🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر بیالیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر بیالیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار اوریزی کی کاروائی بڑا ہی سنگین جرم تھا، سلطان نے دو سپاہیوں کو سزائے موت دی تھی لیکن سالار اوریزی نے جلادوں کو مروا دیا اور سپاہیوں کو رہا کرا لیا، اس نے دوسرا جرم یہ کیا کہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے یہ حکم دیا ان تیر اندازوں کو ڈھونڈو اور پکڑو لیکن سالار اوریزی نے اس کے قریب آ کر للکارا اور کہا خبردار کوئی آگے آنے کی جرات نہ کرے یہ حکم عدولی نہیں بلکہ غداری تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ سپہ سالار حجازی کو سالار اوریزی کی یہ باغیانہ کاروائی اچھی لگی تھی یا بری لگی تھی، اسے دراصل خوشی اس بات پر ہوئی تھی کہ اسے سلطان برکیارق کے پاس جانے کا ایک بڑا ہی معقول بہانہ مل گیا تھا اور اس کے ساتھ سالار اوریزی کو سالاری سے معزول کرانے کا موقع بھی مل گیا تھا۔ اسے توقع تھی کے سلطان سالار اوریزی کو صرف معزول نہیں کرے گا بلکہ اسے کوئی اور سزا بھی دے گا،،،،، پہلے یہ گزر چکا ہے کہ سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کا خوشامدی اور وہ سلطان کے آگے زرخرید غلاموں کی طرح حرکتیں کر کر کے بہت خوش ہوتا تھا ،اس کے مقابلے میں سالار اوریزی خوددار اور باوقار سالار تھا ،جس کی اپنی ایک آزاد شخصیت تھی ،وہ سلطان کا ہر حکم صرف اس لیے نہیں مانتا تھا کہ یہ سلطان کا حکم ہے ،بلکہ وہ دیکھتا تھا فوجی نقطہ نگاہ سے یہ حکم سلطنت کے لیے نقصان دہ تو نہیں یہ سالار اوریزی کا ایمان تھا ،لیکن سپہ سالار حجازی اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا تھا۔
سپہ سالار حجازی وہاں سے سلطان برکیارق کے ہاں گیا اور اپنے آنے کی اطلاع دی۔ سلطان نے اسے اسی وقت اندر بلا لیا وہ اندر گیا اور رکوع میں جاکر سلطان کو سلام کیا۔
کام کر آئے حجازی!،،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا ۔۔۔۔۔دیکھنے والوں پر دہشت تو طاری ہوگئی ہوگی،،،، اب کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔ 
گستاخی معاف سلطان محترم!،،،،، سپہ سالار حجازی نے سلطان کے اشارے پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی۔
کیوں؟،،،،،، سلطان نے بدک کر پوچھا۔۔۔۔حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوسکی ؟
دونوں جلاد تیروں سے مارے گئے ہیں۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے کہا۔
 کس نے مارے ہیں؟،،،،، سلطان برکیارق نے پوچھا۔۔۔ کون تھے وہ تیرانداز،،،، کیا انہیں آپ نے پکڑ لیا ہے؟ 
سپہ سالار حجازی نے سلطان کو پورا واقعہ تفصیل سے سنایا اور سالار اوریزی کے خلاف بغاوت کا جرم ثابت کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کہا ۔
سلطان عالی مقام !،،،،،حجازی نے کہا۔۔۔وہ تو کبھی کا میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میں سلطان کا یہ حکم نہ مانوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے ،یہ دونوں تیرانداز اسی کے تھے۔
یہ جرات ۔۔۔سلطان برکیارق نے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ مجال ؟،،،،،،،،،،،اسے قید خانے کے تہہ خانے کی اس کوٹھری میں بند کردو جس میں سب سے زیادہ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔
اس نے سلطان کی توہین کی ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اسے عبرت کا نشان بنا دو،،،،،ہم یہاں بلا کر اسے سزا دلائیں گے، اسے زنجیروں میں باندھ کر یہاں سے بھیجیں گے، آپ اسے بازار میں سے گزارنا اور کسی چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو اکٹھا کر لینا اور اعلان کرنا کہ یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے، اسے ابھی بلایا جائے ۔
ہاں!،،،،،اسے ابھی بلایاجائے۔۔۔ سلطان برکیارق نے اپنی بیوی کا حکم دہرایا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جس وقت سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کی طرف چلا تھا اس وقت نائب سالار اوریزی اپنے ٹھکانے کی طرف چلا گیا تھا، اس نے فوج کو واپس بارکوں میں بھیج دیا تھا،وہ جب وہاں سے چلا تو اس کے ساتھ چار پانچ آدمی اس نفری میں سے تھے جسے فوج میں سے نکل جانے کا حکم ملا تھا ،وہ ابھی تک خیموں میں رہتے تھے۔
میرے رفیقو!،،،،، سالار اوریزی نے ان چار پانچ آدمیوں سے کہا۔۔۔توقع تو یہ ہے کہ مجھے جلاد کے حوالے کیا جائے گا، یا عمر بھر کے لئے قید خانے میں پھینک دیا جائے گا، دونوں صورتوں میں مجھے پہلے قید خانے میں لے جائیں گے، میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تم نے کیا کرنا ہے، میں تمہیں یہ بھی بتاؤں گا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گا تو تم نے اس ثابق فوجیوں کو اور شہر کے ہم خیال لوگوں کو اپنے ساتھ کس طرح ملانا ہے، ہم بہت سا کام تو کرہی چکے ہیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ تم میری قیادت سے محروم ہو جاؤ گے تو حوصلہ ہی نہ ہار بیٹھو ۔
ہم آپ کی قیادت سے محروم نہیں رہیں گے۔۔۔ ایک ادھیڑ عمر فوجی نے کہا۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آپ کو جلاد تک پہنچنے ہی نہیں دیں گے ۔
اوریزی نے انہیں کچھ ہدایات دینی شروع کردیں۔
میں راز کی ایک بات تمہیں آج بتا دیتا ہوں۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ سلطان ملک شاہ مرحوم کا دوسرا بیٹا محمد اور اس سے چھوٹا سنجر ہمارے ساتھ ہیں، اب میری گرفتاری کے بعد جو کچھ بھی ہو گا اس کی اطلاع محمد رے تک پہنچائے گا ،میں نہ ہوا تو ابومسلم رازی تمہارا سالار اورقائد ہوگا۔ 
سالار اوریزی اپنی ہدایات مکمل کر چکا تھا کہ اطلاع ملی کہ سلطان کا بلاوا آیا ہے۔
میں جاتا ہوں ۔۔۔سالار اوریزی نے اپنے آدمیوں سے کہا۔۔۔گھوڑے تیار کرو اور دو آدمی میرے محافظ بن کے میرے ساتھ چلو، سالار اپنے محافظ ساتھ لے جا سکتا ہے، مجھے اب سزا سنائی جائے گی جس کا دونوں محافظوں کو ہی پتہ چل جائے گا وہ وہاں سے کھسک آئیں گے اور یہاں بتائیں گے کہ مجھے کیا سزا سنائی گئی ہے، پھر تم لوگوں نے اپنی کارروائی کرنی ہے میں جارہا ہوں،،،،،،،،اللہ تمہارا مددگار ہے۔
سالار اوریزی اپنے ان آدمیوں سے ہاتھ ملا کر باہر نکلا ،دومحافظ تیار ہوچکے تھے سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا جب وہ حویلی کے بڑے دروازے کے سامنے سے گزرنے لگا تو اس کی بیوی اور ایک جوان بیٹی اس کے راستے میں آگئیں ،بیٹی نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔
نہ جائیں!،،،،،، بیٹی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ آپ کیا کر آئے ہیں ،سلطان آپ کی جان بخشی نہیں کرے گا، یہیں سے کسی طرف بھاگ جائیں ہم آپ کے پیچھے پہنچ جائیں گے۔
میں آپ کو یہاں سے نکلوا دیتی ہوں۔۔۔ بیوی نے کہا۔۔۔سلطان کے سامنے نہ جائیں وہ آپ کی وفا کی کوئی قیمت نہیں دے گا، وہ آپ کی گردن کٹوا دے گا۔
بیٹی رو رو کر اسے روک رہی تھی، لیکن اوریزی مسکرا رہا تھا ۔
پریشان نہ ہو بیٹی!،،،،، سالار اوریزی نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔میں جو کچھ کررہا ہوں مجھے کرنے دو ،،،،وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا،،، میں جانتاہوں تم بڑے ہی حوصلے اور جرات والی عورت ہو ،میں جو کچھ کررہا ہوں سوچ سمجھ کر اور اللہ پر بھروسہ رکھ کر کر رہا ہوں، اندر جاؤ اور میرے لئے دعا کرو۔
ماں بیٹی روتی رہیں، اسے روکتی رہیں لیکن سالار اوریزی انہیں خدا حافظ کہہ کر چلا گیا، دومحافظ اس کے پیچھے پیچھے گھوڑوں پر سوار جارہے تھے ،بیٹی اور اس کی ماں نے ہاتھ پھیلا کر اور آسمان کی طرف دیکھ کر اس کی سلامتی کی دعائیں مانگی، ان کی آہوں اور ان کے آنسوؤں میں بھی دعائیں تھی۔ 
وہ سلطان کے محل میں جا پہنچا اور اندر اطلاع پہنچائی ،اسے فوراً بلا لیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سالار اوریزی جب سلطان برکیارق کے سامنے گیا تو جھکا نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرح السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
سلطان نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا اور اسے بیٹھنے کو بھی نہ کہا ۔
کیا یہ سچ ہے کہ تم نے دونوں جلادوں کو تیر اندازوں سے مروا دیا ہے؟،،،،،سلطان نے اس سے پوچھا۔
ہاں سلطان محترم !،،،،،سالار اوریزی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔۔۔ جلادوں کو میں نے مروایا ہے ۔
کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ ان دو سپاہیوں کو میرے حکم سے سزائے موت دی جا رہی تھی؟،،،،، سلطان برکیارق نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔ 
معلوم تھا سلطان محترم!،،،،، سالار اوریزی نے جواب دیا۔
پھر تم نے میرے حکم کی تعمیل میں یہ رکاوٹ کیوں ڈالی؟،،،،،سلطان نے گرج کر پوچھا۔
اس لئے کہ کسی کو سزائے موت دینے کا جو حکم اللہ نے دیا ہے آپ نے اس حکم کے تقاضے پورے نہیں کیے تھے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ آپ ان دو معصوم اور بے گناہ سپاہیوں کو نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حکم کو قتل کروا رہے تھے ۔
یہاں میرا حکم چلتا ہے۔۔۔۔سلطان برکیارق نے اپنی ران پر بڑے زور سے ہاتھ مار کر کہا۔
اور میں بحیثیت ایک مسلمان صرف اللہ کا حکم مانتا ہوں۔۔۔۔یہ سلطنت آپ کی نہیں یہ اللہ کی دی ہوئی سلطنت ہے، اسلامی سلطنت میں صرف اسلامی قانون چلے گا، آپ مجھے حکم دیں کہ اپنے پیٹ میں تلوار گھونپ دو کہ اس سے سلطنت کو فائدہ پہنچے گا، تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا ۔
تم زبان دراز ہو۔۔۔ روزینہ بولی۔۔۔ اس سلطنت میں کوئی زبان دراز نہیں رہ سکتا، تم سالاری کے قابل نہیں۔
محترمہ!،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ یہ الموت نہیں یہ مرو ہے، یہ باطنیوں کی نہیں مسلمانوں کی سلطنت ہے، یہاں حسن بن صباح کا حکم نہیں چلے گا ۔
خاموش بدتمیز !،،،،،،،،،سلطان برکیارق اور زور سے گرجا ۔۔۔۔میں تمہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دوں گا کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں گے۔
کان کھول کر سن لو سلطان!،،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے،،،،، میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں تمہارے جلاد کے ہاتھوں سر کٹواوں گا اللہ کے حضور سرخرو ہو جاؤنگا، میں صرف اللہ کے آگے جوابدہ ہوں۔
اس گستاخ زبان داز کو سالاری سے معزول کردییں۔۔۔۔۔ روزینہ نے کہا۔ 
نہیں روزینہ!،،،،،، سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔میں اسے صرف معزول نہیں کروں گا، اسے اور بھی سزا دینی ہے۔
مجھے سالاری تم نے نہیں تمہارے باپ نے دی تھی۔۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔تم مجھ سے سالاری چھین لوگے تو بھی میں اپنی قوم کا سالار ہی رہوں گا ،اور اس سلطنت کی عظمت اور بقا کے لئے اپنے فرائض پورے کرتا رہوں گا ،میں ان شہیدوں کی روحوں کے آگے جوابدہ ہوں جن کا خون اس سلطنت کی بنیادوں میں ابھی تک تازہ ہے۔
 میں اپنی اس سے زیادہ توہین برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔سلطان برکیارق نے قہر آلود آواز میں کہا۔۔۔۔ اور سن لو اوریزی،،،،،،،،، 
یہ عورت !،،،،،،،سالار اوریزی نے روزینہ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔۔ یہ عورت سلطان کی سراپا توہین ہے، یہ آستین کا سانپ ہے، پھر اس نے سپہ سالار حجازی کی طرف اشارہ کرکے کہا،،،،،،،،، اور سلطان کی آستین میں دوسرا سانپ یہ شخص ہے، یہ تمہیں آنے والا وقت بتائے گا۔
سلطان المقام !،،،،،،سپہ سالار حجازی تڑپ کر بولا ۔۔۔۔اسے آپ مزید توہین کی اجازت نہ دیں، اور اسے سزا سنادیں۔
