🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ
━━❰・ پوسٹ نمبر 34 ・❱━━━
قبلہ معلوم نہ ہو تو کیا کرے؟
اگر کوئی شخص حالت سفر میں ہے یا ایسی جگہ ہے جہاں اسے سمت قبلہ کا علم نہیں ہے تو ذرائع و اسباب سے قبلہ معلوم کرے مثلا کسی مسجد کے رخ سے یا ستاروں سے یا قطب نما وغیرہ سے یا کوئی مسلمان وہاں ہو تو اس سے پوچھ لے۔
(2) اگر قبلہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو اور نہ ہی وہاں کوئی آدمی ہو تو تحری فرض ہے ، یعنی حسب قدرت غور و خوض کرنے پر جس طرف دل شہادت دے اس طرف نماز پڑھے، نماز سے فراغت کے بعد اگر اس جہت کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو نماز کا اعادہ واجب نہیں۔
(3) اگر قبلہ دریافت کرنے کا کوئی ذریعہ موجود ہوتے ہوئے بھی اس سے کام نہیں لیا بلکہ غور و فکر کرکے نماز پڑھ لی تو اگر جہت قبلہ کی طرف رخ کیا ہو یعنی بیت اللہ کی ہر دو جانب 45 ڈگری کے اندر ہو تو نماز ہوگئی ورنہ واجب الاعادہ ہے۔
(4) اگر غور و فکر کرکے نماز شروع کی اور نماز کے اندر کسی نے بتایا کہ آپ غلط سمت کی طرف کھڑے ہیں ، قبلہ اس طرف ہے تو معمولی غور کے بعد اسی رخ کی طرف پھیرنا ضروری ہے۔
(5) اگر قبلہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور غور وفکر سے بھی کام نہیں لیا تو یہ نماز صحیح نہ ہوگی کیوں کہ تحری فرض ہے ، ہاں اگر کسی نے نماز پڑھ لی اور نماز سے فراغت کے بعد اس سمت کی صحت کا یقین ہوگیا تو اعادہ لازم نہیں ہے، اگر نماز کے درمیان پتا چلا اور سمت بھی صحیح تھی تب بھی نماز نہ ہوگی ، دوبارہ شروع سے پڑھنا ضروری ہے۔
📚حوالہ:
▪الدرالمختار مع ردالمحتار 1/451
▪الفتاوی الھندیہ 1/64
▪تبیین الحقائق 1/266
▪احسن الفتاوی 2/318
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━