🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چالیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چالیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایسے شدید اور تیزوتند بھنور میں آیا ہوا جابر بن حاجب اس میں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، وہ اس میں سے نکل نہیں سکتا تھا لیکن حمیرا نے اوپر سے اس کے سر پر بڑا وزنی پتھر گرایا تو وہ پانی کے نیچے چلا گیا اور بے ہوش ہوگیا، سر پر اتنا وزنی پتھر گرنے سے وہ بڑی جلدی مر گیا ہوگا، حمیرا وہاں سے بھاگ گئی تھی ،اسے معلوم نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے۔
جابر جب دریا کے نیچے سے ابھرا تو بھنور نے اسے دور پھینک دیا یا اگل دیا ،وہ مر چکا تھا۔ وہاں سے کوئی ایک میل آگے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو جاتا تھا، وہاں کنارے پر پکی گھاٹ بنی ہوئی تھی، دریا میں تیراکی کے شوقین آیا کرتے تھے اور نہایا کرتے تھے ،سورج غروب ہورہا تھا اس لئے وہاں چار پانچ ہی آدمی تھے جو گھاٹ سے دریا میں کود کود کر ہنس کھیل رہے تھے، یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے، ان میں سے ایک نے ڈبکی لگائی اور جب وہ پانی میں سے ابھرا تو اس کا سر ایک انسانی جسم کے ساتھ ٹکرایا جسے وہ اپنے کسی ساتھی کا جسم سمجھا ،اس نے پھر ڈبکی لگائی اور ذرا ایک طرف ہو کر پانی سے ابھرا ،تب اس کے کانوں میں اپنے ساتھیوں کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ لاش ہے،،،، ڈوب کر مرا ہوگا ،،،،اسے پکڑو اور باہر گھسیٹ لو۔۔۔۔اس فدائی نے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا سر اسی لاش کے ساتھ ٹکرایا تھا۔
یہ تو جابر بن حاجب ہے۔۔۔ ایک فدائی نے لاش کو پہچانتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ کیسے ڈوب گیا ہے ؟
ان میں سے دو فدائین جابر کو اچھی طرح جانتے تھے، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جابر ایک نئی لڑکی کو ساتھ لایا تھا اور حسن بن صباح نے اس کی درخواست پر اسے اجازت دے دی تھی کہ وہ تھوڑا عرصہ اس لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور خود اسے اصل کام کے لئے تیار کرے۔
یہ فدائین اپنا شغل میلہ بھول گئے اور وہ جابر کی لاش اٹھا کر قلعے میں لے گئے ۔ 
شیخ الجبل کو اطلاع کر دینی چاہیے۔۔۔ ایک نے کہا ۔
لاش وہیں اٹھا لے چلو۔۔۔ دوسرے نے کہا۔
وہ لاش اٹھا کر حسن بن صباح کی رہائش گاہ میں لے گئے اور لاش برآمدے میں رکھ کر اندر اطلاع بھجوائی، حسن بن صباح جسے لوگ امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی ،خود باہر آ گیا اور اس نے جابر کی لاش دیکھی۔
 یہ ایک لڑکی کو ساتھ لایا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ یہ جہاں رہتا تھا وہاں جاؤ اور اس لڑکی کو ساتھ لے آؤ ۔
ایک فدائ دوڑا گیا اور کچھ دیر بعد دوڑا ہوا ہی آیا، اور اس نے بتایا کہ لڑکی وہاں نہیں ہے۔
وہ بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوگی۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اس کی لاش دریا کے تیز بہاؤ میں چلی گئی ہوگی۔
جابر کی لاش دریا کے کنارے کنارے بہی جارہی تھی، جہاں پانی کا بہاؤ تیز نہیں تھا یہ تو کسی کے ذہن میں آئی ہی نہیں اور آسکتی بھی نہیں تھی کہ حمیرا نے جابر کو اونچے کنارے سے دھکا دے کر دریا میں پھینکا تھا۔ رات گہری ہو گئی تھی اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ حمیرا کہاں غائب ہوگئی ہے، یا یہی یقین کر لیا جاتا کہ وہ بھی ڈوب کر مر گئی ہے۔
اسے لے جاؤ ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور منادی کرادو کے اس کا جنازہ کل دوپہر کے وقت ہوگا اور جنازہ میں پڑھاؤں گا۔۔۔ لڑکی کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح قلعہ الموت میں یہ منادی کرادی گئی کہ جابر بن حاجب دریا میں ڈوب کر مر گیا ہے اور اس کا جنازہ دوپہر کے وقت اٹھے گا۔
جابر کو جاننے والے اور اس کے دوست دوڑے آئے اور جابر کا آخری دیدار کیا، لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور خاصہ ہجوم ہوگیا، لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے، ایک سوال ہر کسی کی زبان پر تھا کہ جابر ڈوبا کیسے؟ 
میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا، ایک فدائ نے کہا۔۔۔ میں اس وقت قلعے کی دیوار پر ویسے ہی ٹہل رہا تھا ،دونوں قلعے کی پہاڑی سے اتر کر خاصی دور چلے گئے تھے، پھر میں نے دونوں کو دریا کے اس کنارے کی طرف جاتے دیکھا جو بہت اونچا ہے، وہاں ایک ٹیکری ہے جس نے ان دونوں کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا تھا، میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے لڑکی کو وہاں سے واپس آتے دیکھا، وہ سامنے آئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی، پھر ایک طرف کو دوڑ پڑی، اب جابر اس کے ساتھ نہیں تھا ،میں نے جابر کو وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا تھا، لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی تھی، میں بہت دیر وہاں کھڑا رہا مجھے جابر نظر نہ آیا ،پھر سورج غروب ہوگیا اور میں نے دوسری طرف دیکھا جدھر گھاٹ ہے لیکن میری نظروں کو ان چٹانوں نے روک لیا تھا جو وہاں سے دور آگے تک دریا کے کنارے کھڑی ہے۔
پھر لوگوں میں ایک اور خبر پھیل گی ،جو یوں تھی کہ آج الصبح ایک آدمی سرائے میں آیا اور اس نے بتایا ہے کہ راستے میں گزشتہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا، اور اسے گھوڑے سے اتار کر اس پر خود سوار ہوئی اور گھوڑا لے کر غائب ہو گئی،،،،،،
 یہ خبر حسن بن صباح کے اس گروہ کے ایک دو آدمیوں تک پہنچی جو جاسوسی اور نگرانی میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، انھوں نے اس آدمی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے پوچھا کہ وہ چڑیل کیسی تھی اور کس روپ میں اس کے سامنے آئی تھی۔
چاندنی دھوپ جیسی شفاف تھی۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ چڑیل بڑی ہی حسین اور نوجوان لڑکی کے روپ میں تھی ،وہ اچانک میرے سامنے میرے راستے میں نمودار ہوئی، اور اس قدر زور سے اس نے چیخ ماری کے میرا گھوڑا بدک گیا، میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرا دل اس کی مٹھی میں آ گیا ہے، اس نے کہا اے مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل ،نہیں توکلیجہ نکال لونگی،،،،،،، میں ڈرتا کانپتا گھوڑے سے اترا اور اس کے قریب جا کر گھٹنوں کے بل ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی، اس نے اور کچھ بھی نہ کہا میرے گھوڑے کی طرف گئی اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو پیچھے موڑا اور گھوڑاسرپٹ دوڑ پڑا، میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گھوڑا گیا ہے میری جان ہی نہیں چلی گئی، میں الموت کی طرف دوڑ پڑا صبح یہاں پہنچا اور سرائے میں ٹھہرا وہاں جو چند آدمی تھے انہیں یہ بات سنائی، 
اس سے پوچھا گیا کہ لڑکی چڑیل نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے تھے، اور اس کے چہرے کے نقش ونگار کیسے تھے،،،،،، اس نے حمیرا کے کپڑوں کا رنگ بناوٹ وغیرہ اور چہرے کا حلیہ بتایا۔
حسن بن صباح جب جنازے کے لئے آیا تو اس کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ انہیں کیا کیا سراغ ملے ہیں، ایک تو اس آدمی کو حسن بن صباح کے سامنے لایا گیا جس نے جابر اور حمیرا کو دریا کے اونچے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا، پھر اس آدمی کو حسن بن صباح کے آگے کھڑا کیا گیا جس نے کہا تھا کہ رات ایک چڑیل اس سے گھوڑا چھین کر لے گئی ہے۔
حسن بن صباح نے دونوں کے بیان سن کر ان پر جرح کی اور اس کا دور رس دماغ اس یقین پر پہنچ گیا کہ لڑکی اس کے فدائین جابر بن حاجب کو دریا میں ڈبو کر بھاگ گئی ہے، اگر جابر خود ہی پھسل کر گر پڑا ہوتا تو حمیرا بھاگ نہ جاتی بلکہ وہیں شورشرابہ کرتی کہ کوئی مدد کو پہنچ جائے، یا واپس قلعے میں آجاتی۔
دو آدمی ابھی قستان چلے جائیں۔۔۔ حسن بن صباح نے حکم دیا۔۔۔ وہ وہیں ہوگی، یہ لڑکی مل گئی تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی،،،،، ہمیں ایسی ہی لڑکیوں کی ضرورت ہے ،،،،اسے ہر جگہ اور ہر طرف تلاش کیا جائے ،ہوسکتا ہے وہ مرو یا رے چلی گئی ہو۔
حسن بن صباح کے حکم کے مطابق اسی وقت آدمی روانہ ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت وہ آدمی قلعہ الموت کی ایک سرائے میں اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا کہ رات اسے ایک چڑیل نے روک لیا تھا اس وقت حمیرا چند گھروں کی ایک بستی میں جا پہنچی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بستی کے اندر جاؤں یا آگے نکل جاؤں، ابھی پو پھٹ رہی تھی صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا، رات نے اسے اس طرح چھپائے رکھا تھا جس طرح ماں اپنے بچے کو آغوش میں چھپا لیا کرتی ہے، اسے ذرا سا بھی خوف نہیں محسوس ہوا تھا ،وہ فاتحانہ مسرت سے سرشار تھی کہ شیطانوں کے چنگل سے نکل آئی تھی، اسے جب اپنا بھائی منور الدولہ یاد آتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا اور آنسو جاری ہوجاتے تھے، ایسے میں اس کے وجود میں انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے تھے، الموت سے بچ کر نکل آنے کی خوشی اس کے غمگین دل کو سہلا دیتی تھی ،وہ اسی رنگ بدلتی کیفیت میں گھوڑے پر سوار سفر طے کرتی گئی، لیکن رات نے اپنے پردے سمیٹے اور رخصت ہو گئی۔
صبح کی پہلی دھندلی دھندلی کرنیں نمودار ہوئیں تو حمیرا کا دل یکلخت ایک خوف کی گرفت میں آگیا، وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی ڈرنے والی یا خطرے والی بات نہیں تھی، خطرہ یہ تھا کہ وہ نوجوان تھی اور بہت ہی حسین اور نظروں کو گرفتار کر لینے والی لڑکی تھی، کوئی بھی اسے دیکھ لیتا تو کبھی نظرانداز نہ کرتا ،وہ اس ویران علاقے میں تھی جہاں ابلیس کا قانون چلتا تھا، اسے اپنے سامنے چند گھروں کی ایک بستی نظر آرہی تھی۔
اس نے گھوڑے کی رفتار کم اور سوچنے کی رفتار تیز کر دی، اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ رکے یا آگے نکل جائے، لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے یہ بھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ جائے کہاں، اسے جابر نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی مارا جاچکا ہے اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں شاید وہ بھی قتل کردیئے گئے تھے، یہ تو حمیرا کو معلوم تھا کہ قستان میں اب اس کا کوئی نہیں رہا اور وہاں اب ان باطنیوں کا قبضہ ہے۔
وہ تذبذب کے عالم میں آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بستی کے قریب رک گی، یہ چند ایک مکان تھے جو معمولی سے لوگوں کے معلوم ہوتے تھے، ایک مکان باقی سب سے بہت مختلف تھا، وہ کسی امیر آدمی کا مکان معلوم ہوتا تھا، اس کا دروازہ بڑا خوبصورت اور اونچا تھا ،حمیرا اس دروازے سے پندرہ بیس قدم دور گھوڑے روکے کھڑی تھی۔
دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید ریش بزرگ باہر آیا، اس نے لمبا سفید چغہ پہنے رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا ،اس کے سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی اور ہاتھ میں لوٹے  کی شکل کا ایک برتن تھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا ،اس نے حمیرا کو دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا، اس بزرگ کی داڑھی دودھ جیسی سفید تھی اور اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر نورانی سے رونق تھی، وہ حمیرا کے سامنے کھڑا اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا ،حمیرا نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، اپنا چہرہ اس نے اس خیال سے ڈھانپ لیا تھا کہ کوئی اس کی عمر کا اندازہ نہ کرسکے اور کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔
 آؤ خاتون !،،،،،بزرگ نے کہا۔۔۔ مسافر ہو تو رکو اور ذرا سستالو، راستہ بھول گئی ہو تو اپنی منزل بتاؤ ،کوئی اور مشکل آن پڑی ہے تو زبان پر لاؤ،،،،،،،،، یہ ہمارا مندر ہے جہاں ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔
آپ اپنے مندر کے راہب ہیں؟،،،،، حمیرا نے کہا۔۔۔ لیکن میں کیسے یقین کرلوں کہ میں آپ کے مندر میں محفوظ رہوں گی۔
 سفید ریش راہب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا دھونی دان آگے کیا اور اسے ذرا سا ایک دائرے میں گھومایا ،اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں حمیرا کے گھوڑے کے منہ کو چھونے لگا، پھر یہ دھواں حمیرا تک پہنچا ،حمیرا نے بڑی پیاری خوشبو سونگھی۔
تم شاید مسلمان ہو؟،،،،، راہب نے کہا۔۔۔ آؤ ہمارے مندر میں، تم وہ ہی روحانی سکون پاؤ گی جو تم اپنے خدا کے حضور جھک کر پایا کرتی ہو، گھوڑے سے اترو اور مجھے امتحان میں نہ ڈالو۔
صرف ایک بات بتا دو مقدس راہب!،،،،، حمیرہ نے کہا۔۔۔ کیا انسان اندر سے بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ چہرے سے نظر آتا ہے،،،،،، میرا تجربہ کچھ اور ہے۔
راہب نے کوئی جواب نہ دیا وہ آگے بڑھا اور گھوڑے کے پہلو میں رک کر اپنا ایک ہاتھ حمیرا کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گھوڑے سے اتر آئے، حمیرا اس کی خاموشی سے کچھ ایسی متاثر ہوئی کہ وہ راہب کا ہاتھ تھامے بغیر گھوڑے سے اتر آئ، راہب نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔
میرا گھوڑا ایسی جگہ باندھیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔ وہ میرے تعاقب میں آرہے ہونگے ۔
کون؟ 
باطنی!،،،،، حمیرا نے جواب دیا۔۔۔ تعاقب سے یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی جرم کرکے بھاگی ہوں ،میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لے کر ان ظالموں سے نکلی اور یہاں تک پہنچی ہوں ،میری متاع میری عصمت ہے اور میرا دینی عقیدہ۔
اتنے میں ایک اور آدمی مندر سے باہر آیا ،راہب نے اسے کہا کہ وہ گھوڑے لے جائے اور ایسی جگہ باندھے جہاں کسی کو نظر نہ آ سکے، راہب حمیرا کو مندر میں لے گیا اور دائیں کو مڑا ایک دروازہ کھلا یہ ایک کمرہ تھا جو عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ رہائشی کمرہ تھا۔ راہب نے حمیرا کو پلنگ پر بٹھا دیا اور پوچھا کہ وہ کچھ کھانا پینا چاہتی ہو گی۔
میں بھوکی نہیں ہوں۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔اور میں پیاسی بھی نہیں، گھوڑے کے ساتھ پانی بھی تھا اور ایک تھیلی میں کھانے کا سامان بھی تھا، تھوڑی ہی دیر پہلے میں نے پیٹ بھر لیا تھا۔
حمیرا نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا، راہب نے اس کا چہرہ دیکھا تو یوں چونک پڑا جیسے حمیرا نے اسے قتل کرنے کے لئے خنجر نکال لیا ہو، راہب کچھ دیر حمیرا کے چہرے کو دیکھتا ہی رہا۔
تم یقین کرنا چاہتی ہو کہ یہاں محفوظ رہو گی یا نہیں۔۔۔۔ راہب نے کہا۔۔۔ لیکن اب میں شک میں پڑ گیا ہوں کہ میری ذات اور یہ مندر تم سے محفوظ رہے گا یا نہیں۔
کیا میرے چہرے پر بدی کا کوئی تاثر نظر آتا ہے؟،،،، حمیرا نے پوچھا۔
باطنیوں کے امام شیخ الجبل حسن بن صباح کے پاس تم جیسی بے شمار لڑکیاں موجود ہیں۔۔۔ راہب نے کہا۔۔۔ میں ان میں سے آج پہلی لڑکی دیکھ رہا ہوں، میں نے سنا ہے کہ ان باطنیوں کا امام کسی کو اپنے جال میں پھانسنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ تم جیسی لڑکی کو بھیجتا ہے اور وہ لڑکی تمہاری طرح مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی کوئی کہانی سناتی ہے،،،،،،،، "
حمیرا اسے بڑی غور سے دیکھ رہی تھی۔
مقدس راہب!،،،،، حمیرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ مجھے ایسی ہی لڑکی بنانے کے لیے دھوکے سے اپنے قلعہ الموت لے جایا گیا تھا ،لیکن میں آپ کو سناؤں گی کہ میں وہاں سے کس طرح نکل بھاگی، پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ میں قستان کے رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں ،امیر قستان کو باطنیوں نے قتل کردیا اور میرے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ہے۔
ہاں میں سن چکا ہوں۔۔۔ راہب نے کہا ۔۔۔قستان پر باطنی قابض ہو چکے ہیں، اور منور الدولہ ان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوا ہے، وہاں کا امیر شہر بڑا ہی بدطینت انسان تھا،،،،، اب تم سناؤ تم پر کیا بیتی ہے۔
حمیرا نے اسے سارا واقعہ کہہ سنایا ،یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے شخص سے محبت کر بیٹھی تھی جو درپردہ باطنی تھا ،ورنہ وہ کبھی الموت تک نہ پہنچتی، اس نے یہ بھی سنایا کہ اس شخص کو اس نے کس طرح دریا میں پھینکا اور خود بھاگ آئی ،اور پھر یہ گھوڑا اسے کس طرح ملا۔
اس دوران مندر کا ایک آدمی ان کے آگے ناشتہ رکھ گیا تھا ۔
تم اب یقیناں قستان جانے کی نہیں سوچو گی۔۔۔ راہب نے کہا۔۔۔ قستان کو اب دل سے اتار دو۔
پھر میں کہاں جاؤں؟،،،، حمیرا نے پوچھا۔
سلجوقی سلطان کے پاس۔۔۔ راہب نے جواب دیا ۔۔۔وہ ہی ایک ٹھکانہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو اور جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے ،،،،،مرو یا رے،،،،،،، یہ نہیں بتا سکتا کہ نیا سلجوقی سلطان کیسا آدمی ہے ،وہ جو نیک آدمی تھا اور جس نے باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا وہ مر چکا ہے اس کا نام سلطان ملک شاہ  تھا ،اب اس کا بیٹا برکیارق سلطان ہے، بہتر یہ ہوگا کہ تم رے چلی جاؤ، وہاں کا حاکم ابومسلم رازی بڑا ہی نیک بزرگ اور عالم دین ہے، اس کے پاس چلی جاؤ تو نہ صرف یہ کہ محفوظ رہو گی بلکہ وہ تمہیں اسی حیثیت سے اپنے پاس رکھے گا جو تمہیں قستان میں حاصل تھی ۔
کیا میں وہاں تک اکیلی جاؤنگی ؟،،،،،حمیرا نے پوچھا اور کہا ۔۔۔اگر اکیلی جانا ہے تو پھر مجھے رات کو سفر کرنا چاہیے۔
تم اس وقت میری نگاہ میں اس مندر کی طرح مقدس ہو، میں تمہیں اکیلا بھیج کر اپنے دیوتاؤں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا،،،،،، میرے دو آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے اور تمہیں کسی اور بھیس میں بھیجا جائے گا۔
حمیرا نے ایسا سکون محسوس کیا جیسے اس پر کسی نے پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا تھا اور یہ بوجھ یکلخت ہٹا دیا گیا ہو۔
مقدس راہب!،،،،،، حمیرا نے پوچھا۔۔۔ میرا مستقبل کیا ہوگا ،کیا وہ اجنبی لوگ مجھے کسی اور دھوکے میں نہیں ڈال دیں گے۔
تم کون ہو؟۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔راہب نے کہا۔۔۔۔ میں کیا ہوں؟،،،،، کچھ بھی نہیں،،،،تم یہ پوچھو کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا،،،،،اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے مذہب کا مستقبل کیا ہوگا،،،،، تمہیں اور مجھے اس اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا نے جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پورا کررہے ہیں یا نہیں،،،، وہ مقصد کیا ہے؟،،،، بنی نوع انسان کی محبت ۔
اسلام کا مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟،،،، حمیرا نے پوچھا۔
کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔۔۔ راہب نے جواب دیا۔۔۔ اس وقت سب سے بڑا مذہب اسلام ہے، لیکن اسکی جو بڑائی ہے وہ چھوٹی ہوتی جارہی ہے، باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئےہیں ،جھوٹ موٹ کا یہ عقیدہ بڑی ہی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، حسن بن صباح نے ابلیسیت کو جائز قرار دے کر رائج کردیا ہے، انسان لذت پرستی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے، عورت اور شراب میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ خدا پرستی میں نہیں مل سکتی،،،،،،  تم نے مستقبل کی بات کی ہے ایک وقت آئے گا کہ حسن بن صباح دنیا میں نہیں ہوگا اور اس کا عقیدہ آہستہ آہستہ مٹ جائے گا ،لیکن لوگ عیش و عشرت کو نہیں مٹنے دیں گے، حسن بن صباح تو کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہے گا، لذت پرستی ہر مسلمان کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا، اور ایک وقت آئے گا کہ وہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے، ان میں وہ طاقت نہیں رہے گی جو ہوا کرتی تھی۔
 مجھے آپ کس وقت یہاں سے روانہ کریں گے؟،،،، حمیرا نے پوچھا ۔
سورج غروب ہونے کے بعد۔۔۔ راہب نے جواب دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری برکیارق کی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ماں کے آنسو بہہ رہے تھے ۔
کیا اپنے بیٹے برکیارق پر آپ کا کچھ اثر نہیں رہا ؟،،،،،عبدالرحمن سمیری نے پوچھا۔
تم اثر کی بات کرتے ہو ۔۔۔۔برکیارق کی ماں نے جواب دیا۔۔۔ وہ تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں، کئی دنوں سے میں نے اس کی صورت بھی نہیں دیکھی، البتہ اس کی ملکہ روزینہ کبھی نظر آجاتی ہے تو وہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتی، اگر کوئی بات کرتی بھی ہے تو وہ حکم کے لہجے میں کرتی ہے، اپنے بھائیوں کے ساتھ برکیارق کا سلوک اور برتاؤ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے ،میں ڈرتی ہوں کہ بھائی کہیں آپس میں نہ ٹکرا جائیں۔
میں آپ کے ساتھ یہی بات کرنے آیا ہوں۔۔۔ عبدالرحمن سمیری نے کہا ۔۔۔سلطان برکیارق کاروبار سلطنت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی ،سلطان ملک شاہ مرحوم کے دور حکومت میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، فوج برکیارق سے بیزار ہوتی جا رہی ہے، ادھر باطنی پھیلتے اور غالب آتے چلے جارہے ہیں، اگر ہم نے فوج میں بے زاری اور مایوسی پیدا کردی تو سلجوقی سلطنت کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟،،،، ماں نے پوچھا۔
 نہیں!،،،،،، عبدالرحمن سمیری نے جواب دیا۔۔۔ بات کہاں کروں، وہ تو باہر نکلتے ہی نہیں۔
 تم یہیں بیٹھو ۔۔۔ماں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اسے باہر نکالتی ہوں، میں آخر ماں ہوں۔
نہیں !،،،،،،عبدالرحمن سمیری نے اٹھ کر برکیارق کی ماں کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔ آپ اس کے پاس نہ جائیں وہ بدتمیزی پر اتر سکتا ہے، اگر اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کر گزروں گا۔
برکیارق کی ماں نے اسکی نہ سنی اور ہاتھ سے اسے ایک طرف کر کے باہر نکل گئی، اس نے برکیارق کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دی ،دروازہ کھلا اور روزینہ باہر آئی۔
کیا بات ہے؟،،،،، روزینہ نے پوچھا۔
ماں نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے کواڑ دھکیل کر اندر چلی گئی، برکیارق پلنگ پر نیم دراز تھا ۔
کیا ہوگیا ہے ماں ؟،،،،،برکیارق نے غنودگی کے عالم میں پوچھا۔
کیا باہر نکل کر یہ دیکھنا تمہارا کام نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔۔۔۔ ماں نے غصلیے لہجے میں کہا۔۔۔ کیا باپ کو تم نے اس وقت کبھی اپنی خوابگاہ میں دیکھا تھا ،تم خارش کے مارے ہوئے کتے کی طرح اس وقت بھی خواب گاہ میں پڑے ہوئے ہو ۔
ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ روزینہ نے کہا ۔۔۔آپ یہاں سے چلی جائیں اور وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے۔
میں تم سے مخاطب ہوں برکیارق!،،،،، ماں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ برکیارق کی طرف بڑھا کر کہا۔۔۔ سلطان تم ہو تمہاری یہ چہیتی بیگم نہیں، تمہارے باپ نے یہ فوج باطنیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کی تھی اور آج تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس فوج کو اس مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔
تو پھر کیا قیامت آگئی ہے۔۔۔ برکیارق نے خفگی اور بے رخی سے کہا۔۔۔ میں اتنی زیادہ فوج رکھوں گا ہی نہیں، میں سالاروں کو بلا کر کہہ رہا ہوں کہ آدھی فوج کوچھٹی دے دیں۔
پھر اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر تیار ہو جاؤ۔۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔ تم فوج کی چھٹی کراؤ اور کچھ ہی دنوں بعد باطنی آ کرتمہاری چھٹی کرا دیں گے،،،،،، ہوش میں آ برکیارق!،،،، ہوش میں آ،،،،، اپنے باپ کی قبر کی یوں توہین نہ کر، یاد کر یہ سلطنت کیسی کیسی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی ،اپنے آباء اجداد کی روحوں کو یوں اذیت نہ دے، یہ جوانی چند دنوں کا میلہ ہے ،ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا صرف اللہ ہے۔
آپ انہیں اتنا پریشان تو نہ کریں ماں!،،،،روزینہ نے بیزاری کے لہجے میں کہا۔
تو خاموش رہ لڑکی!،،،،، ماں نے روزینہ سے کہا.... اور مجھے ماں نہ کہہ ،میں اس کی ماں ہوں اور میں ماں ہوں سلطنت کی ،جو ہمارے بڑے بزرگوں نے اسلام کا پرچم اونچا رکھنے کے لیے بنائی تھی، تجھے اس کے ساتھ روحانی دلچسپی ہوتی تو اسے یوں مدہوش کر کے کمرے میں قید نہ رکھتی۔
 اچھا ماں اچھا۔۔۔ برکیارق نے اٹھتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ تھکن سے چور تھا۔۔۔۔ تم جاؤ میں تیار ہو کر باہر نکلتا ہوں۔
میں تمہیں ابھی باہر نکلتا دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ ماں نے کہا۔۔۔ ابھی اٹھ ۔
برکیارق آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ماں کمرے سے نکل آئی، روزینہ نے بڑے غصے سے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی اور برکیارق کے پاس گئی۔
 کچھ دیر اور لیٹے رہیں۔۔۔ روزینہ نے برکیارق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ذرا سا دھکیلا اور لٹا کر بولی ۔۔۔۔ماں قابل احترام ہی سہی لیکن ماں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ بیٹا کس حال میں ہے، ان لوگوں کو آپ کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ،آپ کی ماں کو اور دونوں بھائیوں کو صرف سلطنت کا غم کھا رہا ہے، معلوم نہیں انہیں یہ خطرہ کیوں نظر آنے لگا ہے کہ ان سے یہ سلطنت چھن جائے گی، یہ لوگ بادشاہی چاہتے ہیں۔
 روزینہ ابھی تک شب خوابی کے لباس میں تھی، اس کے ریشم جیسے نرم و ملائم بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، وہ بلاشک و شبہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی، لیکن اسکے جو انداز تھے اس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور یہ برکیارق کو مدہوش کر دیا کرتے تھے، گھروں میں بند بعض بیویاں روزینہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں، لیکن ان میں چونکہ روزینہ والے ناز و انداز، مکاری اور عیاری نہیں ہوتی، اس لئے خاوندوں کو وہ اتنی خوبصورت نظر نہیں آتیں جتنی کوئی پیشہ ور عورت دل پر غالب آجاتی ہے، روزینہ تربیت یافتہ لڑکی تھی اسے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ مرد کی کون کون سی رگ کمزور ہوتی ہے، ایسی لڑکیاں ان رگوں کو مٹھی میں لے لیتی ہے۔
 روزینہ نے برکیارق کو لٹا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں اور اس پر اس طرح جھکی کے اس کے بکھرے ہوئے نرم و گداز بال اس کے چہرے کو چھونے لگے، پھر اس نے برکیارق کے عریاں سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور دو تین بار اپنے گال اسکے سینے سے لگائے پھر اسکی ٹانگیں دبانی شروع کر دیں۔
برکیارق جو ماں کی آواز سے بیدار ہو گیا تھا پھر مدہوش ہوگیا، روزینہ اٹھی اور صراحی میں سے ایک مشروب پیالے میں ڈال کر برکیارق کو پلا دیا ،اس سارے عمل کے دوران وہ بڑے ہی اداس اور پراثر لہجے میں برکیارق کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ مظلوم اور تنہا ہے، اور اس کے خاندان کا ہر فرد اسے انسان سمجھتا ہی نہیں، روزینہ کا تو خداداد حسن تھا اور پھر اس حسن کو ایک نشے اور ایک طلسم کی طرح استعمال کرنے کا سلیقہ تھا، اور اس کے ساتھ برکیارق کو وہ جو مشروب پلا رہی تھی اس کا اثر الگ تھا ،برکیارق بھول ہی گیا کہ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی تھی اور کچھ کہہ کر چلی گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دن کے پچھلے پہر برکیارق اس کمرے میں بیٹھا تھا جہاں وہ وزیراعظم اور دیگر اہلکاروں سے امور سلطنت کی باتیں سنتا اور حکم جاری کیا کرتا تھا, وہاں جاتے ہی اس نے اپنے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو بلا لیا تھا۔
آپ میرے بزرگ ہیں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں ۔۔۔اس نے وزیر اعظم سے کہا۔۔۔ آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو کہ میرے دل میں آپ کا احترام کم ہوجائے، فوج کو تنخواہ میری ماں نے نہیں بلکہ میں نے دینی ہے، آپ کو یہ بات میرے ساتھ کرنی چاہیے تھی، آپ نے میری ماں کو بلاوجہ پریشان کیا اور انہوں نے غصے میں آکر میری بیوی کے سامنے میری بےعزتی کر دی،،،،،، میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ آئندہ آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے۔
میں معافی کا خواستگار ہوں سلطان محترم!،،،،،، وزیر اعظم نے کہا۔۔۔ میں دو مرتبہ آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ فوج کو بروقت تنخواہ نہ ملی ہو، میں ادائیگی کی اس تاخیر سے ڈرتا ہوں کہ فوج میں ذرا سی بھی مایوسی اور بیزاری پیدا نہیں ہونی چاہئے ،آپ کو تو معلوم ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم نے یہ فوج کس مقصد کے لیے تیار کی تھی، زندگی نے وفا نہ کی اگر وہ زندہ رہتے تو قلعہ الموت پر حملہ کرکے حسن بن صباح کی ابلیسیت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے، مجھے جاسوس اور مخبر روزبروز اطلاع دے رہے ہیں کہ باطنی عقیدے بڑی تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ہمارے شہر میں اور دوسرے شہروں میں بھی باطنی آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں، وہ اپنے عقیدے مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں۔
آپ میرے وہ احکام غالباً بھول گئے ہیں جو میں پہلے دے چکا ہوں ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ مرحوم سلطان نے فوج تو تیار کرلی تھی لیکن یہ نہ سوچا کہ اس فوج کو ہم کب تک پالتے رہیں گے، محصولات کا زیادہ تر حصہ یہ فوج کھا رہی ہے ،میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں حسن بن صباح کی طرف ایک وفد بھیجوں گا اور اس کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کروں گا، وہ میری یہ شرط مان لے گا کہ وہ اپنے علاقے میں محدود رہے اور ہمیں اپنے علاقے میں محدود رہنے دے،،،،،،، اس بار تو آپ فوج کو تنخواہ دے دیں لیکن فوج کی آدھی نفری کو سبکدوش کر دیں ،جو گھوڑے فالتو ہو جائیں وہ فروخت کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں ،میں اپنے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ فوج کی چھانٹی کرکے نصف فوج کو ختم کر دیں۔
سلطان عالی مقام !،،،،،،وزیراعظم نے کہا۔۔۔آپ کے والد مرحوم نے وفد بھیجا تھا جس کا حسن بن صباح نے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں جو میرے پاس ہے، اس نے ہمارے وفد کے سامنے اپنے تین آدمیوں کو باری باری حکم دیا تھا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں، ان آدمیوں نے فوراً اپنے خنجروں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تھا، حسن بن صباح نے ہمارے وفد سے کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملے گا جو اس طرح اپنی جان قربان کر دے۔
مجھے وہ باتیں یاد نہ دلائیں۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔وہ میرے والد مرحوم کے دور کی باتیں ہیں، میں اپنا راستہ خود بنا رہا ہوں ،میں حکم دے رہا ہوں کہ فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیج دیا جائے۔
جس وقت سلطان برکیارق آپ نے وزیراعظم کو یہ احکام دے رہا تھا اس وقت اس کی بیوی روزینہ کے پاس ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا ،یہ عورت روزینہ کی خاص ملازمہ تھی، اس عورت کو روزینہ نے قابل اعتماد کنیز کا درجہ دے رکھا تھا۔
،،،،،، اور اسے یہ کہنا۔۔۔ روزینہ اس کنیز سے کہہ رہی تھی،،،، امام تک یہ خبر جلدی پہنچا دیں کہ میں نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں، سب سے زیادہ اہم فیصلہ یہ کروا لیا ہے کہ فوج کی نفری آدھی کردی جائے گی ،سلطان برکیارق نے اپنے وزیر اعظم کو یہ حکم دے دیا ہے اور سالاروں کو بلا کر کہہ دے گا کہ آدھی فوج کو چھانٹی کر دو،،،،،، پھر امام تک یہ خبر پہنچا دینا کہ سلطان پوری طرح میری مٹھی میں آ گیا ہے،،، اس کی ماں وزیراعظم اور اس کا بھائی محمد اسے مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں اسے ان سب سے متنفر کر دوں گی، یہاں فوج میں بیزاری اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی، تنخواہ میں اس تاخیر کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے،،،،،، امام سے کہنا کہ اب اپنے آدمی بھیج دیں کیوں کہ فوج میں چھانٹی ہوگی تو جنہیں نکالا جائے گا انہیں بھڑکانا اور سلطان کے خلاف مشتعل کرنا ضروری ہوگا،،،،،  پیغام میں یہ بھی کہنا کہ ابھی میں رے کے حاکم ابو مسلم رازی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی، اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کے فیصلوں کے خلاف ہے ،لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا عملی کاروائی کرے گا،،،،،، تم ابھی چلی جاؤ اور یہ پیغام ان لوگوں کو اچھی طرح سنا دینا اور انہیں کہنا کہ آج ہی ایک آدمی الموت روانہ ہو جائے۔
