🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینتیس⛔🌈☠️🏡


🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پینتیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خواجہ حسن طوسی نظام الملک کوئی معمولی آدمی نہیں تھا ،وہ درباری قسم کا یا رسمی سا وزیراعظم بھی نہیں تھا، اس نے اپنی زندگی میں ہی ایک مدرسہ کھولا تھا جو آج بھی بغداد میں موجود ہے ،نظام الملک نے اس مدرسے کا نام مدرسہ نظامیہ رکھا تھا، اس مدرسے نے بڑی نامور اور تاریخی شخصیتیں پیدا کی ہیں، امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اس مدرسے سے پڑھے تھے ،سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی، اور بہاءالدین شداد جو ایک مشہور اسکالر اور عالم تھا صلاح الدین ایوبی کے ساتھ اس مدرسے میں پڑھا تھا ،بہاءالدین شداد تمام صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی کے ساتھ پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے ایلچی اور مشیر کی حیثیت سے رہا تھا۔
سلطان ملک شاہ کی فوج جب واپس آتے ہوئے مرو سے کچھ دور تھی تو لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو کوئی جس کام میں مصروف تھا وہ چھوڑ کر اس راستے پر آ کھڑا ہوا جس پر فوج آ رہی تھی، عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں، لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہ سمجھے جو فوج اتنی جلدی واپس آ رہی ہے وہ یقیناً فتحیاب واپس آ رہی ہے ۔
لوگ دوڑ کر آگے چلے گئے تاکہ اپنی فاتح فوج کا استقبال جوش و خروش اور فتح کے نعروں سے کریں، انہوں نے دیکھا کہ فوج کے آگے آگے مجاہدین نے کسی کی لاش اٹھا رکھی تھی ،پوچھا تو جواب ملا کہ وزیراعظم نظام الملک قتل ہوگئے ہیں، یہ بھی لوگوں کو بتا دیا گیا کہ قاتل باطنیوں کا فدائ تھا ،لوگ واپس شہر کی طرف دوڑے اور نظام الملک کے قتل کی خبر سارے شہر میں پھیلا دی، 
پورا شہر ماتم کدہ بن گیا ،نظام الملک لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا تھا وہ ہر کس و ناکس کا ہمدرد تھا، شہر میں کہرام بپاہوگیا، عورتیں باہر آ کر بین کرنے لگیں۔
 لوگوں نے حسن بن صباح اور باغیوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانے شروع کر دیئے ۔
ایک بھی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
حسن بن صباح کو یہاں لاکر درخت کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دیں گے ۔
انتقام،،،،خون کا بدلہ خون،،،، انتقام !
فوج کو پھر واپس لے جاؤ۔
اور ایسی بے شمار آوازیں تھیں جو بگولے بن کر اٹھ رہی تھیں، مائیں بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ہم اپنے جوان بیٹے قربان کر دیں گی، لڑکے اور نوجوان بے قابو ہوئے جارہے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ الگ لشکر بناکر الموت پر حملہ کریں گے۔
نظام الملک کی میت اس کے گھر لائی گئی، جہاں میت کو غسل دے کر اسے کفن پہنا دیا گیا ،پھر میت کو ایک خوشنما پلنگ پر رکھ کر سر سبز لان میں رکھ دیا گیا، شہر کے تمام لوگ ایک قطار میں میت کے قریب سے گزرنے اور اپنے محبوب وزیراعظم کا آخری دیدار کرنے لگے، وہاں صرف یہ نہیں تھا کہ تمام آنکھیں اشکبار تھیں ،بلکہ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، بعض جوشیلے آدمی میت کے قریب ہو کر انتقام اور خون کا بدلہ خون کے نعرے لگا کر آگے جاتے تھے، لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ ماتم ایک بے قابو ہنگامے کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا ،کئی عورتیں سینہ کوبی کر رہی تھیں۔
سلطان ملک شاہ کی جذباتی حالت عام شہریوں جیسی ہی تھی، وہ تو ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا ،نظام الملک اس کا دست راست تھا، اس کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی، نظام الملک صرف انتظامی امور کا ہی ماہر نہ تھا بلکہ جنگی امور اور سپہ سالاری میں بھی مہارت رکھتا تھا ،سلطان ملک شاہ نے دیکھا کہ لوگ انتقام کی آگ میں جلنے لگے ہیں اور ان پر قابو پانا ضروری ہے تو وہ نظام الملک کے گھر کے اندر چلا گیا وہ بالائی منزل کی ایک کوٹھری میں جا کھڑا ہوا جو باہر کی طرف کھلتی تھی۔
مرو کے لوگوں !،،،،،سلطان ملک شاہ نے بلند آواز سے کہا۔۔۔۔ تھوڑی سی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ ۔
کئی آوازیں سنائی دیں۔۔۔ خاموش،،، خاموش،،، سلطان کی بات سنو،،،، خاموش۔"
اپنے جذبات پر قابو پاؤ۔۔۔ سلطان ملک شاہ نے کہا ۔۔۔مت سوچو کہ میں نظام الملک کے خون کو بھول جاؤں گا ،باطنیوں نے نظام الملک کی پیٹھ میں خنجر نہیں مارا بلکہ انہوں نے سلطنت سلجوقیہ کے دل میں خنجر اتار دیا ہے، لیکن یہ سلطنت خداداد اس طرح نہیں گرے گی جس طرح حسن بن صباح اور اس کے باطنی سمجھتے ہیں، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نظام الملک کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے بیس بیس باطنیوں کا خون بہایا جائے گا۔ یہ باطنی اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں، ہم نے لشکر کشی سے کوئی ملک کو فتح نہیں کرنا ،ہم نے اس باطل کو خاک و خون میں گم کر دینا ہے ،میں اپنی فوج کو نہاوند سے ہی اس لئے واپس لے آیا ہوں کہ تمام فوج پر رنج و غم کے بادل چھا گئے تھے اور ہر مجاہد پر ماتم اور انتقام کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اس جذباتی کیفیت میں لڑائیاں لڑیں تو جا سکتی ہیں لیکن جیتی نہیں جاسکتی، میں اپنے لشکر کی نفری میں اضافہ کروں گا اور ہم المُوت پر ایسا حملہ کریں گے کہ باطنیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا، اور الموت کو ہم کھنڈر بنا کر واپس آئیں گے ۔
ہم سب اس لشکر میں شامل ہوں گے۔۔۔ پہلے ایک آواز آئی اور پھر بہت سی آوازیں گوجنے اور گرجنے لگیں۔۔۔ لشکر فوراً بناؤ ہم سب تیار ہیں، ہم کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔
عورتوں کا جوش و خروش الگ تھا، عورتوں کی طرف سے بار بار یہی للکار سنائی دے رہی تھی۔۔۔ ہمارے بیٹوں کو لے جاؤ ،انہیں اسلام کے نام پر قربان کر دو، نظام الملک کے خون کا انتقام لو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر الموت میں حسن بن صباح کو خبر مل چکی تھی کہ نظام الملک کو نہاوند میں ابو طاہر نام کے ایک فدائی نے قتل کر دیا ہے، حسن بن صباح نے یہ خبر ملتے ہی اپنے خصوصی نائبین کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا تھا۔
ابو طاہر نے ایک آدمی کو ہی ختم نہیں کیا۔۔۔ حسن بن صباح کہہ رہا تھا۔۔۔ اس نے ایک فوج کو قتل کر دیا ہے،،،،،،، کہاں ہے سلجوقیوں کی وہ فوج جو الموت کو محاصرے میں لینے آ رہی تھی؟،،،، وہ فوج واپس چلی گئی ہے، میں نے تمہیں کچھ عرصہ پہلے یہ بات کہی تھی کہ فوج کا آمنے سامنے آ کر لڑنا نقصان دہ ہوتا ہے، اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ حملہ آور فوج کو مارنے کی بجائے اس حاکم کو مار ڈالو جس کے حکم سے فوج لڑتی ہے، اب تم نے عملی طور پر اس اصول کا مظاہرہ اور نتیجہ دیکھ لیا ہے، تم کسی دشمن بادشاہ کے لشکر کو کیوں مارنے یا شکست دینے کی کوشش کرتے ہو؟،،،،،،،، خود اس بادشاہ کو ہی مار ڈالو اس کا لشکر خود ہی بھاگ جائے گا، کیا مرو تک ہمارا کو آدمی پہنچا ہے یا نہیں؟ 
ہاں امام !،،،،،،ایک آدمی نے جواب دیا۔۔۔ وہ تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جس وقت یہ اطلاع پہنچی تھی کہ نظام الملک کو ہمارے ایک فدائی نے قتل کردیا ہے۔ 
مجھے بہت جلدی معلوم ہونا چاہیے کہ مرو کے لوگوں کا کیا ردعمل ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔سب سے زیادہ ضروری بات تو یہ معلوم کرنی ہے کہ سلطان ملک شاہ اب کیا جوابی کارروائی کرے گا، وہ ڈر کرتو نہیں بیٹھ جائے گا ،اس نے انتقامی کاروائی ہر حال میں کرنی ہے، لیکن میں وہاں کے لوگوں کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
ہاں امام !،،،،وہی آدمی بولا ۔۔۔ہم نے یہ بندوبست بھی کر لیا ہے ۔
مجھے ایک ایک لمحے کی اطلاع ملنی چاہیے کہ مرو میں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر سلطان ملک شاہ الموت پر حملے کی تیاری کر رہا ہو تو ہم اسے بھی نظام الملک کی طرح خدا کے پاس بھیج دیں گے۔
سلطان ملک شاہ کے تین بیٹے تھے، بڑے کا نام برکیارق تھا ،اس سے چھوٹا محمد تھا اور اس کے بعد سنجر تھا، چھوٹے دونوں بھائی نوجوان تھے اور برکیارق ایک اچھا خاصہ بارعب جوان بن چکا تھا اور وہ عقلی طور پر اتنا بالغ ہو گیا تھا کہ وہ باپ کو بڑے کارآمد مشورے دینے لگا تھا۔
 ان کا رد عمل تو بہت ہی شدید تھا، مزمل آفندی بھی مرو میں ہی رہتا تھا، اس کی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے ساتھ گہری دوستی تھی، مزمل آفندی پر تو دیوانگی طاری ہو چکی تھی وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن وہاں اس کی ایسی برین واشنگ ہوئی کہ وہ نظام الملک کو قتل کرنے کے ارادے سے واپس آ گیا تھا، یہ تو شاہی طبیب اور شمونہ کا کمال تھا کہ ان دونوں نے مزمل آفندی پر قابو پا لیا اور اسے بیدار کر لیا تھا، اس کے سینے میں تو حسن بن صباح کی نفرت ایسی شدید صورت اختیار کر گئی تھی جیسے اس کے وجود میں آگ لگی ہوئی ہو ،اس کے ذہن میں ایک ہی سوچ تڑپتی رہتی تھی کہ وہ حسن بن صباح کو قتل کرے گا لیکن ہوا یہ کہ اس کا پیرومرشد نظام الملک حسن بن صباح کے ایک فدائی کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔
نظام الملک کو دفن ہوئے بہت دن گزر گئے تھے، سلطان ملک شاہ نے حکم دے دیا تھا کہ لشکر کی نفری بڑھائی جائے اور لشکر کو تیار کیا جائے، شہر کے جوان دھڑا دھڑ لشکر میں شامل ہو رہے تھے اور ان کی ٹریننگ شروع کردی گئی تھی، انہی دنوں مزمل آفندی سلطان ملک شاہ کے تینوں بیٹوں کے پاس گیا ،ملک شاہ کے بیٹوں پر بھی جوش و خروش اور انتقام کا جذبہ غالب تھا۔
میرے دوستو مزمل آفندی نے کہا۔۔۔بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے میں تمہیں آج ہی بتا دیتا ہوں کہ بڑے سے بڑا لشکر بھی الموت جاکر ناکام ہو جائے گا ،اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ایک تو الموت کا قلعہ ایسا ہے کہ اسے محاصرے میں لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ بھی حقیقت ہے کہ حسن بن صباح کے پاس جو جانباز ہیں ان جیسے جانباز ہمارے لشکر میں نہیں، حسن بن صباح کوئی ایسی چال چلے گا جس سے ہمارا لشکر بیکار ہو کر رہ جائے گا۔
پھر کیا کرنا چاہیے؟۔۔۔سلطان ملک شاہ کے بڑے بیٹے برکیارق نے پوچھا۔۔۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔
یہی بات تو میں تم تینوں سے کرنے آیا ہوں۔۔۔ مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ باطنیوں کو شکست دینے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حسن بن صباح اور اس کے پیر و مرشد احمد بن عطاش کو قتل کر دیا جائے، لیکن کام یہ بھی آسان نہیں، تم تینوں اچھی طرح جانتے ہو کہ میں حسن بن صباح کو قتل کرنے گیا تھا، پھر مجھ پر جو بیتی وہ بھی تم جانتے ہو، میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس قسم کے چند ایک جانباز تیار کرو جیسے حسن بن صباح نے تیار کر رکھے ہیں، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کی رہنمائی کروں گا ،لڑنا ہوا تو لڑوں گا اور قتل کرنے کا موقع ملا تو جس جس کو قتل کرنا ہے کروں گا۔
میں آج ہی سالاروں کو بلا کر کہہ دوں گا۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ اپنی جانوں پر کھیلنے والے چند ایک آدمی ضرور ہی مل جائیں گے۔
لیکن برکیارق!،،،،، مزمل آفندی نے کہا۔۔۔ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم کسی کو سونے چاندی کا لالچ دے کر تیار کرلو گے کہ وہ اپنی جان پر کھیل جائے گا تو تم بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک خوش فہمی میں اپنے آپ کو مبتلا کروگے ،حسن بن صباح نے اپنے جانبازوں پر مذہب اور عقیدے کا جنون طاری کر رکھا ہے، اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے جانبازوں کو بلا کر ان کے دماغوں پر قبضہ کر رکھا ہے، وہاں تو یہ عالم ہے کہ سوچتا حسن بن صباح ہے اور عمل اس کے فدائی کرتے ہیں، کیا ہم اس طرح اور اس طریقے سے جانباز پیدا نہیں کر سکتے ؟
کر سکتے ہیں ۔۔۔برکیارق کے چھوٹے بھائی محمد نے کہا ۔۔۔لیکن پہلے سالاروں کے ساتھ بات کر لی جائے۔
یہاں جانبازوں کی بات تو ہو رہی تھی اور ان لوگوں کو امید تھی کہ وہ اسی قسم کی جانباز تیار کر سکیں گے جیسے حسن بن صباح نے تیار کررکھے تھے، لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ حسن بن صباح نے جس طرح فدائی تیار کیے تھے اس طرح بعد میں کوئی نہیں کر سکا، پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ حسن بن صباح کے جانبازوں کو خوراک کیا کھلائی جاتی تھی، پلایا کیا جاتا تھا، اور انھیں عیش و عشرت کے لئے کیسے کیسے سامان مہیا کیے جاتے تھے، باطنی جانبازوں کو تو حسن بن صباح نے درندے بنا ڈالا تھا، جن کا کام چیرنے پھاڑنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا، ان کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا تھا کہ جان دے کر ایک اور زندگی شروع ہوتی ہے جس میں صرف عیش و عشرت ہے اس کے سوا اور کوئی ذمہ داری اور کوئی کام نہیں۔
مرو میں شمونہ بھی تھی، اسے چھوٹی سی عمر میں حسن بن صباح کے ڈاکوؤں نے قافلے سے اغواء کیا تھا اور اس طرح اسے ماں باپ سے جدا کر دیا تھا ،پھر ان لوگوں نے اس کے باپ کو قتل کر دیا تھا ،وہ مرو میں جس طرح آئی اور جس طرح نظام الملک کے سائے میں پہنچی وہ پہلے سنایا جاچکا ہے، وہ تو نظام الملک کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی، اس باپ کو بھی حسن بن صباح کے ایک فدائی نے قتل کر دیا ،وہ اس قدرروئی کہ اس کی ماں کو یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ یہ لڑکی روتے روتے مر جائے گی یا دماغی توازن کھو بیٹھے گی۔
ایک روز اچانک اس کا رونا بند ہوگیا اور اس کی آنکھیں خشک ہو گئی، وہ ماں کے پاس جا بیٹھی۔
رات خواب میں نظام الملک سے ملاقات ہوئی ہے ۔۔۔شمونہ نے ماں سے کہا۔۔۔ انہوں نے گلہ کیا ہے کہ تم نے ابھی تک میرے قتل کا انتقام نہیں لیا ۔
اس کی ماں نے یہ بات سنی اور جس انداز سے شمونہ نے یہ بات کی تھی اس سے ماں کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔
 انہیں تم سے بہت پیار تھا ۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔ بس یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں خواب میں نظر آئے ہیں۔
نہیں ماں!،،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ وہ مجھے کہنے آئے تھے کہ میرے خون کا انتقام صرف تم لے سکتی ہو، اور تم انتقام لو، میں اب انتقام لے کے ہی رہوں گی، نظام الملک میرے روحانی باپ تھے۔
 انتقام لو گی کیسے؟،،،،، ماں نے پوچھا۔۔۔ کیا تم الموت جاکر حسن بن صباح کو قتل کر سکتی ہو؟،،،،ماں نے پوچھا اور کہا۔۔۔ تم اس کے پاس رہ چکی ہو وہ جونہی تمھیں دیکھے گا حکم دے دے گا کہ اس لڑکی کو قتل کر دیا جائے ،اس کے کئی آدمی تمہیں پہچانتے ہوں گے۔
میری بات غور سے سنو ماں۔۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔میں نے زبان کے داؤ پیچ اور ہیر پھیر حسن بن صباح سے سیکھے ہیں یہ اسی پر آزماؤں گی، میرے پاس خنجر ہو گا میں اس کے پاس چلی جاؤں گی اور کہوں گی کہ تمہاری محبت مجھے تمہارے پاس کھینچ لائی ہے ،اس سے پہلے کے وہ مجھے جلاد کے حوالے کرے میں خنجر اس کے دل میں اتار چکی ہونگی۔
ماں نے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے بہت دلیل دی، اپنی محبت کا واسطہ بھی دیا اور یہ بھی کہا کہ تم نہ رہیں تو میرا اس دنیا میں اور کون ہوگا میں اپنی جان خود ہی لے لوں گی، لیکن شمونہ پر کسی بات کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا ،شمونہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہی، وہ ماں کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہوتی تھی۔
ماں نے جاکر مزمل آفندی کو بتایا ،مزمل آفندی اس کے گھر چلا گیا، اس نے شمونہ کو ایسی جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں دیکھا جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ حسین و جمیل لڑکی اپنے آپ میں ہے ہی نہیں ،اور اس کا دماغی توازن مشکوک ہے، مزمل نے اس پر اپنی محبت کا طلسم طاری کرنے کے لئے کچھ جذباتی باتیں کیں۔
مجھے کچھ نہ کہو مزمل!،،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ محبت بعد کی بات ہے، اس وقت میری عقل اور میری روح پر نظام الملک کا خون سوار ہے، جب تک میں اس خون کا قرض چکا نہیں لیتی میں اس محبت کو ذہن میں لا ہی نہیں سکتی۔
یہ بھی سن لو شمونہ!،،،،، مزمل نے کہا۔۔۔جب تک میں زندہ ہوں تم گھر سے باہر قدم نہیں رکھو گی ،کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ ہم مرد مرگئے ہیں، یا ہم اتنے بے حس اور بے غیرت ہو گئے ہیں کہ نظام الملک جیسے انسان کا خون ذہن سے اتار دیں گے؟،،،،،، میں جاؤنگا ،ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں ،مجھے پوری امید ہے کہ وہ دن جلدی طلوع ہوگا جس دن میں احمد بن عطاش اور حسن بن صباح کی لاشیں تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا۔
تم پہلے بھی وہاں گئے تھے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔ 
وہ تجربہ اب مجھے کام دے گا۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ 
اب میں اکیلا نہیں جاؤں گا، جانبازوں کا ایک گروہ لے کر جاؤں گا ،کیا تم دیکھ نہیں رہی ہوں کہ الموت پر حملے کے لئے اتنا بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے؟ 
میں کچھ دن انتظار کر لونگی۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ اگر تم لوگ ناکام ہو گئے تو پھر یہ کام میں کرکے دکھا دوں گی۔
وہاں اگر کوئی سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا تھا تو وہ سلطان ملک شاہ تھا ،اس سلطان کے آباؤ اجداد نے اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو سنبھالا اور سلطنت سلجوقیہ قائم کی تھی۔
تمام مؤرخ اس حقیقت پر متفق ہیں کہ سلطان ملک شاہ اس دور میں اسلام کا محافظ اور پاسبان تھا، اس وقت کا خلیفہ تو برائے نام تھا۔ سلطان ملک شاہ حالات کے ایسے بھنور میں آ گیا تھا جس میں سے اسکے لئے اکیلے نکلنا محال تھا ،اس کے انتظامی اور دیگر امور اور مسائل میں نظام الملک کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے جسم میں دماغ ہوتا ہے، نظام الملک سلطان ملک شاہ کا بازو ہی نہیں بلکہ زور بازو بھی تھا، اسے اپنے تین بیٹوں میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں تھا ،ان میں قومی اور دینی جذبہ تو تھا اور ان میں جوش وخروش بھی تھا لیکن ان میں وہ عقل اور فہم و فراست نہیں تھی جس کی ان حالات میں ضرورت تھی۔
