🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اُنتالیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
منور الدولہ قتل ہوگیا ،اس کے بیوی بچے کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں غائب ہوگئے ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں، اور اس کی بہن کو باطنی لے اڑے، منور الدولہ نے اسی بہن کے خاطر قلعہ قستان پر باطنیوں کا قبضہ کروا دیا تھا ،وہ تو پکا مومن تھا لیکن بہن کی عزت اور عصمت پر اس نے اپنا ایمان بھی قربان کر دیا تھا، منور الدولہ کے خاندان کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا تھا لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔
اس کی بہن کا نام حمیرا تھا، تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑی ہی حسین لڑکی تھی وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی اپنے دین وایمان کی پکی تھی، اس میں اپنے بھائی منور الدولہ جیسا جذبہ تھا ،اس کے دل میں بھی حسن بن صباح اوراسکے باطنی فرقہ کی نفرت موجزن تھی، لیکن اسے محبت ہوئی تو ایک باطنی سے ہوئی، وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبرو اور جواں سال آدمی حسن بن صباح کا بھیجا ہوا تخریب کار اور جاسوس ہے۔
پچھلے سلسلے میں یہ گزر چکا ہے کہ اس شہر کے مکان میں پانچ آدمی رہتے تھے جو بظاہر دیندار اور زاہد تھے لیکن یہ انکا بہروپ تھا ،وہ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز ادا کرتے اور وہ اتنے ملنسار، ہر کسی کے ہمدرد اور اتنے ہنس مکھ تھے کہ ہر کوئی انہیں محبت اور احترام سے ملتا اور ہر محفل میں انہیں تعظیم دی جاتی تھی، یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ان کی سرگرمیاں کتنی پراسرار اور مشکوک سی تھی کہ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ باہر سے کچھ اور اور اندر سے کچھ اور ہیں، شہر کے بیشتر لوگ ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرتے تھے، منور الدولہ کو تو آخر میں آکر یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچ مذہبی قسم کے آدمی باطنی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی تباہ کاری کر سکتے ہیں، لیکن قلعے کا حاکم منور الدولہ کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔
منور الدولہ اس شہر کا رئیس تھا ،لیکن اس میں وہ تکبر اور غرور نہیں تھا جو اس وقت کے رئیسوں میں ہوا کرتا تھا، وہ صاف ستھرا مسلمان تھا صوم و صلوۃ اور حقوق العباد کا پابند تھا، عبادت کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسند بھی تھا، اسے اپنی بہن حمیرا کے ساتھ بہت ہی پیار تھا، اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حمیرا بھی خیالات اور کردار کے لحاظ سے اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چل رہی تھی، اسے گھوڑسواری کا بہت شوق تھا، منور نے اسے شہسوار بنا دیا تھا ،اسے تیغ اور خنجر زنی نیزابازی اور تیر اندازی بھی سکھا دی تھی، وہ آخر شہر کے رئیس کی بہن تھی اس لیے اس میں خود اعتمادی اور جرات تھی، وہ دوسرے تیسرے دن شام کے وقت گھوڑے پر سوار ہوتی اور شہر سے نکل جاتی تھی، گھوڑا دوڑاتی اور جدھر چاہتی ادھر ہو آتی تھی۔
ایسے ہی ایک شام وہ شہر سے کچھ دور گھوڑا دوڑا رہی تھی، ایک بڑا ھی خوبرو گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا، حمیرا نے اپنا گھوڑا اس کے قریب سے گزارا تو اس سوار نے اسے غور سے دیکھا اور فوراً ہی گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا ،دونوں گھوڑے جب پہلو بہ پہلو ہوئے تو حمیرا نے اس سوار کو غصیلی نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس نیت سے اس کے پاس چلا آیا ہے۔
گھوڑا فوراً روک لیں۔۔۔۔اس سوار نے کہا۔۔۔آپ کی زین کسی ہوئی نہیں ڈھیلی ہے اور آپ گر پڑیں گی۔
حمیرا نے گھوڑا روک لیا اور اترائی ،وہ آدمی بھی گھوڑے سے اترا اور حمیرا کے گھوڑے کی زین دیکھی واقعی زین کسی ہوئی نہیں تھی، اس نے زین اچھی طرح کس دی ۔
اب جائیں۔۔۔ اس سوار نے کہا۔۔۔بس مجھے آپ سے اتنی ہی دلچسپی تھی۔
حمیرا کو یہ شخص شکل و صورت اور جسم کے لحاظ سے بھی اچھا لگا اور بول چال کے انداز سے بھی، وہ کوئی چھوٹی سی حیثیت کا آدمی نہیں لگتا تھا ۔
آپ کون ہیں؟،،،،، حمیرا نے پوچھا۔۔۔ کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں۔
میرا نام جابر بن حاجب ہے۔۔۔ اس سوار نے جواب دیا۔۔۔ پردیسی ہوں، بغداد سے یہاں علم کی تلاش میں آیا ہوں ،اپنے جیسے چار پانچ آدمی مل گئے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں ۔
لیکن آپ تو شہسوار معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔اس زین پر میں سوار تھی اور مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ پوری طرح کسی ہوئی نہیں، آپ کو اتنا تجربہ ہے کہ آپ نے دور سے دیکھ لیا اور مجھے گرنے سے بچا لیا۔
کیا علم کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والے شہسوار نہیں ہوسکتے؟،،،،، جابر بن حاجب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہوتا تو یہی ہے۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔ عالم عموماً تارک الدنیا سے ہو جاتے ہیں۔
میں ان عالموں میں سے نہیں۔۔۔ جابر نے کہا۔۔۔ دنیا سے تعلق توڑ لینا علم کے خلاف ورزی ہے، بلکہ میں اسے علم کی توہین سمجھتا ہوں، میں مسلمان ہوں،،،، وہ مسلمان ہی کیا جو شہسوار نہ ہو اور جس کا ہاتھ تلوار برچھی اور کمان پر صاف نہ ہو ،میں ایک زندہ قسم کا عالم بننا چاہتا ہوں، اس عالم کو میں نامکمل انسان سمجھتا ہوں جو عمل سے کتراتا ہو۔
دونوں اپنے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑے آہستہ آہستہ چلنے لگے، جابر کی زبان میں اور بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا کہ حمیرا کو جیسے یہ بھی یاد نہ رہا ہوں کہ اسے واپس گھر بھی جانا ہے، گھوڑے آگے ہی آگے چلے جارہے تھے، آگے دریا تھا جہاں گھوڑے رک گئے۔
وہ علاقہ بڑا ہی سرسبز تھا، جس میں پیڑ پودوں کی افراط تھی، اس ماحول کی اپنی ایک رومانیت تھی جو حمیرا پر اثر انداز ہونے لگی، جابر نے حمیرا کو یاد دلایا کہ شام گہری ہو گئی ہے اس لیے اسے گھر جانا چاہیئے ،حمیرا وہاں سے چل تو پڑی لیکن وہ محسوس کرنے لگی کہ اس کا دل وہیں دریا کے کنارے رہ گیا ہے، اس نے گھوم گھوم کے پیچھے دیکھا آخر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
یہ حمیرا اور جابر کی پہلی ملاقات تھی اس کے بعد حمیرا گھوڑ سواری کے لیے ہر شام باہر آنے لگی، اس کی نظریں جابر کو ڈھونڈتی تھیں لیکن جابر ہر روز باہرنہیں جاتا تھا، تیسرے چوتھے روز اسے جابر مل جاتا اور دونوں دریا کے کنارے اس جگہ چلے جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا، جابر نے کوئی ایسی بات کی تھی نہ حمیرا نے کوئی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کی محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ ہے، یہ دو روحوں کی محبت تھی اور ان کی روحوں کا جسمانی آسودگی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، وہ گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے میں گم ہو جایا کرتے تھے۔
انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کرلیے، حمیرا نے جابر کو بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی شہر کا رئیس ہے اس لیے وہ اس کی شادی کسی رئیس زادے سے ہی کرے گا ۔