یہ حسن بن صباح کا زمین دوز انتظام تھا جس کے تحت سلطنت سلجوقیہ کی بنیادوں میں بارود بھرا جا رہا تھا ،تھوڑے ہی دنوں بعد اس بارود میں ذرا سی چنگاری پھینک دینی تھی،،،،قوم اور ملک حکمرانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہوتے چلے آئے ہیں، حکمران جب اپنی سوچنے کی صلاحیت اور اپنا وقار کسی دوسرے کے حوالے کردے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا ،روزینہ سلطان برکیارق کی سلطنت میں تاریخ کو دہرا رہی تھی، برکیارق کے ذہن میں وہ یہ بات نقش کر رہی تھی کہ اس سلطنت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سلطنت برکیارق کی ذاتی ملکیت ہے، تباہی کے عمل کو تیز کرنے کے لئے روزینہ سلطنت سلجوقیہ کو اس تلوار سے محروم کر رہی تھی جسے فوج کہتے ہیں۔
سلطان برکیارق نے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو احکام دے کر فارغ کردیا اور اپنے سپہ سالار ابوجعفر حجازی اور اس کے نائب سالار اوریزی کو بلایا ،وہ فورا پہنچ گئے۔
فوج کو ابھی تک تنخواہ نہیں ملی۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ کل خزانے سے رقم نکلوا کر فوج میں تقسیم کردیں، اب میرے اس فیصلے پر عمل شروع کر دیں کہ فوج کی آدھی نفری کو فوج سے نکال دیں میں اب اتنی زیادہ فوج کی ضرورت نہیں سمجھتا، آپ دونوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کسے فوج میں رکھنا اور کسی نکالنا ہے۔
ہاں سلطان محترم !،،،،،سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا۔۔۔ فوج آدھی ہو جانی چاہیے ،ہم آپ کے حکم کی تعمیل بہت جلدی کر دینگے۔
سلطان محترم!،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔بصد معذرت عرض کرتا ہوں کہ فوج میں کمی نہیں ہونی چاہئے ،آپ کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم سلطان نے یہ فوج کیوں تیار کی تھی،،،،،، 
مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے۔۔۔ سلطان برکیارق نے سالار اوریزی کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔ یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اتنی زیادہ فوج کو تنخواہ کس طرح دی جاتی ہے،،،،، میں جو کہہ رہا ہوں سوچ اور سمجھ کر کہہ رہا ہوں، اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
سلطان ٹھیک فرما رہے ہیں اوریزی !،،،،،سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا۔۔۔اتنی زیادہ تنخواہ پوری کرنا بہت مشکل ہے، اور خزانے پر بلاوجہ بوجھ پڑا ہوا ہے، ہمیں سلطان محترم کے حکم پر فوراً عمل کرنا چاہیے۔
حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ لیکن میں یہ نہیں بھول سکتا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ہے اور یہ اسلامی سلطنت ہے، یہ فوج اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے تیار کی گئی ہے، اس سے ہم نے باطل کی قوتوں کو اسی طرح ختم کرنا ہے جس طرح آتش پرستوں اور رومیوں کی جنگی طاقتوں کو ختم کردیا گیا، اگر ہم نے حسن بن صباح کو ختم نہ کیا،،،،،، 
میں اس نام سے تنگ آگیا ہوں۔۔۔ سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح کا نام سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں، میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم باطنیوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے۔
یہ بھی سوچ لیں سلطان عالی مقام !،،،،،سالار اوریزی نے کہا ۔۔۔اگر آپ نے فوج میں سے آدھی نفری نکال دی تو فوج میں اور قوم میں بھی آپ کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوجائے گی، اس کے نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں، میں ابھی کوئی اور بات نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ یہ نتائج بڑے ہی خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
ہم آپ کو نہیں نکال رہے سالار اوریزی !،،،،سپہ سالار نے کہا۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔
میں سب سے پہلے فوج سے نکلوں گا۔۔۔۔سالار اوریزی نے کہا۔۔۔میں مجاہد ہوں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے فوج میں شامل ہوا تھا سلطان کی خوشامد کے لیے نہیں، جیسا آپ کر رہے ہیں۔
آپ میری توہین کر رہے ہیں اوریزی!،،،،، سپہ سالار نے کہا۔۔۔ میں بھی مجاہد ہوں خوش آمدی نہیں۔
دونوں خاموش ہوجاؤ!،،،، سلطان برکیارق نے کہا ۔۔۔میں نے تمہیں آپس میں لڑنے کے لیے نہیں بلایا۔
سلطان عالی مقام !،،،،،سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ آپ میری صاف گوئی برداشت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آپ کی سلطنت کی سلامتی کے لئے کہہ رہا ہوں،،،،،، یہ سلطنت آپ کی نہیں،،،،، یہ میری بھی ہے،،،،، یہ اللہ کی سلطنت ہے، اگر آپ فوج کے متعلق غلط فیصلے کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ جو سالار ان فیصلوں کو غلط سمجھے گا وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا، اور ہمارے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا حکم نہیں مانے گا، سپہ سالار حجازی آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے اللہ کو خوش کر رہا ہوں اور یہی میرا فرض ہے۔
تقریباً تمام مستند تاریخوں میں یہ واقعہ بیان کیا گیاہے ،سپہ سالار ابوجعفر حجازی سلطان کا خوشامدی تھا، اور سلطان ابلیسی اثرات کے تحت فیصلے کر رہا تھا ،ایک بیدار مغز اور دیانتدار سالار نے ان کی مخالفت کی تو آگے چل کر یہی اختلاف خانہ جنگی کا بنیادی پتھر بن گیا، سلطان برکیارق نے جب ان دونوں سالاروں کو فارغ کیا تو باہر آکر سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے سالار اوریزی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جانتا ہے کہ سلطان کا یہ حکم سلطنت کے لیے اچھا نہیں لیکن ہمیں کیا، ہمیں سلطان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے، لیکن سالار اوریزی اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اس نے سپہ سالار کے ساتھ بحث بے معنی سمجھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز رے میں امیر شہر ابومسلم رازی اپنے دفتر میں امور سلطنت میں الجھا ہوا تھا کہ اسے اطلاع ملی کے دو آدمی آئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی ہے، ابومسلم رازی نے انہیں فوراً اندر بلا لیا ۔
ہم اس لڑکی کو آپ کے حوالے کرنے آئے ہیں۔۔۔ دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ ہم مسلمان نہیں یہ لڑکی مسلمان ہے۔
کون ہے یہ لڑکی؟،،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا۔۔۔ اسے کہاں سے لائے ہو ،میرے حوالے کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
میرا نام حمیرا ہے۔۔۔ لڑکی بولی۔۔۔ میں قستان کے ایک رئیس منور الدولہ کی بہن ہوں۔
قستان پر تو باطنی قابض ہوگئے ہیں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا اور پوچھا،،،، تم کس طرح بچ نکلی ہو؟ 
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں اپنی داستان سناؤں گی؟ ۔۔۔۔حمیرا نے کہا۔۔۔ سب سے پہلے تو میں ان دونوں کی تعریف کروں گی کہ یہ مسلمان نہیں اور یہ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں ۔
ابومسلم رازی کے کہنے پر حمیرا نے وہ سب کہہ سنائی جو اس پر بیتی تھی، اس نے اپنی محبت کی بات بھی نہ چھپائی ،اور سفید ریش راہب کے منزل تک پہنچنے کی ایک ایک تفصیل سنائی۔
میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں کہ تم نے جو بات سنائی ہے وہ بالکل سچ ہے؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا۔
آپ کا شک بجا ہے ۔۔۔حمیرا نے کہا ۔۔۔ان کے بزرگ راہب نے بھی یہی شک کیا تھا ،میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ میں ثابت کر سکوں کہ میں نے جو بات کہی ہے یہ سچ ہے۔
ہمارے راہب نے اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا تھا۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں اور یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے تو آپ ہم دونوں کو قید خانے میں بند کردیں اور جب آپ کو یقین آجائے گا تو ہمیں رہا کردیں۔ 
ابو مسلم رازی نے ان دونوں آدمیوں کو کھانا کھلایا اور مشروبات پلائے، اور پھر ان کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں۔
میں تمہیں اپنی پناہ میں رکھوں گا حمیرا!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ تمہارا کوئی اور ٹھکانہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں بھیج دیتا۔
میری ایک بات ذہن میں رکھ لیں محترم !،،،،،،حمیرا نے کہا۔۔۔میں یہاں آپ کی پناہ میں محتاجوں کی طرح بیٹھی نہیں رہونگی، میں نے ان باطنیوں سے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کے خون کا انتقام لینا ہے، میں جانتی ہوں کہ آپ باطنیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں، آپ مجھے اس جہاد میں جس طرح بھی استعمال کریں گے میں اپنی جان بھی پیش کردوں گی۔ 
ابومسلم رازی نے حمیرا کے ساتھ آئے ہوئے دونوں آدمیوں کا شکریہ ادا کیا انہیں کچھ تحفے دیے اور رخصت کردیا ۔
رے سلطنت سلجوقیہ کا ایک بڑا شہر تھا، اور یہ دونوں آدمی دیہاتی علاقے میں سے آئے تھے ،دونوں جب بازار سے گزرے تو گھوڑوں سے اتر آئے، انہیں اس شہر کی دوکانیں بڑی اچھی لگ رہی تھیں، وہ ایک دکان کے سامنے رک گئے، دکان میں سجا ہوا سامان انہیں اچھا لگ رہا تھا۔
تم اجنبی معلوم ہوتے ہو ؟،،،،،انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے دیکھا ایک آدمی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ان سے مخاطب تھا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے بڑے لمبے سفر سے آئے ہو،،، اس آدمی نے کہا ۔
ہاں بھائی!،،،،، ایک نے کہا۔۔۔ ہم بہت دور سے آئے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں ۔
اس دکان سے کچھ خریدنا چاہتے ہو ؟۔۔۔اس آدمی نے پوچھا ۔
ویسے ہی یہ چیزیں اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہم جنگلوں میں رہنے والوں نے کیا خریدنا ہے۔
تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بتاؤ۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔۔ تم پردیسی ہو میں تمہیں کوئی تحفہ دینا چاہتا ہوں ۔
کیوں ؟،،،،،،ایک مسافر نے پوچھا۔۔۔۔ تم ہمیں تحفہ کیوں دینا چاہتے ہو؟ 
میں نے تم سے کیا لینا ہے۔۔۔ اس شخص نے کہا ۔۔۔یہ میری عادت ہے کہ کسی سیدھے سادے اجنبی کو دیکھتا ہوں تو اسے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے ،پوچھنے سے میرا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اسے کسی چیز کی کھانے پینے کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو اور یہ بیچارا کسی سے کہتا نہ ہو۔
ہمیں کچھ نہیں چاہئے دوست !،،،،،ایک نے کہا۔۔۔ یہی کافی ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے بات کی ہے ۔
پھر میری خوشی کی خاطر میرے ساتھ آؤ۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اس شہر کا ایک خاص شربت پلا کر رخصت کرنا چاہتا ہوں۔
اس شخص نے ایسی اپنائیت کا اظہار کیا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے، ذرا ہی آگے مشروبات کی ایک دکان تھی جس میں بیٹھنے کا بڑا ہی اچھا انتظام تھا، یہ شخص دونوں کو اندر لے گیا اور ان کے لیے شربت منگوایا ،وہ ایسی باتیں کرتا رہا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ دوسروں کی خدمت کرے۔
تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی؟،،،، اس شخص نے پوچھا۔۔۔ اور تم امیر شہر کے یہاں گئے تھے ،وہ لڑکی شاید شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔
سفید ریش راہب نے اپنے ان دو آدمیوں کو حمیرا کے ساتھ بھیجا اور صرف یہ کہا تھا کہ اسے رے کے امیر شہر ابومسلم رازی کے حوالے کرکے واپس آ جائیں، انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کوئی اور پوچھ بیٹھے کہ یہ لڑکی کون ہے تو اسے لڑکی کی اصلیت نہ بتائیں، یہ دونوں آدمی حمیرا کی پوری داستان سن چکے تھے، انہوں نے حمیرا کے ساتھ اتنا لمبا سفر کیا تھا ،حمیرا نے خود بھی انہیں سنائی تھی کہ اس پر کیا بیتی ہے اور وہ کس طرح الموت سے نکلی ہے۔
اب رے سے رخصت ہوتے وقت ان دونوں کو یہ اجنبی میزبان مل گیا تو اس کی باتوں میں آگئے، اس نے ان سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ امیر شہر کے یہاں چھوڑ چلے ہیں، ان دونوں نے بڑے فخر اور خوشی سے حمیرا کی ساری داستان اس آدمی کو سنا ڈالی ،اس آدمی نے حمیرا کے اس کارنامے پر دل کھول کر واہ واہ کی اور پھر ان دونوں آدمیوں کے خلوص اور دیانت داری اور ان کے کردار کی بےپناہ تعریف کی، اس کے بعد دونوں رخصت ہوگئے۔
 ان کے جانے کے بعد یہ شخص بہت ہی تیز چلتا ایک مکان میں چلا گیا ،وہاں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔
لو بھائیو !،،،،اس نے کہا ۔۔۔وہ مل گئی ہے۔
کون؟ 
حمیرا!،،،،،، اس نے جواب دیا۔۔۔ اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے گھر پہنچ گئی ہے، ابھی ابھی دو آدمی اسے اپنے ساتھ لائے تھے اور وہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ،اس نے اپنے ساتھیوں کو سنایا کہ کس طرح اس نے ان دونوں آدمیوں کو گھیرا اور ان سے یہ راز لیا ہے، یہ سب باطنی تھے اور حسن بن صباح کے جاسوس تھے جو کچھ عرصہ سے رے میں ٹھہرے ہوئے تھے، انہیں دو ہی روز پہلے الموت سے اطلاع ملی تھی کہ حمیرا نام کی ایک لڑکی الموت سے لاپتہ ہو گئی ہے، اسے تلاش کیا جائے۔
الموت کون جائے گا ؟،،،،،ان میں سے ایک نے پوچھا اور کہا ۔۔۔اگر آج ہی کوئی روانہ ہو جائے تو اچھا ہے، امام خوش ہوجائے گا ۔
وہ صرف اتنی سی بات پر خوش نہیں ہوگا کہ لڑکی کا سراغ مل گیا ہے۔۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ اب یہ حکم آئے گا کہ لڑکی کو اغوا کرکے الموت پہنچاؤ ۔
ایک آدمی اٹھا اور سفر کی تیاری کرنے لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند دن گزرے تھے کہ ایک روز سلطان برکیارق کا چھوٹا بھائی محمد رے آ گیا ،اور ابو مسلم رازی کے یہاں پہنچا، ابومسلم اسے اس طرح شفقت اور پیار سے ملا جیسے باپ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملتا ہے، محمد بڑا خوب صورت اور قد آور جوان نکلا تھا، اس میں اپنے باپ ملک شاہ والا جذبہ تھا ۔
کہو محمد ۔۔۔۔ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا۔۔۔مرو کے حالات کیسے ہیں ،اور تم کیسے آئے ہو؟ 
بہت برے !،،،،،محمد نے جواب دیا ۔۔۔آپ کے پاس مجھے ماں نے اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے بھیجا ہے، میں بھائی برکیاروق کو بتائے بغیر آگیا ہوں،،،،،، برکیارق تو پوری طرح اپنی بیوی کے قبضے میں آ چکا ہے، وہ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی ڈالتی ہے وہ سلطنت کے لئے حکم بن جاتا ہے، مجھے اور سنجر کو برکیارق نے بھائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے ،مجھے کہتا ہے کہ میں تمہیں کسی اچھے عہدے پر لگا دوں گا لیکن کسی بھی وقت میرے راستے میں نہ آنا،،،،،،،  یہ تو ہماری گھریلو باتیں ہیں ،اس نے ایک بڑا ہی خطرناک حکم دے دیا ہے، جس کے تحت فوج کی آدھی نفری کو گھر بھیجا جا رہا ہے،،،،فوج آدھی رہ جائے گی ۔
کیا کہا؟،،،،، ابو مسلم نے چونک کر کہا ۔۔۔کیا وہ اتنی خطرناک حماقت پر اتر آیا ہے کہ فوج آدھی کرکے سلطنت کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟،،،،،، کیا وزیراعظم اور تمہاری ماں نے اسے روکا نہیں؟ 
سب نے روکا ہے۔۔۔ محمد نے جواب دیا۔۔۔ وہ کسی کی سنتا ہی نہیں، اصل خطرہ جو سامنے آگیا ہے اس سے وہ بے خبر ہے ،لیکن میں آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں اور میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں کچھ مشورہ دیں۔
ہاں محمد!،،،،، ابومسلم نے کہا۔۔۔ یہ تو تم نے بڑی تشویش ناک خبر سنائی ہے ۔
وہاں تو خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی جارہی ہے ۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔ فوج میں سے ان آدمیوں کو الگ کیا جا رہا ہے جنہیں فوج سے نکالنا ہے ،ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بےروزگار ہو جائیں گے ،بلکہ وہ سلطنت اور باطنیوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ بتا کر فوج میں شامل کیا گیا تھا کہ باطنیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے اسلام کے فروغ کے راستے کھولنے ہیں،،،،،،، پھر خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نائب سالار اوریزی بگڑ گیا ہے، اس نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ سپہ سالار ابوجعفرحجازی کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑے گا ،اور فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔
 میں سپہ سالار حجازی کو اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ خوشامدی آدمی ہے، معلوم نہیں سلطان ملک شاہ مرحوم نے اسے سپہ سالار کیسے بنا دیا تھا ،وہ سوائے خوشامد کے کچھ بھی نہیں جانتا ۔
وہ ہمارےبھائی برکیارق کا ہر غلط حکم بسروچشم مانتا ہے اور دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی یہ حکم مانیں ،اس میں اور سالار اوریزی میں باقاعدہ دشمنی پیدا ہوگئی ہے۔
اوریزی صحیح معنوں میں مجاہد آدمی ہے۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ اس نے جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھا دے گا ،لیکن یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔
وہ خطرہ سامنے آگیا ہے ۔۔۔محمد نے کہا۔۔۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کے مخبروں نے انہیں بتایا ہے کہ باطنی تخریب کار دونوں طرف کی فوجیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں ،نظر یہی آ رہا ہے کہ وہ فوجی جنھیں نکالا جارہا ہے ان فوجیوں سے ٹکرا جائیں گے جنہیں فوج میں رکھا جا رہا ہے شہری بھی دو مخالف گروہوں میں بٹے جارہے ہیں، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ باطنی شہریوں میں شامل ہوکر انہیں بھڑکا رہے ہیں، کسی بھی روز یہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔
مجھے سوچنے دو۔۔۔ ابومسلم نے کہا۔۔۔آج یہ صورتحال ایسی نہیں کہ میں فوراً ہی کوئی مشورہ دے دوں ،اس وقت میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں یقین دلا دوں کہ میں ہر طرح تمہارے ساتھ ہوں، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس نفری کو جسے نکالا جارہا ہے یہاں بلا لوں گا اور فوج تیار کرکے سلطان برکیارق کا تختہ الٹ دوں گا ،بہرحال صورتحال بہت ہی خطرناک ہے تم کچھ دن یہیں ٹھہرو، میں کچھ نہ کچھ سوچ لوں گا۔
وہ اس مسئلے اور اس صورتحال پر باتیں کرتے رہے اور حسن بن صباح کا ذکر آگیا ،اس ذکر کے ساتھ ابومسلم رازی نے حمیرا کا نام لیا اور مختصراً محمد کو سنایا کہ یہ لڑکی کس طرح اس کے پاس پہنچی ہے اور حسن بن صباح سے انتقام لینے کے لیے بے تاب ہے۔ ابومسلم رازی نے حمیرا کو بلا لیا، وہ آئی تو اس کا تعارف محمد سے کرایا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
حمیرا !،،،،،ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔محمد کچھ دن یہاں رہے گا ،اس میں وہی جذبہ اور وہی خیالات ہیں جو تمہارے ہیں، اس کی میزبانی تم نے کرنی ہے ،اسے اس کے کمرے میں لے جاؤ اور اس کا خیال رکھنا۔
محمد اور حمیرا اٹھے اور کمرے سے نکل گئے، دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیسی سنسنی خیز کہانی کے کردار بننے جارہے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی