🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اکتالیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابومسلم رازی نے محمد اور حمیرا کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا اور خود گہری سوچ میں کھو گیا ،محمد محسوس نہ کر سکا کہ اس نے ابومسلم رازی کو مرو کی جو خبر سنائی ہے اس خبر نے اس جہاندیدہ امیر اور حاکم کی ذات میں کیسا تیز و تند طوفان بپا کردیا ہے۔ ابومسلم رازی اس قدر بے چین اور پریشان ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا، وہ رکتا اور ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا اور پھر ٹہلنے لگتا، وہ سلطان ملک شاہ کا دست راست تھا دونوں کا جذبہ ایک اور ایمان ایک تھا ،دونوں باطنیوں کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ حسن بن صباح کا نام آجاتا تو دونوں کا خون کھولنے لگتا تھا،،،،،، سلطان ملک شاہ دنیا سے اٹھ گیا تو اس کے بیٹے نے اس کی گدی پر بیٹھ کر اسی حسن بن صباح اوراسکے فرقے کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ کرلیا تھا،
ابومسلم رازی نے دروازے پر کھڑے دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ مجید فاضل صاحب کو اپنے ساتھ لے آؤ۔
مجید فاضل ایک بہت بڑا عالم دین شخص تھا ،جو دین کے علاوہ سیاست اور امور سلطنت کو بھی خوب سمجھتا اور ان سے متعلق مسائل اور مشکلات کا حل اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں نکال لیا کرتا تھا،اس کا پورا نام جو تاریخوں میں آیا ہے وہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی تھا ،اس نے علم و دانش اور تجربے کی تلاش میں کئی ملکوں کا سفر کیا تھا اور اب وہ رے میں رہتا تھا، ابومسلم رازی خود بھی بڑھاپے کی عمر میں پہنچ گیا تھا اور اپنے علم و فضل سے اس نے بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا ،لیکن مجید فاضل کو اپنا استاد اور بہترین مشیر سمجھتا تھا۔ کوئی مسئلہ پیش آ جاتا تو اسے بلا لیتا یا خود اس کے یہاں چلا جاتا تھا ۔
اس نے دربان سے اتنا ہی کہا تھا کہ مجید فاضل کو اپنے ساتھ لے آؤ، دربان جانتا تھا کہ اس شخصیت کے لئے بگھی لے کر جانا ہے، اور اسے اس سواری پر لانا ہے۔
کچھ دیر بعد بگھی مجید فاضل کو لے آئی، ابومسلم رازی اس کے استقبال کے لیے باہر نکلا اور اسے بڑے احترام اور تعظیم سے اندر لے آیا۔
کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہے ہو۔۔۔مجید فاضل نے اندر آکر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔کوئی پیچیدہ مسئلہ آن پڑا ہے ؟
پیچیدہ نہ ہوتا تو میں آپ کو زحمت نہ دیتا۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ وہ خطرہ جس کے متعلق ہم کئی بار بات کرچکے ہیں ایک سیاہ کالی گھٹا کی طرح سلطنت سلجوقیہ پر چھا گیا ہے، اس گھٹا کے اندر بجلیاں چھپی ہوئی ہیں ،وہ آپ خود جانتے ہیں کہ اب یہ گھٹا خون کا مینہ برسائے گی ۔
کوئی اور اطلاع آئی ہے۔۔۔مجید فاضل نے پوچھا۔
ابومسلم رازی نے وہ ساری صورتحال بیان کر دی جو کچھ دیر پہلے محمد نے اسے سنائی تھی ۔
کیا برکیارق کچھ بھی نہیں سمجھ رہا ؟،،،،مجید فاضل نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،ابومسلم رازی نے جواب دیا ۔۔۔میں خود اس کے ساتھ بات کر چکا ہوں ،محترم جس نے اپنی عظیم ماں کی بات نہیں سنی اور اپنی بیوی کو برتر سمجھا ہے اس پر میری باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے،،،،،،، یہ تو وہی باتیں ہیں جو ہم کئی بار کرچکے ہیں، اب برکیارق فوج کی آدھی نفری نکال رہا ہے، کچھ دنوں بعد باقی فوج میں سے آدھی نفری کو بھی گھر بھیج دے گا، محمد بتاتا ہے کہ ان لوگوں میں جنہیں فوج سے نکالا جا رہا ہے اور شہریوں میں بھی غم و غصہ پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جو قوم کو خانہ جنگی کی طرف گھسیٹیں گے ۔
تم نے کیا سوچا ہے ؟،،،،،مجید فاضل نے پوچھا۔
یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔آپ کو زحمت دینے سے میرا مطلب یہی تھا کہ میں غلط سوچ رہا ہوں تو مجھے روکیں اور اگر میں صحیح بات تک پہنچ رہا ہوں تو میری حوصلہ افزائی کریں یا مجھے کوئی راستہ دکھائیں۔
کیا سوچا ہے؟
خانہ جنگی!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ میں نے محمد سے کہا ہے کہ جن افراد کو فوج سے نکالا جارہا ہے اگر انہوں نے کسی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور انہیں طاقت اور تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی تو میں ان نکالے جانے والوں کو یہاں لے آؤنگا اور ان کی ایک فوج بنا لوں گا، پھر میں برکیارق کی فوج کے مقابلے میں جاؤنگا۔
میں تمہاری سوچ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ مجید فاضل نے کہا ۔۔۔لیکن میں تمہیں پہل کرنے سے روکوں گا ،یہ دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتے ہیں، اگر وہ تشدد اور فوجی کارروائی پر اتر آتے ہیں تو پھر تم اپنا فرض اس طرح ادا کرنا کہ اس سرکاری فوج کا خاتمہ نہ ہو تمہارا مقصد صرف یہ ہوکہ برکیارق کو معزول کرکے محمد کو باپ کی گدی پر بٹھایا جائے۔
میرا مقصد یہی ہے محترم !،،،،،ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک بیٹے کو معزول کرکے اس گدی پر خود بیٹھ جاؤنگا اور دوسرے بیٹوں کو ان کے حق سے محروم کر دوں گا ،محمد اور اس کا بھائی سنجر بڑے ہی عظیم باپ کے بیٹے ہیں، سلطان ملک شاہ اور میں ایک ہی منزل کے مسافر تھے ۔
ابومسلم رازی کی آواز رک گئی اور اس کے آنسو پھوٹ آئے،،،،،
خانہ جنگی ہو کر رہے گی۔۔۔ مجید فاضل نے کہا۔۔۔ مجھے خبریں مل رہی ہیں ،میرے شاگرد میرے جاسوس ہیں، مرو سے مجھے خبریں ملتی رہتی ہے ،حسن بن صباح کے دہشتگرد باطنی شہروں میں بھرتے چلے جارہے ہیں، یہ تو یقینی امر ہے کہ سلطان برکیارق کی بیوی روزینہ حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی ہے، اتنی لمبی عمر کا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میں جتنی تباہی عورت لائی ہے اتنی تباہی ایک دوسرے کے ملکوں پر حملے کرنے والے بادشاہ بھی نہیں لا سکے، میں ہر عورت کی بات نہیں کررہا ،عورت وفادار بیوی بھی ہوتی ہے، اور عورت عظیم ماں بھی ہوتی ہے، اور اپنے دودھ کی دھاروں میں اپنی عظمت اپنے بچوں کی روح میں ڈال دیتی ہے، عورت بہن بھی ہوتی ہے اور جو اپنے بھائیوں کو جہاد پر رخصت کر دیتی ہے، میں اس عورت کی بات کر رہا ہوں جسے تربیت ہی یہ ملتی ہے کہ جس کے پاس دھن دولت ہے تخت و تاج ہے اسے پھانس لو اور کنگال کر کے باہر پھینک دو، حسن بن صباح اپنی تربیت یافتہ لڑکیوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے، یہ تو تم خود جانتے ہو کہ حسین و جمیل نوجوان لڑکی بجائے خود جادو کا اثر رکھتی ہے، میں نئی بات نہیں کہہ رہا ،میں یہ کہہ رہا ہوں کہ برکیارق کو اس لڑکی کے جال سے نہیں نکالا جاسکتا ۔
ایک بات اور ذہن میں آتی ہے۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ اگر اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے، تو آپ کیا مشورہ دیں گے؟
برکیارق کا رد عمل وحشیوں اور درندوں جیسا ہوگا ۔۔۔مجید فاضل نے کہا۔۔۔ وہ پاگل ہو جائے گا ،اپنی ماں تک کو قتل کروا دے گا، اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو قید خانے میں پھینک دے گا، اسے معلوم ہے کہ آپ بھی اس لڑکی کے خلاف ہیں، وہ آپ کو اس رتبے سے معزول کر کے قتل کروا دے گا یا قید خانے میں ڈال دے گا، میرا مشورہ یہ ہے کہ اسکی گمراہی کے نتائج سامنے آنے دیں ،خون بہے گا بہنے دیں تاکہ وہ دیکھے کے اس نے کیا گل کھلائے ہیں اور یہ جو خون بے گناہوں کا بہہ گیا ہے یہ اس کے کرتوت کا نتیجہ ہے، اور وہ اپنے خاندان اور پوری سلطنت کی تباہی کا اکیلا ذمہ دار ہے، اس کی بیوی نہیں، بیوی تو آئی ہی اسی مقصد کے لئے تھی۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کے یہ لڑکی جو اس سلطنت کی ملکہ بن بیٹھی ہے خزانہ خالی کر رہی ہے۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔اور یہ خزانہ قلعہ الموت میں جارہا ہے، ہمیں بہت جلدی کوئی کاروائی کرنی پڑے گی۔
آپ یہ لعنت اپنے سر نہ لیں۔۔۔ مجید فاضل نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح زیادہ جلدی میں ہے ،وہ جو چال ایک لڑکی کے ذریعے چل رہا ہے وہ بہرحال کامیاب ہوگی اسے کامیاب ہونے دیں، اس کے بعد آپ اپنی چال چلیں گے ، یہ ہو گی خانہ جنگی ہی، باطنی خانہ جنگی کے لئے زمین ہموار کر چکے ہیں، آدھی فوج کو نکلوا دینا ان کی پہلی چال ہے، نائب سالار اوریزی جو سوچ رہا ہے اور کر رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے ،آپ تیار رہیں جونہی کوئی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوجائے تو دیکھ لیں کہ آپ یہاں کچھ کر سکتے ہیں یا آپ کو وہاں پہنچنا چاہیے، خانہ جنگی سے نہ ڈرو، یہ میں بتا چکا ہوں کہ خانہ جنگی ہو کر رہے گی، آپ اسے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کہ آپ اپنی توانائی اور اپنے وسائل ضائع کریں گے اور آپ دشمنوں کی نظر میں آجائیں گے اور ایک روز یہ خبر ملے گی کہ رے کا امیر ابو مسلم رازی قتل ہوگیا ہے، محمد یہاں آیا ہے اسے جلدی واپس بھیج دیں اور اسے یہ کہہ دیں کہ مرو میں کسی کو پتہ نہ چلنے دے کہ وہ یہاں آیا تھا۔
ہم اسلام کی سربلندی اور فروغ میں مصروف تھے۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اس سلطنت کو شکست و ریخت سے بچانا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
یہ سارا فتنہ اسلام کی تباہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔۔۔ مجید فاضل نے کہا۔۔۔۔ اسلام ایک مکمل دین ہے، اور یہ اللہ کا اپنا دین ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا، اور باطل کی حکومت اسے کمزور کرتی رہے گی، یہ نہ سمجھو کہ حسن بن صباح کے پاس جو تربیت یافتہ لڑکیاں ہیں وہ صرف اغوا کی ہوئی ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودونصاریٰ نے اپنی کمسن اور انتہائی خوبصورت بچیاں حسن بن صباح کے حوالے کر رکھیں ہیں، وہ اس باطنی ابلیس کی یہ ضرورت پوری کرتے ہیں، یہود و نصاریٰ کو تم ہر دور میں اسلام کی بیخ کنی کے لیے سرگرم دیکھوگے، خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ خود مسلمان اسلام کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔
ان کے دماغوں میں حکمرانی کا بھوت سوار ہوگیا ہے، حکمرانی اور اقتدار اعلی کی ہوس ایسی خطرناک چیز ہے جو دماغ میں داخل ہوجائے تو وہ اس کی خاطر اپنے دشمن کے ساتھ بھی دوستی کرنے سے گریز نہیں کرتا، خلافت اسلام کی مرکزیت کی نشانی تھی لیکن کہاں ہے ہمارا خلیفہ؟،،،،،، برائے نام ایک آدمی خلافت کی گدی پر بیٹھا ہے اور وہ ایسے حالات پیدا کر لیتا ہے کہ وہ مرجائے تو یہ گدی اس کے خاندان میں ہی رہے، شریعت ختم ہو چکی ہے، یہی ایک پابندی تھی ،حسن بن صباح نے یہی کمال کیا ہے کہ شرعی پابندیوں کو ختم کرکے یہ کہا ہے کہ یہ ہے اصل اسلام، انسان کی فطرت کسی پابندی کو قبول نہیں کرتی، یہ ابلیسی طرز فکر ہے جو انسان کو اچھا لگتا ہے، کیونکہ اس میں لذت ہے نشہ ہے اور اس میں کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں،،،،،،،، بہرحال آپ مرو کے حالات پر نظر رکھیں اور تیار رہیں ،میں آپ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا اور مجھے ہر حال میں اور ہر وقت اپنے ساتھ سمجھیں۔
جب ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ابومسلم رازی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت اس سلطان ملک شاہ مرحوم کا بیٹا سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد حمیرا کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھا باتیں کر بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا ،محمد خوبرو جوان اور خوش گفتار تھا اور وہ سلطان کا بیٹا اور موجودہ سلطان کا چھوٹا بھائی تھا ،حمیرا جب اس کے ساتھ اس کمرے میں آئی تھی تو اس پر مرعوبیت طاری تھی اور وہ جھینپی ہوئی تھی، وہ خاص طور پر حسین اور دلکش لڑکی تھی لیکن اسے باطنیوں کی تربیت حاصل نہیں تھی کہ وہ محمد کو مرعوب کرتی۔
محترم رازی نے تمہارے متعلق بہت ہی مختصر بات کی ہے۔۔۔ محمد نے حمیرہ سے کہا۔۔۔میں ساری بات تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں۔
حمیرا پر جو بیتی تھی وہ اس نے ہر ایک تفصیل کے ساتھ سنا دی ،اس کے آنسو بھی نکلے اس نے آہ بھری، اور انتقام کے جذبے کا غلبہ ہوا تو اس کے چہرے پر سرخی آ گئی اور اس کے دانت پسنے لگے۔
اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ اگر انتقام لینا چاہتی ہو تو مردوں کی طرح حوصلہ مضبوط کرو ،عورتوں کی طرح رو نہیں ۔
لیکن میں اکیلی کیا کر سکتی ہوں؟،،،،،، حمیرا نے کہا۔
بہت کچھ کر سکتی ہو۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔تم میں مردوں والی ہمت ہے، لیکن ہم مرد جب تک زندہ بیدار ہیں ہم کسی عورت کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے، تم نے میری باتیں سنی ہے جو میں محترم رازی کو سنانے آیا تھا، تم نے محسوس کیا ہوگا کہ میرا اور تمہارا جذبہ ایک ہے، اسلام کو اور اس سلطنت کو میرا بڑا بھائی نقصان پہنچا رہا ہے، اسی لیے میں اپنے سگے بھائی کو دشمن کہہ رہا ہوں، ہم اس سلطنت کو اسلام کا قلعہ بنا چکے تھے میرے والد مرحوم کا مقصد ہی یہی تھا مگر ان کی وفات کے بعد حالات نے کچھ اور ہی پلٹا کھایا،،،،،، میری عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ میں دانشوروں اور عالموں کی طرح بات کر سکوں، میں تمہیں صرف یہ کہوں گا کہ جس طرح تم نے خوف کو قبول نہیں کیا اسی طرح اپنے آپ کو ہمیشہ بے خوف اور نڈر رکھنا ،اگر تم پر خوف کا غلبہ ہوتا تو الموت سے تم کبھی نہ نکل سکتی، اس باطنی کو دریا میں پھینک کر ہلاک نہ کرسکتی، اور پھر تنہا سفر کا تو تمہارے ذہن میں خیال بھی نہ آتا ،لیکن تم نے خوف کو قبول نہیں کیا تھا اس لئے تمہارے دماغ نے تمہاری رہنمائی کی اور تم ایک آدمی سے گھوڑا لے کر یہاں تک پہنچ گئیں۔
کیا یہ سلطنت باطنیوں کو ختم کرسکے گی؟۔۔۔ حمیرا نے پوچھا ۔
کرسکتی تھی۔۔۔ محمد نے جواب دیا۔۔۔میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے والد مرحوم کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا،،،،، باطنیوں کا خاتمہ،،،،،،، مگر میرا بڑا بھائی باپ کی گدی پر بیٹھا تو اس نے باطنیوں کے خاتمے کی بجائے اپنے باپ کے مقصد کا خاتمہ کردیا۔
وہ کیسے؟
وہ اس طرح۔۔۔ محمد نے جواب دیا۔۔۔کہ وہ باطنیوں کی گود میں جا گرا ہے، اس نے سب کی مخالفت کے باوجود ایک باطنی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ہے،،،،،،، اس کی بیوی کا نام روزینہ ہے،،،،،، وہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں لیکن اس کے ہاتھ میں جو جادو ہے اس کو اسے چلانے کی تربیت ملی ہے۔
کیا ہم اس لڑکی کو ختم نہیں کرسکتے؟،،،،، حمیرا نے کہا۔۔۔ اگر کوئی اور نہ کر سکے تو یہ کام میرے سپرد کریں،،،،،،،، میں جب تک چند ایک باطنیوں کا خون اپنے ہاتھوں بہا نہ لونگی مجھے چین نہیں آئے گا ،میں نے اپنے بڑے بھائی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے خون کا انتقام لینا ہے۔
اور میں نے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا ہے ۔۔۔محمد نے کہا ۔۔۔میرے باپ کو باطنیوں نے دھوکے میں زہر پلا کر مار ڈالا ہے، میں بھی تمہاری طرح سوچا کرتا ہوں لیکن ایک دو آدمیوں کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کسی کو قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ،روزینہ کو میں خود قتل کر سکتا ہوں کروا بھی سکتا ہوں، مگر ہم نے اس کے نتائج دیکھنے ہیں، میرا بھائی برکیارق ہمیں قتل کروادے گا وہ اپنے آپ میں ہے ہی نہیں۔
میں سوچ رہی تھی کہ روزینہ کی کنیز بن جاتی ہوں ۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔ میں ایک غریب لڑکی بن کر اس کے پاس جاؤں اور اسے کہوں کہ وہ مجھے اپنی کنیز بنا لے، تو میرے خیال ہے کہ میری بات مان جائے گی، پھر میں اسے آسانی سے زہر دے سکتی ہوں، لیکن آپ نے جو بات کہی ہے وہ میں سمجھ گئی ہوں۔
تم یہیں انتظار کرو۔۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔اپنا خون نہ جلاؤ، ہمیں جہاں کہیں تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تمہیں بلا لیں گے۔
میں یہاں کب تک پڑی رہونگی؟،،،،، حمیرا نے کہا۔۔۔اچھا نہیں لگتا کہ امیر شہر کے یہاں مہمان ہی بنی رہوں، آخر ایک دن یہ مجھ سے تنگ آ جائیں گے، میرا تو کوئی گھر ہے ہی نہیں نہ کوئی ٹھکانہ نہ کوئی پناہ۔
ایسا نہ سوچو!،،،،، محمد نے کہا۔۔۔ یہاں عموماً تم جیسی لڑکیاں اور مظلوم آدمی آتے ہی رہتے ہیں ،تمہیں یہاں سے کوئی نکال نہیں دے گا۔
جذباتی سہارا تو مجھے کوئی نہیں دے سکتا۔۔۔ حمیرا نے کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے،،،، میرا بھائی شہر کا رئیس تھا، میں نے اچھے خاندان میں پرورش پائی اور اچھی زندگی دیکھی تھی۔
تمہیں اس سے زیادہ اچھی زندگی ملے گی ان شاء اللہ۔۔۔۔ محمد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔ اپنی ذات کے متعلق تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
میری عمر دیکھیں ۔۔۔حمیرا نے کہا ۔۔۔میں تو کہوں گی کہ اللہ تعالی نے اتنی اچھی شکل و صورت دے کر مجھ پر کوئی کرم نہیں کیا ،مجھ جیسی بے آسرا لڑکیوں کے لئے خوبصورتی مصیبت بھی بن جایا کرتی ہے، آپ یقینا شادی شدہ ہیں،،،،،،،
نہیں حمیرا !،،،،،محمد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ میں نے ابھی شادی کی سوچی بھی نہیں، ماں کو میری فکر لگی رہتی ہے، لیکن سلطنت کے بگڑتے ہوئے حالات نے میری توجہ ادھر سے ہٹا رکھی ہے۔
حمیرا فوراً کچھ بھی نہ بولی اس کی نظریں محمد کے چہرے پر جم کر رہ گئیں اور پھر اس کی نظریں جھک گئیں، صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہنے کی جرات نہیں رکھتی ۔
ایک بات پوچھوں حمیرا ؟،،،،،محمد نے کہا۔۔۔ کیا اپنی پسند کا کوئی آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے۔
یہی تو غلطی کر بیٹھی تھی ۔۔۔حمیرا نے کہا۔۔۔ آپ کو سنایا ہے کہ ایک آدمی کو دل میں بٹھایا تھا، اور اسی آدمی کو اپنے ہاتھوں دریا میں دھکیل کر اور ڈبو کر مار ڈالا ہے،،،،، اس کا نام جابر بن حاجب تھا،،،،،، اب تو میں محبت کے نام سے بھی ڈرتی ہوں، آنکھیں انسان کو باہر سے دیکھتی ہیں اندر سے نہیں دیکھ سکتیں، میری آنکھوں نے اور میرے دل نے مجھے دھوکہ دیا۔
میری آنکھیں مجھے دھوکا نہیں دے رہیں۔۔۔ محمد نے بڑے ہی خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔ میری آنکھیں تمہارا ضمیر اور تمہاری روح بھی دیکھ رہی ہیں، میں نہیں بتا سکتا کہ میں تمہارے اس ظاہری حسن اور پرکشش جسم سے متاثر ہوا ہوں یا کارنامے سے جو تم نے کر دکھایا ہے، یا اس جذبے سے جو تمہیں بے چین اور بے قرار کئے ہوئے ہے، یا ان ساری چیزوں نے مل ملا کر ایسا اثر کیا ہے کہ میں تمہیں یہاں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا۔
آپ کی یہ بات سن کر میری روح کو تسکین ہوئی ہے۔۔۔ حمیرا نے سر جھکا کر کہا۔۔۔اگر آپ نے مجھے دلی طور پر قبول کرلیا ہے تو میں اپنے آپ کو یقین دلا سکتی ہوں کہ میری زندگی کی خلا کو صرف آپ کی محبت پُر کرسکتی ہے ۔
دونوں کے ہاتھ آگے بڑھے اور ان ہاتھوں نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا اور پھر ان ہاتھوں نے محمد اور حمیرا کو اتنا قریب کردیا کہ ان کے درمیان سے ہوا کا گزر بھی ممکن نہ رہا۔
محترم ابومسلم رازی دانشمند اور دوراندیش ہیں۔۔۔ محمد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ انہوں نے مجھے تمہارے ساتھ اس کمرے میں بلا مقصد نہیں بھیجا تھا ،میری ماں نے انہیں دو تین مرتبہ کہا تھا کہ میرے اس بیٹے کے لئے ہمارے خاندان کے مطابق موزوں دلہن تلاش کریں،،،،،، لیکن حمیرا محبت اپنی جگہ ،اس جذبے اور مقصد کو جو ہم دونوں میں مشترک ہے اولیت حاصل ہونی چاہیے۔
اس مقصد پر تو میں اپنی محبت بھی قربان کر دوں گی۔۔۔ حمیرا نے کہا ۔
وہ ایک دوسرے میں گم ہوگئے تھے کہ انہیں دربان کی آواز سنائی دی،،،، امیر محترم یاد فرما رہے ہیں۔
محمد فوراً اور ابو مسلم رازی کے کمرے میں چلا گیا۔
محمد بیٹا !،،،،،ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ تم کل علی الصبح مرو کے لیئے روانہ ہو جانا، مجھے وہاں کی خبریں بھیجتے رہنا خود آنے کی ضرورت نہیں، میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے،،،،، اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا میں پہنچ جاؤں گا، اور نائب سالار اوریزی کے ساتھ رابطہ رکھنا ،اب یہ بتاؤ کہ اس لڑکی حمیرا کے متعلق کیا خیال ہے ۔
انتقام کا جذبہ اسے پریشان کر رہا ہے۔۔۔محمد نے جواب دیا۔۔۔ اچھی لڑکی ہے لیکن تنہائی محسوس کرتی ہے۔
وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے کہ لڑکی بڑے کام کی ہے۔۔۔ ابومسلم رازی نے ذرا تبسم سے کہا۔۔۔۔ جہاں تک اس کی تنہائی کا تعلق ہے اس کا علاج تمہارے پاس ہے ۔
تم آ بھی جاؤ اور یہ ذہن میں رکھنا کہ میں اس لڑکی کو ضائع نہیں ہونے دوں گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت محمد اور حمیرا کی ملاقات ہوئی تھی اس سے بہت پہلے حسن بن صباح کو یہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی کہ ایک فدائین جابر بن حاجب کی قاتل حمیرا رے کے امیر ابومسلم رازی کی پناہ میں پہنچ گئی ہے، حسن بن صباح نے بڑا سخت حکم دیا تھا،اس نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو اغوا کرکے الموت لایا جائے اور پھر اسے گھٹنوں سے اوپر تک زمین میں گاڑ کر اسکے جسم پر اور منہ پر شہد مل دیا جائے۔
یہ بڑی ہی ظالمانہ سزا تھی جو حسن بن صباح نے سنائی تھی، شہد مل دینے سے چھوٹی بڑی چونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں نے اور دیگر حشرات الارض نے حمیرہ کے جسم کا گوشت آہستہ آہستہ کھا جانا تھا ،اس نے آخر مرنا ہی تھا لیکن ایسی اذیت میں مرنا تھا جو پانچ چھے دن اسے ملتی رہتی، حسن بن صباح نے کہا تھا کہ اس کی جنت کی تمام لڑکیوں کو یہ منظر اور حمیرا کا حشر دکھایا جائے تاکہ کوئی لڑکی فرار کی یا کسی غلط حرکت کی جرات نہ کرے۔
حسن بن صباح کو روزینہ کی رپورٹ بھی مل گئی تھی کہ اس نے سلطان برکیارق کو پوری طرح مٹھی میں لے لیا ہے اور اس سے یہ فیصلہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے، روزینہ نے اپنی اس رپورٹ میں کہا تھا کہ آدمی بھیجے جائیں جو اس نفری میں اشتعال پیدا کریں جسے فوج میں سے نکالا جا رہا ہے، حسن بن صباح کو اس قسم کی رپورٹیں اور اطلاع دینے والی ایک روزینہ ہی نہیں تھی، یہ تو اس کا ایک مکمل نظام تھا جو سلطنت سلجوقیہ میں پھیلا ہوا تھا اور اس سلطنت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا تھا۔
مرو میں سپہ سالار ابو جعفر حجازی اپنے سلطان برکیارق کے حکم کے مطابق فوج کی چھانٹی کر رہا تھا، یہ وہ فوج تھی جسے سلطان ملک شاہ مرحوم نے باطنیوں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا تھا اور اس فوج میں وہ اضافہ کر رہا تھا۔
سپہ سالار حجازی جس نفری کو فارغ کر رہا تھا اسے بارکوں میں سے نکال کر الگ کرتا جا رہا تھا، اس نفری کے لیے خیمے لگا دیے گئے تھے، اسے فوری طور پر فارغ نہیں کیا جا رہا تھا کیوں کہ اس کا حساب کتاب بھی کرنا تھا اور آخر میں یہ ساری نفری سلطان برکیارق کو دکھانی تھی تاکہ اس کا آخری حکم لیا جاسکے، اس طرح ایک وسیع میدان میں خیموں کا ایک شہر آباد ہو گیا تھا ،فارغ کی جانے والی نفری کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی، اس نفری سے گھوڑے اور ہتھیار لے لیے گئے تھے۔
فوج کی ملازمت بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش بن گیا تھا، اس وقت کے فوجیوں کو یہ فائدہ بھی نظر آتا تھا کہ مفتوحہ علاقے سے مال غنیمت بھی ملتا تھا ،اب ان پندرہ سولہ ہزار آدمیوں سے ذریعہ معاش چھن رہا تھا، قدرتی طور پر ان میں مایوسی اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی، اس بیزاری میں غصے کا عنصر بھی موجود تھا ،وہ جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے تو ہر فوجی یہ ضرور کہتا تھا کہ ہمیں کیوں نکالا گیا ہے ہماری جگہ دوسروں کو کیوں نہیں نکالا گیا ،انہیں اپنے آپ میں کوئی خامی یا کوئی نقص نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان میں کوئی خوبی نظر آتی تھی جنہیں فوج میں ہی رکھا جا رہا تھا ،ان آدمیوں کی جذباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے تھے، غصے اور احتجاج سے وہ بارود کی مانند ہوتے جا رہے تھے۔
ہمیں تو کہتے تھے کہ باطنیوں کو ختم کرنا ہے۔
اب ہمیں ہی ختم کیا جا رہا ہے۔
نئے سلطان کی بیوی باطنی ہے۔
نئے سلطان نے حسن بن صباح کا عقیدہ قبول کرلیا ہے۔
اور ایسی ہی باتیں تھیں جو خیموں کی اس بستی میں سنی اور سنائی جاتی تھیں، چونکہ یہ سب فوجی تھے اس لیے کئی باتیں اخلاق سے گری ہوئی بھی کہتے تھے ،فارغ کیے جانے والے ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں سالار بھی تھے اور عہدے داروں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی باقی سب سپاہی تھے، جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کے متعلق زیادہ تر یورپی مورخوں نے تفصیل سے لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ ہزاروں فوجی سراپا احتجاج بن گئے تھے، ایک وجہ تو سب کو نظر آرہی تھی وہ یہ کہ ان کی چھٹی کی جارہی تھی، لیکن ایک وجہ اور بھی تھی کہ وہ آگ بگولہ ہوتے جا رہے تھے، ان کے پاس ان کے رشتے دار دوست اور دوسرے شہری بھی ازراہ ہمدردی آتے رہتے تھے، ان میں حسن بن صباح کے تخریب کار بھی شامل ہوتے تھے جن کی اصل حقیقت سے کوئی بھی واقف نہیں تھا، ان فوجیوں کو خوب بھڑکاتے اوران میں طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے تھے۔
انہیں خفیہ تخریب کاروں نے فارغ کیے جانے والے فوجیوں میں یہ افواہ پھیلا دی کہ جن فوجیوں کو فوج میں ہی رکھا جا رہا ہے وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جنہیں نکالا گیا ہے وہ بزدل اور بد اخلاق ہیں، اور ان میں ایسے آدمی بھی ہیں جو چھٹی پر جاتے ہیں تو رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہیں، یہ افواہ فوجیوں کی ساری بستی میں پھیل گئی، اور یہ تمام فوجی اتنے مشتعل ہوئے کہ ان کے پاس ہتھیار ہوتے تو فوج پر حملہ کر دیتے۔
سپہ سالار ابوجعفر حجازی تو بلا شک و شبہ خوشامدی آدمی تھا اور وہ سلطان کا ہر ناجائز حکم بھی ماننے کو تیار رہتا تھا، نکالے جانے والے فوجیوں کا کوئی ہمدرد تھا تو وہ نائب سالار اوریزی تھا، اس نے سلطان برکیارق کو برملا کہہ دیا تھا کہ وہ فوج کی چھانٹی کے حق میں نہیں ہے، اس کا رویہ اب یہ ہوگیا تھا کہ سپہ سالار حجازی کی بات سن لیتا لیکن اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا تھا ،اوریزی خیموں میں گیا تو وہاں رہنے والے سابق فوجی اس کے گرد اکٹھے ہوگئے ،غصے اور عتاب سے وہ پھٹے جارہے تھے، انہوں نے کہا کہ ایک تو انہیں بے گناہ اور بلاوجہ فوج سے نکالا جا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ سارے شہر میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ انہیں اس لیے نکالا جارہا ہے کہ یہ بزدل اور بدمعاش ہیں، اوریزی نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ بہت ہی مشتعل تھے، اوریزی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ سپہ سالار حجازی کے ساتھ بات کرے گا، اور ابھی وہ ٹھنڈے رہیں۔
اس نے وہیں سے جاکر سپہ سالار حجازی کو اس صورتحال سے آگاہ کیا۔
اوریزی بھائی !،،،،،،سپہ سالار حجازی نے اصل بات سمجھنے کی بجائے یوں کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم اس کے حق میں نہیں کہ فوج کم کی جائے، تمہاری موجودگی میں سلطان نے حکم دیا تھا کہ فوج کی نفری آدھی کر دو، میں حیران ہوں کہ تم مجھ پر اور اس نفری پر جسے ہم فوج میں ہی رکھ رہے ہیں ایسے بے بنیاد الزام کیوں عائد کر رہے ہو؟
محترم سپہ سالار!،،،،،،، نائب سپہ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ آپ سلطان کو ضرور خوش کریں لیکن اپنی عقل پر ایسا پردہ بھی نہ ڈالیں کہ کسی اچھی بری بات پر آپ غور بھی نہ کرسکیں، میں الزام عائد نہیں کر رہا میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں کہ ہمارے دشمن خیموں میں بھیجے جانے والے فوجیوں میں افواہیں پھیلا رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ جنہیں آپ فوج میں رکھ رہے ہیں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ،میں اس فوج کا سالار ہوں اور میرے ذاتی خفیہ ذرائع بھی ہیں ان سے مجھے سب کچھ معلوم ہوتا رہتا ہے ،میری بات سمجھنے کی کوشش کریں، یہ باطنی تخریب کار ہیں جو فوج کے ان دونوں دھڑوں کو آپس میں لڑانے کے لیے وجوہات پیدا کر رہے ہیں۔
تو پھر یہ کام تم خود کیوں نہیں کرتے۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔انہیں بتاؤ کہ یہ افواہ ہے اس پر یقین نہ کریں، لیکن اوریزی بھائی یہ کوئی افواہ نہیں یہ خود اپنے پاس سے باتیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں فوج سے نکالا جارہا ہے، اب میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں مجھے اطلاع ملی ہے کہ یہ لوگ جنہیں میں نے فوج سے الگ کر دیا ہے جوابی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں، ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی فوج میں رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے جنہیں رکھا جا رہا ہے۔
نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو سمجھانے کی بہت ہی کوشش کی کہ یہ افواہ بھی دشمن کی اڑائی ہوئی ہے، حقیقتاً خیموں میں رہنے والوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار حجازی نے اپنے نائب اوریزی کی بات سمجھنے کی بجائے اس پر طنز کی اور اس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ یہ ساری باتیں خود گھڑ رہا ہے۔
حسن بن صباح کے باطنیوں کا پروپیگنڈہ اور افواہ بازی پورا پورا کام کر رہی تھی، یہی افواہیں شہریوں میں بھی پھیلائی جارہی تھیں جس کا نتیجہ یا اثرات یوں سامنے آنے لگے کہ شہری بھی دو حصوں میں بٹنے لگے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران طوائف الملوکی شروع کر دیتے ہیں تو خوشامد کا بازار گرم ہو جاتا ہے، انتظامی امور خوشامد پرستی اور مفاد پرستی کی نظر ہوتے چلے جاتے ہیں، اس صورتحال میں دشمن بلا خوف و خطر اپنی تخریبی کارروائیاں کرتا ہے، یہ فضا سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت میں پیدا ہوگئی تھی جو باطنیوں نے پیدا کی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک دو دنوں بعد ایک حادثہ ہوگیا ،ایک رات ایک فوجی عہدیدار اپنے رہائشی کمرے میں قتل ہوگیا ،وہ اس فوج میں شامل تھا جسے رکھا جا رہا تھا ،صبح اسے دیکھا گیا اس کی لاش فرش پر پڑی تھی اس کے پیٹ میں اور سینے میں خنجر مارے گئے تھے، اس کے بستر پر بھی خون تھا، معلوم ہوتا تھا کہ اسے سوتے میں خنجر مارے گئے اور وہ تڑپتے ہوئے فرش پر گرا اور اس کے بعد اس کی موت واقع ہوئی۔
تمام فوج میں یہ خبر پھیل گئی کہ فلاں عہدے دار کو قتل کردیا گیا ہے ،اس خبر کے ساتھ یہ افواہ بھی پھیلتی گئی کہ اسے ان فوجیوں میں سے کسی نے قتل کیا ہے جنھیں فوج میں سے نکالا جارہا ہے، یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ نکالے جانے والے فوجی کہتے ہیں کہ وہ اب اسی طرح قتل کی واردات کرتے رہیں گے، ان افواہوں میں تاثر یہ پیدا کیا گیا تھا کہ نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھے جانے والے فوجیوں نے بزدل اور بداخلاق کہا ہے، اس لیے نکالے گئے فوجیوں نے اپنی توہین کا انتقام لیا ہے، اس طرح فوج میں اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض فوجیوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نکالے جانے والوں کے ساتھ یہی سلوک کریں گے اور ان کی لاشیں ان کے گھروں تک پہنچیں گی۔
کسی فوجی کا یوں قتل ہو جانا بڑا ہی عجیب واقعہ تھا، ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، سپہ سالار ابوجعفر حجازی اپنے نائب سالار اوریزی کو ساتھ لے کر سلطان برکیارق کے یہاں چلا گیا، برکیاق اُسی وقت جاگا تھا، روزینہ اسے اتنی جلدی بستر سے نہیں نکلنے دیتی تھی جتنا جلدی سلطان ملک شاہ انہیں اٹھا دیا کرتا تھا۔
برکیارق کو اطلاع دی گئی کہ دونوں سپہ سالار آئے ہیں، تو روزینہ باہر آئی اور ان سے پوچھا کہ وہ اتنی جلدی کیوں آئے ہیں۔
ہم اتنی جلدی آنے کی معافی چاہتے ہیں۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے غلاموں کے سے لہجے میں کہا۔۔۔ ایک عہدیدار قتل ہوگیا ہے اس کی اطلاع سلطان محترم کو دینی ضروری ہے اور ان سے حکم لینا ہے۔
روزینہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد واپس آئی اور دونوں سپہ سالار کو اندر سونے کے کمرے میں ہی لے گئی، سلطان برکیارق ابھی پلنگ پر ہی نیم دراز تھا ۔
کون بدبخت قتل ہوگیا ہے؟۔۔۔۔ برکیارق نے مخمور سی آواز میں پوچھا۔
ہمارا ایک عہدے دار تھا سلطان محترم!،،،،، سپہ سالار حجازی نے جواب دیا ۔۔۔اور بیان کیا کہ وہ کس طرح مردہ پایا گیا ،لاش کس حالت میں تھی، اور لاش فرش پر پڑی تھی۔
تو پھر قاتل کو ڈھونڈو !،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔۔۔زندہ مل جائے تو اس کا سر اڑا دو ۔
سلطان عالی مقام !،،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا ۔۔۔قاتل ان خیموں میں ہے جن میں نکالے جانے والے فوجیوں کو رکھا گیا ہے۔
سلطان محترم!،،،،، نائب سالار اوریزی بولا ۔۔۔یہ باطنیوں کی دہشت گردی ہے، اور اگر مجھے اجازت دیں تو میں بیان کروں کہ اس وقت دونوں دھڑوں کے فوجیوں کے درمیان کس قسم کی کشیدگی پیدا کر دی گئی ہے، اور اسی طرح شہر کے لوگ بھی دو دھڑوں میں بٹتے جا رہے ہیں۔
سپہ سالار حجازی نے اوریزی کی مخالفت شروع کردی ،سلطان برکیارق کےچہرے پر اکتاہٹ کے تاثرات نمایاں ہوتے جارہے تھے، وہ تو جیسے کوئی بات بھی سننے کو تیار نہیں تھا، نائب سپہ سالار اوریزی نے سپہ سالار حجازی کو ٹوک کر اپنی بات شروع کردی۔ روزینہ پاس بیٹھی سن رہی تھی۔
اس باطنی حسینہ نے سلطان برکیارق کو ذہنی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی اہلیت سے ہی محروم ہوگیا تھا ،یہ اثرات اس نشے کے تھے جو وہ اسے پلاتی رہتی تھی اور وہ خود بھی اس کے لئے ایک نشہ بن گئی تھی، اس کا ذہن مکمل طور پر روزینہ کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ سوچتی روزینہ تھی اور بولتا سلطان برکیارق تھا۔
سلطان !،،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔ ان دونوں کی باتیں آپ کو کسی فیصلے تک نہیں پہنچنے دیں گیں، دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ یہ قاتل کو پکڑے جو ممکن نظر نہیں آتا ،دوسرا اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان فوجیوں میں سے جنہیں نکالا جارہا ہے کوئی دو آدمی پکڑ لئے جائیں اور فوج کے دونوں دھڑوں کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ان کے درمیان ان دونوں آدمیوں کے سر اڑا دیے جائیں، اعلان کیا جائے کہ ان دونوں نے اس عہدے دار کو قتل کیا ہے، اس سے یہ ہوگا کہ آئندہ کوئی اتنی سنگین واردات کرنے کی جرات نہیں کرے گا، اگر واقعی اس فوج کے ان دھڑوں میں کشیدگی اور دشمنی پیدا ہوگئی ہے تو وہ اسی طرح ختم کی جا سکتی ہے، اگر خیموں میں رہنے والا کوئی فوجی قتل ہوجائے تو وہ فوجی ادھر سے پکڑ کر انہیں سب کے سامنے جلاد سے قتل کروا دیا جائے ۔
سن لیا تم دونوں نے۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ جاؤ اور اس حکم پر عمل کرو۔
بہت اچھا فیصلہ ہے سلطان محترم!،،،،،، سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔۔میں آج دو آدمی پکڑ کر قید خانے میں بند کردوں گا اور کل صبح دونوں کو قتل کروا دیا جائےگا ۔
نائب سپہ سالار اوریزی نے کچھ بھی نہ کہا وہ جان گیا تھا کہ یہاں کوئی اس کی سننے والا نہیں ،اور تباہی سلطنت سلجوقیہ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔
دونوں سپہ سالار وہاں سے آگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز سپہ سالار ابوجعفر حجازی خیموں کی طرف گیا، کچھ سپاہی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا باہر بیٹھے تھے، سپہ سالار حجازی کے ساتھ بارہ چودہ فوجی تھے جو برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے، سپہ سالار حجازی نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کیا۔
انہیں پکڑ کر لے چلو۔۔۔ اس نے حکم دیا۔۔۔ یہی ہیں اس کے قاتل ،مسلح فوجی ان دو آدمیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں گھسیٹتے دھکیلتے اپنے ساتھ لے گئے۔
یہ خبر خیموں کی ساری بستی میں پھیل گئی پندرہ سولہ ہزار سابق فوجیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، سب جانتے تھے کہ جنہیں پکڑ کر لے گئے ہیں وہ بڑے ہی خوش اخلاق اور شریف سپاہی تھے، وہ سب اکٹھے ہوگئے اور شور شرابا کرنے لگے، لیکن ان کی سننے والا سوائے نائب سالار اوریزی کے اور کوئی نہ تھا۔
سپہ سالار حجازی کے حکم سے ان دونوں آدمیوں کو قید خانے میں بند کرنے کے لئے بھیج دیا گیا، ان پندرہ سولہ ہزار فوجیوں میں دو سالار بھی تھی جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا، وہ دو تین عہدے داروں کو ساتھ لے کر نائب سالار اوریزی کے یہاں چلے گئے، اسے بتایا کہ سپہ سالار نے دو آدمیوں کو یہ کہہ کر پکڑ لیا ہے کہ مقتول عہدیدار کو انہوں نے قتل کیا ہے، اوریزی نے یہ خبر سنی تو وہ بھڑک اٹھا ،وہ اسی وقت سپہ سالار حجازی کے پاس چلا گیا۔
میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔۔ تم کہو گے کہ دو بے گناہوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اوریزی بھائی تمہارے سامنے سلطان نے حکم دیا تھا۔
اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو ایسا ظالمانہ حکم کبھی نہ مانتا۔۔۔۔ نائب سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ محترم حجازی آپ کس کے غلام بن گئے ہیں؟ آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے، سلطان کی طاقت کو ہم احتراماً مانتے ہیں، یہ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے امیر کی اطاعت کرو، اور اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ امیر کوئی غلط حکم خصوصاً اس قسم کا ظالمانہ حکم دیتا ہے تو وہ حکم نہ مانو۔
خدا کے لئے اوریزی بھائی!،،،،، سپہ سالار حجازی نے بے تکلف دوستوں جیسے لہجے میں کہا۔۔۔ اگر ہم ان دو ادنیٰ سے سپاہیوں کے سر نہیں کاٹیں گے تو ہم دونوں کے سرکٹ جائیں گے۔
میں ان ادنیٰ سپاہیوں کی خاطر اپنا سر کٹوانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ اوریزی نے کہا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میں آپ کے پاس آ کر جھک مار رہا ہوں، مجھے یہ بتا دیں کہ آپ واقعی ان دو بےگناہ سپاہیوں کے سر کاٹ دیں گے؟
تو اور کس لیے انہیں قید خانے میں بھیجا ہے۔۔۔ سپہ سالار حجازی نے جواب دیا ۔۔۔کل سب کے سامنے ان کی گردنوں پر تلواریں چل جائینگی۔
میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں۔۔۔ نائب سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ یہ آخری بات ہوگی جو میں آپ سے کروں گا ،اس کے بعد میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ حالات کیا کروٹ بدلیں گے، آپ یوں کریں کہ کل ان دونوں سپاہیوں کو قید خانے سے نکال کر ادھر سے انہیں گھروں کو بھیج دیں، فوج سے تو وہ نکال ہی دیے گئے ہیں، پھر میں آپ کے ساتھ سلطان تک چلوں گا اور کہوں گا کہ ہم دونوں کی موجودگی میں قید خانے میں ان کے سر کاٹ دیے گئے ہیں اور انہیں دفن بھی کر دیا گیا ہے۔
پھر جانتے ہو سلطان کیا کہے گا ؟،،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔وہ کہے گا کہ میرے حکم کے مطابق ان کی گردنیں سرعام فوج کے دونوں دھڑوں کے سامنے کیوں نہیں کاٹی گئیں۔
اس کا جواب میں دوں گا۔۔۔ نائب سالار اوریزی نے کہا۔۔۔میں کہوں گا کہ سب کے سامنے انہیں قتل کیا جاتا تو فوج کے دونوں دھڑوں میں فساد کا خطرہ تھا ،کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ دونوں سپاہی بے گناہ ہیں۔
اوریزی بھائی !،،،،،سپہ سالار حجازی نے کہا۔۔۔ حکم سلطان کا نہیں سلطان کی بیگم کا ہے، وہ قید خانے سے معلوم کروا لیں گی کہ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی ہے یا نہیں، تم خاموش ہی رہو تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہے۔
اوریزی خاموش رہا اور سر جھکا کر کسی سوچ میں کھو گیا، وہ جان گیا تھا کہ وہ ایک پتھر سے ہم کلام ہے۔
انہیں کل کس وقت اور کہاں سزائے موت دی جائے گی؟،،،،، نائب سالار اوریزی نے بدلے ہوئے سے لہجے میں پوچھا اور ذرا سوچ کر کہا۔۔۔ مجھے آپ کا ساتھ دینا پڑے گا ورنہ آپ مارے جائیں گے۔
زندہ باد اوریزی!،،،،،، سپہ سالار حجازی نے خوش ہوتے ہوئے اوریزی کاہاتھ اپنےدونوں ہاتھوں میں لے کر کہا۔۔۔مجھے تم سے یہی توقع تھی، میں تمہارے اس تعاون کے لئے ساری عمر ممنون رہوں گا ،میں جانتا ہوں کہ میرے ہاتھوں کیا گناہ کروایا جارہا ہے۔
اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔۔۔اوریزی نے کہا۔۔۔ آپ مجبور ہیں اللہ آپ کو معاف کر دے گا،،،،،،،،،،انہیں کونسی جگہ یہ سزا دی جائے؟
وقت اور جگہ تم خود مقرر کر لو ۔۔۔۔سپہ سالار حجازی نے اوریزی کو خوش کرنے کے لیے کہا۔۔۔ تم جو جگہ مقرر کرو گے میں اسی کو مان لوں گا ۔
اوریزی اٹھا سپہ سالار حجازی سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے آگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز کے سورج نے طلوع ہوتے ہی یہ ظالمانہ منظر دیکھا کہ ایک طرف نکالی جانے فوج کے پندرہ سولہ ہزار آدمی کھڑے تھے ان کے سامنے خاصے فاصلے پر وہ فوج کھڑی تھی جسے رکھا جا رہا تھا ،ان کے درمیان دو سپاہی کھڑے تھے جن کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے، دونوں کے قریب ایک ایک آدمی چوڑے پھل والی تلواریں لیے کھڑے تھے، اس جگہ درختوں کی بہتات تھی بالکل قریب بڑ کی قسم کے دو گھنے درخت تھے، منظر خاصہ خوبصورت تھا لیکن خوبصورتی میں موت کی سانسیں صاف سنائی دے رہی تھیں، ان دو سپاہیوں کو کچھ دیر بعد سزائے موت دینی تھی، ایک نوجوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر ،یہ بدنصیب اسی شہر کا رہنے والا تھا، کچھ دور شہر کے لوگ کھڑے تھے یہ خبر ان تک بھی پہنچ گئی تھی ،ان لوگوں میں اس ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اور چھوٹے چھوٹے دو بچے بھی کھڑے تھے، بیوی بھی رو رہی تھی اور بچے بھی، بیوی نے ایک بار سپہ سالار حجازی تک رحم کے لیے پہنچنے کی کوشش کی تھی، لیکن فوجیوں نے اسے دھکے دے کر پیچھے کردیا تھا ،شہریوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
سپہ سالار حجازی گھوڑے پر سوار وہاں آیا اور دونوں بے گناہ سپاہیوں کے پاس گھوڑا روک کر اعلان کیا کہ فوج کا جو عہدیدار قتل ہوا ہے اس کے قاتل یہ دونوں ہیں، اور مصدقہ شہادت ملی ہے کہ قاتل یہی ہیں ۔
یہ سپہ سالار جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ ادھیڑ عمر سپاہی نے چلا کر کہا۔۔۔ اس سے پوچھو یہ کون سے قاضی کا فیصلہ ہے ۔
ایک جلاد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش کر دیا۔
سپہ سالار حجازی نے اپنا اعلان یہ کہہ کر مکمل کیا کہ ان دونوں کو تم سب کے سامنے سزائے موت دی جا رہی ہے ۔
سپہ سالار ایک طرف چلا گیا ،دونوں جلادوں نے دونوں فوجیوں کو دو زانو بیٹھا دیا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر سر نیچے کر دئیے، پھر دونوں نے اپنی تلوار اوپر اٹھائی، دو بے گناہوں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف دو یا تین لمحے رہ گئے تھے، تلواروں کا ایک ایک وار ہی کافی تھا۔
تلوار اور اوپر اٹھی تو تماشائیوں کے اتنے بڑے ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا جیسے وہاں کوئی انسان موجود ہی نہ ہو، تلوار اور اوپر اٹھی اور انہیں زناٹے سے نیچے آنا تھا، زناٹے تو سنائی دیے لیکن وہ تلواروں کے نہیں بلکہ دو تیروں کے تھے، ایک تیر ایک جلاد کے سینے میں اور دوسرا دوسرے جلاد کے سینے میں اتر گیا تھا،،،،، وہ بے گناہوں کی جانیں لینے والے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
یہ تیر کس نے چلایا ۔۔۔سپہ سالار حجازی نے ایسی آواز میں کہا جس میں گھبراہٹ بھی تھی غصہ بھی۔۔۔ فوراً پکڑو انہیں، فوج میں کچھ حرکت ہوئی ۔
نائب سپہ سالار اوریزی گھوڑا دوڑاتا آیا اور بے گناہ سپاہیوں اور مرے ہوئے جلادوں کے پاس آ رکا۔
خبردار اوریزی نے بلند آواز میں کہا۔۔۔کوئی حرکت نہ ہو، اللہ نے انصاف کر دیا ہے ،یہ دونوں بے گنا ہیں، سپہ سالار سے پوچھو انہیں کون سے قاضی نے سزائے موت دی ہے اور کس کس کی شہادت پر سزا دی ہے،،،،،، کیا تم مسلمان ہو؟ کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ جسے چاہو پکڑ کر اس پر قتل کا الزام لگا دو اور اس کی گردن مار دو؟ کیا تم سب کافر ہو کر مرنا چاہتے ہو؟
ہر طرف خاموشی طاری رہی اوریزی نے ان فوجیوں کی طرف دیکھا جنہیں فوج سے نکالا جا رہا تھا۔
کچھ آدمی آگے آؤ ۔۔۔اس نے کہا۔۔۔ اپنے ساتھیوں کو لے جاؤ۔
چار آدمی دوڑے آئے اور وہ اپنے بے گناہ ساتھیوں کے ہاتھ کھول کر انہیں ساتھ لے گئے، ادھر سے ادھیڑ عمر سپاہی کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ دوڑتی آئی، باپ نے اپنے دونوں بچوں کو اٹھا لیا اور انہیں پیار کرنے لگا۔
فوج میں کوئی حرکت نہ ہوئی، سپہ سالار ابوجعفر حجازی وہاں سے چلا گیا ،وہ سلطان برکیارق کو بتانے جارہا تھا کہ اس کے حکم کی تعمیل نہیں ہوسکی اور اس کا ذمہ دار اوریزی ہے۔
سپہ سالار حجازی کو تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ دو تیر کہاں سے آئے تھے، یہ اوریزی کا انتظام تھا ،ان بے گناہ سپاہیوں کو سزا دینے کی جگہ اسی نے انتخاب کیا تھا، وہاں قریب ہی بڑ جیسے دو گھنے درخت تھے، ان کے چوڑے پتوں میں بیٹھا ہوا آدمی کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا، اوریزی نے رات کو دو تجربے کار تیرانداز تیار کر دیے تھے اور انہیں یہاں لا کر اچھی طرح بتا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے ،دونوں تیرانداز صبح طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک درخت اور دوسرا دوسرے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے تھے۔
سپہ سالار حجازی جاچکا تھا ،فوج حکم کی منتظر کھڑی تھی، نائب سالار اوریزی نے فوج کو بارکوں میں چلے جانے کا حکم دیا اور خود اس انتظار میں اپنے ٹھکانے پر چلا گیا کہ ابھی سلطان کا بلاوا آئے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*