اگر تم بھائی سے کہو کہ تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا وہ انکار کردے گا؟،،،،، جابر نے پوچھا۔
ہاں !،،،،حمیرا نے جواب دیا۔۔۔۔ میں اسے اجازت تو ضرور لوں گی، اسے میرے ساتھ اتنا پیار ہے جو اسے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں، لیکن اس نے انکار کر دیا تو میں تمہارے ساتھ جہاں کہو گے چلی چلوں گی ،میرا دل کسی رئیس زادے یا کسی امیر زادے کو قبول نہیں کرے گا ،یہ لوگ عیش پرست ہوتے ہیں میں کسی کے حرم کی قیدی نہیں بنوں گی، میں ایک انسان کی رفیقہ حیات بنونگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حمیرا کسی وقت بھی محسوس نہ کر سکی کہ یہ شخص باطنی ہے اور علم و فضل کے ساتھ اسکا دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ حسن بن صباح جیسے ابلیس کا پیروکار ہے، پھر وہ دن آیا جس دن منور الدولہ نے حمیرا کو بتایا کہ فلاں مکان میں جو پانچ آدمی رہتے ہیں وہ حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے بڑے ہی خطرناک آدمی ہیں۔
باطنیوں کو تم جانتی ہو نا حمیرا !،،،،منور نے کہا ۔۔۔اسلام کا نام لے کر یہ فرقہ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے، اور اگر انہیں یہیں پر روکا نہ گیا تو اس اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دیا تھا۔
حمیرا نے وہ مکان دیکھا تھا جس میں جابر بن حاجب رہتا تھا اور اس نے جابر کے ساتھی بھی دیکھے تھے، اپنے بھائی کی یہ بات سن کر اسے افسوس ہوا کہ جابر بھی باطنی ہے، اور اس نے جھوٹ بولا ہے کہ وہ بغداد سے علم کی تلاش میں آیا ہے۔
میرے عظیم بھائی!،،،،، حمیرا نے پوچھا۔۔۔کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ باطنی ہیں؟
ابھی یقین نہ کہو۔۔۔ منور نے جواب دیا۔۔۔شک پکا ہے، کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ پانچ چھ آدمی مشکوک ہیں۔
یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ منور امیر شہر کے پاس گیا اور اسے بتایا تھا کہ یہ پانچ آدمی ٹھیک معلوم نہیں ہوتے اور انہیں پکڑنا چاہیے، لیکن امیر نے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لی تھی، منور مومن اور مجاہد قسم کا مسلمان تھا، اس نے حمیرا سے کہا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا قلع قمع کرے، لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ لوگ واقعی باطنی ہیں اور تخریب کاری کی نیت سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
حمیرا نے بھائی سے کہا کہ اگر سوال اسلام کی سربلندی اور باطنیوں کی سرکوبی کا ہے تو وہ یہ راز نکال لائے گی، پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ ان پانچ چھ آدمیوں کی اصل حقیقت معلوم کر لائی، اس نے یہ راز جابر بن حاجب سے لیا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جابر کو حمیرا سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اس نے حمیرا کو اپنا راز دے دیا ،حمیرا کے دل میں بھی جابر کی بے پناہ محبت تھی لیکن اسے جو محبت اپنے بھائی سے اور اسلام سے تھی اس پر اس نے اپنی محبت قربان کردی، اس راز سے اس قلعہ بند شہر کے زمین وآسمان تہہ و بالا ہو گئے۔
قلعے میں خونریز ہنگامہ شروع ہوا تو جابر حمیرا کے گھر جا پہنچا، اس وقت منور گھر نہیں تھا وہ امیر شہر کے گھر میں تھا جہاں کچھ باطنی اس کے ساتھ تھے اور پھر امیر شہر کو قتل کر دیا گیا تھا ،جابر نے حمیرا کو ساتھ لیا اور شہر سے نکل گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حمیرا اس توقع پر جارہی تھی کہ جابر اسے اپنے گھر بغداد لے جا رہا ہے ،لیکن شام کے بعد جب وہ ایک جگہ رکے تو حمیرا پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے بغداد نہیں بلکہ الموت لے جایا جا رہا ہے۔
یہ اسے اس طرح پتہ چلا کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلی تھی تو جابر اس کے ساتھ اکیلا تھا، دونوں گھوڑے پر جا رہے تھے، جابر بہت ہی آہستہ رفتار پر جارہا تھا، حمیرا نے اسے کہا کہ تیز چلنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کا بھائی تعاقب میں آجائے، جابر نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ہے وہ بھی شہر سے نکل آئے ہوں گے، کچھ دیر بعد جابر کے پانچ ساتھی اس سے آ ملے، قلعے پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے باطنی پہنچ گئے تھے، جابر اور اس کے ساتھیوں کا کام ختم ہوگیا تھا، جابر نے قلعہ سر کرنے کے علاوہ ایک بڑا خوبصورت شکار بھی مار لیا تھا، حسن بن صباح جن لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا تھا حمیرا اگر ان سے کچھ درجہ زیادہ حسین نہیں تھی تو کسی سے کم بھی نہیں تھی ،حمیرا کو الموت پہنچ کر کچھ ٹریننگ دینی تھی اور پھر اسے حسن بن صباح کی جنت میں حور بنا کر داخل کرنا تھا۔
سورج غروب ہوگیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چلتا گیا اور جب رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہ لوگ رک گئے، وہ کھانا اپنے ساتھ لے آئے تھے جو انہوں نے خود بھی کھایا اور حمیرا کو بھی کھلایا۔
انہوں نے حمیرا کی موجودگی میں ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کو یقین ہوگیا کہ اسے بغداد لے جایا جا رہا ہے، جہاں جابر اس کے ساتھ شادی کرلے گا، کھانا کھا چکے توانہوں نے سونے کا بندوبست اس طرح کیا کہ حمیرا کے لئے الگ چادر بچھا دی اور باقی آدمی اس سے ذرا پرے ہٹ کر لیٹ گئے، حمیرا پختہ کردار اور ایمان والی لڑکی تھی، لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی، اس کی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ وہ اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہی تھی، کبھی تو اس کو خیال آتا کہ اس نے گھر سے نکل کر کوئی غلط کام نہیں کیا، وہ فخر سے کہہ سکتی تھی کہ وہ باعصمت لڑکی ہے اور محبت میں مبتلا ہوکر بھی اس نے اپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیا، وہ اس خیال سے بھی خوش تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو ناراض نہیں کیا اور اس کے آگے جھوٹ نہیں بولا، لیکن فوراً ہی اس کا ضمیر لعنت ملامت کرنے لگا کہ ایک طرف تو وہ اسلام کی محبت کو دل میں لئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس نے ایک شہر باطنیوں کے حوالے کروا دیا ہے ،بیشک اسکے بھائی نے امیر شہر سے انتقام لے لیا تھا لیکن ایک شہر اور مسلمان شہر کی آبادی باطنیوں کے حوالے کردینا ایک گناہ تھا۔
حمیرا کی ذات میں ایسی کشمکش پیدا ہوگئی کہ وہ بے چین ہی ہوتی چلی گئی، اس کیفیت میں اسے نیند کیسے آتی،،،،،، وہ دل ہی دل میں اللہ سے معافیاں مانگنے لگی اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو سبز باغ بھی دکھائے، اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ جابرکی بیوی بن گئی ہے اور زندگی بڑی ہی پرسکون ہو گئی ہے، جابر نے اسے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھی باطنی ہیں لیکن اپنے متعلق یہ بتایا تھا کہ وہ باطنی نہیں اور وہ ان آدمیوں کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے عقیدے اور نظریے معلوم کرنا چاہتا ہے، اور جب اسے یہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا تو پھر وہ حسن بن صباح کے عقیدوں کے خلاف تبلیغ کا فریضہ انجام دے گا۔
جابر حمیرا کے پاس آیا اور جھک کر اسے دیکھا، حمیرا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ سوئی ہوئی ہے آنکھیں بندکر لیں، جابر چلا گیا وہ یہی دیکھنے آیا تھا کہ حمیرا سو گئی ہے یا نہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا بیٹھا، وہ حمیرا سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا یہی کوئی آٹھ دس قدموں کا فاصلہ ہوگا۔
سوگئی ہے۔۔۔ یہ جابر کی آواز تھی جو حمیرا کو سنائی دی۔
حمیرا پہلے ہی بیدار تھی اس نے جابر کی یہ بات سنی تو وہ بالکل ہی بیدار ہوگئی اور اس نے کان ان لوگوں کی طرف لگا دیے، اسے شک اس لیے ہوا کہ جابر نے یہ بات کچھ اور ہی انداز سے کی تھی ۔
اسے شک تو نہیں ہوا کہ ہم اسے کہیں اور لے جا رہے ہیں؟۔۔۔ جابر کے ایک ساتھی نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،جابر نے جواب دیا۔۔۔ میں نے اسے شک نہیں ہونے دیا ۔
خدا کی قسم!،،،،، ایک نے کہا۔۔۔ امام اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے، اگر یہ چل پڑی تو ہو سکتا ہے امام اسے باہر بھیج دیں۔
میں تمہیں ایک بات بتا دوں دوستو!،،،،،جابر نے کہا ۔۔۔یہ تو تم جانتے ہو کہ میں اسے کس کام کے لیے لے جا رہا ہوں، لیکن میں نے اس کے ساتھ جو محبت کی ہے اس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں، میں اسے اپنی روح میں بٹھا چکا ہوں، میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے لیے کتنی بڑی دشواری پیدا کر لی ہے۔
اگر ایسی بات ہے تو شیخ الجبل کو پتہ نہ چلنے دینا۔۔۔ ایک اور ساتھی بولا۔۔۔ شیخ الجبل کو پتہ چل گیا کہ تم اس لڑکی کے معاملے میں جذباتی ہو تو تم جانتے ہو کہ تمہیں کیا سزا ملے گی۔
ہاں جانتا ہوں ۔۔۔جابر نے کہا۔۔۔ امام اپنا خنجر دے کر مجھے کہے گا کہ یہ اپنے دل میں اتار لو، میں محتاط رہوں گا کہ امام کو اپنی جذباتی حالت نہ بتاؤں۔
حسن بن صباح کو اس کے پیروکار امام کہا کرتے تھے اور تاریخوں میں اسے شیخ الجبل کہا گیا ہے ۔
اس کے بعد ان لوگوں نے حمیرا کو سویا ہوا سمجھ کر ایسی باتیں کیں جن سے حمیرا کے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہ رہا کہ اسے دھوکے میں الموت لے جایا جا رہا ہے، وہاں وہ اسی ابلیسیت کا ایک کل پرزہ بن جائے گی جس کے خلاف اس کے دل میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ پہلے ہی بے چینی میں مبتلا تھی اب وہ یوں محسوس کرنے لگیں جیسے اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہو، اس نے پہلے تو یہ سوچا کہ ان لوگوں کے پاس چلی جائے اور کہے کہ وہ یہاں سے آگے نہیں جائے گی، لیکن عقل نے اس کی رہنمائی کی اس نے سوچا کہ یہ چھ آدمی ہیں اور یہ چھے آدمیوں سے آزاد نہیں ہو سکتی، اس نے ان کے ہاتھوں مر جانے کا بھی فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکی، اس نے یہ بھی سوچا کہ جب یہ سب سو جائیں تو اٹھے اور دبے پاؤں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ نکلے، اس پر اس نے غور کیا اور یہی فیصلہ کرلیا کہ یہ سو جائیں تو وہ بھاگ جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آدھی رات ہونے کو آئی تھی جب یہ چھ آدمی سونے لگے، جابر ایک بار پھر حمیرا کے قریب آیا اور جھک کر اسے دیکھا حمیرا نے آنکھیں بند کر لیں جابر یہ یقین کرکے کہ لڑکی سو گئی ہے اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا پھر وہ سب سو گئے۔
حمیرا تو پوری طرح بیدار اور تیار ہو چکی تھی اب اسے انتظار تھا کہ یہ اور زیادہ گہری نیند میں چلے جائیں تو وہ یہاں سے اٹھے اور نکلے، گھوڑے پندرہ بیس قدم دور بندھے ہوئے تھے، زین ان آدمیوں نے اپنے قریب رکھی ہوئی تھیں۔
حمیرا کو ان کے خراٹے سنائی دینے لگے اس نے کچھ دیر اور انتظار کیا، آخر وہ اٹھی اور دبے پاؤں زینوں تک پہنچی ،اس نے ایک زین اٹھا لی لیکن زین وزنی تھی وہ زین اٹھا کر چلی تو زین پر پڑی ہوئیں ایک زین سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ گر پڑی، لوہے کی رکابیں آپس میں ٹکرائیں تو بڑی زور کی آواز اٹھی، رات کے سناٹے میں یہ آواز زیادہ ہی زوردار سنائی دی، جابر کی آنکھ کھل گئی، باقی ساتھی سوئے ہوئے تھے ، ادھر حمیرا اٹھی ادھر جابر اٹھا اور حمیرا تک پہنچا۔
کیا کر رہی ہو؟،،،، جابر نے سرگوشی میں پوچھا تا کہ اس کے ساتھی نہ جاگ پڑیں۔۔۔کیا تم گر پڑی تھی؟
ہاں !،،،،،حمیرا نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ آؤ۔
حمیرا نے جابر کا بازو پکڑا اور اسے اس کے ساتھیوں سے دور لے گئی، اور دونوں وہاں بیٹھ گئے۔
مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟،،،، حمیرا نے پوچھا۔
قلعہ الموت ۔۔۔جابر نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔
الموت!،،،،، حمیرا نے پوچھا۔۔۔ کیا ہم بغداد نہیں جا رہے۔
سنو حمیرا !،،،،،جابر نے کہا۔۔۔ میں باطنی نہیں ہوں،،،،،،
اور تم مجھے اس ابلیس حسن بن صباح کے حضور پیش کرو گے۔۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔اور وہ مجھے اپنی بہشت کی حور بنادےگا،،،،، جابر میں نے رات تم سب کی باتیں سنی ہیں، اور میں جانتی ہوں کہ باطنیوں کو مجھ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجھے معلوم ہے تم سب کچھ جانتی ہو۔۔۔جابر نے کہا۔۔۔ لیکن تم مجھے پوری طرح نہیں جان سکی، میں اپنے امام حسن بن صباح کے اس گروہ کا آدمی ہوں جو کسی لڑکی یا کسی آدمی کو پھانسنے کے لیے ایسی جذباتی اور پراثر باتیں کرتے ہیں کہ ان کا شکار ان کا گرویدہ ہو کر ان کے قدموں میں آ گرتا ہے، لیکن ان میں جذبات ہوتے ہی نہیں، کسی دوسرے کی جان لے لینا اور اپنی جان دے دینا میرے گروہ کے لئے ایک کھیل ہوتا ہے، ان لوگوں میں اپنی بہنوں اور اپنی ماؤں کے لیے بھی کوئی جذبات نہیں ہوتے، لیکن حمیرا تم پہلی لڑکی اور شاید آخری بھی ہو جس نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے، اب کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ میں تمہیں فریب اور جھانسے دیتا چلا جاؤں، اب تم پوری طرح ہمارے قبضے میں ہو ،یہاں سے بھاگو گی تو کتنی دور تک پہنچ جاؤ گی؟،،،،،، اور پھر جاؤ گی کہاں؟،،،،،،،، اگر تم ہمارے قابو میں آؤ گی تو ہم تمہارے اس حسین جسم سے پورا پورا لطف اٹھا کر تمہیں قتل کر دیں گے۔
اور میں یہی صورت قبول کرونگی کہ اپنے آپ کو پہلے ہی ختم کر لوں۔۔۔ حمیرا نے کہا۔۔۔ میں مسلمان کی بیٹی ہوں ،اپنا آپ کسی کے حوالے نہیں کروں گی۔
کیا تم میری پوری بات نہیں سنو گی۔۔۔ جابر نے کہا۔۔۔میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب میں تمہارے ساتھ محبت کی جو بات کر رہا ہوں یہ فریب نہیں، محبت میرے لئے ہمیشہ ایک سراب بنی رہی ہے، اور میں اس سراب کے پیچھے دوڑتا اور بھٹکتا اور گرتا ہی رہا ہوں، میں گر گر کر اٹھا اور اٹھ اٹھ کر محبت کے سراب کے پیچھے دوڑتا رہا ہوں، حتیٰ کہ میں الموت پہنچ گیا میں کوئی لمبی چوڑی کوئی میٹھی کڑوی باتیں نہیں کروں گا ،مجھے محبت تم سے ملی ہے ،میرے سوئے ہوئے اور فریب خوردہ جذبات کو تم نے جگایا ہے، تم اتنا کرو کہ خاموشی سے اور اطمینان سے میرے ساتھ چلی چلو، ہمارا طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کو پھانس کر لاتے ہیں اور الموت کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں، ایسی لڑکیوں کو سنبھالنے اور اپنے راستے پر چلانے والے وہاں موجود ہیں، وہ دو تین دنوں ہی میں اس کے ذہن پر اور دل پر قبضہ کرلیتے ہیں، پھر کوئی لڑکی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچتی ہی نہیں، لیکن حمیرا میں ایسے نہیں کروں گا، میں اپنی روحانی محبت کا جو تم سے ہے، پورا پورا ثبوت پیش کروں گا،،،،،،،،،، دیکھ حمیرا ہر انسان اس عقیدے کو اور اس مذہب کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جو اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے، عقیدہ غلط بھی ہو سکتے ہیں ،انسان جب سے پیدا ہوا ہے عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چلا آیا ہے ،میں تمہیں اسلام کے راستے سے نہیں ہٹا رہا ،ہمارا امام حسن بن صباح اسلام کا شیدائی ہے، تم چل کے دیکھو اگر یہ عقیدہ تمہارے دل نے قبول کرلیا تو وہاں رہنا ورنہ مجھے اپنا قائل کر لینا اور میں تمہارے ساتھ بغداد چلا چلوں گا، میں تم سے محبت کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی کے حوالے نہیں کروں گا ،اپنے پاس رکھوں گا۔
