🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر سینتیس⛔🌈☠️🏡


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر سینتیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخوں میں آیا ہے کہ برکیارق نے سلطان بنتے ہی تین حکم دیے، ایک یہ کہ سلطان ملک شاہ کو زہر دینے والے باطنی کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح سلطان نے وفات سے پہلے حکم دیا تھا ،دوسرا یہ کہ اس باطنی کی بہن روزینہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اور اس نے تیسرا حکم یہ دیا کہ یہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ سلطان کو ایک باطنی نے زہر دے کر مارا ہے ہر کسی کو یہ بتایا جائے کہ سلطان طویل علالت کے بعد فوت ہوئے ہیں۔
اس تیسرے حکم کی تعمیل تو کی گئی لیکن موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا۔ سلطان ملک شاہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، نہ وہ کوئی عام آدمی نہ تھا کہ لوگ سنتے اور رسمی سا افسوس کر کے بھول جاتے ،ملک شاہ کوئی روایتی سلطان یا بادشاہ بھی نہیں تھا کہ رعایا کو افسوس نہ ہوتا، لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ آج ایک مرگیا تو کل دوسرا بادشاہ آجائےگا ،سلطان ملک شاہ کی موت تو یوں تھی جیسے سلطنت اسلامیہ کا سب سے زیادہ مضبوط ستون گر پڑا ہو۔
باطنی ابلیسیت کے طوفان کو روکنے والا یہی ایک شخص ہی تو تھا، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا تھا اورابلیسیت پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی ،لیکن سلطان ملک شاہ نے اپنی پوری توجہ اور اپنے پورے ذرائع اور اپنی پوری جنگی طاقت اسی کے خلاف مرکوز کر رکھی تھی، وہ اسلام کا پاسبان تھا،اسلام کے اصل نظریے اور روح کی آبیاری کرنے والا ملک شاہ ہی تھا ،وہ صرف اپنے خاندان کو ہی عزیز نہ تھا بلکہ رعایا کا بچہ بچہ اس کا نام احترام اور محبت سے لیتا تھا۔
وہ جب فوت ہوا تو اس کے گھر میں جو کہرام بپا ہوا وہ جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں پھیل گیا، ایک ہجوم تھا جو اس کے گھر پر ٹوٹ پڑا تھا، دربان کسی کو اندر جانے سے روک نہ سکے تھے،خود دربان دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے، ان سب کے سامنے اس باطنی جعلی درویش کو پکڑ کر باہر لائے اور اسے زد و کوب کیا جا رہا تھا ،گھر کی عورتیں چیخ چلا رہی تھیں کہ اس کافر نے سلطان کو زہر دے دیا ہے، اس قسم کی صورتحال میں سلطان کی موت کا اصل باعث پوشیدہ نہ رکھا جا سکا۔
 ایک تو سارے شہر میں برکیارق نے اعلان کروا دیا کہ سلطان ملک شاہ فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف قاصد دوڑا دیے گئے کہ تمام سلطنت میں یہ اطلاع پہنچ جائے، اس کے اعلان کے ساتھ دوسرا اعلان یہ بھی کروا دیا کہ کل نماز جنازہ کے بعد تمام لوگ گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھے ہو جائیں ایک باطنی کو سزائے موت دی جائے گی، اس اعلان سے قدرتی طور پر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کے اس باطنی کو سزائے موت کیوں دی جائے گی۔
سلطان ملک شاہ کا سرکاری عملہ گھر کے ملازمین اور دیگر شاہی خاندان سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنے والے افراد کچھ کم تعداد میں نہ تھے، جذبات کی گرما گرمی میں ہر فرد جو اس راز سے واقف تھا یہ سوال پوچھنے والوں کو صحیح جواب دیتا اور غصے کا اظہار یوں کرتا تھا کہ کل اس کافر کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا اس وقت تک جہاں جہاں تک اطلاع پہنچ سکتی تھی وہاں وہاں سے لوگ سیلاب کی طرح امنڈ کر مرو میں آگئے تھے، نماز جنازہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں پڑھائی گئی، اس کے بعد سلطان ملک شاہ کو قبر میں اتارا گیا اور جب قبر پر مٹی ڈال دی گئی تو اس باطنی کو میدان میں لایا گیا جس نے سلطان مرحوم کو زہر دیا تھا۔ اس کی سزا کے لئے گڑھا پہلے سے تیار تھا، اسے گڑھے میں کھڑا کر دیا گیا جو اس کے گھٹنوں سے ذرا اوپر تک گہرا تھا۔
گڑھے میں مٹی ڈال کر مٹی کو اچھی طرح کُوٹ کُوٹ کر دبا دیا گیا ،اس شخص کے بازو کھول دیے گئے، ایک طرف سے چار خونخار شکاری کتے لائے گئے، اس شخص کے قریب لا کر کتے کھول دیے گئے، اس باطنی کے جسم پر کوئی بو مل دی گئی تھی جس پر کتے ٹوٹ پڑے، تماشائیوں کا ہجوم دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا، اس باطنی کی چیخیں زمین و آسمان کو ہلا رہی تھی، آخر اس نے بڑی ہی بلند آواز میں نعرہ لگایا۔۔۔۔۔۔۔ امام حسن بن صباح زندہ باد ۔۔۔۔۔۔یہ اسکی آخری آواز تھی اس وقت تک کتے اس کی کھال ادھیڑ چکے تھے ،تھوڑی ہی دیر میں کتوں نے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیا، اس کا سر دور جا پڑا اور پھر کتے اس کے جسم کے ٹکڑے اٹھا کر ادھر ادھر ہو گئے۔
لوگوں کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے، لیکن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ اس نے سلطان ملک شاہ کو زہر دیا ہے، ایسی غصیلی آوازیں اور ایسی للکار بھی سنائی دیں کہ اس شخص کے خاندان کے بچے بچے کو یہاں لاکر کتوں سے پھڑوا دو ،کوئی کہہ رہا تھا کہ اس کے گھر کو آگ لگادو، یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا۔
اس سوال کا صحیح جواب صرف روزینہ دے سکتی تھی جو اس باطنی کی بہن تھی، اس وقت روزینہ سلطان کے محل کے ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی، اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا۔
سلطان ملک شاہ سپرد خاک ہو گیا اور اس کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا اور سلطان کے گھر میں روزینہ ایک مسئلہ بن گئی، اس خاندان کی کوئی عورت روزینہ کو قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ سلطان کے قاتل کی بہن تھی، یہ شک بے جا نہ تھا کہ وہ بھی قاتل کی اس سازش میں شریک تھی ،سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے سلطان کے بڑے بیٹے برکیارق کو دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا، اور برکیارق نے اعلان کردیا تھا کہ کوئی بھی روزینہ سے باز پرس کی جرات نہ کرے اور وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا۔
برکیارق نے تو یہ اعلان کر دیا تھا لیکن برکیارق کی ماں کے لیے یہ شادی قابل قبول نہیں تھی ،وہ شام کے وقت کسی کو بتائے بغیر اس کمرے میں چلی گئی جہاں روزینہ اکیلی بیٹھی تھی، تصور میں لایا جا سکتا ہے کہ سلطان ملک شاہ مرحوم کی بیوی کس قدر غمگین اور اداس ہو گی ،روزینہ نے اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
بیٹھ جاؤ لڑکی!،،،،، سلطان مرحوم کی بیوہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنے آئی ہوں، تمہیں صرف میرے بیٹے نے ہی پسند نہیں کیا تھا بلکہ مرحوم سلطان نے اور میں نے بھی تمہیں دل سے پسند کیا اور فیصلہ کردیا تھا کہ برکیارق تمہارے ساتھ شادی کرلے، لیکن جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے ،میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ اس شخص کی بہن کو اپنی بہو بنا کر ایک سلطان کے خاندان کی فرد بنا لوں جس نے صرف مجھے ہی بیوہ نہیں کیا بلکہ مرحوم کی دو اور بیویاں بھی بیوہ ہوئی ہیں ،اور لوگوں سے پوچھنا کہ وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ سلطنت سلجوقیہ بیوہ ہو گئی ہے، میں تمہیں کوئی سزا سنانے نہیں آئی، میں تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتی ہوں ،یہ بتاؤ کہ تمہیں کہاں جانا ہے، میں دوچار محافظوں کے ساتھ باعزت طریقے سے تمہیں وہاں تک پہنچانے کا انتظام کر دوں گی۔
محترم خاتون !،،،،،،روزینہ نے غم سے بوجھل آواز میں کہا۔۔۔ یہ تو بعد کا حادثہ ہے کہ سلطان میرے بھائی کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس صورت میں یہی ھونا چاہیئے کہ آپ سب مجھے دھتکار دیں، میں اس سے پہلے کی بات آپ کو سناتی ہوں، برکیارق نے جب مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو میں نے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں شاہی خاندان کے قابل نہیں، ہم آپ کے مقابلے میں بہت چھوٹے لوگ ہیں، خاتون محترم!،،،، برکیارق نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اسکے ساتھ یہاں آؤں اور سلطان مرحوم اور آپ مجھے دیکھیں، میں نہیں آرہی تھی، مگر آئی اس لئے کہ میرے بھائی نے یہاں آنا تھا اور وہ مجھے اکیلا سرائے میں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا، یہ تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی یعنی میرے بھائی کی نیت کیا تھی، میں یہاں آگئی سلطان مرحوم نے مجھے دیکھا۔
 وہ باتیں مجھے کیوں سناتی ہو۔۔۔ سلطان مرحوم کی بیوہ نے کہا ۔۔۔میں نے تمہیں کوئی سزا نہیں دینی، میں کہہ چکی ہوں کہ تمہیں باعزت طریقے سے رخصت کروں گی۔
 میری عرض ہے کہ میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ آپ سنیں۔۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔۔میں یہ بتا رہی ہوں کے میں برکیارق کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرچکی تھی، برکیارق نہیں مان رہا تھا، سلطان مرحوم نے اور آپ نے بھی مجھے قبول کر لیا تو میں خاموش ہوگئی، اس کے بعد جو خوفناک اور انتہائی المناک صورت پیدا ہوئی اس کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس احترام اور عزت کی حقدار نہیں سمجھتی جو آپ مجھے دے رہی ہیں ،میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت دی ہے اسی طرح مجھے بھی سزائے موت دیں، میں سلطان مرحوم کے قاتل کی بہن ہوں، میں رحم کی طلب گار نہیں ۔
کیا تمہیں معلوم تھا کہ تمہارا بھائی سلطان کو زہر دینا چاہتا ہے؟،،،،،، بیوہ نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔ روزینہ نے بڑی زور سے سر ہلا کر کہا ۔۔۔اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں برکیارق کو یتیم نہ ہونے دیتی اور اسے دھوکہ نہ دیتی، میں کوئی بات چھپا نہیں رہی سچ بول رہی ہوں، سچ یہ ہے کہ برکیارق پہلا آدمی ہے جسے میں نے دل و جان سے چاہا ہے اور برکیارق مجھے اس سے بھی زیادہ چاہتا ہے، میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکوں، میں اب برکیارق کی بیوی نہیں بنوں گی، مجھے اپنے بھائی کی نیت کا علم تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ میں سلطان کے قاتل کی بہن ہوں، مجھے سزائے موت ملنی چاہیے۔
تم لوگ آخر آئے کہاں سے تھے ؟،،،،،سلطان کی بیوہ نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تمہارا بھائی باطنی ہے ؟،،،،،،،یہ میں کیسے مان سکتی ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا۔
محترم خاتون !،،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔ ہمارا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا تو میں آپ کو بتاتی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، بھائی نے بتایا تھا کہ ہم اصفہان کے رہنے والے تھے، بچپن میں میرے ماں باپ مر گئے تھے اور اس بھائی نے مجھے پالا پوسا تھا ،میں نے اسے خانہ بدوش ہی دیکھا ،چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا جس سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور سفر کے اخراجات مل جاتے تھے، ہم کئی ایک شہروں اور قصبوں میں ایک ایک سال اور دو دو سال بھی رہے ہیں، بھائی مجھے ہمیشہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اس لئے میں نہیں بتاسکتی کہ باہر اس کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں کیا تھیں اور وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا ،میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ ہر سال حج کا ارادہ کرتا تھا جو پورا نہیں ہوتا تھا ،کیونکہ وہ میرے فرض سے فارغ ہوکر حج کا فریضہ ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا ۔
اس گفتگو کے دوران روزینہ روتی رہی آنسو پوچھتی رہی، اور کبھی تو وہ سسکنے لگتی تھی۔
میرے بیٹے نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی شادی کرے گا۔۔۔ سلطان کی بیوہ نے کہا۔۔۔ وہ میری نہیں مانے گا اور وہ کسی کی بھی نہیں مانے گا، کیا تم اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہو؟ 
انکار ہی تو کر رہی ہوں۔۔۔ روزینہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔ میں یہ جو کہتی ہوں کہ مجھے بھی سزائے موت دے دیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں قاتل کی بہن ہوں اور اس کے ساتھ تھی، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں کوئی گھر اور میرا کوئی وارث نہیں، میرے لیے ایک ہی پناہ ہے اور وہ قبر ہے، میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ مجھے قبر میں اتار دیں، میں آپ کو فیصلہ سناچکی ہوں کہ آپ کے خاندان کی فرد نہیں بنوں گی، نہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتی ہوں۔
برکیارق کی ماں روزینہ کے رونے سے اس کے بولنے کے انداز سے اور اس کے بار بار یہ کہنے سے کہ اسے سزائے موت دی جائے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس لڑکی کو بھٹکنے کے لئے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ چڑھ جانے کے لیے تنہا نہ چھوڑے، یہ تو برکیارق کی ماں کا فیصلہ تھا کہ اس کا بیٹا اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا، لیکن وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ لڑکی کو کہاں بھیجے، ویسے بھی وہ سلطان مرحوم کی طرح رحمدل عورت تھی۔
میں تمہیں اپنے گھر سے نکالنا نہیں چاہتی روزینہ!،،،،، سلطان کی بیوہ نے کہا۔۔۔ اگر میں تمہاری شادی کسی اور سے کرا دوں تو تم قبول کروگی؟ 
میں بلا سوچے کوئی جواب نہیں دے سکتی۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم ابھی تو میرے دل اور دماغ پر اس قدر بوجھ ہے کہ میں یہی ایک فیصلہ کئے ہوئے ہوں کہ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہوں۔۔۔سلطان کی بیوہ نے کہا۔۔۔ تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا ،میں تمہارا کوئی بہتر بندوبست کر دوں گی۔
محترم خاتون !،،،،،روزینہ نے کہا۔۔۔ آپ یہ کام کریں کہ برکیارق کے دل سے مجھے نکال دیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اسے قائل کریں کہ میرا خیال چھوڑ دے، بے شک وہ سلطان ہوگیا ہے اور اس نے سلطان کی حیثیت سے حکم دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی شادی کرے گا، لیکن اس کا یہ حکم مجھے اچھا نہیں لگا، بیٹے ماؤں کو حکم دیتے اچھے نہیں لگتے، بلکہ یہ گناہ ہے میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتی ۔
سلطان کی بیوہ نے سر جھکا لیا جیسے اسے کوئی اور سوچ آ گئی ہو ،کمرے کا دروازہ کھلا ماں نے اور روزینہ نے دیکھا دروازے میں برکیارق کھڑا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے ماں کا اس کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آپ کا احترام مجھ پر فرض ہے ماں۔۔۔۔برکیارق نے اپنی ماں سے کہا۔۔۔ لیکن یہ پوچھنا میرا حق ہے کہ آپ یہاں کیوں آئیں ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ اسے یہ کہنے آئی ہیں کہ یہ قاتل کی بہن ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ،برکیارق روزینہ کے بہتے آنسو دیکھ رہا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی ماں اسے کیا کہہ رہی ہوگی۔
برکیارق !،،،،روزینہ نے کہا اور ذرا رک کر بولی معاف رکھنا مجھے برکیارق نہیں بلکہ مجھے سلطان محترم کہنا چاہیے، آپ کی والدہ نے جو کچھ کہا اور جو کچھ میں نے انہیں کہا ہے وہ میں لفظ با لفظ سنا دیتی ہوں۔
روزینہ نے وہ تمام باتیں جو اسکے اور برکیارق کی والدہ کے درمیان ہوئی تھی سنادیں۔
تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا جو میں سنا چکا ہوں ۔۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں تمہیں حکم دیکر اپنی بیوی بناؤں گا، یہ میرے دل کی آواز اور میری روح کا مطالبہ ہے ۔
روح کی آواز روح ہی سن سکتی ہے سلطان محترم!،،،،،، روزینہ نے کہا ۔۔۔میری روح مر گئی ہے، میرے بھائی نے سلطان کو ہی زہر نہیں دیا بلکہ میری روح کو بھی زہر دے کر مار ڈالا ہے، میرے ضمیر پر بڑے ہی گھناؤنے جرم کا بوجھ ہے، میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی، اور میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے بھاگ جانے دیں۔
میرے عزیز بیٹے!،،،،، برکیارق کی ماں بول پڑی ،تم ابھی نوجوان ہو میری عمر دیکھو میں نے دنیا دیکھی ہے اور انسانوں کو پڑھا ہے، میں تمہیں اس شادی کی اجازت دے سکتی ہوں لیکن آگے جو کچھ ہو گا وہ میں جانتی ہوں۔
یہ بتاؤ روزینہ !،،،،،برکیارق نے پوچھا۔۔۔ تم نے میری ماں سے کہا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے بھائی کی باہر سرگرمیاں کیا تھیں، اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا، وہ باطنی کیسے بنا؟،،،،، اس نے مرنے سے پہلے امام حسن بن صباح کا نعرہ لگایا تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین میں سے تھا،،،،،، وہ فدائی کیسے بنا تھا؟ تم جانتی ہو گی۔
میں کچھ بھی نہیں جانتی ۔۔۔روزینہ نے جواب دیا۔۔۔ وہ مجھے الموت لے گیا تھا، وہاں ہم سات آٹھ مہینے رہے تھے، میں نے آپ کی والدہ محترمہ کو بتایا ہے کہ مجھے وہ چار دیواری میں بند رکھتا تھا اور مجھے کچھ بھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ باہر کیا کرتا ہے، اب معلوم ہوا ہے کہ وہ باطنیوں سے جا ملا تھا ،اور جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں وہ فدائی بن گیا ہوگا ،میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ روزینہ اللہ کرے تمہیں کسی نیک آدمی کے پلے باندھ دوں تو میں حج کا فریضہ ادا کر لوں۔
ماں!،،،،،،برکیارق نے کہا۔۔۔ آج ہی ہم نے اپنے عظیم باپ کو دفن کیا ہے، غم اور دکھ ابھی تازہ ہے، کچھ دن گزر جانے دیں، اس لڑکی کو یہیں رہنے دیں، میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا کچھ دن انتظار کرلیں۔
سلطان محترم !،،،،،روزینہ نے کہا ۔۔۔آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو میری یہ خوبی پسند آئی ہے کہ میں وہی بات کرتی ہوں جو میرے دل میں ہوتی ہے ،میں سچ بولتی اور سچ سنتی ہوں خواہ وہ کتنا ہی تلخ ہو ،میرے ذہن میں گناہ کا تصور ہی نہیں آیا اس لئے مجھ میں اخلاقی جرات بھی ہے، میں آپ کو آپ کا باپ واپس نہیں دے سکتی، میں چاہتی ہوں کے اپنی جان دے دوں شاید اس سے آپ کے اور آپ کی والدہ محترمہ اور خاندان کے دوسرے افراد کی تسکین ہو جائے، یہ میری روح کی آواز ہے کہ مجھے بھی سزائے موت ملنی چاہئے، میں آپ کی والدہ محترمہ کو بتا چکی ہوں کہ میں زندہ رہوں گی بھی تو کس کے لیے؟ 
میرے لئے ۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔ میں جو فیصلہ کر چکا ہوں اس پر قائم رہوں گا ،لیکن اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے میں کچھ دن انتظار کروں گا۔
یہ حسین و جمیل لڑکی برکیارق کے اعصاب پر تو پہلے ہی غالب آ چکی تھی، لیکن اب اس نے جو باتیں کی اور جس انداز سے کیں برکیارق اورزیادہ متاثر ہوا ،اس کی ماں بھی شش و پنج میں پڑ گئی اور ماں بیٹے نے فیصلہ کیا کہ روزینہ کو کچھ دن یہیں رکھا جائے اور پھر کچھ فیصلہ کیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مرو پر غم و غصے کی جو گھٹا چھا گئی تھی وہ سلطان کی موت کی خبر کے ساتھ ساتھ تمام سلطنت سلجوقیہ پر چھا گئی، ساری سلطنت ماتم کدہ بن گئی۔
الموت میں خوشیوں کا ہنگامہ تھا، وہاں سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر پہنچی تو باطنی گھروں سے نکل آئے اور خوشی سے ناچنے کودنے لگے ،جشن کا سا سماں بندھ گیا، مرو چونکہ دارالسلطنت تھا اس لیے اس شہر میں باطنیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی، جونہی سلطان مرحوم کے قاتل کو کتوں نے چیر پھاڑ دیا ایک جاسوس الموت کی طرف چل پڑا تھا۔
یا امام !،،،،،اس جاسوس نے حسن بن صباح سے کہا تھا ۔۔۔سب سے بڑا دشمن مارا گیا ہے، دفن بھی ہو گیا ہے اور اس کی گدی پر اس کا بڑا بیٹا برکیارق بیٹھ گیا ہے ۔
اور قاتل کا کیا بنا؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
اسے آدھا زمین میں گاڑ کر کتوں سے مروایا گیا ہے۔۔۔ جاسوس نے بتایا ۔
اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا تھا ۔۔۔کچھ معلوم ہے وہ کہاں ہے؟ 
سلطان کے گھر میں ہے۔۔۔ جاسوس نے جواب دیا تھا۔۔۔ اس نے نئے سلطان کو پہلے ہی اپنی جال میں لے لیا تھا ۔
کیا وہ اکیلی کچھ کر سکے گی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
 اس سوال کا جواب دو تین دنوں بعد آجائے گا۔۔۔ جاسوس نے کہا تھا ۔۔۔میں سلطان ملک شاہ کے دفن ہونے کے بعد اپنے آدمی کی سزائے موت دیکھ کر چل پڑا تھا۔
حسن بن صباح نے اپنے جاسوس کو فارغ کردیا اور اپنے مصاحبوں اور نائبین کو بلایا ،وہ فوراً سلطان ملک شاہ کی موت کی خبر سن کر خوشی اور فتح کا واویلا بپا کرنے لگے۔
دیکھ لیا تم نے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔میں نے کچھ عرصہ پہلے تم لوگوں کو ایک اصول بتایا تھا کہ کسی خاندان کو تباہ کرنا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے ہر فرد کو قتل کردیا جائے، بلکہ اتنا ہی کیا جائے کہ اس خاندان کے سربراہ کا دماغ خراب کر دو۔
اسے عیش و عشرت میں ڈال دو اور اسے یہ یقین دلادو کہ تم آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں، اور تم جیسا کوئی نہیں، اس پر کوئی نشہ طاری کردو، خوبصورت اور چالاک عورت سے بڑھ کر کوئی ایسا نشہ نہیں جو کسی زاہد اور پارسا کی توبہ اور قسمیں نہ توڑ سکے، کسی خاندان کو تباہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس خاندان پر ایک شیطان عورت آسیب کی طرح غالب کر دو ،تم نے ایسے خاندان دیکھے ہونگے جو عورت اور دولت پر تباہ ہوئے ہیں ۔
یا امام!،،،،،، ایک مصاحب نے کہا۔۔۔ ہم نے دیکھ لیا ہے۔
کسی سلطنت کو تباہ کرنا ہو تو۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اس کے حکمران کو عظمت کے راستے سے ہٹا دو ،اور اس کے دل سے رعایا کی محبت نکال دو، پھر بھی کام نہ بنے تو اسے قتل کردو ۔
یا امام!،،،،، ایک مصاحب نے پوچھا۔۔۔ یہ کام تو ہو گیا، اب بتائیں اس سے آگے کیا کرنا ہوگا؟ 
یہ کام وہ لڑکی کرے گی ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکی بڑی تیز ہے اور اپنا کام کرنے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتی ہے، اس لڑکی کا انتخاب میں نے خود کیا تھا، اب یہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا عقلمند آدمی مرو جائے جو روزینہ کے ساتھ رابطہ رکھے،،،،،، مجھے کون بتا سکتا ہے کہ یہ لڑکی  قابل اعتماد ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ کر لے گی۔
میں بتا سکتا ہوں یا امام!،،،،،، ایک آدمی بولا۔۔۔ اس کی تربیت میری نگرانی میں ہوئی ہے، مرو میں اس کے ساتھ ایک تجربے کار آدمی اور دو بڑی خرانٹ عورتیں موجود ہیں۔
تم جانتے ہو ہم نے مرو میں کیا کرنا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہمارے اس فدائی نے وہاں زمین ہموار کر دی ہے، اس نے سلطنت سلجوقیہ کا سر کاٹ دیا ہے، اب اس کا باقی جسم دو حصوں میں کاٹنا ہے۔
ہاں امام !،،،،،،ایک آدمی نے کہا۔۔۔ سلطنت سلجوقیہ کے دارالسلطنت میں خانہ جنگی کرانی ہے ،یہ کام روزینہ کرا لے گی۔
ملک شاہ کا بڑا بیٹا برکیارق جوان آدمی تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی، میں اس کی فطرت اور خصلت کے متعلق تمام معلومات حاصل کر چکا ہوں ،وہ تو یوں سمجھو جیسے موم ہے، اگر روزینہ ثابت قدم رہی تو وہ اس موم کو پگھلا کر اپنے سانچے میں ڈھال لے گی، روزینہ بہت ہی حسین لڑکی ہے ،میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں۔
یا امام!،،،،، اس کے ایک مصاحب نے کہا۔۔۔ آپ یہ بات کیوں دہراتے ہیں، ایک بار آپ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ ملک شاہ کے قتل کے بعد کیا کرنا ہے، یہ ہم پر چھوڑیں کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یا نہیں ۔
تم اچھی طرح جانتے ہو ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ کہ میرے حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان سب کا کیا انجام ہوگا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ داستان اس دور میں داخل ہو گئی تھی جو بلا شک و شبہ حسن بن صباح کا دور تھا۔ ابلیسیت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی، اس سے مرو اور رے جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح نے ایک جنت بنائی تھی، اس جنت میں جو داخل ہوتا تھا وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا، اسے کچھ عرصے کے لیے وہاں سے نکال لیا جاتا تو وہ اسی جنت میں جانے کو تڑپتا تھا، اسے کہا جاتا کہ وہ فلاں فلاں بڑی شخصیت کو قتل کر آئے تو وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہے گا، اس طرح وہ آدمی جا کر دو تین بتاۓ ہوئے آدمیوں کو قتل کردیتا اور بعد میں اسے بھی قتل کر دیا جاتا تھا، اس جنت کی حقیقت اس سے کچھ مختلف تھی جو تاریخ نے بیان کی ہے۔
بیشتر مؤرخوں نے حسن بن صباح کی جنت کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی تفصیل "ائمہ تلبیبس" میں ان الفاظ میں ملتی ہے، حسن بن صباح نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انکی لوح دل پر یہ بات ثبت کرادی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور اس دنیا میں بڑا قادر ہے، اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جاں سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا،،،،،، 
اس نے اپنا قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور جاں بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوبصورت محل، برج اور کوشکیں تعمیر کروائیں، عالی شان محلات کی دل آویزی اور خوشنمائی، باغوں اور مرغزاروں کی نزہت اور تروتازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی، ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوشنما باغ بنوایا ،جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتی ہیں، مثلا اشیاء تعیش، ہر قسم کے میوہ دار درخت، پھول، چینی کے خوبصورت ظروف، بلوری طلائی اور نقرائی سامان، بیش قیمت فرش، یونان کے اسباب تعیشات، پر تکلف سامان خوردنوش، نغمہ سرور جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام بنوایا،،،،،، 
 نالوں کے ذریعے سے محلات میں پانی دودھ شراب اور شہد جاتا تھا ،ان سب لذائذ کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنین موجود تھیں، ان کی سادگی وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی وہاں دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سوا اور ہی عالم کی پیکر ہیں، کوشش کی گئی تھی کہ اس جنت میں داخلے کے بعد زائر کے دل پر فرحت کا احساس شیریں اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت اور مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے۔
 یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل راز داری سے انجام پاتا تھا، ہر وہ چیز جس کی باہر سے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو بھی سراغ نہ لگ سکتا تھا،،،،،،، 
 حسن بن صباح علاقہ طالقان اور روزبار وغیرہ کے خوبصورت، تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان باور کرنے اور ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی، فدائین کی جماعت میں بھرتی کر لیتا، یہ وہ لوگ تھے جو حسن بن صباح کے ہر حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے،،،، 
 بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں شاید ان ایام میں ایک غیر معمولی چیز تھی، اور غالبا حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا، جب فدائی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن بن صباح اسے بھنگ کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں بھجوا دیتا،  جہاں وہ جاں پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں تھیں،،،،،، 
یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا، حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا، ان کی صحبت انکی جانستانی کرتی اور ان مہوشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا، اعلی سے اعلی غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں محو رہتا ،ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعار حوروں کی محبت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑجاتا کہ پھر مدت العمر مٹ نہ سکے ،تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح کے پاس بھجوا دیتیں، جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے شیخ کے قدموں میں پاتا اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی،،،،،،، 
حسن بن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی پھر امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جاں ستانی اور جاں سپاری ہے، وہ شخص جس کے دل پرگذشتہ عیش و عشرت کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی تھی، وہ حسن بن صباح کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا،،،،، 
چنانچہ جب حسن بن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانا منظور ہوتا تھا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا، مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے،،،،،،،، 
یہ فدائی اپنے حوصلے سے بڑھ کر مستعدی دکھاتا ،تاکہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں مسرتوں سے ہمکنار ہو، یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا، ان لوگوں کو جس کے قتل کا بھی اشارہ دیا جاتا وہ وہاں کوئی روپ بھر کر جاتے، رسائی اور آشنائی پیدا کرتے، اس کے معتمد بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے،،،، 
تاریخ کی یہ تحریر شہادت مصدقا تسلیم نہیں کی جاسکتی، اس دور میں محلات کی تعمیر چند دنوں یا چند مہینوں میں ناممکن تھی، جس قسم کے محلات مورخوں نے بیان کئے ہیں ان کی تعمیر کے لئے پچیس تیس سال درکار تھے ،پھر پھلدار درختوں کا جو ذکر آتا ہے وہ اس لیے مشکوک ہیں کہ درخت اتنی جلدی تناور نہیں ہو سکتا کہ وہ پھل اور میوہ جات دینےلگتا ،مؤرخوں اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نویسوں نے ایک دوسرے کی تحریروں میں زیب داستان اور مبالغہ آرائی کے ذریعے اضافے کئے اور ہمارے سامنے اس جنت کا نقشہ آگیا جو اللہ کی بنائی ہوئی جنت سے بھی زیادہ خوشنما اور دلفریب لگتا ہے، دودھ شہد اور شراب کے نلوں کو تو شاید تصور میں لایا جا سکے اور لایا بھی جا رہا ہے لیکن ان کا وجود بھی مشکوک ہے ۔
پھر یہ سب کیا تھا؟ 
 اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی اس کے قاتل فدائین نے اسی جنت میں جنم لیا تھا ،ان قاتلوں کی اگلی نسلیں حسن بن صباح کی موت کے بعد بھی قاتل ہی کہلاتی رہیں، اور ان نسلوں نے کرائے کے قتل کی ورادتوں میں نام حاصل کیا تھا۔
قارئین کرام کو قبل از مسیح کے دور میں کچھ دیر کے لیے لے چلتا ہوں ،ایسی ایک جنت کا ذکر یونان کی دیو مالائی داستانوں میں ملتا ہے ،یہ اس دور کی بات ہے جب یونان والوں نے پوجا کرنے کے لئے کئی دیوتا اور دیویاں تخلیق کر لی تھیں، یہ معبود آسمانوں پر رہتے تھے اور زمین پر بھی، ایک داستان میں اس جنت کا ذکر ملتا ہے جس کی خوشنمائی اور دلکشی کی تفصیلات پڑھو یا سنو تو حسن بن صباح کی جنت سامنے آجاتی ہے، لیکن وہ یونانی داستان لکھنے والے تھے جنہوں نے اس جنت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی ،اس جنت کا تجزیہ آج کے سائنسی دور میں جب دیگر علوم بھی نقطہ عروج پر ہیں کرو تو یقین آجاتا ہے کہ وہ جنت ہی تھی لیکن اس کی حقیقت کیا تھی؟ 
حقیقت یہ تھی کہ یونان میں ایک پہاڑ تھا اس پہاڑ میں ایک غار تھا جو دور اندر تک چلا گیا تھا، لیکن سیدھا نہیں بلکہ بھول بھلیوں کی صورت میں، اس وقت کے بادشاہ نے اس غار کے اندر کوئی ایسی جڑی بوٹیاں رکھ دی تھیں جن کی بو پھیل گئی تھی، تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ جڑی بوٹی تروتازہ پھر وہاں بکھیر آتے تھے۔
بادشاہ اپنے کسی مخالف کو یا کسی اور وجہ سے کسی آدمی کو کوئی لالچ دے کر اس غار میں بھیج دیتا تھا ،وہ شخص اس غار میں دور اندر تک جاتا تو اسے اندر حوریں نظر آنے لگتی تھیں، اور اسے یوں نظر آتا جیسے وہ اس کے استقبال کے لیے بے تاب ہوں، وہ ان کے ساتھ عیش عشرت کرتا اور پھر اسے یہ حوریں ایسے ایسے کھانے پیش کرتیں جو زمین پر رہنے والے انسانوں نے کبھی دیکھے اور کبھی سنے نہیں تھے، یہ تحریر بھی کیا گیا کہ اندر جانے والے اور کچھ دن اندر رہنے والے شخص کو باہر لائے تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور دوڑ کر پھر غار میں چلا گیا، وہ اس جنت میں سے کسی قیمت پر نکلنا نہیں چاہتا تھا، وہ پھر اندر چلا جاتا اور چند دنوں میں ہی مر جاتا اور تھوڑے عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتی ،حقیقت یہ تھی کہ اس غار کے اندر چھوٹی چھوٹی چٹانیں ستونوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں، ان چٹانوں کو وہ حوروغلمان سمجھ لیتا تھا اور یہ چٹانے اسے حوروغلمان ہی کی شکل میں نظر آتی تھیں، وہ جو مرغن اور عجیب و غریب خانے کھاتا تھا وہ کنکریاں اور مٹی ہوتی تھیں۔
یہ اس بو کا اثر تھا جو جڑی بوٹیوں سے اٹھتی اور غاروں کے اندر فضا میں پھیلتی رہتی تھی، اس بو میں نشے کا ایسا اثر تھا جو ذہن کو انتہائی خوبصورت اور دلفریب تصور دیتا تھا، یہ دیومالائی داستان بہت ہی طویل ہے جس میں تخیلاتی اور انہونی واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں، لیکن داستان لکھنے والے نے دانشمندی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اس جنت کی اصل حقیقت پوری طرح بیان کر دی ہے۔
میں آپکو یہ سنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یونان کی اس دیومالائی داستان کا ایک باب مختصراً بیان کر دوں ،اس میں وہ عقل و دانش کا راز نظر آتا ہے جو ہر انسان کے لیے سمجھنا ضروری ہے، یہ داستان لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک شہزادے کے دل میں یہ خواہش ابھری کے وہ اس غار میں جائے اور اس جنت میں دو تین دن گزار کر واپس آجائے، 
اس نے اپنے بوڑھے اتالیق سے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو بزرگ اتالیق نے اسے سمجھایا کہ اس جنت کی حقیقت کیا ہے۔ شہزادہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے اتالیق کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ اس غار تک چلے، اتالیق نے دھاگے کا ایک گولا اٹھایا اور شہزادے کو ساتھ لے کر اس پراسرار غار تک چلا گیا، اس نے دھاگے کا ایک سرا شہزادے کے کلائی سے باندھ کر کہا کہ تم غار کے اندر چلے جاؤ اندر بھول بھلیاں ہیں جن میں تم گم ہو جاؤ گے ان میں سے تم نکل نہیں سکو گے، تمہیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ تم کس راستے سے اندر آئے تھے، یہ دھاگہ ٹوٹنے نہ دینا ،میں باہر بیٹھ جاؤں گا اور دھاگا کھولتا جاؤں گا، جہاں تمہیں حوریں اور ایسی ہی چیزیں نظر آنے لگیں وہیں سے اس دھاگے کو پکڑ کر واپس آ جانا ،یہ دھاگا تمہاری رہنمائی کرے گا،،،، 
شہزادہ غار میں داخل ہوگیا اور بزرگ اتالیق دھاگا ڈھیلا کرتا گیا، کرتا گیا ،حتیٰ کہ بڑاہی لمبا دھاگا شہزادے کے ساتھ غار کے اندر چلا گیا ،دن گزر گیا مگر شہزادہ باہر نہ آیا ،یہاں کئی اور واقعات بیان کئے گئے ہیں، لیکن میں آپ کو صرف ایک حصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں،،،،، 
بزرگ اتالیق نے جب دیکھا کہ شہزادہ ابھی تک باہر نہیں آیا، وہ دھاگے کا باقی گولا باہر رکھ کر دھاگے کو پکڑ پکڑ کر غار کی بھول بھلیوں میں جاتے شہزادے تک پہنچ گیا ،خود اس معمر اور دانشمند اتالیق کو حسین و جمیل چیزیں نظر آنے لگیں ،مگر اس نے اپنی ناک پر کپڑا باندھ لیا اور شہزادے تک جا پہنچا، شہزادہ مٹی کھا رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا اور بازو پھیلا کر یوں بازو اپنے سینے پر سمیٹ لیتا تھا جیسے اس نے اپنے بازوؤں میں کوئی چیز دبوچ لی ہو، اتالیق شہزادے کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر لایا،اگر دھاگہ ٹوٹ جاتا تو دونوں باہر نہ نکل سکتے۔
باہر آکر شہزادہ اپنے اتالیق سے الجھ پڑا اور پھر غار کی طرف دوڑا ،اتالیق نے اسے پکڑ لیا لیکن اتالیق بوڑھا اور شہزادہ نوجوان تھا، شہزادے کو بے بس کرنے کے لئے اس کے سر کے پچھلے حصے پر پتھر کی ضرب لگائی شہزادہ بے ہوش ہو کر گرپڑا ،شہزادہ جب ہوش میں آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر فورا ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے غار کا دہانہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا، اس نے اتالیق سے پوچھا، اتالیق نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اپنے منہ میں انگلیاں ڈالو اور انگلیاں دیکھو، شہزادے نے اپنے منہ میں ایک انگلی پھیری تو اسے کچھ مٹی نظر آئی جو اس کی انگلی کے ساتھ لگ گئی تھی، اس وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے دانتوں کے درمیان ریتی اور مٹی موجود ہے، اس نے تھوک تو مٹیالے رنگ کا تھوک تھا، شہزادے نے اپنے دانشمند اتالیق کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا،،،،، 
میرے عزیز شہزادے !،،،،،اتالیق نے کہا ۔۔۔میں آج تمہیں ایسا سبق دوں گا جو مرتے دم تک تمہیں فریب کاروں اور بے وفا لوگوں کے دھوکوں سے بچائے رکھے گا ،اس غار کے اندر کوئی جنت نہیں، نہ کوئی حور ہے، اور نہ حوروں جیسے لڑکے ،اور نہ ہی وہاں آسمان سے اترے ہوئے کھانے ہیں، اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی شراب ہے جسے تم سمجھتے ہو زمین پر نہیں ملتی، یہ جنت ہر انسان کے اپنے ذہن میں موجود ہے، ہر انسان زندگی کے حقائق سے بھاگ کر اپنے ذہن کی جنت میں چلا جانا چاہتا ہے ،لیکن اس کے ہوش و حواس اس حد تک بیدار رہتے ہیں کہ وہ تصور کو تصور ہی سمجھتے ہیں، اس غار میں ایک خاص بوٹی کی بو چھوڑی گئی ہے ،جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ حقیقی زندگی نکل جاتی ہے اور جو حسین تصور انسانی ذہن نے تخلیق کیے ہوتے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتے ہیں ،یوں سمجھ لو کے انسان کی بیداری والی حس سو جاتی ہے اور تصورات پیدا ہو جاتے ہیں،،،، 
تمہارے پھیپڑوں میں یہ بو گئی اور تمہارے دماغ پر قابض ہو گئی ،پھر تم حقیقت سے کٹ گئے اور تمہارے ذہن نے جو خوبصورت تصورات تخلیق کر رکھے تھے وہ باہر تمہارے سامنے حوروں اور جنت نظیر ماحول کی صورت میں سامنے آگئے، انسان بڑی کمزور چیز ہے، انسان ذہن کا غلام ہوتا ہے، تخریبی قوتوں کا حملہ ذہن پر ہوتا ہے، انہیں تخریبی اور سفلی قوتوں کو شیطان کہا گیا ہے ،میں نے تمہاری کلائی کے ساتھ دھاگا باندھ دیا تھا اور اس کا دوسرا سرا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا، غور کرو شہزادے میں زندہ حقیقی زندگی میں بیٹھا ہوا تھا اور تم تصورات میں گم ہوگئے تھے، لیکن یہ دھاگا حقیقت اور تصور کے درمیان ایک رشتہ تھا، یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو تم ہمیشہ کے لئے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے، یاد رکھو حسین تصورات اور حقیقی زندگی کے درمیان صرف ایک کچا دھاگا حائل ہے، جس نے اس دھاگے کو توڑ ڈالا وہ اپنی موت خود مرا ،اور جس نے اس دھاگے کو ٹوٹنے نہ دیا وہ بھٹک بھٹک کر کبھی تو واپس حقیقت میں آ ہی گیا،،،،،،، 
یہ ایک نشہ ہے جو کسی جابر بادشاہ پر بھی طاری ہو جائے تو وہ حسین تصورات میں جا پڑتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد گم ہو جاتا ہے، بادشاہ اپنے دشمن کو قتل کروا دیتے ہیں، دشمن کو مارنے کا بہترین اور بڑا ہی حسین طریقہ یہ ہے جو ہمارے بادشاہ نے اختیار کیا ہے ،دشمن کو کسی نشے میں مبتلا کرکے اس میں یہ غلط احساس پیدا کر دو کہ تم ساری دنیا کے بادشاہ ہو اور اتنے خوب رو ہو کے کسی بھی دیس کی شہزادیاں تم پر مر مٹیں گی، اس کی زندہ مثال تم اس غار کے اندر دیکھ آئے ہو، تمہارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھو، اپنے ہوش و حواس کو اپنے ذہن کے حوالے کبھی نہ کرو، اور بچو اس نشے سے جو نیک وبد کا احساس ہی مٹا دے، لیکن انسان کی فطرت اتنی کمزور ہے کہ وہ لذت اور تعیش کو فوراً قبول کرلیتی ہے اور انسان کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی اور اسے تباہی کی گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی