🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چھتیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس روز برکیارق دن بھر کے کام کاج بھول گیا تھا ،وہ سرائے سے سیدھا اپنے گھر گیا اس نے باپ کو جاکر دیکھا، باپ جاگ اٹھا تھا وہ باپ کے پاس بیٹھ گیا۔
برکیارق بیٹا!،،،،، سلطان ملک شاہ نے بڑی ہی نحیف آواز میں کہا ۔۔۔میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، اس حقیقت کو قبول کر لو کہ میں دو چار دنوں کا ہی مہمان ہوں، سلطان کی ساری ذمہ داریاں تمہارے کندھوں پر آ رہی ہیں، تم نے صرف اتنی بڑی اسلامی سلطنت کو ہی نہیں سنبھالنا بلکہ اسلام کی پاسبانی بھی کرنا ہے اور اولیت دین اسلام کو دینا،،،،،
اتنی مایوسی !،،،،،برکیارق نے سلطان ملک شاہ سے کہا۔۔۔ ابھی تو اللہ نے آپ سے بہت کام لینے ہیں ،خدا کے لئے اس مایوسی کو اپنے ذہن سے جھٹک ڈالیں، میں نے طبیب سے پوچھا ہے وہ کہتا ہے سلطان کو کوئی جسمانی مرض لاحق نہیں، انہوں نے اپنے ذہن اور دل پر خود ہی بوجھ ڈال لیا ہے، اب آپ میری ایک بات غور سے سنیں ،میں آپ کا روحانی علاج کرانا چاہتا ہوں ۔
میں خود روحانیت کا قائل ہوں ۔۔۔۔سلطان ملک شاہ نے کہا ۔۔۔۔لیکن مجھے کوئی علم روحانیت کا عالم نظر نہیں آتا۔
مجھے ایک عالم اور روحانی علاج کا ماہر نظر آگیا ہے۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ اس نے یہی بتایا ہے کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں آپ پر سفلی عمل کیا گیا ہے ،یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ عمل کس نے کیا ہوگا ؟،،،،حسن بن صباح کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس عالم نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی ہے۔
برکیارق نے سلطان ملک شاہ کو وہ ساری باتیں سنائیں جو درویش نے اس کے ساتھ کی تھی، جوں جوں وہ درویش کی باتیں سناتا جا رہا تھا اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق ود کرتی آ رہی تھی ،طبیب نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیدار ھو جائے اور یقین کر لے کے وہ کسی جسمانی مرض میں مبتلا نہیں، طبیب نے اسے الگ الگ کر کے بتایا تھا کہ اس کے ذہن پر کون کون سی باتیں نظر انداز ہو رہی ہیں اور اس کا علاج یہ نہیں کہ انسان ہتھیار ڈال کر لیٹ ہی جائے اور اپنے آپ کو مردہ سمجھ لے، لیکن سلطان ملک شاہ طبیب کی کسی بات کو قبول نہیں کرتا تھا وہ اس کی صرف دوائیاں قبول کر رہا تھا، اس کے اپنے بڑے بیٹے برکیارق نے اس درویش کا تفصیلی ذکر کیا تو وہ فوراً مان گیا اور اس نے بیٹے سے کہا کہ وہ اس درویش کو ساتھ لے آئے۔
برکیارق اٹھ دوڑا اسے اپنے باپ کی صحت کے ساتھ تو دلچسپی تھی ہی، لیکن اس سے زیادہ دلچسپی روزینہ کے ساتھ تھی، وہ یہ سوچ کر سرائے کی طرف جا رہا تھا کہ درویشے کہے گا کہ روزینہ کو کمرے میں اکیلی نہ چھوڑے اور اسے اپنے ساتھ لے چلے۔
ایسے ہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا وہ درویش کو شاہی بگھی میں بٹھا کر لے آیا روزینہ بھی اس کے ساتھ تھی، اپنے محل جیسے گھر میں آکر برکیارق نے روزینہ کو اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھیج دیا اور درویش کو اپنے باپ کے پاس لے گیا۔
درویش نے سلطان ملک شاہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مراقبے میں چلا گیا ،اس دوران تسبیح جو اس کے ہاتھ میں تھی اس کے دانے دونوں انگلیوں سے آگے چلاتا رہا ،تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور تسبیح کے دانے کو دیکھنے لگا، پھر اس نے تسبیح الگ رکھ دی اور سلطان ملک شاہ کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔
قابل صد احترام سلطان !،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ بات وہی نکلی جو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا، دشمن نے گھر بیٹھے وار کیا ہے اس محل کے احاطے کے اندر کہیں نہ کہیں کالی بلی کا سر دفن ہو گا ،میں ابھی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ سر کہاں دفن کیا گیا ہے یہ بعد کی بات ہے میں وہ سر نکال کر آپ کو دکھا دوں گا ،فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ آپ پر اس سفلی عمل کے جو اثرات ہیں وہ اتر جائیں اور آپ کا دماغ پہلے کی طرح کام کرنے لگے۔
آپ یہ علاج کس طرح کریں گے؟،،،،، سلطان ملک شاہ نے پوچھا ۔۔۔کیا مجھے بھی کچھ کرنا پڑے گا؟
میں آپ سے نماز پڑھواؤں گا۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔ایک وظیفہ بتاؤں گا جو آپ نے ہر نماز کے بعد کرنا ہو گا ،باقی سارا کام میں خود کرونگا ،میں نے دیکھ لیا ہے کہ مجھے کیا عمل کرنا ہے، آپ سات دنوں بعد پہلے کی طرح تروتازہ ہو جائیں گے ۔
ایک اور بات بتائیں۔۔۔ سلطان ملک شاہ نے پوچھا۔۔۔ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا عمل یا وظیفہ ہے جو کیا جائے تو طاقتور دشمن بھی زیر ہو جائے؟
بہت کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ لیکن ایک سے زیادہ کام ایک ہی بار شروع نہیں ہوں گے، سب سے پہلے تو آپ کو زندگی کے راستے پر رواں کرنا ہے جیسا کہ آپ پہلے ہوا کرتے تھے، اس کے بعد اگلا کام ہوگا۔
یہ جس دور کی داستان سنائی جا رہی ہے اس دور میں انسانی فطرت کی کمزوریاں عروج پر پہنچی ہوئی تھیں، یوں کہیں تو زیادہ صحیح ہو گا کہ انسان کی فطرت میں کمزوریاں تو ہر وقت رہی ہیں لیکن حسن بن صباح کی ابلیسی فطرت نے ان کمزوریوں کو اس طرح ابھارا اور لوگوں کو یقین دلایا کہ یہی کمزوریاں ان کی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ زیادہ پسند کرتا ہے، ادھر حسن بن صباح تھا اور ادھر سلطان ملک شاہ کو ایک روحانی عامل مل گیا ،اس سلطان کی اپنی فطری کمزوریاں تھیں ،یہی وہ شخص تھا جو جنگی قوت سے یا کسی بھی طریقے سے ابلیسیت کے اس طوفان کو اور اس سیلاب کو روک سکتا تھا اور روکنے کی پوری پوری کوشش کر بھی رہا تھا ،اس کی فطرت کی کمزوریاں ابھری تو اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ پردوں کے پیچھے کی باتیں بتا سکتا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ سلطان پہلے یہ دیکھتا کہ یہ شخص ہے کون، اور کیا اس میں اتنی بڑی طاقت ہے بھی یا نہیں کہ یہ غیب کی باتیں بتا سکے۔
ادھر اس کے بڑے بیٹے برکیارق میں ایک فطری کمزوری ایک حسین اور نوجوان لڑکی نے ابھار دی، وہ جو کہتا تھا کہ اس نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں لی اس نے اس لڑکی کو اپنے اعصاب بلکہ اپنی عقل پر غالب کر لیا، یہ ذمہ داری برکیارق کی تھی کہ وہ پہلے دیکھ لیتا کہ اس درویش کے پاس کوئی علم یا کسی عمل کی طاقت ہے بھی یا نہیں، یا یہ سلطان کو خوش کر کے انعام و اکرام حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔
اس وقت ضرورت یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ کو بیدار کیا جاتا اور اس کی جو ذمہ داریاں تھیں وہ اس کے آگے رکھی جاتیں اور اسے کہا جاتا کہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تیار ہو جاؤ اور میدان عمل میں کود پڑو،
یہاں تک تو بات بلکل ٹھیک تھی کہ اس درویش نے اسے کہا تھا کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھے اور ایک وظیفہ بھی کرے، سلطان ملک شاہ ویسے بھی عبادت کا قائل تھا اور صوم و صلوۃ کا پابند بھی تھا، لیکن درویش نے اسے یہ جو کہا تھا کہ باقی عمل وہ خود کرے گا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سلطان کے ہاتھ میں روحانیت کی لاٹھی دے دی گئی تھی کہ وہ اس کے سہارے چلے گا، یہ درویش بھی مخلص ہوتا اور اس کی بہن روزینہ بھی سچے دل سے بر کیارق کے ساتھ محبت کر سکتی تھی، لیکن اس وقت کی صورتحال ایسی تھی کہ سلطان کو خود بھی اور اس کے بیٹوں کو بھی بیدار اور ذہنی طور پر چوکس رہنا تھا اور ہروقت اللہ سے مدد مانگنی تھی۔
سلطان عالی مقام !،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ میں نے غیب کے پردے اٹھا کر دیکھ لیا ہے ،حسن بن صباح نے جو سفلی عمل آپ پر کروایا ہے وہ الٹا ہو کر اسی پر جا پڑے گا، اس کی وہی حالت ہوجائے گی جو آپ کی ہو رہی تھی، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ جب کسی کا کیا ہوا عمل الٹا ہو کر اس پر جاتا ہے تو بہت ہی زیادہ نقصان کرتا ہے، میں ابھی تو نہیں کہہ سکتا لیکن دھاندلی سے ایک بات ہے جو میں آپ کو بتا دیتا ہوں، امکان موجود ہے کہ حسن بن صباح اس اثر کو برداشت بھی نہ کرسکے اور مر جائے، وہ مرگیا تو اس نے جو فتنہ کھڑا کیا اور اسے پھیلایا ہے وہ خود ہی ختم ہو جائے گا، میں آپ کو باداموں کیساتھ گریاں اور ساتھ ہی چھوہارے دوں گا ،آپ نے یوں کرنا ہے کہ بادام کی ایک گیری ہر صبح نہار منہ کھا لینی ہے ،اور رات سونے سے پہلے ایک چھوہارا کھانا ہے، یہ خیال رکھیں کہ بادام کی گیری اور چھوہارا بہت دیر چباتے رہنا ہے اور جب یہ لعاب کی صورت اختیار کر لے تو نگل لینا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان سات دنوں میں آپ یوں محسوس کریں جیسے آپ کی تکلیف بڑھ گئی ہے تو پریشان نہیں ہونا، آٹھویں روز آپ اچھل کر پلنگ سے اٹھیں گے اور زندگی کے اس راستے پر چل پڑیں گے جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے۔
درویش نے اپنے تھیلے میں سے باداموں کی سات گیریاں اور سات چھوہارے نکالے اور سلطان ملک شاہ کے ہاتھ میں دے دیے۔
یہ الگ رکھ دیں۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔میں نے ان پر اپنا عمل کر دیا ہے اس عمل کے لیے میں گزشتہ رات سویا بھی نہیں، یہ رات بھر کا عمل تھا۔
درویش نے اپنے مخصوص انداز سے باتیں شروع کردیں ان باتوں میں امید کی چمکتی ہوئی کرن تھی اور یہ کرنیں دلفریب رنگوں والی تھیں جن میں سلطان ملک شاہ کو مستقبل درخشاں نظر آرہا تھا ،درویش کی باتیں جو تھیں وہ اپنی جگہ پر اثر تھیں لیکن درویش کے بولنے کا انداز جو تھا اصل اثر تو اس کا تھا ،،یہ اثر ایسا تھا جیسے کسی کو ہپنا ٹائز کیا جا رہا ہو، یہ اثرات سلطان ملک شاہ کے چہرے پر صاف نظر آنے لگے تھے ،اس کی آنکھوں میں چمک آتی جا رہی تھی اور اس کا چہرہ جو زردی مائل ہو گیا تھا اپنے قدرتی رنگ میں نظر آنے لگا تھا۔
سلطان مکمل طور پر بلکہ کچھ غیر قدرتی طور پر بیدار ہو گیا اور اس نے درویش سے اس کے متعلق کچھ ذاتی سوالات پوچھنے شروع کر دیے ،درویش نے سلطان کو وہی باتیں بتائیں جو وہ برکیارق کو بتا چکا تھا
سلطان عالی مقام !،،،،درویش نے کہا۔۔۔ میرے سر پر صرف ایک ذمہ داری ہے جس سے میں فارغ ہوگیا تو باقی عمر خانہ کعبہ میں اللہ اللہ کرتے گزار دوں گا ،میرے ساتھ میری چھوٹی بہن ہے میں اس کی شادی کسی ایسے آدمی کے ساتھ کرانا چاہتا ہوں جو مخلص اور درد مند ہو اور صحیح معنوں میں مسلمان ہی نہ ہو بلکہ مرد و مومن ہو۔
تمہاری بہن کہاں ہے؟،،،،، سلطان نے پوچھا۔
میرے ساتھ ہے۔۔۔ درویش نے جواب دیا ۔۔۔اسے اپنے ساتھ لایا ہوں میں اسے اکیلی نہیں چھوڑتا۔
پدر محترم!،،،،، برکیارق بولا۔۔۔ میں نے ان کی بہن کو دیکھا ہے اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے اس کے پاس کچھ دیر بیٹھنا پڑا، میں نے اس کے ساتھ باتیں کیں تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی بہن صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ ان میں عقل بھی ہے اور فہم و فراست بھی ہے ،اگر آپ اجازت دیں گے تو میں ان کی بہن کے ساتھ شادی کر لوں گا ۔
لڑکی کو یہاں لاؤ!،،،،، سلطان ملک شاہ نے کہا۔
لڑکی آ گئی ،اس کے ساتھ برکیارق کی ماں بھی تھی، سلطان ملک شاہ پر درویش نے ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ اس نے کچھ زیادہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اس نے لڑکی کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا۔
برکیارق!،،،،، سلطان ملک شاہ نے ایسے لہجے میں کہا جیسے کوئی فرمان جاری کر رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس لڑکی کے ساتھ شادی کرو گے۔
برکیارق کی ماں بھی اس لڑکی سے متاثر ہو گئی تھی اس نے خندہ پیشانی سے اپنے خاوند کے فرمان کی تائید کی۔
نہیں سلطان عالی مقام!،،،،، درویش نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اتنی اونچی پرواز کی توقع رکھوں، فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس محل میں میری بہن کو یہ طعنے ملنے شروع ہوجائیں کہ تو ایک بے گھر اور بے ٹھکانہ درویش کی بہن ہے۔
میں نے فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔ سلطان نے کہا۔۔۔ یہ اسلام کے شیدائیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں کا خاندان ہے، یہاں لڑکی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا، جو خدشہ تم نے ظاہر کیا ہے وہ ان دیواروں کے اندر ایک گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔
سلطان!،،،،، برکیارق کی ماں نے کہا۔۔۔ آپ پہلے صحت یاب ہو جائیں، آپ اٹھ کر باہر نکلیں گے برکیارق کی شادی اس لڑکی کے ساتھ کر دی جائے گی، برکیارق کی ماں تو بہت ہی خوش تھی کیونکہ وہ سلطان کے چہرے پر تندرستی اور بشاشت کے آثار دیکھ رہی تھی، وہ بھی درویش سے متاثر ہوئی اور اس نے انعام و اکرام کا اشارہ کیا، لیکن درویش نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ کسی انعام کے لالچ میں سلطان کو زندگی کی گہما گہمی میں واپس نہیں لا رہا، بلکہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔
کچھ دیر بعد درویش روزینہ کو ساتھ لے کر رخصت ہوگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ملک شاہ کا معمول بن گیا کہ صبح جاگتا توں پہلا کام یہ کرتا کہ درویش کی دی ہوئی بادام کی ایک گیری منہ میں ڈال کر چبانے لگتا اس کے بعد وہ نہا کر نماز پڑھتا اور پھر درویش کا بتایا ہوا وظیفہ کرنے لگتا، عشاء کی نماز کے بعد بھی وہ وظیفہ کرتا اور اس کے بعد ایک چھوہارا منہ میں ڈال کر چبانے لگتا۔
برکیارق ہر روز روزینہ سے ملنے چلا جاتا تھا، روزینہ نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے سرائے کے پچھواڑے والے باغ میں آدھی رات کے وقت ملا کرے گی، لیکن اب اس احتیاط اور خفیہ ملاقات کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ کیونکہ چند دنوں بعد برکیارق اور روزینہ نے میاں بیوی بن جانا تھا، برکیارق سرائے میں درویش کے کمرے میں چلا جاتا اور درویش کسی نہ کسی بہانے باہر نکل جاتا، روزینہ اس پر ایک بڑے ہی حسین تلچھٹ کی طرح طاری ہوجاتی اور برکیارق خود فراموشی کی کیفیت میں گم ہو جاتا۔
درویش ہر روز کچھ دیر کے لئے سلطان کے پاس جا بیٹھتا اس کی آنکھوں میں جھانکتا اور پھر آنکھوں میں پھونک مار کر کچھ باتیں کرتا اور وہاں سے چلا آتا۔
پانچواں یا چھٹا روز تھا کہ سلطان نے اپنے سینے میں بے چینی سی محسوس کرنی شروع کر دی، اس نے کہا کہ درویش کو فوراً بلایا جائے ،کچھ دیر بعد درویش آ گیا اس کے آنے تک سلطان ملک شاہ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سینے کی بے چینی بڑھ گئی اور ایسی ہی بے چینی کھوپڑی کے اندر دماغ میں بھی شروع ہو گئی تھی۔
ایسا ہونا تھا۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔یہ تکلیف برداشت کریں کل اس وقت تک یہ تکلیف کم ہونے لگے گی، اور اس کے بعد آپ بالکل قدرتی حالت میں آجائیں گے۔
وہ دن اور وہ رات سلطان ملک شاہ سو بھی نہ سکا، اگلی صبح اس نے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس کی اس نے ایک بار پھر درویش کو بلایا درویش نے آکر پھر کل جیسی تسلیاں دیں اور مسرت کا اظہار کیا کہ جو عمل سلطان پر کیا گیا تھا وہ نکل رہا ہے اور یہ اس کے اثرات ہیں۔
اگلے روز سلطان نے صبح اٹھ کر بادام کی آخری گیری بھی کہا لی، اور وہ سار ا دن تڑپتے گزارا اور سورج غروب ھو گیا ،سلطان نے کہا کہ درویش کو بلاؤ اور کہو کہ کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزارے تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔
مزمل آفندی بہت دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھ سکا تھا، اسے یہی بتایا جاتا رہا کہ طبیب نے اور اب درویش نے سختی سے کہا ہے کہ سلطان کے پاس کوئی ملاقاتی نہ آئے، اس شام جب سلطان کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی تھی مزمل بے تاب سا ہو گیا اور سلطان کو دیکھنے چلا گیا ،برکیارق سے تو اس کی ملاقات ہر روز ہی ہوتی تھی اور برکیارق اسے بتاتا رہتا تھا کہ درویش نے کیا کہا ہے اور سلطان کی حالت کیا ہے، لیکن اس شام وہ سلطان کے محل میں چلا گیا، اسے برکیارق ملا ،مزمل نے برکیارق سے کہا کہ وہ سلطان کو دیکھنا چاہتا ہے، اس نے ایسی بے تابی کا اظہار کیا کہ برکیارق اسے سلطان کے کمرے میں لے ہی گیا۔
وہ سلطان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سلطان پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لاش کی طرح سفید تھا ،مزمل تو سلطان ملک شاہ کا مرید تھا اور سلطان کو بھی مزمل سے بہت پیارتھا ،مزمل کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی جو قریب ہی بیٹھا ہوا تھا ،اس کا چہرہ دیکھتے ہیں مزمل کو دھچکا سا لگا جیسے اس کے پاؤں فرش سے اکھڑ رہے ہوں، مزمل نے درویش کی آنکھ کے قریب گال کی ابھری ہوئی ہڈی پر کالا تل دیکھا جو مٹر کے دانے کے برابر تھا۔
ایسے تل والا آدمی اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا اور مزمل نے اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی اور اسے کہا بھی تھا کہ وہ کہیں مل چکے ہیں ،مزمل کو یاد آیا کہ اس تل والے آدمی کی داڑھی بڑے سلیقے سے تراشی ہوئی اور چھوٹی چھوٹی تھی اور وہ جوان تھا ،لیکن اس درویش کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی اور اس کی عمر کا اندازہ چالیس سال کے لگ بھگ تھا، اچانک مزمل کو یاد آگیا کہ اس نے اس تل والے آدمی کو خلجان میں دیکھا تھا اور یہ آدمی اس کے ساتھ الموت تک گیا تھا، اب اسے خیال آیا کہ یہ حسن بن صباح کا آدمی ہے۔
مزمل کی کھوپڑی کے اندر جیسے دھماکا ہوا ہو، اس نے کچھ سوچے بغیر لپک کر بلکہ جھپٹ کر اپنا ہاتھ درویش کی لمبی داڑھی پر رکھا اور زور سے جھٹکا دیا ،لمبی داڑھی مزمل کے ہاتھ میں آ گئی اور درویش کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی کالی داڑھی رہ گئی، یہ وہ آدمی تھا جو اسے خلجان میں ملا تھا اور الموت تک اس کے ساتھ گیا تھا اور یہ یاد میں اسے گھوڑ دوڑ کے میدان میں ملا تھا ،مزمل نے اس کی پگڑی اتار دی دیکھا کہ اس کے لمبے بال جو اس کے کندھوں تک پہنچتے تھے مصنوعی تھے، سلطان چونک کر اٹھ بیٹھا، برکیارق کھڑا ہوگیا۔
سلطان محترم !،،،،،مزمل آفندی نے کہا ۔۔۔اس شخص نے آپ کو باداموں کی گیری اور چھوہاروں میں زہر کھلا دیا ہے، فوراً طبیب کو بلائیں۔
سلطان کی تلوار دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی مزمل نے لپک کر وہ تلوار نیام سے نکالی اور اس کی نوک درویش کی شہ رگ پر رکھ دی۔
سچ بتاؤ تم کون ہو ؟،،،،،مزمل نے پوچھا۔۔۔ اور تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے وہ کون ہے ،وہ تمہاری بہن نہیں اور تم حسن بن صباح کے بھیجے ہوئے آدمی ہو۔
میرے دوست!،،،،، درویش نے مسکرا کر کہا۔۔۔ تم مجھے قتل کر سکتے ہو میں نے اپنا کام کر دیا ہے، یہ لڑکی جو میرے ساتھ ہے اسے مشکوک یا مجرم نہ سمجھنا ،یہ میری بہن ہے یہ میری خفیہ زندگی سے لاعلم ہے، میں سلطان کا قاتل ہوں اس لئے میں اس حق سے محروم ہو گیا ہوں کہ سلطان سے درخواست کروں کہ میری بہن کو پناہ دی جائے اور میرے جرم کی سزا اسے نہ دی جائے۔
سلطان ملک شاہ نے سنا کہ اس شخص نے درویشی کے بہروپ میں اسے زہر دے دیا ہے تو اسے موت سر پر کھڑی نظر آنے لگی۔
او ظالم انسان !،،،،،سلطان نے اس جعلی درویش سے کہا۔۔۔ اگر تو اس زہر کا اثر اتار دے تو میں تیرا یہ جرم معاف کر کے عزت سے رخصت کردوں گا اور تیری بہن کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دوں گا اور جو انعام مانگو گے دوں گا۔
نہیں بدنصیب سلطان!،،،،، اس شخص نے کہا۔۔۔ اس زہر کا کوئی تریاق نہیں جو میں نے باداموں اور چھوہاروں میں ملا کر آپ کو دیا ہے ،مجھے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں مجھے انعام نہیں چاہیے میں امام حسن بن صباح کا فدائی ہوں ،میرے لئے یہی انعام کافی ہے کہ میں نے امام کی خوشنودی حاصل کر لی ہے اور میں سیدھا جنت میں جا رہا ہوں، امام نے مجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ میں نے کر دیا ہے۔
طبیب آ گیا تھا اس نے سلطان کی نبض دیکھی ایک دوائی بھی دی لیکن اس کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر آ گیا تھا اسے وہ چھپا نہ سکا۔
برکیارق کی ماں اور روزینہ بھی سلطان کے کمرے میں آ گئی تھیں، ماں نے تو رونا اور چلانا شروع کر دیا تھا، برکیارق کے دونوں بھائی محمد اور سنجر بھی وہاں موجود تھے۔
سلطان محترم !،،،،،مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ اس شخص کو میرے حوالے کر دیا جائے اسے میں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا۔
اسے لے جاؤ !،،،،،سلطان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ اسے کمر تک زمین میں گاڑ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ دو اور ایک قبر کھود کر اس کی بہن کو زندہ دفن کر دو۔
روزینہ نے خوفزدہ نظروں سے برکیارق کو دیکھا ،برکیارق روزینہ کے آگے جا کر کھڑا ہوا۔
نہیں!،،،،، اس نے کہا۔۔۔ بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی ۔
بے وقوف نہ بن برکیارق!،،،،، مزمل نے کہا ۔۔۔یہ ناگن ہے جسے تم اپنی پناہ میں لے رہے ہو۔
خبردار!،،،، برکیارق نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کے قریب نہ آنا اور سب یہ بھی سوچ لو کہ سلطان زندہ نہ رہے تو میں ان کا جانشین ہوں ،میں سلطان ہوں، اب میرا حکم چلے گا ۔
اس نے حسن بن صباح کے فدائی کی طرف اشارہ کرکے کہا،،،، اسے اسی طرح ہلاک کیا جائے جس طرح سلطان معظم نے حکم دیا ہے۔
یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ سلطان ملک شاہ نے آخری ہچکی لی اور فوت ہوگیا ۔
جعلی درویش کو قید خانے میں بھیج دیا گیا اسے اگلے روز کتوں سے مروانا تھا۔
اب برکیارق سلطنت سلجوقی سلطان تھا۔
یہ دوسری بڑی شخصیت ہے جسے حسن بن صباح نے نظام الملک کے بعد قتل کروایا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*