جو مشکلات اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ قلعہ الموت عام قلعوں جیسا نہیں تھا، پہلے اس قلعے کی ساخت اور محل وقوع بیان ہو چکا ہے، یہاں مختصراً ذکر ہوگا کہ یہ قلعہ کیسا تھا، یہ قلعہ پہاڑی کے اوپر تھا اس کے ایک طرف دریا اور دوسری طرف دلدل اور جھیل تھی، یہ قلعہ تو بہت ہی خوبصورت اور خوش نما تھا، وہاں گھنے درخت تھے رنگا رنگ پھولوں والے خود رو پودے تھے، رنگارنگ پتوں والی خوشنما جھاڑیاں تھیں، اور گھاس مخمل کے فرش کی طرح پھیلی ہوئی تھی، جس پہاڑی پر یہ قلعہ اور شہر تھا ،وہ تو ہریالی اور خودرو پھول دار پودوں اور بڑے ہی خوشنما درختوں کی وجہ سے اس قدر خوبصورت تھی کہ یہ اس زمین کا حصہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا، اس سارے خطے کو دیکھ کر بڑے ہیں حسین خواب کا گمان ہوتا تھا، لیکن قدرت کے اس حسن میں بڑے ہی خوفناک خطرے پوشیدہ تھے۔
یہ ایک قدیم قلعہ تھا جو سلطان ملک شاہ نے دو تین مرتبہ دیکھا تھا ،اس قلعے میں خطرہ یہ تھا کہ جتنا اوپر نظر آتا تھا اس سے تین گناہ زیادہ نیچے پہاڑی کے اندر یعنی زمین دوز تھا ،نیچے بڑی مضبوط چٹان تھی جو خاصی لمبی اور چوڑی تھی، کاریگروں نے اس چٹان کو نیچے سے کاٹ کاٹ کر رہداریوں، کمروں اور راستوں کی بھول بھلیاں بنا ڈالی تھیں۔ کوئی اجنبی وہاں جا نکلتا تو پھر اس کا وہاں سے نکل آنا ممکن نہیں ہوتا تھا، وہاں گھوڑے اور اونٹ غائب ہو جاتے تھے، سلطان ملک شاہ کو جو مسئلہ پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ اس قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے اور پھر اس پر حملہ کرنے کے لئے بہت ہی بڑے لشکر کی ضرورت تھی، اور پھر اصل ضرورت یہ تھی کہ اس لشکر کو خاص قسم کی ٹریننگ دی جائے۔
سلطان ملک شاہ نے وہاں اور ارد گرد کے علاقے میں اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے۔ الموت کے اندر بھی جاسوس موجود تھے، وہ وقتاً فوقتاں مرو آ کر سلطان ملک شاہ کو وہاں کی خبریں اور اطلاع دیتے رہتے تھے، لیکن اب وہاں سے جو اطلاعات آ رہی تھیں وہ مشکلات میں اضافہ کر رہی تھیں، مثلا نظام الملک کے قتل کے ایک مہینے بعد دو جاسوسوں نے الموت سے آکر سلطان ملک شاہ کو آکر بتایا کہ باغیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور انہوں نے تبلیغ کا کام تیز کردیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اردگرد کے بلکہ دور دور تک کے قلعوں پر لڑے بغیر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے، سب سے زیادہ خطرناک خبر یہ تھی کہ ان تمام علاقوں پر باطنی اس طرح غالب آ گئے تھے جیسے وہاں کے لوگ حسن بن صباح کو امام ہی نہیں بلکہ نبی تک ماننے لگے تھے ،عام سی قسم کے لوگوں میں بھی حسن بن صباح کے حکم پر جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا ۔
ایک روز سلطان ملک شاہ نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا۔
میرے عزیز بیٹوں!،،،،، سلطان ملک شاہ نے کہا۔۔۔ اسلام پر اتنا خطرناک وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا جتنا خطرناک اور خوفناک وقت اب آیا ہے، ہم نے اپنی سلطنت کا ہی دفاع نہیں کرنا بلکہ ہماری ذمہ داری اسلام کا تحفظ اور فروغ ہے، جس روز سلطنت سلجوقیہ ختم ہوگئی اسی روز اسلام کا پرچم بھی گر پڑے گا ،بادشاہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوا کرتے لیکن میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں، یہ سلطنت میری نہیں تمہاری نہیں اور تمہارے آبا واجداد کی بھی نہیں یہ اللہ کی سلطنت ہے جس کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے، میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا کہ میں کئی رات سویا بھی نہیں ہوں ،میں ہمہ وقت پریشان رہتا ہوں ،میں اپنے سر میں گرانی محسوس کرنے لگا ہوں میں اکیلا رہ گیا ہوں۔
پدر محترم !،،،،،بڑے بیٹے برکیارق نے کہا۔۔۔ ہم تین بھائیوں کی موجودگی میں آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ آپ اکیلے رہ گئے ہیں، میں ایک بات کہوں گا، نظام الملک شہید کو ہم اپنا روحانی باپ سمجھتے تھے، اللہ نے جو عقل و دانش انہیں عطا کی تھی وہ کسی کو عطا نہیں ہوا کرتی، یہ میں بھی محسوس کیا کرتا ہوں کہ نظام الملک کے اٹھ جانے سے ہم کمزور ہوگئے ہیں، لیکن ہم نے یہ کمزوری اپنے آپ میں ان کی زندگی میں ہی پیدا کر لی تھی، آپ کے سامنے کوئی مسئلہ آیا تو آپ نے خود سوچنے اور فیصلہ کرنے کی بجائے وہ مسئلہ نظام الملک کے سپرد کر دیا، یہ وجہ
 ہے کہ آج آپ اپنے آپ کو تنہا اور کمزور سمجھ رہے ہیں ،بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر میں آگ جیسا جذبہ موجود ہے، یہ لشکر جب حملہ کرے گا تو باطنیوں کے لیے یہ خاک و خون کا طوفان ثابت ہوگا۔
نہیں بیٹے !،،،،،سلطان ملک شاہ نے کہا۔۔۔یہی تو اس مسئلہ کا وہ پہلو ہے جسے تم سمجھ نہیں رہے ،الموت کو لشکر کے زور پر فتح نہیں کیا جا سکتا ،میں تو سوچ سوچ کر پریشان ہو گیا ہوں تم مجھے سوچنے میں مدد دو ،ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔
ہمیں موقع دیں پدر محترم !،،،،اس کے بیٹے محمد نے کہا۔۔۔ آپ اتنے زیادہ بھی پریشان نہ ہو جائیں ،ہم خود بھی ایک اور طریقہ اختیار کر رہے ہیں، ہم جانبازوں کا ایک گروہ تیار کر رہے ہیں۔
سلطان ملک شاہ نے اپنے بیٹوں کو اپنی جو ذہنی اور جذباتی حالت بتائی تھی وہ بہت ہی کم بتائی تھی، مورخ لکھتے ہیں کہ اس وقت سلطان ملک شاہ اعصابی تکلیف میں مبتلا ہو چکا تھا، مسائل تو الگ تھے ،صرف نظام الملک کے غم نے ہی اسے نڈھال کر دیا تھا، وہ عیش و عشرت کا دلدادہ نہیں تھا ،بنی نوع انسان کی محبت دل میں رکھنے والا سادہ طبیعت انسان تھا، اس کی عمر بھی کچھ زیادہ ہوگئی تھی جس سے جسم میں قوت مدافعت کم ہو گئی تھی ،غم اور مسائل نے اس کے اعصاب پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال دیا تھا جو اس کے اعصاب برداشت نہ کر سکے ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ تنہائی میں اسے روتے بھی دیکھا گیا تھا، اس کی چال ڈھال میں پہلے والی شان وشوکت نہیں رہی تھی، اس نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت شروع کردی تھی، شب بیداریوں کا اثر الگ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس طرح الموت کی خبریں اور اطلاعات سلطان ملک شاہ کے جاسوس مرو تک پہنچا رہے تھے اسی طرح حسن بن صباح کے جاسوس مرو کی خبریں حسن بن صباح تک لے جا رہے تھے۔
دونوں اطراف میں فرق یہ تھا کہ سلطان ملک شاہ کو جب الموت کے بارے میں راز کی کوئی بات معلوم ہوتی تھی تو وہ پریشان ہو جاتا تھا ،لیکن جب حسن بن صباح کو اس کا کوئی جاسوس مرو سے جا کر یہ بتاتا تھا کہ مرو میں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے اور اس لشکر کو جنگی تربیت دی جا رہی ہے اور اس لشکر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو حسن بن صباح کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہونے کی بجائے اس کے ہونٹوں پر لطیف سا تبسم آ جاتا تھا ،اسے یہاں تک معلوم ہو گیا تھا کہ سلطان ملک شاہ پہلے والا تندرست و توانا اور چاک و چوبند سلطان نہیں رہا ،جاسوسوں نے حسن بن صباح کو یہ بھی بتایا تھا کہ سلطان ملک شاہ کی چال ڈھال اور بولنے کے انداز میں بھی نقاہت آ گئی ہے۔
ایک روز مزمل آفندی گھوڑ دوڑ کے میدان کے باہر تماشائیوں میں کھڑا سواروں کی ٹریننگ دیکھ رہا تھا اسے کوئی جواں سال آدمی ملتا تو وہ اسے سب سے پہلے یہ بات کہتا تھا کہ وہ لشکر میں کیوں شامل نہیں ہوا، اس روز وہ گھوڑ سواروں کی ٹریننگ اتنی دل چسپی سے نہیں دیکھ رہا تھا جتنی توجہ سے وہ تماشائیوں کو دیکھتا پھرتا تھا ،وہ تین چار نوجوانوں سے کہہ چکا تھا کہ وہ تماشا دیکھنے کی بجائے لشکر میں شامل ہوجائیں تو انہیں شہسوار بنا دیا جائے گا ،وہ اس کوشش میں تھا کہ لشکر میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور زیادہ نوجوان لشکر میں بھرتی ہوں۔
 وہ تماشائیوں میں گھوم پھر رہا تھا کہ اسے اپنی عمر کا یعنی جواں سال ایک آدمی نظر آیا، یہ چہرہ اسے کچھ مانوس معلوم ہوا وہ سوچنے لگا کہ اسے اس نے پہلے کہاں دیکھا ہے، اتنا تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس شہر کی آبادی بھی کچھ کم نہیں چلتے پھرتے کہیں نہ کہیں یہ شخص سامنے آگیا ہوگا، لیکن مزمل یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کہیں اور دیکھا تھا اور کسی خاص موقع پر اور کس خاص صورت حال میں دیکھا تھا ،اس نے اس آدمی کے چہرے کو اور زیادہ غور سے دیکھا۔
مزمل کو دراصل اس آدمی کی دائیں آنکھ کے ذرا نیچے گال کی ہڈی پر ایک تل نظر آرہا تھا جو مٹر کے دانے جتنا تھا ،اور یہ کالا تل بھرا ہوا تھا۔ اس آدمی نے مزمل کی طرف دیکھا تو اس شخص کے چہرے کا تاثر بدل گیا اور وہاں سے کھسکنے لگا ،اس سے مزمل کو کچھ شک ہوا۔
ذرا رکنا بھائی!،،،، مزمل نے اس کے پیچھے جاتے ہوئے کہا۔ 
وہ آدمی یوں چلتا گیا جیسے اس نے مزمل کی آواز سنی نہ ہو، مزمل تیز تیز چلتا اس کے پاس جا پہنچا۔
ہم اس سے پہلے کہاں ملے تھے ؟،،،،مزمل نے پوچھا اور اس کا چہرہ اور زیادہ غور سے دیکھتے ہوئے بولا... آپ کو میں نے یہاں اس شہر میں نہیں دیکھا، ہم کہیں اور ملے تھے
ضرور ۔
ملے ہوں گے بھائی !،،،،اس آدمی نے کہا۔۔۔ میں تمہارے اخلاق کی تعریف کروں گا کہ تم نے مجھے یاد رکھا اور اتنی محبت سے مجھے بلایا ،مجھے بالکل یاد نہیں کہ ہم کہیں ملے بھی تھے یا نہیں، ہو سکتا ہے ہم کسی قافلے میں ہم سفر رہے ہوں، یا کسی سرائے میں تم نے مجھے دیکھا ہو، میں تجارت پیشہ آدمی ہوں شہر شہر قصبہ قصبہ گھومتا رہتا ہوں ،میں یہاں کا رہنے والا نہیں ۔
مجھے تمہارا یہ موٹا تل یاد ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔
اس آدمی نے زور دار قہقہ لگایا اور مزمل کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا۔
اس تل کی وجہ سے ہی جو مجھے ایک بار دیکھ لیتا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔۔۔ اس آدمی نے بڑے ہی شگفتہ لہجے میں کہا اور پوچھا ۔۔۔کیا تم یہیں کے رہنے والے ہو۔
 ہاں بھائی !،،،،،مزمل آفندی نے جواب دیا۔۔۔ میں یہیں کا رہنے والا ہوں۔
 اچھا دوست !،،،،اس آدمی نے مزمل سے ہاتھ ملایا اور کہا ۔۔۔میں تمہاری محبت کو یاد رکھوں گا۔
وہ آدمی چلا گیا اور مزمل کھڑا سوچتا رہا اسے اتنا ہی یاد آرہا تھا کہ یہ شخص اسے کہیں خاص صورت حال اور کسی خاص جگہ ملا تھا، اور اس کے ساتھ اس کی اچھی خاصی باتیں بھی ہوئی تھیں۔
 کچھ دن اور گزر گئے مزمل سلطان ملک شاہ کے بیٹوں سے ملتا ملاتا ہی رہتا تھا، ان میں بڑا بیٹا برکیارق چونکہ عمر میں ذرا بڑا تھا اس لئے فہم و فراست رکھتا تھا اس لیے بات بھی کر لیتا تھا اور سمجھتا بھی تھا۔
مزمل آفندی زیادہ تر اسی کے ساتھ رابطہ رکھتا تھا ،دوستی کے علاوہ ان کا ایک تعلق یہ بھی تھا کہ دونوں ایک جانباز گروہ تیار کر رہے تھے ،ایک صبح مزمل برکیارق کے یہاں گیا، دونوں اکٹھے وہاں جایا کرتے تھے جہاں فوجیوں کو تیغ زنی، تیر اندازی، اور برچھی بازی سکھائی جاتی تھی ،مزمل نے اس روز برکیارق کو پریشان سا دیکھا، مزمل نے اس سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہوگئی ہے کہ وہ اتنا پریشان نظر آ رہا ہے 
 ہاں بھائی!،،،،، برکیارق نے بتایا۔۔۔ سلطان تو صاحب فراش ہی ہو گئے ہیں ۔
کوئی خاص تکلیف ہو گئی ہے؟،،،، مزمل نے پوچھا۔
کسی خاص مرض کا نام نہیں لیا جاسکتا۔۔۔ برکیارق نے جواب دیا۔۔۔ کہتے ہیں کہ سر میں گرانی ہے اور کسی وقت سارے جسم میں ایسی بے چینی شروع ہوجاتی ہے جو ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے، کمزوری اتنی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی ٹانگیں جسم کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں رہیں۔
طبیب نے دیکھا ہو گا ؟
طبیب تو تین چار دنوں سے باقاعدہ آرہا ہے۔۔۔ برکیارق نے جواب دیا۔۔۔ طبیب نے کہا ہے کہ سلطان کو ذہنی سکون کی شدید ضرورت ہے، وہ مسکّن اور مقوی دوائیاں دے رہا ہے، لیکن کوئی افاقہ نظر نہیں آتا ،بلکہ حالت کبھی تو زیادہ ہی بگڑ جاتی ہے۔
انہیں نظام الملک کا غم لے بیٹھا ہے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ پھر ان کے ذہن اور دل پر یہ بوجھ آ پڑا ہے کہ وہ باطنیوں کو شکست نہیں دے سکیں گے، یہ ہمارا کام ہے کہ انھیں یقین دلائیں کہ ہم باطنیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے،،،،،، کیا یہ مناسب ہوگا کہ مجھے سلطان کے پاس لے چلو ،مجھے امید ہے کہ میں انہیں اٹھا لوں گا ،میرے ساتھ ان کا اچھا خاصا پیار ہے۔
 نہیں مزمل بھائی!،،،،، برکیارق نے کہا۔۔۔طبیب نے سختی کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ باہر کا کوئی آدمی سلطان کے پاس نہ آئے جب تک سلطان خود کسی کو نہ بلائیں، گھر کا بھی کوئی فرد ان کے پاس نہ جائے۔
اس کے بعد مزمل اپنے کام میں مصروف ہوگیا اس کا اب یہی ایک عزم تھا کہ جانبازوں کا ایک گروہ تیار کرنا ہے اور انہیں اسی طرح بنانا ہے جس طرح سلطان کا ایک ایلچی الموت جاکر حسن بن صباح کے فدائیوں کو دیکھ آیا تھا۔ مزمل چاہتا تھا کہ خواہ بیس ہی جانباز تیار ہو جائیں لیکن وہ اس طرح تیار ہوں کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے تو وہ بلاحیل و حجت اپنے پیٹ میں تلوار اتار لے، مزمل کا یہ عزم تو تھا لیکن اسے ایسا کوئی تجربہ حاصل نہیں تھا کہ اس طرح کے جاں باز کیسے تیار کیے جاتے ہیں، بہرحال اسے دس بارہ نوجوان مل گئے تھے جنہیں ایک سالار ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دے رہا تھا ،اس کے بعد انہیں حسن بن صباح کے فدائیوں کی طرح جانبازی کے لیے تیار کرنا تھا، مزمل زیادہ تر وقت ان کے ساتھ صرف کر رہا تھا اور ان کے دلوں میں وہ باطنیوں کی نفرت کی آگ جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز برکیارق اپنے گھر سے نکلا تو اسے باہر والے دروازے پر ایک درویش صورت آدمی کھڑا نظر آیا ،دربان اس آدمی کو اندر جانے سے روک رہے تھے، اس درویش نے برکیارق کو دیکھا تو اسے دور سے ہی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا، اور برکیارق اس تک جا پہنچا، دربان  نے اسے بتایا کہ یہ درویش اندر جانے اور سلطان کو دیکھنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔
درویش کے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں عصا تھا، اس نے سر پر سفید پگڑی لپیٹ رکھی تھی اور اس پر ایک چوڑا سبز رنگ کا کپڑا ڈال رکھا تھا جو اس کے کندھوں تک آیا ہوا تھا ،اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا جو اس کے ٹخنوں تک لمبا تھا، اس نے گلے میں موٹے موتیوں کی ایک مالا ڈال رکھی تھی، اس کی داڑھی خشخشی تھی اور اس داڑھی اور چہرے سے وہ چالیس سال کے لگ بھگ عمر کا لگتا تھا ،بہرحال وہ ہر پہلو سے درویش معلوم ہوتا۔
آپ سلطان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ؟،،،،،برکیارق نے پوچھا اور اسے بتایا ۔۔۔آپ کو شاید معلوم نہیں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں اور طبیب نے ان کی ملاقاتیں بن کر دی ہیں، آپ مجھے بتائیں میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں، یہاں جو بھی آتا ہے وہ مایوس واپس نہیں جایا کرتا ،میں نے آپ کو مجبوری بتا دی ہے ورنہ سلطان فوراً آپ کو ملاقات کے لیے بلا لیتے۔
میں جانتا ہوں۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔میں یہی سن کر آیا ہوں کہ سلطان بیمار پڑے ہیں میں نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ سلطان کو کیا مرض لاحق ہوگیا ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سلطان کو طبیب نے ایسی دوائیاں دی ہیں جن کے زیر اثر سلطان سوئے رہتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ طبیب کا علاج روک دیا جائے وہ علاج جاری رکھا جائے، میں روحانی عامل ہوں مجھے شک ہے کہ سلطان پر کوئی سفلی عمل کیا گیا ہے، اور میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفلی عمل باطنیوں نے کروایا ہے، مجھے صرف ایک بار سلطان سے ملنے دیں میں صرف انہیں دیکھوں گا۔
میں سلطان سے پوچھ کر آپ کو کچھ بتا سکونگا۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ اس وقت تو وہ سوئے ہوئے ہیں۔
 انہیں بے آرام نہیں کرنا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں آپ کو مجھ پر اتنی جلدی اعتماد نہیں کرنا چاہئے ،میں آپ کے لئے اجنبی ہوں، اپنے متعلق یہ بتا دوں کہ میں آگے جا رہا ہوں یہاں کچھ دنوں کے لیے رکا ھوں اور سرائے میں ٹھہرا ہوں ،اگر آپ چاہیں تو سرائے میں آجائیں اور میری کچھ باتیں سنیں اور کچھ باتیں میں آپ سے پوچھوں گا ،پھر آپ مجھ پر اعتماد کر لیں مجھے کوئی لالچ نہیں آپ میرے پاس آئیں۔
میں ابھی نہ چلا چلوں؟،،،،، برکیارق نے پوچھا ۔
یہ تو اور زیادہ اچھا رہے گا۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ آئیے ۔
راستے میں درویش باتیں کرتا گیا برکیارق کو بولنے کا موقع نہ ملا، لیکن درویش کی باتوں سے وہ متاثر ہو گیا تھا ۔
چلتے چلتے وہ سرائے میں جا پہنچے درویش برکیارق کو بالائی منزل پر لے گیا، اس کا کمرہ اوپر تھا۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان لڑکی نے اس کا استقبال کیا۔
یہ سلطان مکرم کے بڑے فرزند برکیارق ہیں۔۔۔ درویش نے لڑکی سے کہا ۔۔۔سلطان سوئے ہوئے تھے ان سے ملاقات ہو گئی اور یہ میرے ساتھ ہی آگئے۔
 خوش آمدید!،،،،،، لڑکی نے ذرا جھجک کر کہا۔۔۔ سلطان کی بیماری نے ہمارے دلوں پر بہت اثر کیا ہے، میں ان کے لئے دعا کرتی رہتی ہوں، اگر یہ ممکن ہو تو میں اپنی زندگی سلطان کو دے دوں، سلطان ملک شاہ ہی ہیں جو اسلام کے ایک بڑے ہی مضبوط ستون ہیں، اللہ انہیں سلامت رکھے۔
یہ میری چھوٹی بہن روزینہ ہے۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔فرزند سلطان یہ میرے کندھوں پر بہت بڑی اور بڑی ہی نازک ذمہ داری ہے، میں اس ذمہ داری سے فارغ ہونا چاہتا ہوں، لیکن کوئی موزوں آدمی نظر نہیں آتا ،اگر کوئی آدمی ٹھیک ملتا بھی ہے تو اس کا خاندانی پس منظر ٹھیک نہیں ہوتا ،نظریات اور عقیدوں کا فرق بھی ہوتا ہے، میں اس بہن کو پھینکنا یا ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
برکیارق سلطان زادہ تھا ،حکمران خاندان کا چشم و چراغ تھا اور وہ جوان بھی تھا ،وہ تھا تو پکا مسلمان لیکن اپنی باپ کی طرح مومن نہ تھا ،وہ عیش پرست اور مے نوش تو نہ تھا لیکن اتنی نو جوان اور حسین لڑکی کو دیکھ کر متاثر نہ ہونا اس کی فطرت میں نہیں تھا، کچھ دیر کے لئے تو وہ یہ بھول ہی گیا کہ لڑکی کا بڑا بھائی درویش کمرے میں موجود ہے ،برکیارق کی نظریں اس لڑکی کی زلفوں میں الجھ کے رہ گئیں، برکیارق کی نظروں سے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی گزری تھی بعض کو تو وہ کچھ دیر بعد بھول جاتا تھا ،کچھ اسے ایک دو دن یاد رہتی تھیں اور کبھی کوئی لڑکی اسے اپنے حسن و جوانی کی وجہ سے کئی کئی دن یاد رہتی تھیں، وہ شہزادوں کی طرح لڑکیوں میں دلچسپی رکھنے والا آدمی نہیں تھا ،اس پر اپنے باپ کا کم از کم یہ اثر ضرور تھا کہ وہ لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا۔ لیکن آخر وہ جواں سال آدمی تھا اس لڑکی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ،روزینہ حسین تو تھی ہی لیکن برکیارق نے اس میں کوئی ایسی کشش و جاذبیت یا کوئی ایسا طلسم اثر دیکھا کہ اس کے جی میں یہی آتی تھی کہ کچھ وقت اس کمرے میں اس لڑکی کے ساتھ گزارے، لڑکی کے چہرے کے نقش و نگار کوئی غیر معمولی طور پر پرکشش نہیں تھے، لڑکی کا انداز کچھ ایسا تھا جس کے اثر سے برکیارق اپنے آپ کو بچا نہ سکا ،برکیارق لڑکی کی طرف دیکھتا تو وہ نظریں جھکا لیتی تھی ،جب برکیارق درویش کی طرف متوجہ ہوتا تو لڑکی برکیارق کے چہرے پر نظریں گاڑ دیتی تھی۔
میں حج کے لئے جا رہا ہوں ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس سال بھی میں حج نہیں کر سکوں گا، میں حج پر اس وقت جاؤں گا جب روزینہ کا ہاتھ کسی معزز انسان کے ہاتھ میں دے دوں گا، یہ میرے مرحوم ماں باپ کی امانت ہے اسے بچا بچا کر اور سینے سے لگا کر رکھتا ہوں۔
برکیارق نے ابھی شادی نہیں کی تھی ،وہ یہ تو بھول ہی گیا کہ وہ اس درویش کے ساتھ کیوں آیا تھا ،وہ اس سوچ میں گم ہو گیا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہے توکیا سلطان ملک شاہ اسے اس کی اجازت دے دے گا ،اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شادی کرے گا تو اس لڑکی کے ساتھ کرے گا۔ مشکل یہ تھی کہ سلطان ملک شاہ اعصاب زدگی میں پڑا تھا، اس حالت میں برکیارق اس سے یہ نہیں پوچھ سکتا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، کیا اسے اجازت مل سکتی ہے یا نہیں؟ 
میں سلطان ملک شاہ کامرید اور معتقد ہوں۔۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ وہ تو بیمار پڑے ہیں، میں نے ان کے مرض کی علامات ادھر ادھر سے معلوم کیں۔ میرا باپ علم روحانیت میں مہارت رکھتا تھا ،اس نے دو تین کرامات مجھے ورثے میں دی تھی، مجھے جب سلطان کی علامات معلوم ہوئی تو میرا دھیان حسن بن صباح اور اس کے باطنی فتنے کی طرف چلا گیا ،مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کے پدر محترم نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں، مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حسن بن صباح اور اسکا استاد سفلی علم کے ماہر ہیں، نظام الملک تو قتل ہو گئے ہیں لیکن سلطان کو یہ باطل پرست سفلی علم سے مفلوج کر دینا چاہتے ہیں یا انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، میں گزشتہ رات نفل پڑھ کر مراقبے میں گیا ،مجھے جو صورت حال نظر آئی اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، سلطان پر کوئی دوائی اثر نہیں کرے گی لیکن دوائیں روکنی بھی نہیں، کیونکہ یہ دوا انہیں سلا دیتی ہے اور ان کے لیے سوئے رہنا ہی اچھا ہے ،میں ان کا روحانی علاج کرنا چاہتا ہوں اور اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں جو انہیں سفلی اثرات سے نجات دلادے۔
اس کے بعد درویش نے ایسی طلسماتی اور پراسرار سی باتیں کیں کہ برکیارق نے شدت سے محسوس کیا کہ ابھی اس درویش کو اپنے باپ کے پاس لے جائے اور انہیں کہے کہ وہ اس درویش کا علاج فوراً شروع کردیں۔
ایک بات بتائیں؟،،،، برکیارق نے درویش سے پوچھا۔۔۔ کیا سفلی عمل سے کوئی ہماری پوری سلطنت کو تباہ کر سکتا ہے؟ 
نہیں !،،،،،درویش نے جواب دیا ۔۔۔ایسا نہیں ہوسکتا ،ذرا تصور میں لائیں کہ ایک گھر کے ذمہ دار افراد کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا جائے یا ان پر اعصابی مرض طاری کر دیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟،،،،،،،،،، وہ گھر تباہ حال ہو جائے گا ،یہی مثال ایک سلطنت کی ہوتی ہے ،سلطان ملک شاہ کو دماغی اور جسمانی لحاظ سے معذور کردیا گیا ہے، اگر آپ ان کے جانشین ہوں گے تو آپ کا بھی یہی انجام ہوگا، پھر سلطنت تو تباہ ہونا ہی ہے ۔
آپ کا طریقہ علاج کیا ہوگا؟،،،، برکیارق نے پوچھا۔۔۔ کیا آپ ان کے لیے دعا کریں گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے؟ 
میں دعا بھی کروں گا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ اور میں کلام اللہ کے تعویز لکھ کر بھی دونگا، لیکن میرا طریقہ علاج اس وقت کامیاب ہوگا جب میں سلطان کو دیکھ لوں گا،،،،،،،،،، آپ مجھے ان سے جلدی ملوا دیں ،میں اپنے پیرومرشد کو اس روحانی اذیت میں پڑا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔
میں خود بھی تو انہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ وہ آپ کے پیرومرشد ہیں اور میرے باپ ہیں، میں جاتا ہوں وہ جونہی جاگے میں یہاں آجاؤ گا اور آپ کو ساتھ لے جاؤں گا،،،،،، کیا آپ سارا دن یہی رہیں گے؟
 ہاں !،،،،،درویش نے جواب دیا ۔۔۔میں جب تک سلطان کو دیکھ نا لوں یہیں رہوں گا ۔
بھائی جان !،،،،،روزینہ نے درویش سے کہا۔۔۔آپ وہ کام کرآئیں، لیکن ذرا جلدی آ جانا۔
ہاں !،،،،درویش نے کہا ۔۔۔تم نے یاد دلایا ہے میں وہ کام کر آتا ہوں، اتنی دیر فرزند سلطان تمہارے ساتھ رہیں گے ۔
درویش نے برکیارق سے کہا یہ اکیلے ڈرتی ہے میرا چھوٹا سا ایک کام ہے آپ اس کے پاس بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں ۔
درویش باہر نکل گیا ۔
آپ تو شادی شدہ ہوں گے؟،،،، روزینہ نے برکیارق سے کہا۔
نہیں روزینہ !،،،،،برکیارق نے کہا ۔۔۔ہمارے خاندان کا یہ دستور ہے کہ اولاد کی شادی اس وقت کرتے ہیں جب وہ ذہنی طور پر پوری طرح بالغ ہو جاتی ہے ،میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ میں کس کے ساتھ شادی کروں گا ۔
کیا آپ کسی لڑکی کو چاہتے ہیں؟،،،، روزینہ نے شرماتے ہوئے پوچھا ۔
لڑکیاں بہت دیکھی ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی دیکھی ہے، لیکن میرے دل نے کسی ایک کو بھی پسند نہیں کیا۔
 کیا آپ لڑکی میں کوئی خاص وصف دیکھنا چاہتے ہیں؟،،،،، روزینہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
 ہاں!،،،، برکیارق نے جواب دیا۔۔۔ میں خاص وصف ہی ڈھونڈ رہا ہوں ۔
کیا وہ کسی ایک بھی لڑکی میں نظر نہیں آئی؟،،،، روزینہ نے پوچھا ۔
آج نظر آگیا ہے ۔۔۔برکیارق نے کہا ۔۔۔وہ وصف تم میں نظر آیا ہے۔
لیکن میں شاہی خاندان کے قابل تو نہیں۔۔۔ روزینہ نے کہا ۔۔۔میں اپنی حیثیت کو اچھی طرح پہچانتی ہوں۔
دیکھو روزینہ!،،،،، برکیارق نے کہا ۔۔۔تھوڑی سی دیر کے لیے بھول جاؤ کہ میں سلطان زادہ ہوں، مجھے اپنے ساتھ کا ایک آدمی سمجھو اور دیانتداری سے بتاؤ کہ میں تمہیں اچھا لگتا ہوں یا نہیں؟ 
 آپ نے بڑا ہی مشکل سوال کیا ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا ۔۔۔اگر میں نے کہا کہ آپ مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ آپ شاہی خاندان کے فرد ہیں اس لئے مجھے اچھے لگتے ہیں ، اگر میں نے کہا کہ میں نے آپ میں اچھا لگنے والا کوئی وصف نہیں دیکھا تو آپ ناراض ہو جائیں گے، دانش مند کہتے ہیں کہ بادشاہوں سے دور رہو خوش ہوتے ہیں تو اشرفیوں سے جھولی بھر دیتے ہیں ناراض ہو جائیں تو سولی پر کھڑا کر دیتے ہیں۔
میں تم میں ایک اور وصف دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں جرات بھی ہے،،،،،، نہیں میں ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوں جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔
یہ وصف مجھ میں ہے ۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔ میں سچی بات کہہ چکی ہوں ،وہ ایک بار پھر کہہ دیتی ہوں اگر میں نے کہا کہ آپ میرے دل کو بہت ہی اچھے لگتے ہیں تو آپ کے دماغ میں سلطانی بیدار ہو جائے گی اور آپ شک کریں گے کہ مجھے آپ کے ساتھ نہیں آپ کے رتبے کے ساتھ محبت ہے، آپ نے بہت سی لڑکیاں دیکھی ہیں اور کسی ایک کو بھی اپنے قابل نہیں پایا ،میں نے بھی بہت لڑکے دیکھے ہیں نوجوان بھی اور پکی عمر کے جوان بھی، آپ کی طرح مجھے بھی کسی میں وہ وصف نظر نہیں آیا جو آپ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔
کیا وہ وصف مجھ میں نہیں؟،،،، برکیارق نے پوچھا۔۔۔ اب میں توقع رکھوں گا کہ تم جرات سے بولو گی ۔
ہاں آپ میں مجھے وہ خوبی نظر آ گئی۔
کیا ہے وہ خوبی؟،،،، برکیارق نے پوچھا۔
 آپ سلطان کے بیٹے ہیں۔۔۔ روزینہ نے جواب دیا۔۔۔ لیکن میں نے آپ کے انداز میں سلطانی نہیں دیکھی، آپ نے میرے درویش بھائی سے کہا تھا کہ آپ نے لڑکیوں میں کبھی دلچسپی نہیں رکھی ،اگر آپ نے سچ بولا تھا تو آپ وہ آدمی ہیں جسے میں اپنے خاوند کی حیثیت سے پسند کروں گی، لیکن میں اتنی کم تر ہوں کہ آپ سے یہ درخواست کروں گی ہی نہیں کہ آپ مجھے قبول کر لیں، اور میرا بھائی میرے قرض سے فارغ ہوکر حج کے لئے چلا جائے۔
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ برکیارق لڑکیوں کا شیدائی نہیں تھا، جس طرح کے شہزادے ہوا کرتے ہیں، یہ پہلی لڑکی تھی جو اس کے دل میں اتر گئی تھی، تھوڑی ہی دیر میں روزینہ اس کے دل پر ہی نہیں بلکہ دماغ پر بھی غالب آ گئی، اس نے روزینہ کو اپنا فیصلہ سنا دیا، لیکن روزینہ نے پھر بھی یہ کہا کہ وہ ڈرتی ہے کہ برکیارق کے دماغ میں سلطانی بیدار ہوگئی تو وہ روزینہ کو اٹھا کر باہر پھینک دے گا 
نہیں،،،، نہیں،،،، روزینہ نے کہا۔۔۔ یہ شادی نہیں ہو سکے گی، سلطان ملک شاہ آپ کو اجازت نہیں دیں گے کہ آپ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرلیں جس کا نہ کوئی گھر گھاٹ ہے اور نہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہے۔
برکیارق نے اسے قسمیں کھا کھا کر یقین دلانا شروع کر دیا کہ اسے اگر سلطان نے شادی کی اجازت نہ دی تو وہ روزینہ کو ساتھ لے کر یہاں سے چلا ہی جائے گا ۔
میں تمہاری محبت پر سلطنت کی جانشینی اور وراثت قربان کر دوں گا ۔۔۔برکیارق نے کہا۔۔۔ اللہ گواہ ہے کہ تم پہلی لڑکی ہو جسے میں یہ الفاظ کہہ رہا ہوں۔
 آپ میری محبت پر سلطنت کی وراثت قربان کر رہے ہیں۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اور میں آپ کی سلطانی پر اپنی محبت قربان کرتی ہوں، آپ سلطان کے بڑے بیٹے ہیں ان کے بعد آپ سلطان بنیں گے، میں آپ کو سلطان کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں، آپ مجھے زیادہ مجبور نہ کریں ۔
تمہارے بھائی جان آ رہے ہوں گے۔۔۔ برکیارق نے کہا اور اس سے پوچھا،،،، اگر میں تمہیں تنہائی میں ملنا چاہوں تو کیسے مل سکتا ہوں؟ 
 میں آپ کو تنہائی میں بھی مل سکتی ہوں۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کے آپ سلطان کے بیٹے کی حیثیت سے مجھے ملنے آئے تو وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی ،میرے پاس کوئی دولت نہیں، میرا بھائی درویش ہے اس کے پاس اتنی سی پونجی ہوتی ہے کہ ہم دو وقت عزت کی روٹی کھا لیتے ہیں اور سفر کے اخراجات ادا کر سکتے ہیں، لیکن میرے پاس جو دولت ہے وہ میری آبرو میری عصمت ہے، میں جان دے دوں گی اس دولت سے دستبردار نہیں ہونگی، آپ میرے قدموں میں اشرفیوں کا انبار لگا دیں آپ مجھے خرید نہیں سکیں گے۔
 کیا تم میری محبت کو بھی قبول نہیں کرو گی؟،،،،،، برکیارق نے پوچھا۔۔۔ کیا تم اس روحانی محبت کو نھیں پہچان سکو گی جس کا تعلق جسموں کے ساتھ نہیں ہوتا ۔
میں اسی محبت کی جستجو میں ہوں ۔۔۔روزینہ نے کہا۔۔۔لیکن سنا ہے شاہی خاندانوں میں ایسی محبت نہیں ملا کرتی جس کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے جسموں کے ساتھ نہیں۔
 میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں۔۔۔ برکیارق نے کہا۔۔۔ تم یہ بتاؤ کہ تنہائی میں کہاں  اور کس وقت مل سکو گی؟ 
 رات کو میرا بھائی بڑی ہی گہری نیند سویا کرتا ہے۔۔۔ روزینہ نے کہا۔۔۔ اس کے سر پر ڈھول بجتے رہیں اس کی آنکھ نہیں کھلتی، سرائے کے پچھواڑے بڑا خوبصورت باغ ہے، آپ نے دیکھا ہو گا درخت بے شمار ہیں ،آپ آدھی رات کے وقت یہاں آ جائیں میں آپ کے ساتھ باغ تک چلی چلوں گی۔
 میں آج رات باغ میں آ جاؤں گا ۔۔۔برکیارق نے کہا ۔۔۔آدھی رات کے وقت آؤنگا اور تمہارا انتظار کروں گا۔
 برکیارق تو جیسے بھول ہی گیا تھا کہ وہ اتنی بڑی سلطنت کے سلطان کا بیٹا ہے، اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ روزینہ صرف خوبصورت ہی نہیں اس میں خود اعتمادی اور جرات بھی ہے، ان اوصاف نے روزینہ کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا ،کچھ دیر پہلے برکیارق اس سے محبت کی بھیک مانگ رہا تھا، یہ لڑکی اس پر طلیسم ہوش ربا بن کر غالب آگئی تھی، اور برکیارق یوں محسوس کر رہا تھا جیسے اس پر کوئی نشہ طاری ہوگیا ہو۔
 درویش آ گیا وہ خاصا وقت لگا کر آیا تھا لیکن برکیارق نے یوں محسوس کیا جیسے وہ صرف ایک لمحہ باہر رہا ہو، اس نے برکیارق  کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی غیر حاضری میں وہ اس کی بہن کے پاس بیٹھا رہا تھا۔
 برکیارق تو وہاں سے اٹھنا ہی نہ چاہتا تھا لیکن اسے اٹھنا پڑا ،وہ اٹھا اور قدم گھسیٹنے کے انداز سے چلتا کمرے سے باہر نکل آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی