🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر تینتالیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار اوریزی کو ابھی تک چوک میں کھڑا رکھا ہوا تھا ،سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔
سپہ سالار حجازی جھوٹ کہہ رہا ہے۔۔۔ ایک آواز اٹھی۔
سپہ سالار خود غدار ہے۔۔۔ ایک اور آواز۔
ہم انصاف چاہتے ہیں۔۔۔ دو تین آوازیں اٹھیں۔
اور ہجوم میں ایک بار پھر شوروغوغا شروع ہوگیا حجازی کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار آگئے اور وہ ادھر ادھر آگے اور پیچھے دیکھنے لگا، اس کے محافظوں نے پرچھیاں تان لی تھیں اور وہ لوگوں کو پیچھے ہٹا رہے تھے۔
ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا، لوگوں نے ادھر دیکھا گھوڑے پر کوئی عورت سوار تھی اور اس کے ہاتھ میں سلطنت سلجوقیہ کا پرچم تھا جس پر چاند اور ستارے کا نشان تھا، گھوڑا اسی رفتار سے چلا آرہا تھا ہجوم نے اسے راستہ دے دیا ،گھوڑا دونوں سالاروں کے پاس جا روکا ،سوار عورت بڑی تیزی سے گھوڑے سے اتری اور اس میز پر کھڑی ہوگئی جس پر دونوں سالار کھڑے تھے، عورت نے اپنا نقاب اٹھادیا،،،،،،،،،، وہ سلطان برکیارق کی ماں تھی۔
میرے عزیز لوگوں!،،،،،، برکیارق کی ماں نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر کہا۔۔۔۔ اس پرچم کو دیکھو، یہ پرچم تمہارے ایمان اور دین کی علامت ہے، یہ پرچم تمہاری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کا نشان ہے، یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے جسے حسن بن صباح کے باطنی اس پرچم کو پامال کرنے کے لئے تمہارے درمیان آگئے ہیں، انھیں پہچانو، اچھے اور برے کو پہچانو،،،،،،،،، مجھے پہچانو،،،،میں تمہاری ماں ہوں،،،،،،، سلطان ملک شاہ کو یاد کرو ،اس کے ایمان اور جذبے کو یاد کرو، بھول جاؤ کہ میرا بیٹا سلطان ہے، میں اس ناخلف انسان کو اپنا بیٹا کہنے سے شرماتی ہوں، میرے بیٹے تم ہو، میرا بیٹا ایک باطنی چڑیل کے قبضے میں آگیا ہے، اسلام کو حسن بن صباح کی گدھوں اور چیلوں نے نوچنا شروع کردیا ہے،،،،،،،، سلطنت سلجوقیہ کی جس فوجی طاقت پر ہم سب کو اور تم سب کو ناز تھا اس فوجی طاقت کو توڑا جا رہا ہے، تمہارے سالار اوریزی کو اس جرم میں قید میں ڈالا جا رہا ہے کہ یہ اس فوجی طاقت کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کررہا تھا، قید میں اس سپہ سالار حجازی کو ڈالنا چاہیے،،،،،،
محترم ماں !،،،،،،سپہ سالار حجازی نے برکیارق کی ماں کو بازو سے پکڑ کر کہا۔۔۔ سلطان برکیارق کا حکم بڑا ہی سخت ہے ،آپ خاموش،،،،،،
چھوڑ دے میرا بازو خوشامدی غلام!،،،،، برکیارق کی ماں نے اپنا بازو چھوڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میرے عزیز لوگو!،،،، میری بات غور سے سن لو،،،،،،،، تمہارے درمیان افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ،حسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا تمہیں آپس میں لڑا رہا ہے،،،،،،،، اگر تم نے آنکھیں نہ کھولیں اور اپنی عقل استعمال نہ کی تو یہاں بھائی بھائی کی گردن کاٹےگا ،بھول جاؤ کے سلطان میرا بیٹا ہے، میں کہہ چکی ہوں کہ میں اس سلطنت کی ماں ہوں، میں تمہاری ماں ہوں،،،،،، اوریزی ابھی تک سالار ہے یہ مجرم نہیں،،،،،،، اس کے بعد برکیارق کی ماں بولتی رہی، لیکن اس کی آواز ہجوم کے شوروغل میں دب گئی،ہجوم بھڑک اٹھا تھا، لوگ ایسے جوش میں آ گئے تھے کہ سپہ سالار حجازی کو اپنا انجام کچھ اور ہی نظر آنے لگا۔
اس شوروغل میں سپہ سالار حجازی نے اپنے قریب کھڑے محافظ سے کچھ کہا، محافظ نے پیچھے سے اوریزی کو کمر سے دبوچا اور اسے اٹھا کر قریب کھڑے ایک گھوڑے پر بٹھا دیا، پھر خود اس گھوڑے پر اوریزی کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی، سپہ سالار حجازی میز سے کود کر اترا اور ایک محافظ کے گھوڑے پر سوار ہوگیا، اس نے محافظوں کو کوئی حکم دیا۔
تمام محافظوں نے گھوڑے دوڑا دیے اور برچھیاں آگے کرلیں ،تمام لوگ گھوڑوں اور برچھیوں سے ڈر گئے اور ایک طرف ہو گئے، اور اس طرح سپہ سالار حجازی اور اس کے محافظ سالار اوریزی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے تو محافظوں نے ہجوم کو پیچھے روک رکھا تھا، جب محافظ وہاں سے نکل بھاگے تو ہجوم برکیارق کی ماں کے قریب آگیا ،اس خاتون نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ ہر کوئی سالار اوریزی کا حامی ہو گیا تھا۔
محمد اور سنجر کو کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ان کی ماں باہر کہیں چلی گئی ہے، وہ اسے ڈھونڈنے لگے تو اصطبل سے پتہ چلا کہ ان کی ماں ایک گھوڑا نکلوا کر اور پرچم ہاتھ میں لے کر کہیں چلی گئی ہے، سب کا خیال یہی تھا کہ وہ اس چوک میں ہی گئی ہوگی جہاں سالار اوریزی کو تذلیل کے لئے کھڑا کیا گیا ہوگا
محمد اور سنجر نے گھوڑے لیے ان پر سوار ہوئے اور چوک کی طرف گھوڑے دوڑا دیے ان کی ماں وہیں تھی، اور ہجوم نعرے لگا رہا تھا، دونوں بھائی اس میز پر چڑھ گئے جس پر ان کی ماں کھڑی تھی انہوں نے ماں سے کہا کہ وہ واپس چلے ۔
اے ایمان والوں!،،،، ماں نے اپنے ایک پہلو میں محمد کو اور دوسرے پہلو میں سنجر کو کھڑا کرکے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بلند آواز سے کہا۔۔۔۔ میں اپنے یہ دونوں بیٹے اس اسلامی سلطنت پر قربان کر دوں گی۔
محمد نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے اس جوش وخروش کو قابو میں رکھیں اور ٹھنڈے دل سے سوچیں، اس نے کہا کہ ہم حسن بن صباح کو ختم کرنے کی تیاریاں کررہے تھے لیکن صورتحال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ حسن بن صباح ہمیں ختم کرنے کا بندوبست کر چکا ہے۔
یہ کہہ دینا تو آسان تھا کہ باطنی شہر میں پھیلتے جا رہے ہیں لیکن یہ معلوم کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن تھا کہ شہر کے لوگوں میں باطنی کون کون ہیں، بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرو کا شہر حسن بن صباح کی گرفت میں آگیا تھا اور اس شہر میں خون خرابا تقریبا شروع ہوگیا تھا ،محمد اور سنجر اپنی ماں کو ساتھ لے کر چلے گئے۔
سپہ سالار ابوجعفر حجازی سالار اوریزی کو اپنے محافظوں کے ساتھ لے کر سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر شہر سے نکل گیا، اس نے پیچھے دیکھا تھا تعاقب میں کوئی بھی نہیں آرہا تھا، اسے تعاقب کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، اس کے محافظ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے شہری تعاقب کی جرات نہیں کر سکتے تھے ،پھر بھی اس کے دل پر یہ اندیشہ سوار ہوگیا تھا کہ شہری بھڑک اٹھے تھے اور اس کے خلاف ہوگئے تھے۔
اس نے محافظوں کو گھوڑے آہستہ کرنے کا حکم دیا، قیدخانہ ابھی دور تھا وہ جنگل میں داخل ہوگئے تھے اوریزی زنجیروں میں بندھا ایک محافظ کے آگے بیٹھا بالکل خاموش تھا، اس کے چہرے پر افسوس اور تذبذب کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا ،آگے علاقہ چٹانی آگیا، راستہ ان چٹانوں کے درمیان سے بل کھاتا گزرتا تھا، یہ قافلہ اس راستے پر چلتا چٹانوں کے اندر گیا تو اچانک دائیں بائیں سے بہت سے آدمی جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے ان پر ٹوٹ پڑے، حملہ آوروں نے دو تین محافظوں کو تو پہلے حملے میں ہی گھائل کر کے گھوڑے سے گرا دیا جن پر حملہ ہوا تھا وہ کوئی اناڑی نہیں تھے وہ تجربے کار محافظ تھے جنہیں جان قربان کرنے کی تربیت دی گئی تھی وہ فوج سے منتخب کیے گئے تھے۔
وہاں لڑنے کے لیے جگہ تنگ تھی محافظوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور پینترا بدلنے کے لیے گھوڑوں کو تیزی سے موڑنا اور آگے پیچھے کرنا مشکل تھا، حملہ آور پیادہ تھے محافظوں نے جم کر لڑنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ گھوڑوں سے اتر آئے۔
سپہ سالار حجازی نے بلند آواز سے حکم دیا کہ اوریزی کو حفاظت میں لئے رکھو ،اسے بھاگنے نہ دینا، وہ تو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا ہوا تھا وہ بھاگ نہیں سکتا تھا لیکن حجازی یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ حملہ اوریزی کو آزاد کرانے کے لئے ہوا ہے، چارپانچ محافظوں نے سالار اوریزی کو گھوڑے سے اتار کر ایک جگہ کردیا اور وہ سب اس کے اردگرد کھڑے ہو کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے، حملہ آوروں کی تعداد محافظوں سے خاصی زیادہ تھی لیکن کسی ایک محافظ نے بھی پیٹھ دکھانے کی نہ سوچی۔
میرے شیروں !،،،،،سپہ سالار حجازی کی آواز گرجی۔۔۔۔ قیدی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، اسے قید خانے تک پہنچا دو گے تو تمہیں جھولیاں بھر کر انعام دلواؤں گا۔
محافظوں کے لئے سالار اوریزی بڑی ہی قیمتی چیز بن گیا تھا ،وہ اسی کے قریب رہنے کی کوشش کرتے اور لڑ رہے تھے، اوریزی کو انہوں نے ایک چٹان کے دامن میں بٹھا دیا تھا ،دو تین حملہ آور اس چٹان پر چڑھ گئے چٹان اونچی نہیں تھی، حملہ آوروں نے اوپر سے محافظوں کو برچھیاں ماری لیکن چٹان کے پہلوؤں کی طرف سے محافظوں نے اوپر جا کر حملہ آوروں کو گرا لیا۔
لڑتے ہوئے مر جاؤ!،،،،،سپہ سالار حجازی کی آواز ایک بار پھر گر جی۔۔ اگر قیدی تمہارے ہاتھ سے نکل گیا تو سلطان تم سب کو سزائے موت دے گا۔
حملہ آور پیچھے ہٹ گئے اور کچھ دیر کے لیے یہ خون ریز لڑائی تھم گئی، پتہ نہیں چلتا تھا حملہ آور بھاگ گئے ہیں یا چٹانوں میں چھپ گئے ہیں، حجازی نے محافظوں کو اکٹھا کر لیا وہ ابھی نکل نہیں سکتا تھا، اس نے محافظوں کو گنا تو پانچ محافظ کم ہوگئے تھے، وہ شدید زخمی ہوئے یا مارے گئے تھے، حملہ آوروں میں سے بھی کچھ کم ہوگئے تھے۔
حملہ آور چٹانوں کے پیچھے چھپ گئے تھے محافظ اپنے گھوڑوں کو پکڑ کر لے آئے اور چلنے کی تیاری کرنے لگے، اچانک ایک طرف سے پانچ حملہ آور آئے، محافظوں نے گھوڑے کو چھوڑا اور حملہ آوروں کے مقابلے کو آگے بڑھا ،حملہ آور لڑتے ہوئے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے وہ محافظوں کی تلواروں اور برچھیوں اور ان کے جوش و خروش کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں۔
پیچھے ہٹتے ہٹتے آدھے حملہ آور ایک چٹان سے ایک طرف مڑ گیا ،اور باقی ذرا پیچھے جا کر دوسری طرف مڑ گئے اور بھاگنے لگے، محافظ ان کے پیچھے دوڑے ۔
ادھر جہاں اوریزی کو بٹھایا گیا تھا وہاں ایک سپہ سالار حجازی تھا، اور اس کے ساتھ صرف ایک محافظ تھا۔
اس قیدی کو میں ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے محافظ سے کہا۔۔۔ اگر ان لوگوں نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا تو میں اسے یہی قتل کردوں گا ،سلطان یقیناً خوش ہوگا۔
سالار اوریزی حجازی کی یہ بات سن رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر خوف کا نام و نشان نہ تھا ،بلکہ وہ مسکرا رہا تھا حجاجی نے اس کی طرف دیکھا ۔
ہاں اوریزی !،،،،،،حجازی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ مسکراتے ہوئے جان دے دو تو بڑا ہی اچھا ہے ۔
سالار اوریزی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا اور مسکراتا رہا منہ سے کچھ نہ بولا۔
اچانک قریب سے ہی چار پانچ حملہ آور نکلے اور انھوں نے ہلہ بول دیا ، حجازی کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ کچھ لڑا بھی تھا لیکن اب وہ بھاگا اور قریب کھڑے گھوڑے پر سوار ہوکر اس نے ایڑ لگا دی، پیچھے جو محافظ رھے گیا تھا اسے وہی کاٹ دیا گیا ۔
حملہ آوروں نے اوریزی کو اٹھایا اور ایک گھوڑے پر ڈال دیا اس کے پیچھے ایک حملہ آور سوار ہوگیا اور اس نے گھوڑا دوڑا دیا۔
حملہ آوروں نے بڑی اچھی چال چلی تھی وہ ایک طرف سے آئے اور محافظوں سے لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہٹتے محافظوں کو اپنے ساتھ چٹانوں کے اندر لے گئے، پیچھے میدان صاف تھا ،حملہ کرنے اور اوریزی کو اڑا لے جانے کے لیے آدمی موجود تھے، ان کی یہ چال کامیاب رہی۔
دو یا تین محافظ بچ کر نکلے ہوں گے وہ پیدل بھاگ گئے تھے، باقی شدید زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے تھے، ان کے گھوڑے پیچھے رہ گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق کو دربان نے اطلاع دی کہ سپہ سالار حجازی آیا ہے، سلطان نے حکم دیا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے۔
حجازی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو شکست اور شرم ساری اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی، اور اس کا سر جھکا ہوا تھا ۔
آپ اتنے بوڑھے تو نہیں ہوگئے۔۔۔۔ برکیارق نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ لیکن تھکن آپ کے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے، کیا ایک قیدی کو قید خانے تک پہنچانا لڑائی سے زیادہ بڑی مشقت ہے؟
سلطان عالی مقام!،،،،،، سپہ سالار حجازی نے تھکی تھکی اور ہاری ہوئی آواز میں کہا۔۔۔میں لڑائی میں سے ہی نکل کر آیا ہوں۔
کیسی لڑائی؟،،،،،، برکیارق نے پوچھا۔۔۔ کیا قید خانے کے عملے کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی، کیا وہ قیدی کو وصول نہیں کر رہے تھے، کس سے لڑائی لڑی ہے؟
ہم قید خانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔۔۔ حجازی نے کہا۔۔۔۔ ہم جب چٹانوں میں سے گزر رہے تھے تو ہم پر آگے سے پیچھے اور دائیں بائیں سے حملہ ہوگیا ،حملہ آور تعداد میں زیادہ تھے ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں تھیں اور،،،،،،
مجھے صرف ایک بات بتاؤ۔۔۔ سلطان برکیارق نے پوچھا۔۔۔ کیا اوریزی کو اسی کوٹھری میں بند کر آئے ہو یا نہیں؟
حجازی کی زبان ہل نہ سکی اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور سرجھکا لیا۔
پھر کہاں ہے اوریزی ؟،،،،،روزینہ جو اس وقت تک خاموش تھی بولی۔۔۔۔ کیا اسے جنگل میں پھینک آئے ہو ؟
نہیں !،،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔ اسے حملہ آور لے گئے ہیں۔
پھر تم زندہ میرے پاس کیوں آئے ہو۔۔۔ سلطان برکیارق نے گرج کر کہا اور پوچھا۔۔۔ باقی محافظ کہاں ہیں ؟
صرف ایک میرے ساتھ آیا ہے۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔۔ باقی شاید زندہ نہیں ۔
حملہ آور کون تھے؟،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا۔۔ کیا تم نے کسی کو پہچانا نہیں؟
میں صرف شک میں بات کرسکتا ہوں سلطان محترم !،،،،،سپہ سالار حجازی نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ حملہ آور ان فوجیوں میں سے تھے جنہیں فوج سے نکال کر ابھی خیموں میں رکھا ہوا ہے، میرے ساتھ جو محافظ آیا ہے وہ کچھ وثوق کے ساتھ بات کرتا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اندر بلا لوں ۔
سلطان برکیارق کے اشارے پر حجازی باہر گیا اور اس محافظ کو ساتھ لے آیا۔
کیا تم نے حملہ آوروں کو پہچانا تھا؟،،،، سلطان برکیارق نے محافظ سے پوچھا؟
ہاں عالی جاہ !،،،،،،محافظ نے جواب دیا۔۔۔ وہ ہمارے ان ساتھیوں میں سے تھے جنہیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے، میں نے تین کو تو پہچان لیا تھا ،اسی لیے میں کہتا ہوں کہ باقی بھی وہی ہونگے جو فوج سے نکالے گئے ہیں۔
سپہ سالار حجازی نے سلطان برکیارق سے اجازت لے کر اس محافظ کو باہر بھیج دیا۔
سلطان عالی مقام!،،،،، سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔ پیشتر اس کے کہ آپ مجھے سزا دیں یا کوئی اور حکم دیں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، لیکن کہنے سے اس لیے ڈرتا ہوں کہ میری بات کا تعلق آپ کی محترمہ والدہ اور بھائیوں کے ساتھ ہے۔
جو کہنا ہے صاف صاف کہو۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ میں سنوں گا مجھے صرف سلطنت کے مفاد کا خیال ہے، میری ماں ہو یا بھائی ان کا درجہ سلطنت کے بعد ہے ،ان کے متعلق انتہائی بری اور توہین آمیز بات کرو گے تو میں وہ بھی سنوں گا ،مجھے صحیح صورت حال معلوم ہونی چاہیے۔
محترم سلطان آپکا اقبال اور زیادہ بلند ہو۔۔۔ حجازی نے کہا۔۔۔ کسی نے ہم پر حملے کی جرات نہیں کرنی تھی، یہ حملہ آپ کی محترمہ والدہ اور آپ کے بھائی محمد نے کروایا ہے، وہ اس طرح کہ میں آپ کے حکم کے مطابق اوریزی کو چوک میں کھڑا کر کے اس کا جرم لوگوں کو بتا رہا تھا اوریزی اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ بول رہا تھا، ہجوم بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اتنے میں آپ کی والدہ محترمہ گھوڑے پر سوار وہاں آپہنچیں، ان کے ہاتھ میں سلطنت کا پرچم تھا وہ گھوڑے سے اتر کر ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اور میرے خلاف اتنا زیادہ بھڑکایا کہ لوگ ہمارے خلاف اور اوریزی کے حق میں مشتعل ہوگئے ،پھر آپ کا بھائی محمد چھوٹے بھائی سنجر کے ساتھ آگیا ،محمد نے اتنی اشتعال انگیز باتیں تو نہ کی لیکن جو کچھ بھی اس نے کہا تھا وہ اوریزی کے حق میں جاتا تھا، لوگوں کا ہجوم اتنا زیادہ مشتعل ہوگیا کہ لوگ ہم پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھنے لگے، وہ محافظوں کی برچھیوں سے بھی نہ ڈرے یہ تو میرا کمال تھا کہ میں نے اوریزی کو ایک گھوڑے پر پھینکا اور محافظوں سے کہا کہ یہاں سے نکلیں، اور انکی برچھیوں اور گھوڑوں کی زد میں کوئی بھی آتا ہے پرواہ نہ کریں،،،،،، سلطان عالی مقام!،،، میں خوش تھا کے قیدی کو مشتعل ہجوم میں سے نکال لایا ہوں، لیکن آگے جاکر ہم پر حملہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ سابق فوجی بھی ہجوم میں موجود تھے، وہ کسی اور راستے سے ہم سے پہلے آگے جاکر گھات میں بیٹھ گئے، یہ ہے ہم پر حملے کی اصل وجہ۔
سلطان برکیارق کے چہرے کا رنگ اڑ گیا،اس نے روزینہ کی طرف دیکھا روزینہ دانت پیس رہی تھی یہ اس کے غصے کی انتہا تھی۔
اگر وہ میری ماں ہوتی۔۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ تو معلوم نہیں میں کیا کر گزرتی ،وہ آپ کی ماں ہے ،اس لیے میں کچھ کہہ نہیں سکتی،،،،، ماں کو اتنا بھی خیال نہیں کہ وہ سلطنت کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک رہی ہے،،،،، اور آپ کا بھائی محمد ایک احمق آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ آپ کا تختہ الٹنا چاہتا ہے، اور اس کے دل میں سلطانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا حجازی!،،،،، سلطان برکیارق نے کہا ۔۔۔اس کی بجائے میں تمہیں مہلت اور موقع دیتا ہوں کہ ان حملہ آوروں کو پکڑو پھر دیکھنا کہ میں نہیں کیا سزا دیتا ہوں۔
گستاخی معاف سلطان عالی مقام !،،،،،حجازی نے کہا ۔۔۔میں تو ان غداروں اور باغیوں کو پکڑنے کے لیے دن رات ایک کر دوں گا ،لیکن آپ کی والدہ محترمہ اور بھائی میرے لئے بہت بڑی رکاوٹ بن جائیں گے، میں ان کے محاذ کو ایک کاری ضرب سے توڑ سکتا ہوں، انکے سر آپ کے قدموں میں پیش کر سکتا ہوں، لیکن وہ آپ کی ماں اور آپ کے بھائی ہیں جن پر میں ہاتھ نہیں اٹھا سکتا انہیں اگر آپ پابند کر لیں تو،،،،،
ماں کو نظربند کردیں ۔۔۔روزینہ نے برکیارق سے کہا ۔۔۔ماں کو قید خانے میں پھینکنا بہت ہی معیوب ہے، انہیں ان کے کمرے میں پابند کردیں کہ وہ باہر نہ نکلیں، پہرا کھڑا کردیں، بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ آپ کے حکم کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں، انہیں ذہن نشین کرائیں کہ حسن بن صباح سیاہ گھٹا کی طرح افق سے اٹھتا چلا آرہا ہے اور اگر یہاں بھائیوں میں ہی اختلاف پیدا ہوگیا تو یہ گھٹا سلطنت سلجوقیہ کو تاریک کر ڈالے گی۔
اس باطنی لڑکی روزینہ کی ایسی باتیں تھیں جو سلطان برکیارق کو متاثر کرتی تھی، اسے کوئی کہتا تھا کہ یہ حسن بن صباح کے گھنوسلے سے نکلی ہوئی لڑکی ہے تو برکیارق کا خون کھول اٹھتا اور ایسی باتیں کہنے والوں پر وہ برس اٹھتا تھا۔
اب سنو حجازی !,,,,,,,,,سلطان برکیارق نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ دو راتوں بعد جب تیسری رات آدھی گزر جائے تو اپنی پوری فوج کو بیدار کرو اور ان فوجیوں کے خیموں کو محاصرے میں لے لو جنہیں ہم نے فوج سے سبکدوش کرکے خیموں میں عارضی طور پر رکھا ہوا ہے، اپنی فوج کو پہلے ہی بتا دینا کہ وہ تیاری کی حالت میں رہیں اور باہر کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ فوج تیاری کی حالت میں ہے، آدھی رات کو صرف ایک اشارے پر فوج خاموشی سے اٹھے اور وہیں سے محاصرے کی ترتیب میں ہوکر خیموں کو اپنے نرغے میں لے لے ،رات کے وقت کوئی کاروائی نہیں کرنی، صبح جب وہ لوگ اٹھیں تو انھیں پکڑ پکڑ کر الگ کھڑا کرتے جانا ،پھر ہر خیمے کے اندر دیکھنا کہ کوئی چھپا ہوا تو نہیں رہ گیا ،اپنے اس محافظ کو ساتھ لے لینا اور یہ ان میں سے ان تین آدمیوں کو پہچانے گا جو حملے میں شریک تھے، حملے میں تمہارے محافظوں نے کچھ حملہ آوروں کو زخمی بھی کیا تھا ان میں جو زخمی نظر آئے اسے بھی الگ کردینا، سختی کرنی پڑے تو تمہیں اجازت ہے کہ کسی کو جان سے مار ڈالو، تم خود عقل رکھتے ہو میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے، مجھے یہ حملہ آور چاہیے، ابھی دو دن اور دو راتیں تم یوں دبک کر رہو جیسے کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اور تم ڈر گئے ہو، اپنی ماں اور بھائیوں کا انتظام میں خود کر لوں گا۔
سلطان برکیارق نے سر سے اشارہ کیا تو سپہ سالار حجازی رکوع میں چلا گیا اور اسی حالت میں پیچھے ہٹتے ہٹتے دروازے سے نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد سلطان برکیارق اٹھا اور کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا، وہ کبھی رک جاتا اوپر دیکھتا پھر سر جھکا کر چل پڑتا، کبھی رک کر اپنے ماتھے کو زور زور سے ملتا ،روزینہ پہلے تو اسے دیکھتی رہی پھر اس نے برکیارق کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور بٹھاکر اس پر اس طرح جھوکی کہ اس کے ریشمی بالوں نے برکیارق پر سایہ کر دیا۔
آپ کو یہ لوگ جینے نہیں دے گے۔۔۔ روزینہ نے اس کے ساتھ اس طرح پیار کر کے کہا جس طرح ماں اپنے معصوم بچے کے ساتھ کرتی ہے، وہ کہنے لگی،،،،، ذرا سر میرے ساتھ لگا لیں ،آپ کی ذہنی حالت تو ان لوگوں نے بگاڑ کر رکھ دی ہے، کوئی غیر ہوتا تو اور بات تھی، اپنی سگی ماں اور سگے بھائی آپ کو جہنم میں پھینک رہے ہیں ۔
سلطان برکیارق پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوگئی، اس نے اپنے آپ کو روزینہ کے حوالے کردیا اور دو سال کا بچہ بن گیا، کچھ دیر بعد روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلایا۔ سلطان برکیارق، محسوس نہ کر سکا کہ اس کے آباء اجداد کی سلطنت اس پیالے میں ڈوبی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق کے ذہن اور دل پر اپنا قبضہ مکمل کرکے روزینہ اٹھی۔
کیا میں ماں کو بلا کر اسے کہو؟،،،، سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ لیکن وہ تو میری جان کو آجائے گی۔
محمد اور سنجر کو بلائیں۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ انہیں بتائیں کہ ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کیا جارہا ہے اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کریں۔
اب وہی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جو روزینہ نے یہاں آتے ہی پیدا کر دی تھی، یعنی سوچتی وہ تھی اور عمل برکیارق کرتا تھا، برکیارق کا اپنا دماغ روزینہ کی حسین گود میں بے ہوشی کی نیند سو گیا تھا۔
اس کیفیت میں برکیارق نے اپنے دونوں بھائیوں کو بلایا اور بھائی اطلاع ملتے ہی آگئے۔
میرے عزیز بھائیو !،،،،،برکیارق نے کہا۔۔۔تصور میں لاؤ کہ میری جگہ تم ہو اور تم کوئی حکم دیتے ہو اور کچھ لوگ تمہارے حکم کی تعمیل کے راستے میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں جس طرح میرے محافظوں پر حملہ ہوا ،صاف اور سچے دل سے بتاؤ کہ تم کیا محسوس کرو گے اور کیا کاروائی کرو گے ؟یہ نہ کہنا کہ میرا حکم غلط تھا اور اسلام کے منافی تھا ،سلطان انسان ہے اور غلطی بھی انسان کر سکتا ہے، لیکن کوئی سلطان بغاوت اور غداری برداشت نہیں کر سکتا، تم نے محمد اپنی ماں کے ساتھ مل کر میرے خلاف زہر اگلا اور یہی وجہ تھی کہ جو محافظ دستہ اوریزی کو قید خانے میں لے جا رہا تھا اس پر حملہ ہوا، قیدی کو وہ ساتھ لے گئے اور محافظوں کو قتل کر گئے،،،،،،، تم بتاؤ کہ میری جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے۔
ہم حملہ آوروں کو گرفتار کرتے۔۔۔ محمد نے کہا ۔۔۔اور انہیں سزا دیتے۔
اگر میں یہ کہوں کہ یہ حملہ تم نے اور ہماری ماں نے کروایا ہے تو تم کیا کہو گے؟،،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا؟
یہ الزام بے بنیاد ہے۔۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔یہ صحیح ہے کہ ماں وہاں چلی گئی تھی اور اس نے لوگوں سے جو باتیں کیں وہ سلطنت سلجوقیہ اور سالار اوریزی کے حق میں جاتی تھی، انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے اس سلطنت پر قربان کر دوں گی لیکن اس پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پرچم اس اسلامی سلطنت کی عظمت ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شہر حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے تجربے کار باطنی تخریب کاروں سے بھرتا جا رہا ہے۔
ماں نے جو کچھ بھی کہا۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔وہ ہماری سلطنت اور اوریزی کے حق میں تو جاتا ہے ،لیکن ماں اور تم یہ نہ دیکھ سکے کہ لوگ مشتعل ہو رہے ہیں اور ان کے جوش و خروش میں انتقام کی آگ سلگتی جارہی ہے ،وہاں سابق فوجی بھی موجود تھے ان میں چونکہ لڑنے کا جذبہ ہے اس لیے انہوں نے یہ فوجی کاروائی جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے، اب تم بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
اس طرح بھائیوں میں بحث مباحثہ چلتا رہا جو تلخ کلامی کی صورت اختیار کرگیا اور روزینہ برکیارق کے حق میں بول پڑی۔
تم خاموش رہو لڑکی !،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ سلطان ہمارا بھائی ہے اور تمہاری حیثیت صرف ایک بیوی کی ہے، میرے ساتھ کوئی بات نہ کرنا۔
اب میرا فیصلہ سنو محمد اور سنجر!،،،،،، سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ میں اپنی ماں کو ان کے کمرے میں نظر بند کر رہا ہوں ،تم دونوں میرا یہ حکم اس تک پہنچا دو، وہ کمرے سے باہر نہ نکلیں، باہر دو سنتری بیٹھا دیے جائیں گے، میں جانتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ نہ تمہیں اچھا لگا ہے نہ ماں اسے پسند کرے گی، بلکہ وہ چیخے چلائی گئی، لیکن مجھے اپنی سلطنت کو بھی دیکھنا ہے اور یہ بھی کہ ماں یو ماری ماری نہ پھرے، اس کا ہر جگہ پہنچ جانا اور جو منہ میں آیا کہتے جانا اس کے اپنے وقار کے منافی ہے، مجھے یہ خطرہ بھی نظر آرہا ہے کہ جس طرح وہ خود کہتی ہے کہ اس شہر میں باطنی اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں کوئی بدبخت باطنی اسے قتل ہی نہ کر دے۔
باطنی ہی ہماری ماں کو نظر بند کروا رہے ہیں۔۔۔ محمد نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم آپ کا حکم ماں تک پہنچا دیں گے ،وہ چیخے گی نہ چلائے گی کچھ بھی نہیں کہے گی، لیکن میں آپ کو آخری بار بتا رہا ہوں کہ جن باطنیوں کے متعلق آپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ہماری ماں کو قتل کر دیں گے وہی باطنی سلطنت پر حکومت کررہے ہیں، اپنی ماں کو نظر بند کرنے کا حکم آپ نے نہیں حسن بن صباح نے دیا ہے ،کسی باطنی میں اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ہماری ماں کو قتل کردے، ہمارے بڑے بھائی کا دین ایمان اور کردار باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے، آپ جو ہمارے سامنے چلتے پھرتے بولتے اور حکم دیتے نظر آتے ہیں یہ آپ کا صرف جسم ہے، سوچتا کوئی اور ہے اور اس پر عمل آپ کا جسم کرتا ہے، آج کے بعد آپ ہمیں اپنے سامنے نہیں دیکھیں گے۔
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دو بھائی جان!،،،،، سنجر نے کہا ۔۔۔آئندہ آپ کا کوئی حکم ہم تک نہ پہنچے، ورنہ ہم وہاں تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ کے فرشتے بھی نہیں پہنچ پائیں گے، ہم بھاگ نہیں جائیں گے مر نہیں جائیں گے، اپنے آباء اجداد کی اور اپنے عظیم باپ کی اس سلطنت کو زندہ وپائندہ رکھنے کی پوری جدوجہد کریں گے، خواہ ہماری جانیں چلی جائیں۔
دونوں بھائی کمرے سے نکل گئے اور سلطان برکیارق احمقوں کی طرح منہ کھولے اس دروازے کو دیکھتا رہا جس دروازے سے اس کے بھائی نکل گئے تھے، وہ اس وقت بیدار ہوا جب روزینہ کا ایک رخسار اس کے گال کے ساتھ لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار اوریزی کو محافظوں سے چھین کر وہاں سے شہر میں نہیں لائے تھے، بلکہ اسے شہر سے دور ایک ویرانے میں لے گئے تھے، اپنی رہائی کا یہ انتظام اوریزی نے خود ہی کیا تھا، اسے جب سلطان برکیارق کا بلاوا آیا تھا تو اسے معلوم تھا کہ سلطان اسے بخش نہیں دے گا، اسے معلوم تھا کہ سپہ سالار حجازی اسے انتہائی سزا دلوائے گا ،اسی لیے اس نے اپنے ساتھ دو محافظ لے گئے تھے اور انہیں سلطان کے محل سے ذرا دور کھڑا کردیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔
سالار اوریزی کو جب سلطان برکیارق نے زنجیروں اور بیڑیوں میں باندھ کر باہر بھیجا تھا تو اوریزی کے محافظوں نے دور سے دیکھ لیا، انہوں نے وہاں سے گھوڑے دوڑا دئیے اور ان لوگوں کے پاس جا پہنچے جنہوں نے اوریزی کو رہا کرانا تھا ،وہ اسی اطلاع کے انتظار میں تھے ،جونہی انہیں اطلاع ملی وہ کسی اور راستے سے چٹانی علاقے میں جا پہنچے اور گھات میں بیٹھ گئے، وہ گھوڑے نہیں لے گئے تھے کیونکہ گھات میں گھوڑے ہنہنا کر راز فاش کردیتے ہیں۔
انہیں بہت انتظار کرنا پڑا کیونکہ اوریزی کو چوک میں نمائش کے لئے کھڑا کردیا گیا تھا، آخر انہیں سپہ سالار حجازی اپنے محافظوں کے ساتھ نظر آیا، وہ تیار ہو گئے اور جونہی یہ محافظ دستہ ان کی گھات میں آیا انہوں نے حملہ کردیا اوریزی کو اپنے ساتھ لے گئے۔
اوریزی نے ہی انہیں ایک جگہ بتائی تھی جہاں چھپنےکا محفوظ مقام تھا، وہ ویرانے میں ایک پہاڑی سی تھی جس میں ایک غار تھا، غار گھنی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اور اس کے آگے مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹیلا بھی تھا، اوریزی کو اس غار میں لے گئے، وہاں اس کی زنجیریں اور بیڑیاں کاٹنے کا انتظام تھا۔
اوریزی کو جب بتایا گیا کہ اپنے کچھ آدمی مارے گئے ہیں تو اس نے کہا کہ فوراً وہاں جاؤ اور لاشوں کو اٹھا کر لے آؤ اور یہاں دفن کردو، ہوسکتا ہے وہاں کچھ زخمی بھی پڑے ہوں ۔
اوریزی کے آدمی محافظوں کے گھوڑے بھی پکڑ لائے تھے، بچے ہوئے آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور واپس اس جگہ چلے گئے جہاں انہوں نے گھات لگائی تھی، وہ بہت جلدی میں تھے کیونکہ خطرہ تھا کہ سرکاری فوج پہنچ جائےگی، اتفاق سے سلطان برکیارق نے بھی نہ سوچا نہ سپہ سالار حجازی نے کہ جا کر حملہ آوروں کی لاش دیکھتے اور ایسے زخمیوں کو اٹھا کر لے آتے جو بھاگنے کے قابل نہیں رہے تھے، ان سے پتہ چل جاتا کہ حملہ آور کون تھے، حملہ آور لاشیں اور زخمی اٹھانے آے تھے اور اٹھا کر لے گئے۔
سالار اوریزی نے صرف چار آدمی اپنے ساتھ رکھے اور دوسروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور پوری جاسوسی اور مخبری کرتے رہیں اور ذراذرا اطلاع اس تک غار میں پہنچاتے رہیں، اس کا خیال یہ تھا کہ چند دن دبکے رہیں۔
سابق فوجیوں کو بتا دینا کہ اب تیار رہیں اوریزی نے کہا۔۔۔۔ انہیں یہ بھی بتا دینا کہ انہیں ہتھیار جلدی مل جائیں گے، اور اب ہمارا تصادم سرکاری فوج کے ساتھ ہوگا، اور اب ہمارا مقصد برکیارق کو ہٹا کر اس کی جگہ محمد کو سلطان بنانا ہے، اور اس کے بعد فوج تیار کرکے حسن بن صباح کے خلاف محاذ کھولنا ہے،،،،،،، لیکن میرے دوستو!،،، ہمیں خون کے دریا میں سے گزرنا پڑے گا، ہم کوشش کریں گے کہ بھائی بھائی سے نہ لڑے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا، خانہ جنگی ہو کر رہے گی،،،،،،، باقی جو کچھ کرنا ہے وہ پانچ سات دنوں بعد بتاؤں گا ،ابھی ہمیں زمین کے نیچے رہنا ہے۔
چار پانچ مہینے پہلے باہر سے ایک طبیب آیا تھا جس نے مرو میں اپنا مطب کھولا تھا، وہ جراح بھی تھا اس کے ہاتھ میں خدا نے ایسی شفا دی تھی کہ مایوس اور بڑے پرانے مریض صحت یاب ہو گئے تھے، لوگ اس کی بہت تعظیم کرتے تھے، اوریزی کے فرار کے دو تین روز بعد رات کا وقت تھا ،طبیب مریضوں سے فارغ ہو چکا تھا، اس نے مکان کا باہر والا دروازہ بند کر دیا تھا اور چار آدمی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے حق میں ہو رہا ہے۔۔۔۔ طبیب نے ان آدمیوں سے کہا۔۔۔ اوریزی کا فرار بھی ہمارے حق میں جائے گا میں جانتا ہوں کہ اسے فرار کرانے والے سابق فوجی ہیں، مجھے روزینہ نے محل سے اطلاع بھیج دی ہے کہ سلطان نے اپنی ماں کو نظربند کردیا ہے، اور سپہ سالار حجازی سے کہا ہے کہ وہ حملہ آوروں کو تلاش کرے اور پکڑے، میں نے اپنے آدمی اس سارے کھیل میں شامل کردیے ہیں، اوریزی کا فرار ہی سابق اور حاضر فوجیوں کے درمیان لڑائی کا باعث بن جائے گا،،،،،،،
الموت سے امام حسن بن صباح کا حکم آیا ہے کہ مرو شہر کو خون میں ڈوبو دو، یہ بھی کہ اپنے آدمیوں کو استعمال کرنا لیکن اس طرح کے اپنے زیادہ تر آدمی محفوظ رہیں، بھائی کو بھائی سے لڑاؤ، سلطان کی فوج کو دو حصوں میں کاٹ دو اور انہیں آپس میں لڑاؤ، امام نے یہ حکم بھی بھیجا ہے کہ تین چار آدمی ہر روز اس شہر میں مرنے چاہئیں،،،،،،ہمیں امام کے اس حکم پر فوری عمل کرنا ہے، تم لوگ دو یا تین دنوں بعد خیمے میں رہنے والے تین چار سابق فوجیوں کو رات کے وقت قتل کر دو اور افواہ پھیلا دو کہ انہیں سرکاری فوجیوں نے اپنے محافظوں کے خون کے انتقام میں قتل کیا ہے، پھر ایک دو دنوں کا وقفہ دے کر فوج کے دو چار آدمی قتل کر دینا، تم خود تجربے کار ہو قتل کرنا جانتے ہو اور افواہیں پھیلانا بھی جانتے ہو ،جاؤ اور یہ بندوبست کرو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*