 ہاں سلطان !،،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔۔ اسے سزائے موت نہ دیں عمر بھر کے لئے قید خانے میں ڈال دیں، جہاں یہ گل سڑ کر مرے گا ،مرنے سے پہلے اسے وقتاً فوقتاً باہر نکالیں اور بیڑیاں ڈال کر شہر کے لوگوں کے سامنے کھڑا کریں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ ہے سزا باغی اور غدار کی۔
سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کو یہی سزا سنا دی اور کہا کہ اس کی تلوار اس سے لے لی جائے ۔
سالار اوریزی نے اپنی تلوار اور نیام اتارکر سلطان کی طرف پھینک دی۔
 یہ لو تلوار سلطان !،،،،،سالار اوریزی نے کہا۔۔۔۔ میں اس وقت جہاد کے میدان میں اترا تھا جب تم ابھی ماں کا دودھ پی رہے تھے۔۔۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر کے کہا،،،،،،،یہ ہاتھ تلوار سے کبھی خالی نہیں رہیں گے، جذبہ اور ایمان زندہ رہنا چاہیے، ان ہاتھوں میں اللہ تعالی خود تلوار دے گا۔
 سلطان برکیارق نے قہقہہ لگایا اور روزینہ کی طرف دیکھا، روزینہ بھی ہنس پڑی۔
 اس شخص کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا ہے۔۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔۔ میں اسے اس کال کوٹھری میں بھجوا رہا ہوں جہاں یہ ایک سال بھی زندہ نہیں رہے گا، اور یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کے ہاتھ میں تلوار دے گا، او بد قسمت انسان تلوار اگر کبھی تمہارے پاس آئی بھی تو وہ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ جلاد کے ہاتھ میں ہوگی اور تمہارا سر جھکا ہوا ہوگا ،،،،،لے جاؤ اسے۔
ٹھہرجاؤ !،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔۔ ہمارے سامنے اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھو اور باہر لے جا کر اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو، گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں بلکہ پیدل لے کر جاؤ ،اور اتنا آہستہ چلنا کہ لوگوں کا ہجوم تمہارے پیچھے اکٹھا ہو جائے اور پھر اسے چوک میں کھڑا کر کے لوگوں کو بتانا کہ غداری اور بغاوت کی سزا یہ ہے، اور پھر اسے چوک سے فوراً آگے نہ لے جانا ،زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھیں۔
سپہ سالار حجازی دوڑتا باہر نکلا واپس آیا اور اس کے ساتھ سلطان کے دو محافظ تھے، انہوں نے زنجیریں اور بیڑیاں اٹھا رکھی تھیں جو اوریزی کو ڈال دی گئی۔
لے جاؤ اسے۔۔۔۔ سلطان برکیارق نےکہا۔
سلطان !،،،،،،سالار اوریزی نے مسکرا کر کہا۔۔۔ میں واپس آؤنگا،،،،،، انشاءاللہ اس وقت تم سلطان نہیں ہو گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار اوریزی کو جب باہر لایا گیا تو اس کے دونوں گھوڑسوار محافظ ذرا دور کھڑے دیکھ رہے تھے، اپنے سالار کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ اسے قید خانے میں لے جایا جارہا ہے، وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور وہاں سے چلے گئے۔
زنجیر کا ایک سرا سپہ سالار حجازی کے ہاتھ میں تھا جو اس نے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا ،اس نے بارہ گھوڑسوار محافظ اپنے ساتھ لے لیے اور وہاں سے چل پڑا۔
آگے آگے وہ جا رہا تھا اس کے گھوڑے کے ساتھ بندھا ہوا سالار اوریزی پیدل چلا جا رہا تھا، اور پیچھے بارہ محافظ چل رہے تھے۔ سلطان کے محل سے نکل کر سپہ سالار حجازی اس راستے پر ہو گیا جس راستے میں شہر کی آبادی زیادہ تھی، شہر کے کئی لوگ سالار اوریزی کو جانتے اور پہچانتے تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ اوریزی کو زنجیروں میں بندھا لے جایا جا رہا ہے تو لوگ پہلے تو حیران ہوئے پھر پیچھے پیچھے چل پڑے، وہ محافظوں سے پوچھتے تھے کہ سالار اوریزی نے کیا جرم کیا ہے،،،،، محافظ لوگوں کو صرف یہی ایک جواب دیتے تھے کہ سالار اوریزی نے بغاوت اور غداری کی ہے۔
قیدخانہ شہر سے باہر اور کچھ دور تھا اس کے ارد گرد گھنا جنگل اور راستے میں تھوڑا سا علاقہ چٹانی بھی تھا، قید خانے تک باہر باہر سے جایا جا سکتا تھا لیکن سپہ سالار حجازی اوریزی کو شہر میں لے گیا اور ایک ایسے چوک میں جا روکا جہاں چار بازار ملتے تھے، کچھ تو راستے میں لوگ پیچھے پیچھے چل پڑے تھے اور زیادہ تر بازار میں آنے والے لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے ،سپہ سالار حجازی نے لوگوں سے کہا کہ اسے لمبی میز کی ضرورت ہے،ذرا سے وقت میں ایک لمبی اور مضبوط میز آگئی ،یہ میز چوک میں رکھ کر سالار اوریزی کو اس پر کھڑا کر دیا گیا اور حجازی خود گھوڑے سے اتر کر میز پر اوریزی کے پاس جا کھڑا ہوا، اوریزی کی زنجیر اس کے ہاتھ میں تھی، گھوڑسوار محافظوں نے اپنی ترتیب اس طرح کرلی کہ دائرے میں ذرا دور دور کھڑے ہوگئے تاکہ لوگ آگے نہ جا سکیں۔
 اگر اوریزی چور ڈاکو یا قاتل ہوتا تو لوگ اسے دیکھ کر ہنستے اس پر لعن طعن کرتے، لیکن لوگ جانتے تھے کہ یہ سالار اوریزی ہے، اس لئے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ اس سالار سے کیا جرم سرزد ہوگیا ہے۔
 اسی صبح جب دو سابق فوجیوں کو سزائے موت دی جانے لگی تھی شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو ایک ہجوم یہ تماشہ دیکھنے پہنچ گیا تھا، وہ تو کوئی اور تماشہ دیکھنے آئے تھے لیکن وہاں کوئی اور ہی تماشہ ہو گیا ،وہاں جلاد ہی مارے گئے اور لوگوں نے سالار اوریزی کو دیکھا کہ وہ گھوڑا دوڑاتا مرے ہوئے جلادوں کے پاس جا پہنچا اور اس نے مارے جانے والے دونوں آدمیوں کو آزاد کردیا تھا ،لوگ سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے، اب جس وقت وہ سالار اوریزی کو زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھا دیکھ رہے تھے اس وقت تک بیشتر لوگوں کو پتہ لگ چکا تھا کہ یہ دونوں آدمی بے گناہ تھے جنہیں سالار اوریزی نے رہا کروایا تھا ،اس سے لوگوں کے دلوں میں سالار اوریزی کا احترام پیدا ہوگیا تھا۔ 
سپہ سالار حجازی نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے، لوگ خاموش ہوگئے۔
 اس شخص کو اچھی طرح پہچانو یہ کون ہے۔۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے سالار اوریزی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔۔ اسے سلطان محترم نے عمر قید کی سزا دی ہے،،،،، جانتے ہو کیوں؟،،،، یہ سلطان کا باغی اور غدار ہے، یہ شخص قاتلوں کا ساتھی ہے اس نے دو قاتلوں کو سزائے موت سے چھڑوانے کے لیے دو جلادوں کو قتل کروایا ہے،  یہ فوجی بغاوت پیدا کر رہا تھا۔
 اور میرے ساتھ اس سپہ سالار کو بھی پہچان لو ۔۔۔۔اوریزی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔یہ عیاش سلطان برکیارق کا پجاری ہے، مجھے سلطان نے غدار نہیں کہا بلکہ اسکی باطنی بیوی نے کہا ہے، یہ سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کی اس باطنی بیوی کے آگے سجدہ کرتا ہے۔ 
خاموش رہ غدار !،،،،،،حجازی نے اوریزی کو ڈانٹ کر کہا۔۔۔۔ اپنے گناہوں پر جھوٹ کا پردہ مت ڈال ،ورنہ یہی زبان کھینچ لوں گا۔
بولنے دو اسے۔۔۔۔ ہجوم میں سے کچھ آوازیں سنائی دیں ۔۔۔اسے بولنے دو، ہمیں پتہ چلنے دو ہوا کیا ہے۔ 
سپہ سالار حجازی نے دیکھا کہ لوگوں کا رد عمل اور رویہ کچھ اور ہے تو وہ ذرا دب گیا، ہجوم اب شور بپا کرنے لگا تھا کہ اور اسی کو بولنے دیا جائے، صاف پتہ چلتا تھا کہ لوگوں کی ہمدردیاں اوریزی کے ساتھ ہیں۔
میں نے آج صبح دو بےگناہوں کو جلادوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا ہے۔۔۔ اوریزی نے بلند آواز میں کہا۔۔۔ انہیں ایک فوجی عہدیدار کا قاتل نہ ملا تو سلطان نے بلکہ سلطان کی بیوی نے یہ فیصلہ سنایا کہ سابق فوجیوں میں سے کوئی دو فوجی پکڑ لئے جائیں اور ان کی گردنیں کاٹ دی جائیں اور لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ دو آدمی قاتل تھے ۔
اے لوگو !،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔اس کی مت سنو یہ تو دھتکارا ہوا مجرم ہے۔
لوگ شور بپا کیے جارہے تھے، سپہ سالار حجازی کے لیے حکم تھا کہ اوریزی کو زیادہ سے زیادہ دیر چوک میں کھڑا رکھا جائے ،مقصد اس کی تذلیل تھی، خود حجازی بھی یہی چاہتا تھا کہ اوریزی کو خوب ذلیل و خوار کیا جائے، لیکن اب لوگوں نے کچھ اور ہی انداز سے واویلا بپا کردیا تھا، وہ سوچنے لگا کہ اوریزی کو فوراً قید خانے تک پہنچا دیا جائے لیکن وہ روزینہ سے ڈرتا تھا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اوریزی کو زیادہ دیر چوک میں کھڑا نہیں رکھا گیا تو وہ ناراض ہو گی۔
اے اہل اسلام!،،،،، سالار اوریزی نے بڑی بلند آواز میں کہا۔۔۔۔ اس اسلامی سلطنت کی حفاظت کے لیے بیداراورچوکس ہوجاؤ ،حسن بن صباح آرہا ہے، اس شہر میں باطنی چلے آرہے ہیں وہ تخریب کاری کے لیے آئے ہیں اور آرہے ہیں، سلطنت کی اصل حکمران ایک باطنی عورت ہے ،اور سلطان برکیارق برائے نام سلطان ہے ،اس سلطنت سے عدل و انصاف اٹھ گیا ہے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس وقت جب سالار اوریزی کو چوک میں کھڑا کرکے ذلیل و رسوا کیا جا رہا تھا اس سے کچھ دیر پہلے سلطان برکیارق کی ماں اور اس کے دوسرے دونوں بیٹوں محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ سالار اوریزی کو یہ سزا دی گئی ہے اور اس کا اصل جرم کیا ہے، محمد اور سنجر تو خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے، لیکن ان کی ماں سے نہ رہا گیا وہ غصے سے اٹھی اور باہر نکلی، ایک خادم آرہا تھا اس نے برکیارق کی ماں کو دیکھا تو رک گیا۔
مادر سلطان !،،،،اس خادم نے کہا۔۔۔ میں بازار سے آرہا ہوں، سالار اوریزی کو سپہ سالار حجازی نے چوک میں کھڑا کر رکھا ہے ،اور وہاں لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں۔
تو اس بیچارے کو ذلیل بھی کیا جارہا ہے۔۔۔ ماں نے حیرت سے کہا۔۔۔ وہ اپنے بیٹے سلطان برکیارق کے کمرے کی طرف لمبےلمبے ڈگ بھرتی چل پڑی۔
ہے کہاں میرا بیغیرت بیٹا !،،،،،ماں کہتی چلی جارہی تھی۔۔۔ میں نے تو حلال کا جنا تھا، اس کے باپ کو دھوکا نہیں دیا تھا ،میں نے اپنی اولاد کے خون میں ملاوٹ نہیں کی تھی، اس کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی اور کہہ رہی تھی،،،،،، کیا اس نے اوریزی کو گرفتار کرلیا ہے ؟،،،،،،یہ اس باطنی چڑیل کا کام ہے۔
روزینہ اپنے کمرے میں تھی، اسے برکیارق کی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، اس نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا اسے برکیارق کی ماں آتی نظر آئی، روزینہ نے بڑی تیزی سے ایک طرف جا کر دربان کو بلایا ۔
اسے روک لو۔۔۔ روزینہ نے دربان سے کہا۔۔۔ کہنا سلطان سو رہے ہیں، اسے اندر نہ آنے دینا۔
دربارن برکیارق کی ماں کے راستے میں کھڑا ہوگیا اور اسے روک دیا ،یہ بھی کہا کہ سلطان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ سو رہے ہیں، لیکن ماں نے اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور آگے کو چل پڑی ۔
روزینہ بہت ہی چالاک لڑکی تھی اس نے دیکھا کہ ماں روک نہیں رہی تو وہ دوڑی آئی، باہر نکلی اور برکیارق کی ماں کے آگے جا کھڑی ہوئی اور بڑے پیار سے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اتنے غصے میں ہیں؟ 
کیا تمہارے دربان مجھے روک لیں گے۔۔۔ ماں نے غصے کے عالم میں کہا۔۔۔۔ روزینہ نے دربان کو ڈانٹ کر کہا کہ اس نے انہیں روکا کیوں ہے، کیا وہ بھول گیا ہے کہ یہ عظیم خاتون کون ہیں؟،،، دربان خاموش کھڑا روزینہ کا منہ دیکھتا رہا ۔
کیا برکیارق سویا ہوا ہے؟،،،، ماں نے روزینہ سے پوچھا۔
اگر وہ سوئے ہوئے ہیں تو بھی آپ کے لیے جاگ اٹھیں گے۔۔۔ روزینہ نے احترام کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔آپ میرے کمرے میں آ کر بیٹھیں میں انہیں اٹھا کر یہی لے آؤں گی ،ماں روزینہ کی باتوں میں آ گئی اور اس کے ساتھ اس کے کمرے میں جا بیٹھی، روزینہ کمرے سے نکل گئی اور سلطان برکیارق کے پاس چلی گئی، اسے بتایا کہ اس کی ماں واہی تباہی بکتی آئی ہے، اور اس نے ماں کو دوسرے کمرے میں ذرا ٹھنڈا کرکے بیٹھا لیا ہے۔
تو میں اس کا کیا علاج کروں؟،،،، برکیارق نے پوچھا ۔
وہ ماں ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اس کا احترام ہم پر فرض ہے، لیکن وہ ایک باغی اور غدار سالار کا ساتھ دے رہی ہے، آپ سلطنت کے مفاد کو دیکھیں گے یا ماں کے احترام کو۔
میں تو سلطنت کے مفاد کو پہلے دیکھوں گا۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں ماں کے سامنے جاؤں یا نہ جاؤں؟ 
آپ یہاں سے ادھر ادھر ہو جائیں تو اچھا ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔
 ادھر محمد اور سنجر کو پتہ چلا کہ ان کی ماں بڑے غصے میں برکیارق کی طرف گئی ہے تو انہیں فکر ہوا کہ برکیارق اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے گا، دونوں ماں کے پیچھے دوڑ پڑے، وہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کی ماں فلاں کمرے میں ہے، وہ دونوں اس کمرے میں گئے تو ماں کو بڑے غصے میں ٹہلتے دیکھا۔
چلو ماں!،،،،،محمد نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔یہاں آپ کیا لینے آئی ہیں، آپ کے اس بیٹے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔
میں اس کا دماغ ٹھیک کرنے آئی ہوں۔۔۔ ماں نے کہا۔۔۔ میں نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا۔
 ہم دونوں بھائی کریں گے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ ہم نے انتظام کردیا ہے آپ یہاں سے چلیں۔
ماں جانے پر راضی نہیں ہو رہی تھی، محمد اور سنجر کی بہت  باتوں اور منت سماجت کے بعد وہ اس پر راضی ہوئی کہ وہ اسی کمرے میں بیٹھی رہے گی اور دونوں بھائی برکیارق کے پاس جائیں گے ۔
میں اس کے پاس کیوں نہ جاؤں؟،،،، ماں نے پوچھا۔
میں بتاتا ہوں آپ کیوں نہ جائیں۔۔۔ سنجر بولا۔۔۔ اگر ہمارے اس بڑے بھائی برکیارق نے ہمارے سامنے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں اسے یہیں ختم کر دوں گا، کیا آپ اپنے ایک بیٹے کو دوسرے بیٹے کے ہاتھوں مروانا پسند کریں گی؟ 
وہ آخر ماں تھی، اس پر سنجر کی اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس کا منہ ذرا کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر گئیں، وہ آہستہ سے بیٹھ گئی اور اس نے سر سے اشارہ کیا کہ تم جاؤ میں یہیں بیٹھوں گی۔
محمد اور سنجر برکیارق سے ملنے کمرے سے نکل گئے، ماں اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر رونے لگی، اس نے آہ لے کر کہا ،یہ وقت بھی دیکھنا تھا ۔
آؤ بیٹھو!،،،،، برکیارق نے اپنے بھائیوں سے کہا اور پوچھا؟،،،،، ماں کو کیا ہوگیا ہے، سنا ہے وہ چیختی چلاتی یہاں آئی ہے، وہ پاگل تو نہیں ہوگئی ؟
ابھی ہوئی تو نہیں بھائی جان!،،،،، محمد نے کہا ۔۔۔ہوجائےگی ۔
جلدی پاگل ہوجائے گی۔۔۔ سنجر نے کہا۔
ابھی تو وہ مجھے پاگل سمجھتی ہے۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ اب وہ کیا کہنے آئیں ہیں؟ وہ سلطنت کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتی ۔۔۔محمد نے پراعتماد اور دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔سالار اوریزی کو آپ نے یہ سزا دے کر اچھا نہیں کیا۔ 
کیوں روزینہ !،،،،،برکیارق نے روزینہ کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔انہیں بتاؤ کہ اوریزی نے کیا جرم کیا ہے۔
ہم آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں بھائی جان!،،،،، سنجر نے کہا ۔
تم ابھی بہت چھوٹے ہو سنجر!،،،،، برکیارق نے کہا ۔۔۔سلطنت کے کاموں کو ابھی تم نہیں سمجھ سکتے۔
لیکن میں ایک بات سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ سنجر نے کہا۔۔۔۔جو مرد اپنی بیوی کا غلام ہو کر اپنے گھر کے سارے معاملات اور فیصلے اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اس کے گھر میں تباہی، ذلت اور خواری کے سوا کچھ نہیں رہتا، لیکن آپ نے گھر کے نہیں بلکہ اتنی بڑی سلطنت کے معاملات اور فیصلے اپنی بیوی کے ہاتھ میں دے دیے ہیں، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک قابل تجربے کار اور جذبے والا سالار ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے، اور اسے عمر قید دے دی گئی ہے۔
تم دونوں بھائی میری ایک بات غور سے سن لو۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔روزینہ میرا دماغ ہے میرے کان اور میری آنکھیں بھی روزینہ ہے،،،،،، 
سلطان محترم !،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ یہ بات آپ فخر سے نہ کہیں ،یوں کہیں کہ اللہ نے آپ کے دماغ پر مہر لگا دی ہے، اور ایک مشکوک لڑکی کے ہاتھوں آپ کی سوچنے کی طاقت ختم کر ڈالی ہے، آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی ہے۔
 کیا بک رہے ہو محمد !،،،،،برکیارق نے ڈانٹ کر کہا۔
میں بک نہیں رہا ۔۔۔محمد نے کہا ۔۔۔میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو اللہ نے قرآن میں کہی ہے، وہ یہ ہے کہ ان گناہ گار لوگوں پر جو اپنے گناہوں پر فخر کرتے ہیں اللہ نے یہ لعنت نازل کی ہے کہ ان کے دماغوں کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے،،،،،،،، آپ نے اپنے اوپر شیطان کو مسلط کر لیا ہے۔
آپ کی آنکھیں اس وقت کھلیں گیں جب سلطنت سلجوقیہ پر باطنیوں کا قبضہ ہوچکا ہوگا ۔۔۔سنجر نے کہا ۔
آپ کی جگہ حسن بن صباح بیٹھا ہوا ہوگا۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔ اور آپ کی لاش بھی نہیں ملے گی، اور یہاں آپ کی اس بیگم کی حکمرانی ہوگی، اپنی آنکھوں سے پٹی کھولیں بھائی جان۔
میں یہاں سے چلی جاتی ہوں۔۔۔ روزینہ نے منہ بسور کر کہا۔۔۔ان لوگوں کو میرا وجود اچھا نہیں لگتا۔
روزینہ دروازے کی طرف چل پڑی، سلطان برکیارق اس کے پیچھے دوڑا لیکن وہ دروازے سے نکل گئی اور اپنے کمرے میں پلنگ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی۔
برکیارق بے تاب ہو کر اسے منانے بیٹھ گیا، لیکن روزینہ ہچکیاں لے لے کر رورہی تھی، آخر برکیارق نے اسے اٹھا لیا۔
میری وجہ سے آپ کی ماں آپ کے خلاف ہو گئی ہے ۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ آپ کے بھائی آپ کے دشمن ہو گئے ہیں ،مجھے آپ کی اور اس سلطنت کی سلامتی چاہیے، میں تارک الدنیا ہو کر کسی غار میں جا بیٹھوں گی اور آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لئے دعا کرتی رہا کروں گی۔
برکیارق اتنی بڑی سلطنت کا سلطان تو بن گیا تھا لیکن وہ نہ سمجھ سکا کے چالاک اور عیار عورت جب چاہے اپنے آنسو نکال سکتی ہے، یہ تو قلعہ الموت کی تربیت یافتہ لڑکی تھی ۔
تم بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ جو فیصلہ تم کرو گی میں اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کو سنا دوں گا۔
میری اپنی کوئی خواہش نہیں ۔۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ سلطنت کے معاملے میں پوری دلچسپی لیں اور اسی طرح فیصلے کرتے رہیں جس طرح آپ نے اس سالار کو سزا سنائی ہے، میں تو آپ کو روحانی سکون دے رہی ہوں، مگر آپ کی ماں اور بھائی یہ سکون تباہ کر رہے ہیں، یہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔
تو پھر تم چپ رہو ۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔ اگر میری ماں کا منہ بند نہ ہوا تو میں اسے نظر بند کردوں گا۔
روزینہ کے ہونٹوں پر تبسم آگیا اور برکیارق کی جان میں جان آئی ۔
اپنے بھائیوں کو چلتا کریں ۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ انہیں کہیں کہ وہ ایک باغی اور غدار سالار کی حمایت نہ کریں ورنہ تمہیں بھی وہیں پہنچا دیا جائے گا جہاں اسے پہنچا دیا گیا ہے۔
سلطان برکیارق لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس کمرے میں گیا جہاں وہ اپنے دونوں بھائیوں کو بیٹھا چھوڑ گیا تھا ،بھائی وہاں نہیں تھے وہ اس کمرے میں گیا جہاں اس کی ماں بیٹھی تھی، ماں بھی جا چکی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی