🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اڑتیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آج کی سائنس نے قدیم زمانے کے اسرار کو بے نقاب کردیا ہے ،کوئی انسان غصے سے باؤلا ہو جائے درندہ بن جائے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تو چھوٹی سے ایک گولی یا ذرا سا ایک انجکشن اس کے ذہن کو سلا دیتا ہے اور وہ کمزور سا ایک انسان بن جاتا ہے، اب تو ایسے ملزموں کو جو اپنے جرم کا اقبال نہیں کرتے دھوکے میں کھانے یا پینے کی اشیاء میں ذرا سی دوائی ملا کر دی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہو اور حسین ترین لڑکیاں اس پر جان نثار کرتی ہوں، اور اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اس قدر بہادر دلیر اور دانش مند ہے کہ اس نے وہ جرم کیا ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا اس طرح دو چار مرتبہ اسے یہ دوائی کھانے پینے میں دی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے اپنے جرم کا اقبال ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کی تفصیل سنا دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
حسن بن صباح کی جنت کا زیادہ تر تعلق انسانی ذہن ہی سے تھا، تاریخوں میں جو تفصیلات آئی ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اختلاف ہے ، لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حسن بن صباح اپنے فدائین کو حشیس پلاتا تھا ،حشیش کے جو اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ ان تمام منشی اشیاء کے اثرات سے مختلف ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں۔
حشیش پی کر انسان نے اگر ہنسنا شروع کر دیا تو وہ نشہ اترنے تک ہنستا ہی چلا جائے گا، اور اگر وہ رونے پر آیا تو گھنٹوں روتا ہی رہے گا، کسی انسان کو آہستہ آہستہ حشیش پلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ کوئی بڑا ہی حسین منظر الفاظ میں بیان کرتے رہیں تو وہ شخص ایسے ہی منظر میں چلا جائے گا خواہ اس منظر کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔
تاریخ میں یہ بالکل صحیح لکھا گیا ہے کہ جس دانشمندی سے حسن بن صباح نے حشیش کو استعمال کیا ہے اس طرح اس وقت تک اور کوئی نہیں کر سکا تھا ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح غیر معمولی طور پر دانشمند آدمی تھا۔
یونان کی دیو مالائی داستان کی جنت اور حسن بن صباح کی جنت میں فرق یہ تھا کہ اس یونانی داستان میں ایک غار تھا جس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں ابھری تھیں اور وہاں کنکریاں اور مٹی تھیں، لیکن حسن بن صباح نے جس علاقے میں جنت بنائی تھی وہ بڑا ہی حسین اور روح افزا جنگل تھا ،اس جنگل میں پھل دار درخت بھی تھے اور پھولدار خودرو پودے بھی تھے، ایسے اور بھی بہت سے پودے وہاں اگائے گئے تھے ،اور اس خطے کو کاٹ کاٹ کر مزید خوبصورت بنا دیا گیا تھا ،جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ قلعہ الموت بلندی پر تھا اور اس کا اپنا ایک حسن تھا، یہ قلعہ بنانے والوں نے اس کی خوبصورتی کا خاص طور پر خیال رکھا تھا۔
حسن بن صباح کے یہاں نوجوان اور بڑی ہی حسین لڑکیوں کی کمی نہیں تھی، اس کا ایک گروہ ہر ایک دن قافلے لوٹنے میں لگا رہتا تھا، یہ گروہ قافلوں سے سونے چاندی کے علاوہ نقد رقم لوٹ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کمسن بچیوں کو بھی اٹھا لاتا تھا، ان بچیوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی تھی، لیکن ان پر ذرا سا بھی ظلم اور تشدد نہیں کیا جاتا تھا ،انہیں بڑی خوبصورت زندگی مہیا کی جاتی تھی اور اسکے ساتھ انہیں مردوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔ لڑکیوں کے ہاتھوں سے فدائین کو تیار کرنے کے لئے حشیش پلائی جاتی تھی، حشیش پلا کر یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتی تھیں جن سے انہیں یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ اتنے بہادر ہیں کہ جسے چاہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو ساری دنیا کو فتح کر لیں۔
مختصر یہ کہ حسین اور نوجوان لڑکیوں اور حشیش کے ذریعے ان آدمیوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا، اس کے ساتھ وہاں کا قدرتی ماحول اپنا ایک اثر رکھتا تھا ،کچھ دنوں بعد اس شخص کو اس ماحول ان لڑکیوں اور حشیش سے محروم کرکے قلعے کے تہہ خانے میں پہنچا دیا جاتا تھا، وہ شخص تڑپتا اور کاٹنے کو دوڑتا تھا ،اس کیفیت میں اسے حسن بن صباح کے سامنے لے جایا جاتا اور تاثر یہ دیا جاتا کہ حسن بن صباح ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ جسے چاہے جنت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دیتا ہے۔
اس شخص کی اس ذہنی اور جذباتی حالت میں حسن بن صباح اپنا جادو چلاتا تھا، وہ اسے قتل کرنے اور قتل ہو جانے پر آمادہ کرلیتا تھا،بات وہیں پر آتی ہے کہ یہ ان انسانوں کے ذہن تھے جن پر حسن بن صباح قابض ہوجاتا ،اور انہیں اس مقام تک لے جاتا تھا جہاں وہ لوگ اس کے اشارے پر جانیں قربان کر دیتے تھے۔
انسان کی سب سے بڑی کمزوری تعیش پرستی ہے، اللہ کے بندوں کی یہی وہ دکھتی رگ ہے جسے ابلیس اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، اسی لئے حسن بن صباح کی جنت کو ابلیسی جنت کہا گیا ہے۔
پھر حقائق سے فرار انسان کی دوسری بڑی کمزوری ہے، کوئی انسان جب عورت کو فرار کا ذریعہ بناتا ہے تو اس کے ذہن میں ابلیس کی جنت کا وجود آ جاتا ہے، پھر اس انسان کو دنیا کی کوئی طاقت تباہی
سے نہیں بچا سکتی، ایسا انسان اللہ کے اس فرمان کو بھی نظر انداز کردیتا ہے جس میں اللہ نے انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ تم پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے۔
*وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿ؕ۳۰﴾*
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح کا باطنی عقیدہ بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اور بے شمار علاقہ اس کی زد میں آچکا تھا، اس عقیدے نے تیزی سے ہی پھیلنا تھا ،انسان فطری طور پر خود سر اور سرکش واقع ہوا ہے، یہ بھی ایک فطری کمزوری ہے اگر کوئی مخلص قائد مل جائے اور وہ کچھ انسانوں کی خود سری اور سرکشی کو منظم طریقے سے کسی نصب العین کے لیے استعمال کرے تو یہ ایک قوت بن جاتی ہے، لیکن اسی خودسری اور سرکشی کو انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اوصاف اس کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں ،انسان پابندیاں قبول نہیں کیا کرتا ،حسن بن صباح نے لوگوں کو جو عقیدہ دیا تھا اس کا نام اسلام ہی رہنے دیا تھا لیکن اس میں ترمیم یہ کی تھی کہ انسان کے باطن میں جو کچھ ہے وہی مذہب ہے، اس نے شریعت کو اسلام میں سے نکال دیا تھا۔
وہ پسماندگی کا دور تھا، تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، ان علاقوں کے لوگ مسلمان تھے حسن بن صباح نے ان کو مسلمان ہی رہنے دیا اور کمال یہ کر دکھایا کہ انہیں تمام مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد کردیا۔
اس کا باطنی عقیدہ تیزی سے پھیل رہا تھا، پھر بھی سلطان ملک شاہ اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا ہوا تھا، اسے معلوم تھا کہ یہ سلطان اس کے خلاف بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے، حسن بن صباح نے اپنے ایک فدائی کے ہاتھوں سلطان ملک شاہ کا پتہ ہی کاٹ دیا تو یہ رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی ،اسے برکیارق کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا، اس نے اپنے مصاحبوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جوان آدمی ہے جس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اسے ذہنی طور پر بیدار کرنے کے لئے روزینہ کو بھیج دیا تھا، جس کے حسن و جمال اور انداز میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے تھے۔
اس علاقے میں ابھی کچھ اور قلعے ایسے تھے جو حسن بن صباح کے قبضے میں نہیں آئے تھے، وہ اس خیال سے ان قلعوں کی طرف نہیں بڑھتا تھا کہ سلطان ملک شاہ فوج لے کر آ جائے گا۔
ان قلعوں میں ایک اہم قلعہ قلعہ ملاذ خان تھا جو فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا، کسی وقت یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے قبضے میں تھا ،وہ قافلوں کو لوٹتے اور مال اس قلعے میں لاکر جمع کر دیتے تھے، قافلوں میں سے انہیں کمسن بچیاں اور نوجوان لڑکیاں ملتی تھیں تو انہیں بھی اس قلعے میں لے آتے تھے۔
ان ڈاکوؤں کے ڈر سے قافلوں کی آمد و رفت و بند ہوگئی اور اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا لوگ سلطان ملک شاہ کے یہاں گئے اور فریاد کی کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے، ان دنوں سلطان ملک شاہ جوان تھا اور نیا نیا سلطان بنا تھا، اس نے اپنے ایک سالار کو حکم دیا کہ وہ اس قلعے پر قبضہ کرے اور ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کردے، اس سالار کا نام عفد الدولہ بن بویا تھا، سلجوقیوں کی تاریخ کا یہ ایک نامور سالار تھا ،اس نے ایک روز طوفان کی طرح جا کر قلعے کا محاصرہ کرلیا ،ڈاکو آخر ڈاکو تھے وہ کوئی جنگجو نہیں تھے ،سالار بویا نے اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھیں اور اپنی جانیں قربان کردیں۔
وہ مجاہدین تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ ان ڈاکوؤں نے کتنے ہی قافلے لوٹے ہیں اور سینکڑوں کمسن لڑکیوں کو اغوا کیا ہے اور سینکڑوں نہیں ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دی ہے، ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگادی اور قلعے میں دیوار پھاند کر داخل ہوگئے، تاریخ شہادت دیتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں طوفان کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے، ان کا جذبہ ایسا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اللہ کے حکم سے اس قلعے پر حملہ آور ہوئے ہوں۔
ایک بھی ڈاکو قلعے میں سے زندہ نہ نکل سکا سب کو کاٹ دیا گیا ،صرف عورتوں اور بچوں کو زندہ رہنے دیا گیا جنہیں سلطان ملک شاہ کے حکم سے دارالسلطنت میں بھیج دیا گیا تھا اور ان سب کو لوگوں کے گھروں میں آباد کر دیا گیا تھا۔
سلطان ملک شاہ نے یہ قلعہ اپنے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر دے دیا ،اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد حسن بن صباح نے اپنا ایک وفد میرانز کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ یہ قلعہ خریدنا چاہتا ہے، رئیس قلعہ نے صاف انکار کردیا اور یہ پیغام کا جواب دیا کہ آئندہ کوئی باطنی اس قلعے میں داخل ہونے کی جرات نہ کرے۔
قافلے محفوظ ہوگئے اور اس وسیع علاقے میں لوگ آکر آباد ہونے لگے ،حتٰی کہ یہ ایک شہر کی صورت اختیار کرگیا ،حسن بن صباح کی نظر ہمیشہ اس قلعے پر لگی رہی، لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اس قلعے کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔
سلطان ملک شاہ قتل ہوگیا تو حسن بن صباح نے اپنے خاص مصاحبوں سے کہا کہ اب قلعہ ملاذ خان اپنے قبضے میں آ جانا چاہیے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رئیس قلعہ بن بویا شام کے وقت اپنے مصاحبوں میں بیٹھا ہوا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ ایک سفید ریش بزرگ اسے ملنے آئے ہیں۔ بن بویا بااخلاق اور صاحب اقتدار رئیس تھا، وہ اس بزرگ کو اندر بلانے کی بجائے خود اس کے استقبال کے لئے چلا گیا، اسے بڑے تپاک اور احترام سے ملا اور اندر لے آیا۔
رئیس قلعہ!،،،،، بزرگ نے بن بویا کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔میں علاحدگی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔
بن بویا اسے دوسرے کمرے میں لے گیا۔
رئیس قلعہ!،،،،، بزرگ نے بات شروع کی ۔۔۔میں آپکو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں باطنی ہوں ،آپ نے اس قلعے میں باطنیوں کا داخلہ بند کررکھا ہے۔
پھر آپ اس قلعے میں کس طرح داخل ہوئے؟،،،،، بن بویا نے ذرا تحکمانہ لہجے میں کہا۔۔۔ کیا دروازے پر آپ سے کسی نے پوچھا نہیں تھا۔
پوچھا تھا۔۔۔ بزرگ نے جواب دیا۔۔۔میں نے جھوٹ بولا تھا کہ میں اہل سنت ہوں، اب آپ پوچھیں گے کہ میں نے جھوٹ کیوں بولا ،میرا اپنا کچھ ہی کیوں نہ ہو میں تارک الدنیا ہوں اور میرے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے، خداوند تعالی نے مجھے کشف کی طاقت دی ہے، میں اس قلعے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا، نہ میرا یہاں کوئی کام تھا، میں اس قلعے کی دیوار کے ساتھ جاتے ہوئے راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک اشارہ سا ملا اور میں نے گھوڑا روک لیا ،کوئی طاقت جو کشش کی طاقت ہی ہوسکتی ہے مجھے قلعے کی دیوار کے قریب لے آئی، مجھے صاف اور واضح اشارہ ملا کہ قلعے کے اندر خزانہ دفن ہے ،میں نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہونا چاہیے تھا اور یقین ہے ،کیونکہ یہ قلعہ صدیوں سے ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا، جہاں ڈاکو ہوتے ہیں وہاں کی زمین میں خزانہ کا مدفون ہونا لازمی ہوتا ہے۔
کیا آپ مجھے اس خزانے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں؟،،،،، بن بویا نے کہا۔۔۔ اس کے بعد آپ یہ کہیں گے کہ میں آدھا خزانہ آپ کو دینے کا وعدہ کروں تو آپ خزانے کی نشاندہی کریں گے۔
میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں تارک الدنیا ہوں،،،،،،بزرگ نے کہا۔۔۔ میں نے خزانہ حاصل کرکے کیا کرنا ہے ،میں خزانے کی نشاندہی کر دوں گا لیکن شرط یہ نہیں ہوگی کہ آدھا خزانہ مجھے دیں، بلکہ شرط یہ ہوگی کہ اس خزانے میں لوگوں کا لوٹا ہوا مال ہے، اس خزانے کے لئے ڈاکوؤں نے نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار آدمی مار ڈالے ہوں گے، یہ خزانہ نہ میرا ہے نہ آپ کا ،میں اسکی نشاندہی کروں گا لیکن اس شرط پر کہ اس خزانے کا صرف چالیسواں حصہ آپ لینگے، باقی سب غریبوں میں تقسیم کر دیں گے۔
ہاں بزرگوارِ محترم!،،،،، بن بویا نے کہا۔۔۔ میں خزانہ غریبوں میں تقسیم کر دونگا،،،،،، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خزانہ کتنا کچھ ہے؟
نہیں !،،،،،بزرگ نے جواب دیا ۔۔۔یہ بتانا مشکل ہے، لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خزانہ زیادہ ہے ،ایک بات اور بھی ہے جو ذرا تحمّل سے سنیں، آپ ہم باطنیوں کو کافر کہتے ہیں ،میں کبھی خود بھی شک میں پڑ گیا تھا لیکن جب مجھے کشف ہونے لگا تو یہ خیال آیا کہ میں کافر ہوتا تو اللہ کی ذات مجھے کشف کی طاقت نہ عطاکرتی، آج مجھے اس خزانے کا اشارہ ملا تو میں نے پہلے یہ سوچا کہ خزانہ ہے تو پڑا رہے مجھے اس سے کیا ،خیال آگیا کہ نہیں یہ خزانہ اللہ کے بندوں کے کام آنا چاہیے، اس پر مجھے اشارہ ملا کہ یہ غریبوں میں تقسیم ہو، میں بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک بار ہمیں موقع دیں کہ ہم آپ کے ساتھ باطنی عقیدے پر بات کر سکیں، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمارے عقیدے میں آجائیں، البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیں۔
کیا آپ ہم سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ؟،،،،،رئیس قلعہ بن بویا نے پوچھا۔۔۔ اگر ایسی بات ہے تو مناظرہ آپ کریں گے یا کوئی اور آئے گا؟
میں مناظرے کی بات نہیں کر رہا۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ مناظرے کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کو جھٹلانے کی کوشش کریں گے،،،،،،، نہیں رئیس قلعہ!،،،،،، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، نہ میں آپ کی توہین کرنے کا خواہشمند ہوں، میں اپنا مطلب پھر واضح کر دیتا ہوں کہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیں تاکہ ہم آپ کا دل صاف کر سکیں۔
کیا آپ خزانے کی بات اس کے بعد کریں گے؟،،،، بن بویا نے پوچھا ۔۔۔یا آپ یہ کوشش کریں گے کہ میں آپ کے عقیدے کو قبول کر لوں؟
نہیں رئیس قلعہ!،،،،،، بزرگ نے جواب دیا۔۔۔ خزانے کی بات الگ ہے، میں وہ بھی کروں گا، میں آپ کے ساتھ رہ کر خزانے کی نشاندہی کروں گا ،عقیدوں کی میں نے جو بات کی ہے وہ تو میں نے آپ سے اجازت مانگی ہے، آپ اس قلعے کے مالک ہیں اجازت نہ دیں گے تو میں آپ کا کیا بگاڑ لوں گا ،میرے دل میں اللہ کے ہر بندے کی محبت ہے۔
بن بویا ایک تو اس بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوا اور خزانے کی موجودگی نے تو اس کا دماغ ہی پھیر دیا ،خزانہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے، یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مدفون خزانہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا تھا ،اس دور میں قدیم بادشاہ بھی اپنے خزانے کا کچھ حصہ کسی خفیہ جگہ دفن کر دیا کرتے تھے، چونکہ یہ قلعہ ڈاکوؤں اور رہزنوں کا تھا اس لئے رئیس قلعہ بن بویا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ یہاں خزانہ دفن ہے،،،،،،، مدفون خزانوں کے متعلق دو روایات مشہور تھیں جو آج بھی سنی سنائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ جہاں خزانہ دفن ہوتا ہے وہاں ایک بڑا ہی زہریلا سانپ ہوتا ہے جو خزانہ کے قریب آنے والے کو ڈس لیتا ہے، دوسری روایت یہ ہے کہ خزانہ زمین کے اندر چلتا رہتا ہے اور اصل جگہ سے دور پہنچ جاتا ہے، ایک عقیدہ ہے کہ خزانے کی سراغرسانی کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کشف کی طاقت ہوتی ہے۔
مجھے یہ بتائیں بزرگوار !،،،،،رئیس بن بویا نے پوچھا۔۔۔۔ آپ کتنے آدمیوں کو اپنے ساتھ لائیں گے۔
رئیس قلعہ!،،،،، بزرگ نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ کوئی عام سے آدمی نہیں ہوں گے، وہ چند ایک علماء ہیں، اور کچھ ان کے شاگرد ہوں گے، ان سب کی دلچسپی صرف مذہبی عقیدوں کے ساتھ ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ساتھ کم وبیش چالیس علماء اور ان کے شاگردوں کو لے آؤں،،،،،،، میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ وہ یہاں آکر آپ کے لوگوں میں گھومیں پھریں، سلام و دعا کریں اور اس طرح ہم میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے ۔
میں اجازت دے دوں گا ۔۔۔بن بویا نے کہا۔۔۔لیکن میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کے آدمی یہاں تبلیغ شروع کردیں۔
نہیں کرینگے۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ اگر میرے ساتھ آنے والا کوئی بھی اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہوا پکڑا گیا تو میں آپ سے کہوں گا کہ اسے جو بھی سزا دینا چاہتے ہیں دے دیں۔
اور خزانے کی بات اسی روز ہوگی؟،،،، بن بویا نے پوچھا ۔
نہیں!،، ،،،بزرگ نے کہا۔۔۔ میں ان لوگوں کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا اور دو چار دنوں کے بعد آپ کے پاس واپس آ جاؤں گا ،پھر میں آپ کو ساتھ لے کر خزانے کا سراغ لگاؤں گا اور اپنی موجودگی میں کھدائی کرواؤں گا۔
رئیس قلعہ بن بویا نے اس بزرگ کے ساتھ ایک دن طے کرلیا کہ وہ اپنے علماء کے ساتھ آ جائے، اس کے دماغ پر خزانہ سوار ہوگیا تھا، سورج غروب ہوچکا تھا اس لئے بن بویا نے اس بزرگ کو رات بھر کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھا اور اگلی صبح رخصت کردیا ۔
اگلی صبح بزرگ کو رخصت کرکے بن بویا نے شہر کی بڑی مسجد کے خطیب کو بلایا اور اسے بتایا کہ فلاں دن باطنیوں کے علماء آئیں گے اور خطیب انہیں جھٹلانے کے لیے تیاری کرلے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقررہ روز یہ بزرگ دوپہر کے وقت کم و بیش چالیس آدمیوں کو ساتھ لیے پہنچ گئے تھے، ان کی پگڑیاں عالموں جیسی تھیں، پگڑیوں کے اوپر بڑے سائز کے رومال ڈالے ہوئے تھے جو ان کے کندھوں سے بھی نیچے آئے ہوئے تھے، سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی، ان کا لباس ان کی چال ڈھال اور ان کے بولنے کا انداز بتاتا تھا کہ ان لوگوں کو مذہب کے سوا کسی اور چیز میں کوئی دلچسپی نہیں، رئیس قلعہ نے انکا استقبال بڑے احترام سے کیا اور انکی خاطرتواضع کی۔
بزرگ تین چار علماء کو ساتھ لے کر رئیس قلعہ کو الگ کمرے میں لے گیا، اس نے رئیس قلعہ سے کہا تھا کہ وہ الگ بیٹھ کر بات کریں گے۔
رئیس قلعہ!،،،،، بزرگ نے بن بویا سے کہا۔۔۔ہم آپکے ساتھ باتیں کریں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے، آپ نے اچھا کیا ہے کہ اپنے خطیب کو بھی یہاں بلا لیا ہے، جتنی دیر ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے آدمی شہر میں گھوم پھر لیں گے، آپ بالکل مطمئن رہیں یہ بے ضرر آدمی ہیں۔
بن بویا مسکرا دیا اور اس نے کچھ بھی نہ کہا، اسکے اپنے حکم کے مطابق کسی باطنی کا اس قلعہ بند شہر میں داخل ہونا ممنوع تھا، لیکن خزانے کی خاطر وہ اس باطنی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہا تھا، وہ ان باطنی علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا اور باقی باطنی شہر میں نکل گئے، ان کا انداز یہ تھا کہ ہر آدمی کو جو ان کے قریب سے گزرتا تھا اسلام علیکم کہتے اور جو سلام پر رک جاتا اس سے وہ بغلگیر ہو کر ملتے تھے، لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ باطنی ہیں اور انہیں رئیس قلعہ نے قلعے میں آنے کی اجازت دی ہے، لوگ انہیں مذہبی پیشوا یا کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے کے استاد سمجھ رہے تھے۔
یہ باطنی کچھ آگے جا کر تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے، ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں، لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
ان میں سے آٹھ نو آدمی قلعے کے بڑے دروازے تک چلے گئے، دروازے کے ساتھ اندر کی طرف ایک کمرہ تھا جس میں دروازے کے پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے، دو محافظ دروازے پر کھڑے تھے ،یہ باطنی ان دونوں محافظوں کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے اور باتوں باتوں میں انہیں اپنے ساتھ محافظوں کے کمرے میں لے گئے۔
کمرے میں جو پانچ محافظ بیٹھے ہوئے تھے ان باطنیوں کو عالم سمجھ کر بڑے احترام سے ملے، ایک باطنی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا ،تمام باطنیوں نے اپنے چغوں کے اندر ہاتھ ڈالے اور جب ان کے ہاتھ باہر آئے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھوٹی تلوار تھی، محافظ نہتے تھے ان کی تلواریں اور برچھیاں الگ رکھی تھیں، انہیں اپنے ہتھیاروں تک پہنچنے کی مہلت ہی نہ ملی، باطنیوں نے انہیں دبوچ لیا، بعض نے اپنے ہاتھ آئے ہوئے محافظوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور دوسروں نے تلواروں سے ان کے پیٹ چاک کر دیئے، ان محافظوں میں قلیدبردار بھی تھا، یعنی وہ محافظ جو محافظوں کا کمانڈر جس کے پاس قلع کی چابیاں تھیں، ان باطنیوں نے اس کی لاش سے چابیاں اپنے قبضے میں لے لیں۔
باقی باطنی بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئے ،شہر کے وہ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جو باطنی تھے اور پہلے ہی اس قلعے میں موجود تھے، انہیں معلوم تھا کہ حسن بن صباح چالیس فدائی بھیج رہا ہے جو علماء کے بھیس میں آئینگے، اس قلعے میں فوج تو تھی لیکن اس کی تعداد بہت ہی کم تھی، قلعے میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قلعے پر حملہ بھی ہوسکتا ہے، حملہ ہوا بھی تو ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، رئیس قلعہ باطنیوں کے علماء کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا، باطنی فدائین نے اس تھوڑی سی فوج کی ساری نفری کو مار ڈالا یا بیکار کر دیا۔
ایک باطنی اس کمرے میں داخل ہوا ،جس میں رئیس قلعہ بن بویا باطنیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا ،اس باطنی نے اسلام علیکم کہا، یہ ایک اشارہ تھا کہ باہر کام مکمل ہوگیا ہے، ایک باطنی جو دوسروں کی طرح علماء کے بھیس میں تھا اٹھا اور اس نے بن بویا کو دبوچ لیا ،ایک اور باطنی نے خطیب کو دبوچ لیا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا، اس طرح یہ قلعہ باطنیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
حسن بن صباح کو اطلاع دی گئی اس نے ایک آدمی کو امیر قلعہ بنا کر بھیج دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور ایک اور قلعہ تھا جس کا نام قستان تھا، کسی بھی تاریخ میں اس قلعے کے حاکم کا نام نہیں ملتا ،اس کے نام کے بجائے تقریبا ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ وہ فاسق اور بدکار تھا، اسے سلجوقیوں نے یہ قلعہ دیا تھا، تمام مستند تاریخوں میں اس قلعے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
اس قلعے میں بھی ایک شہر آباد تھا اس شہر کا ایک رئیس تھا جس کا نام منور الدولہ تھا۔ اس کے متعلق تاریخوں میں آیا ہے کہ صحیح العقیدہ اور جذبے والا مسلمان تھا، اس قلعے پر بھی باطنیوں کی نظر تھی، قلعے کے دفاع کے لیے کوئی خاص فوج نہیں تھی چند سو محافظ قلعے میں موجود رہتے تھے، چونکہ امیر قلعہ اپنی عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا اس لیے باطنی قلعے میں کھلے بندوں آتے جاتے تھے۔
رئیس قلعہ منور الدولہ کو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک مکان میں پانچ باطنی رہتے ہیں جو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ باطنی ہیں وہ اپنے آپ کو پکا مومن ظاہر کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں ۔
دو چار آدمیوں نے رئیس منور کو بتایا کہ یہ لوگ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ان کی موجودگی کی اطلاع امیر قلعہ تک پہنچنی چاہیے تاکہ وہ ان پر جاسوس اور مخبر مقرر کردے، امیر قلعہ تک کوئی رئیس ہی پہنچ سکتا تھا، ایک روز منور چلا گیا اور اسے ان باطنیوں کے متعلق بتایا ،رئیس منور امیر قلعہ کے یہاں آتا جاتا رہتا تھا ۔
ہمارے لوگ وہمی ہیں منور !،،،،،امیر قلعہ نے بے نیازی اور بے پرواہی سے کہا ۔۔۔کہو تمہاری بہن کا کہیں رشتہ ہوا ہے یا نہیں؟
منور کو اس پر طیش آئی کہ وہ بات کتنی اہم کرنے آیا تھا اور امیر قلعہ اس کی بہن کے رشتےکے متعلق پوچھ رہا تھا، منور کی ایک چھوٹی بہن تھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئی تھی، مورخ لکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی حسین اور شوخ لڑکی تھی، اس کے حسن کی شہرت سارے شہر میں پھیلی ہوئی تھی، امیر قلعہ نے اس لڑکی کے رشتے کے متعلق پوچھا تو منور نے بات کو ٹال دیا اور کہا کہ وہ جس کام کے لیے آیا ہے اس کا ان کی طرف توجہ دینا بہت ہی ضروری ہے ۔
میں دیکھوں گا ۔۔۔امیر قلعہ نے کہا۔۔۔ میں ان پر اپنے جاسوس مقرر کر دوں گا۔
چونکہ منور صحیح معنوں میں مسلمان تھا اس لیے وہ باطنیوں کا جانی دشمن بنا ہوا تھا ۔
تین چار دنوں بعد وہ پھر امیر قلعہ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ اس نے ابھی تک ان مشکوک باطنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
تمہیں میرے قلعے کی اتنی فکر کیوں لگی ہوئ ہے؟،،،،، امیر قلعہ نے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا۔۔۔یہ پانچ سات باطنی میرا کیا بگاڑ لیں گے؟
امیر محترم !،،،،،منور نے کہا ۔۔۔کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہ باطنی کس طرح چھاتے چلے جارہے ہیں ،سلطان ملک شاہ کو انہوں نے قتل کیا ہے، اس سے پہلے سلطان مرحوم کے وزیراعظم خواجہ حسن طوسی نظام الملک کو بھی انہیں باطنیوں نے قتل کیا تھا، اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو اس قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرلیا ہے۔
کیا بات کرتے ہو منور!،،،،، امیر قلعہ نے ہنس کر کہا۔۔۔ باطنی میرے قلعے پر قبضہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے، وہ یہاں آ بھی گئے تو یوں سمجھو کہ انہیں موت یہاں لے آئی ہے۔
یہ قلعہ اتنا اہم تو نہ تھا کہ اسے تاریخ میں اتنا زیادہ بیان کیا جاتا ،لیکن اس کے ساتھ جو واقعہ وابستہ ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے، اسی وجہ سے مورخوں نے یہ واقعہ تاریخ میں شامل کیا ہے۔
منور الدولہ کے جذبے کا یہ عالم کہ وہ قلعے کی سلامتی کے متعلق پریشان تھا اور وہ ان پانچ آدمیوں کے متعلق بھی فکر مند تھا جن کے متعلق بتایا جارہا تھا کہ مشکوک ہیں اور باطنی معلوم ہوتے ہیں، لیکن امیر قلعہ کی ذہنی حالت یہ تھی کہ جس روز رئیس منور اسے ملا اس سے دو روز بعد امیر قلعہ نے اپنے دو خاص آدمیوں کے ہاتھ منور کی طرف بیش قیمت تحفہ بھیجے اور ساتھ یہ پیغام کہ منور اپنی بہن کو اس کی بیوی بنا دے۔
کیا امیر قلعہ کا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے؟،،،،، منور نے تحفے دیکھ کر اور اس کا پیغام سن کر کہا ۔۔۔یہ تو تحفے واپس لے جاؤ اور اسے کہنا کہ میں اپنی نوجوان بہن کو ایک ایسے بوڑھے کے حوالے نہیں کروں گا جو شرابی بھی ہے بدکار بھی ہے اور جس کی پہلے ہی نہ جانے کتنی بیویاں ھیں۔
اس کی یہ جرات ۔۔۔امیر قلعہ نے اپنے تحفے واپس آتے دیکھ کر اور رئیس منور کا انکار سن کر کہا ۔۔۔میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دوں گا، میں اس کے ساتھ دوستی قائم رکھوں گا اور تم دیکھنا کہ بہت جلد اس کی بہن میرے پاس ہوگی۔
منور اپنے آپ میں یوں تڑپنے لگا جیسے امیر قلعہ نے اسے بڑی شدید ضرب لگائی ہو ،منور کو قلعے کا غم کھائے جا رہا تھا اور امیر قلعہ کی نظر اس کی بہن پر لگی ہوئی تھی، منور کی ایک ہی بیوی اور دو بچے تھے اور اس کے گھر کی ایک فرد اس کی یہ بہن تھی، منور نے بڑے غصے کی حالت میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ یہ بات تفصیل سے کردی۔
میں ان پانچ چھے باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں۔۔۔ منور نے کہا۔۔۔ اگر یہ پکڑے گئے اور یقین ہوگیا کہ یہ باطنی جاسوس اور تخریب کار ہیں تو میں اپنے ہاتھوں انہیں قتل کروں گا۔
تاریخی واقعات کے ایک انگریزی مجموعے میں یہ واقعہ اس طرح عیاں ہے کہ منور کی بہن کا قومی جذبہ بھی منور جیسا ہی تھا ،اس نے جب اپنے بھائی کی زبان سے سنا کہ وہ ان باطنیوں کو پکڑنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ بھائی نے اسے امیر قلعہ سے بیاہنے سے انکار کردیا ہے تو اس لڑکی کے دل میں بھائی کی عظمت اور قومی جذبہ اور زیادہ شدت سے ابھر آیا۔
میرے عزیز اور عظیم بھائی!،،،،، بہن نے منور سے کہا ۔۔۔میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں، مجھے بتائیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں، میں آپ کے خلوص آپ کی محبت اور آپ کے جذبے کو دیکھ کر اپنا ایک راز آپ کو دے رہی ہوں، یہ جو پانچ چھے جواں سال آدمی ہیں اور جن پر آپ کو شبہ ہے، ان میں سے ایک مجھے چاہتا ہے، اور میں اسے پسند کرتی ہوں،میں بلا جھجک آپ کو بتا رہی ہوں کہ میں اس آدمی سے تین چار مرتبہ تنہائی میں مل چکی ہوں، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہوا ہے ،وہ بھی میرے ساتھ بات محبت کرتا ہے، اگر آپ کہیں تو میں اس آدمی کو جذبات میں الجھا کر معلوم کر سکتی ہوں کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
آفرین!،،،،،، منور نے کہا ۔۔۔کوئی بھائی اپنی نوجوان بہن کو اس طرح استعمال نہیں کیا کرتا، لیکن تمہارا ان لوگوں میں سے ایک کے ساتھ رابطہ ہوگیا ہے تو اس تعلق کو استعمال کرو، اگر تمہیں کہیں بھی خطرہ محسوس ہو تو فوراً مجھے بتا دینا ،تم اس کے ساتھ حسن بن صباح کی بات چھیڑ دینا اور اس طرح باتیں کرنا جیسے تم حسن بن صباح کو اچھا سمجھتی ہوں اور اس کے پاس جانا چاہتی ہو۔
منور کی بہن خوبصورت تو تھی لیکن شوخ اور ذہین بھی تھی، اس نے منور سے کہا کہ وہ ان لوگوں کی اصلیت معلوم کرلے گی۔
امیر قلعہ نے منور کو اپنے یہاں بلایا ،منور نے جانے سے انکار کردیا، اس انکار کے جواب میں امیر قلعہ نے اپنی محفل میں اس قسم کے الفاظ کہے کہ وہ منور کو اڑا دے گا اور اس کی بہن کو اپنے یہاں لے آئے گا، اس کی یہ دھمکی منور کے کانوں تک پہنچ گئی، اس کا اس پر بہت ہی برا اثر ہوا اور وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوگیا ،کشمکش یہ تھی کہ وہ اپنے جذبے کو قائم رکھے یا امیر قلعہ کے رویے سے متاثر ہوکر اپنے جذبے سے دستبردار ہو جائے، اسے یہ خیال بھی آیا کہ امیر قلعہ کو اپنے قلعے کا کچھ خیال نہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ جاسوسیاں کرتا پھرے، جذبے مرا تو نہیں کرتے اس کے خیالوں پر قومی جذبہ غالب آگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تین چار دنوں بعد ہی منور کو اس کی بہن نے بتایا کہ یہ لوگ باطنی ہیں اور جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے یہاں آئے ہیں، لیکن ابھی اپنے باطنی عقیدے کی درپردہ تبلیغ کر رہے ہیں ۔
تم نے کیسے معلوم کیا ہے؟،،،،، منور نے بہن سے پوچھا۔
مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔۔۔ بہن نے کہا۔۔۔جس طرح آپ نے کہا تھا میں نے اسی طرح کیا، میں نے حسن بن صباح کی باتیں ایسے الفاظ میں کیں جیسے میں اسے نبی سمجھتی ہوں اور اسے دیکھنے کو بے قرار ہوں، لیکن میں اسے جذبات میں لے آئی اور اپنی بات۔پر قائم رہی، دوسرے دن وہ میری بات پر آگیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے حسن بن صباح کے پاس لے جائے گا، اس نے یہ بھی کہا کہ امام حسن بن صباح تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔
مختصر یہ کہ اس لڑکی نے پانچ آدمیوں کے اس گروہ کی اصلیت معلوم کرلی، وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی اس آدمی نے وہ دن بھی مقرر کردیا تھا جب اس آدمی نے اس لڑکی کو اس شہر سے لے جانا تھا، دو دن گزرگئے منور کی بہن باہر نکلی اور پھر واپس نہ آئی، سورج غروب ہوگیا رات گہری ہوگئی لڑکی واپس نہ آئی تب منور کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے بہن کو خطرناک آدمی کے ساتھ دوستی بنائے رکھنے پر اکسایا تھا، اس میں کوئی شک تھا ہی نہیں کہ اس کی بہن اس باطنی کے ساتھ چلی گئی ہے، منور کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے پاس اس قسم کی سینکڑوں حسین اور تیز طرار لڑکیاں ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، یہ سوچ کر منور کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور وہ بیچ و تاب کھانے لگا کہ وہ کیا کرے، اسے امیر قلعہ کا خیال آیا کہ اسے جا کر بتائے اور وہ ان مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر معلوم کرے کہ لڑکی ان کے قبضے میں ہے یا نہیں، لیکن اس نے جب سوچا کہ امیر قلعہ نے اسے دشمن سمجھ لیا ہے تو اس نے امیر قلعہٰ کو ذہن سے اتار دیا، رات گزرتی جارہی تھی۔
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔۔۔ منور کو اس کی بیوی نے کہا۔۔۔آپ امیر قلعہ کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ اس کی بہن کو ان مشکوک آدمیوں میں سے ایک آدمی نے محبت کا جھانسہ دے کر غائب کر دیا ہے، پھر امیر قلعہ سے کہیں کہ اگر آپ میری بہن کو ان سے آزاد کروا دیں تو میں اپنی بہن کو آپ کے ساتھ بیاہ دوں گا۔
یہ تو میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا۔۔۔ منور نے کہا۔۔۔۔ بہن مجھے نظر آ گئی تو میں اسے قتل کر دوں گا، اسے اس امیر قلعہ کی جوزیت میں نہیں دوں گا۔
میں آپ سے یہ تو نہیں کہہ رہی کہ اپنی بہن ضرور ہی اسے دینی ہے۔۔۔ منور کی بیوی نے کہا۔۔۔پہلے اپنی بہن کا سراغ تو لگائیں وہ مل گئی تو امیر قلعہ کو صاف کہہ دینا کہ میں تمہیں اپنی بہن نہیں دوں گا، آپ ڈرے نہیں میرے تین بھائی ہیں میں ان کے ہاتھ امیر قلعہ کو قتل کروا سکتی ہوں۔
منور اسی وقت امیر قلعہ کے یہاں چلا گیا، امیر قلعہ شراب پی رہا تھا اور اس وقت اس کے ساتھ ایک نوخیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ،اس نے منور کو اندر بلایا اور لڑکی کو وہاں سے اٹھا دیا۔
کہو رئیس!،،،،،، امیر قلعہ نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا۔۔۔ کیسے آنا ہوا ؟
مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آ پڑی ہے۔۔۔ منور نے کہا۔۔۔میری بہن لاپتہ ہوگئی ہے مجھے انہیں پانچ آدمیوں پر شک ہے جن کے متعلق میں آپ کے ساتھ بات کر چکا ہوں ،میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی نے میری بہن کو محبت کا جھانسہ دیا تھا ،مجھے شک ہے کہ میری بہن کو وہی لے گیا ہے ،اور میں جس مسئلہ پر پریشان ہو رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میری بہن کو حسن بن صباح تک پہنچا دیا جائے گا۔
وہ کہیں نہیں گئی۔۔۔ امیر قلعہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شراب کا اثر نمایاں تھا۔۔۔ وہ یہیں ہے اور میرے پاس ہے،،،،، پریشان مت ہو رئیس!،،،، اگر تم اجازت دے دو تو یہ شادی دھوم دھام سے ہوگی اور اگر تم اجازت نہیں دو گے تو بھی یہ شادی ہو کر رہے گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے،،، کہو کیا کہتے ہو ،کیا تم بھول گئے تھے کہ میرے ہاتھ میں کتنی طاقت ہے؟
شراب کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہوتی۔۔۔ منور نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ میں تمہیں صرف ایک بار شرافت اور دوستی سے کہوں گا کہ میری بہن ابھی میرے حوالے کر دو دوسری بار نہیں کہوں گا۔
اس وقت امیر نشے میں بدمست تھا، شراب کا نشہ تو کوئی نشہ نہیں تھا ،اصل نشہ تو یہ تھا کہ وہ قلعے کا اور اس شہر کا حاکم تھا ،یہ تھا اصل نشہ۔
رئیس منور!،،،،، امیر قلعہ نے کہا۔۔۔تم چلے جاؤ سوچ کر کل مجھے جواب دینا ،اگر اس وقت دھمکیوں کی زبان میں بات کرو گے تو میں اپنے نوکروں کو بلاکر تمہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکالوں گا اور شکاری کتے تم پر چھوڑ دوں گا۔
منور وہاں سے نکل آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
منور اپنے گھر پہنچا تو منور وہ منور نہیں تھا جو قومی جذبے سے سرشار رہتا تھا، اس کے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے اور اس کی ذات میں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا ،بیوی نے اس سے پوچھا تو وہ چپ رہا ،بیوی کو ایک طرف کر دیا اور تلوار لے کر پھر باہر نکل گیا، اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی اور باہر تک آ گئی ،منور نے رک کر پیچھے دیکھا ۔
تم واپس چلی جاؤ۔۔۔ اس نے بیوی سے کہا۔۔۔ میں کسی کو قتل کرنے نہیں جا رہا، میں انشاءاللہ زندہ واپس آؤں گا۔
بیوی واپس اپنے گھر آگئی لیکن وہ بہت ہی پریشان تھی ،منور نے اس حویلی کے دروازے پر جا دستک دی جس میں پانچ مشکوک آدمی رہتے تھے ،دروازہ کھلا تو منور نے دیکھا کہ دروازہ کھولنے والا وہی آدمی تھا جسے اس کی بہن چاہتی تھی اور جو اس کی بہن کو چاہتا تھا ،منور اسے اور وہ منور کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا ،وہ منور کو اندر لے گیا سارے آدمی منور کے پاس بیٹھ گئے۔
میرے دوستو!،،،،، منور نے کہا۔۔۔ میں قتل کرنے نہیں آیا نہ قتل ہونے کا ارادہ ہے، میری بہن لاپتہ ہے اور مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ امیر قلعہ کے پاس ہے، وہ بدبخت کبھی کا میری بہن کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اسے صاف الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ میں اپنی بہن اس کی زوجیت میں نہیں دوں گا۔
آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں؟،،،،، اس آدمی نے پوچھا جس کے ساتھ منور کی بہن کی محبت تھی۔۔۔ ہم آپ کی جو مدد کر سکتے ہیں وہ بتائیں۔
میرے دوستو !،،،،منور نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم سب باطنی ہو اور حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے یہاں آئے ہو، میں تمہیں کسی بھی وقت پکڑواکر قتل کروا سکتا تھا، لیکن میری یہ بات اب غور سے سنو ،میں تمہارا ساتھی ہوں مجھ پر اعتبار کرو، صبح ہوتے ہی تم میں سے کوئی ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے آدمی بھیجے جس طرح تم نے قلعہ ملاذخان میں بھیجے تھے، یہ قلعہ بھی لے لو۔
اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ اور باتیں ہوئیں اور ایک آدمی حسن بن صباح کے پاس جانے کے لئے تیار ہوگیا، منور کی حالت ایسی تھی جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو ،اس کو بہن سے بہت ہی پیار تھا ،اس بہن کو امیر قلعہ لے اڑا تھا وہ پاگل نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا ،وہ بھول ہی گیا کہ وہ باطنیوں کا دشمن ہے اور باطنی اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
دو یا تین دن گزرے ہونگے کہ جو آدمی حسن بن صباح کے پاس گیا تھا وہ واپس آ گیا اور اسی روز شہر میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا ،ان کے ساتھ اونٹ تھے جن پر اناج اور مختلف قسم کا سامان لدا ہوا تھا، ان تاجروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی، یہ سرائے میں ٹھہرے۔
رات کا پہلا پہر تھا امیر قلعہ حسب معمول شراب پی رہا تھا ،اس نے منور کی بہن کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور شراب پینے پر مجبور کر رہا تھا، لڑکی رو رو کر انکار کر رہی تھی، امیر قلعہ قہقہے لگا رہا تھا ،عین اس وقت دربان نے اندر جا کر اسے بتایا کہ رئیس شہر منور الدولہ آئے ہیں، امیر قلعہ نے قہقہہ لگا کر کہا کہ اسے اندر بھیج دو۔
جب منور اندر گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پیچھے آٹھ نو آدمی تھے، امیر قلعہ نے حیرت زدہ سا ہو کر ان سب کو دیکھا، لیکن اسے یہ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کہ وہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں، انہوں نے امیر قلعہ کو پکڑ لیا اور ان میں سے ایک نے خنجر امیر قلعہ کے دل میں اتار دیا ،ایک ہی وار کافی تھا۔
یہ جو تاجر آئے تھے یہ سب حسن بن صباح کے فدائین تھے، وہ ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور جب امیر قلعہ کو قتل کیا گیا اس وقت تک وہ ان چند سو محافظوں پر قابو پا چکے تھے جو مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے تھے، اگلی صبح اعلان ہوا کہ اب امیر قلعہ کوئی اور ہے، اس طرح یہ قلعہ بھی حسن بن صباح کے قبضے میں چلا گیا۔
منور کو توقع تھی کے باطنی اسے کوئی اعزاز دیں گے، تاریخی حوالوں کے مطابق اس کی خواہش یہ تھی کہ اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن اور بچوں کو ساتھ لے کر مرو یا رے چلا جائے، لیکن اس کا انجام بہت برا ہوا، منور پراسرار طریقے سے ختم ہوگیا اور اس کی بہن کو حسن بن صباح کی جنت میں بھیج دیا گیا ،اس کے بیوی بچوں کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*