خنک اور خاموش رات گزرتی جارہی تھی اور جابر اپنی زبان کا جادو جگا رہا تھا، اس کے دل میں حمیرا کی محبت تو تھی ہی لیکن اس دل میں حسن بن صباح بھی موجود تھا ،حمیرا پر غنودگی اور خاموشی طاری ہوتی چلی جارہی تھی ،وہ اتنا تو تسلیم کرتی تھی کہ وہ تنہائیوں میں جابر سے ملتی تھی لیکن جابر نے کبھی اشارتاً بھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اس کی ساری دلچسپیاں اور چاہت حمیرا کے جسم کے ساتھ ہے، اب آبادیوں سے دور جنگل میں جہاں حمیرا کو اس شخص سے بچانے والا کوئی بھی نہ تھا جابر نے نفسانی خواہش کا ذرے جتنا بھی اظہار نہیں کیا تھا۔ حمیرا جابر کو ہی اپنا ہمسفر اور محافظ سمجھ رہی تھی، اور اس نے اس شرط پر جابر کی ہمسفر رہنا قبول کرلیا کہ وہ الموت جاکر دیکھے گی کہ وہاں کیا ہے اور اس کا دل کیا کہتا ہے۔
اگلی صبح یہ قافلہ اپنی منزل کو روانہ ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلجوقی سلطان ملک شاہ کو دفن ہوئے دو مہینے اور کچھ دن گزر گئے تھے، یہی ایک طاقت تھی جو حسن بن صباح کی ابلیس کے سیلاب کو روک سکتی تھی، گو اس طاقت کو اب تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن یہ طاقت ہاری نہیں تھی اور نئی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی، اس کا مقصد اور نصب العین صرف یہ تھا کہ حسن بن صباح کی جنت کو اس کے لئے اور اس کے فدائین کے لئے جہنم بنا دیا جائے، لیکن ملک شاہ ایک فدائی کا شکار ہوگیا، اگر اس کا بڑا بیٹا برکیارق جو اس کی جگہ ایک عظیم سلطنت کا سربراہ بنا تھا اپنے باپ جیسا ہوتا تو یہ طاقت ابلیسی جنت پر بجلی بن کر گرتی، لیکن برکیارق اسی قاتل کی بہن کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا جس نے صرف اسے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی یتیم کر دیا تھا۔
یہ لڑکی جس کا نام روزینہ تھا اس قاتل کی بہن نہیں تھی، وہ تو حسن بن صباح کی بھیجی ہوئی لڑکی تھی جس نے مرو میں خانہ جنگی کا بیج بونا تھا۔ قاتل نے اپنا کام کر دیا تھا اور روزینہ مقتول کے جانشین کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، یہ بھی اسکی کامیابی تھی کہ اس نے برکیارق کی ماں اور اس کے خاندان کے دیگر اہم افراد سے منوالیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے، پہلے یہ تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ روزینہ نے ایسی حیران کن مہارت سے پورے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں۔
وہ لوگ اس خاندان کے خون کے رشتے دار نہیں تھے جو کہتے تھے کہ یہ لڑکی مشکوک ہے اور خطرناک بھی، لیکن برکیارق کسی کی سنتا ہی نہیں تھا، اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا۔ سلطان ملک شاہ کا چہلم ہو چکا تھا کئی دن گزر گئے تھے اب کسی بھی دن برکیارق نے روزینہ کے ساتھ شادی کر لینی تھی۔
مزمل آفندی اور شمونہ کی محبت کا پہلے ذکر آچکا ہے، ان کی محبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ دو نوجوان تھے اور خوبصورت بھی تھے اور پہلی نظر میں ہی ایک دوسرے کے ہوگئے تھے، بلکہ ان کی محبت کی ایک بنیاد تھی اور اس کے پس منظر میں ایک مقصد تھا جو ان دونوں میں مشترک تھا، یہ تھی حسن بن صباح کی نفرت اور یہ ارادہ کے اس ابلیس کو قتل کرنا ہے۔
شمونہ حسن بن صباح کی داشتہ اور اعلی کار رہ چکی تھی، اس نے حسن بن صباح کے لیے کچھ کام بڑی کامیابی سے کیے تھے، لیکن اللہ نے اسے روشنی دکھائی اور وہ پھر واپس اسلام کی گود میں آگئی ،ابومسلم رازی نے جو سلطنت سلجوقہ کے دوسرے بڑے شہر کا امیر تھا، شمونہ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا، اس حسین و جمیل لڑکی کے دل میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے۔
مزمل آفندی حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا مگر خواجہ حسن طوسی کو قتل کرنے واپس آ گیا تھا، یہ تو شمونہ کی محبت اور شاہی طبیب نجم مدنی کا کمال تھا کہ انہوں نے مزمل آفندی کے ذہن سے حسن بن صباح کے اثرات بد نکال دیے تھے اور وہ اپنی اصلیت میں واپس آگیا تھا ،مزمل بھی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔
مزمل اور شمونہ ملتے اور گھنٹوں اکٹھے بیٹھے رہتے تھے، شمونہ اور اس کی ماں کو جس کا نام میمونہ تھا سلطان ملک شاہ نے ایک مکان دے دیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا ،مزمل اپنے کاروبار میں لگ گیا تھا، لیکن وہ اور شمونہ اپنے مشترک مشن کی تکمیل کے لیے تڑپتے رہتے تھے، ایک روز مزمل شمونہ کے گھر میں آیا بیٹھا تھا ،شمونہ کی ماں نے انہیں کہا کہ وہ شادی کر لیں، اس نے وجہ یہ بتائی کہ وہ دونوں نوجوان ہیں اور اکٹھے بیٹھتے اٹھتے ہیں اور اس سے لوگ شک کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے لوگ انہیں بد نام کر دیں اور سلطان برکیارق کے کان بھرنے شروع کر دیں جسکا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا،،،،،،میمونہ نے دوسری دلیل یہ دی کہ وہ دو نوجوان ہیں اور ایک دوسرے کو روحوں کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات سے مغلوب اور اندھے ہوکر وہ گناہ کر بیٹھیں جس کی بخشش ذرا مشکل سے ہی نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں۔
مزمل نے کوئی بات نہ کی اس نے شمونہ کی طرف دیکھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی ماں کو شمونہ خود ہی کوئی جواب دے۔
میری ایک بات یقین سے سنو ماں!،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ اگر میری اور مزمل کی محبت جسمانی ہوتی تو اب تک ہم میاں بیوی بن چکے ہوتے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم وہ گناہ کر چکے ہوتے جس کا تمہیں ڈر ہے،،،،،، ہماری محبت روحوں کا عشق ہے، ہمارا نصب العین ایک اور راستہ ایک ہے ،ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے اور ہم دونوں کا اللہ حامی اور ناصر ہے، مجھے جس روز یہ اشارہ ملا کہ مزمل کو میرے حسن اور میرے جسم کے ساتھ محبت ہے تو اسی روز میرے اور اس کے راستے الگ ہوجائیں گے ۔
شمونہ بیٹی!،،،،، میمونہ نے کہا۔۔۔ میں نے دنیا دیکھی ہے ،حسن اور جوانی میں وہ طاقت،،،،،،،،،
مجھے اپنے حسن اور اپنی جوانی سے نفرت ہے ماں !،،،،شمونہ نے جھنجلا کر کہا۔۔۔ اس حسن اور جوانی نے مجھے اس ذلیل انسان کے قدموں میں جا پھینکا تھا، مجھے اپنے اس جسم سے نفرت ہوتی جارہی ہے جسے لوگ اتنا زیادہ پسند کرتے ہیں،،،،،،، میرے پاس روح رہ گئی ہے اس کا مالک مزمل ہے، میں جو کچھ بھی ہوں پاک و پلید ہوں مزمل کی ہوں، لیکن شادی ہمارا نصب العین نہیں، میں لوگوں کے لیے بڑا ہی حسین دھوکا بنی رہی تھی ،میں نے اللہ کو ناراض کیا اللہ نے مجھے ایمان کی روشنی بخشی، اس کے شکرانے کے لیے یہ میرا فرض ہے کہ اللہ کو راضی کروں اور اپنی روح کو پاک کروں، پھر میں اپنا آپ ایک بیوی کے طور پر مزمل کو پیش کروں گی، کیوں مزمل کیا تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہے؟
نہیں شمونہ !،،،،،مزمل نے جواب دیا۔۔۔ میں بولتا تو میں بھی یہی کہتا جو تم نے کہا ہے، میں نے سب سے پہلے اپنا مقصد پورا کرنا ہے،،، تم نے ماں کو یہ جواب دے کر میرے ایمان میرے کردار اور میرے عزم کو نئی تازگی دی ہے،،، حسن بن صباح کو قتل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے۔
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں کہہ دیتی ہوں۔۔۔ شمونہ نے مزمل سے کہا۔۔۔ میں اپنی ذات کو اور اپنے وجود کو مزمل کے بغیر نامکمل سمجھتی ہوں، دونوں نے میمونہ کو یقین دلادیا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن وہ اس گناہ کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں لائیں گے جس کی طرف میمونہ نے اشارہ کیا تھا۔
ایک بات بتاؤ مزمل!،،،، شمونہ نے پوچھا۔۔۔ تم نے پھر برکیارق کو نہیں کہا کہ یہ لڑکی مشکوک ہے۔
ایک ہی بار کہہ کر دیکھ لیا تھا ۔۔۔مزمل نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے ڈانٹ کر چپ کرادیا تھا، میں تو ابھی تک اسے دوست سمجھ رہا تھا لیکن وہ جس لہجے میں بولا اس سے مجھے یاد آگیا کہ یہ شخص اب دوست نہیں بلکہ سلطان بن گیا ہے۔
تم رے کیوں نہیں چلے جاتے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ تم ابومسلم رازی سے بات کرکے دیکھو وہ اتنے بڑے شہر اور اتنے وسیع علاقے کا حاکم ہے ،سلطان ملک شاہ مرحوم کا وہ خاص معتمد اور مشیر تھا ،ہوسکتا ہے وہ برکیارق کو سمجھا بجھا کر اس لڑکی سے شادی کرنے سے روک دے۔
ابومسلم رازی سلطان ملک شاہ مرحوم کا معتمد اور مشیر تھا۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ برکیارق اس کی بھی نہیں مانے گا، تم شاید نہیں جانتی کہ برکیارق روزینہ کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے، ابومسلم رازی برکیارق کی شادی پر آرہا ہے اس سے پہلے اسے ملنا بیکار ہے ،شادی تو ہونی ہی ہے، میں ابومسلم رازی سے کہوں گا کہ روزینہ کو کسی طرح غائب کیا جائے، ابھی تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ روزینہ کیا کر گزرے گی، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ دکھائے گی ضرور، پھر برکیارق زندہ رہا تو باقی عمر پچھتاتا رہے گا ۔
شادی ہو جانے دو ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ میں روزینہ کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کروں گی، اگر میں کامیاب ہوگئی تو اسے زہر پلا دوں گی۔
سلطان ملک شاہ مرحوم تو حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کا دشمن تھا ہی لیکن ابومسلم رازی کی تو زندگی کا جیسے مقصد ہی یہی تھا کہ اس فرقے کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے ،وہ تو صاف الفاظ میں کہا کرتا تھا کہ یہ کام تبلیغ سے نہیں ہوگا، یہ کام صرف تلوار سے ہو سکتا ہے، اس سلسلے میں پہلے سنایا جا چکا ہے کہ جب حسن بن صباح کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی اور وہ ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ ابومسلم رازی نے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا ،لیکن کسی طرح حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ رے سے غائب ہوگیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برکیارق اور روزینہ کی شادی کا دن آگیا ،بارات نے تو کہیں جانا نہیں تھا دلہن سلطان کے محل میں موجود تھی ،سلطان برکیارق کے حکم سے سارے شہر میں رات کو چراغاں کی گئی، اور اس شادی پر جو ضیافت دی گئی اس کے چرچے تاریخ تک پہنچے اور آج تک سنائی دے رہی ہیں، ایک دعوت عام تھی، امراء اور وزراء اور دیگر رتبوں والے افراد کے لیے الگ انتظام تھا اور شہر کے لیے باہر کھلے میدان میں کھانا رکھا گیا تھا، دور دور سے ناچنے گانے والے آئے تھے ،ناچنے والیوں نے بھی آکر اپنے فن کے مظاہرے کیے اور سب نے سلطان سے انعام وصول کیے۔
یہ ہنگامہ خیز شادی جس پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا ،یہ انداز اس خاندان کی روایت کے منافی تھے ،سلطان ملک شاہ مرحوم ہردلعزیز سلطان تھا اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے اور کچھ دن گزرے تھے، لوگ اس کے غم میں نڈھال ہوئے جارہے تھے لیکن برکیارق کی شادی کے دن لوگ سلطان مرحوم کا غم جیسے بھول ہی گئے تھے، برکیارق کا مقصد ہی یہی تھا۔
جب اندر نکاح وغیرہ ہو رہا تھا اس وقت مزمل آفندی رے کے امیر ابو مسلم رازی کے پاس جا بیٹھا، برکیارق کے دونوں چھوٹے بھائی محمد اور سنجر بھی اس کے پاس آ بیٹھے، یہ دونوں بھائی خاصے مغموم تھے، صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک تو انہیں اپنا باپ یاد آرہا ہے اور دوسرے یہ کہ یہ اپنے بھائی کی شادی پر خوش نہیں۔
امیرمحترم!،،،،،، مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا۔۔۔ آپ جب سلطان مرحوم کی وفات پر یہاں آئے تھے تو مجھے آپ کے ساتھ بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، اب میں نے موقع نکالا ہے، کیا آپ کو کسی نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے نئے سلطان کی دلہن باطنی ہے اور یہ اپنے آپ کو سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ظاہر کرتی ہے؟
ہاں مزمل آفندی !،،،،،،ابومسلم رازی نے جواب دیا ۔۔۔میری مخبری کے ذرائع ایسے ہیں کہ زمین کے نیچے کی ہوئی بات بھی میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے ،مجھے معلوم ہو چکا ہے۔
سلطان برکیارق کی دلہن سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن نہیں۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ یہ اس کے ساتھ الموت سے آئی تھی، کیا آپ اس کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں ؟
میں سب کچھ سوچ چکا ہوں۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ اور سوچ بھی رہا ہوں ،تم کیا سوچ رہے ہو؟
امیرمحترم !،،،،،مزمل نے جواب دیا ۔۔۔میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ لڑکی نہ جانے کیا گل کھلائے گی، آپ سے میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں آپ کو میری ضرورت پڑے مجھے فوراً بلائیں ،آپ اس لڑکی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کا نام شمونہ ہے وہ آگ بگولا بنی بیٹھی ہے، آپ اسے بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔
تم کسی بھی دن رے آ جاؤ۔۔۔ ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ اطمینان سے بیٹھیں گے اور کچھ سوچ لیں گے۔
کیا یہ لڑکی ہمارے بھائی کو مار ڈالے گی؟،،،،، برکیارق کے بھائی محمد نے پوچھا۔
شاید نہیں ۔۔۔ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔۔ یہ لڑکی سلطان برکیارق کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور اس کی توجہ حسن بن صباح سے ہٹا دے گی ،مجھے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ سلطان مرحوم کی وفات کے بعد باطنیوں کی تبلیغ بہت تیز ہوگئی ہے، اور ان کے اثرات دور دور تک پھیلنے شروع ہوگئے ہیں، میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ سلطان برکیارق کیا کرتے ہیں۔
ہمارا بھائی برکیارق کچھ بھی نہیں کرے گا۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں، ہم دونوں بھائی دیکھ رہے ہیں کہ برکیارق کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ہی بدل گیا ہے، جیسے ہم اس گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور دو چار دنوں بعد رخصت ہو جائیں گے۔
ایک خیال کرنا محمد !،،،،،ابو مسلم رازی نے کہا۔۔۔ اور تم بھی سنجر، اگر برکیارق یا اس کی بیوی کوئی بدتمیزی یا تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو خاموش رہنا ،میں ابھی ایک بات زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کو ذرا سا اشارہ دے ہی دوں تو بہتر ہے ،مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس لڑکی کے ذریعے حسن بن صباح ہماری سلطنت میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے، خانہ جنگی کیسے ہوگی اس پر ابھی نہ سوچو میں موجود ہوں، تم دونوں بھائی چوکنّے رہنا اور تم مزمل ادھر ادھر دھیان رکھنا جونہی کوئی بات معلوم ہو میرے پاس آ جانا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز دعوت ولیمہ دی گئی جو شادی کی ضیافت جیسی ہی تھی، امراء وزراء اور دیگر اعلی سرکاری رتبوں والے افراد فرداً فرداً سلطان برکیارق کو مبارک باد کہنے گئے، برکیارق نے ہر ایک سے کہا کہ یہ لوگ تین چار دن یہیں رہیں ،کیونکہ وہ ان سے خطاب کرے گا۔
یہ لوگ رکے رہے، پانچویں روز برکیارق نے ان سب کو اکٹھا کرکے خطاب کیا، یہ ایک تاریخی اہمیت کا خطاب تھا، تاریخی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نئے سلطان نے سلطنت سلجوقیہ کی گاڑی الٹے رخ چلا دی تھی، تاریخ میں آیا ہے کہ اس نے خطاب میں جو نئے اعلان کئے وہ کچھ اس طرح تھے۔
نیا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری ہوگا۔
انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گی ۔
حسن بن صباح کا مقابلہ تبلیغ سے کیا جائے گا کیونکہ وہ ایک مذہبی فرقہ ہے جسے فوجی طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا ،سلطان برکیارق نے زور دے کر کہا کہ پہلے بہت زیادہ جانی نقصان کرایا جاچکا ہے جو اب ختم کیا جا رہا ہے ۔
محصولات زیادہ کیے جائیں گے۔
وہاں جتنے بھی امراء وزراء اور سالار وغیرہ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ،سب نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ سلطان نشے کی حالت میں بول رہا ہے، یہ نشہ سلطانی کا بھی تھا اور روزینہ کے حسن و جوانی کا بھی ۔
سلطان محترم !،،،،،،ابومسلم رازی بے قابو ہوکر بول پڑا ۔۔۔حسن بن صباح ایک خطرناک فتنہ ہے اور اسلام کا بدترین دشمن،،،،، نظام الملک اور سلطان ملک شاہ کا قاتل حسن بن صباح ہے۔
سلطان برکیارق نے ابومسلم جیسے عالم مجاہد اور بزرگ کو آگے بولنے نہ دیا۔
اب کوئی قتل نہیں ہوگا ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا ۔۔۔یہ سوچنا میرا کام ہے،،،،،آپ کا نہیں،،،،،آپ رے میں امن وامان قائم رکھیں۔
سلطان برکیارق کی اس نئی حکمت عملی سے سب کو اختلاف تھا، لیکن جس طرح اس نے ابومسلم رازی کو ٹوک کر اپنا حکم چلایا اس سے سب خاموش رہے، سب نے جان لیا کہ یہاں بولنا بیکار ہے، یہ سب چھوٹے بڑے حاکم سلطان برکیارق کے باپ کے وقتوں کے تھے، اور سب کی عمریں اس کے باپ جتنی تھیں، لیکن برکیارق نے کسی ایک کا بھی احترام نہ کیا اور کسی کو وہ تعظیم بھی نہ دی ،جو سرکاری طور پر ان کا حق تھا ،وہ اپنا خطاب ختم کر کے وہاں سے چلا گیا۔
باہر آ کر آپس میں سب نے کھسر پھسر کی مگر اونچا کوئی بھی نہ بولا، بعض پر تو حیرت کی خاموشی چھا گئی تھی، ابومسلم رازی برکیارق کی ماں کے پاس چلا گیا ،اس گھر میں اس کی اتنی قدر و منزلت ہوتی تھی جیسے وہ اسی خاندان کا ایک فرد ہو ،برکیارق کی ماں اسے دیکھ کر رونے لگی۔
مجھے غم تھا کہ میں بیوہ ہو گئی ہوں ۔۔۔ماں نے کہا ۔۔۔لیکن ایک اور غم یہ آ پڑا ہے جیسے میرا بیٹا برکیارق بھی مر گیا ہو، روزینہ اس پر نشے کی طرح طاری ہوگئی ہے، ولیمے کے بعد میرا بیٹا باہر نکلا ہی نہیں، کیا دن کیا رات کو دلہن کے ساتھ کمرے میں بند رہا، کل شام دونوں بگھی پر باہر نکلے تو میں ان کے خواب گاہ میں چلی گئی، خادمہ برتن اٹھا رہی تھی دو چاندی کے پیالے پڑے تھے، پاس ایک صراحی رکھی تھی میں نے پیالے سونگھے تو عجیب سی بو آئی، یہ اگر شراب نہیں تھی تو کوئی اور مشروب نہیں بلکہ یہ کوئی اور نشہ تھا۔
آپ اتنی بھی پریشان نہ ہو جائیں۔۔۔ ابومسلم رازی نے برکیارق کی ماں کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔یہ آپ کے بیٹے کا نہیں یہ جوانی کا قصور ہے، کچھ دنوں بعد نشہ اتر جائے گا اور مجھے امید ہے کہ لڑکا اپنے خاندان کے راستے پر آ جائے گا۔
میں نے دنیا دیکھی ہے۔۔۔ برکیارق کی ماں نے کہا۔۔۔ میں اپنے آپ کو یہ دھوکہ کس طرح دوں کہ بیٹا اپنے باپ کے راستے پر واپس آجائے گا، ہم نے بھی جوانی دیکھی ہے، سلطان مرحوم کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میں اس لڑکی جیسی خوبصورت تھی، اور کمسن بھی تھی، سلطان مرحوم کبھی میرے ساتھ کمرے میں بند نہیں ہوئے تھے، انہوں نے مجھے ایک نشہ نہیں بنایا بلکہ ایک خوبصورت بیوی سمجھ کر اس حیثیت میں رکھا جو بیوی کو اسلام نے دی ہے،،،،،،،، خوبصورت عورت بجائے خود ایک نشہ ہوتی ہے، اللہ نے مرد میں کمزوری رکھ دی ہے کہ وہ حسین عورت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتا ہے چالاک اور مطلب پرست عورت جس مرد پربد نیتی سے یا اپنے مطلب کے لئے قبضہ کرنا چاہتی ہے، اس کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ شخص اس عورت کا زر خرید غلام ہو جاتا ہے، ایسی بدفطرت عورت مردوں کو اس مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے، اس مقام پر جا کر اسے سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا ،وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور اس کی تباہی کی ذمہ داری یہ عورت ہے اور وہ اس عورت کا پجاری بن جاتا ہے،،،،،، عورت کے ہاتھوں بادشاہیاں الٹ گئی ہیں۔
ابومسلم رازی جانتا تھا کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوہ جو کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے، یہ مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن اب تو یہ سوچنا تھا کہ برکیارق کو کس طرح اس لڑکی کے نشے نکالا جائے، ابومسلم نے اس خاتون کو جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور کہا کہ وہ نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ سلطنت کا وقار قائم رہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس سے کچھ عرصہ پہلے حمیرا جابر کے ساتھ قلعہ الموت پہنچ گئی تھی ،ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی لڑکی کو ورغلاکر الموت لاتا تو اس لڑکی کو لڑکیوں کے گروہ کے نگراں کے حوالے کردیا جاتا تھا، اگر کوئی لڑکی اکھڑ پن پر اتر آتی اور ان لوگوں کی بات پر آنے سے انکار کردیتی تو ان کے پاس اس کا بھی علاج موجود تھا، ایک علاج تو تشدد اور زبردستی تھا لیکن یہ علاج کم سے کم استعمال کیا جاتا تھا ،ان لوگوں کے پاس بڑے ہی پیارے اور دل کو لبھانے والے طریقے تھے جو بڑی اکھڑ لڑکیوں کو بھی موم کر لیتے تھے، جابر کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ حمیرا کو متعلقہ گروہ کے نگراں کے حوالے کر دیتا ،اس کا کام ہو گیا تھا ،لیکن جابر نے اس مروّجہ طریقہ کار سے انحراف کیا اور حمیرا کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا۔
اس کا یہ دوست تھا تو باطنی لیکن وہ فدائین میں سے نہیں تھا ،نہ کبھی اسے ذمہ داری کا کوئی کام سونپا گیا تھا ،اس دوست نے جابر سے کہا کہ وہ کیوں اس لڑکی کو ساتھ لئے اور چھپائے پھرتا ہے اسے ان کے حوالے کیوں نہیں کر دیتا ،جو نئی آنے والی لڑکیوں کو اپنے ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
نہیں بھائی !،،،،،جابر نے اپنے دوست سے کہا۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ میرا کچھ جذباتی سا تعلق پیدا ہوگیا ہے، اسے آخر اسی جگہ بھیجنا ہے جس جگہ کے لیے میں اسے ساتھ لایا ہوں، لیکن اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں اسے کسی اور کے حوالے کروں، میں اسے خود تیار کروں گا۔
دراصل جابر کو حمیرا سے محبت ہی اتنی زیادہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے باطنیوں کے مقاصد کے لیے تیار بھی کرلے اور یہ لڑکی اس سے متنفر بھی نہ ہو ،دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حمیرا کو ایک بار حسن بن صباح کے سامنے لے جائے اور اس سے درخواست کرے کہ وہ اس لڑکی کو خود تیار کرنا چاہتا ہے، دوست نے اسے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کہ وہ کبھی اس لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ جابر نے ایک لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے تو اسے موت سے کم سزا نہیں ملے گی۔
جابر نے اس مشورے کو بڑا قیمتی مشورہ جانا اور ایک روز حمیرا کو حسن بن صباح کے پاس لے گیا، حمیرہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ اس انسان کو ایک بار دیکھ تو لے جس نے ایک باطل عقیدے کو اتنی جلدی اور اتنی دور دور تک پھیلا دیا ہے، حمیرا نے یہ بھی سنا تھا کہ حسن بن صباح اپنے کسی فدائی سے کہتا ہے کہ اپنی جان لے لو تو وہ فدائی اپنے آپ کو مار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتا اور وہ فوراً خنجر اپنے سینے میں اتار لیتا ہے، حمیرا نے سوچا دیکھوں تو سہی کہ وہ انسان کیسا ہے۔
جابر اسے سیدھا حسن بن صباح کے پاس نہ لے گیا بلکہ اسے ایک جگہ چھوڑ کر پہلے خود حسن بن صباح کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو لایا ہے جس کے بھائی نے انہیں قستان جیسا اہم قلعہ دلایاہے ،حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ یہ قلعہ بند شہر کس طرح اس کے قبضے میں آیا ہے، جابر نے حسن بن صباح کو پوری تفصیل سنائی ۔
تم اب چاہتے کیا ہو ؟،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔
یا شیخ الجبل !،،،،،جابر نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کو کچھ انعام دینے کی درخواست کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میں اسے خود تیار کروں، اس پر تشدد نہ ہو، یا اسے حشیش نہ پلائی جائے اور اسے دھوکے میں بھی نہ رکھا جائے، اگر میں اسے بقائمی ہوش و حواس تیار کرلوں تو یہ لڑکی پہاڑوں کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گی۔
میرا خیال ہے کہ تم خود انعام لینا چاہتے ہو۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی سے بڑھ کر اور انعام کیا ہوسکتا ہے، کیا تم انعام کے طور پر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو؟
یا شیخ الجبل !،،،،،جابر نے سر جھکا کر کہا۔۔۔ جس روز میرے دل میں یہ آئی کہ میں اپنے امام کو دھوکہ دوں اس روز میں اپنے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کر لوں گا،،،،،،میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لایا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے پاس تھوڑی سی دیر بیٹھی تو اس کا اکھڑ پن ختم ہو جائے گا، میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس لڑکی کے دل میں آپ کی اور ہم سب کی نفرت بھری ہوئی ہے، میں یہ بھی عرض کردیتا ہوں کہ اس کے دل میں میری محبت موجزن ہے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں۔
حسن بن صباح کے اشارے پر جابر اٹھا اور باہر جاکر حمیرا کو اپنے ساتھ لے آیا ،حمیرا حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئی، حسن بن صباح کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے اس شخص کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں ،ان مسکراتی آنکھوں نے حمیرا کو جیسے جکڑ لیا ہو اور حمیرا کی آنکھوں میں پلک جھپکنے کی بھی سکت نہ رہی ہو ،حمیرا نے محسوس کیا کہ جیسے حسن بن صباح کی آنکھوں سے غیر مرائی اور بڑے پیارے رنگوں والی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں، اور شعاعیں حمیرا کی آنکھوں کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہوں، حمیرا اپنی ذات میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی، اس کے اندر ایسا احساس بیدار ہونے لگا جیسے حسن بن صباح اتنا قابل نفرت نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ حسن بن صباح نے یہ پراسرار طاقت بڑی محنت سے اور استادوں کے قدموں میں سجدے کر کر کے حاصل کی ہے ۔
ایک بات بتاؤ لڑکی!،،،،، حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔تمہارے دل میں کسی کی محبت تو ضرور ہوگی؟
ہاں !،،،،،حمیرا نے کہا ۔۔۔میرے دل میں اللہ کی محبت ہے ۔
اس کے بعد کون ؟
اللہ کے آخری رسول۔۔۔ حمیرا نے جواب دیا۔
اس کے بعد ؟
اپنے بھائی منور الدولہ کی محبت میرے دل میں رچی بسی ہوئی ہے۔۔۔۔ حمیرا نے جواب دیا۔
اور اس کے بعد ؟
حمیرا نے جابر کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا ۔
ایک بات بتا لڑکی !،،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہے اس میں نفرت کہاں سے آگئی؟
حمیرا نے چونک کر حسن بن صباح کی طرف دیکھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ سکی ۔
جاؤ لڑکی !،،،،،حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔تم قدرت کے حسن کا شاہکار ہو، تم پھول ہو جو خوشبو دیا کرتے ہیں، اپنے پھول جیسے حسن میں نفرت کی بدبو نہ بھرو،،،،، جاؤ جابر کے ساتھ رہو ،جب تمہارے دل سے نفرت نکل جائے گی اور ضرور نکلے گی پھر تمہارا دل تمہیں کہے گا کہ چلو اسی شخص کے پاس،،،،،، پھر تم خود میرے پاس آؤ گی۔
حمیرا آنکھیں حسن بن صباح کی آنکھوں سے آزاد نہ کر سکی، اسے اٹھنا تھا لیکن نہ اٹھی، اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اور وہ اپنی ذات میں کوئی ایسا تاثر محسوس کر رہی تھی جیسے وہ یہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی، اگر جابر اس کا بازو پکڑ کر نہ اٹھاتا تو وہ وہیں بیٹھی رہتی ،جابر حمیرا کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جابر کے دوست کے گھر پہنچنے تک حمیرا نے کوئی بات نہ کی، وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی محسوس کر رہی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی، وہ انسان اور ابلیس کے اس پہلو سے ناواقف تھی کہ جب کوئی انسان اپنے اندر ابلیسی اوصاف پیدا کرلیتا ہے تو اس میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ خام کردار والے لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے جاتے ہیں ،اگر وہ بدصورت ہو تو بھی دیکھنے والوں کو خوبصورت لگتا ہے، اس کی زبان میں ایسا طلسماتی تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ جب بات کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں اس کا ایک ایک لفظ اترتا چلا جاتا ہے، یہ تو اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو انسان میرے راستے سے ہٹ کر ابلیس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس پر میں ایک ابلیس مسلط کر دیتا ہوں۔
حمیرا اس لیے بھی حسن بن صباح سے اچھا تاثر لے کر آئی تھی کہ وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا، اس کے پیروکار اسے نبی بھی مانتے تھے، وہ جسے چاہتا ایک اشارے پر قتل کروا دیا کرتا تھا ،یہ شخص کہہ سکتا تھا جابر تم جاؤ اور اس لڑکی کو میرے پاس رہنے دو، لیکن حسن بن صباح نے جیسے حمیرا کے حسن و جوانی کی طرف توجہ دی ہی نہیں تھی، اس لحاظ سے وہ جابر کے کردار کی بھی قائل ہوگئی تھی، اتنے دن اور اتنی راتیں جابر کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھا کہ جابر نے کبھی اس سے پیار اور محبت کی باتوں کے سوا کوئی بے ہودہ بات یا حرکت نہیں کی تھی۔
حمیرا کو اپنا بھائی، ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تھے، اسے اپنے بھائی کی بیوی اور اس کے بچے بھی یاد آتے تھے، لیکن وہ گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکلی تھی، وہ اس کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ان سب کو دل سے اتار دے۔
ایک دو دنوں بعد۔۔۔ جابر نے حمیرا سے کہا۔۔۔ آؤ تمہیں یہاں کا قدرتی حسن دکھاؤں، تم کہہ اٹھوگی کے اگلے جہان کی جنت اس سے خوبصورت کیا ہوگی، وہ دونوں شہر سے باہر نکل گئے قلعہ اور یہ شہر پہاڑی کے اوپر تھے دور جا کر وہ اس پہاڑی سے اترے آگے دریا تھا، دریا اور پہاڑی کے درمیان ذرا کشادہ میدان تھا ،جس میں بڑے خوبصورت اور دلنشین پودے تھے درخت تھے اور گھاس تھی، حمیرا کو یہ جگہ بہت ہی اچھی لگی اس کے دل پر جو بوجھ سا اور گرفت سی رہتی تھی وہ کم ہونے لگی، اس نے محسوس کیا جیسے وہ یہاں سے واپس نہیں جاسکے گی ،جابر اسے دریا کے کنارے لے گیا یہ کنارہ بہت ہی اونچا تھا دریا بہت نیچے بہتا چلا جا رہا تھا ،وہاں دریا کا پاٹ تنگ تھا، سامنے والا کنارہ بھی اونچا تھا وہاں سے دریا مڑتا بھی تھا اس لئے وہاں پانی کا جوش بڑا ہی زیادہ تھا ،اور بھنور بھی پیدا ہو رہا تھا ،یہ دراصل پہاڑی تھی جسے کاٹ کر دریا گزررہاتھا، جابر اور حمیرا کنارے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔
یہاں سے دریا میں کوئی گر پڑے تو کیا وہ بچ کے نکل آئے گا؟،،،، حمیرا نے پوچھا۔
ناممکن۔۔۔ جابر نے جواب دیا ۔۔۔کوئی تیراک بھی نہیں نکل سکے گا ،کیونکہ پاٹ تنگ ہے اور پانی زیادہ اور تیز بھی ہے، اور دریا یہاں سے مڑتا بھی ہے ،،،،،یہ دریا یہاں سے کھڑے ہوکر دیکھو تو ہی اچھا لگتا ہے۔
اپنے امام کے پاس پھر کبھی لے چلوگے؟،،،، حمیرا نے پوچھا ۔
کیا تم اس کے پاس جانا چاہوگی؟،،،، جابر نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے ۔۔۔حمیرا نے کہا۔۔۔ اور پھر آہ بھر کر بولی۔۔۔ اپنے بھائی کو ماں کو اور بھائی کے بچوں کو دل سے اتارنے کی کوشش کررہی ہوں لیکن وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں۔
میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں۔۔۔ جابر نے کہا۔۔۔ اور کچھ توقف کے بعد بولا،،،، تم ان سب کو بھول ہی جاؤ تو بہتر ہے ،تمہارا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا ۔
کیا کہا،،،، حمیرا نے تڑپ کر پوچھا ۔۔۔وہ اس دنیا میں نہیں رہا؟ کیا ہوا اسے؟
اسے قتل کر دیا گیا تھا ۔۔۔جابر نے کہا۔۔۔ اس کے بیوی بچوں کا اور تمہاری ماں اور بہن بھائیوں کا بھی یہی انجام ہوا۔
میرے بھائی کو کس نے قتل کیا تھا؟
میرے ساتھیوں نے۔۔۔ جابر نے جواب دیا۔ تمہارے ساتھیوں نے۔۔۔ حمیرا نے چلا کر کہا۔۔۔ اور جابر پر جھپٹ پڑی۔
اس وقت جابر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا، حمیرا نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے دھکا دیا ،پیچھے ہٹنے کو جگہ تھی ہی نہیں، پیچھے دریا تھا جابر اتنے اونچے کنارے سے گرا اس کی چیخیں سنائی دیں ،اور جب وہ دریا میں گرا تو اس کی چیخیں گرنے کی آواز میں دب گئی، حمیرا نے اوپر سے دیکھا جابر ہاتھ مار رہا تھا، دریا اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا لیکن موڑ پر بھنور تھا جابر اس بھنور میں آگیا اور ایک ہی جگہ لٹو کی طرح گھومنے لگا، حمیرا نے دائیں بائیں دیکھا ایک بڑا ہی وزنی پتھر پڑا تھا ،حمیرا نے پتھر اٹھایا جو اس سے ذرا مشکل سے ہی اٹھا، جابر اس کے بالکل نیچے پھنسا ہوا تھا حمیرا نے اوپر سے پتھر پھینکا جو جابر کے سر پر گرا اس کے بعد جابر پانی سے ابھر نہ سکا۔
جابر ڈوب گیا تو حمیرا نے توجہ اپنی طرف کی، اس حقیقت نے اس کے دل کو مٹھی میں لے لیا کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے، اب وہ واپس جابر کے دوست کے پاس نہیں جا سکتی تھی، اسے اب وہاں سے فرار ہونا تھا، اس کی خوش نصیبی تھی کہ سورج غروب ہو رہا تھا ،وہ آگے کو چل پڑی اس نے رو رو کر اللہ کو یاد کیا اور تیز ہی تیز چلتی گئی اور جب سورج غروب ہوگیا تو وہ گھنے جنگل میں پہنچ چکی تھی،
وہ اس خیال سے دوڑ پڑی کے رات ہی رات وہ اتنی دور نکل جائے کہ کوئی اس کے تعاقب میں نہ آ سکے ،رات تاریک ہوتی چلی گئی۔ حمیرا کو راستے کا کچھ اندازہ تھا وہ اس راستے پر ہو لی۔
الموت کا قلعہ اور شہر اندھیرے میں چھپ گئے تھے، حمیرا نے اللہ کا نام لے کر اپنے حوصلے مضبوط کرنے کی کوشش شروع کر دی ،وہ چلتی چلی گئی رات کی تاریکی اسے دنیا سے چھپائے ہوئے تھی، وہ بہت دور نکل گئی اور اسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی گھوڑا آ رہا ہو، وہ راستے سے ذرا ہٹ کر ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی، اندھیرے میں ذرا ذرا نظر کام کرتی تھی۔
گھوڑا قریب آ گیا اس پر ایک آدمی سوار تھا، حمیرا ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس کے دماغ نے ایک ترکیب سوچ لی جونہی گھوڑا قریب آیا حمیرا تیزی سے گھوڑے کے راستے میں جا کھڑی ہوئی، اس نے بازو پھیلا دیے اور بڑی زور سے چیخیں مارنے لگیں، یہ چیخیں اس طرح کی نہیں تھی جو خوف یا تکلیف کی حالت میں منہ سے نکلا کرتی ہیں، حمیرا نے چڑیلوں کے قصے سنے تھے، وہ چڑیلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور بڑی بھدی سی آواز میں بولی،،،، مسافر گھوڑے سے اتر اور پیدل چل نہیں تو کلیجہ نکال لوں گی۔
لوگ چڑیلوں کے وجود کو مانتے تھے ،سوار اسے چڑیل نہ سمجھتا تو اور کیا سمجھتا، رات کو اس ویرانے میں کوئی عورت اور وہ بھی اکیلی جا ہی نہیں سکتی تھی، حمیرا ایسے خوفناک طریقے سے چیخی تھی کہ گھوڑا بھی بدک گیا تھا، سوار کود کر گھوڑے سے اترا اور حمیرہ کے آگے گھٹنے زمین پر ٹیک کر ہاتھ جوڑ دیئے، وہ بری طرح کانپ رہا تھا وہ چڑیل سے اپنی جان کی بخشش مانگ رہا تھا،حمیرا اسے نظر انداز کرکے گھوڑے کے پاس گئی رکاب میں پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہوگئی ،اس نے گھوڑا موڑ اور ایڑ لگادی، وہ شہسوار تھی اور مضبوط دل والی لڑکی تھی۔
اچھی نسل کا گھوڑا دوڑا تو بہت تیز لیکن حمیرا کو خیال آگیا کہ وہ جائے گی کہاں، اس کا بھائی قتل ہوچکا تھا اور گھر کے باقی افراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ بیچارے کس انجام کو پہنچے، وہ گھوڑا دوڑاتی گئی اور سوار پیدل بھاگ اٹھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*