ایثار کی تعریف کر ہی نہیں سکتا پھر بھی میں آپ سے کہتا ہوں کہ سلطان کو اور زیادہ سکون اور سہارے کی ضرورت ہے، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ماں اور بھائیوں نے ان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے ،میں یہی کچھ کرسکتا ہوں کہ سلطان کی ذمہ داریاں خود سنبھال لوں لیکن گھر میں آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے، جو آپ رکھ رہی ہیں،،،،،،، میں نے بس اتنی سی بات کہنی تھی۔
مجھے آپ کے ہی تعاون کی ضرورت ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اور وزیراعظم سمیری کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر چوم لیا۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے مشفق باپ کی طرح روزینہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق سے اس کے احکام اور روزینہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا ،اس وقت مزمل آفندی محمد اور سنجر کے پاس بیٹھا انہی مسائل پر باتیں کر اور سن رہا تھا، اسے خبر ملی تھی کہ سالار اوریزی کو کچھ حملہ آوروں نے رہا کرا لیا ہے تو اسی وقت محمد اور سنجر کے پاس آ گیا تھا، محمد نے اسے سنایا کہ برکیارق نے ماں کو نظربند کردیا ہے۔
برکیارق نہ کہو !،،،،،،،مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ روزینہ کہو ،سلطان برکیارق کی حیثیت اٹل ہے کہ وہ سلطان ہے، فیصلے روزینہ کرتی ہے یہ بات کوئی نئی نہیں، میں بات کرنے آیا ہوں کہ سالار اوریزی کی رہائی ہمارے لئے بہت ہی خوشگوار بات ہے، اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہمارا محاذ مضبوط ہے اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے، مجھے پتا چل جائے کہ سالار اوریزی کہاں روپوش ہے تو میں اس کے پاس چلا جاؤں گا اور اس سے پوچھوں گا کہ ادھر ہم کیا کریں؟
وہ خاصی باتیں کر چکے تھے اور اب یہ سوچ رہے تھے کہ کیا کیا جائے کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کمرے میں داخل ہوا، اسے دیکھ کر مزمل ،محمد اور سنجر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے، وزیراعظم نے تینوں سے ہاتھ ملایا اور سب بیٹھ گئے۔
کہو لڑکوں !،،،،،وزیراعظم سمیری نے پوچھا۔۔۔ کیا باتیں ہورہی ہیں، مزمل تمہیں بڑے عرصے بعد دیکھا ہے ۔
آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہونگے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔۔ سالار اوریزی کی رہائی کی باتیں ہورہی تھیں ،مزمل اسی سلسلے میں آیا ہے، اچھا ہوا آپ بھی آگئے، نہ آتے تو میں آپ کے پاس آ جاتا
سلطان نے طلب فرمایا تھا ۔۔۔وزیراعظم نے کہا ۔ ۔انہوں نے اپنے احکام اور فیصلے مجھے سنائیں جو انہوں نے آج صادر فرمائے ہیں، آپ کی والدہ محترمہ کو نظربند کردیا گیا ہے، یہ تو کہنے والی بات ہی نہیں ،نہ کہنے کی مزید ضرورت ہے کہ روزینہ نے تو سلطان کو بولنے ہی نہیں دیا،،،،،،، ایک حکم مجھے اور ملا ہے وہ یہ کہ میں تم دونوں کو اور آپ کی والدہ کو سمجھاؤں کہ آپ سب سلطان سے تعاون کریں اور ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا نہ کریں۔
آج اپنی ماں کو نظر بند کیا ہے ۔۔۔۔مزمل نے کہا ۔۔۔کچھ دنوں بعد دونوں بھائیوں کو سزائے موت دے دے گا۔
وہاں تک نوبت نہیں پہنچنےدی جائے گی۔۔۔ وزیر اعظم نے کہا۔۔۔میں زندہ اور سلامت موجود ہوں، میں سلطان اور سلطانہ کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہوں، اگر تم لوگ مجھے ان کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی باتیں سنتے دیکھو اور میں وہاں جو غلامانہ حرکتیں کرتا ہوں تم دیکھ لو تو میرے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہ کرو، تم کہو گے کہ یہ تو کوئی خاندانی غلام ہے، لیکن میں نے دونوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے، روزینہ تو میری مرید بن گئی ہے، اب یہ سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، اوریزی کی رہائی ہمارے محاذ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
میں صرف ایک بات جانتا ہوں۔۔۔مزمل نے کہا۔۔۔ اوریزی کہاں روپوش ہے؟ میں اس تک پہنچنا چاہتا ہوں اس سے ہدایت لینی ہے کہ میں کیا کروں۔
آج رات کو نہیں تو کل تک مجھے یہ پتا چل جائے گا۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔۔ تم نے اسے کوئی ہدایت نہیں لینی، نہ اس کے پاس جانا ہے، سلطنت کے سرکاری مخبر اسے ڈھونڈ رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے وہاں تک پہنچ جائیں، تم لوگوں کو اب جو ہدایات ملیں گی وہ مجھ سے ملیں گی۔
بات یہ ہے محترم!،،،،، محمد نے کہا۔۔۔ مزمل بہت ہی بے تاب ہو رہا ہے کہ باطنیوں کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی میں شامل ہو۔
بے تاب نہیں ہونا مزمل !،،،،،وزیراعظم نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنا ہے اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی شدید ضرورت ہے، میری ایک بات غور سے سن لو، تم ابھی ان جنگوں کو ذہن میں لئے لئے پھرتے ہو جو ہمارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے لڑی تھیں اور پھر حضرت خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص اور ان جیسے سپہ سالاروں نے لڑی تھی، ہمارے دلوں میں وہ عسکری روایات تو زندہ موجود ہیں، لیکن اب جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے وہ ان غزوات اور بعد کی لڑائیوں سے بالکل ہی مختلف ہے، ہماری روایات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ میدانوں میں کیا ہے ،ایک ہزار کو تین سو تیرہ نے اور سوا لاکھ کے لشکر کو صرف چالیس ہزار کے لشکر نے شکست دی تھی، انہوں نے رومیوں اور فارسیوں کو ہر میدان میں شکست دی، وہ آمنے سامنے کی لڑائیاں تھی، لیکن اب ہمارا پالا جس دشمن کے ساتھ پڑا ہے وہ میدان میں نہیں آرہا، بلکہ زمین کے نیچے سے وار کر رہا ہے، مسلمان اس قسم کی جنگ سے واقف نہیں ،یہی وجہ ہے کہ آج یہ سلطنت ایک بھیانک خطرے میں پڑ گئی ہے، شاید تم جانتے ہو گے کہ اس شہر میں بےشمار باطنی پہنچ چکے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے، ان میں حسن بن صباح کے فدائی بھی ہیں جو صرف یہ جانتے ہیں کہ قتل کر کے قتل ہوجانا ہے، ہمیں اب زمین کے اوپر بھی لڑنا ہے اور زمین کے نیچے بھی۔
یہی تو میں سوچ رہا ہوں۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ جس طرح حسن بن صباح نے روزینہ کو بڑی ہی حسین اور زہریلی ناگن بناکر سلطنت کی بالائی سطح پر پہنچا دیا ہے، اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ ایسی ہی ایک ناگن وہاں بھیجی جائے جو روزینہ کا زہر مار ڈالے۔
ایسی ناگن کہاں سے لاؤ گے؟،،،،،، وزیراعظم نے پوچھا۔
وہ میرے پاس ہے۔۔۔ مزمل نے جواب دیا۔۔۔اس کا نام شمونہ ہے، محمد اور سنجر اسے اچھی طرح جانتے ہیں، بڑا اچھا اتفاق ہے کہ برکیارق نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ حسن بن صباح کی تربیت یافتہ لڑکی ہے اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حسن بن صباح اور باطنیوں کے خلاف دل میں انتقام کی آگ لیے پھرتی ہے۔
میں اسے جانتا ہوں۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ اسے دیکھا بھی ہے ،شکل و صورت اور جسم کی کشش کے لحاظ سے وہ موزوں لڑکی ہے، لیکن ایسی کاروائیاں کرنے سے پہلے ہمیں بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔
آپ نے اسے صرف دیکھا ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ اسکے انتقامی جذبے کا اندازہ اس سے کریں کہ اس کے دل میں میری محبت معجزن ہے، اور وہ فیصلہ کرچکی ہے کہ شادی میرے ساتھ ہی کرے گی، اس کی ماں بھی ہمارے ساتھ ہے، لیکن شمونہ کہتی ہے کہ میں جب تک حسن بن صباح پرانتقامی وار نہ کر لوں شادی نہیں کروں گی، اگر آپ کہیں تو وہ بڑے آرام سے روزینہ کو زہر دے کر یا ویسے کسی ہتھیار سے اسے قتل بھی کر آئے گی۔
میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اسے استعمال کریں گے لیکن سوچ سمجھ کر۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ابھی میں نے ایک خفیہ کاروائی کرنی ہے، وہ تم تینوں اچھی طرح سن لو، آج سے تیسری رات ان خیموں کو فوج محاصرے میں لے گی جن میں برطرف کیے جانے والے فوجی رہتے ہیں، سلطان نے مجھے بتایا ہے کہ ان خیموں کی بستی کو محاصرے میں لے کر تمام سابق فوجیوں کو جگایا اور اکٹھا کیا جائے گا ،اوریزی کو قید خانے لے جانے والے محافظوں میں سے جو ایک بچ گیا ہے وہ ان آدمیوں میں سے حملہ آوروں کو شناخت کرے گا ،بعض کو سپہ سالار حجازی شناخت کرے گا ،صاف ظاہر ہے جو پکڑے جائیں گے انہیں اگلے ہی روز سزائے موت دے دی جائے گی، میں نے یہ بندوبست کرنا ہے کہ کوئی ایسا آدمی نہ پکڑا جائے۔
اس کاروائی میں ایک خطرہ اور بھی ہے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔سپہ سالار حجازی اتنا بدطینت آدمی ہے کہ وہ ویسے ہی پندرہ بیس آدمیوں کو الگ کر کے کہہ دے گا کہ یہ تھے وہ حملہ آور اور اگلے روز ان کے سر کٹوا دے گا،،،،،،،، ہمارے پاس ان لوگوں کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں۔
میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا۔۔۔ وزیر اعظم نے کہا۔۔۔اگر میرا انتظام ناکام رہا تو میں ایسی خفیہ کاروائی کروں گا کہ جب ان لوگوں کو سزائے موت کے لئے لے جائیں گے تو انہیں رہا کرالیا جائےگا،،،،،،اصل بات یہ ہے کہ اب خون خرابہ ہو کر رہے گا، میرے آدمی فوج میں بھی موجود ہیں، تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ جاسوسی اور مخبری کا میں نے اپنا ایک ذاتی نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔
ان حالات اور واقعات کی پوری اطلاع رے پہنچنی چاہیے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ابو مسلم رازی نے مجھے خاص طور پر کہا تھا کہ حالات میں کوئی ذرا سی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے انہیں فوراً اطلاع ملنی چاہیے۔
ہاں یہ بہت ہی ضروری ہے۔۔۔ وزیر اعظم نے کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ مزمل ابھی روانہ ہوجائے، میں اپنا آدمی اتنی دور نہیں بھیجوں گا، میرے خاص اور خفیہ آدمی دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔
میں ابھی روانہ ہو جاتا ہوں ۔۔۔مزمل نے کہا۔۔۔ حالات اور واقعات مجھے معلوم ہیں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہاں اور کیا بات کرنی ہے، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ فوجی نہتّے ہیں جنہیں فوج سے برطرف کیا جا رہا ہے ،ان کے لیے ہتھیاروں اور گھوڑوں کا انتظام کرنا ہے، ہماری یہ ضرورت ابومسلم رازی ہی پوری کر سکتے ہیں۔
وہ تو ہر طرح کی مدد دینے کا وعدہ کر چکے ہیں ۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ اپنی پوری فوج یہاں بھیج دیں گے۔
پھر میں چلتا ہوں۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔آپ شمونہ پرغورکرنا ،وہ کسی طرح سلطان اور روزینہ تک پہنچ جائے تو اور کوئی شدید کاروائی کرے نہ کرے جاسوسی اور مخبری تو کرے گی ہی، یہ بھی تو ہماری ضرورت ہے۔
تم واپس آجاؤ تو یہ بات بھی کر لیں گے۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ یہ کام کرنا ہی پڑے گا ،تم جاؤ تیار ہو کر روانہ ہو جاؤ، خالی ہاتھ نہ چل پڑنا، تمہارے پاس دو یا تین ہتھیار ہونے چاہیے اور گھوڑا کمزور نہ ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسی رات کا واقعہ ہے، برطرف کیے جانے والے فوجیوں کے خیموں سے ذرا ہی پرے تین آدمی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے، کچھ دیر بعد ایک آدمی اٹھا اور خراماں خراماں کچھ دور تک چلا گیا، وہ ایک جگہ رکا پھر واپس ہوا اور اپنے ساتھیوں میں جا بیٹھا، اس کیمپ میں خیموں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی، بارہ چودہ ہزار آدمی رہتے تھے ہر خیمے میں پانچ چھے آدمیوں کی رہائش تھی۔
آدھی رات کے کچھ وقت بعد کسی خیمے میں سے ایک آدمی اٹھا اور خیموں کی بستی میں سے باہر نکل گیا ،وہ پیشاب کرنے گیا تھا، وہ ایک جگہ رکا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک آدمی نے جھپٹ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور پیشتر اس کے کہ اسے پتہ چلتا کہ یہ کون ہے ایک خنجر اس کے سینے میں اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے، یہ خنجر وہاں سے نکلا اور ایک بار پھر اس کے سینے میں داخل ہوگیا، اس کے منہ پر ہاتھ رکھا گیا تھا اس لئے اس کی آواز نہیں نکلی تھی وہ گرا اور مر گیا۔
وہ تینوں آدمی اس کی لاش وہیں چھوڑ کر ایک اور طرف چلے گئے، ایک اور جگہ چھپ کر بیٹھ گئے۔
آج رات کم از کم تین آدمی مارنے ہیں۔۔۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ انہیں خاصی دیر انتظار کرنا پڑا ،پھر ایک اور آدمی خیمے میں سے باہر نکلتا نظر آیا، یہ تینوں قاتل دبے پاؤں سرکے ہوئے اور نہایت آہستہ آہستہ چلتے اس آدمی کے عقب میں پہنچ گئے، اس آدمی کو بھی انہوں نے اسی طرح قتل کیا اور اس کی لاش وہیں پھینک کر دوسری طرف جھاڑیوں کے پیچھے جا کر بیٹھ گئے ،کسی اوٹ میں بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ رات تاریک تھی۔
اس طرح صبح کاذب تک انہوں نے تیسرے آدمی کو بھی قتل کیا اور وہاں سے چلے گئے، انہوں نے آبادی میں جاکر ایک دروازے پر دستک دی اندر سے بلی کی میاؤں کی آواز آئی، باہر کھڑے تین میں سے ایک آدمی نے اسی طرح بلی کی آواز میاؤں کیا اور دروازہ کھل گیا ،تینوں اندر گئے اور دروازہ پھر بند ہوگیا، دروازہ کھولنے والا انہیں ایک کمرے میں لے گیا اور دیا جلایا۔
تمہارے کپڑے بتا رہے ہیں کہ تم کام کر آئے ہو ۔۔۔اس آدمی نے کہا اور پوچھا ۔۔۔کتنے ؟
تین ۔۔۔ایک نے جواب دیا۔۔۔۔ آج رات اتنے ہی کافی ہیں۔
ہاں امام کے نام پر آج کی رات اتنے ہی کافی ہیں۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔۔باقی قتل و غارت وہ خود ہی آپس میں کرلیں گے،،،،، اب تم سو جاؤ اگلا کام کرنے والے جلدی اٹھ جائیں گے، انہیں میں اطلاع دے دوں گا ۔
یہ اس طبیب کا گھر تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے ہاتھ میں شفا ہے، اسی نے اپنے آدمیوں کو یہ حکم سنایا تھا کہ الموت سے امام کا حکم آیا ہے کہ مرو کو خون میں ڈبو دو، ہر روز تین چار آدمی قتل ہونے چاہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح خیموں کی اس بستی میں جب یہ خبر پہنچی کہ ان کے تین ساتھی باہر مرے پڑے ہیں اور انہیں خنجر لگے ہیں تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ،ہزارہا سابق فوجی اکٹھے ہوگئے، راہ جاتے لوگ بھی وہیں رک گئے ،شہر میں خبر پہنچی تو لوگ ادھر ہی کو اٹھ دوڑے۔
ایک آواز تھی کہ فوجیوں نے یعنی ان فوجیوں نے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا تھا اپنے عہدے دار کے خون کا بدلہ لیا ہے، یہ آواز ہوا کے تیز جھونکے کی طرح ہر طرف پھیل گئی اور ذرا سی دیر میں یہی بات ہر کسی کی زبان پر تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین بندے مار ڈالے ہیں۔
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ فوج میں رہنے والے ایک عہدے دار کی لاش ملی تھی اور یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ فوج میں سے نکالے جانے والے دو آدمیوں نے اسے قتل کیا ہے۔ سپہ سالار حجازی نے ویسے ہی کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر سابق فوجیوں کے دو آدمی پکڑ کر جلادوں کے حوالے کر دیے تھے، اس سے ایسا فساد اٹھا جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا۔
سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو اطلاع ملی تو وہ اپنے محافظوں کو ساتھ لئے گھوڑا دوڑاتا پہنچا ،خیموں میں رہنے والے سابق فوجیوں نے اسے گھیر لیا ،اس قدر شوروغل اور احتجاج کا ایسا ہنگامہ کے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے، سپہ سالار حجازی نے بڑی مشکل سے سب کو خاموش کروایا اور کہا کہ کوئی ایک ذمہ دار آدمی بات کرے۔
میں بات کرتا ہوں۔۔۔ ایک نائب سالار سب کی نمائندگی میں بولا، اسے بھی فوج سے برطرف کیا جارہا تھا اور وہ انہیں خیموں میں رہتا تھا، اس نے کہا ۔۔۔حاضر فوجی کا ایک عہدیدار قتل ہوگیا تو ہمارے دو آدمیوں کو ویسے ہی پکڑ لیا گیا تھا، اب ہمارے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں، حاضر فوجیوں کے چھ آدمی پکڑ کر ہمارے سامنے جلادوں کے حوالے کئے جائیں۔
سپہ سالار حجازی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ وہ سلطان کے پاس جا رہا ہے اور وہاں سے حکم لے کر واپس آئے گا
حجازی سلطان برکیارق کے پاس جانے کی بجائے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ پہلے ادھر سے ایک آدمی قتل ہوا تھا اور اب ادھر سے خیموں میں رہنے والے تین آدمی قتل ہوگئے ہیں، وزیراعظم نے سپہ سالار حجازی کو ساتھ لیا اور دونوں سلطان برکیارق کے پاس چلے گئے، اسے نئی ورادات سنائی۔
سلطان عالی مقام !،،،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا ۔۔۔میں تو یہ سمجھا ہوں کہ حاضر اور برطرف فوجیوں میں دشمنی پیدا ہوگئی ہے، میرا مشورہ تو یہ ہے کہ بر طرف شدہ فوجیوں کو فارغ کر کے گھروں کو بھیج دیا جائے۔
ایسا ہرگز نہ کرنا۔۔۔ وزیراعظم نے کہا۔۔۔ یہاں وہ خیمے میں پڑے ہیں ،انہیں فارغ کیا گیا تو یہ ہتھیار اٹھا لیں گے اور بڑا ہنگامہ ہوگا۔
وزیراعظم سمیری نے یہ جو مشورہ دیا اس سے اس کا مقصد کچھ اور تھا ،اس کا جو منصوبہ تھا اس کے مطابق وہ ان فوجیوں کو یہیں رکھنا چاہتا تھا ،یہ اس کی خفیہ فوج تھی جسے اس نے خانہ جنگی کی صورت میں سلطان کی فوج کے خلاف استعمال کرنا تھا، اس نے سلطان برکیارق سے منوالیا کہ انہیں ابھی یہاں سے جانے نہیں دیا جائے گا۔
ادھر خیموں میں رہنے والے سابق فوجی للکار رہے تھے کہ وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے، شہر میں بھی یہی افواہ گردش کررہی تھی کہ حاضر فوجیوں نے سابق فوجیوں کے تین آدمی قتل کر دیے ہیں، کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ غلط ہے ،بعض جگہوں پر شہری ایک دوسرے سے الجھ بھی پڑے۔
ابھی کسی کے ذہن میں شک تک نہیں آیا تھا کہ یہ آگ لگانے والے باہر کے لوگ ہیں اور وہ ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ہوچکی ہے، یہ افواہ حسن بن صباح کے آدمی پھیلا رہے تھے۔
سپہ سالار حجازی کے ساتھ وزیراعظم بھی خیموں کی بستی میں گیا اور اس نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو ٹھنڈا کیا اور کہا کہ قاتل بچ کر نہیں جائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا تھا، اس کی مقبولیت بڑی تیزی سے پھیلتی جارہی تھی، اس تبلیغ کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ کسی قبیلے کے سردار کو حوروں جیسی حسین لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے اپنے دامِ کفر میں پھانس لیتا تھا، پھر اسے یہ تاثر دیتا کہ اسے اسلام سے خارج نہیں کرایا جارہا بلکہ اسلام کے دائرے میں لایا جارہا ہے، حسن بن صباح نے جو دائرہ بنا رکھا تھا اسے وہ اسلام ہی کہتا تھا، لیکن اس میں ہر گناہ کی کھلی اجازت تھی ،قبیلے کے سردار کو وہ ذہنی اور روحانی طور پر اپنی بڑی ہی خوبصورت اور چمکتی ہوئی زنجیروں میں جکڑ لیتا ،اور پھر اس سے اس قبیلے کو حکم دلواتا کہ وہ سب باطنی عقیدے کے قائل ہو جائیں، اور حسن بن صباح کو اپنا امام یا نبی مان لیں۔
اگر کسی قبیلے کے سردار نے اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اسے حسن بن صباح نے اپنے فدائین کے ہاتھوں قتل کروا ڈالا ،اس قبیلے کو اپنے شعبدے دکھائے کہ لوگوں نے اس کی امامت کو تسلیم کرلیا ،اس کے ابلیسی عقائد کے فروغ اور مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا راستہ روکنے والا کوئی نہ تھا ،اسے صرف سلطنت سلجوقیہ کی طرف سے خطرہ تھا لیکن اسکے ابلیسی دماغ نے ایسی زمین دوز چال چلی کہ اس سلطنت کے حکمران طبقے کو آپس میں ہی ٹکرا دیا اور وہاں خانہ جنگی کا بیج بو ڈالا جو پھوٹ کر باہر نکلا اور ہرا بھرا ہو کر پھیل رہا تھا، پھر وہ رات آئی جس رات فوج نے برطرف کئے ہوئے فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لینا اور خیموں میں سوئے ہوئے آدمیوں کو جگا کر ایک جگہ کھڑا کرنا تھا، آدھی رات کا وقت ہوگا جب وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور سپہ سالار ابوجعفر حجازی فوجیوں کی بارکوں میں پہنچ گئے، فوج کو بتا دیا گیا تھا کہ رات کو خیموں کے پورے علاقے کو محاصرے میں لینا ہے، فوجیوں کو بڑی سختی سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ باہر کے کسی بھی شخص کو نہ بتائیں کہ آج رات کیا ہونے والا ہے۔
فوج تیار ہو کر باہر ایک ترتیب میں کھڑی تھی، پہلے وزیراعظم سمیری نے ان فوجیوں سے خطاب کیا، اس نے کہا کہ عہدیدار کے قاتل اور اوریزی کو محافظوں سے رہائی دلانے والے انہیں آدمیوں میں سے ہیں، انہیں شناخت کرنا ہوگا، پھر سپہ سالار حجازی نے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے چند ایک باتیں کیں۔
فوج چل پڑی، اس فوج کے پاس تلواریں بھی تھیں اور برچھیاں بھی ،بعض سپاہیوں کے پاس مشعلیں بھی تھیں جنہیں حکم ملنے پر جلانا تھا، ان فوجیوں کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ یہ کوئی حملہ نہیں بلکہ اس محاصرے کا مطلب کچھ اور ہے، اس لئے کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے ،فوجی خود بھی جانتے تھے کہ جنہیں وہ محاصرے میں لینے جا رہے ہیں وہ نہتّے ہیں اور برچھیوں اور تلواروں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔
یہ فوجی پیدل جا رہے تھے ان کی بارکیں شہر کے ایک طرف تھیں اور خیمے شہر کے دوسری طرف اور شہر سے ہٹ کر کے، فوجیوں نے مکمل خاموشی اختیار کرکے جانا تھا تاکہ جنہیں محاصرے میں لینا تھا وہ بیدار نہ ہو جائیں، سپہ سالار حجازی ان کے ساتھ تھا وزیراعظم پیچھے رک گیا تھا اس نے اس کارروائی کی نگرانی کرنی تھی۔
فوج خیمہ گاہ سے کچھ دیر دورہی محاصرے کی ترتیب میں ہوگئی اور پھر اس نے خیمہ گاہ کی طرف پیش قدمی شروع کی، خیمہ گاہ کے قریب پہنچ کر جس طرح انہیں پہلے بتا دیا گیا تھا، فوج رک گئی۔
صرف ایک مشعل بردار سپاہی کو کہا گیا کہ وہ مشعل جلا لے، یہ سپاہی سپہ سالار حجازی کے ساتھ تھا ،حجازی نے ہی اسے مشعل جلانے کو کہا تھا یہ ایک اشارہ تھا کہ جس جس سپاہی کے پاس مشعل ہے وہ جلا لیں، دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں مشعلیں جل اٹھیں اور رات دن میں تبدیل ہوگئی، خیموں میں سابق فوجی اتنی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ کسی ایک کی بھی آنکھ نہ کھلی، اگلا اشارہ ملا تو فوجی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے انہیں تلواریں نیاموں میں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، نہ ہی برچھیاں لڑائی کے انداز میں تان کر آگے بڑھنا تھا، کیوں کہ یہ حملہ نہیں تھا۔
پہلے خیمے کے پردے اٹھائے گئے اور مشعل کی روشنی میں اندر دیکھا گیا تو وہاں کوئی ایک بھی آدمی نہیں تھا ،جس خیمے کو بھی دیکھا گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
اچانک عقب سے دوڑتے قدموں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں جیسے طوفان آ رہا ہو اور اس کے آگے نہ جانے کیا کیا اڑتا اور بہتا رہا ہو، پیشتر اس کے کہ فوجی سمجھ پاتے کہ یہ کیا آ رہا ہے ان پر حملہ ہو گیا۔
حملہ اس نوعیت کا تھا کہ ایک ایک فوجی کو ایک ایک دو دو آدمیوں نے پیچھے سے پکڑ لیا کسی نے کسی فوجی کی تلوار نکال لی اور کسی نے مشعل بردار سپاہی سے مشعل چھین لی، یہ بڑی مشعلیں تھی جو ڈنڈوں کے اوپر کپڑے باندھ کر اور اس پر تیل ڈال کر چلائی گئی تھیں، فوجی جو ذرا سنبھل گئے یا بروقت چوکنے ہو گئے تھے انہوں نے تلواریں نکال لیں اور جن کی تلواریں چھینی گئی تھیں انہوں نے لڑائی کے انداز میں برچھیاں تان لیں، اس کے بعد بڑی ہی خونریز جھڑپ ہوئی بعض فوجیوں کو ان سے چھینی ہوئی مشعلوں سے ہی جلا دیا گیا، ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی تو وہ ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگے اور جل کر گرتے رہے۔
سپہ سالار حجازی حیران اور پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہوگیا ہے، اس کے لئے اس صورتحال پر قابو پانا ناممکن تھا ،وہ بارکوں کی طرف بھاگا اس کے دو محافظ اس کے ساتھ تھے، دوڑتے دوڑتے وہ بارکوں میں پہنچا اور حکم دیا کے فوج تیار ہو کر فوراً خیمہ گاہ میں پہنچے۔
یہ حکم دے کر وہ اس جگہ پہنچا جہاں وزیراعظم نے اسے کہا تھا کہ وہ موجود رہے گا، اس نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہاں تو کچھ اور ہی ہوگیا ہے، خیمہ خالی تھے اور فوج پر پیچھے سے حملہ ہوگیا ،حجازی نے یہ بھی بتایا کہ وہ مزید فوج بھیج رہا ہے۔
میں جان گیا ہوں۔۔۔ وزیراعظم سمیری نے کہا۔۔۔ ہماری یہ کاروائی راز میں نہیں رہ سکی کسی مخبر نے قبل ازوقت خیمہ گاہ میں یہ راز پہنچا دیا ہوگا۔
وزیراعظم سپہ سالار حجازی کے ساتھ خیمہ گاہ کی طرف چلا گیا ،خیمہ گاہ سے شعلے اٹھ رہے تھے جن کی روشنی شہر میں آرہی تھی ،بعض شہری جاگ اٹھے اور چھتوں پر جا کر دیکھنے لگے کہ یہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے، سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے دور سے ہی خیمہ گاہ دیکھ لی وہاں تو باقاعدہ میدان جنگ جیسی لڑائی ہو رہی تھی اور شعلے جو اٹھ رہے تھے یہ جلتے ہوئے خیموں کے تھے، مشعلیں بھی لڑائی میں ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہو رہی تھیں، بعض سپاہیوں کے ہاتھوں سے مشعلیں خیموں کے اوپر یا اندر گری تو چند ایک خیمے جلنے لگے۔
ادھر سے مزید فوج برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سرپٹ دوڑتی آرہی تھی، جب یہ فوج میدان جنگ میں پہنچی تو وہاں لڑائی ختم ہو چکی تھی، صرف یہ نظر آیا کہ کچھ آدمی جنگل کی طرف دوڑے جا رہے تھے اور ذرا آگے جا کر غائب ہوگئے، کسی فوجی نے ان کا تعاقب نہ کیا
سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم نے خیمہ گاہ میں جا کر دیکھا وہاں فوج کے زخمی تڑپ رہے تھے اور ان کے ساتھ لاشیں بھی پڑی تھیں، یہ لاشیں فوجیوں کی بھی تھیں اور ان کی بھی جو فوجی نہیں تھی، کچھ دیر بعد یہ راز کھلا کی یہ وہ فوجی تھے جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا اور وہ ان خیموں میں رہتے تھے۔
تاریخ کے مطابق یہ راز صرف وزیراعظم سمیری کو معلوم تھا کہ یہ ہوا کیا تھا ،حملہ تو فوج کرنے گئی تھی لیکن حملہ اس پر ہوگیا، اس لڑائی کے پیچھے وزیراعظم کا اپنا ہاتھ تھا ،جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے وہ اس دور کے دستاویزی حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ برطرف کیے جانے والے فوجیوں میں اوریزی کے علاوہ ایک اور سالار اور ایک نائب سالار اور چند ایک تجربے کار عہدیدار تھے، وزیراعظم سمیری نے انہیں وقت سے خاصہ پہلے اپنے مخبروں کے ذریعے بتا دیا تھا کہ آج رات آدھی رات کے وقت انہیں محاصرے میں لے کر جگایا جائے گا اور ان میں سے ان آدمیوں کو شناخت کیا جائے گا جنہوں نے اوریزی کو رہا کرایا تھا۔
وزیراعظم سمیری نے انہیں یہ طریقہ بتایا تھا کہ جب سارا شہر سو جائے تو یہ تمام برطرف شدہ فوجی ایک ایک دو دو کر کے خیمہ گاہ سے نکل جائیں اور قریب ہی کہیں جا کر چھپ جائیں، ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اتنے تھوڑے سے وقت میں پندرہ سولہ ہزار تلواریں فراہم نہیں کی جاسکتی تھیں، انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج اپنی تلوار نیاموں میں رکھے گی اور فوج کا ارادہ لڑائی کا نہیں ہوگا، سابق فوجیوں کو یہ کہا گیا کہ وہ اس وقت خالی ہاتھ ان فوجیوں پر حملہ کریں جب وہ خیموں میں رہنے والوں کو جگانے جائیں اور ان کی نیاموں سے تلوار کھینچ لیں اور مشعلیں بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیں، اور پھر یہ نہ دیکھیں کہ فوج کا ارادہ لڑنے کا تھا یا نہیں، انہیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ وہ لڑائی کے بعد خیمہ گاہ میں نہ آئیں دور پیچھے جنگلوں میں اور پہاڑی علاقوں میں چلے جائیں، یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انہیں اکٹھا کر لیا جائے گا اور پھر بتایا جائے گا کہ وہ کیا کریں گے۔
وزیراعظم کا یہ منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا ،جب فوج کی کمک پہنچی تو وہاں زخمیوں اور لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، یا جلتے ہوئے خیمے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فوج کی کمک جو لڑنے کے لیے آئی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے میں مصروف ہوگئی، سپہ سالار حجازی بار بار وزیراعظم سمیری سے پوچھتا تھا کہ آخر یہ ہوا کیسے؟ وزیراعظم ہر بار گردن کو ذرا سا خم دے کر سر کے اشارے سے یہ تاثر دیتا کہ وہ حیران ہے۔
صبح سویرے سویرے سپہ سالار حجازی اور وزیراعظم سمیری سلطان برکیارق کے محل کے باہر اس کے جاگنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، بہت دیر بعد انہیں اندر بلایا گیا،وہ جب اندر گئے تو سلطان برکیارق ابھی تک بستر میں تھا ۔
رات کا کام ٹھیک ہوگیا؟،،،،، سلطان نے پوچھا۔۔۔ کچھ آدمی پہچانے گئے یا نہیں؟
وہاں تو معاملہ ہی کچھ اور بن گیا ہے سلطان محترم!،،،،،، وزیر اعظم سمیری نے کہا۔۔۔فوج گئی تو تمام خیمے خالی تھے، فوج خیموں کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ہر طرف سے فوج پر حملہ ہوگیا۔
سلطان برکیارق جو غنودگی کی کیفیت میں بول رہا تھا بڑی تیزی سے اٹھ بیٹھا اور آنکھیں پھاڑے ہوئے سپہ سالار حجازی اور وزیر اعظم کو دیکھنے لگا ۔
کیا کہہ رہے ہو تم ؟،،،،،،سلطان برکیارق نے حیرت زدہ سرگوشی سے پوچھا،،،،،، یا شاید میں ابھی تک نیند میں ہوں اور تمہاری بات سمجھا نہیں۔
نہیں سلطان محترم !،،،،،وزیر اعظم نے کہا۔۔۔ آپ ٹھیک سن رہے ہیں ،اگر زحمت نہ ہو تو خیمہ گاہ میں چل کر دیکھیں وہاں آپ کو خون اور جلے ہوئے خیموں کی راکھ نظر آئے گی، زخمیوں کی مرہم پٹی ابھی تک ہو رہی ہے۔
لیکن یہ سب ہوا کیسے ؟،،،،،سلطان برکیارق نے کہا ۔۔۔میرے اس حکم سے آپ دونوں واقف تھے ،میں یہ سمجھا ہوں کہ خیموں میں رہنے والوں کو قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ میں نے کیا حکم دیا ہے، انہوں نے یہ جوابی وار کیا کہ محاصرے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے اور فوج پر پیچھے سے حملہ کر دیا، مجھے یہ بتائیں کہ انھیں یہ اطلاع کس نے دی تھی؟
سلطان محترم !،،،،،،وزیر اعظم نے کہا۔۔۔ایک انسان اور ہے جسے آپ کے اس حکم کا علم تھا،،،،،آپ کی بیگم محترمہ،،،،،لیکن میں ان پر شک کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اور نہ ہی اس پر شک کیا جا سکتا ہے۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔
یہ کارستانی اوریزی کی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے کہا ۔
لیکن اس تک یہ خبر کس طرح قبل از وقت پہنچی؟،،،،،، سلطان نے غصے سے کہا ۔۔۔مجھے اس سوال کا جواب چاہیے۔
اس سوال کا جواب ملنا ناممکن تھا، روزینہ بھی وہاں موجود تھی وہ سلطان برکیارق کی نسبت زیادہ پریشانی کا اظہار کر رہی تھی، لیکن دلی طور پر وہ خوش اور مطمئن تھی کہ جو صورت حال حسن بن صباح پیدا کروانا چاہتا تھا وہ پیدا ہوگئی ہے، اس نے سلطان سے کہا کہ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے حکم کی بھنک کس طرح خیمہ گاہ میں پہنچ گئی تھی، بیکار ہے اور وقت ضائع ہورہا ہے، اب کرنے والا کام یہ ہے کہ فوج کو باہر نکال کر ان لوگوں کے تعاقب اور تلاش میں بھیجا جائے، وہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان پر زوردار حملہ کرکے ان کو بالکل ہی ختم کردیا جائے۔
ہمیں یہی کارروائی کرنی چاہئے۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔ اگر ہم یہاں سوچتے رہے اور باتیں کرتے رہے تو وہ لوگ بکھر کر ادھر ادھر ہو جائیں گے اور اپنے اپنے گھروں کو جا پہنچیں گے، پھر ہم انہیں کہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے، انہیں فوراً پکڑ کر سزا دینی چاہیے۔
ہاں ہمیں یہی کرنا چاہیے۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ حجازی تم فوراً جاؤ اور یہ کاروائی شروع کردو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر میں بھی خبر پھیل گئی تھی کہ رات سابق فوجیوں کی خیمہ گاہ میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے، طبیب نے جو حسن بن صباح کے اس مشن کو چلا رہا تھا اپنے آدمیوں کو پہلے ہدایات دے دی تھی، ان کے مطابق ان باطنیوں نے شہر میں یہ افواہ پھیلا دی کہ رات فوج نے نہتے لوگوں پر اس وقت حملہ کیا ہے جب وہ سوئے ہوئے تھے، اس افواہ نے پورا پورا کام کیا اور لوگوں میں سلطان کی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی ،اور ہر کوئی سلطان کو اور فوج کو برا بھلا کہہ رھاتھا۔
لوگ خیمہ گاہ تک پہنچے تو انہیں وہاں جلے ہوئے خیمے نظر آئے اور ہر طرف خون بکھرا اور جمع ہوا دیکھا ،زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لے گئے تھے۔
وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ شہر میں جو افواہیں پھیل گئیں ہیں وہ حسن بن صباح کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں، وزیراعظم نے اپنے خفیہ آدمیوں کے ذریعے بھی شہریوں کو فوج اور سلطان کے خلاف کرنے کے لیے ایسی ہی افواہیں پھیلا دیں، ان سے باطنیوں کے محاذ کو تقویت ملی، وزیراعظم جو کچھ زیر زمین ہوکر کر رہا تھا وہ اسلام اور سلطان کے مفاد کے لئے ضروری تھا، اس کی کوشش یہ تھی کہ سلطان برکیارق سلطانی چھوڑ دے اور اس کی جگہ محمد کو سلطان بنایا جائے تاکہ روزینہ کی صورت میں سلطنت پر جو آسیب طاری ہوگیا ہے وہ اتر جائے ،وزیراعظم کو اتنا ہی معلوم تھا کہ سلطان برکیارق پر صرف روزینہ غالب ہے، یہ حسن بن صباح کی ٹریننگ کا کمال تھا کہ اس کے فدائی اور دیگر پیروکار کسی کو اپنی موجودگی اور تخریبی سرگرمیوں کا پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے پاس پہنچ گیا تھا، اور اسے مرو کے حالات بتا دیے تھے۔
میں پوری طرح تیارہوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔یہ تو میرے پاس اپنی کچھ فوج ہے جو کافی تو نہیں لیکن تجربے کار اور جذبے والی ہے ،اس کے علاوہ میں نے شہریوں کو تیار کر رکھا ہے، جونہی ضرورت محسوس ہوئی یہاں سے اچھا خاصا لشکر روانہ کر دوں گا اور اگر میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں بھی آ جاؤں گا۔
انہیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ پیچھے مرو میں کیسا خونریز واقعہ ہوگیا ہے، مزمل اسی روز وہاں سے چل پڑا ،ابومسلم رازی نے اسے محمد اور وزیراعظم سمیری کے لیے ایک پیغام اور کچھ ہدایات دی تھیں۔
مزمل جب واپس آ رہا تھا تو تقریباً نصف راستے میں اسے ایک اور آدمی ملا جس کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم تھے، اس نے مزمل کو بتایا کہ وہ ابومسلم رازی کے لیے ایک اور پیغام لے جا رہا ہے، اس نے مزمل کو تفصیل سے سنایا کہ فوج نے خیمہ گاہ پر حملہ کیا ہے اور بڑی خونریز لڑائی ہوئی ہے، اور اب فوج ان برطرف شدہ فوجیوں کی تلاش میں جا رہی ہے۔
مزمل اس آدمی کے ساتھ واپس رے کی طرف چل پڑا ،وہ ابومسلم رازی سے اس نئی صورتحال کے سلسلے میں ہدایات لینا چاہتا تھا۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا، یہ دونوں رات کے وقت ابومسلم رازی کے یہاں پہنچ گئے، رازی کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو انہیں فوراً اندر بلا لیا گیا ،قاصد نے اسے مرو کی نئی صورت حال سنائی، اس قاصد کو وزیراعظم سمیری نے بھیجا تھا۔
یہ ایک بڑا ہی اہم اور تاریخی واقعہ تھا جس نے اسلام اور سلطنت سلجوقیہ کو بڑے خطرناک دو راہے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا، مورخوں نے اس واقعہ کی زیادہ تفصیلات نہیں لکھیں،، البتہ ابن اثیر اور ایک یورپی مؤرخ نے کچھ حالات بیان کئے ہیں،، ان سے یہ صورت سامنے آئی ہے کہ ابو مسلم رازی نے اپنی فوج اور شہریوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر اس اجتماع سے خطاب کیا۔
اسلام کے شیدائیوں شمع رسالت کے پروانوں!،،،،،، ابومسلم رازی نے انتہائی بلند آواز میں کہا۔۔۔۔ تمہاری آزمائش کا اور ایثار کا وقت آ پہنچا ہے ،مرو میں نہتّے لوگوں پر سلطان کی فوج نے حملہ کرکے قتل عام کیا ہے، اس خونریزی کے پیچھے حسن بن صباح کے باطنیوں کا ہاتھ ہے ،سلطان برکیارق کی بیوی باطنی ہے اور وہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے، اس نے سلطان کو نشہ پلا پلا کر اور اس پر اپنے حسن کا نشہ طاری کرکے دماغی طور پر بیکار کر دیا ہے، سلطان کے ایوان سے جو حکم جاری ہو رہے ہیں وہ سلطان کی بیوی سلطان کی زبان سے جاری کرتی ہے، وہاں بھائی کو بھائی سے لڑوایا جارہا ہے، اور شہر میں اتنی زیادہ باطنی آچکے ہیں کہ ہمارے اس دارالسلطنت پر باطنی قابض ہوگئے ہیں، یہاں سوال صرف سلطنت کا نہیں بلکہ تمہارے دین اور ایمان کا سوال ہے، اسلام کے نور کو ہمیشہ کے لئے بجھایا جا رہا ہے ،اگر تمہیں اپنا دین اور اپنا ایمان عزیز ہے تو اللہ کا نام لے کر اٹھو اور باطل کی اس قوت کو اسی طرح کچل کر رکھ دو جس طرح ہمارے آباء اجداد نے روم اور فارس کی ہیبت ناک قوتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ،میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اس سلطنت پر حسن بن صباح کا قبضہ ہوگیا تو تمہاری بیٹیاں اور بہنیں اٹھا لی جائیں گی، اور تم جانتے ہو کہ انہیں کس طرح اور کہاں کہاں استعمال کیا جائے گا، اگر تم میں غیرت ہے تو مسلح ہو کر باہر آ جاؤ اور اپنے سروں پر کفن باندھ لو ،اپنے دین کو اور اپنی عزت کو شیطانی فرقے سے بچاؤ، تم پر ایک شیطانی قوت قابض ہونا چاہتی ہے، میں ایک لشکر مرو روانہ کرنا چاہتا ہوں، ایک تو فوج ہے لیکن یہ کافی نہیں ،جو غیر فوجی اس لشکر کے ساتھ جانا چاہتیے ہیں وہ ایک طرف ہو کر کھڑے ہوجائیں ،انہیں ہتھیار ملیں گے اور ساری سہولتیں ملیں گی، البتہ وہ گھوڑے خود لائیں گے جو ان کی اپنی ملکیت میں رہیں گے۔
ابومسلم رازی کے بولنے کے انداز میں جہاں جوش و خروش اور دین اسلام کی تپش تھی وہاں اس کا انداز بارہا جذباتی ہوتا جاتا تھا اور دو تین مرتبہ اس پر رقت بھی طاری ہوگئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے آدھے شہری ایک طرف ہوگئے ،وہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، ہر طرف سے جہاد جہاد کی آواز اٹھ رہی تھی، اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر عورتیں کھڑی تھیں، انہوں نے بھی ابومسلم رازی کا خطاب سنا تھا، انہوں نے بھی نعروں کی زبان میں اپنے مردوں کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔
امیر شہر رازی!،،،،،،،، ایک چھت سے ایک عورت کی بڑی بلند آواز آئی۔۔۔۔ اگر مقابلہ لڑائی کا ہے تو وہاں عورتوں کی بھی ضرورت ہوگی، زخمیوں کو اٹھانا ان کی مرہم پٹی اور پانی پلانا عورتوں کا کام ہے ہمیں بھی اس لشکر کے ساتھ بھیج دیں ۔
اگر نفری کم ہے تو ہم بھی لڑ سکتی ہیں۔۔۔ دوسری عورت کی آواز آئی۔
نہیں ابھی نہیں۔۔۔ ابومسلم رازی اپنا گھوڑا اس چھت کے قریب دوڑاتا لے گیا اور روک کر بلند آواز سے کہا ۔۔۔جب تک مرد زندہ ہیں عورتوں کو باہر نہیں نکالا جائے گا ،تم مستورات صرف یہ کام کرو کہ اپنے بچوں کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے ،اور اسلام کے دشمن کون ہیں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ میری بیٹیوں اور بہنوں میں جہاد کا جذبہ جوش مار رہا ہے ،تم گھروں میں رہ کر اپنے ان مجاہدوں کے لئے دعا کرتی رہنا۔
ابومسلم رازی کو شاید معلوم ہی ہوگا کہ جن شہریوں کو اکٹھا کرکے وہ جوش دل آرہا تھا ان میں حسن بن صباح کے فدائین جاسوس اور دیگر پیرو کار بھی موجود تھے، ابو مسلم رازی نے اپنے علاقے میں مسجدوں کے اماموں کے ذریعے حسن بن صباح اور اس کے ابلیسی عقیدے کے خلاف نفرت پیدا کر دی تھی، اس نے جامع مسجد کے خطیب اور دوسری مسجدوں کے اماموں کو حکم دے رکھا تھا کہ حسن بن صباح کے خلاف بولتے رہا کریں، اور لوگوں کے دلوں پر نقش کر دیں کہ حسن بن صباح سراپا ابلیس ہے، اور وہ اسلام کا بدترین دشمن ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*